جامعہ بلتستان الاسلامیہ وزیرپور شگر



مختصر تاریخ و علماء اکرام کا کردار ;

بلتستان میں دخول اسلام: مقامی روایات کے مطابق یہاں آٹھویں صدی ہجری کے آخری عشروں میں نامور مبلغ دین سید علی ہمدانیؒ کی مساعی جمیلہ سے اسلام پھیلا۔ بعد میں ان کا نام لیتے ہوئے متعدد داعی وارد ہوئے اور عوام الناس رفتہ رفتہ فرقہ بندی کا شکار ہوئے اور اولین مبلغ کا اپنا مذہب (شافعی) ناپید ہو گیا۔ تجدید دعوت و توحید: تیرهویں صدی کے اواخر میں بابا محمد حسین پشاوری کے ہاتھوں توحید و سنت کے تبلیغ و تعلیم کو فروغ حاصل ہوا۔ اور انہی کے فیض یافتہ عبدالرحیم عبدالعزیز ؒ نے مولانا حافظ عبدالمنان وزیر آبادی ؒسے سند فراغت حاصل کر لی۔ 1305ھ 1884ء میں کتاب و سنت کی ترویج کے لئے جدو جہد شروع کی ۔ لیکن انہیں مختلف ہتھکنڈوں سے واپس جانے پر مجبور کر دیا گیا۔ پھر داعی موصوف کے بھتیجے مولانا محمد موسی بن علی بن عبدالعزیز کو حصول علم کا شوق دہلی لے گیا۔ آپ محدث العصر سید نذیر حسین دہلوی سے سند فراغت لیکر 1318ھ بمطابق 1897ء میں وطن واپس آئے اور محلہ گھربی کھور میں مدرسہ دارالحدیث قائم کیا۔ اسی دور میں کریس ، شگر ، بلغار وغیرہ میں ایسے ہی دینی مدارس قائم ہوئے اور ہر جگہ ان مدارس نے داعی اول کے منہج و عقیدے کی ترویج میں گرانقدر خدمات سر انجام دیے۔ ( مجلہ تراث سے اقتباس)

علاقہ شگر کا مختصر تعارف:-

شگر پاکستان کے شمالی علاقہ جات بلتستان میں واقع ایک نہایت وسیع اور خوبصورت وادی ہے جس میں مختلف گاوں ہیں ( کے ٹو)  پہاڑ بھی اسی علاقے میں واقع ہے یہاں راجہ کا دور ہوتا تھا مگر اب کونسلر نظام ہے اور یہاں کی آبادی کی اکثریت شیعہ اثنا عشری ہے یہاں کے باشندے اپنے مذہبی پیشواؤں کے تابع ہوتے ہیں سن 2015 میں شگر کو ضلع کا درجہ دیا گیا شگر کی آبادی تقریبا 60 ہزار ہے اور بلتستان میں ضلع شگر واحد ضلع ہے جوکہ زرعی لحاظ سے خود کفیل ہے اور یہاں کے لوگ بہت ہی نڈر بہادر اور بےباک  جفاکش ہیں شگر میں 1 انٹر کالج اورچالیس کے قریب ہائی  اسکول  ہیں، شگر بلتستان کے تمام اضلاع اور وادیوں میں سب سے خوبصورت، حسین، زرخیز، وسیع اور معدنیات سے مالہ مال وادی ہے، شگر میں ماربل، سنگ مرمر، یاقوت، زمرد، ابرق، زھرہ مہرہ، سلاجیت بکثرت پائے جاتے ہیں، اس کے علاوہ ہر قسم کے پھل فروٹ کیلیے ضلع شگر مشہور ہے اور حکومت پاکستان کے بہت سارے فروٹ نرسریاں بھی واقع ہیں، پھلوں میں سیب، ناشپاتی، گلاس، چیری، الو بخارا، آخروٹ، خوبانی،آڑو، آلوچہ،انگور ، سفید شہتوت ، کالا شہتوت وغیرہ بہت مشہور ہے اور وافر مقدار میں ہوتے ہيں. اور یہاں کے میٹھا لال آلو پورے پاکستان میں جاتے ہیں.

