Mzb1
مفتی محمد نظام الدین رضوی برکاتی (Mufti Mohammad Nizamuddin Rizvi)
سراج الفقہاحضرت علامہ مفتی محمد نظام الدین رضوی مصباحی کا نام سنتے ہی ایک ایسے جلیل القدر عالمِ ربّانی کا سراپا ذہن کے پردہ پر ابھرتا ہے جو مذہبی علوم و فنون خصوصاً فقہ و اصولِ فقہ میں مہارت و کمال کی وجہ سے جدید پیچیدہ شرعی و فقہی مسائل کے حل کرنے کا ملکہ رکھتے ہیں، اورمیدانِ تحقیق و تدقیق میں امتیازی شان اور علاحدہ شناخت کے حامل ہیں، بیماری کے باوجود برابر تدریس و افتا، تصنیف و تالیف اور دعوت و ارشاد کے کاموں میں مصروف، اور الجھے ہوئے ملی و جماعتی مسائل کی عقدہ کشائی کے لیے فکر مند نظر آتے ہیں، آپ حافظِ ملت علامہ شاہ عبد العزیز محدث مراد آبادی کے فرمان ’’زمین کے اوپر کام، زمین کے نیچے آرام ‘‘ کی عملی تصویر ہیں۔ بر صغیر ہند و پاک میں اہلِ سنت و جماعت کی سب سے عظیم اور با فیض درس گاہ الجامعۃ الاشرفیہ ،مبارک پور کے صدرالمدرسین، شیخ الحدیث، صدر شعبۂ افتا اور مجلسِ شرعی مبارک پور جیسے علمی و تحقیقی ادارے کے ناظم ہیں۔ ذیل میں ان کا قدرے تعارف نذرِ قارئین کیا جاتا ہے۔
اس مضمون کے بنیادی طور پر تین گوشے ہیں: (۱) گوشۂ حیات (۲) گوشۂ اوصاف و خدمات (۳) تعارفِ کتاب (۱) گوشۂ حیات
نام و نسب اور خاندانی حالات: آپ کا نام محمد نظام الدین، والد کا نام خوش محمد انصاری اور دادا کا نام سخاوت علی ہے۔ آپ کا نسب نامہ کچھ اس طرح ہے: ’’محمد نظام الدین، بن خوش محمد انصاری، بن سخاوت علی، بن فتح محمد، بن خدا بخش۔‘‘ آپ کے جدِّ اعلیٰ خدا بخش مرحوم بھڑنگواں(Bharangwan)، تحصیل ہاٹا، ضلع گورکھ پور کے رہنے والے تھے۔ان کے ایک لڑکی تھی اور دو لڑکے۔ بڑے لڑکے کا نام غلام محمد میاں(عرف غلامن میاں) اور چھوٹے لڑکے کا نام فتح محمد میاں(عرف پھتنگن میاں) تھا۔ جد اعلیٰ(خدا بخش مرحوم) کے انتقال کے بعد ان کی اہلیہ ضلع کشی نگر کے ایک غیر معروف دیہات بھوجولی پوکھرا ٹولہ (Bhujauli, Pokhara Tola) منتقل ہو گئیں۔ (یہ بستی اس وقت ضلع کشی نگر، Kushi Nagar میں ہے)۔ اور وہاں زمیں دار بابو جھگڑو راے سے ایک مختصر سی زمین لے کر ایک جھونپڑی بنائی اور اپنے دونوں فرزندوں(غلام محمد میاں اور فتح محمد میاں) کے ساتھ اسی میں رہنے لگیں۔ لگ بھگ ۱۹۳۰ء میں غلام محمد میاں کا انتقال ہو گیا۔ اور چھوٹے بھائی فتح محمد میاں تقریباً ۱۹۳۸ء میں اللہ کو پیارے ہوئے۔ یہ دونوں بھائی بڑے دین دار، پرہیز گار، بات کے سچے، قول کے پکے اور نماز کے پابند تھے۔ انھی لوگوں نے اس چھوٹی سی بستی میں ایک مسجد قائم کی اور پنج وقتہ نماز اور اذان کا اہتمام کیا۔ الحمد للہ، آج وہ مسجد توسیعِ جدید کے بعد علاقے کی سب سے بڑی مسجد ہے جس کا نام’’امام احمد رضا جامع مسجد‘‘ ہے۔ یہ توسیعِ جدید حضرت سراج الفقہاء دام ظلہ نے کرائی ہے۔ فتح محمد میاں مرحوم کے ایک فرزند اور پانچ لڑکیاں تھیں۔ فرزندِ ارج مند کا نام سخاوت میاں تھا، یہ حضرت سراج الفقہا کے دادا مرحوم ہیں۔ ان کا انتقال پچاس برس کی عمر میں ۱۱؍ نومبر ۱۹۴۵ء بروز یک شنبہ ہوا۔
سخاوت میاں مرحوم کے چار لڑکے تھے: (۱)خوش محمد میاں(۲)محمد دین میاں(۳)علی حسن میاں(۴) عبد السبحان میاں۔اور پانچ لڑکیاں تھیں، یہ سب مرحوم ہوچکے ہیں سب سے آخر میں سب سے چھوٹی لڑکی مجید النسا مرحومہ کا انتقال ۲۵؍ ربیع الآخر ۱۴۳۵ھ مطابق ۲۶؍ فروری ۲۰۱۴ء بروز بدھ ہوا۔ حضرت سراج الفقہا مد ظلہ کے والد گرامی خوش محمد میاں مرحوم، بھائیوں میں سب سے بڑے اور علاقے کے چند تعلیم یافتہ، دور اندیش اور ذہین و فطین لوگوں میں سے تھے۔ اورصوم و صلاۃ کے پابند، علم دوست، با ہمت، حاضر جواب، مذہب اہل سنت و جماعت پر مضبوطی سے قائم رہنے والے، مسلمانوں کے بے لوث خادم، جفا کش، محنتی اور کتب بینی کے بہت شوقین تھے۔ صبح تڑکے ہی بیدار ہو جاتے، اور گھر کے لوگوں کو بھی بیدار کر دیتے، پھر کام میں لگ جاتے، نماز کے پابند اور ہر کام وقت پر کرنے کے عادی تھے۔ سعیِ پیہم اور جہدِ مسلسل ان کا خصوصی وصف تھا۔ دن بھر کام کرتے اور بعد نمازِ عشا مٹی کے چراغ یا لالٹین کی روشنی میں دینی کتابیں لے کر مطالعہ کے لیے بیٹھ جاتے،عام طور پر روزانہ کچھ لوگوں کو مدعو کیے رہتے، اور حاضرینِ مجلس کے سامنے بلند آواز سے کتاب پڑھتے اور کچھ دیر کے بعد رک کر اس کا مطلب سمجھاتے۔
خود انھی کا بیان ہے کہ پہلے گاؤں اور علاقے کے بہت سے مسلمان مشرکانہ کام کرتے تھے، وہ غیر مسلموں کے ساتھ دیو استھان جا کر منتیں مانتے، بتوں پر چڑھاوے چڑھاتے، کڑھائی پوجتے تھے،ان پر جہالت اس قدر غالب تھی کہ انھیں توحید و شرک اور ایمان و کفر کے درمیان کوئی امتیاز نہ تھا، اور نہ ہی اس کی کوئی فکر تھی۔ آپ اپنا کام کاج چھوڑ کر ایسے بھٹکے ہوئے لوگوں کے یہاں جاتے اور انھیں اسلام کی پاکیزہ تعلیمات و ہدایات سے آگاہ کرتے۔ آپ کی ان تبلیغی اور اصلاحی کوششوں کا اثر یہ ہوا کہ ان لوگوں نے بہت سی بری جاہلانہ رسموں کو چھوڑ دیا اور نمازِ جمعہ اور بعض لوگ پنج گانہ نمازیں بھی ادا کرنے لگے۔
علاقے کے کئی مسلم قبرستانوں پر ہندووں نے ناجائز قبضہ کر لیا تھا اور عرصہ سے ان پر کاشت کر رہے تھے،آپ نے ان سے قانونی لڑائی لڑ کر مسلمانوں کو قبضہ دلایا، اپنے گاؤں میں ابتدائی مذہبی تعلیم کے لیے ایک مکتب قائم کیا، یہ مکتب آج بھی بنام مدرسہ فیض العلوم جاری ہے جس کے مصارف کا انتظام حضرت سراج الفقہاء دام ظلہ فرماتے ہیں، مفتی صاحب کی ابتدائی تعلیم اسی مکتب میں ہوئی،آپ کے والد گرامی اس کی ضرورتوں کی تکمیل کے لیے اپنی ذاتی جد و جہد سے مالیات کا انتظام کرتے رہے،اور کوئی سینتالیس سال پہلے اپنے آبا و اجدا د کی قائم کی ہوئی مسجد کی توسیع اور جدید تعمیر کرائی۔ وہ بھی بوسیدہ و تنگ ہوگئی تو حضرت سراج الفقہاء نے اس کی توسیع و تعمیرچار گنا سے زیادہ زمین پر کرائی جو اب ’’امام احمد رضا جامع مسجد‘‘ کے نام سے جانی جاتی ہے۔ حضرت سراج الفقہاء دام ظلہ کے والد مرحوم آپ کو مخاطب کر کے فرمایا کرتے تھے: ’’اللہ تعالیٰ نے مجھ ناچیز سے اپنے دین کے بہت سے کام لیے، اور میری زندگی کا سب سے بڑا کارنامہ یہ ہے کہ میں نے تمھیں عالمِ دین بنایا۔ یہ مجھ پر اللہ کا بہت بڑا فضل ہے اور مجھے تم پر ناز ہے۔ تمہاری ترقی کے لیے ہمیشہ دعائیں کرتا رہتا ہوں۔‘‘
ولادت و مسکن: حضرت سراج الفقہا کی ولادت۲۹؍ شوال ۱۳۷۷ھ /۲؍ مارچ ۱۹۵۷ء ایک بجے شب جمعرات میں ہوئی، موصوف کا آبائی مسکن ضلع دیوریا (یو۔پی۔) کا ایک غیر معروف گاؤں بھوجولی پوکھرا ٹولہ ہے۔ یہ بستی اب ضلع کشی نگر میں آتی ہے۔ لیکن اب حضرت کی مستقل رہائش مبارک پور ہی میں ہے۔ محلّہ ملت نگر، مبارک پور میں آپ کا ذاتی مکان (کاشانۂ برکات)ہے۔
تعلیمی میدان میں: ایک اندازے کے مطابق گیارہ سال کی عمر میں ۱۹۶۸ء کے اوائل میں مولوی خلیل احمد مرحوم نے بسم اللہ شریف پڑھا کر آپ کو قاعدۂ بغدادی شروع کرایا۔ موصوف ضلع موتیہاری، صوبۂ بہارکے رہنے والے تھے، ان کی سسرال سِسواں بازار ضلع گورکھپور (حال ضلع مہراج گنج) میں تھی، وہ موضع غلامی چھپرہ کے مکتب میں مدرس تھے، یہ موضع حضرت سراج الفقہاء کے وطن ’’بھوجولی پوکھرا ٹولہ‘‘ سے تقریباً ڈیڑھ کلو میٹر دور جانب مغرب واقع ہے۔ آپ روزانہ اپنے گاؤں کے بچوں کے ہمراہ اس مکتب میں پڑھنے کے لیے جاتے۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کو اعلیٰ ذہن اور مضبوط قوت حافظہ سے نوازا تھا، چند دنوں میں ہی قاعدۂ بغدادی، پھر ’’یسّرنا القرآن‘‘ ختم کرکے عَمَّ پارہ شروع کردیا۔ حافظہ اتنا قوی تھا کہ اس وقت آپ جو بھی سورتیں پڑھتے آسانی کے ساتھ بغیر یاد کیے ہی یاد ہوجاتیں۔ تھوڑے ہی دنوں میں ناظرہ قرآن پاک ختم ہوگیا۔ اس وقت تک آپ کی ذہانت اور یاد داشت کی پختگی کا چرچا مکتب کی چہار دیواری سے نکل کر اس آبادی کے باشندوں تک پہنچ چکا تھا۔ جب آپ گھر سے مکتب آتے یا مکتب سے گھر جاتے تو وہاں کے کچھ لوگ آپ کی طرف انگلیوں سے اشارہ کرکے کہتے: ـ’’یہی وہ لڑکا ہے، پڑھنے میں بہت تیز ہے، تھوڑے ہی دنوں میں پہلے کے بہت سے لڑکوں سے آگے ہوگیا ہے۔ ‘‘ اس طرح بچپن ہی سے آپ کی پیشانی پر کامیابی اور سربلندی کے آثار نمایاں تھے، بقول شیخ سعدی : بالاے سرش زہوش مندی می تافت ستارۂ سر بلندی
