شادؔ عظیم آبادی کی غزل گوئی

شادؔ عظیم آبادی کا شمار اردو کے کلاسیکی شعرأ میں ہوتا ہے ۔ انہوںنے نثر اور نظم میں پچاسوں کتابیں یادگار چھوڑی ہیں ،جن سے ان کی گونا گوں خوبیوں کا علم ہوتا ہے ۔ ساتھ ہی یہ بھی محسوس ہوتا ہے کہ شادؔ اپنی ذات سے ایک انجمن تھے ۔ انہوں نے اردو شاعری کی بیشتر اصناف میں طبع آزمائی کی ہے لیکن ان کی شخصیت کا اصل جوہر غزلوں ہی میں کھلتا ہے ۔ شادؔ کا شعری لہجہ منفرد بھی ہے اور موثربھی ۔ ان کی شاعری ایک طرف دبستان لکھنؤ سے کسب فیض کرتی ہے تو دوسری طرف دبستان دہلی کی شعری خصوصیات بھی اپناتی ہے ۔ وہ اگر قدیم شعری لہجے کی پیروی کرتے نظر آتے ہیں تو اپنے دور کے جدید طرز اظہار سے بھی پوری طرح آشنا ہیں ۔

شادؔعظیم آبادی کا اصل نام علی محمد، تخلص شادؔ تھا ۔ ان کی ولادت ۸! جنوری ۱۸۶۴ کو نانا کے مکان واقع پورب دروازہ، شہر عظیم آباد (پٹنہ ) میں ہوئی تھی ۔ انہیں اپنے شہر سے بے حد لگاؤ تھا، جس کا ثبوت یہ ہے کہ انہوں نے اپنے نام کے ساتھ اپنے شہر کا نام بھی منسلک کرلیا ۔ شادؔ کے والد کا نام سید اظہار حسین عرف عباس مرزا تھا ۔ جو الٰہ آباد کے رہنے والے تھے ۔ چودہ پندرہ برس کی عمر میں وہ عظیم آباد چلے آئے جہاں شادؔ پیدا ہوئے ۔ شادؔ کی تعلیم کا سلسلہ چار برس کی عمر سے شروع ہوگیا تھا ۔ ان کے اساتذہ میں سید فرحت حسین، سید رمضان علی، شیخ برکت اللہ،شیخ آغا جان اور حاجی محمد رضا جیسے نامور لوگوں کا نام شامل ہے ۔ حالاں کہ خود شادؔ نے اپنے استاد کا نام سید شاہ الفت حسین فریاد تحریر کیا ہے ۔

شادؔ کی ابتدائی تعلیم گھر پر ہی ہوئی ۔ عربی فارسی کی تعلیم حاصل کرنے کے بعد انہوں نے کچھ عرصے تک انگریزی بھی پڑھی ۔ اپنی ذاتی لیاقت اور لائق اساتذہ کی تربیت سے اردو،عربی اور فارسی نیز مذہبی علوم اور فنِ شعر میں ایسی مہارت حاصل کی کہ ان کا شمار دورِ جدیدکے اہل علم شعرأ میں ہوتا ہے ۔ علوم اسلامی کے ساتھ ساتھ انہوں نے عیسائیوں، پارسیوں اور ہندؤں کی مذہبی کتابیں بھی پڑھی تھیں، جس سے ان کی علمیت میں خاطر خواہ اضافہ ہوا ۔ابتدا میں شادؔ نے کلام پر اصلاح دو لوگوں سے لی، جن کے نام ناظر وزیری عبرتی ؔ اور مولانا میر تصدق حسین زخمیؔ ہیں۔ ادبیات اور فنونِ شاعری کی بیشترکتابیں انہیں دو بزرگوں سے پڑھیں لیکن اس کی تکمیل شاہ الفت حسین فریاد سے ہوئی، جو خواجہ میردردؔ کے شاگرد تھے ۔ شادؔ نے اپنی پوری عمر ادب کی خدمت میں گزاری اور تقریباً۶۰ تصانیف یادگار چھوڑی ہیں ۔ ان کی علمی خدمات کا صلہ گورنمنٹ کی طرف سے بھی ملتا رہا ۔ ان کی علمی خدمات کے اعتراف میں حکومت نے ۱۸۹۱ میں خان بہادر کا خطاب عطا کیا ۔ ساتھ ہی انہیں سرکار سے ایک ہزار روپئے سالانہ کا وظیفہ بھی ملتا رہا ۔