علاقہ شگر میں جناب حضرت مولانا سید اکبر جنہوں مناظر اسلام ابو الحسن کریسی سے علم حاصل کیا پھر دھلی میں حضرت مولانا سید نذیر حسین محدث دھلوی کے درسگاہ سے فیض حاصل کیا،پھر شگر تشریف لائے اور وزیرپور میں ایک مسجد کی بنیاد رکھی اور اسی مسجد سے آپ نے توحید کی تبلیغ کا کام شروع کیا پھر1938ء توحید آباد وزیرپور شگر میں آپ نے اپنے گھر پر ایک مدرسہ قائم کیا جو کہ سب سے پہلا اہلحدیث مدرسہ شگر کلہلایا۔ اس کے بعد آپ نے اور دیگر مشائخ نے منبع العلوم الاسلامیہ کے نام سے ایک دینی درسگاہ کی بنیاد رکھی، اور آپکی تبلیغ سے لوگوں میں کافی شعور پیدا ہوا اور آپ کی مساعی جمیلہ کے نتیجے میں چند نواجوانوں کے دل میں حصول علم کا شوق پیدا ہوا ، اور آپکی رہنمائی انہیں دھلی تک لے گیا یہ نوجوان تقریبا 1940ء میں حصول علم کی غرض سے دھلی گئے اور اسی درسگاہ میں گئے جہاں سے حضرت مولانا سید اکبر رحمہ اللہ فیض یاب ہوکر آئے تھے.1937ء میں یہ توحید وسنت کے علم سے سیراب ہونے کے بعد سرزمین شگر لوٹ آئے اور اپنے پیشرو کے مشن سے منسلک ہوگئے، شب و روز ایک کرکے توحید وسنت کی آبیاری کرنے لگے اور اس زمانے میں کہ جسمیں کوئی وسائل نہيں صرف مسائل کا بہتاب ہی تھا ، ہر پریشانی ومصائب کو خندہ پیشانی سے صبر کرتے اور لوگوں کو دین اسلام کی دعوت دیتے شرک وبدعت سے نکالتے اور سوئی ہوئی ضمیروں کو جگاتے ،یہ توحید کا منبع دین کی نشر واشاعت میں مصروف عمل تھے کہ 1983ء کی وہ نحوست والی رات کہ چند شر پسند عناصر نے مدرسہ منبع العلوم الاسلامیہ کو آگ لگا دی جس کے نتیجے میں مدرسہ پورے کا پورا جل کر خاکستر ہوا، لیکن آگ لگانے والے یہ نہيں جانتے تھے کہ وہ جس کو بھجانا یا مٹانا چاہتے ہیں مگر

(ويأبى الله إلا أن يتم نوره ولو كره المشركون...) القرآن.

 نور حق شمع الہی کو بھجا سکتاہے کون 
جس کاحامی ہو اللہ اسکو مٹاسکتاہے کون

یکم مئی 1983ء میں منبع العلوم کی جگہ ایک عالی شان یونیورسٹی کی بنیاد رکھی گئی جس کا نام ( جامعہ بلتستان الاسلامیہ ) رکھا گیا، اور دیکھتے ہی دیکھتے یہ ایک عظیم مادر علمی بن گئی اب تک لاکھوں لوگوں کو توحید وسنت سے سیراب کرچکے ہیں الحمد للہ علی ذلک. جامعہ بلتستان الاسلامیہ ایک یونیورسٹی کے ساتھ ساتھ اندرون ملک رفاہی سماجی سرگرمیوں میں بھی خوب حصہ لیتی ہے.الحمدللہ جامعہ بلتستان کی انتظامیہ اللہ کے توفیق سےجب بھی بلتستان پر کوئی آفت آتی ہےتو رفقاء ومعاونین کےھمراہ وہاں پہنچ کر دکھی عوام کی دادرسی کرتے ہیں-ماضی میں بلتستان میں عموما اور شگر میں خصوصا آنے والے کوئی بھی آسمانی آفات وسیلاب میں متاثرین کی دادرسی ،اور صحت تعمیر نو وغیرہ اور دیگر مختلف شعبوں میں سینکڑوں افراد کےساتھ ھرممکن تعاون کیا اور ان شاءاللہ کرتے رہیںگے-

اس کے علاوہ اس کی بنیاد رکھنے کے دن سے لیکر اب تلک بے لوث خدمت کی ہے ،دکھی انسانیت کی خدمت کےلئےحالات ان کےموافق ہوتےچلےجاتےہیں اور "جامعہ" حالات کےکچوکوں سےگھائل انسانیت کے زخموں پر مرھم رکھتےچلےجاتے ہیں، ہر سال زکات ،خیرات ،صدقات اورعطیات سے غریب، مسکین، نادار، یتیم، بیوہ، کی ہر ممکن مدد کرنے کے ساتھ ساتھ جامعہ بلتستان الاسلامیہ اپنی اساتذہ،ملازمین ویگر امور پر احسن طریقے سے خدمات سرانجام دے رہے ہيں ۔ دعوت دین اور احکام شرعیہ کی تعلیم دینا شیوہ پیغمبری ہے ۔ تمام انبیاء و رسل _ علیہم السلام -  کی بنیادی ذمہ داری تبلیغ دین اور دعوت وابلاغ ہی رہی ہے،امت مسلمہ کو دیگر امم سے فوقیت بھی اسی فریضہ دعوت کی وجہ سے ہے اور دعوت دین ایک اہم دینی فریضہ ہے ،جو اہل اسلام کی اصلاح، استحکام دین اور دوام شریعت کا مؤثر ذریعہ ہے۔لہذا ہر مسلمان پر لازم ہے کہ اسے شریعت کا جتنا علم ہو ،شرعی احکام سے جتنی واقفیت ہو اوردین کے جس قدر احکام سے آگاہی ہو وہ دوسر وں تک پہنچائے۔ علماء کرام ومشايخ عظام اور واعظین و مبلغین پر مزید ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ فریضہ دعوت کو دینی وشرعی ذمہ داری سمجھیں اور دعوت دین کے کام کو مزید عمدہ طریقے سے سرانجام دیں۔دین کا پیغام حق ہر فرد تک پہنچانے کے لیے ضروری ہے کہ دعوت کے کام کو متحرک کیا جائے، دعوت دین کی اہمیت وضرورت کو مدنظر رکھتے ہوے ‘جامعہ بلتستان الاسلامیہ وزیرپور شگر کی بنیاد رکھی ۔ اللہ ان کی اس کاوش کو قبول فرمائے اوراسے عوام الناس کے لیے نفع بخش بنائے (آمین)، عصر حاضر میں یہ جامعہ معروف وجدان تعلیم سے مالامال ہے 