پھر اس کے بعد جب آپ کے گاؤں (بھوجولی پوکھرا ٹولہ) کے مکتب میں ایک معلّم آگئے تو آپ وہیں تعلیم حاصل کرنے لگے، کچھ دنوں موضع کہر گڈی، ضلع دیوریا (حال ضلع کشی نگر) کے مکتب میں بھی تعلیم پائی۔ یہ موضع آپ کے گاؤں سے کوئی ۵؍ کلو میٹر کے فاصلہ پر واقع ہے، آپ صبح کو پیدل جاتے اور شام کو اسی طرح واپس آتے۔ ان مکاتب میں درجۂ دوم کے معیار کی اردو، فارسی کی پہلی کتاب اور میزان الصرف کے کچھ اسباق پڑھے۔ پورے علاقے میں نہ کوئی اچھا مدرسہ تھا اور نہ تعلیمی ماحول۔ اس لیے ابتدائی تعلیم برائے نام ہی ہوسکی، ناظرہ قرآن، اردو زبان، اور کچھ میزان و بس۔
اس کے بعد ۷۳-۱۹۷۲ء میں انجمن معین الاسلام، پرانی بستی( بستی شہر) میں داخلہ لے کر درس نظامی کی ابتدائی کتابیں: نحو میر، پنج گنج، ہدایۃ النحو وغیرہ پڑھیں، وہیں معلوم ہوا کہ مدرسہ عزیز العلوم، نانپارہ، ضلع بہرائچ میں حضرت علامہ مفتی شبیر حسن رضوی مصباحی علیہ الرحمہ کا درس بہت اچھا اور معیاری ہوتا ہے اس لیے طلبِ علم کے شوق کے ہاتھوں مجبور ہوکر ذی قعدہ ۱۳۹۴ھ /۱۹۷۳ء میں نانپارہ چلے گئے اور حضرت مفتی شبیر حسن صاحب کے درس سے بہت متاثر ہوئے۔ مفتی صاحب کے پاس کافیہ ابن حاجب، شر ح جامی اور تفسیر جلالین وغیرہ کتابیں پڑھیں۔ آپ نے تین سال تک مدرسہ عزیز العلوم نانپارہ میں تعلیم پائی۔ حضرت علامہ مفتی شبیر حسن صاحب کے علاوہ عزیز العلوم میں درج ذیل اساتذۂ کرام سے تعلیم حاصل کی: (۱) حضرت مولانا عبد الوحید صاحب (۲) حضرت مولانا حسیب رضا صاحب (۳) حضرت مولانا سمیع اللہ صاحب۔ اخیر کے دونوں اساتذہ نے بعد میں آپ سے سلسلۂ عالیہ قادریہ کی اجازت و خلافت بھی حاصل کی۔
نانپارہ ہی میں آپ نے بر صغیر میں اہل سنت کی سب سے عظیم، اور بافیض درس گاہ جامعہ اشرفیہ مبارک پور، اعظم گڑھ کاتعلیمی شہرہ سنا تو دل میں وہاں داخلہ لے کر علمی تشنگی بجھانے کا حد درجہ اشتیاق پیدا ہوا۔ اسی دوران اطلاع ملی کہ جامعہ اشرفیہ کی روحِ رواں استاذ العلما، حافظ ملت علامہ شاہ عبد العزیز محدث مراد آبادی اللہ کو پیارے ہوگئے تو آپ کو بڑا قلق ہوا۔ آخر کار شوال ۱۳۹۶ھ/۱۹۷۶ء کو جامعہ اشرفیہ آگئے اور درجۂ سابعہ (فضیلت سال اول) میں داخلہ لیا، اور یہاں کے ماحول، معیارِ تعلیم، طرز تدریس اور تعلیمی نظم و نسق سے اس قدر متاثر ہوئے کہ پھر یہیں کے ہوکے رہ گئے۔ جامعہ اشرفیہ میں آپ نے درجۂ سابعہ سے درجۂ تخصص فی الفقہ تک چار سال تعلیم حاصل کی اور تمام امتحانات میں اعلیٰ درجے سے کامیاب ہوتے رہے۔ ۱۴۰۰ھ/۱۹۸۰ء میں یہیں آپ کی تعلیم کی تکمیل ہوئی اور سند و دستار سے نوازے گئے۔
جامعہ اشرفیہ میں حضرت سراج الفقہاء نے درج ذیل اساتذۂ کرام سے تعلیم حاصل کی: (۱)حضرت مولانا افتخار احمد قادری(۲)حضرت مولانا نصیر الدین عزیزی (۳)حضرت مولانا عبد الشکور قادری مصباحی(۴)حضرت مولانا محمد شفیع اعظمی، مبارک پوری۔(۵)حضرت علامہ عبد اللہ خاں عزیزی(۶) حضرت علامہ ضیاء المصطفیٰ قادری(۷) بحر العلوم حضرت علامہ مفتی عبد المنان اعظمی مبارک پوری(۸)شارحِ بخاری حضرت علامہ مفتی محمد شریف الحق امجدی ۔ فتویٰ نویسی کی تربیت حضرت شارحِ بخاری سے حاصل کی۔ ان کے علاوہ اپنے اساتذۂ کرام میں سب سے زیادہ استفادہ شیخ القرآن حضرت علامہ عبد اللہ خاں عزیزی سے کیا۔ آپ ان کی شخصیت اور طریقۂ تعلیم و تربیت سے حد درجہ متاثر ہیں اور ان کی تعریف و توصیف میں رطب اللسان رہتے ہیں۔
حضرت شیخ القرآن کے تعلق سے اپنے قلبی تاثرات کا اظہار کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ’’ہمارے جملہ اساتذہ الحمد للہ مشفق ہی ملے۔ لیکن شخصیت سازی میں جن کا کردار کسی بھی حیثیت سے نمایاں رہا ان میں حضرت شیخ القرآن سر فہرست ہیں۔
حضرت شیخ القرآن ایک اچھے مشیر اور بہتر مربی ہیں۔ مشیر کا ایک خصوصی وصف یہ ہے کہ وہ امین و خیر خواہ ہو، اس لحاظ سے میں حضرتِ والا کو ایک صائب الراے مشیر سمجھتا ہوں۔ خود راقم الحروف (محمد نظام الدین رضوی) کو حضرت نے متعدد امور میں مشورے دیے جو بہت مفید اور گراں بہا تھے۔ بسا اوقات حضرت نے از خود کسی مشورہ سے سرفراز فرمایا اور میں نے صرف آپ کے استاذ ہونے کے احترام میں ہاں، ہوں کر لیا، لیکن افادیت کے لحاظ سے مجھے اس پر عمل آوری میں کوئی خوبی نظر نہ آتی تھی، مگر حضرت نے بار بار اصرار کر کے اپنے مشورہ پر عمل کرانے میں جب کامیابی حاصل فرما لی تو بعد میں مجھے بھی اس کی ضرورت و افادیت کا شدت سے احساس ہوا۔ میرے ساتھ حضرت کے مفید مشوروں کے کئی ایک واقعات ہیں۔
حضرت (شیخ القرآن) نے تربیت کا طریقہ حضور حافظ ملت سے سیکھا ہے۔ آپ کے لیل و نہار کا مطالعہ فرمائیے تو آپ کی زندگی حسنِ سلوک اور اعلیٰ تربیت کا مجسم نمونہ نظر آئے گی۔ آج بھی آپ کے سیکڑوں تلامذہ اس پر گواہ ہیں اور حضرت شیخ القرآن کے آئینۂ اخلاق میں تو آپ اس کے جلو وں کا مشاہدہ بھی کر سکتے ہیں کہ آپ کی تربیت اسی اخلاقِ عالیہ کا نمونہ ہوتی ہے۔‘‘)(
(۲) گوشۂ اوصاف و خدمات
فتویٰ نویسی: حضرت سراج الفقہاء دام ظلہ یوں تو مختلف علمی و فنی میدانوں میں کمال رکھتے ہیں، لیکن آپ کا خاص میدان فقہ و افتا ہے۔ اس میدان میں آپ اس قدر ممتاز و نمایاں ہیں کہ معاصرین میں دور دور تک کوئی آپ کا ثانی نظر نہیں آتا۔ آپ نے بہت سے نئے فقہی مسائل کی تحقیق فرمائی، نہایت وقیع اور بیش قیمت ابحاث و تحقیقات قوم کے سامنے پیش فرمائیں، ہزاروں فتاویٰ لکھ کر امتِ مسلمہ کی الجھنوں کو دور کیا۔
آپ نے فتویٰ نویسی کی مشق فقیہ اعظم ہند، شارح بخاری حضرت علامہ مفتی محمد شریف الحق امجدی (متوفی ۱۴۲۱ھ/۲۰۰۰ء) سے کی۔در اصل فتویٰ نویسی کے لیے صرف اسلامی علوم وفنون میں مہارت کافی نہیں ہوتی، بلکہ اس کے ساتھ کسی ماہر تجربہ کار فقیہ ومفتی کی بارگاہ میں زانوے تلمذ تہ کرنا اور اپنے تحریر کردہ فتاویٰ سنا کر اصلاح لینا بہت ضروری ہوتا ہے۔ اس طرح اس فن کو بڑی حد تک علمِ طب وجراحت سے مشابہت ہے جو صرف پڑھ لینے اور مطالعہ کرلینے سے حاصل نہیں ہوتا بلکہ کسی طبیب حاذق کی نگرانی میں باضابطہ مشق و ممارست ضروری ہوتی ہے۔
اسی لیے کوئی شخص کتنا ہی بڑا عالم و فاضل ہو، دقیق النظر، ژرف نگاہ اور وسیع المطالعہ ہو مگر فقہاے کرام اسے فتویٰ نویسی کی اجازت اس وقت تک نہیں دیتے جب تک کہ وہ کسی ماہر تجربہ کار مفتی کی خدمت میں رہ کر فتویٰ لکھنے کی مشق نہ کرے۔ اسے یوں سمجھیے کہ ایک ڈاکٹر کئی اہم ڈگریاں حاصل کرچکا ہے لیکن اسے آپریشن کرنے کی اجازت نہیں ملتی، جب تک کہ وہ کسی ماہر سرجن کے ساتھ رہ کر سرجری کی مشق کرکے سرجری کے فن میں کامل نہ بن جائے۔ بلکہ ڈاکٹر کو صرف تعلیم سے فراغت کے بعد مطب کرنے کی اجازت بھی نہیں ملتی جب تک کہ وہ ’’ہاؤس جاب‘‘ نہ کرلے، یعنی کسی اسپتال میں جاکر کہنہ مشق ڈاکٹروں کی نگرانی میں وہ ایک مدت تک امراض کی تشخیص اور نسخہ نویسی کی مشق نہ کرلے۔ یہی حال فتویٰ نویسی کا ہے۔