شادؔ کا قد درمیانہ، اکہرا جسم، موزوں وضع قطع اور رنگ صاف تھا ۔ لباس میں شیروانی یا ترکی کوٹ،ایرانی ٹوپی اور انگریزی بوٹ پہنتے تھے ۔ انہوں نے دو شادیاں کی تھیں ۔ پہلی شادی ۱۸۶۲میں کلثوم فاطمہ بنت میر آغا جان سے ہوئی تھی ۔ ان کے بطن سے ایک صاحبزادے سید حسین ۱۸۸۰ میں پیدا ہوئے اور اسی دن ماں نے اس سرائے فانی سے کوچ کیا ۔ شادؔ کی دوسری شادی ۱۸۸۶ میں زہرہ بیگم سے ہوئی ۔ اس بیوی سے ایک لڑکی آمنہ پیدا ہوئیں ۔ انہیں دو اولادوں سے شادؔ کا خاندان پھولا پھلا اور آگے بڑھا۔

شادؔ سیر و سیاحت کے دلدادہ تھے ۔ انہوں نے اپنی زندگی میں ہندستان کے مختلف شہروں کے دورے کیے ۔ مثلاً: کلکتہ، مرشد آباد،لکھنؤ، علی گڑھ، دارجلنگ، کانپور اور جونپور۔ اس کے علاوہ نظامِ حیدرآباد کی دعوت پر حیدرآباد جانے کی آرزو تھی، جو کسی وجہ سے پوری نہ ہوسکی ۔

اپنی ذاتی جائیداد کے علاوہ حکومت کی جانب سے بھی ایک ہزار سالانہ وظیفہ مقرر تھا ۔ ۱۷! سال تک آنریری مجسٹریٹ کے عہدے پر فائز رہے اور ۱۴! برس تک میونسپل کمشنر کے عہدے پر بھی کام کیا ۔ ان سب کے باوجود زندگی کے آخری ایام میں مالی پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑا ۔ آخر کار اردو کا یہ روشن چراغ ۷!جنوری ۱۹۲۷ کو عالم اجسام سے عالم ارواح کو منتقل ہوگیا ۔

شادؔ نے نثر و نظم میں کل ملاکر تقریباً ساٹھ کتابیں یادگار چھوڑی ہیں ، جن میں سے زیادہ تر زیورِ طباعت سے آراستہ ہوچکی ہیں ۔ کلیاتِ شادؔ تین حصوں میں اردو کے نامور ناقد کلیم الدین احمد نے ترتیب دے کر ۱۹۷۸ میں شائع کیا ہے ۔ اس سے قبل انتخابِ کلام شادؔ ،مرتبہ حسرتؔ موہانی: ۱۹۰۹ ، ریاض عمر:۱۹۱۴ ،کلامِ شادؔ، مرتبہ قاضی عبدالودود: ۱۹۲۲ ، میخانۂ الہام، مرتبہ حمیدؔ عظیم آبادی: ۱۹۳۸، سروش ہستی ،مرتب نقی احمد ارشاد :۱۹۵۶، فروغِ ہستی، مرتب نقی احمد ارشاد:۱۹۵۸ ، قطعاتِ شاد،ؔ مرتب فاطمہ بیگم: ۱۹۶۴ میں زیورِ طباعت سے آراستہ ہوچکے ہیں ۔ اس کے علاوہ بھی ان کے کئی اور مجموعے ہیں ، جن میں مراثی شادؔ،( دو جلدیں) مرتب نقی احمد ارشاد:۱۹۵۲، رباعیات شادؔ، تہنیت نامے، طلسم کدہ دنیا، ثمرۂ زندگی، فغانِ دلکش اور مادرِ ہند جیسی بہت سی تخلیقات ابھی بھی طباعت کی راہ دیکھ رہی ہیں ۔

