Atiqurrehman001
معاشرتی رویوں میں تبدیلی کب آئے گی؟
عتیق الرحمنSaturday, 09 February 2013 13:59
جو لوگ قرآن و سنت کو اپنے فہم و ادراک کے دریچے کھول کر دردل کے ساتھ ہدایت حاصل کرنے کی نیت سے پڑھتے ہیں اور اس کے ساتھ ساتھ وہ تاریخ اسلامی کا بھی مکمل مطالعہ رکھتے ہیں تو وہ بہتر طور پر جانتے ہیں کہ دین اسلام کے عطا کرنے میں اللہ پاک کی کیا کیا حکمتیں اور اس میں راز پنہاں ہیں۔چھٹی اور ساتویں صدی عیسوی کا زمانہ جو کہ تاریخ میں زمانہ جاہلیت کے طور پر جانا جاتا ہے اس وقت معاشرے میں شرک و الحاد اپنے عروج پر تھا،ظلم و ستم کی ایسی داستانیں رقم کی جاتی تھیں جن کو تصور میں لانے سے بھی خوف آتاہے،غریب کو ظلم کی چکی میں پیسا جاتا تھا، اس سے ہر طرح کی جبری مشقت لی جاتی تھی اور اگر اس سے کوئی غلطی سرزد ہوجاتی تو اس کو کڑی سے کڑی سزا دی جاتی تھی ، عصمت فروشی و شراب نوشی اس وقت کا معمول بن چکا تھا اس میں کسی طرح کی برائی محسوس نہ کی جاتی تھی اور ان عوامل کو بڑے تزک و احتشام سے سرانجام دیا جاتاتھا،معمولی معمولی باتوں پر سال ہا سال ان کے مابین جنگیں چھڑجاتی یہاں تک کے اس وقت یہ تصور بھی رائج تھا کہ اپنے قرابت دار کی مدد کر خواہ وہ ظالم ہو یا مظلومیعنی حق و سچ اوردرست وغلط کی بجائے رشتہ داری و تعلق داری کو دیکھاجاتا تھا،امیر اور غریب میں تفریق قائم تھی،مزدور کواس کی مزدوری سے محروم کر دیا جاتا تھاالغرض اس وقت معاشرہ ظلمت و تاریکیوں میں ڈوباہواتھا،انسان انسان کا خون چوسنا اپنا فرض سمجھتاتھا،ان حالات کو دیکھتے ہوئے اگر یہ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ اس وقت کا معاشرہ حیوانوں سے بھی بدترمعاشرہ بن چکا تھا کیوں کہ اس کو عیش و عشرت سے محبت تھی ،وہ شہوت نفسانی کے دلدادہ تھے ،وہ اپنی زندگی کے مقصد اصلی کو بھول چکے تھے۔۔۔؟
ایسے عالم میں اللہ پاک نے نبی رحمتﷺکواپنا محبوب اور پسندیدہ دین، اسلام عطا کر کے مبعوث فرمایا۔آپﷺ نے اس معاشرہ کو ظلمت و تاریکیوں سے ایسا نکالا کہ جو ظالم تھے وہ عادل بن گے ،جو چور اور ڈاکو تھے وہ محافظ بن گے،جو شراب خور تھے انہوں آپ ؐ کے ایک فرمان پر اپنی شراب کو پانی کی طرح بہادیا،عیش و عشرت کو اپنا اوڑھنا بچھونا سمجھنے والوں نے اللہ تعالیٰ کی رضا اورآپﷺکی تعلیمات کے سامنے سر تسلیم خم کردیا، اسی وجہ سے شاعر نے کیا خوب کہا ۔
جو خود نہ تھے راہ پر اوروں کے ہادی بن گے کیا نظر تھی جس نے مردوں کو مسیحا کردیا
