قطب وحدت حضرت مولانا محمد فضل حسین نقشبندی مجددی اویسی ترمیم

شمس العارفین  شیخ الاتقیاء  والا صفیا بحرالاسرار ،راز دار شیخ اللہ یار خان اور مشاہروباکمال اولیاء اللہ میں سے ہیں۔

معرفت مولانا محمد فضل حسین
پیدائش
وفات
قومیت پاکستان
پیشہ
مذہب اسلام
فقہ حنفی
مکتب فکر اشعری
شعبہ عمل تصوف
کار ہائے
نمایاں سلسلہ تصوف سلسلہ نقشبندیہ مجدد دیہ اویسیہ
پیر /شیخ اللہ یار خان
اعزازات
ویب سائٹ

نسبی حالات: ترمیم

حضرت مولانا محمد فضل حسینؒ پاکستان کے مشہور شہر لاہور سلامت پورہ کے معروف ارائین خاندان کے چشم و چراغ تھے۔آپ کے مورث اعلی صحابی رسول ؐحضرت یوسف بن الصباحؓ کا سلسلہ نسب حضرت یوشع ؑبن نون سے ہوتا ہوا حضرت ابراہیم علیہ السلام سے جا ملتا ہے۔

حضرت یوسف کے پوتے عباس اور ان کے بیٹے عاشر اپنے خاندان و قافلے کے ہمراہ عرب سے ہجرت کر کے برصغیر سندھ میں اسلام کے اولین مبلغ و فاتح بن کر وارد ہوئے اور پھر یہیں رہ گئے ان کی نسل میں آگے بڑے بڑے عالم و فضل و صاحب کمال اولیاء اللہ پیدا ہوئے جیسا کہ حضرت یوسف بن الصباح کی چھٹی نسل میں عمدہ الابدال حضرت ابو طلحہ پیدا ہوئے جو بڑے صاحب کمالات و برکات اور ولایت کے اعلی منصب ابدال پر فائض تھے اور ایک بہت بڑی جماعت سلسلہ احمدیہ کے شیخ تھے۔

ان سے اگے چوتھی نسل میں غوث زماں حضرت طاہر بن سعد چشتی اویسی بڑے پائے کے بزرگ ہوئے ہیں جو اپنے وقت کے غوث اور سلسلہ چشتیہ اویسیہ کے صاحب کشف و کرا مات اور مرجع خلائق بزرگ تھے ان کا زمانہ سلسلہ اویسیہ کے شیخ حضرت ابو ایوب محمد صالح ؒکے قریب کا تھا اور حضرت مجدد الف ثانی سر ہندی کے دور سے کچھ پہلے شروع ہوتا ہے اور پھر ایک ساتھ( ساتھ ساتھ)چلتا ہے اور حضرت مجدد صاحب کا دور ختم ہونے سے پہلے ختم ہو جاتا ہے۔حضرت طاہر چشتی ؒ ہجرت کر کے ہریانہ ریاست( سابقہ بھارتی مشرقی پنجاب )تشریف لائے اور اپنی شبانہ روز مساعی سے خطے کو نورِ اسلام سے منور اور دراخشاں بنایا اور اسلام کو خوب فروغ دیا۔

حضرت طاہر چشتی کے بیٹے قطب مدار حضرت ابو جعفر چشتی بھی بڑے صاحب کمالات بزرگ ہوئے ہیں اور اپنے وقت کے قطب مدار اور مشاہیر اولیاء کبائر میں سے تھے یہ ریاست ہریانہ سے ہجرت کر کے پنجاب کے ضلع امرتسر میں آ کر آباد ہوئے اس وقت سکھوں کا زور شروع ہورہاتھا اور اس وقت سکھوں کے چھٹے گروہ کا دور تھا تو حضرت ابو جعفر نے سکھوں کے علاقے میں آ کر داعیا نہ اور مجاہدانہ بڑی قربانیوں اور سرگرمیوں سے پرچم ِاسلام کو بلند و بالا رکھا اور دین اسلام کی سربلندی کے لیے خوب کام کیا اور بے شمار لوگوں کو اسلام میں داخل کیا۔