ابھی تک ہم نے جن کتابوں کا ذکر کیا ہے، وہ سبھی شاعری سے متعلق تھیں ۔ شادؔ نے شعری میدان کے ساتھ ساتھ نثر میں بھی تقریباً۲۴ کتابیں تصنیف کی ہیں ، جن میں سے بعض ابھی طباعت کی منتظر ہیں ۔ نثری تصانیف میں تاریخِ بہار ۱۸۷۵ اور ۱۸۹۱ میں یعنی دوبارہ شائع ہوچکی ہے ۔ نقش پائے دار تین جلدوں میں علی الترتیب ۱۹۲۴، ۱۹۲۷ اور ۱۹۲۸ میں منظر عام پر آئیں ۔ ان کی نثری تصانیف میں جیسا کہ اوپر بیان کیا گیا ۲۴ میں سے صرف آٹھ ہی شائع ہوسکی ہیں۔ باقی ماندہ کے نام حیاتِ فریاد،صورت الخیال، اردو تعلیم، صورتِ حال، مردم دیدہ، نوائے وطن، فارسی تعلیم، ذخیرۃ الادب، کشکول، فکر بلیغ اور الصرف النحواور المنطق وغیرہ ہیں ۔

شادؔ نے جیسا کہ پچھلے صفات میں عرض کیا گیا، مثنوی، غزل، قیصدہ، مرثیہ اور دوسری اصناف سخن میںبھی طبع آزمائی کی ہے لیکن ان کی شہرت کا اصل سبب ان کی غزلیں ہیں،جو سادگی، گھلاوٹ، ترنم و شیریں، کیف و سرور اور تاثیر اور اثر کی بدولت لائق توجہ ہیں ۔ ان کے کلام کی سب سے ممتاز خوبی ان کی زبان کی صفائی اور سادگی ہے ۔ وہ نہایت شیریں اور منتخب الفاظ استعمال کرتے ہیں جو فوراً دل و دماغ کو متاثرکرتے ہیں ۔ شادؔ کے زمانے میں غزل کا زور ذرا کم ہونے لگا تھا ۔اس وقت انہوں نے بھی اپنے چند ہم عصروں کے ساتھ غزل کی پلکیں سنوارنے میں خاص کردار ادا کیا اور اپنے منفرد لب و لہجے میں اسے ایک توانائی بھی عطا کی ۔ واردات قلبی کے ساتھ ہی ساتھ اخلاق،فلسفہ اور توحید، ان کے محبوب موضوعات ہیں ۔ انہوں نے اپنی غزلوں میں حمد، نعت اور منقبت کے مضامین کو اس طرح سے پرویا ہے کہ ان سے ان کی غزلوں کو ایک نئی معنویت حاصل ہوگئی ہے۔ شا دؔ کے بعض اشعارکی تفہیم کا حق اس وقت تک ادا نہیں ہوسکتا جب تک کہ ان کے مذہبی تناظر اور ان احادیث سے واقفیت نہ ہو، جن سے شعر میں استفادہ کیا گیا ہے ۔ ان کے بہت سے شعر اسی خصوصیت کے حامل ہیں ۔ انہیں اسلامی پس منظر میں پیش کرتے ہوئے غزل کی علامتوں سے مذہبی تصورات کی آئینہ داری کا کام لیا گیا ہے۔

خرابات میں میکشو آ کے چن لو نبی اپنا اپنا امام اپنا اپنا سبو کے آتے ہی اللہ رے خوشی اے مست امام آئے، رسول آئے، خدا آیا