اس کے مدینہ یونیورسٹی، یونیورسٹی آف قصیم،ام القری یونیورسٹی،الامام اسلامک یونیورسٹی، کنگ سعود یونیورسٹی اور کویت یونیورسٹی کے ساتھ الحاق ہے ، جامعہ کے اپنی رول ریگولیشن ہے جوکہ وزارہ تعلیم پاکستان اور مذکورہ یونیورسٹیوں کے نصاب کے عین مطابق ہے.

                            قسمت نوع بشر تبدیل ہوتی ہے یہاں 
                        
  ایک مقدس فرض کی تکمیل ہوتی ہے یہاں. 


اس کے ساتھ میں یہاں ان اداروں کا بھی شکریہ ادا کرنا چاہوںگا کہ جن کے تعاون سے بلتستان کے یہ باسی بذات خود توحید کے علم سے سینوں کو منور کرنے اور علاقے کی قسمت بدلنے اور وہاں پر توحید کی دعوت کو عام کرنے میں کامیاب ہوئے ان اداروں کے لئے ھمیشہ اہل توحید  دعاگو رہیں گے جن اداروں نے اپنی آغوش میں جگہ دی اور تعلیمی ترقی کے لئے ماحول فراہم کیا اور بلتستان کے طلبہ کی تعلیم وتربیت میں ایک فعال کردار اداکیا، ان اداروں کے نام مندرجہ ذیل ہیں جن ميں سے ہر ایک اپنی ایک تعلیمی درخشان تاریخ رکھتی ہیں وہ یہ ہیں:

1- جامعہ تقویہ الاسلام اوڈانوالہ فیصل آباد پنجاب

2- جامعہ تعلیم القرآن ماموں کانجن فیصل آباد پنجاب.

3- جامعہ سلفیہ فیصل آباد پنجاب.

4- جامعہ اثریہ جہلم پنجاب.

5- جامعہ محمدیہ گجرانوالہ پنجاب

6- جامعہ دار الحدیث رحمانیہ سفید مسجد سولجربازار کراچی.

7- جامعہ الستاریہ الاسلامیہ گلشن اقبال کراچی.

8- جامعہ ابی بکر الاسلامیہ گلشن اقبال کراچی. 9- جامعہ الاحسان منظور کالونی کرآچی.

10- جامعہ الدراسات الاسلامیہ گلشن اقبال کراچی.

11- المعھد السلفی گلستان جوھر کراچی

. اوران عظیم اداروں کے ذمہ داران کے بھی مشکور ہیں کہ جن کی مدد اور بھرپور تعاون سے بلتستان کے طلبہ وجامعات اورمدارس نے دن دگنی رات چکنی ترقی کی اور مزید ترقی وکامیابی کی راہ پر گامزن ہیں، دعا ہے کہ اللہ ان تمام اداروں اور اھل خیر کو اجر عظیم سے نوازیں.

ہرایک انسان کے ساتھ جسم ہے اور روح بھی ہے ، جسم کے ساتھ جسمانی لوازمات وابستہ ہیں اور روح کے ساتھ روحانی چیزیں وابستہ ہیں، جسم سے نسب حاصل ہوتا ہے، روح سے نسبت حاصل ہوتی ہے، اس لیے کہا گیا ہے کہ نسب بھی صحیح ہونا چاہیے اور نسبت بھی

آپ قارئین کی خدمت میں ان شخصیات کا تعارف کروادوں جن سے ہر ایک بلتستانی موحد کو روحانی نسبت حاصل ھے، وہی نسبت جوکہ دنیاوی ‏غرض وغایت سے مبرآ وپاک ہوتاہے وہ صرف اللہ کی رضا اور دینی محبت ونسبت اور جسکو قرآن نے یوں بیان کیا ( إنما المؤمنون إخوة...) یہ وہ شخصیات ہیں جنہوں نے روکھا سوکھا کھا کر اور چھوٹا موٹا پہن کر بھی مدارسِ دینیہ کو آباد رکھا ۔ انہوں نے اپنوں کی بے التفاتی اور غیروں کے طعنے سن کر بھی مسند ِ تدریس کو بے آبرو نہ ہونے دیا ۔ مصائب کی آندھیاں آئیں اور بڑے بڑے لوگوں کے نظریات تنکوں کی طرح بکھر گئے مگر یہ لوگ ثابت قدم رہے.

1- الشیخ سید عبداللہ اکبر داعی الاول ومؤسس مدرسہ منبع العلوم.