حضرت ابو جعفر کی پانچ بیٹے تھے سب عالم دین و مفتی اور محدث تھے ان میں سے دو بیٹے امرتسر سے ہجرت کر کے لاہور چوبرجی آ کر آباد ہو گئے ان میں سے ایک نقباءوقت محمد اقبال مجددی وچشتی تھے جو ولایت کے منصب نقباء پر فائض تھے اپنے والد ماجد حضرت ابو جعفر سے تکمیل سلوک کے بعد اجازت و خلافت پائی اور حضرت مجدد الف ثانی سر ہندی کے پوتے خواجہ سیف الدین مجددی کے بھی صحبت و اجازت یافتہ بزرگ تھے اور سلطان اورنگزیب عالمگیر کے دربار میں بھی صاحب منصب اور خاص مقام رکھتے تھے بادشاہ عالمگیر کے اول دور کے با اعتماد مشیر( علمائے کونسل اور شورئ کا حصہ) تھے۔

ان کے بیٹے حضرت محمد ایوب چشتی و قادری ہوئےہیں جو اپنے وقت کے اولیاءاللہ میں سے ابدال وقت تھے یہ چو برجی سے سلامت پورا شفٹ ہو گئےتھے ۔

آگے ان کے بیٹے آپ کے جدامجد حضرت مولانا نور محمد تھے جو جید عالم تھے ان میں خدمت خلق کا بہت جذبہ تھا دینی و علمی ا ور ملی خدمات کے باعث نمایاں تھے اور ان کے بیٹے حضرت فضل حسین کے والد ماجد قاری مولوی محمد دین علیہ الرحمت بہت زیادہ عابد و زائد تھے اور اپنے وقت کے بہترین قاری تھے۔ انہوں نے قران کی تعلیم اور دین اسلام کو خوب پھیلایا

اور حضرت کی والدہ ماجدہ چراغ بی بی نیک سیرت صوم و صلوۃ اور تہجد کی پابند اور ذاکرہ و شاغلہ تھیں ۔

پرورش و تربیت: ترمیم

آپ یتیم پیدا ہوئے آپ کی نیک دل و سیرت اور بلند ہمت ومرتبہ والدہ ماجدہ نے بہت عمدہ پرورش وتربیت  کی اور دین کے نور سے آراستہ کیا بچپن سے اعلی استعداد رکھتے تھے اور پیشانی  پر آثار بزرگی (نورولایت)نمایاں تھے جو اہل نظر نے دیکھا۔ آپ  کو کم عمری ہی سے نماز 'روزہ کا شوق تھا اور فرائض کے پابند تھے اور علم و عمل  اور تقوی کے باعث عزیزو اقارب اور اپنے علاقے کے عوام و خواص میں محبوب و مشہور ہو گئے تھے اور بےحد قدر کی نگاہ سے دیکھے جاتے تھے۔

تعلیمات و برکاتِ نبوت: ترمیم

اللہ تعا لٰی نےآپ کو بچپن ہی سےروحانی علوم (برکاتِ نبوت) اور بزرگانِ دین کی محبت و عقیدت اور خدمت کا ذوق عطا فرمایا تھا اس لیے عصری و دینی علوم کے حصول کےفوراََ بعد روحانی علوم(برکاتِ نبوت) کے حصول کے لیے بہت سے بزرگانِ دین کی خدمت میں حاضر ہوئے تو سب بزرگوں سےشرفِ ملاقات' دعائیں اور ظاہری علوم تو حاصل ہوئے مگر باطنی علوم و معارف(برکاتِ نبوت)کہیں نظر نہ آئے اس لیے ارادت و بیعت کے لیے دل کا کہیں بھی اطمینان نہ ہوا ۔

بیعتِ طریقت ترمیم

اول برصغیر کی معروف خانقاہ نقشبندیہ فضلیہ مسکین پور (ضلع مظفرگڑھ) کے شیخ خواجہ خواجگان قطب الاقطاب حضرت فضل علی قریشی کے خلیفہ عالم ربانی صاحب کشف و کرامات حضرت خواجہ نوربخش رحمتہ اللہ علیہ کی دعوت پر(حیدرآباد سندھ میں )آپ سلسلہ نقشبندیہ مجددیہ میں داخل ہو کرخانقاہ  فضلیہ سے وابستہ ہوئے