لب پہ آیا نام ادھر اور مست گرنے سے بچا یہ تو ادنیٰ معجزہ ساقی کے میخانوں میں تھا

ساقیِ مہ لقا نے جب خم سے سبو میں ڈال دی مجلسِ مئے میں چار سو شور اٹھا درود کا

ان اشعار میں اگر ایک طرف خمریاتی شاعری کے موضوعات اور غزل کی علامتوں کی لچکداری اور نئے مفہوم کی ترجمانی سے کام لیا گیا ہے تو دوسری طرف ان کا سلسلہ صنف مرثیہ کے ’’ساقی نامہ‘‘ سے استوار نظر آتا ہے ۔ ’’ ساقی نامہ‘‘ کا بنیادی تصور آنحضرت ﷺ اور خانوادۂ رسالت کی محبت کو شراب طہور کے تصور سے ہم آہنگ کرنا ہے ۔ اس شرابِ پاکیزہ کی تعریف دیکھیے :

یدِ قدرت سے بنی عرش کے میخانے میں جوچھلکتی رہی قرآن کے پیمانے میں

نوح و اصحاب بہم جس کے سہارے پہنچے جس کا ڈوبا ہوا کوثر کے کنارے پہنچے

ایک بنداور ملاحظہ ہو :

شعلۂ نار و سقر سے جو بچا لے وہ شراب حشر میں گرتے ہوؤں کو جو سنبھالے وہ شراب


آگ کی طرح گناہوں کو جو کھالے وہ شراب اپنی پاکی پہ جو قرآن اٹھالے وہ شراب

جس کی قوت سے جوانی فلکِ پیر میں ہے جس کی منزل قدح آئینۂ تطہیر میں ہے

غزل کے دیگر شعرأ کی طرح شادؔ نے بھی اسلامی تاریخ اور واقعات پر بلیغ اشارے کیے ہیں ،جس کی مثالیں ان کے کلام سے بہ آسانی فراہم ہوجاتی ہیں ۔ اس کے سمجھنے کے لیے ہمیں اسلامی تاریخ سے واقف ہونا ضروری ہے ۔مثلاً:

اللہ اللہ شکر کا کلمہ نہ بھولا مرکے بھی سرکٹا پر لب تیرے بسمل کا جنباں رہ گیا

بخشوا دیں گے ہم اوروں کے بھی اے شادؔ قصور جد ا علی ہے شہنشاہ دو عالم اپنا

گردن میں طوق ہو کہ سلاسل میں ہو قدم آزاد ہر طرح ہے گرفتار آپ کا

الٹا نہ عراق و شام و حلب دنیا نہ ہوئی ویران تو کیا جل تھل نہ لہو سے تو نے بھرا اے خونِ مسلماں کچھ نہ کیا

شہنشاہ دو عالم سے مراد حضور پاک ﷺ ہیں پہلے اور تیسرے شعر میں واقعات کربلا کی طرف اشارہ ہے ۔ شادؔ کے یہاں وحدت الوجود اور وحدت الشہود کی بھی بہت سی مثالیں دیکھنے کو ملتی ہیں ۔ اس کے علاوہ ایک اوربات یہاں عرض کرنا مناسب معلوم ہوتا ہے کہ شادؔ کے یہاں حمدیہ رویہ بھی کارفرما نظر آتا ہے ، وہ اسے اللہ کی قدرت کا کرشمہ تصور کرتے ہیں کہ اس کا جلوہ ذرے ذرے میں نمایا ں ہے۔ :