جو آپس میں دشمنیوں کو فروغ دیتے تھے وہ ایسے بدلے کہ آپس میں شیرو شکر بن گئے ۔قرآن نے بھی ان کی باہمی اخوت و بھائی چارگی کو بیان کرتے ہوئے کہا کہوہ آپس میں باہم رحم دل ہیں اور کفار کے مقابل سخت گیراس معاشرے میں اسلام کے صدقے ،اللہ پاک کے احکامات، آپﷺکی تعلیمات اور صحابہؓ کے عمل کے ذریعے ایک بے نظیر انقلاب دنیا کے ہر صاحبِ نظر نے دیکھا۔ افسوس کہ آج کے حالات کا اگر دیانت داری ،وسعت ظرفی اور خلوصِ دل کے ساتھ جائزہ لیا جائے تو ہمیں یہ تسلیم کرنا پڑے گا کہ آج کا ہمارا معاشرہ زمانہ جاہلیت کی مکمل عکاسی کررہاہے ۔جو جو برائیاں اور خرابیاں زمانہ جاہلیت میں موجود تھیں آج وہ سب کی سب ہمارے معاشرے میں موجود ہیں ،نبی مکرمﷺ جن برائیوں اور خرابیوں کو ختم کرنے کے لیے تشریف لائے تھے آج ان تمام برائیوں اور خرابیوں کو امت محمدیہ ﷺنے اپنے سینوں سے لگارکھا ہے۔شہوت نفسانی کو پوراکرنے کے لیے تمام ناجائز ذرائع کا استعمال، شراب نوشی،سود کا لین دین،بد عہدی،بددیانتی،غریب کے ساتھ ظلم و زیادتی،دھوکہ دہی اور فراڈ،کمزور پر جبر سمیت وہ تمام خرابیاں ہمارے معاشرے میں موجود ہیں جو زمانہ جاہلیت کا خاصہ تھیں۔یہ تمام کی تمام خرابیاں آج ملت اسلامیہ کے تمام شرفاء طبقات میں بھی موجود ہیں۔ دنیا دار ہوں یا نام نہاد دین دار،سیاستدان ہوں یا اسلام کو ذاتی مفادات کے لیے استعمال کرنے والے علماء،حکمران،صحافی،پولیس سب کے سب ان برائیوں میں گرفتار نظر آتے ہیں۔
ویسے تو برائی میں جو لوگ بھی شریک کار ہیں سب کے سب قابل گرفت ہیں اور ان کا محاسبہ ضروری بھی ہے۔اور عوام ان کے ان جرائم پیشہ سرگرمیوں سے واقف بھی ہے ۔مگر جو لوگ دین متین کے وارث کہلاتے ہیں اور جومعاشرے کے حقیقی رہبر و راہنما ،معاشرے کو دین اسلام کی تعلیمات کی روشنی میں تمام تر برائیوں سے نکالنے کے ذمہ دار ، حقیقت میں نیکی کے کاموں کا حکم دینے اور برائی سے روکنے کے فریضہ کے وارث ہیں اگر وہ بھی شریک جرم ہوجائیں،وہ بھی بد عہدی و بددیانتی کو اپنا شعار بنا لیں؟شہوت نفسانی کے رسیا بن جائیں؟ شراب نوشی کو عروج بخشیں؟بد اخلاقی کو اپنا طرہ امتیاز بنا لیں،جہاد جیسے عظیم فریضے کے نام پر ملکی و بیرونی ایجنسیوں سے اجرت حاصل کر کے اسے بدنام کریں اور ملک میں ناصرف انتشار کے پھیلاؤ کا ذریعہ بنیں بلکہ اس مقدس فریضہ کے نام پر تنظیمیں قائم کرکے باہم دست و گریبان ہوں؟
حکمرانوں اور مفاد پرستوں کے ایماء پر ملک میں مسالک کی تفریقات کو فروغ دیں؟ اپنے خطبات میں حق گوئی کے بر عکس فرقہ واریت کو ہوادینے کی کوشش کریں؟اندھی تقلید کو جنم دے رہے ہوں؟عوام کو حق بتانے کے بجائے ان کو فروعی و فقہی اختلافات میں الجھائیں؟اپنے ذاتی مفادات کو حاصل کرنے کے لیے اسلام کا نام استعمال کریں؟