v

مفتی صاحب مذہبیت کو اول کہتے ہیں جبکہ میں انسانیت کو۔۔۔۔ پھر مفتی صاحب سے میں نے  ایک سوال کیا کہ خدا نہ کرے تمہارا اکسیڈنٹ ہو، صرف صرف فرض کرو، اور وہاں پہ تم کو ریسکیو کرنے والا کوئی مسلمان نہ ہو بلکہ کوئی ہندو، عیسائی یا پھر کوئی قادیانی یا کوئی یہودی ہو، وہ تم کو ہسپتال پہنچائیں اور تم کو اپنا خون دیں۔۔۔۔ بغیر کسی وجہ اور بغیر کسی چاہت کے بغیر کسی لالچ کے، تمہارا علاج کرائیں، جب تم ہوش میں آئو تو تم کو پتہ چلے کہ تمہارے جسم میں کسی اسی ہندو، عیسائی قادیانی یا پھر یہودی کا خون دوڑ رہا ہے تو تم کیا کروگے۔۔۔۔ مفتی صاحب نے فرمایا کہ اس کا شکرگزار رہوں گا۔۔۔۔ میں نے کہا مفتی صاحب دنیا کا سب سے بڑا اور سب سے پہلا مذہب انسانیت ہے، اور یہ تفرقہ بازی چھوڑو ابھی انسانیت کے ایک ہونے کا وقت ہے، نہ کہ مذہب کے نام پر ایک دوسرے سے لڑنے کا۔۔۔۔

مفتی صاحب میری بات سن کے بیزاری سے بولے اچھا چلو میرا موبائل واپس کرو۔۔۔ میں نے کہا یہ بھی تو کسی کافر نے بنایا استعمال کیوں کر رہے ہو۔۔۔۔  مفتی صاحب پھر بولے یار دے دو موبائل پلیز میری نیوز ہیڈلائنز سنتا ہوں نو بجےوالے خبر نامے کا وقت ہو گیا ہے۔۔۔۔

میں نے کہا پہلے بولو کہ انسانیت پہلے ہے مذہب بعد میں۔۔۔ مفتی صاحب مکروہ ہنسی ہنستے ہوئے بولے۔۔۔۔ اب تم میری مجبوری کا غلط فائدہ اٹھارہے ہو۔۔۔۔ میں نے کہا ٹھیک ہے پھر جائو نہیں دینا تمہارا موبائل جو کرنا ہے کر لو۔۔۔۔ مفتی صاحب ہنستے ہوئے بولے ہاں بابا ہاں مان لیا جو تم کہہ رہے ہو وہ درست ہے۔۔۔ انسانیت سب سے پہلے ہے۔ مذہب بعد میں۔۔۔۔ یہ سننے کے بعد کرونا وائرس کی احتیاطی تدبیر کے تحت دور سے مولانا کو ایک پپی دو اور موبائل اسے دے دیا۔۔۔۔

بقلم خود محمد مغیرہ صدیق

ترمیم