Md Shuaib Raza Nizami
علم ایک ایسا نور ہے جس کے ذریعہ انسان کو حق وباطل کی پہچان ہوتی ہے اس کے زریعہ انسان دوسرے سے ممتاز ہوتا ہے علم مدار کا اور قطب دین ہے, علم قلب کی عبادت اور باطن کی نماز ہے اسکا حاصل کرنا طغرائے امتیاز ہے ,علم انسان کے لئے زینت ہے جس کے سبب انسان اپنے باطن کو فضائل وکمالات سے مزین کرتا ہے اور اپنی زندگی کو خوشگوار اور اپنی دنیا وآخرت سدھارتا وسنوارتا ہے اسکے ذریعہ انسان ملاء اعلٰی کے جوار تک پہونچتا ہے فی الحقیقت کوئی شخص اسکے بغیر دنیا وآخرت میں کمال حاصل نہیں کرسکتا اور نہ ہی اسکے بغیر اسکا ایمان مکمل ہو سکتا ہے ★کہ بے علم نتواں خدا را شناخت★ دونوں جہاں کی بھلائی علم ہی کے سبب حاصل ہوتی ہے اور سعادت دارین اسی کے وسیلہ سے ملتی ہے کیوںلہ انسان در حقیقت حیوان مطلق ہے اور اسکا فصل علم ہے اسی لئے انسان علم وعقل کی بنیاد پر "حیوان ناطق"کہلاتا ہے لہذا انسان کو لازم ہے کہ وہ اس دولت عظمٰی کے حصول کی کوشش کرتا رہے نیز اللہ جل شانہ نے بھی اس بیش قیمت دولت کے حصول کا حکم قرآن مجید میں دیا ”قل رب زدني علما“1 عرض کرو کہ اے میرے رب مجھے زیادہ علم دے(کنزالایمان) مذکورہ آیت مقدسہ میں اللہ جل شانہ نے حضور سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم سے خطاب فرمایا کہ اے محبوب آپ اپنے رب سے علم کی زیادتی کی دعاء کیجئے باوجودیکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو جمیع ماکان ومایکون کا علم ہے جس سےمعلوم ہوتا ہے کہ علم سے کبھی آسودہ نہیں ہونا چاہئے,علم کی حرص اچھی بات ہے لہذا ہم پر لازم ہے کہ ہم حصول علم کی جد وجہد کرتے رہیں حضور سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں ”طلب العلم فريضة على كل مسلم“2 یعنی علم دین کا حاصل کرنا ہر مسلمان مرد وعورت پر فرض ہے جبکہ دوسری جگہ فرماتے ہیں ”اطلبوا العلم ولوكان بالصين“ یعنی علم دین حاصل کرو اگر چہ ملک چین جانا پڑے الغرض علم بہت ہی اہم اور افضل شئ ہے اسکی افضلیت کا اندازہ قرآن مقدس کی اس آیت کریمہ سے لگایا جاسکتا ہے اللہ جل شانہ ارشاد فرماتا ہے ”قل هل يستوى الذين يعلمون والذين لا يعلمون“3 اے محبوب آپ فرمادیجئے کہ کیا برابر ہیں جاننے والے اور انجان(کنزالایمان) آیت مذکورہ میں اللہ تبارک وتعالٰی نے علم اور علماء کی فضیلت بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ کیا عالم اور جاھل برابر ہیں؟ نہیں بالکل نہیں کیوں کہ علم نور ہے اور جہل تاریکی،علم سایہ دار درخت ہے اور جہل تیز کڑک دھوپ،عالم ایک زندہ صفت انسان ہےتو جاہل مردہ سے بھی بدتر ہےاور یہ بدیھی امر ہے کہ نور وتاریکی،سایہ اور دھوپ،زندہ اور مردہ کبھی برابر نہیں ہو سکتے. قرآن مجید میں دوسری جگہ اللہ تبارك وتعالٰی علماء کی شان بیان کرتے ہوئے فرماتا ہے ”انّما يخشى الله من عباده العلمٰؤا“4 ترجمہ:- اللہ سے اسکے بندوں میں وہی ڈرتے ہیں جو علم والے ہیں(کنزالایمان) مذکورہ آیت کریمہ سے مراد یہ ہے کہ اللہ کے تمام بندوں میں سے اللہ کا خوف خالص اسکو ہے جو اللہ تعالٰی کی جبروت وعظمت اور اسکی عزت وشان کو جانتا ہے،بخاری شریف میں ہے کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ”میں اللہ جل شانہ کو سب سے زیادہ جانتا ہوں اور اس کی ذات سے خوف بھی سب سے زیادہ میں رکھتا ہوں“اور کیوں نہ ہو جبکہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو جمیع ماکان ومایکون کا علم ہے اسی لئے خدائے عزّوجلّ سے سب سے زیادہ خوف آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ہے اس آیت کریمہ اور حدیث مقدسہ سے معلوم ہوا کہ جسے جتنا علم ہوگا وہ اتنا ہی اللہ جل شانہ کی صفات وعظمت کو پہچانے گا اور اتنا ہی اللہ تعالٰی سے خوف کرے گا اور جسے اللہ کا خوف ہوگا وہ کبھی غلط کام نہیں کرے اور گناہوں سے محفوظ رہے گا اور کامیابی وکامرانی اسکے قدم چومےگی۔ نیز احادیث کریمہ میں بھی علم اور علماء کی بہت فضیلتیں موجود ہیں ذیل میں کچھ حدیثیں ملاحظہ فرمائیں