خلافت اول ترمیم

شیخ کی ہدایات پرعمل کرتے ہوئے ذکر و مراقبہ اور رابطہ شیخ کا عمل جاری رکھا توان امور کی برکت سے آپ کو لطائف اور مراقبات کے اسباق عنایت ہوتے چلے گئے پھرشیخ خواجہ نور بخشں نے کمال باطنی توجہات سے نوازتے ہوئے منازل ومدارج سلوک کراتے ہوئے تھوڑے ہی عرصہ میں کاملیت کی سند و خلافت سے سرفراز فرما کر رخصت فرمایا۔

آپ نے بموجب حکم شیخ حیدرآباد اور پھر پنجاب میں سلسلہ نقشبندیہ مجددیہ کی ایک  بڑی جماعت تیار کی ۔

خلافت دوم ترمیم

1951 میں آپ عرب تشریف لے گئے عمرہ و حج بیت اللہ کی سعادت کے بعد حضرت فضل علی قریشی رحمۃ اللہ علیہ کے دوسرے اجل خلیفہ قطب ارشاد حضرت عبدالغفور عباسی مدنی رحمتہ اللہ علیہ کی خدمت میں اکتساب فیض کیلئے مدینہ منورہ حاضر ہوئے تو حضرت مدنی رحمۃ اللہ علیہ کے ہمراہ مسجد نبوی میں نماز ادا کرتے اور روضہ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر سلام پیش کرتے اور گھنٹوں مراقبہ رہ کر نور نبوت سے فیض یاب ہوتے اور مدارج و منازل سلوک طے کرتے اور یہ اکتساب فیض وبرکات کا سلسلہ 1951 سے 1962 تک جاری رہا ۔

اس کے علاوہ حضرت مدنی رحمۃ اللہ علیہ آپ نے در اقدس (باب مجیدی کے سامنے)پر اپنے بڑے صاحبزادے و جانشین حضرت مولانا عبد الحق مدنی رحمتہ اللہ علیہ کے ہمراہ خلوت میں بٹھا کر خصوصی توجہات وبرکات سے نوازا کرتے تھے اور بہت جلد آپ کوجمیع سلوک ومقامات ولایت سلسلہ نقشبندیہ مجددیہ اور قادریہ کے طے کروا کر اجازت و خلافت سے سرفراز فرمایا ۔

اور بقاء فیض وترویج سلسلہ نقشبندی مجددیہ غفوریہ اور سلسلہ قادریہ میں فضیلت دستاروخرقہ خلافت اور بیعت و ارشاد کا منصب عطا فرما کر رخصت فرمایا ۔آپ نے شیخ مدنی سے بیعت و ارشاد کا منصب پاکر بڑے احسن طریق پر عمل کرتے ہوئے اول عرب میں ہی دہران،بحرین،قطر وغیرہ اور پھر پاکستان میں آ کر دعوت و ارشاد اور سلسلہ نقشبندیہ کی ترویج کا خوب کام کیا۔اور سالکین طریقت کی ایک بڑی جماعت تیار فرمائی۔

خلافت سوم ترمیم

1963 کے اوائل میں آپ نے مجدد دوراں آفتاب ولایت صدیق زماں امام اولیاء حضرت اللہ یار خان رحمتہ اللہ علیہ سے مراسلت کے ذریعے رابطہ کیا پھر ان کے آستانہ پر حاضر ہوئے تو شیخ کے مقربین اور محربان راز میں داخل ہوکر بحر معرفت سے علوم و معارف اور فیوض و برکات سے بھرپور استفادہ حاصل کرنا شروع کر دیا

