صارف:Muhammad Bashir Furqani IIUI/ریتخانہ

                                                                           بسم الله الرحمن الرحيم
                                                             بے وطن شہزادہ سلطنت قائم کرتا ہے            
  عبدالرحمن الداخلي كے خلافت کا واقعہ   

عربوں کے ہاتھوں ہسپانیہ کی تقدیر کا آغاز 92ھ 711ء میں ہوا ۔ لیکن وہاں عربوں کی مستقل سلطنت کا سنگِ بنیاد عبدالرحٰمن 138نے ھ 752ء میں رکھا وہ دمشق کہ اموی خلیفہ ہشام بن عبدلملک کا پوتا تھا ۔ عبدالرحمان پانچ سال کا تھا ، جب اُس کہ باپ معاویہ نے وفات پائی دادا نے یتیم پوتے کو کو نازو نعمت سے پالا ۔ چونکہ اُسے ولی عہد بنانا چاہتا تھا ۔ اس لیے بڑی اعلٰی تعلیم دلائی ۔وہ بیس سال کا ہوا تو خاندان کے اقبال کا سورج ڈوب گیا ۔ حکومت عباسیوں کے قبضے میں چلی گئی ۔ اموی خاندان کے بہت سے لوگ مارے گئے ۔ عبدالرحمان جان بچا کر شام سے نِکلا اور سخت مصائب و خطرات جھیل کر مراکش پہنچا۔ کوئی سامان پاس نہ تھا ۔۔ ایک وفادار غلام کے سوا کوئی آدمی ساتھ نہ تھا ، لیکن جوانمردی اور عالی ہمتی کا یہ عالم تھا کہ نظر تاج و تخت کے سوا کسی چیز پر نہ جمتی تھی ۔ ایک معمولی کشتی میں سوار ہوکر مراکش سے ہسپانیہ پہنچا۔ وہاں کچھ لوگ اموی خاندان کے شہزادے کا نام سُن کر ساتھ ہوگئے ، لیکن قرطبہ کے حاکم نے مقابلے کی ٹھانی ۔ عبدالرحمان نے بے سروسامانی سے اسے شکست دے دی ۔ پھر سارے اسلامی علاقوں کو ایک مرکز کے ماتحت لاکر اس بادشاہی کی بنیاد رکھی جوساڑھے تین سو سال تک قائم رہی ۔ یورپ اس کی ہیبت سے لرز تا تھا ۔اس اموی عہد میں جو عمارتیں بنیں اُن کی نظیر کوئی دوسرا مُلک پیش نہ کرسکا ۔ان میں صرف ایک مسجد باقی ہے اگرچہ اس کی پرانی شان و شوکت ماند پڑ چُکی ہے تاہم اب بھی وہ دنیا کی عبادت گاہوں میں یگانہ مانی جاتی ہے ۔

عبدالرحمان کی عظمت سے کون انکار کر سکتا ہے کہ باپ دادا کی سلطنت چھن گئی کوئی بھی قابلِ ذکر چیز پاس نہ رہی ۔ بمشکل جان بچا کر وطن سے نِکلا اور بے سرو سامانی کے باوجود نئی سلطنت کا مالک بن گیا ، لیکن اس کی سیرت کا جو پہلو خاص توجہ کا مستحق ہے ! یہ ہے کہ بہت بڑی سلطنت کا فرمانرواہوتے ہوئے بھی عربی سادگی اور بےتکلفی قائم رکھی ۔ ہمیشہ سفید لباس پہنا اور سفید عمامہ باندھتا ۔ شہر میں جِن لوگوں کی بیمار ہونے کی خبر مل جاتی ، وہ امیر ہوتے یا غریب ، سب کی مزاج پرسی کے لیے اُن کے گھروں میں جاتا۔ ہر جنازے کی نماز کی نماز آپ پڑھاتا اور ہر میت کو دفن کرنے میں شریک ہوتا ۔ جو شخص بھی ملاقات کے لیے آجاتا ۔ اس سے بے تکلف ملتا ۔ ہرشکایت پر خود توجہ کرتا اور انصاف کے تقاضے پورے کرنے میں بڑے چھوٹے یا طاقتور اور کمزور میں امتیاز کو روا نہ رکھتا ۔ ایک بار سوار ہو کر باہر جا رہاتھا ۔ ایک شخض نے اس کے گھوڑے کی باگ تھام کر روکا اور کہا کہ جب تک میرا انصاف نہ کرو گے ،ہلنے نہ دونگا عبدالرحمان نے فوراَ قاضی کو بُلوایا اور کھٹرے کھٹرے اپنے سامنے فریادی کا فیصلہ کروا دیا۔

تحریر:محمد بشير فرقاني ماهر ادبيات بین الاقوامی اسلامی یونورسٹی اسلام اباد، پاکستان