2- الشیخ محمد علی خوریدی داعی الاول ومؤسس مدرسہ منبع العلوم

3- الشیخ تقی الدین وزیر پوری داعی الاول ومؤسس مدرسہ منبع العلوم

4- الشیخ نور العین چهورکاہ داعی الاول ومؤسس مدرسہ منبع العلوم

5- الشیخ سید اسحاق داعی ومؤسس مدرسہ منبع العلوم

6- الحاج محمد تقی غوسپہ مؤسس ومعاون لمدرسہ منبع العلوم7- الشیخ سید عبدالغفار حسن داعی الاول ومؤسس مدرسہ منبع العلوم[1]

8- الشیخ سید عبدالستار اسحاق مؤسس ومعاون لمدرسہ منبع العلوم

9- الحاج محمد یوسف قیصر آبادی مؤسس ومعاون لمدرسہ منبع العلوم

10- الشیخ محمد حاتم قیصر آبادی مؤسس ومعاون لمدرسہ منبع العلوم

11- الحاج محمد حسن محروقی مؤسس ومعاون لمدرسہ منبع العلوم

12- الحاج محمد حسین محروقی مؤسس ومعاون لمدرسہ منبع العلوم

13- الحاج غلام حیدر قیصر آبادی مؤسس ومعاون لمدرسہ منبع العلوم

14- الشیخ محمد بن محمد علی مؤسس ومدرس ومعاون لمدرسہ منبع العلوم

15- الحاج عبدالرحیم خوریدی مؤسس ومعاون لمدرسہ منبع العلوم

16- الحاج محمد موسی خوریدی مؤسس ومعاون لمدرسہ منبع العلوم

17- الحاج عبدالرحمن خوریدی مؤسس ومعاون لمدرسہ منبع العلوم

18- مولوی عبدالرحیم خوریدی مؤسس ومعاون لمدرسہ منبع العلوم

19- مولوی عنایت اللہ خوریدی مؤسس ومعاون لمدرسہ منبع العلوم

20- میاں کاکا محامد خوریدی مؤسس ومعاون لمدرسہ منبع العلوم

21- الحاج محامد گلاب پوری مؤسس ومعاون لمدرسہ منبع العلوم

22- میاں عبدالصمد چوہان گلاب پوری مؤسس ومعاون لمدرسہ منبع العلوم

23- میاں سید عبدالخالق گلاب پوری مؤسس ومعاون لمدرسہ منبع العلوم

24- ماسٹر حبیب اللہ میرگلاب پوری مؤسس ومعاون لمدرسہ منبع العلوم

25- میاں عبدالرحیم گلاب پوری مؤسس ومعاون لمدرسہ منبع العلوم

26- میاں عبد الملک وزیر پوری مؤسس ومعاون لمدرسہ منبع العلوم

27- میاں محمد ابراہیم وزیرپوری مؤسس ومعاون لمدرسہ منبع العلوم

28- الحاج محمد حسین غوسپہ مؤسس ومعاون لمدرسہ منبع العلوم

29- میاں محمد نذیر قیصر آبادی مؤسس ومعاون لمدرسہ منبع العلوم

30- الحاج محمد یونس چانگچونپہ مؤسس ومعاون لمدرسہ منبع العلوم

31- الشیخ محمد یوسف تبسم چهورکاہ معاون لمدرسہ منبع العلوم

32- جناب محمد یوسف نور عین معاون لمدرسہ منبع العلوم

33- میاں سید عبدالواحد توحید آبادی معاون لمدرسہ منبع العلوم. جامعہ بلتستان الاسلامیہ کے اساتذہ کا تذکر کروں اور فضیلہ الشیخ مفتی وقاضی مولانا سید عبدالغفار حسن صاحب رحمہ اللہ کا نام نامی اسم گرامی نہ لوں تویہ زیادتی ہوگی آپ شمع توحید کا وہ ستارہ تھا جس نے ساری زندگی دعوت وتبلیغ قضاء اور فتوی میں بسر کیئے، کوئی دن ایسا نہیں گزرتا کہ جسمیں آپ کے ہاں کوئی فیصلے کیلیے یا فتوی کیلیے یا کسی تنازعہ کی حل کیلیے نہ آتے ہوں ان تمام مصروفیت کے باوجود درس وتدریس سے کبھی بیگانہ نہ رہے آپ جامعہ بلتستان الاسلامیہ کے مدیر تعلیم رہے،اورمدیر جامعہ کے منصب پر بھی فائز رہے، تمام مسالک کے لوگ آپ کی یکساں قدر کرتے تھے آپ اتحاد امت کے بہت بڑے داعی تھے آپ اسلام کے باوقار اور پر خلوص خدام میں سے تھے جن کی مثالیں زمانے میں حال حال ملتی ھیں جنہوں نے دین اسلام اور مدارس میں تعلیم اور تر بیت کے لئے اپنا سب کچھ قربان کردیا تھا وہ اس دورِ قحط الرجال میں اسلاف ِ امت کی آبرو تھے ۔ وہ جن بزرگوں کاتذکرہ بڑی وارفتگی سے کرتے ‘ خود بھی علم وعمل میں اُن کی ہو بہو تصویر تھے ۔ بہت سے لوگوں کو مشہور اداروں اور نامور جامعات سے پہچانا جاتا ہے جب کہ آپ خود اپنے علاقے کی شناخت اور پہچان تھے ۔ بلکہ جس ادارے سے منسلک ھوتے وە ادارہ چمک جاتا ۔ آج کے دورمیںِ مادیّت نے ہمیں جہاں بہت سی دیگر اچھی روایات سے محروم کر دیا ‘ وہاں استاد و شاگرد کا تعلق بھی مفادات کی بھینٹ چڑھ گیا ۔ کالج اور یونیورسٹی نے تو عرصہ ہوا اس رشتے کے تقدس کو بھلا دیا لیکن اب تو مدارس میں بھی کہیں کہیں و ہی رنگ جھلکنے لگا ہے ۔ مولاناؒ جس دور اور جس ماحول کے نمائندے تھے‘ اُس میں استاذ و شاگرد کا باہمی تعلق ‘ اولاد اور والدین کی محبت سے زیادہ نہیں تو کم بھی نہیں ہوتا تھا ۔ اُن کے ہاں یہ تعلق ضابطے کا نہیں‘ بلکہ مکمل طور پر رابطے کا تھا ۔ مولانا اپنے شاگردوں کو صرف اوقات ِ تدریس میں گھڑی دیکھ کر سبق ہی نہیں پڑھاتے تھے بلکہ اُن کے اندر چھپے ہوئے جوہرنایاب کو نمایا کرتے طلبہ کو خود اعتمادی کےزیورسے آراستہ کرتے آپ دینی ، سیاسی ،اجتماعی، سماجی،فلاحی ہر روپ میں ایک بہتریں انسان تھے آپ کے دور میں جامعات ومدارس روشن ضمیر طلبہ، علماء ، خطباء، واعظین ملک کو فراہم کرتے تھے (اب تو افسوس کا مقام ہے کہ ان اداروں سے روشن ضمیر کے بجائے روشن خیال طلبہ اساتذہ علماء پیدا ہو رہے ہیں) ،آپ علمی نسبت کے ساتھ روحانی نسبت رکھتے تھے لیکن ان سب نسبتوں کے امین ہونے کے باوجود آپ بنیادی طور پر ایک ’’مدرس‘‘ تھے ۔ ایسے کامیاب اور صاحب ِ اسلوب مدرس کہ آپ کے شاگرد اب آپ کے دروس کو ترستے ہوئے یوں کہتے ہیں :

                                    آئے عشاق ‘ گئے وعدئہ فردا لے کر
                                    اب ڈھونڈ اُنہیں چراغِ رخِ زبیالے کر


آپ 2014ء میں داعی اجل کو لبیک کہہ گئے (إنا لله وإنا إليه راجعون ). 

بلاشبہ حضرت مولانا سید عبدالغفار وزیرپوری رحمتە اللہؒ کا رخصت ہو جانا ‘ صرف ایک شخص کا دنیا سے چلا جانا نہیں بلکہ ایک عہد اور دور کا خاتمہ ہے ، جس کی خوبصورت یادیں ہمیشہ دلوں میں بسی رہیں گی. اللہ ہمیں اپنے "اسلاف " بزرگان دین کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق عطاء فرمائيں جامعہ بلتستان کی ترقی وترویج میں مذکورہ بالا شخصیات شیوخ علماء جن کا تذکرہ کرچکے ، مگر چند شخصیات ایسی ہیں جو کہ خود منبع العلوم کے فیض یافتہ گان ہيں مگر اس جامعہ بلتستان الاسلامیہ کی آبیاری اور تعمیر وترقی میں ان علماء ومشایخ کا تذکرہ نہ کرنا انکے ساتھ نہایت ہی زیادتی ہوگی، میں سوچ رہاہوں کہ ان کا تذکرہ ایک مستقل عنوان سے کروں لھذا یہاں ان کے اسماءگرامی یاد دہانی کے طور پر لکھ رہاہوں جنکا اوپر تذکرہ نہیں کیا تاکہ ھمارے نوجوانوں اور مستقبل کے معماروں کے اذھان میں یہ بات نقش ہوجاے کہ اس گلشن کی آبیاری میں ان شیوخ وعلماء کرام کا کتنا ہاتھ ہے.

1- الشیخ مفتی وقاضی وشیخ الحدیث حضرت مولانا سید فضل الرحمن حفظہ اللہ.

2۔ الشیخ سید عبد اللہ سید عبد الخالق حفظہ اللہ

3- الشیخ عبدالستار محمد حفظہ اللہ مدیر جامعہ بلتستان الاسلامیہ.

4- الشیخ عبدالسلام عبدالرحیم حفظہ اللہ .

5- الشیخ عبدالسلام ابراہیم حفظہ اللہ مدیرمالیہ جامعہ بلتستان.

6- الشیخ عبدالصمد کلیم بن محمد حسین رحمہ اللہ

7- بلبل بلتستان مقرر شعلہ بیاں الشیخ سید فیض اللہ احمد جان حفظہ اللہ

8- الشیخ عبدالمتین امام وخطیب جامع مسجد وزیرپور.