فقیہ الہند حضرت شارح بخاری نے فقیہ اعظم حضرت صدر الشریعہ علامہ مفتی محمد امجد علی اعظمی رضوی (متوفی ۱۳۶۷ھ/۱۹۴۸ء) اور مفتی اعظم ہند علامہ محمد مصطفی رضا قادری نوری (متوفی ۱۴۰۲ھ/۱۹۸۱ء) سے فتویٰ نویسی کی تربیت پائی تھی اور سراج الفقہاء حضرت علامہ مفتی محمد نظام الدین رضوی نے حضرت شارح بخاری سے فقہ و افتا کی تربیت حاصل کی، اس طرح صرف دو واسطوں سے آپ فقہ و افتا میں فیضان رضا سے بہرہ ور اور مستفیض ہیں، اور آپ کے فتاویٰ میں امام احمد رضا قدس سرہ کی علمی تحقیق اور فقہی بصیرت کی جھلک صاف نظر آتی ہے۔
۱۴۰۰ھ/۱۹۸۰ء میں جامعہ اشرفیہ، مبارک پور سے فراغت کے بعد جامعہ کے ارباب حل و عقد نے تدریس کے ساتھ افتاکے کام کے لیے آپ کا انتخاب کیا، اور حضرت شارحِ بخاری کے زیر نگرانی آپ نے فتویٰ نویسی کا کام شروع فرمایا، ابتدا میں آپ شارح بخاری کے پاس بیٹھ کر ملک و بیرون ملک سے آئے ہوئے سوالات پڑھ کر سناتے، اور حضرت جو جواب بولتے آپ اسے لکھا کرتے، پھر حضرت آپ کو کچھ سوالات بھی دینے لگے اور ان کے جوابات لکھ کر سنانے کی تلقین فرمانے لگے۔ چند سالوں تک حضرت شارحِ بخاری کی بارگاہ میں اصلاح و تربیت کے عمل سے گزرنے کے بعد آپ کو اس فن میں خاصی مہارت اور کمال حاصل ہوگیا۔ مندرجہ ذیل سطور میں حضرت شارح بخاری سے تربیت و اصلاح لینے کی کہانی خود حضرت سراج الفقہا کی زبانی ملاحظہ فرمائیں، آپ اپنے ایک مقالہ میں لکھتے ہیں: ’’ہم سبھی لوگوں نے فتویٰ نویسی اس طور پر سیکھی کہ سوال پڑھ کر حضرت کو سناتے، اور حضرت اس کا جواب املا کراتے، املا کے دوران حوالے کے لیے فقہی عبارتوں کی تلاش کبھی املا نویس کرتے، اور کبھی خود حضرت۔ اس دوران ہم الگ سے کچھ مسائل کا جواب اپنے طور پر بھی لکھ کر سناتے اور اصلاح لیتے۔ جب حضرت کو یہ محسوس ہوتا کہ اب یہ خود سے فتویٰ لکھ سکیں گے تو املا نویسی بند کرکے اپنے طور پر فتوے لکھنے کا کام سپرد فرماتے، پھران کی اصلاح کرکے اپنی تصدیق کے ساتھ جواب جاری کرتے۔ فتوے کی اصلاح کا کام بہت مشکل ہوتا ہے۔ خود میرا حال یہ ہے کہ سوال بار بار بغور پڑھتا ہوں، پھر مطالعہ کرکے اس کا جواب لکھتا ہوں، لکھنے کے بعد ایک بار پھر سوال و جواب پر نظر ثانی کرتا ہوں ان مراحل سے گزر کر پھر اصلاح کے لیے حضرت کو سناتا ہوں، حضرت پورا سوال و جواب بہت غور سے حاضر دماغی کے ساتھ سنتے اور اصلاح فرماتے ہیں، کبھی کبھی فرماتے ہیں کہ سائل نے ایک بات یہ بھی دریافت کی ہے اس کا جواب نہیں ہوا ہے۔ میرے ہزاروں فتاویٰ ہیں، اور ان پر حضرت کی قیمتی اصلاحات بھی۔ نہ سب یاد ہیں، نہ سب کو اس وقت پیش کرسکتا ہوں۔
مفتی پر لازم ہے کہ نقول مذہب پر سختی کے ساتھ قائم رہ کر اسی کے مطابق فتوے لکھے، لیکن ساتھ ہی حالات زمانہ کی رعایت، عرف و عادات ناس سے واقفیت اور صورت مسئلہ کی تبدیلی پر بھی نظر رکھنی ضروری ہوتی ہے، میں اس باب میں جامدِ محض تھا، مگر اب جامد نہیں۔ یہ تبدیلی مکمل طور پر حضرت (شارح بخاری) کی اصلاح و تربیت کا فیض ہے،جدید مسائل میں عصری اسلوب پر میری جو بھی تصانیف ہیں وہ اسی فکری پیداوار کی دین ہیں، ورنہ کہاں وہ جمود اور کہاں یہ شعور۔‘‘
اس طرح آپ نے ۱۴۰۱ھ/۱۹۸۱ء سے لے کر ۱۴۲۱ھ/۲۰۰۰ء تک مسلسل بیس سال حضرت صدر الشریعہ علامہ محمد امجد علی اعظمی اور مفتی اعظم علامہ مصطفی رضا نوری کے نظر کردہ و پروردہ باکمال فقیہ و مفتی حضرت شارح بخاری کی نگرانی و سرپرستی میں پوری محنت اور لگن کے ساتھ فتویٰ نویسی کا کام کیا۔ اور حضرت کی زندگی ہی میں بر صغیر کے ایک جلیل القدر فقیہ و مفتی اور جدیدشرعی مسائل کے ایک عظیم محقق کی حیثیت سے مشہور ہوگئے، اور اپنے استاذ و مربی کا مکمل وثوق و اعتماد حاصل کرلیا۔ خود حضرت شارح بخاری اپنی عمر کے دور اخیر میں اس کا برملا اعتراف و اظہار فرماتے تھے اور آپ کے فتاویٰ کو قدر کی نگاہ سے دیکھتے تھے اور کھلے دل سے ان کی تعریف و تحسین فرماتے تھے۔ حضرت شارح بخاری آپ کی کتاب ’’جدید بینک کاری اور اسلام‘‘ کے مقدمہ میں لکھتے ہیں:
’’جب یہ ۱۴۰۰ھ /۱۹۸۰ء میں فارغ ہوگئے تو ان کے سر پر ہوش مندی کے درخشاں ستارے کو میرے علاوہ اس وقت کے (جامعہ اشرفیہ کے) ارباب حل و عقد نے بھی دیکھا۔ میرے مبارک پور پہنچنے کے بعد دارالافتا کا کام بہت بڑھ گیا تھا، دارالافتامیں بھی ایک آدمی کی ضرورت تھی۔ میری درخواست پر ارباب حل و عقد نے انھیں تدریس واِفتا دونوں کاموں پر مشترک رکھا۔ اور اللہ عزوجل کا شکر ہے کہ میں نے یا ارباب حل و عقد نے انھیں منتخب کرنے میں کوئی غلطی نہیں کی تھی، بلکہ ایسا انتخاب کیا تھا جو بالکل صحیح اور بجا تھا۔ تدریس و افتا دونوں شعبوں میں یہ ہر طرح کامیاب رہے، شعبۂ اِفتا میں ان کی کامیابی کی دلیل یہ کتاب تو ہے ہی، ان کے ہزاروں فتاویٰ بھی ہیں اور ان کی دوسری تصانیف بھی۔
اس وقت جب کہ میں بہ تقاضاے سن، اِضمحلالِ قُویٰ و ضعف بصارت کی وجہ سے، نیز بعض شدید ترین ذہنی الجھنوں کی وجہ سے اہم فتاویٰ لکھنے سے معذور ہوں، یہی اس قسم کے تمام اہم فتاویٰ لکھتے ہیں، اور بہت غور و خوض اور کامل مطالعہ کے بعد لکھتے ہیں جس سے مجھے ان پر مکمل اعتماد ہے اور ان شاء اللہ تعالیٰ رہے گا۔‘‘
حضرت سراج الفقہا دام ظلہ نے اب تک دس ہزار سے زائد فتاویٰ تحریر فرمائے، اور تادم تحریر تسلسل کے ساتھ فتویٰ نویسی کا کام جاری و ساری ہے۔۶؍ صفر ۱۴۲۱ھ/۱۱؍ مئی ۲۰۰۰ء میں حضرت شارح بخاری کی رحلت کے کچھ عرصے ہی کے بعد آپ جامعہ اشرفیہ مبارک پور کے صدر شعبۂ افتا کے منصب جلیل پر فائز ہوگئے، اور اِس وقت نصف درجن مفتیان کرام آپ کی نگرانی میں فتویٰ نویسی کا کام کررہے ہیں، اور آپ فتویٰ نویسی کے ساتھ ہی ان کے فتاویٰ کی اصلاح اور تصدیق و تایید کی ذمہ داری بھی نبھاتے ہیں۔شعبۂ تخصّصِ فقہ کے طلبہ بھی برابر آپ سے قضا و افتا کی تربیت لیتے اور فتویٰ نویسی کی مشق کرتے ہیں۔
علاوہ ازیں فقیہ ملت حضرت مولانا مفتی جلال الدین احمد امجدی کے وصال (۳؍ جمادی الآخرہ ۱۴۲۲ھ) کے بعد شوال ۱۴۲۲ھ سے ایک زمانے تک)( مرکز تربیت افتا کے صدر اعلیٰ کی حیثیت سے وہاں کے شعبۂ افتا کے طلبہ کی اصلاح و تربیت بھی فرماتے رہے ہیں۔ خوشی کی بات یہ ہے کہ آپ کے زیر نگرانی لکھے گئے فتاویٰ تقریباً ۱۳۵۰ صفحات پر مشتمل دو جلدوں میں منظر عام پر آچکے ہیں جن میں اکہتر ابواب کے ایک ہزار تین سو تیرہ مسائل ہیں۔ یہ حضرت مفتی صاحب کی مخلصانہ خدمات کا بہترین ثمرہ ہے۔ اس طرح اس میدان میں آپ کی شخصیت بے نظیر اور آپ کی خدمات آب زر سے لکھنے کے لائق ہیں۔ اللہ تعالیٰ آپ کو صحت و عافیت کے ساتھ عمر خضر عطا فرمائے۔ آمین۔
بحث و تحقیق اور مقالہ نگاری: بحث و تحقیق اور مقالہ نگاری میں بھی آپ منفرد عالمانہ اسلوب کے مالک ہیں۔ جامعہ اشرفیہ کے شعبۂ تخصُّص فی الفقہ میں داخلہ کے بعدآپ نے بحث و تحقیق اور مقالہ نگاری کی طرف توجہ فرمائی اور بڑی محنت، لگن اور کوشش سے اس فن میں مہارت و کمال حاصل کیا۔تخصُّص فی الفقہ کے لیے آپ کے مقالہ کا موضوع تھا ’’فقہِ حنفی کا تقابلی مطالعہ: کتاب و سنت کی روشنی میں۔‘‘ اور اس مقالہ کے نگراں شیخ القرآن حضرت علامہ عبد اللہ خان عزیزی تھے جو بڑے روشن فکر، وسیع النظر، عالی دماغ اور جیّد عالم دین تھے،بحث و تحقیق اور قرطاس و قلم کا بھی اچھا ذوق اور وسیع تجربہ رکھتے تھے، حضرت سراج الفقہاء نے باضابطہ ان سے یہ فن سیکھا اور اپنی فطری ذہانت اور خداداد صلاحیت سے اس میں کمال پیدا کیا، آپ نے بارہا راقم سطور سے اس کا اظہار فرمایا اور خود اپنے ایک مقالہ میں اس کی صراحت بھی کی ہے۔ آپ رقم طراز ہیں:
