جاوید جمال الدین، Javed Jamaluddin جاوید جمال الدین ،ہندوستان کے ایک معروف صحافی ہیں اور ان کا تعلق ملک کے تجارتی دارالحکومت اور عروس البلاد کہے جانے شہر بمبئی یا ممبئی سے ہے۔جاوید دوران تعلیم ہی صحافت سے وابستہ ہوگئے ،بچپن سے پڑھنے لکھنے کے شوق نے اس میں کافی مدد کی،انجمن اسلام ہائی اسکول ،فورٹ،ممبئی میں سکندری کی تعلیم مکمل کرنے کے بعد مہاراشٹر کالج میں تعلیم کاسلسلہ جاری رکھا اور اس درمیان روزنامہ اردو ٹائمز میں کچھ عرصہ خدمات انجام دینے کے دوران ہی یکم جولائی۱۹۸۹ میں روزنامہ انقلاب نامی کثیرالاشاعت اخبار سے وابستہ ہوگئے اور 17 سال تک مستقل ملازمت کی۔ جاوید جمال الدین نے گریجویشن کے بعد سن ۱۹۹۳-۱۹۹۴کے دوران ممبئی کے چرچگیٹ علاقہ میں واقع کے سی کالج سے صحافت میں ڈپلومہ حاصل کیا۔بابری مسجد کی اجودھیا ،اترپردیش (ہندوستان)میں شہادت کے بعد ممبئی میں ہونے والے فسادات کی نہ صرف رپورٹنگ کی بلکہ دو دور دسمبر۱۹۹۲-جنوری ۱۹۹۳ء کے فسادات کی تحقیقات کرنے والے جسٹس بی این سری کرشنا کے یک رکنی کمیشن کی کارروائی کی رپورٹنگ کی اور پھر روزنامہ انقلاب کی مدیر مرحوم ہارون رشید کی ایماء پر رپورٹ کا ترجمہ سو قسطوں میں اخبار میں شائع کیا ۔کئی تنظیموں اور قارئین کے مطالبہ پر اس ترجمہ کو ۱۹۹۹ء میں کتابی شکل میں شائع کیا جوکہ ان کی شہرت کا سبب بنی تھی۔کیونکہ پہلی بار انڈیا میں فرقہ وارانہ فسادات کی کوئی رپورٹ اردو میں شائع ہوئی تھی۔اس لیے یہ کتاب کو گرم کیک کی طرح ہاتھوں ہاتھ لیا گئی۔جاوید جمال الدین نے اپنےصحافت کے سفر کے دوران ستمبر۱۹۹۳ء میں ہندوستان کی مغربی ریاست مہاراشٹر کے لاتور میں آ ئیے زلزلہ کی رپورٹنگ کی اور کئی دنوں تک ان علاقوں کا دورہ کیا تھا۔ جاویدجمال الدین نے ممبئی یونیورسٹی شعبہ اردو سے ایم اے کرنے کے بعد ایم فل میں داخلہ لیا اور اس دوران انہیں روزنامہ انقلاب کے بانی ،مالک اور مدیر اعلیٰ اور مجاہد آزادی مرحوم عبدالحمیدانصاری کا ایک خط ہاتھ لگ گیا جس میں انہوں نے تقسیم ہند کے وقت کراچی چلے جانے والے مہاجرین کے مطالبے کو مسترد کردیا کہ وہ روزنامہ انقلاب کے ساتھ پاکستان چلےآئیں،لیکن انہوں نے یہیں رہنے اورمسلمانوں کو ہندوستان میں ہی رہنے کا مشورہ دیا تھا۔۲۴دسمبر۱۹۴۸ء کے اس خط کو اخبار میں بھی شائع کیا گیا تھا۔اس سلسلہ کا ایک مضمون انقلاب کے سالانہ شمارہ۔میں شائع ہوا اور انگریزی ترجمہ ادارہ انقلاب کے انگریزی اخبار مڈڈے کے سنڈے ایڈیشن میں مذکورہ خط شائع ہوا اور کافی پسند کیا گیا ،خیراس کے بعد جاوید جمال الدین کو ۲۰۰۰ء میں مرحوم بانی انقلاب اورمجاہدآزادی عبدالحمیدانصاری کی سوانح حیات لکھنے کی ذمہ داری سونپی گئی جوکہ عبدالحمیدانصاری کی ۲۰۰۲ء میں ان کی تیسویں برسی پر منظرعام پر آئی اور معروف اسکالر اور مصنف ڈاکٹر رفیق زکریا کے ہاتھوں کتاب کا اجراء عمل میں آیاتھا۔کتاب کی خوب پذیرائی ہوئی تھی۔کتاب اردو صحافت کے لیے نایاب تحفہ ہے۔اس کتاب کے اجراء کے بعد جولائی ۲۰۰۲ ء جاوید جمال الدین کا تبادلہ پونہ کردیا گیا اور۲۰۰۴ء میں ممبئی میں کچھ دن خدمت انجام دینے کے بعد وہ فروری ۲۰۰۵ء میں مذہبی امور پر اسٹڈی کے لیے امریکی حکومت کے خیرسگالی پروگرام کے تحت امریکہ گئے اور ۲۰۰۵ء میں ہی ان کی ہندوستان کے دارالحکومت نئی دلی تبادلہ کے ایک سال بعد جاوید نے دلی ،ممبئی سمیت ملک کے متعدد شہروں سے شائع ہونے والے روزنامہ راشٹریہ سہارا میں شمولیت اختیار کرلی اور ممبئی ایڈیشن کے بیورو چیف اور پھر علاقائی مدیر کے عہدے پر فائز کئے گئے۔اور تقریباً ایک عشرے تک اخبار سے وابستہ رہے،اس سے قبل روزنامہ راشٹریہ سہارا کے سنئیر رکن کی حیثیت سے انہوں نے ۲۰۱۰میں نائب صدر جمہوریہ حامد انصاری کے ہمراہ یورپ کا دورہ کیا اور واحد اردو صحافی تھے۔وہ چیک ری پبلک اور کروشیا بھی گئے۔اور بوسینا کے مظلومین سے بھی ملاقات کی تھی۔

جاوید جمال الدین نے کچھ عرصہ روزنامہ صحافت کی ادارت بھی سنبھالی اور مسلم مسائل پر لکھتے رہتے ہیں اور ہندوستان کے متعدد اخبارات اور ویب سائٹس پر مضامین شائع ہوتے رہتے ہیں۔انہیں مہاراشٹرحکومت کے ساہتیہ اردو اکیڈمی نے بانی انقلاب مرحوم عبدالحمیدانصاری کی سوانح عمری کے لیے بہترین تحقیقات کی کتاب کے درجے میں اعزاز سے نوازا تھا۔

حوالہ جات :

کتاب مرحوم عبدالحمیدانصاری ،انقلابی صحافی اور مجاہد آزادی،انقلاب پبلیکشنز،تاردیو،ممبئی۔

Abdul Hameed Ansari Revolationary Journalist & Freedom Fighter،by Popular Parkashan,Mahalaxmi Chambers ,Haji Ali,Mumbai-4000036