شیخ نے آپ کو پہلی ہی ایک دو ملاقاتوں میں بارگاہِ نبی صلی اللہ علیہ وسلم میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے دست اقدس پرشرف روحانی بیعت (فنا فی الرسول)سے مشرف فرمایا اور ایک سال میں ہی قرب الہی کے منازل سلوک عالم امرو حیرت طے کراتے ہوئے درجہ کمال وہ اکمل پر پہنچا کر سالکین و طالبین طریقت والسلوک اور ظاہری و باطنی تربیت و اصلاح کرنے اور ان کو توجہ دے کر فنا فی الرسول اور منازل سلوک طے کرانے کی اجازت مرحمت فرمائی۔

اور القاء فیض واجراے سلسلہ عالیہ اویسیہ کے لیے اجازت وخلافت سے سرفراز فرما کر اپنا خلیفہ خاص ورازداں مقرر فرمایا ۔اور اپنے قلم عنبرین سے تحریری خلافت نامہ اورسلسلہ کے شجرہ مبارکہ میں اپنے نام کے ساتھ  آپ کا نام لکھ کرشجرہ مبارکہ عنایت فرما یا۔

حضرت مولانا فضل حسین رحمتہ اللہ علیہ نے 1963 میں اپنے شیخ کے مشن کو آگے بڑھاتے ہوئے اور سلسلہ عالیہ اویسیہ کو فروغ دیتے ہوئے لاہور اور اس کے اطراف کے ضلعوں میں دعوت کا کام تیزی سے شروع کر دیا اور آپ کی کوشیشوں سے بڑی تیزی سے سلسہ عالیہ اویسیہ پھیلتا چلا گیا اور بہت جلد سلسلہ اویسیہ کی ایک بڑی جماعت تیار فرمائی۔

ارادہ ہجرت مدینہ اور واپسی ترمیم

1963 سے 1967 تک 5 سال میں لاہور میں سلسلہ اویسیہ کی بڑی جماعت تیار ہو کر لاہور جماعت کا بڑا مرکز بن گیا تو آپ شیخ کی اجازت سے عمرہ کی سعادت کے لئے حریمن شریفین تشریف لے گئے ۔

حالا نکہ اس سے پہلے آپ بے شمارعمروں اور حج کی سعادت حاصل کر چکے تھے اور اپنے مشائخ کرام حضرت خواجہ نور بخش رحمتہ اللہ علیہ اوران کے صاحبزادے حضرت مولانا عبدالرشید رحمۃ اللہ علیہ اور شیخ ثانی حضرت عبدالغفورعباسی مدنی رحمتہ اللہ علیہ کی معیت (ہمراہی) میں سعادت حاصل کر چکے تھے

مگر پاکستان آنے کے بعد بھی آپ کے دل میں مزید اس سعادت کو حاصل کرنے کی ہمیشہ تڑپ رہی۔

جب 1963 سے 1967تک 5 سال لاہور میں سلسلہ عالیہ ویسہ کی ایک بڑی جماعت تیار ہوگی۔تو آپ شیخ کی اجازت سے عمرے کی سعادت کے لئےحرمین شریفین تشریف لے گئے۔

عمرہ کی ادائیگی کے بعد مدینہ منورہ حاضر ہوئے اور روزہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر ہدیہ صلوٰۃ و سلام پیش کیا

اور پھر رحمت اللعالمین صلی اللہ علیہ وسلم کے جوار رحمت کو اپنے لئے فلاح سمجھتے ہوئے مدینہ میں ہی ہمیشہ کے لئے اقامت کا ارادہ فرما لیا اورشیخ حضرت عبدالغفور مدنی کے در اقدس باب مجیدی کے سامنے قدم بوسی کے لیے حاضر ہوئے اور شیخ مدنی سے مدینہ منورہ میں اپنے مستقل قیام کاارادہ ظاہر کیا توشیخ نے نہایت خوشی کا اظہار فرمایا ۔

قیام و طعام اور سروس کا بندوبست کرکے دوبارہ شیخ مدنی کی خدمت میں قدم بوسی کے لیے حاضر ہوں تو شیخ مدنی نے دیکھتے ہی حکم فرمایا کہ

مولانا صاحب آپ فورا مدینہ منورہ چھوڑ کرواپس پاکستان چلے جائیں اور یہ باطنی حکم دربار نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ملا ہے