9- الاستاد شیخ سید عبداللہ قاسمی حفظہ اللہ. وغیرہ

کے بارے میں ان شاء اللہ ضرور لکھوں گا اگر وقت ساتھ دیے اور آپ لوگوں کی دعائيں اور اللہ کی توفیق شامل حال رہی تو. والسلام علیکم ورحمہ اللہ وبرکاتہ

درج ذیل میں جامعہ بلتستان الاسلامیہ کا تعارف اور چند اہم  خصوصیات پیش خدمت ہے.

1- جامعہ بلتستان الاسلامیہ ایک معروف دینی ،علمی،دعوتی اورفلاحی ادارہ ہے ، جوکہ عرصہ 35 سا ل سے ہر قسم کے تعصب اور فرقہ واریت سے بالاتر ہو کر علم نبوت کی روشنی کوعام کرنے کیلئے مصروف عمل ہے۔

2- جامعہ بلتستان الاسلامیہ میں قرآن وسنت کی تعلیم کا بالغ نظری سے مؤثر اہتمام کیا گیا ہے ۔

3- 'جامعہ بلتستان الاسلامیہ کی بنیاد یکم مئ 1983ء کو  "جامعہ الامام محمد بن سعود کے اساتذہ جناب فضیلہ الشیخ عبدالعزیز بن محمد المرزوق حفظہ اللہ"

اور "جناب فضیلہ الشیخ ناصر بن عبدالرحمن السعید حفظہ اللہ" نے اپنے دست مبارک سے رکھا.

4- جامعہ بلتستان الاسلامیہ میں بشمول ذیلی ادارے اب تک مختلف شعبہ جات میں زیر تعلیم  طلباء وطالبات کی تعداد (2000) تک پہنچ چکی ہے جو مختلف شعبہ جات میں تعلیم حاصل کر رہے ہیں.  

5- جا معہ بلتستان اسلامیہ میں تعلیم وتدریس اردو زبان میں ہوتی ہے۔

6- جامعہ بلتستان الاسلامیہ کے تعلیمی کورسز جدید تقاضوں کو مد نظر رکھتے ہوئے مرتب کیے گئے ہیں , چنانچہ نرسری سے پنجم کلاس تک آفاق کا نصاب انگلش میڈیم مع قاعدہ وناظرہ قران مجید, عملی وضو ونماز .

کلاس ششم سے میٹرک تک ترجمہ قرآن کریم ,حدیث کی کتابیں, وفاق المدارس سلفیہ کے تحت مرحلہ عامہ کے نصاب کے ساتھ پنجاب بورڈ کامقررہ نصاب اردو میڈیم میں پڑھایا جاتا ہے ۔

میٹرک کے بعد وفاق المدارس سلفیہ کے تحت مرحلہ خاصہ اور عالیہ کا نصاب مقرر ہے .

7-  اس دانش گاہ میں جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ ، جامعہ الامام محمد بن سعود الاسلامیہ ریاض، جامعہ ملک سعود ریاض اور دیگر ملکی جامعات کے ڈگری ہولڈرز اور باصلاحیت ، محنتی اور مخلص اساتذہ کرام تعلیم وتربیت کے فرائض خوش اسلوبی سے سرانجا م دے رہے ہیں۔

8-  جامعہ بلتستان الاسلامیہ طلبہ کی تعلیم وتربیت کے لحاظ سے ایک منفرد ادارہ ہے۔ جامعہ ان کی فکری تربیت اور ذہن سازی گروہی تعصبات اور فرقہ واریت سے بالا تر رہ کر اتحاد امت کے زاویہ نگاہ سے کررہی ہے۔

9- اس جامعہ کے فیض یافتگان اندرون ملک دعوت اسلام، کتاب وسنت کی تعلیم اور اسلامی مراکز کے قیام وانتظام کا فریضہ سرانجام دے رہے ہیں ۔

10- جامعہ سے فارغ التحصیل طلبہ پاکستان میں علمی چشموں کی صورت اختیار کرچکے ہیں جن سے سینکڑوں علم دین کے طالب فیض یاب ہورہے ہیں۔ جو مختلف طریقے مثلاً: خطابت ،امامت درس وتدریس حکومتی تعلیمی ومذہبی ذمہ داریوں کے ذریعے اسی مشن کی تکمیل کے لیے جو محمد عربی ﷺ آج سے چودہ سو سال پہلے لایا تها مصروف عمل ہیں .

11- جامعہ کی عمارت نہایت خوبصورت ، خوشگوار ، صحت افزا اور پر سکون ماحول میں واقع ہے ۔ اللہ تعالی کے فضل وکرم سے جامعہ بلتستان الاسلامیہ تعلیمی ،تربیتی اور فلاحی خدمات کے میدان میں اپنے حوصلہ افزا اور نتیجہ خیز سفر کے 35 سال مکمل کر کے عالم اسلام کیلئے ایک گرانہا اثاثے کا ثبوت بن چکی ہے۔

جامعہ بلتستان الاسلامیہ ماضی قریب کا ایک ننھا سا پودا اب الحمد للہ ایک ایسا تناور درخت بن چکا ہے جو اپنی ٹھنڈی چھاؤں اور علم وآگہی کے لطیف جھونکوں سے تشنگان علم وادب کو معطر کر رہا ہے ۔ اس شجرہ طیبہ کے ثمراتِ علم وادب سے طلبہ کرام اور عوام الناس دونوں مستفید ہو رہے ہیں .