’’کچھ مجبوریوں کی وجہ سے درجۂ سابعہ یا زیادہ سے زیادہ درجۂ فضیلت کے بعد ترکِ تعلیم اور ملازمت کا ارادہ تھا۔ حضرت شیخ القرآن کے حکم پر بادلِ ناخواستہ کسی طرح آمادہ ہوا۔اور درجہ تحقیق میں آنے کے بعد جو حیرت انگیز تبدیلی میرے ذہن و فکر میں آئی وہ روایتی درس و تدریس سے نہیں، بلکہ مقالہ نویسی کے لیے جد وجہد سے آئی، سچ یہ ہے کہ تحریری حیثیت سے مجھے ایک خط لکھنے کا بھی جیسا سلیقہ ہونا چاہیے تھا، نہ تھا۔ مقالہ کے لیے مواد کی فراہمی کیسے کی جائے اس سے ناآشنا تھا، کسی مسئلہ کی تحقیق کیسے ہونی چاہیے اس کا شعورنہ تھا۔ میں اپنے مقررہ مقالہ کا ابتدائی مضمون لکھ کر مقالہ کے نگراں استاذ مکرم (حضرت شیخ القرآن) کو سترہ روز تک دکھاتا رہا۔ وہ ملاحظہ فرماکر مسکراتے ہوئے کچھ ہدایات کے ساتھ واپس فرمادیتے۔ ایک روز فرمایا کہ اب تمہارا یہی مضمون میں بولتا ہوں، تم لکھو۔ املا نویسی شروع ہوگئی، تقریباً پون گھنٹے کی املا نویسی سے مجھے ایسا محسوس ہوا کہ اندھیرے سے اجالے میں آگیا ہوں۔ یہ سلسلہ تدریجاً سال بھر یا اس سے زیادہ دنوں تک چلتا رہا۔ اور میرے پاس جو کچھ تحریری صلاحیت ہے وہ اسی املا نویسی کا فیض ہے، اور تحقیق کا جو کچھ بھی ذوق ہے وہ اسی مقالہ نویسی کی دین ہے۔ اس بابرکت مقالہ کا عنوان تھا: ’’فقہ حنفی کا تقابلی مطالعہ، کتاب و سنت کی روشنی میں۔‘‘ یہ مقالہ تو تیار نہ ہوسکا)( لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ اسی کی برکت سے میں کسی قابل ہوسکا، اور آج میرے پاس جو کچھ بھی سرمایہ ہے اس کا وسیلہ یہی مقالہ ہے، بلکہ صحیح بات تو یہ ہے کہ حضرت شیخ القرآن علامہ عبد اللہ خان عزیزی کی کرم فرمائی اور ان کی ذہنی کاوش کا نتیجہ ہے۔‘‘
آپ کے قلم سے بہت سے وقیع اور شان دار مقالات و مضامین منصہ شہود پر آئے اور آپ کے اشہب قلم نے جس میدان کا رخ کیا اسے سر کیے بغیر نہ چھوڑا، جس حق کو چاہا اس کا چہرہ نکھار کر روشن کر دیا، اور جس باطل پر کمند ڈالی اسے کھینچ کر روند ڈالا، اس طرح آپ کے قلم میں فیضان فاروق اعظم کی روشنائی رواں دواں اور علماے ربانیین کی حمایت حق اور استیصالِ باطل کی جلوہ آرائی اور کار فرمائی صاف جھلکتی نظر آتی ہے۔
آپ کے مقالات و مضامین اور قلمی نقوش و آثار، علمی و تحقیقی اسلوب کا خوب صورت رنگ لیے رہتے ہیں، باتیں نپی تلی اور پتے کی ہوتی ہیں، مضامین کی فراوانی بھی خوب ہوتی ہے، لیکن مفہوم کی ترسیل اور معانی کی تفہیم کہیں بھی متاثر ہوتی نظر نہیں آتی، آپ کے ان قلمی نقوش کا امتیازی و صف، تحقیق و تدقیق ہوتا ہے۔
مختلف دینی و علمی موضوعات پر آپ کی قیمتی اور جامع تحریریں، وقیع اور گراں قدر مقالے ماہ نامہ اشرفیہ مبارک پور، جام نور دہلی، کنز الایمان دہلی، سہ ماہی سنی دعوت اسلامی ممبئی، ماہ نامہ تہذیب الاخلاق علی گڑھ، ماہ نامہ رفاقت پٹنہ، ماہ نامہ حجاز جدید دہلی، ماہ نامہ معارف رضا کراچی، سال نامہ ’’اہل سنت کی آواز‘‘ مارہرہ شریف، سال نامہ ’’یادگار ایوبی‘‘، پپرا کنک، کشی نگر وغیرہ رسالوں میں شائع ہوکر عوام و خواص کے درمیان مقبول ہوتے رہے ہیں، ماہ نامہ اشرفیہ مبارک پور میں پابندی کے ساتھ آپ کے منتخب فتاویٰ اور گراں قدر مضامین چھپ کر ماہ نامہ کا وقار بلند کررہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ آپ کی فکرو قلم کو مزید استحکام اور توانائی بخشے اور انھیں اپنے خاص فیضان وتوفیق کا حسین سنگم بنائے۔
مسندِ تدریس و ارشاد پر: جامعہ اشرفیہ مبارک پور سے فراغت کے بعد جامعہ کے ذمہ داروں نے آپ کو افتا کے ساتھ تدریس کے لیے بھی منتخب فرمایا، اور بہ قول شارح بخاری علامہ مفتی محمد شریف الحق امجدی ’’ان لوگوں نے اس انتخاب میں کوئی غلطی نہیں کی، بلکہ ایسا انتخاب کیا جو بالکل صحیح اور بجا ہے۔‘‘
اس طرح ۱۹۸۱ء سے آج تک مسلسل چالیس سال سے پوری تیاری اور ذمہ داری کے ساتھ بڑی عرق ریزی اور جاں سوزی اور کمالِ مہارت کے ساتھ آپ تشنگانِ علوم کو سیراب کررہے ہیں، زیادہ تر آپ کے ذمہ درجاتِ عا لمیت و فضیلت اور تخصُّص کی کتابیں ہوتی ہیں۔ جنھیں آپ پوری حاضر دماغی کے ساتھ پڑھاتے اور صحیح معنوں میں حق تدریس ادا کرتے ہیں۔ آپ کے درس کی کچھ الگ ہی شان ہوتی ہے۔ اسی لیے طلبہ آپ کے درس میں بڑی رغبت اور شوق سے شریک ہوتے ہیں اور ہمہ تن گوش ہوکر سنتے اور استفادہ کرتے ہیں۔ تدریس کے باب میں آپ کی سوچ یہ ہے کہ طلبہ کو زدوکوب اور سختی کے ذریعہ درس کا پابند نہ بنایا جائے، بلکہ محنت اور کوشش کرکے اپنے درس کو اتنا دلچسپ بنا دیا جائے کہ طلبہ خود کشاں کشاں درس گاہ کی طرف چلے آئیں اور پوری توجہ سے درس سماعت کریں۔
ابتدا میں آپ نے اپنے درس کو دلچسپ بنانے کے لیے اپنے اساتذۂ کرام میں سے حضرت شیخ القرآن علامہ عبد اللہ خاں عزیزی سے خصوصی استفادہ کیا اور طلبہ کو اپنے درس کا گرویدہ بنا لیا۔ اس کی کہانی خود انھیں کی زبانی نذرِ قارئین ہے۔ آپ فرماتے ہیں: ’’میری تدریس کے دوسرے سال، تفسیر کی عظیم الشان کتاب ’’جلالین شریف‘‘ میرے زیر درس آئی،(ابتدا میں) اس کتاب کے کئی صفحات کا مطالعہ کرلینے کے بعد بھی میں تشنہ ہی رہا، اور میرے ذہن میں کوئی ایسا طریقۂ تدریس و تعلیم نہ آسکا جس پر گام زن ہوکر میں تشفی بخش درس دے کر مطمئن ہوجاتا۔ اور طلبہ پورے ذوق و شوق کے ساتھ درس گاہ میں حاضر ہوکر میری درسی تقریر کامل توجہ کے ساتھ سماعت کرتے۔ میں اس بات کا قائل نہیں کہ طلبہ کو غیر حاضری پر زدوکوب کیا جائے، میرا نقطۂ نظریہ ہے کہ درس اتنا پرمغز، تسلی بخش اور دلچسپ بنا دیاجائے کہ طلبہ خود ہی کشاں کشاں درس گاہ میں حاضر ہوجائیں، مگر جلالین شریف کے پڑھانے کے لیے مجھے ایسے مواد فراہم نہیں ہوپارہے تھے۔ اس لیے اپنے استاذ مکرم شیخ القرآن مدظلہ العالی کی بارگاہ میں حاضری دی اور اپنی الجھن سے آگاہ کیا تو حضرت مسکرانے لگے، فرمایا کہ جلالین شریف کا درس تو بہت دلچسپ اور کامیاب ہوسکتا ہے۔ پھر حضرت نے کئی ایک قیمتی معلومات دیں، اور خاص کر طریقۂ تدریس کے تعلق سے فرمایا کہ ’’جلالین شریف میں تفسیر کا کوئی نقطہ بھی زائد نہیں ہے۔ہر لفظ بقدر ِ حاجت لایا گیا ہے اور ساتھ ہی اس لفظ کے ذریعہ تفسیر کی کوئی نہ کوئی وجہ ضرور ہے۔ آپ وجہِ تفسیر بتانے کا التزام کریں درس مقبول ہوگا۔‘‘ پھر حضرت نے تین چار سطریں پڑھ کر مختلف کلمات پر توجہ دلا کر ان کی وجہِ تفسیر بتائی۔ اب مجھے گوہر مقصود حاصل ہوگیا تھا اور قلب و فکر کے دریچے کھل چکے تھے، دل باغ باغ ہوگیا۔
اس کے مطابق درس شروع کیا تو طلبہ میں اس کا شہرہ پھیل گیا۔ دوسرے یا تیسرے روز حضرت صدر المدرسین بحر العلوم مفتی عبد المنان صاحب قبلہ میری درس گاہ میں تشریف لائے، اور فرمایا کہ کس طرح پڑھاتے ہو کہ طلبہ میں بے پناہ پذیرائی ہورہی ہے؟ میں نے عرض کیا کہ وجوہِ تفسیر کے بیان کا التزام کرتا ہوں۔تو فرمانے لگے کہ سبحان اللہ، یہی طریقۂ تدریس حضور حافظ ملت کا تھا۔ مجھے خوشی ہوئی کہ حضور حافظ ملت کے ایک تلمیذ کے ذریعہ مجھے ان کی (علمی) میراث کا نہایت قیمتی سرمایہ ملا، اور اب وہ میراث ان کے تلمیذ کے تلمیذ کے تلامذہ میں بغیر کسی ’’مناسخہ‘‘ کے تقسیم ہورہی ہے۔‘‘