کہ مولانا صاحب کو کہہ دیں کہ وہ پاکستان جاکرخدمت اسلام کا فریضہ انجام دیں

آپ شیخ مدنی سے یہ باطنی حکم پاتے ہی فورا پاکستان تشریف لے آئے۔

اور حضرت محبوب شیخ حضرت اللہ یار خان رحمتہ اللہ علیہ کی خدمت اقدس میں حاضر ہو کر حرمین شریفین کی حاضری مدینہ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں مستقل قیام کے ارادہ کے متعلق اور پھر شیخ مدنی سے باطنی حکم پر واپسی کی رواداد سنائی

تو محبوب شیخ اللہ یار خان رحمتہ اللہ علیہ میں نہایت خوشی اور مسرت کا اظہار فرماتےہوئے ارشاد فرمایا

کہ ابھی آپ سے پاکستان میں خدمت دین اسلام اور سلسلہ عالیہ اویسیہ کا کام لینا باقی تھا-اس لیے آپ کو حکما پاکستان بھیجا گیا ہے

(اور یہ بات بھی علم میں آئی کہ اس کے بعددوبارہ آپ سے عرب میں کام لیا جائے گاجس کی بشارت مشائخ کرام رحمہم اللہ تعالی نے برزخ سے حضرت اللہ یارخان کودی)

چنانچہ آپ نے شیخ حضرت اللہ یار خان رحمۃ اللہ علیہ کی سرپرستی میں نئے شوق و جذبے کے ساتھ علم و عرفان اور دعوت و ارشاد کا کام شروع کر دیا اور قرآن و حدیث کی روشنی میں علم و عرفان کے مراکز قائم فرمانےشروع کر دیئے اور لوگوں کو قرآن و حدیث کی تعلیم و تربیت دی جانے لگی اور سالکین اور طالبین طریقت کی علم و عرفان سے روحانی پیاس بجھائی جانے لگی۔پھر دعوت کا کام بڑی تیزی کے ساتھ پھیلتا چلا گیا اور مقبولا ن حق کی جماعت بنتی اور بڑھتی چلی گئی اور لوگ جوق در جوق اس میں شامل ہوتے چلے گئے

شیخ حضرت اللہ یار خان رحمتہ اللہ علیہ کے الفاظ میں سلسلہ اویسہ لاہور کی جماعت تو اب مکڑی کی طرح ہوگئی ہے اور سلسلہ عالیہ کی جماعت کا بڑا مرکز بن گئی ہے ۔(مکتوب 1971)

اور پھر یہ دعوت کا کام لاہور سے باہر دوسرے اضلاع تک بھی بڑی تیزی سے پھیلتا ہوا پہنچا جہاں علم و عرفان کے بڑے مراکز قائم فرما ئیں۔اور ان میں بھی قرآن و حدیث کی تعلیمات اور ذکر و فکر کوعام فرمایا اور سلسلہ عالیہ اویسیہ کو فروغ دیا ۔

ان مراکز کے ذریعے علم و تربیت اور اسلامی تصوف و سلوک کی ایسی دعوت دی جس کی مثال شاد ہی ملتی ہے اسی لیے آپ کے شیخ آپ سے بہت خوش ہوتے اور بڑی قدر کی نگاہ سے دیکھتے اور تعریف فرماتے ہوئے فرمایا کرتے تھے کہ

مولانا محمد فضل حسین رحمۃ اللہ علیہ میرا رازدار خلیفہ ہے اور اس کی جماعت اویسیہ میں حیثیت ریڑھ کی ہڈی کی طرح ہے ۔

آپ شیخ کے مشن کا حصہ بن کر مخلوق خدا کی اصلاح کا ذریعہ بنےاور محبوب شیخ کے مشن کو پورا کرتے ہوئےایک بہت بڑی جماعت تیار فرمائی۔

عرب ریاستوں میں سلسلہ اویسیہ کی ترویج ترمیم

اور جب آپ سے پاکستان میں سلسلہ اویسیہ کے ذریعے دین اسلام کے مشن کا کام لیاجا چکا تو اب شیخ نے یہی کام  آپ سے عرب ریاستوں میں لینے کا ارادہ فرمایا۔