اسلام کو چھوٹے چھوٹے حصوں میں بانٹ دیں اور ذاتی و نجی مفادات کے تحفظ کے لیے دینی خدمت کے عنوان کو بطور ڈھال استعمال کرتے ہوئے اپنے اپنے دائرہ کار میں بلاوجہ مختلف شعبہ جات پر کام کرنے کے لیے ایک ہی کام کی بیسیوں نہیں بلکہ سینکڑوں تنظیموں اور جماعتوں کا قیام عمل میں لائیں اورایک قدم آگے بھڑتے ہوئے تعصب و انتہاپسندی تنگ نظری کے فروغ کی یہ حالت کہ پورے کے پورے دین کواپنے اس محدود نظم کے اندر بند قرار دیں اور اس سے بڑھ کر تف اس بات پر کہ پھر پورے کے پورے دین کو اپنی من چاہی شخصیت کی ذات میں بند کردینا طرہ امتیاز اور وجہ فخر بنا لیں ؟دین کونااہل صاحبزادوں اورجبہ و دستار کے پاکیزہ لبادوں میں چھپے بدکردار وبداخلاق عادات و اطوار کے حامل افراد کی میراث بنادیں؟اسلام کی تعلیمات کو مساجد و مدارس کی من چاہی چار دیواری میں بند کردیں؟مدارس اور اشاعت اسلام کے نام پر چندہ و فنڈ حاصل کرکے ذاتی عیش و عشرت میں محو ہوجائیں۔۔۔۔۔۔؟؟؟؟
یہ سب کی سب ایسی خرابیاں ہیں جن میں ملوث ہونے کے سبب ملتوں اور قوموں کا دیوالیہ نکل جاتا ہے ،نسلوں کی نسلیں تباہ و برباد ہوجاتی ہیں۔سوچیے ایسے میں معاشرتی و اخلاقی زوال کے ساتھ پوری ملت کی تباہی کا عالم کیا ہو گا جب معاشرے کی راہنمائی و رہبری کرنے والے افراد بھی ان جرائم اور خرابیوں میں شریک کارہوجائیں ۔ اسی کا نتیجہ ہے کہ عوام دین کے قریب آنے کی بجائے دین اسلام سے راہ فرار اختیار کررہے ہیں۔اسلام ازم کو ترک کر کے سیکولرزم ،سوشل ازم ،کیمونیزم جیسے لادینی تصورات کی جانب اپنی امیدیں باندھ رہے ہیں۔ مساجد کاخالی ہونا اور فحاشی کے اڈوں کا بھر ا رہنا ہمارے اخلاقی زوال کا حقیقی آئینہ دار ہے۔حالات تو یہ دھارا اختیار کر چکے ہیں کہ اب تو غیر مسلم بھی یہ کہنے میں عار محسوس نہیں کرتے کہ آپ ہمیں کس منہ سے اسلام کی دعوت دینے آئے ہیں جائیں پہلے اپنے حالات معاشرت کا مطالعہ کریں اور اپنی اصلاح کریں پھر ہمیں دعوت دینے آئیں۔ غیر مسلموں کا اسلام کے قریب آنا تودرکنار ہمارے بعض رہبروں کے طور طریقوں کے نتیجہ میں بہت سے افراد کو اسلام سے خارج ہوتے ہوئے دیکھا گیا ہے۔
مندرجہ بالا کمزوریوں کو تنقید برائے تنقید کی رو سے ضبط تحریر نہیں کیا گیا بلکہ یہ تعمیری تنقیدکی غرض سے درج کی گئی ہیں۔یہ درد دل تھا جس کو سامنے لانا ضروری سمجھاگیا،راقم یہ سمجھتا ہے کہ جب تک معاشرہ کی رہبری و راہنمائی کرنے والے ذمہ داران کے مردہ دل زندہ نہیں ہوتے تب تک ملت اسلامیہ یوں ہی زبوں حالی کا شکار رہے گی۔