آپ کی درسی تقریر بہت واضح، شستہ ا ور جامع ہوتی ہے جو درس کے تمام ضروری گوشوں کو محیط ہوتی ہے، اگر کتاب کی عبارت بظاہر قابل اعتراض اور پیچیدہ ہوتی ہے تو اختصار و جامعیت کے ساتھ اس کی ایسی توضیح وتشریح فرماتے ہیں کہ سرے سے اعتراض ہی نہیں پڑتا اور عبارت شکوک و شبہات کے گردوغبار سے پاک و صاف معلوم ہوتی ہے۔ عام حالات میں آپ کی درسی تقریر اطناب و تفصیل سے خالی ہوتی ہے لیکن جہاں موقع محل، تفصیل کا تقاضا کرتا ہے، وہاں آپ اس مقام کے تقا ضوں کی بھر پور رعایت فرماتے ہیں۔ اس طرح آپ تدریسی میدان میں ایک نہایت ذمہ دار، مخلص اور کامیاب استاذ نظر آتے ہیں۔
منصبِ شیخ الحدیث پر: محدّث کبیر حضرت علامہ ضیاء المصطفیٰ قادری سابق شیخ الحدیث جامعہ اشرفیہ، مبارک پور کے بعد محدّث جلیل حضرت مولانا عبد الشکور مصباحی مد ظلّہ العالی جامعہ میں شیخ الحدیث کے منصب پر مقرر ہوئے، اور جب شدید علالت کی وجہ سے جنوری ۲۰۱۶ء میں وہ اپنے صاحب زادے کے گھر الہ آباد تشریف لے گئے تو حضرت سراج الفقہاء دام ظلّہ نے یہ علمی منصب سنبھالا اور پابندی کے ساتھ صحیح بخاری کا درس دینے لگے، اور طلبہ کو اپنے علمی فیضان سے بہرہ ور کرنے لگے۔
آپ کا درسِ بخاری بہت موثر، جامع اور محققانہ ہوتا ہے، پہلے طلبہ سے سند کے ساتھ احادیث بخاری کی عبارت خوانی کرواتے ہیں، اور اسے غور سے سنتے ہیں، غلطی ہونے کی صورت میں اس کی اصلاح کرتے ہیں، پھر حسبِ ضرورت ترجمہ اور تشریح کرتے ہیں، اس دوران احادیث کی ترجمۃ الباب سے مطابقت اور فقہ الحدیث پر خصوصی توجہ دیتے ہیں، مختصر لفظوں میں باب کا خلاصہ، وجہِ مطابقت اور احادیث سے جدید وقدیم مسائل کا استخراج وطریقۂ استخراج اور مشکل مقامات کی توضیح اور مناسب حل آپ کے درس کا خصوصی حصّہ ہوتا ہے۔ گزشتہ چار سالوں سے جشن ختم بخاری شریف کے حسین موقع پر صحیح بخاری کی آخری حدیث کا درس بھی دے رہے ہیں اور کمال کی بات یہ ہے کہ ہر سال حدیث کی تقریر وتشریح الگ اسلوب اور چشم کشا مباحث پر مشتمل ہوتی ہے۔ اس سے جہاں حضرت سراج الفقہاء کے علمی وتحقیقی کمال کا پتا چلتا ہے، وہیں حدیث رسول اللہ ﷺ کی حیرت انگیز معنویت اور بے مثال جامعیت کا بھی اندازہ ہوتا ہے۔
علمی مذاکرات میں شرکت: حضرت سراج الفقہاء دام ظلہ بہت سے علمی مذاکرات (سیمیناروں)اور فقہی مجلسوں میں شرکت فرماچکے ہیں، اور ان تمام مذاکرات میں آپ کی شرکت مؤثّر، فعّال، باضابطہ اور با مقصد رہی۔ بحثوں میں بھر پور حصہ لینا، موضوعات کے تمام ضروری گوشوں کو نگاہ میں رکھتے ہوئے ایسی محققانہ گفتگو فرمانا کہ شکوک و شبہات کے تمام بادل چھٹ جائیں اور حق کا چہرہ روشن اور تابندہ ہوجائے یہ آپ کا طرۂ امتیاز ہے، آپ جس سمینار میں شرکت فرماتے ہیں اس کے میرِ مجلس اور روحِ رواں نظر آتے ہیں، آپ کی بحثیں اور تنقیحات فیصلہ کی بنیاد بنتی ہیں۔حسنِ استدلال، زور بیان، طرزِ استخراج اور جزئیات کا برمحل اور مناسب انطباق کرنے میں اپنی مثال آپ ہیں۔ اب تک آپ درج ذیل سمیناروں میں شرکت فرماچکے ہیں:
(۱) سہ روزہ سمینار، مسلم یونیورسٹی، علی گڑھ، منعقدہ ۱۵؍ ۱۶؍ ۱۷؍ جنوری ۱۹۸۶ء موضوع: ’’مدارس اسلامیہ میں سائنس کی ضرورت۔‘‘ (۲) یک روزہ فقہی سمینار شرعی بورڈ، منعقدہ ۱۵؍صفر ۱۴۰۶ھ /۳۰؍ اکتوبر ۱۹۸۶ء بمقام: جامعہ حمیدیہ بنارس۔ (۳) دو روزہ فقہی سمینار شرعی بورڈ، منعقدہ ۳؍۴؍ ذی قعدہ۱۴۰۶ھ / ۱۱؍۱۲؍جولائی ۱۹۸۷ء، بمقام:سنٹرل بلڈنگ، جامعہ اشرفیہ مبارک پور، اعظم گڑھ (یو۔پی۔) (۴) چارروزہ فقہی سمینار شرعی بورڈ،۲۶؍۲۷؍۲۸؍۲۹؍جمادی الاولیٰ ۱۴۰۷ھ مطابق ۲۷؍۲۸؍۲۹؍۳۰؍جنوری ۱۹۸۷ء بموقع عرس عزیزی، بمقام: جامعہ اشرفیہ مبارک پور۔ (۵) یک روزہ فقہی سمینار شرعی بورڈ، اوائل ذی قعدہ ۱۴۰۷ھ، بمقام: سنٹرل بلڈنگ، جامعہ اشرفیہ مبارک پور، اعظم گڑھ (یو۔پی۔) شرعی بورڈ کے زیر اہتمام منعقد ہونے والے ان چار سمیناروں میں متعدد پیچیدہ مسائل کے ساتھ مندرجہ ذیل دو اہم موضوعات پر بحث و مذاکرہ ہوا: (۱) رویتِ ہلال (۲) لاؤڈاسپیکر پر نماز ان میں آپ کے مقالہ ’’لاؤڈاسپیکر پر نماز‘‘ کی بڑی پذیرائی ہوئی۔ یہی مقالہ بعد میں کچھ ترمیم و اضافہ کے ساتھ ’’لاؤڈاسپیکر کا شرعی حکم‘‘ کے نام سے کتابی شکل میں شائع ہوا۔ (۶)تیسرا فقہی سمینار زیر اہتمام مجمع الفقہ الاسلامی (انڈیا)، منعقدہ ۸تا۱۱؍ جون ۱۹۹۰ء، بمقام:دارالعلوم سبیل الرشاد بنگلور ( کرناٹک)۔ موضوعات: (۱) اسلامی بینکنگ (۲) بیع مرابحہ (۳) حقوق کی بیع (۷) چوتھا فقہی سمینار زیر اہتمام مجمع الفقہ الاسلامی (انڈیا)، منعقدہ ۹تا۱۲؍ اگست ۱۹۹۱ء، بمقام: دارالعلوم، سبیل السلام، حیدرآباد (دکن) موضوعات: (۱) دو ملکوں کی کرنسیوں کا ادھار تبادلہ (۲) بیمۂ جان و مال۔ ان دونوں سمیناروں میں تقریباً ڈھائی سو دیوبندی علما نے شرکت کی۔ حضرت سراج الفقہاء دام ظلہ نے ان میں شرکت فرماکر فقہی اصول و جزئیات کی روشنی میں اپنے موقف کو نہ صرف ثابت فرمایا، بلکہ اپنے خلاف موقف رکھنے والے دیوبندیوں کے اکابر علما کو اپنے موقف پر نظر ثانی کرنے کے لیے مجبور کردیا اور اہل سنت و جماعت کا سر فخر سے اونچا کردیا۔ ان دونوں سمیناروں کی قدرے تفصیل حضرت شارح بخاری علامہ مفتی محمد شریف الحق امجدی نے آپ کی کتاب ’’جدید بینک کاری اور اسلام‘‘ کے مقدمہ میں بیان فرمائی ہے۔ (۸)علمی مذاکرہ،منعقدہ جامعہ قادریہ، رچھا، بریلی شریف،ستمبر ۱۹۸۹ء موضوع: ’’مدارس کے اسباب زوال اور ان کا علاج۔‘‘ (۹) امام احمد رضا سمینار اور کانفرنس،منعقدہ ۱۰-۱۱؍ شوال ۱۴۱۲ھ /۱۴-۱۵؍ اپریل ۱۹۹۲ء، بمقام:لکھنؤ۔ موضوع مقالہ: ’’امام احمد رضا کا ذوقِ عبادت مکتوبات کے آئینے میں۔‘‘ (۱۰) صدر الافاضل سمینار،منعقدہ نومبر ۱۹۹۲ء، بمقام:تلشی پور، ضلع گونڈہ۔ موضوع مقالہ: ’’صدر الافاضل بہ حیثیت مفسر قرآن۔‘‘ (۱۱) صدر الشریعہ سمینار،منعقدہ ۲-۳؍ذوقعدہ ۱۴۱۷ھ/۱۱-۱۲؍ مارچ ۱۹۹۷ء، بمقام: جامعہ امجدیہ رضویہ، گھوسی، مئو۔ موضوع مقالہ: ’’بہار شریعت کا فقہی مقام۔‘‘ (۱۲) اسلام اور تصوف سمینار، منعقدہ اکتوبر ۱۹۹۸ء،بمقام: مدرسہ فیض الرسول رچھا، بریلی شریف۔موضوع مقالہ: ’’اسلام اور تصوف۔‘‘ (۱۳) البرکات سمپوزیم،منعقدہ ۲۲-۲۳؍جولائی ۲۰۰۰ء، بمقام:مسلم یونیورسٹی، علی گڑھ۔اس کے لیے آپ نے دو مقالے تحریر کیے: ۱- جامعۃ البرکات میں مدارس کے فارغ التحصیل طلبہ کی عصری تعلیم و تربیت۔ ۲- فی الوقت سنّی جامعات کس نہج پر ہیں؟ (۱۴) مسائل قضا سے متعلق سمینار، منعقدہ ۱۵؍شعبان ۱۴۲۲ھ /۲؍ نومبر ۲۰۰۱ء، بمقام: جامعہ قادریہ، دودھی، ضلع سون بھدر (یو۔پی۔) موضوعِ مقالہ: ’’عصر حاضر میں دارالقضاء کی ضرورت اور چند مسائل۔‘‘ (۱۵) دو روزہ سمینار و کانفرنس،منعقدہ ۲۴-۲۵؍ مارچ ۲۰۰۴ء، بمقام: مسلم یونیورسٹی، علی گڑھ۔ موضوعِ مقالہ: ’’اترپردیش کے مسلمانوں کے مسائل اور ان کا حل۔‘‘ (۱۶-۲۲) فقہی سمینار بورڈ دہلی کے مذاکرات: فقہی سمینار بورڈ دہلی کے سات سیمینار منعقد ہوئے آپ نے پوری تیاری کے ساتھ ان میں شرکت فرمائی، بلکہ سچی بات تو یہ ہے کہ یہ سبھی سمینار آپ کی ہی بدولت کامیابی سے ہم کنار ہوئے۔ یہ سمینار جولائی ۲۰۰۳ء سے جولائی ۲۰۰۵ء تک الگ الگ تاریخوں میں مختلف مقامات پر منعقد ہوئے۔ ان میں کل پچیس اہم موضوعات زیر بحث آئے اور بحث و مذاکرہ کے بعد ان کے شرعی احکام پر اتفاق ہوا۔ (۲۳) دوسرا سمینار، شرعی کونسل آف انڈیا، منعقدہ ۱۵-۱۶؍ رجب ۱۴۲۶ھ/ ۲۱-۲۲؍اگست ۲۰۰۵ء بمقام: جامعۃ الرضا، متھرا پور، بریلی شریف۔ موضوعات: (۱)جدید ذرائع ابلاغ، ثبوتِ ہلال میں معتبر ہیں یا نہیں؟ (۲)جمرات کی موجودہ شکل میں رمیِ جمرات کا حکم (۳) انٹر نیٹ وغیرہ جدید آلات کے ذریعہ بیع و شرا کی حیثیت۔ (۲۴) دوروزہ فقہی سمینار، منعقدہ ۲۵-۲۶؍ شعبان ۱۴۲۸ھ/۸-۹؍ ستمبر ۲۰۰۷ء بمقام: کے کے بی فنکشن ہال، آدونی (حیدرآباد) موضوع مقالہ: ’’تقلید کی شرعی حیثیت۔