12- جامعہ کو تعلیمی وتربیتی راہ پر گامزن رکھنے اور طلبہ کو ایک آسودہ ماحول میں اپنی علمی کاوشوں کو جاری رکھنے کیلئے انتظامیہ کی قدر الامکان خدمات میسر ہیں۔

13- چونکہ صنف نازک انسانی معاشرہ کا نصف سے بھی زائد حصہ ہیں تو جامعہ نے طلبہ کی اخلاقی اور علمی تربیت کے ساتھ ساتھ طالبات کی تعلیم وتربیت پر بھی خصوصی توجہ دی ہے اور طالبات کیلئے شریعت کے علم کے حصول کو آسان بنانے کیلئے 27 علیحدہ برانچیں قائم کی ہیں۔

14- اس کی ڈگری سعودی جامعات میں معترف ہےجس کی بناء پر جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ ، جامعہ ام القری مکہ المکرمہ اور جامعۃ الامام محمد بن سعود الاسلامیہ ریاض میں اعلی تعلیم کیلئے داخلے یقینی ہوتے ہیں۔

15- تعلیم وتربیت میں اعلی معیار برقرار رکھنے اور علمی مہارتوں اور تجربات کے تبادلوں کی غرض سے جامعہ بلتستان الاسلامیہ نے ”وفاق المدارس السلفیہ پاكستان“کی رکنیت حاصل کر لی ہے ۔اس عظیم مقصد کی تکمیل کیلئے وفاق المدارس السلفيہ باكستان کے زیر انتظام منعقدہ کانفرنسوں اور سیمنارز میں یہاں کے وفود شرکت کرتے ہیں ۔

16- جامعہ کی جانب سے تبلیغ دین اور عوام میں صحیح اسلامی فکر عام کرنے کیلئے مختلف اجتماعات، دروس قرآن وحدیث اور بڑے بڑے علماء کرام کے خطاب جیسے مختلف ومتنوع پروگراموں کا اہتمام کیا جاتا ہے۔

17- جامعہ بلتستان الاسلامیہ ایک عظیم الشان تحریک کا نام ہے جوکہ بلتستان میں اسلامی ورثہ اور روایات کے تحفظ کا مشن رکھتی ہے اور اسی مشن کے تحت اپنی متنوع سرگرمیوں کو فروغ دینے کے لیے برسہا برس سے مصروف عمل ہے۔

18- الحمد للہ جامعہ بلتستان الاسلامیہ نے مختصر سی مدت میں اللہ کی توفیق ، اس کے فضل و کرم اور اپنے محسنین کرام حفظہم اللہ تعالی کے حسن تعاون سے مختلف تعلیمی ، دعوتی اور رفاہی شعبہ جات قائم کرکے اپنے بہت سارے مقاصد میں کامیابی حاصل کی ہے جن میں سے بعض اہم شعبے درج ذیل ہیں .


1⃣شعبہ حفظ القرآن

2⃣شعبہ ناظرہ قرآن

3⃣شعبہ علوم اسلامیہ

4⃣شعبہ ترجمہ وتفسیر

5⃣شعبہ عصری تعلیم

6⃣شعبہ دارالافتاء والقضاء

7⃣شعبہ فلاحی خدمات

8⃣شعبہ دعوت وتبلیغ

9⃣شعبہ تعمیر مساجد

جامعہ بلتستان الاسلامیہ کا محل وقوع

جامعہ بلتستان الاسلامیہ بلتستان کے وادئ شگر کے ایک پہاڑی علاقے وزیرپور میں واقع ہے جو پاکستان کے انتہائ شمال میں واقع سیاچن گلیشیئر اور سلسلہ قراقرم کے دامن میں اقع ہے جہاں دنیا کی دوسری بڑی چوٹی  k-2  موجود ہے  

اس علاقہ کے جغرافیائی حدود  پاکستان ، ہندوستان ، روس ، چین سے ملتے ہیں .

یہ علاقہ ثقافتی اور صنعتی لحاظ سے بہت پسماندہ ہے, یہ برفانی اور نہایت ٹھنڈا علاقہ ہے اور اس کے زیادہ تر باشندے غریب اور نادار ہیں جو زندگی کی بنیادی سہولتوں سے بهی محروم ہیں ، ماضی میں غربت اور بنیادی سہولیات سے محرومی کی وجہ سے یہاں کے لوگ بنیادی تعلیم کے زیور سے محروم رہے جس کی وجہ سے یہاں کے زیادہ باشندے حقیقی  تعلیم کی روشنی سے فیضیاب نہیں ہوسکے .