اگر آج ہم سچے دل سے یہ چاہتے ہیں کہ تمام ادیان باطلہ پر اسلام کا غلبہ ہو ،اسلام کی نشاۃ ثانیہ ہو،اسلامی پرچم چہار دانگ عالم میں لہرائے،اسلام کا عالمی و آفاقی پیغام پوری دنیا میں چمکے تو ہمیں چاہیے کہ ہم آج اور ابھی سے صدق دل اور خلوص نیت کے ساتھ تعصب و تنگ نظری کی عینک اتار کر، خودنمائی اور سب اچھا کی روایت کو بالائے طاق رکھتے ہوئے اپنے تمام اعمال اور اپنے نجی کردارکا خود احتسابی کے ذریعے جائزہ لیں اور جہاں جہاں کوتاہی و خامی نظر آئے اس کو دور کرکے اچھائی کو فروغ دینے کی عملی کوشش کریں ،ایسے تمام افراد و جماعتیں جو اسلام کے نام پر جرائم و خرابیوں کے پھیلاؤ میں ملوث ہیں بلاتفریق و امتیازمسلک و منصب ان کا محاسبہ کریں اور ان نالی کے گندے کیڑوں کی اصلاح کی کوشش کریں اوراگر وہ درست نہ ہوں تو ان کو اپنی صفوں سے نکال باہر کریں۔
ان تمام مندرجہ بالاخرابیوں اور کمزوریوں سے نجات کا واحد حل یہ ہے کہ ہم سب کے سب اسلام کی جانب صدق دل سے متوجہ ہوجائیں۔ قرآن و حدیث کو عمل کرنے کی نیت سے سمجھ کر پڑھیں۔آنحضرت ﷺاور صحابہ کرامؓ کی سیرت کا مطالعہ کریں،اسے اپنی ذاتی زندگی میں مکمل طور پر نافذ کرنے کی کوشش کریں۔اسلام کے نام پر عوامی احساسات و جذبات سے کھیلنے والوں سے ہوشیار ہوجائیں،وہ خواہ سیاستدان ہوں یا نام نہاد دین دار،یا اور کسی روپ میں ہوں ان پہر وپیوں سے خبردار رہیں۔کیوں کہ آپ ﷺکا فرمان ہے حکمت و دانائی مومن کی گمشدہ میراث ہے وہ اس کو جہاں پائے حاصل کر لے کیوں کہ وہ اس کا حقدار ہےآپ ﷺ نے فرمایا ہے کہ مؤمن ایک سوراخ سے دوبار ڈسا نہیں جا سکتااور آپﷺنے فرمایا ہے کہ مومن کی صفت یہ ہے کہ وہ نہ دھوکھا کھاتا ہے اور نہ ہی کسی کو دھوکھا دیتاہے۔اسی طرح وہ اکابرو اسلاف جنہوں نے اسلام کی ترویج و اشاعت میں کھوکھلے نعروں کو چھوڑکر عملاً کام کیا ان کی سیرتوں اور اسلام کی روشن و تابناک تاریخ کابھی مطالعہ کریں۔میری رائے میں اس سلسلہ کی پہلی کڑی کے طور مفکر اسلام مولانا ابوالحسن علی ندوی ؒ کی دو کتب تاریخ دعوت و عزیمتاورانسانی دنیا پر مسلمانوں کے عروج و زوال کے اثراتکا مطالعہ مؤثر و مفید ثابت ہوگا۔
آخر میں اس قول پر اجازت چاہتاہوں۔ آپ ﷺ کا فرمان کا مفہوم ہے کہ معاشرے کے دو طبقے ایسے ہیں جو درست ہوجائیں تو سارا کا سارا معاشرہ درست ہوگا اور اگر وہ بگڑ جائیں تو سارا معاشرہ فساد کا شکار ہوجاتا ہے وہ دوطبقے علماء اور حکمران ہیں ۔اللہ پاک اس امت کے ان ہردو طبقوں کو نیک و صالح بنائے اسی ذریعہ سے اسلام کی حقیقی نشاۃ ثانیہ کی راہ ہموار ہوسکے گی۔ اگر ان ان ہر دومناسب پر فائض افراد اپنا قبلہ درست نہیں کرتے اور اپنی ذمہ داریوں سے چشم پوشی کی روایت کو ترک نہیں کرتے تو پھر قرآن کی زبانی قانون ربانی ہے کہ اللہ رب العزت تمہارے بدلے میں کسی اور قوم کولے آئے گاجو تمہاری طرح نہیں ہوں گے۔اسی پر اکتفا کرتا ہوں کہ
خدا اس قوم کی حالت نہیں بدلتا نہ ہو احساس جسے اپنی حالت بدلنے کا