(۱) عن معاویۃ قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ”من یرد اللہ بہ خیرا فیفقھہ فی الدین وانما انا قاسم واللہ یعطی“5
ترجمہ:- حضرت معاویۃ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا”خدائے تعالٰی جس شخص کے ساتھ بھلائی کا ارادہ فرماتا ہے تو اسے دین کی سمجھ عطا فرماتا ہے اور اللہ دیتا ہے اور میں تقسیم کرتا ہوں“۔ (۲)عن ابن عباس رضی اللہ عنہ قال ”تدارس العلم ساعۃ خیر من احیائہا“6 ترجمہ:-حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے انہوں نے فرمایا کہ رات میں ایک گھڑی کا پڑھنا،پڑھانا رات بھر کی عبادت سے بہتر ہے۔ (۳)عن ابی امامۃ الباھلی رضی اللہ عنہ قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم”فضل العالم علی العابد کفضلی علٰی ادناکم"7 ترجمہ:-حضرت ابوامامہ باھلی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا”عالم کی فضیلت عابد اسطرح ہے جس طرح میری فضیلت تمہارے ادنٰی پر“۔ (۴)قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ”الا ادلکم علی اشراف اھل الجنۃ؟“قالوا:بلی،یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم!قال”ھم علماء امتی“8 ترجمہ:- اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کیا میں تمہیں زیادہ مرتبہ والے جنتی نہ بتاؤں؟ صحابہ کرام نے عرض کیا کیوں نہیں اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم تو آپ نے فرمایا کہ وہ میری امت کے علماء ہیں ایک دوسری جگہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ انبیاء کے وارث علماء ہوتے ہیں اور یہ بدیھی بات ہے کہ انبیائے کرام علیھم السلام سے بڑھ کرکسی کا رتبہ نہیں پس انبیائے کرام کے وارثوں یعنی علمائے کرام سے بھی بڑھ کر کوئی نہیں۔ حضرت علی کرّم اللہ وجھہ الکریم فرماتےہیں ★لیس الجمال باثواب تزیننا-ان الجمال جمال العلم والادب★ ★لیس الیتیم الذی قدمات والدہ-بل الیتیم یتیم العلم والحسب★9 ترجمہ:-زینت دینے والے کپڑوں میں خوبصورتی نہیں ہے بلکہ علم وادب کی خوبصورتی اصل خوبصورتی ہے اور جسکے والدین مر گئے ہوں وہ یتیم نہیں ہے بلکہ جسکے پاس علم نہیں وہ یتیم ہے اور دوسری جگہ فرماتے ہیں ★رضینا قسمۃ الجبار فینا-لنا علمٌ ولالجهال مال★ ★فان المال يفنى عن قريبٍ-وان العلم ليس له زوال★10 ترجمہ:-ہم اللہ کی تقسیم سے راضی ہیں کہ ہمارے لئے علم ہے اور جاھلوں کے لئے مال ہے اسلئے کہ مال بہت جلد ختم ہوجائےگا اور علم ختم ہونے والی چیز نہیں ہے ۔ اور اشرف الدین وشتی نسیم صاحب نے علم کی ضروت کو یوں بیان کیا ہے : ★در جہاں بما واجب علم است علم-مرد وزن را رہنما علم است علم★ ★آنچہ پیغمبر بما واجب نمود-آشکار وبرملا علم است علم★ ★مردہ از بے علم وجاھل بہتر است-زندہ را معجز نما علم است علم★ ★احتاج است آنکہ مارا خوار کرد-رفع ما یحتاج ما علم است علم★11
حوالہ جات:- 1:قرآن،سورةطٰحہ 114 2:سنن ابن ماجہ،صفحہ81 3:قرآن،سورةالزمر 9 4:قرآن،سورةالفاطر 28 5:بخاری شریف،جلد 1،صفحہ16 6:مشكوة شريف،صفحہ34 7:مشكوة شريف،صفحہ36 8:سنن ابن ماجه،صفحہ216 9:امثال العرب 10:امثال العرب 11:سخن نو،صفحہ83