کیو نکہ شیخ کواپنےمکاشفہ میں عرب کی گمراہ حالت کا علم ہو چکا تھا کہ اس وقت پوراعرب سخت خطرناک صورتحال اختیار کر چکا تھا اور گمراہ ہو رہا تھا

ان میں ایسا کوئی اللہ والا شخص نہ رہا جو ان کے قلوب کا تصفیہ اور نفوس کا تزکیہ کر سکے اور نور نبوت کے فیضان سے ایمان و یقین کی شمعیں روشن کرکے خدا سے آشنا کر سکے۔

لہذا شیخ نے اس کام کے لیے آپ کا انتخاب فرما کر عرب جانے کا حکم ارشاد فرمایا۔توآپ نے محبوب شیخ کے حکم اور دعا کی برکت اور روحانی قوت کے ساتھ عرب امارات ابوظبی میں جا کر قدم رانجہ رکھا اور دعوت و ارشاد کا کام شروع کر دیا تو اللہ کریم نے ایسی مقبولیت عطا فرمائی کہ چند دنوں میں ہی آپ کی بزرگی کا چرچا ہونے لگا متلاشیان حق اور تصوف و سلوک کے طالب آپ کے گرد جمع ہونے لگے اور علم و عرفان کے اس چشمے سے اپنی علمی و روحانی پیاس بجھانے لگے ۔

آپ کے رفقائے کرام اور لوگوں کی تعداد میں روز بروز اضافہ ہوتا چلا گیا جس سے عرب میں بڑی تیزی سے ایک بڑی جماعت تیارہوگئی۔ اور ان کی اصلاح و تربیت اور تزکیہ نفوس کے لیے علم و عرفان کا ایک بڑا مرکز ابوظبی میں بنایا۔اور آپ نے اس مرکز سے توحید اسلام اوراسلامی تصوف و سلوک کی روشن کرنوں کو عرب ریاستوں بشمول عمان ، مسقط ، قطراور بلوچستان و ایران تک پہنچا دیا۔ اور محبوب شیخ کے فیض کے چشمے لاہور پاکستان سے لے کر عرب اور فارس تک جاری کر دئیے۔

اور تمام زندگی اس مشن کو جاری رکھا آپ کی حیات کے بعد آپ کےمتوسلین نے اس مشن کو جاری رکھ کر آگے پہنچایا اور تاحال جاری و ساری ہے۔ اور ان شاء اللہ قرب قیامت تک جاری رہے گا۔

حضور اکرم ﷺ کی خوشنودی و بشارت ترمیم

آپ کے شیخ حضرت اللہ یار خان رحمتہ اللہ علیہ بمع رفقاء کرام 27 دسمبر 1973میں حج بیت اللہ کی سعادت کے لیے حجاز مقدس تشریف لے گئے حج کی سعادت کے بعد جب روضہ رسول پر حاضر ہوئے اور صلوۃ و سلام پیش کرکے قدمین مبارک کی طرف بیٹھ کر مراقب ہو ئے۔ تو شیخ اور رفقاء کرام کو خصوصی انعام و اکرام سے نوازا گیا ۔آپ اس وقت ابوظبی امارات میں تھے شیخ کے ہمراہ نہ تھے۔لیکن حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے آپ کی دینی خدمات پر خوشی کا اظہار فرماتے ہوئے خصوصی انعام (منصب ولایت)سے اور اپنی خوشنودی سے نوازتے ہوئے شیخ سے فرمایا

" بلغوہ سلامی ثم بشروہ بلا انعام"

"کہ مولانا صاحب کو میرا سلام پہنچا دو

اور میری خوشنودی کی بشارت دے دو"

شیخ نے آپ کو مدینہ منورہ ومکہ مکرمہ اور پھر جدہ سے مکتوبات کے ذریعے روحانی انعام ملنے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خوشنودی وبشارت کا پیغام دیا۔