‘‘ (۲۵) سہ روزہ کل ہند فقہی سمینار و کانفرنس منعقدہ ۱۳-۱۴-۱۵؍ اپریل ۲۰۰۷ء بمقام: اردو گھر، مغل پورہ ، حیدرآباد (دکن) ۔ یہ سمینار عصر حاضر کے ۱۹؍ اہم مسائل پر ہوا۔ (۲۶) پانچ روزہ سمینار و تربیتِ اساتذہ کیمپ، منعقدہ ۷؍ مارچ تا ۱۱؍، مارچ ۲۰۰۸ء بمقام: امام احمد رضا لائبریری، جامعہ اشرفیہ، مبارک پور۔ موضوع مقالہ: ’’تدریس فقہ و اصول فقہ۔‘‘ (۲۷) اصلاحِ معاشرہ سمینار،منعقدہ ۲۵؍ مئی ۱۹۹۴ء بمقام: الجامعۃ الاسلامیہ ، مبارک پور۔ موضوع مقالہ: ’’ مسلم معاشرہ کی خرابیاں اور ان کی اصلاح کے راستے۔‘‘ (۲۸) سہ روزہ کل ہند فقہی سمینار و کانفرنس، جامعۃ المومنات حیدر آباد۔ ۲۰؍ ۲۱؍ ۲۲؍ فروری ۲۰۰۹ء جمعہ، ہفتہ، اتوار۔ یہ سمینار عصر حاضر کے تیس سے زیادہ مسائل پر ہوا۔ حیدرآباد کے پہلے اور بعد کے تمام سیمیناروں میں آپ کی شرکت بہت کامیاب اور اہم رہی، مندوبین کی بحثیں سن کر آپ سب کے دلائل پر گفتگو کرتے، پھر محاکمہ کے انداز میں ایک فیصلہ سناتے جس پر سب کا اتفاق ہوتا اور وہی قولِ فیصل قرارا پاتا۔ ۲۰۱۵ء والے سیمینار میں آخری روز آپ کو پونہ (مہاراشٹر) کے ایک اجلاس میں شریک ہونا تھا، اس لیے جب آپ معذرت کر کے مجلس مذاکرہ سے رخصت ہونے لگے تو مندوبین نے افسوس کا اظہار کیا اور کہنے لگے کہ ’’یہاں سے آپ نہیں جا رہے ہیں، سیمینار کی روح جا رہی ہے، خدا آپ کو سلامت رکھے۔‘‘ (۲۹) یک روزہ امام اعظم سیمینار، بارہ دری، لکھنؤ ۔ ۲۴؍ مارچ ۲۰۱۳ء۔
(۳۰ - ۵۵) مجلس شرعی جامعہ اشرفیہ مبارک پور کے سمینار: دور جدید کے پیچیدہ مسائل کا شرعی حل پیش کرنے اور نوجوان علماے کرام کی فقہی تربیت کے لیے جامعہ اشرفیہ مبارک پور کے ارباب حل و عقد نے مجلس شرعی مبارک پور کے نام سے ایک علمی و تحقیقی ادارہ قائم کیا، اس کے قیام میں حضرت سراج الفقہاء دام ظلہ کا بہت اہم اور بنیادی کردار ہے۔ اس مجلس کے زیر اہتمام اب تک مختلف موضوعات پر چھبیس فقہی سمینار ہوچکے ہیں۔ حضرت سراج الفقہاء ان علمی و فقہی مذاکرات کے روح رواں رہے ہیں، آپ مقررہ موضوعات پر تحقیقی مقالات بھی لکھتے ہیں اور مذاکرات کی نشستوں کی نظامت بھی فرماتے ہیں اور بحث و مذاکرہ میں حصہ لے کر مسائل کو حل کی منزل تک پہنچاتے ہیں۔ اس مقام پر مناسب معلوم ہوتا ہے کہ صدر مجلس شرعی، صدر العلماحضرت علامہ محمد احمد مصباحی دام ظلہ ناظمِ تعلیمات و سابق صدر المدرسین جامعہ اشرفیہ مبارک پور کا بیان بھی پڑھتے چلیں، آپ ماہ نامہ اشرفیہ مبارک پور کے خصوصی شمارہ ’’تیرہواں فقہی سمینار نمبر‘‘ میں تحریر فرماتے ہیں:
’’نواں مرحلہ مذاکرات کی مجلسوں کا ہوتا ہے۔ انھی کی کامیابی سمینار کی کامیابی کہلاتی ہے مندوبین کے علاوہ بہت سے مشاہدین بھی ان مجالس کے مناظر سے روشناس ہیں۔ اس لیے زیادہ تفصیل کی ضرورت نہیں، تاہم یہ اشارہ ضروری ہے کہ اس مقام پر ناظم اجلاس حضرت مفتی محمد نظام الدین رضوی، صدر شعبۂ افتا الجامعۃ الاشرفیہ و ناظم مجلس شرعی کا کلیدی کردار ہوتا ہے۔ وہ زیر بحث موضوعات و مسائل کے علاوہ دیگر جزئیات واصول پر بھی گہری نظر رکھتے ہیں اور زیر بحث مسائل پر پوری تیاری کے ساتھ شریک ہوتے ہیں، اس لیے بیش تر اختلافات ان کی تقریر و تدبیر سے بہت جلد سمٹ جاتے ہیں اور جو چند گوشے باقی رہ جاتے ہیں، ان میں ہمارے مندوبین کی بحثیں قابل ستائش نظر آتی ہیں جو مسائل پر اچھی گرفت رکھتے ہیں۔‘‘
اور ماہ نامہ اشرفیہ، جون ۲۰۰۷ء کے خصوصی شمارے ’’فقہی سمینار نمبر‘‘ میں فرماتے ہیں: ’’گرامی مرتبت حضرت مفتی محمد نظام الدین رضوی، صدر شعبہ افتا الجامعۃ الاشرفیہ کی محنت و کاوش محتاجِ بیان نہیں، اب مجلس شرعی کی نظامت کی وجہ سے ان کی ذمہ داریوں میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ سمینار کی نظامت اور بحثوں کو سمیٹنے، پھر فیصلے کی منزل تک پہنچانے میں بھی ان کی علمی و تحقیقی مہارت کا خاص کردار ہوتا ہے۔ جو مشاہدین سے مخفی نہیں۔‘‘
(۵۶-۶۴) خانقاہ قادریہ ایوبیہ کے سیمینار: خانقاہ قادریہ ایوبیہ، پپرا کنک، کشی نگر کے زیر اہتمام ’’امام اعظم ابو حنیفہ سیمینار‘‘ ۷؍ ۸؍ ۹؍ صفر ۱۴۳۴ھ/ ۲۱؍ ۲۲؍ ۲۳؍ دسمبر ۲۰۱۲ء کو شہر ممبئی میں منعقد ہوا۔ اس میں آپ نے ’’فقہ حنفی کا مطالعہ کتاب وسنت کی روشنی میں‘‘ کے عنوان پر اپنا مقالہ پیش کیا، دوسرا سیمینار ۳؍ جمادی الاولی ۱۴۳۴ھ / ۱۵؍ مارچ ۲۰۱۳ء کو ’’فیضان برکات‘‘ کے عنوان پر منعقد ہوا، اس میں سراج الفقہا نے ’’عقائد نوری- سراج العوارف کے حوالے سے‘‘ کے زیر عنوان مقالہ پڑھا۔ تیسرا ’’فیضانِ خواجہ غریب نواز سیمینار‘‘ ۳؍ جمادی الاولی ۱۴۳۵ھ/ ۵؍ مارچ ۲۰۱۴ء کو ہوا،آپ کا مقالہ ’’حضرت خواجہ غریب نواز کا فقہی مذہب‘‘ کے عنوان پر تھا۔ چوتھا سیمینار ’’فیضان غوث اعظم‘‘ ۳؍ جمادی الاولی ۱۴۳۶ھ / ۲۲؍ فروری ۲۰۱۵ء کو ہوا، اس میں سراج الفقہا نے ’’حضرت غوث اعظم کا فقہی مسلک‘‘ کے عنوان پر مقالہ پیش کیا۔ پانچواں سیمینار ’’شاہ عبد العزیز محدث دہلوی‘‘ ۳؍ جمادی الاولی ۱۴۳۷ھ / ۲۲؍ فروری ۲۰۱۶ء اور چھٹا ’’بحر العلوم علامہ عبد العلی فرنگی محلی سیمینار‘‘ ۳؍ جمادی الاولی ۱۴۳۸ھ/ یکم فروری ۲۰۱۷ء کو منعقد ہوا۔ اس میں انھوں نے ’’فن اصول فقہ میں حضرت بحر العلوم فرنگی محلی کی مہارت‘‘ کے عنوان پر مقالہ پیش کیا۔ ساتواں ’’شیخ عبد الحق محدث دہلوی سیمینار‘‘ ۲۹؍ جمادی الآخرہ ۱۴۳۹ھ/۱۸؍ مارچ ۲۰۱۸ء کو منعقد ہوا۔
آٹھواں ’’امام احمد رضا سیمینار‘‘ ۲۸؍ ۲۹؍ ربیع الآخر ۱۴۴۰ھ /۵؍ ۶؍ جنوری ۲۰۱۹ء کو ممبئی شہر میں منعقد ہوا، اس میں انھوں نے ’’امام احمد رضا اور فقہی ضوابط کی تدوین‘‘ کے زیر عنوان تفصیلی مقالہ پیش فرمایا۔نویں سیمینار ’’انوار قرآن(۱)‘‘ میں آپ شریک نہ ہو سکے، لیکن دسواں ’’انوار قرآن سیمینار(۲)‘‘ ۴؍ شعبان ۱۴۴۲ھ/۱۸؍مارچ ۲۰۲۱ء میں شرکت ہوئی اور قرآن کریم اورتنزیہ وتقدیس باری تعالی‘‘ کے عنوان پر مقالہ پڑھا، جو بہت پسند کیا گیا۔
تکریم نامے: حضرت سراج الفقہا مد ظلّہ کی دینی اور علمی خدمات کے اعتراف میں کئی تنظیموں اور خانقاہوں کی جانب سے متعدد اعزازات بھی مل چکے ہیں، جن کی تفصیل یہ ہے: (۱) صدر الشریعہ ایوارڈ ( از: مدرسہ حنفیہ ضیاء القرآن، لکھنؤ) (۲) حافظی ایوارڈ (از: خانقاہ چشتیہ صمدیہ، پھپھوند شریف) (۳) شبیہِ نعل پاک (از: خانقاہ قادریہ برکاتیہ، مارہرہ شریف ) (۴) قائد اہلِ سنت ایوارڈ اورسراج الفقہا کا تکریمی خطاب (از: علامہ ارشد القادری چیرٹیز انٹرنیشنل، جمشید پور) (۵) شمس مارہرہ ایوارڈ (از: جامعہ قادریہ حیات العلوم، شہزاد پور، امبیڈکر نگر) (۶) امام احمد رضا ایوارڈ (از: تنظیم حسان رسول، قصبہ مبارک پور، اعظم گڑھ ) (۷) قبلہ عالم ایوارڈ (از: خانقاہ چشتیہ صمدیہ، پھپھوند شریف) (۸) امام اعظم ایوارڈ اور عمدۃ المحققین کا تکریمی خطاب (از: علماے کشی نگر وانجمن اسلامیہ پڈرونہ،ضلع کشی نگر) (۹) امام احمد رضا ایوارڈ، مینائی ایجوکیشنل سوسائٹی، لکھنؤ۔ (۱۰) سرکار شاہ میراں ایوارڈ، آستانہ سرکار میراں، کھمبات، گجرات (۱۱) سید شاہ عبد الحی اشرفی ایوارڈ (از: خانقاہ اشرفیہ، کچھوچھا شریف) (۱۲) حافظ ملت ایوارڈ (از: تنظیم ابناے اشرفیہ، مبارک پور ) (۱۳) حافظ ملت ایوارڈ (از: ارباب حل وعقد، قصبہ مبارک پور ) (۱۴) امام احمد رضا ایوارڈ مع اکیاون ہزار روپے (از: مدرسہ ضیاء العلوم، التفات گنج، امبیڈکر نگر) (۱۵) پاسبان اہل سنت ایوارڈ (از : تحریک پاسبان اہل سنت،ر سول پور، کورگھ ناتھ، گورکھ پور)
سفر حج وزیارت: ۱۴۱۶ھ/۱۹۹۶ء اور ۱۴۲۳ھ/۲۰۰۳ء میں دوبارحج بیت اللہ سے مشرف ہوئے اور ۱۴۲۷ھ/۲۰۰۷ء پھر ۱۴۳۵ھ / ۲۰۱۳ء میں دو بار عمرہ کیا۔
