Mir Fayyaz Khan Rind
میر جلال خان بلوچ سے لے کر میر چاکر اعظم رند تک اور میر چاکراعظم رند کے بیٹے میر صمیل خان رند سے لے کر میر صالح محمد عرف صالیو خان رند تک جبکہ ان کے بیٹے میر قائم خان رند انکے بیٹے امام بخش خان رند اور ان کے بیٹے احمد یار خان رند بلوچ کے بیٹوں میں سے چوتھے نمبر پر آنے والے میر فیاض خان رند (ضلعی سیکریٹری رند قومی اتحاد رحیم یار خان) ہیں ج 14 اگست 1997 کو ضلع رحیم یار خان کی تحصیل خان پور کے موضع پھل لولائی میں پیدا ہوئے، ابتدائی تعلیم، ابتدائی تعلیم بلوچ نگر گورنمنٹ سکول سے حاصل کی اور اس کے البلال انگلش میڈیم سکول ظاہر پیر میں مڈل کو پہنچے جبکہ میٹرک اور ایف اے گورنمنٹ ہائر سکینڈری سکول ظاہر پیر میں حاصل کرنے کے بعد آٹو کیڈ انجینئرنگ کا ڈپلومہ اسلام آباد میں کیا ساتھ تاریخ پڑھنا بھی ان کا شوق تھا،، اسلام کی تاریخ و ادب پر کافی گہری ریسرچ رکھتے ہیں، خاندان آپ کے خانداں کا شجرہ نسب حضرت امیر حمزہ رضی اللہ تعالی عنہ سے جا ملتا ہے آپکے آباواجدا کوہالبرز کے پہاڑی علاقوں اور لوط کے ریگیستانوں میں رہتے تھے پھر ہجرت کرتے جنگیں لڑتے ایران پہنچے ایران کے بادشاہوں سے نہ بنی تو چالیس لڑکے عورتوں کے پردے میں بادشاہ کے محفل میں جا پہنچے جہاں انہوں نے بادشاہ کا قتل کر دیا اس کے پھر کرمان ،مکران میں آ بسے دو تو میر جلال خان بلوچ کے بڑے بیٹے سردار میر رند بلوچ نے سرداری کی کمان سنبھال لی پھر انکے بعد میر عبداللہ خان رند، میر شہداد خان رند کے بعد میر شیہک خان رند نے بلوچ اقوام کی ڈور سنبھالی اور برصغیر کی سرزمین پر بہت سے علاقے فتح کر لئے اور گدروشیا کو بلوچستان میں بدل دیا گیا۔ جبکہ سن 1468 کو سردار میر شیہک خان رند کے ہاں میر چاکر خان رند پیدا ہوئے جس کو دنیا چاکراعظم کے نام سے جانتی ہے، میر چاکر اعظم رند نے بلوچوں کو برصغیر میں تشخص نام اور قابل فخر ورثہ سے نوازہ ہے،
رند و لاشار کی تیس سالہ جنگ بلوچوں کو کافی ناقابل تلافی نقصان پہنچایا ہے، اس جنگ میں لاشاریوں کو شکست ہوئی جبکہ میر چاکر خان کو اس وطن کی مٹی سے خون بو آنے لگی تو چاکراعظم رند نے دہلی کو فتح کرنے کی ٹھان لی،
اور چالیس ہزار بلوچوں کو لے کر دہلی پہنچیں اور وہاں تلواروں کی آوازیں آسمان تک جاتی رہیں ۔
چاکراعظم رند کی بہن بانڑی مائی نے مردانہ وار مقابلہ کیا اور بلوچ لشکر کا حوصلہ بڑھاتی رہیں، اور پھر دہلی کو فتح کرنے کے بعد چاکراعظم رند اوکاڑہ پہنچے جہاں پر انہوں نے مستقل سکونت اختیار کی اور سات موجود زندہ بیٹوں کی وجہ سے شہر کو ستگھڑہ کا نام دیا گیا، میر چاکراعظم رند کے بیٹوں کے نام نواب میر شہداد خان رند، نواب اللہ داد خان رند، میر نوح خان،میر صمیل خان رند (سلمانڑے خان) ، میر شیہک خان رند، میر باگرخان رند ،
مختصر وقت تک ایک ساتھ رہنے کے بعد سب بکھر گئے کوئی گجرات چلا گیا تو کوئی ڈیرہ غازی خان چلا گیا اور وہیں اپنی اپنی بستی آباد کر لی،،،،
علاقے کو پہچان دی جبکہ میر فیاض خان رند کے پڑ دادا نواب میر صمیل خان رند کی نسل کافی عرصہ تک ستگھڑہ رہنے کے بعد 1818 میں رنجیت سنگھ کے ساتھ مقابلہ کیا اور آپ تلواروں سے لیس تھے لیکن رنجیت سنگھ توپوں سے جنگ لڑ رہا تھا،،، کافی سارا جانی نقصان سکھوں کو بھی دیا پھر اس کے بعد راوی فیصل آباد چلے گئے جہاں انکے مرشد شیرازی سید رہتے ان کے پاس رہنے کے بعد ملتان آئے اور ملتان سے ہوتے ہوئے اوچ شریف بہاولپور پہنچے پھر کچھ دن قیام کے بعد تحصیل خان پور موضع پھل لولائی اور چوک ماڑی جا ٹھہرے 1879 میں میر صالح محمد عرف صالیو خان رند کسی بہس پر دو برطانوی فوجی اور مقامی آدمی کو قتل کر دیا جس انگریز آرمی چیف میر صالح محمد عرف صالیو خان کو پھانسی کا آڈر دینے کا حکم دیا آپ وہاں سے ہجرت کر کے پھل لولائی، غازی پور میں آبسے اس وقت آپ کے ساتھ بیٹا میر قائم خان رند، چچا زاد بھائی بچو خان رند اور بیبیاں ساتھ تھیں، آپ نے کہاں پر دوسری شادی کی جس سے آپ کے دو بیٹے میر قالو خان رند اور میر اسماعیل خان رند تھے، میر قائم خان رند کے تین بیٹے تھے محمدی خان رند ، حیات خان رند، امام بخش خان رند محمدی خان رند کے دو بیٹے غلام رسول رند اور خمیسہ خان رند تھے، جبکہ حیات خان رند سے چار بیٹے ہوئے حاجی خان رند، نور احمد خان رند عرف( بھورے خان رند) فقیر بخش خان رند، مجید خان رند، اور امام بخش خان رند کے پانچ بیٹے جن کے نام غلام فرید رند بچپن میں فوت ہوئے ، اور احمد یار خان رند، محمد یار خان رند، اللہ یار خان رند، اور میر ہزار خان رند تھے احمد یار خان رند کے چھ بیٹے پیدا ہوئے امام بخش رند (دوم) لا ولد فوت ) پروفیسر سعید احمد خان رند، حاجی اسحاق احمد رند، میر فیاض خان رند نوید احمد رند، بھتیجے سعد سعید رند، ایان سعید رند، احمد یار خان دوم بن اسحاق احمد رند