جہاں پہنچے اسی کا نور پایا جدھر دیکھا وہی خورشید رو تھا

جس طرف جاتی نظر اپنا ہی جلوہ تھا عیاں میں نہ تھا وحشی کوئی اس آئینہ خانے میں تھا

مہک اٹھا چمنِ دہر کا پتہ پتہ راز چھپنے نہیں دیتی تری خوشبو تیرا

عشق ہے عالمِ امکاں کو محیط اے پیراک ڈھونڈتا پھرتا ہے گھبرا کے کنارہ کس کا

غزل کے بنیادی موضوعات عشق و محبت کی باتیں کرنا ہے ۔ ان موضوعات میں بھی شادؔ نے اپنی ایک شناخت قائم کی ہے ۔ ان کا عشق والہانہ ہے اور اس میں وہ بڑی بے باکی سے کہتے ہیں :

ویران کیجیے کہ دلوں کو بسائیے مئے کش تمام آپ کے میخانہ آپ کا

شادؔ کا عشق،عشق کا بہت پاس رکھتا ہے ۔ انہیں اس تجاہل عارفانہ سے بھی آگاہی ہے، جو دلوں کو ویران تو کرتاہے مگر ذہن سے یادوں کو نہیں مٹاتا ۔ اس لیے کسی کی یاد شادؔ کے یہاں نگاہِ ناز کی برچھی تو بنتی ہے لیکن وہ اس راز سے بھی واقف ہیں کہ نیا فسوں ساز نئے انداز کے ساتھ آیا ہے ۔ وہ شکوہ و شکایت اپنے محبوب سے نہیں کرتے بلکہ اپنے جذبوں کو کچھ یوں ادا کرتے ہیں :

پوچھو نہ حال چشم دل آویز یار کا کھولو نہ راز گردش لیل و نہار کا

پاس ناموس عشق تھا ورنہ کتنے آنس پلک تک آئے تھے

میں تو درد و غم و اندوہ کا پتلا ٹھہرا بھول جاتا تجھے پر تو تو نہ بھولا ہوتا

شادؔ کا عشق اس بنیادی انسانی فطرت سے تعلق رکھتا ہے، جہاں جنس ایک مسلّم قوت کی حیثیت سے ابھرتی ہے۔ شادؔ کی عشقیہ غزلیں اپنے اندر اس رس کی کیفیت رکھتی ہیں ،جو ہندوستانی نظریات کی پہچان ہیں :

جب کسی نے حال پوچھا رو دیا چشمۂ تر تو نے مجھ کو کھو دیا

نگہ کی برچھیاں جو سہہ سکے سینہ اسی کا ہے ہمارا آپ کا جینا نہیں جینا اسی کا ہے

تجھ سے مایوس ہزاروں ہیں تصدق تجھ پر تو سلامت رہے تجھ سے ہے تمنا باقی

ساقی کی چشمِ مست پہ مشکل نہیں نگاہ مشکل سنبھالنا ہے دل بے قرار کا

اوپر درج کیے گئے اشعار سے ایک خاص طرح کی فکر، ذہنی پختگی اور سنجیدگی کا اظہار ہوتا ہے ۔ اس کے علاوہ شادؔ کے یہاں ان کا ایک اور رنگ ہے، جسے ہم بے حد دل آویز کہہ سکتے ہیں :

ایک ستم اور لا کھ ادائیں اف ری جوانی ہائے زمانے ترچھی نگاہیں، تنگ قبائیں، اف ری جانی ہائے زمانے

اپنی ہوا سے آپ جھجھکنا، اپنی ادا سے آپ کھٹکنا چال میں لغزش، منھ پہ حیائیں، اف ری جوانی ہائے زمانے

کالی گھٹائیں، باغ میں جھولے، دھانی دو پٹے لٹ چھٹکائے مجھ پہ یہ قدغن آپ نہ آئیں، اف ری جوانی ہائے زمانے

پچھلے پہر اٹھ اٹھ کے نمازیں، ناک رگڑنی، سجدوں پہ سجدے جو نہیں جائز اس کی دعائیں، اف ری جوانی، ہائے زمانے

شادؔ نہ وہ دیدار پرستی، اور نہ وہ بے نشہ کی مستی تجھ کو کہاں سے ڈھونڈ کے لائیں، اف ری جوانی، ہائے زمانے