غیر ملکی اسفار: حضرت سراج الفقہا نے برطانیہ، اسکاٹ لینڈ، پاکستان، ماریشش کے دورے کیے۔ یہ اسفار خالص دینی وتبلیغی نوعیت کے ہیں۔
تصنیفات و تالیفات: حضرت سراج الفقہا دام ظلہ کا قلم بڑا سیّال اور برق رفتار واقع ہوا ہے، اب تک آپ کے قلمِ زرنگار سے مختلف عنوانات پر سواسو سے زائد مضامین اور مقالات معرض وجود میں آچکے ہیں۔ ان میں سے کچھ خاص مقالے یہ ہیں:
(۱) قیاس حجت شرعی ہے(۲)اتر پردیش کے مسلمانوں کے مسائل اور ان کا حل(۳)امام احمد رضا اور جدید فقہی مسائل (۴)امام احمد رضا کا ذوقِ عبادت مکتوبات کے آئینے میں (۵)تقلید عرفی کی شرعی حیثیت (۶)پرنٹنگ ایجنسی کے احکام (۷)سرکار غوث اعظم کا فقہی مسلک (۸)تصوف اور اسلام (۹)حضور مفتی اعظم بحرِ فقاہت کے در شاہوار (۱۰) قضاۃ اور ان کے حدود ولایت (۱۱)بہار شریعت کا مختصر تعارف (۱۲)حضور خواجہ غریب نواز کا فقہی مذہب (۱۳) اسلامی درس گاہوں کے اسبابِ زوال اور ان کا علاج (۱۴)مساجد میں مدارس کا قیام (۱۵)میوچول فنڈ کی شرعی حیثیت(۱۶) پرافٹ پلس کی شرعی حیثیت (۱۷)در آمد بر آمد ہونے والے گوشت کا حکم (۱۸) زینت کے لیے قرآنی آیات کا استعمال (۱۹)فیضانِ رسالت (۲۰)مصطفی جانِ رحمت اور حقوقِ انسانی (۲۱)مذہبی چینل کا شرعی حکم فتاوی رضویہ کی روشنی میں (۲۲)لغزشِ زبان سے صادر ہونے والے کلمات کب کفر ہیں، کب نہیں؟ (۲۳) مسلکِ اہلِ سنت ہی مسلکِ اعلی حضرت ہے (۲۴)حدیثِ افتراقِ امت اور بہتر فرقے (۲۵)نماز کے احکام پر ریل کے بدلتے نظام کا اثر (۲۶)انٹر نیٹ کے مواد و مشمولات کا شرعی حکم (۲۷)غیر رسمِ عثمانی میں قرآن حکیم کی کتابت (۲۸)ڈی این اے ٹیسٹ شرعی نقطۂ نظر سے (۲۹) قومی و ملی مسائل میں اہلِ سنت کا کردار- ضرورت اور طریق کار (۳۰) جینیٹک ٹیسٹ اور اس کی شرعی حیثیت (۳۱)جدید ذرائعِ ابلاغ سے نکاح کب جائز، کب ناجائز؟ (۳۲) بلیک برن وغیرہ بلادِ برطانیہ میں عشا، وتر اور صوم کے وجوب کی تحقیق(۳۳)روزہ میں گل لگانے کی شرعی حیثیت (۳۴)سفر میں جمع بین الصلاتین (۳۵)صدقۂ فطر کا وزن ۲؍کلو۴۷؍گرام ہے (۳۶)مسجد دوسری جگہ منتقل نہیں ہو سکتی (۳۷)قربانی کے فضائل و مسائل (۳۸)نماز کی اہمیت مسائل کی روشنی میں (۳۹)آج کل سنی جامعات کس نہج پر ہیں (۴۰)اختلافی مسائل رحمت یا زحمت؟ (۴۱) سنّی دار الافتا کا کردار اور مفتیانِ عظام (۴۲)بیمۂ جان و مال کی تحقیق (۴۳)الکحل آمیز دواؤں کا استعمال (۴۴)جھوٹ بولنے کا درد ناک انجام (۴۵)دینِ حق اور اس کی بے بہا تعلیمات (۴۶)فلمی گانوں کا ہول ناک منظر (۴۷)میوزک نما ذکر کے ساتھ نعتِ مصطفے ﷺ پڑھنا اور سننا (۴۸)ایڈز زدہ حاملہ عورت کو حمل ساقط کرانے کی اجازت نہیں(۴۹)چیک اور پرچی کی کٹوتی کا شرعی حکم (۵۰)دُیُون اور ان کے منافع پر زکوٰۃ(۵۱)دیہات میں جمعہ و ظہر با جماعت (۵۲) باغات و تالاب کا رائج اجارہ (۵۳)غیر مسلم ممالک میں جمعہ و عیدین (۵۴)تقلیدِ غیر کب جائز، کب ناجائز؟ (۵۵)چھت سے سعی و طواف کا مسئلہ (۵۶)حاجی مقیم پر قربانی واجب ہے (۵۷)معاملہ کرایہ فروخت شرعی نقطۂ نظر سے (۵۸)بیت المال، مسلم کالج اور اسکول کے نام پر تحصیلِ زکوٰۃ(۵۹)یوروکائنیز انجیکشن سے علاج کا شرعی حکم (۶۰) صاحبِ زمین پر قربانی و صدقۂ فطر کا وجوب (۶۱)انجکشن مفسدِ صوم ہے، یا نہیں (۶۲) واشنگ مشین میں دھلے گئے کپڑے پاک ہیں، یا ناپاک؟ (۶۳)حالتِ احرام میں خوشبو دار مشروبات پینے کا حکم (۶۴)عصر حاضر میں دار القضا کی ضرورت (۶۵)تمناےموت شرعاممنوع ہے (۶۶)استمداد و استعانت پر ایک تحقیقی بحث (۶۷)اسلامی تصورِ توحید اور ائمۂ کرام (۶۸)مدارس میں طریقت اور خانقاہوں میں شریعت کا نفاذ ہو (۶۹)اسما و صفاتِ باری تعالی (۷۰)حافظِ ملت اپنی تعلیمات کے آئینے میں (۷۱)حضور احسن العلما بحیثیت شیخ کامل (۷۲)حضرت صدر الافاضل بحیثیت مفسرِ قرآن (۷۳) حضرت صدر العلما میرٹھی بشیر القاری کے آئینے میں (۷۴) مسلم معاشرے کی خرابیاں اور ان کی اصلاح کے راستے (۷۵)اصولِ تدریسِ فقہ و اصولِ فقہ (۷۶)جبری جہیز کی لعنت (۷۷) الإمام الترمذی ومآثرہ العلمیۃ (عربی) (۷۸) المحدث أحمد علی السہارن فوري (عربی) (۷۹) ترجمۃ صاحب الصحیح: الامام أبی الحسن مسلم بن الحجاج القشیری- رحمۃ اللہ تعالی علیہ- (عربی) (۸۰) ترجمۃ الشارح:الإمام أبي زکریا یحیی بن شرف النووی شارح صحیح مسلم (عربی) ان میں سے دو مقالات[۱ - اور- ۵] شامل کتاب ہیں۔
مقالات کے علاوہ درج ذیل علمی و تحقیقی کتابیں آپ کے قلم سے اب تک معرضِ تحریر میں آچکی ہیں، ان میں کچھ مطبوعہ ہیں اور کچھ غیر مطبوعہ:
(۱) الحواشی الجلیّہ فی تایید مذہب الحنفیّۃ علی شرح صحیح مسلم(۲) فقہ حنفی کا تقابلی مطالعہ کتاب و سنت کی روشنی میں(۳)عصمت انبیا(۴)لاؤڈ اسپیکر کا شرعی حکم (۵)شیئر بازار کے مسائل(۶)جدید بینک کاری اور اسلام (۷)مشینی ذبیحہ مذاہب اربعہ کی روشنی میں (۸) مبارک راتیں (۹)عظمت والدین (۱۰)امام احمد رضا پر اعتراضات-ایک تحقیقی جائزہ (۱۱)ایک نشست میں تین طلاق کا شرعی حکم (۱۲)فقہ اسلامی کے سات بنیادی اصول (۱۳)دو ملکوں کی کرنسیوں کا ادھار، تبادلہ و حوالہ (۱۴) انسانی خون سے علاج کا شرعی حکم (۱۵)دکانوں، مکانوں کے پٹّے اورپگڑی کے مسائل (۱۶)تحصیل صدقات پر کمیشن کا حکم (۱۷)خاندانی منصوبہ بندی اور اسلام(۱۸)تعمیر مزارات احادیث نبویہ کی روشنی میں (۱۹)خسر، بہو کے رشتے کا احترام اسلام کی نگاہ میں (۲۰) اعضا کی پیوند کاری (۲۱)فلیٹوں کی خرید و فروخت کے جدید طریقے (۲۲)بیمہ وغیرہ میں ورثہ کی نامزدگی کی شرعی حیثیت(۲۳)فقدان زوج کی مختلف صورتوں کے احکام (۲۴) کان اور آنکھ میں دوا ڈالنا مفسدِ صوم ہے، یا نہیں (۲۵)جدید ذرائع ابلاغ اور رویتِ ہلال (۲۶)طویل المیعاد قرض اور ان کے احکام (۲۷) طبیب کے لیے اسلام اور تقوی کی شرط (۲۸)نیٹ ورک مارکیٹنگ کا شرعی حکم (۲۹)فسخ نکاح بوجہ تعسّرِ نفقہ (۳۰)فقہ حنفی میں حالاتِ زمانہ کی رعایت فتاوی رضویہ کے حوالے سے (۳۱) مسلکِ اعلی حضرت عصر حاضر میں مسلکِ اہلِ سنت کی مترادف اصطلاح (۳۲)جداگانہ احکام اور فقہی اختلافات کے حدود حقائق و شواہد کے اجالے میں (۳۳) چلتی ٹرین میں نماز کا حکم فتاویٰ رضویہ اور فقہ حنفی کی روشنی میں(۳۴)مساجد کی آمدنی سے اے سی وغیرہ کے اخراجات کا انتظام (۳۵)تعدی مرض شرعی نقطہ نظر سے (۳۶)خلافتِ شرعی اور فضائلِ خلفاے راشدین (۳۷)جلوسِ عید میلاد النبی ﷺ سنتِ صحابہ کی یادگار (۳۸)برقی کتابوں کی خرید و فروخت شرعی نقطہ نظر سے(۳۹)مسئلۂ کفاءت عصرِ حاضر کے تناظر میں (۴۰) بینکوں کی ملازمت شریعت کی روشنی میں (۴۱)اجتہاد کیا ہے اور مجتہد کون ؟ (۴۲)تہتر میں ایک کون؟ (۴۳)ترکِ تقلید اور غیر مقلدین کے اجتہادی مسائل (۴۴)ثبوتِ ہلال کی نو صورتیں (۴۵)اور ۱۵؍جلدوں میں آپ کے لکھے ہوئے فتاوی، جو دار الافتا،جامعہ اشرفیہ کی امانت ہیں۔
مرتب کردہ کتابیں: ٭ صحیفہ مجلس شرعی جلد اول (یکے از مرتبین) ٭ صحیفہ مجلس شرعی جلد دوم ٭ مجلس شرعی کے فیصلے جلد اول ودوم ٭ انوارِ امامِ اعظم (یکے از مرتبین) ٭ جدید مسائل پر علما کی رائیں اور فیصلے (تین جلدیں) جدید مسائل پر علما کی رائیں اور فیصلے (دو جلدیں) ان کے سوا سب کتابیں شائع ہو چکی ہیں۔
