بگڑہ

بگڑہ صوبہ خیبر پختونخوا میں موجودہ ضلع ہری پور کا ایک گاؤں ہے جو تقریباً سنہ 1296 عیسوی اور 650 ہجری سے بگڑہ کہلا رہا ہے۔ بگڑہ کی موجودہ آبادی بمطابق وقت 13جولائ 2021 کے بیس ہزار سے زائد ہے۔

اس گاؤں کا نام بگڑہ کیوں پڑا؟ صوفی بزرگ سید قطب الدین سرخ پوش بخاری جو کہ سید جلال الدین سرخ پوش بخاری کی سگے حقیقی بھائ تھے آپ ثمر قند بخارہ کے گاؤں بگڑہ سے ہجرت کر کے ایران آۓ اور پھر آپ رحمتہ اللہ علیہ ایران سے ہجرت کر کے ہندوستان آۓ اور اُچھ شریف (uch) میں بسیرا کیا جو کہ آج پاکستان کا ایک قدیم شہر ہے۔ آپ رحمتہ اللہ علیہ کی پیدائش 1212 عیسوی ثمرقند بخارا میں ہوئ۔ یہ دونوں بھائ اپنے زمانے کے عظیم عالم دین اور ولی اللہ تھے، آپ نے اپنے بڑے بھائی سید جلال الدین سرخ پوش بخاری سے قرآن پاک حفظ کیا اُس وقت آپکی عمر صرف نو سال تھی۔ آپکی والدہ ماجدہ بھی قرآن کریم کی حافظہ تھیں۔بیس سال تک سید قطب الدین سرخ پوش بخاری نے اپنے بڑے بھائی سید جلال الدین سرخ پوش بخاری کے زیر سایہ دین اسلام کی تبلیغ فرمائی۔ آپ دونوں بھائیوں کے ہاتھوں سے دو لاکھ سے زائد سکھوں ، ہندوؤں اور عیسائیوں نے اسلام قبول کیا۔ سید قطب الدین سرخ پوش بخاری رحمۃ اللّٰہ علیہ اپنے بڑے بھائی سید جلال الدین سرخ پوش بخاری کے حکم سے سر زمین ہزارہ میں دین اسلام کی تبلیغ کی غرض سے آۓ اور ہزارہ کے ایک مشہور گاؤں جس کا نام اس وقت (باغ راہ) تھا.جسکو آج کل بگڑہ کہا جاتا ہے میں تشریف فرما ہوئے۔ بعض روایات میں ہے کہ اسکا نام ہی خود سید قطب الدین سرخ پوش بخاری رحمۃ اللّٰہ علیہ نے بگڑہ رکھا کیونکہ ثمرقند بخارا میں آپ جس گاؤں میں پیدا ہوئے اس کا نام بھی بگڑہ تھا جو آج بھی ثمرقند بخارا میں موجود ہے (ثمرقند بخارا موجودہ ازبکستان سابقہ روس )سر زمین ہزارہ میں آپ نے پہلی مسجد کی بنیاد رکھی جس کو آج بھی ہندکو زبان میں بڑی مسیت (مسجد ) کہتے ہیں۔جو کہ آجکل قبرستان میں تبدیل ہو چکی ہے۔آپ نے خطہ پوٹھوہار کے ایک عظیم صوفی بزرگ کی بیٹی سے شادی کی جن کے بطن سے ان کے ہاں 1270 عیسوی میں بیٹا پیدا ہوا جنکا اسم گرامی سید قمر جلال الدین سرخ پوش بخاری رکھا گیا۔ بگڑہ اور اس کے اردگرد کے تمام مضافات میں اُس وقت سکھ گجر تھے۔ اس کے علاؤہ ہندو نسلیں براہمن ،کھشتری، شودر، ویش آباد تھے۔ سید قطب الدین سرخ پوش بخاری رحمۃ اللّٰہ علیہ کے ہاتھوں سینکڑوں لوگ بامشرف اسلام ہوئے۔ آپ رحمتہ اللہ علیہ نے 1340 میں بگڑہ گاؤں میں وفات پائ اور بگڑہ میں ہی انکو سپرد خاک کر دیا گیا۔ 1340 عیسوی کے بعد آپ کے جواں سال بیٹے جناب عزت مآب سید قمر الدین جلالی سرخ پوش بخاری نے آپ کی تعلیمات کو جاری رکھا۔سید قمر الدین جلالی سرخ پوش بخاری نے ہزارہ میں دین اسلام کے وہ چراغ جلاۓ جن سے پورا ہزارہ دین اسلام کی روشنی سے روشن ہو گیا یوں سر زمین ہزارہ پر اسلام کو لانے والے سید السادات کے چشم وچراغ نے مظلوم کربلا کے ساتھ ہونے والے مظالم کو عام کیا۔ سید قطب الدین سرخ پوش بخاری رحمۃ اللّٰہ علیہ اور انکے فرزند کے لباس میں سرخ چادر ضرور ہوا کرتی تھی کسی نے سید قطب الدین سرخ پوش بخاری رحمۃ اللّٰہ علیہ سے پوچھا کہ حضرت آپ یہ سرخ رنگ کی چادر کیوں اوڑھتے ہیں؟ تو انہوں نے فرمایا ہمارے آباؤ اجداد کے ساتھ کربلا میں ظلم عظیم ہوا ہے جس کا بدلہ نہیں لیا گیا جب تک مظلوم کربلا کا بدلہ بقایا ہے اس وقت تک سرخ جھنڈا اور چادر ہمارے ساتھ رہے گی۔ آپ کے بیٹے سید قمر الدین جلالی سرخ پوش بخاری کے ہاں 1320 میں ایک بیٹا پیدا ہوا جن کا نام سید علاؤالدین شاہ بخاری رکھا گیا آپ کی نسل میں اللّٰہ نے ولایت رکھی ہے ان کی اکثر اولادیں پیدائشی ولی تھے۔ سید قمر الدین جلالی سرخ پوش بخاری نے 1405 عیسوی کو اس جہاں فانی سے پردہ فرمایا اس وقت جناب کی عمر 135 سال تھی۔ سید علاؤالدین بخاری کے ہاں 1380 عیسوی میں ایک بیٹا پیدا ہوا جس کا نام انہوں نے احمد علی شاہ بخاری رکھا وہ اپنے زمانے کے ایک انتہائ بزرگ ولی اللہ اور بڑے عالم دین تھے۔ آپ نے دین اسلام کی تبلیغ کشمیر تک کی اور آپ کے مدرسے میں کشمیر تک کے لوگ آتے تھے ۔ سید احمد علی شاہ بخاری کو اللّٰہ نے چار نورینہ اولادیں عطا فرمائی اور تین بیٹیاں عطا فرمائ۔ آپکے تین بیٹوں میں سے ایک بیٹا جن کا نام سید حسن مجتبیٰ بخاری رحمتہ اللہ علیہ تھا جو کہ دین اسلام کی تبلیغ کی خاطر دربند مانسہرہ میں مقیم ہوئے اور وہیں پر وفات پائ۔ جاری ہے ۔۔۔۔