یہ پوری غزل اپنا منفرد لب و لہجہ رکھتی ہے ۔ شا دکا عشق اسی دنیا کا عشق ہے ۔ اسی مادی و فانی دنیا کا عشق ، جی ہاں لیکن ان کے عشق میں ایک طرح کی طرح داری پائی جاتی ہے ۔انہیں یہ بھی احساس تھا کہ یہ دنیا یوں ہی چلتی رہے گی ۔ عشق کی محفل اسی طرح رنگ برنگی اور پرکشش بنی رہے گی ۔ شاید اسی لیے انہوں نے کہا تھا :

نت نئے کھیل زمانے کو نظر آئیں گے جب تک اس خاک پہ ہے خاک کا پتلا باقی

شادؔ کی غزلوں سے ان کے ذہن کی پختگی، مزاج کی شائستگی او رطرز فکر کا اندازہ کیا جاسکتا ہے ۔ اب تک ہم نے جتنی مثالیں شادؔ کے کلام سے پیش کی ہیں، اس سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ شادؔ نے عشقیہ مضامین بھی باندھے ہیں، تجرباتِعشق کی مصوری بھی کی ہے اور محبوب کی پیکر تراشی بھی لیکن انہوں نے ہر جگہ اپنا ایک معیار قائم رکھا ہے ۔ کہیں بھی کوئی بات اعتدال سے ہٹ کر نہیں کی ۔ انہوں نے اپنے لیے ایک معیار بنائے رکھا او رکلام میں ایک سنجیدگی کی فضا ہمیشہ قائم رکھی ۔ شادؔ کے چند ایسے شعر جو مادی محبت اور عشق مجازی سے تعلق رکھتے ہیں ۔ یہاں پیش کیے جاتے ہیں ، جس سے یہ اندازہ بہ خوبی ہوجائے گا کہ ان کا عشق ایک مہذب شخص کا تجربۂ حیات ہے ،جس میں چاہنے اور چاہے جانے کا جذبہ پوری طرح موجود ہے :

جو مسکرا کے نظر کی تو جی گئے قاتل نگاہ پھر جو چرائی تو قتل عام کیا

سوچتا ہوں کہ جب آئے گی میری یاد تجھے کون پونچھے گا ڈھلکتا ہوا آنسو تیرا

وہ بزم غیر میں ہر بار اضطراب میرا بہ مصلحت وہ تیرا سر جھکا کے رہ جانا

ایک بات اور جس کا ذکر کرنا یہا ںضروری معلوم ہوتا ہے، وہ ہے ان کی زبان ۔ اپنی زبان کو انہوں نے کبھی بھی دہلی اور لکھنؤ کے دبستانوں میں مقید نہیں کیا ۔ البتہ دونوں سے زبان کی ہمواری، محاوروں کے استعمال، روزمرہ کی برجستگی، لفظوں کے در و بست اور ان کی معنوی قدر وقیمت سے استفادہ ضرور کیا ۔ شادؔ صنائع و بدائع کے استعمال کو بہت اہمیت نہیں دیتے تھے ۔ ہاں کہیں کہیں رعایت لفظی سے کام ضرور لیتے تھے ۔اس طرح شاد کی غزل گوئی اپنے انفرادی لب و لہجے کے باعث اردو کی غزلیہ شاعری میںایک اہم اور منفرد آواز بن کرہمارے سامنے آتی ہے ۔

یہ بزمِ مئے ہے یاں کوتاہ دستی میں محرومی جو بڑھ کر خود اٹھا لے ہاتھ میں مینا اسی کا ہے

درج بالا شعر کے بغیر شادؔ عظیم آبادی کا ذکرنا مکمل ہے۔ان کا یہ شعر اس قدر مقبول خاص و عام ہے کہ ان کے نام کے ساتھ جزوِ لا ینفک کی حیثیت اختیار کر گیا ہے۔

پرویز احمد اعظمی