برکاتی فیضان دیارِ اولیا، مارہرہ مطہرہ کے مشایخ کرام سے حضرت سراج الفقہاکی قلبی عقیدت اور وابستگی حبر ِامت حضور سیدی مفتی اعظم ہند مولانا مصطفی رضا خاں سے میراث میں ملی ہے اور وہاں پر حاضری کا سلسلہ اکتوبر ۱۹۹۲ء سے شروع ہوا ہے۔ حضرت سراج الفقہاء بچپن میں حضرت سید العلما کا چرچا سنتے تھے مگر ملاقات کا شرف حاصل نہ ہوا، آپ مدرسہ عزیز العلوم نان پارہ ضلع بہرائچ میں زیر تعلیم تھے ، وہیں آپ کو اطلاع ملی کہ حضرت سید العلما وصال فرما گئے تو آپ کو بڑا قلق ہوا۔ وہاں کے اکابر میں آپ کی سب سے پہلی ملاقات اپریل ۱۹۹۲ء میں حضرت سیدی احسن العلما مارہروی سے ممبئی میں ہوئی اور خانقاہ برکاتیہ میں پہلی حاضری کا شرف اُسی سال ماہِ اکتوبر میں حضرت شارح بخاری مفتی محمد شریف الحق امجدی کے ساتھ حاصل ہوا۔ ملاقات کی تقریب یہ ہوئی کہ آپ کسی ضرورت سے ممبئی تشریف لے گئے تھے وہیں معلوم ہوا کہ خانقاہ عالیہ قادریہ برکاتیہ کے سجادہ نشین احسن العلما حضرت مولانا سید مصطفی حیدر حسن () بمبئی تشریف لائے ہوئے ہیں اور کھڑک مسجد کے حجرے میں قیام ہے، آپ تو مشتاق دید پہلے ہی سے تھے، اشتیاق اور بڑھ گیا، اپنے ایک تلمیذ مولانا مفتی جلال الدین نوری امام سنی نئی مسجد گھڑپ دیو (سابق استاذ جامعہ اشرفیہ مبارک پور) سے فرمائش کی کہ حضرت سے ملاقات کرائیں، نماز عشا کا وقت قریب تھا، اس لیے انھوں نے عشا تک کی مہلت چاہی، بعد عشا وہ مفتی صاحب کو لے کر کھڑک مسجد پہنچے تو دیکھا کہ وہاں عجیب منظر ہے پورا حجرہ عقیدت مندوں کے ہجوم سے بھرا ہوا ہے اور ایک تخت پر حضرت احسن العلما مسند لگائے سب کو خطاب فرما رہے ہیں۔ حضرت نے دیکھتے ہی اشارہ فرمایا، سراج الفقہا قدموں میں حاضر ہوئے، سلامِ مسنون و دست بوسی کے بعد جب نوری صاحب نے تعارف کے لیے ’’حضرت مفتی نظام الدین‘‘ کہا تو حضرت نے بڑی شفقت کے ساتھ آپ کو اپنے ساتھ تخت پر مسند کے قریب بٹھایا اور فرمایا کہ:
’’آپ کا غائبانہ تعارف تو پہلے ہی سے ہے، میں نے آپ کی کتاب ’’لاؤڈاسپیکر کا شرعی حکم‘‘ پوری پڑھی ہے، ماشاء اللہ خوب تحقیق فرمائی ہے، مسئلے کو منقح کر دیا ہے یہ الگ بات ہے کہ میرا موقف عدم جواز کا ہے مگر آپ کی تحقیق کی ستائش کرتا ہوں۔ ‘‘
پھر حضرت احسن العلما پورے طور پر حضرت سراج الفقہا کی طرف متوجہ ہوگئے اور حاضرین سے فرمایا:
’’آپ لوگ جا سکتے ہیں اب میں مفتی صاحب سے کچھ علمی مسائل پر باتیں کروں گا‘‘ پھر حضرت نے حدائق بخشش کے کچھ اشعار کے تعلق سے دریافت کیا اور مفتی صاحب نے مختصراً تشریح فرمائی تو حضرت بہت خوش ہوئے۔ فرمایا: میں بھی یہی مطلب سمجھتا ہوں، اس کے بعد دیر تک قیمتی معلومات سے نوازتے رہے اور علمی مذاکرے کا یہ سلسلہ تقریباً ایک گھنٹہ ۴۵؍ منٹ تک جاری رہا، جب مفتی صاحب رخصت ہونے لگے تو حضرت نے نوازش فرماتے ہوئے دو سو روپے عطا فرمائے اور مفتی صاحب نے تبرک سمجھ کر فوراً قبول فرما لیا مگر آپ کو اس نوازش پر حیرت ہوئی کہ یہ آپ کی توقع کے بر خلاف تھا مگر دل نے اطمینان دلایا کہ یہ آلِ رسول کی شانِ کریمانہ کے خلاف نہیں، مفتی صاحب نے وہ روپے نجی استعمال میں لانے کے بجائے ایک اہم اور مفید کتاب ’’مفتاح کنوز السنۃ‘‘ کی خریداری میں لگائے اور اس پر ’’عطیہ حضور احسن العلمادامت برکاتہم القدسیہ ‘‘ لکھ کر بطور تبرک و یادگار اپنی لائبریری کی زینت بنالیا۔ یہ حضرت احسن العلما سے آپ کی پہلی ملاقات تھی اور پہلی ہی ملاقات میں آپ حضرت کے علم و فضل، عالی ظرفی، حسن اخلاق، حوصلہ افزائی اور نوازش سے بہت متاثر ہوئے۔
پھر اسی سال اکتوبر ۱۹۹۲ء میں عرس قاسمی کے مبارک موقع پر حضرت شارح بخاری کے ہمراہ مارہرہ شریف حاضر ہوئے تو حضرت کی خرقہ پوشی کی محفل میں بھی حاضری کی سعادت نصیب ہوئی، سلام و دست بوسی کے وقت حضرت شارح بخاری نے تعارف کرانا چاہا تو حضرت احسن العلما نے فرمایا کہ ’’مفتی صاحب سے تعارف ہے اور ممبئی کی ملاقات میں مفتی صاحب کے ساتھ ایک چھوٹا سا سیمینار بھی ہوا ہے۔‘‘ یہ حضرت سے دوسری ملاقات تھی، اس وقت حضرت کا چہرہ چاند کی طرح کھل رہا تھا۔ اس کے بعد پھر برابر بلاناغہ مارہرہ شریف کی آمد و رفت شروع ہوگئی، عرس قاسمی میں ایک بار ضرور تشریف لے جاتے ہیں اور کبھی کبھی سال میں متعدد بار جانے کا بھی اتفاق ہوا ہے۔اس دوران حضرت پر سادات مارہرہ کی کیا کیابارش فیض و کرم ہوئی اور ان کی نگاہوں میں آپ کس قدر مقبول ہوئے اسے لفظوں میں بیان نہیں کیا جا سکتا۔
بیعت: ۱۹۷۵ء میں شہزادۂ اعلی حضرت، مفتی اعظم، مولانا شاہ مصطفیٰ رضا نوری مدرسہ عزیز العلوم، نان پارہ، بہرائچ تشریف لائے تو حضرت سراج الفقہا وہیں ان سے مرید ہوئے۔
اجازت و خلافت: بریلی شریف میں حضور مفتی اعظم ہند کے عرسِ چہلم کے موقع پر ایک ملاقات میں خلیفۂ امام احمد رضا حضرت برہان ملت مولانا شاہ محمد برہان الحق جبل پوری نے اجازت وخلافت عطا فرمائی۔ شہزادۂ احسن العلما حضرت امین ملت کی دعوت پر حضرت سراج الفقہا عرسِ قاسمی برکاتی میں تشریف لے گئے۔حضرت امینِ ملت نے ۲۳؍ رجب ۱۴۲۱ھ مطابق ۲۲؍ اکتوبر ۲۰۰۰ء کو عرس قاسمی برکاتی کی نورانی محفل میں سلسلہ عالیہ قادریہ برکاتیہ کی اجازت مرحمت فرمائی۔ اور حضرت سراج الفقہا کو خلیفہ منتخب کر کے اور اس کے چند سالوں بعد ’’برکاتی مفتی‘‘ کے منصب پر فائز کر کے حضرت شارح بخاری کے وصال سے پیدا ہونے والے خلا کو پر کر دیا۔ اس وقت سے حضرت سراج الفقہا مسلسل خانقاہ برکاتیہ میں منعقد ہونے والی اہم تقریبات میں شرکت کرتے ہیں۔ حضرت رفیق ملت سیّد شاہ نجیب حیدر قادری برکاتی دام ظلّہ کی رسم سجادگی ہو یا جامعہ احسن البرکات کے افتتاح کی محفل، البرکات اسلامک ریسرچ سینٹر کے قیام سے قبل کی مشاورتی نشست ہو یا فکروتدبیر کانفرنس ہر تقریب میں شریک ہوئے۔ حضرت سراج الفقہا کو حضرت احسن العلما سے بہت عقیدت ہے۔ یہی وجہ ہے کہ انھوں نے اپنی تمام اولاد اور اپنی اہلیہ کو حضور احسن العلما سے بیعت کرایا۔
ان کے علاوہ پیر طریقت حضرت مولانا سید شاہ کمیل اشرف اشرفی مصباحی کچھوچھوی علیہ الرحمہ نے بھی خلافت بخشی۔
بزم سوال و جواب: بزم سوال و جواب دین کے مسائل سیکھنے اور سکھانے کا ایک اہم طریقہ ہے۔ بلکہ یہ حضور سید عالم ﷺ کی سنت کریمہ بھی ہے۔ حدیث جبرئیل اس کی شاہد ہے۔ خانقاہ برکاتیہ نے اس کی ضرورت کا احساس کرتے ہوئے ۲۰۰۷ء میں بزم سوال و جواب کا آغاز فرمایا۔ اس اہم سیشن میں حضرت سراج الفقہا عوام و خواص کے مسائل کا شریعت اسلامیہ کی رو سے جواب دیتے ہیں۔ بزم سوال و جواب میں حضرت امین ملت، حضرت رفیق ملت اور حضرت سید افضل میاں جیسی شخصیتیں بھی اپنے سوالات کا شرعی حل معلوم کرتی ہیں۔ اس بزم کا انعقاد حضرت شارحِ بخاری کی حیاتِ مبارکہ میں ہی ہو گیا تھا، جب فلمی گانوں کے تعلق سے حضرت کا ایک اہم فتویٰ ماہ نامہ اشرفیہ میں شائع ہوا تھا اور مختلف علاقوں میں اس کے خلاف ایک شورش بپا ہوگئی تھی تو حضرت سراج الفقہا نے ان تمام مقامات پر تحقیقی خطاب فرمایا اور ساتھ ہی اہل اسلام کے بہت سے سوالات کے تشفی بخش جوابات دیے۔ اس طرح وہ شورش ختم ہو گئی اور حضرت شارح بخاری نے سراج الفقہا کو دعاؤں سے نوازا۔
جب ماحول پر سکون ہوگیا تو بزم خطاب اور سوال و جواب کا سلسلہ بھی موقوف ہوگیا۔ پھر حضرت کے وصال کے بعد اگست ۲۰۰۰ء سے اس کا باضابطہ آغاز بولٹن (برطانیہ) کی سرزمین سے ہوا، جو بڑی کامیابیوں کے ساتھ برابر جاری ہے اور اب تک اس بزم سے کوئی ایک کرور ، ساٹھ لاکھ سے زیادہ سامعین استفادہ کر چکے ہیں۔ سنی دعوت اسلامی، ممبئی کے زیر اہتمام ملک بھر میں منعقد ہونے والے سنی اجتماعات میں بزم سوال وجواب منعقد ہوتی ہے۔ عرس عزیزی جامعہ اشرفیہ میں بھی یہ سلسلہ پوری کامیابی کے ساتھ جاری ہے۔ ان مقامات کے علاوہ ملک کے طول وعرض میں مختلف جلسوں میں یہ سلسلہ کامیابی کے ساتھ برابر جاری وساری ہے۔ رب کریم اس کا فیض و نفع عام سے عام تر فرمائے اور اس مجلس کو قبولِ دوام عطا فرمائے۔ آمین۔