مقام ولایت ترمیم

آپ سچے عشق رسول ﷺ اور ورع و تقوی میں یکتا تھے آپ کا ہر فعل و عمل (ظاہر و باطن میں) کتاب و سنت کے عین مطابق ہوتا تھا اور اتباع سنت کے اعلی پیکرتھے اور کمال اتباع سنت کے سبب سے دربار نبی ﷺ میں بڑا مقام حاصل کیا اور ولایت کبری کے اعلی اعزاز سے نوازے ہوئے تھے۔

آپ کے شیخ قلزمِ فیوضات حضرت العلام اللہ یار خان رحمتہ اللہ علیہ نےاپنے فیض تربیت سے آپ کو عالم امر وحیرت کے انتہائی بلند و بالا منازل سلوک و مراتب ولایت طے کروائے۔اور ولایت خاصہ کے نہایت بلند مرتبہ پر پہنچایا۔

اور دربار نبی ﷺ سے بکثرت عنایات و روحانی انعامات باطنیہ اور جس قدرنسبت ہائے عالیہ تھیں ۔آپ کوعطا فرمائی گئیں۔

اور اولیاء اللہ کے مناصب ولایت (تکوین و ارشاد) ابدال، قطب الاقطاب اورقطب وحدت پر وقتا فوقتا فائز رہ کر علوم نبوت اورانوار نبوت کے وارث وامین رہیے۔

آپ نے حقیقی جانشینی اوراس امانت کا حق ادا کرتے ہوئےاقامت دین اورخلقت خدا کی ہدایت کے لئے عرب و عجم اور فارس (ایران) کے لوگوں تک علم و عرفان اور فیوض و برکات کوخوب پہنچایا،اور لوگوں کی ہدایت کا ذریعہ بنے اور مرجع خلائق ہو ئے۔

جب آپ سے عرب میں بھی دین اسلام اور خدمت خلق کا کام لیا جا چکا تو آپ نے اپنی جگہ پر مولانا خان محمد اور مولانا خان محمد صاحب ایرانی کو فرزندان و اصحاب سلسلہ عالیہ کی موجودگی میں تمام اذکارواشغال ومعمولات سلاسلہ اولیاء اللہ کی اجازت و خلافت مرحمت فرما کر اپنا نائب مقرر فرمایا۔

اور فرمایا کہ میرے بعد میرے شیخ کی خدمت میں پاکستان جا کر بقیہ سلوک مکمل کرلینااور ان سے بھی اجازت و خلافت لے لینا ۔

وفات  حسرت آیات ترمیم

1978 میں آپ علیل ہوئے اور طبیعت سنبھل  نہ سکی تو شیخ زید ملٹری ہوسپیٹل کے ڈاکٹرز حضرات نے باہمی مشورے کے بعد عرض کیا کہ حضرت امارات میں آپ کا علاج ممکن نہیں لہذا آپ کو علاج کے لیے یورپ میں لندن و امریکہ وغیرہ جانا ہوگا جو کہ اس وقت دنیا کی بہترین علاج گاہیں ہیں۔

مگر آپ نے ناپسند کیا اور پاکستان کوترجیح دیتے ہوئے فرمایا کہ اگر میرا آخری وقت آگیا ہے تو میں نحوست اور ظلمت کدہ (کافروں کے ہاتھوں)ماحول میں جا کر مرنا پسند نہیں کرتا۔بلکہ اپنے دیس میں اپنے محبوب شیخ کے قدموں میں مرنا پسند کروں گا۔لہذامیرے پاکستان جانے کا بندوبست کیا جائے۔

پھر آپ کو فوری طور پر راولپنڈی سی ایم ایچ ہوسپٹل بیچ دیا گیا مگر چند روز بعد ہی 10 اگست بمطابق 4 رمضان المبارک بعمر 63 سال کوعین نماز فجر کی حالت میں واصل باللہ ہو کر حیات دوام سے سرفراز ہوئے۔

اظہار تعزیت ترمیم

آپ کے وصال پر محبوب شیخ قلزمِ فیوضات حضرت العلام مولانااللہ یار خان رحمتہ اللہ علیہ نے اظہار تعزیت فرماتے ہوئے لکھا کہ

مولانا محمد فضل حسین رحمتہ اللہ علیہ کی وفات نے ایک میرے دل کو صدمہ نہیں پہنچایا، بلکہ سلسلہ عالیہ کی پوری جماعت کے دلوں کو ہلا کر رکھ دیا ہے ۔جماعت میں ہر طرف صف ماتم بچھ گئی ہے

انا للہ وانا الیہ راجعون

الحمدللہ آپ عالم برزخ میں خوب اچھے حال پر اور انعام یافتہ ہیں۔

مکن گریا برگور مقبول اوست برخرمی کن مقبول اوست

(مقبول خدادوست کی قبر پرمت رونا بلکہ خوشی کروکہ وہ خدا کا مقبول بن گیا ہے)

2۔ قاسم فیوضات رحمۃ اللہ علیہ لکھا کہ

الحمدللہ مولانا صاحب کا انجام بخیر ہوا، برزخ میں راضی خوشی ہیں اور جنت میں موجیں کر رہے ہیں۔

تعزیت کے لیے لاہور تشریف لائے تو فرمایا

مولانا صاحب کوئی معمولی ہستی نہ تھے۔بلکہ روحانی مقام و مرتبہ کے لحاظ لاہور کی تین چار عظیم ہستیوں میں سے ایک تھے جیسا کہ

غوث صاحب شاہی قلعہ والے بزرگ حضرت علی ہجویری رحمۃ اللہ علیہ ،حضرت داتا گنج بخش رحمۃ اللہ علیہ اور حضرت مولانا احمد علی لاہوری رحمہ اللہ تعالی علیہ حضرت غوث محمد رحمہم اللہ تعالی علیھم

3۔ لسان الشیخ پروفیسر حافظ حضرت عبدالرزاق رحمہ اللہ نے فرمایا کہ مولانا صاحب کے رخصت ہونے سے جماعت سلسلہ اویسیہ میں بہت بڑا خلا پیدا ہوگیا ہے جو کہ کبھی بھی پورا نہیں ہو سکتا۔

بعد از وصال ترمیم

جسد مبارک صحیح و سالم

وصال کے ٹھیک دو سال کے بعدرمضان المبارک میں موسلادھار بارشوں کی وجہ سے آپ کی قبر مبارک کھل گئی تو فرزندان واکابرین سلسلہ عالیہ اور اہل علاقہ کی موجودگی میں قبر مبارک کو درست کرتے ہوئے دیکھا کہ

نہایت اعلی درجے کی خوشبو آ رہی تھی جس نےپورے قبرستان کومعطر کر دیااور فضا انتہائی خوشبو سے مہکنے لگی۔

اور آپ کا کفن و جسد مبارک بالکل صحیح و سالم اور تروتازہ تھا اور چہرہ مبارک پر مسکراہٹ تھی ایسے لگ رہا تھا جیسے ابھی ابھی آرام کے لئے لیٹے ہے اور غایت درجہ افروز انوارات دیکھے گئے ۔

یہ کوئی معمولی واقعہ نہیں ہے حضرت مولانا محمد فضل حسین رحمۃ اللہ علیہ کی چودہ صدیوں میں صحابہ کرام کے دور سے لے کر آج تک کے دور کے ان خاص الخاص برگزیدہ اور محبوب بندوں میں سے تھے جن کے وجود کو اللہ تعالی نے قبروں میں صحیح و سالم اور ترو تازہ رکھا

اور ان کی عظیم الشان کرامت نے اس بات کی تصدیق کردی کہ وہ اللہ کے برگزیدہ اور محبوب بندے تھے۔

دراصل اللہ کریم کبھی کبھی اپنے محبوب بندوں کو اس طرح دکھا کردنیا کو بتا دینا چاہتے ہیں کہ یہ وہ لوگ ہیں جن کے متعلق میرا ارشاد ہے

لهم البشرى في الحيوۃ الدنيا وفی الاخرۃ

"ان کے لئے دنیا کی زندگی میں اور آخرت میں خوشخبری ہےاور یہ وہ لوگ ہیں جن سے میں خوش ہوں "