یکم مئی 1983ء

یوم تأسيس جامعة بلتستان الاسلامیہ

مدارس دینِ اسلام  کے وہ قلعے ہیں جہاں سے  قال اللہ  وقال الرسول ﷺ کی پاکیزہ صدائیں دن رات گونجتی ہیں ۔ ہجرت کے بعد مدینہ منورہ میں جب اسلامی ریاست کا قیام عمل میں آیا تو وہاں سب سے پہلے  آپﷺ نے مسجد تعمیر کی جو مسجد نبوی کے نام سے موسوم ہے ، اس کے ایک جانب آپ نے  ایک چبوترا (صفہ) بھی تعمیر کرایا ۔ یہاں بیٹھ کر آپﷺ صحابہ کرام کو قرآن مجید اور دین کی تعلیم دیتے تھے ، یہ اسلام کاپہلا باقاعدہ اقامتی مدرسہ تھا جو تاریخ  میں اصحاب صفہ کے نام سے معروف  ہے ، یہاں سے مسجد اور مدرسہ کا ایسا تلازمہ اور سلسلہ قائم ہوا کہ پھر جہاں جہاں مسجدیں قائم ہوتی گئیں وہاں ساتھ ہی مدرسے بھی قائم ہوتے گئے ، اسلامی تاریخ ایسے مدارس ودینی مراکز سے بھری پڑی ہے کہ غلبۂ اسلام ، ترویج دین اور تعلیمات اسلامیہ کو عام کرنے میں جنکی خدمات نے نمایاں کردار ادا کیا .

برصغیر پاک وہند میں بھی اسلام کی ترویج اور تبلیغ کے سلسلے میں بے شمار علماء نے مدارس قائم کیے اور درس وتدریس کی مسندیں بچھائیں انہی مدارس میں سے ایک مدرسہ منبع العلوم الاسلامیہ شگر بهی تها جسے شگر کے مقامی علماء کرام مولانا عبداللہ اکبر رحمہ اللہ ، مولانا محمد علی بن عبد السلام رحمہ اللہ اور مولانا محمد تقی الدین رحمہ اللہ تعالیٰ نے بنوایا تھا . مدرسہ منبع العلوم الاسلامیہ 1982ء تک قائم رہا اور طلبہ وطالبات کیلئے ابتدائی تعلیم وتربیت اور عوام الناس کو اسلامی تہذیب وتمدن سے آراستہ کرتا رہا لیکن 13 جنوری بروز جمعرات 1982ء کو سخت سردیوں کی اندھیری رات میں مدرسے کی عمارت کو آگ لگ گئی اور ایک درجن کے قریب کمروں پر مشتمل یہ عظیم عمارت , درسی واسلامی کتب اور دیگر اثاثہ جات سمیت جل کر راکھ ہو گئی .

إنا لله وإنا إليه راجعون


مدرسہ کی بحالی اور تعمیر نو

سانحہ منبع العلوم جماعت اہلحدیث شگر کیلئے ایک غیر متوقع اور دردناک سانحہ تھا, جس نے پوری جماعت کو نہایت غمزدہ کردیا تھا کیونکہ جماعت کا یہی ٹوٹل سرمایہ تھا جو آنا فانا ویران اور ملبہ کے ڈھیڑ میں تبدیل ہوچکا تھا , اس موقع پر ہر آنکھ سے آنسؤوں کا سیلاب جاری تھا , اس وقت ایسا محسوس ہونے لگا کہ اب درس وتدریس کا سلسلہ رک چکا ہے , اب کوئی مدرسہ کے اہتمام نہیں ہوگا, اب کوئی پڑھنے والا یہاں دکھائی نہیں دے گا , لیکن جذبہ تعمیر سے سرشار جماعت کی ماؤں , بہنوں , نوجوانوں اور بزرگوں کو سلام ہو کہ ان کے ناقابل یقین ایثار وقربانیوں نے اس حقیقت کو سچ کر دکھایا کہ اگر ہو جذبہ تعمیر زندہ تو پھر کس چیز کی ہم میں کمی ہے چنانچہ آنا فانا دینی جذبوں اور جماعتی ہمدردیوں کا عمل شروع ہوگیا اور اساتذہ نے بچوں کو پھر جمع کرکے درس وتدریس کا کام شروع کردیا , بعض طلبہ مدرسے سے متصل گھروں میں پڑھتے اور جبکہ ناظرہ کے بچے مدرسے کے نچلی منزل میں موجود لائبریری ھال میں پڑھتے کیونکہ یہی وہ واحد جگہ تھی جو طوفانی آگ سے محفوظ رہی تھی .

اِدھر قوم کے جوانوں , بوڑھوں , ماؤں اور بہنوں نے جذبہ تعمیرِنو اور جذبہ خدمتِ دین کے تحت مدرسہ منبع العلوم الاسلامیہ میں پھر سے درس وتدریس کا آغاز کردیا , تو اُدھر ان کے اس دینی جذبے اور ولولے نے بیرونِ ملک زیر تعلیم شگر بلتستان کے طلباء کے عزم اور حوصلوں کو مزید مضبوط اور بلند کردیا اور انہوں نے مدرسہ کو از سرنو تعمیر کرنے کا پختہ عزم و ارادہ کر لیا , چنانچہ اس مقصد کیلئے درج ذیل حضرات پیش پیش تھے .

"1- فضیلۃ الشیخ عبدالغفار حسن رحمہ اللہ

"2- فضیلۃ الشیخ فضل الرحمن حفظہ اللہ

"3- فضیلۃ الشیخ فیض اللہ احمد جان رحمہ اللہ

4- فضيلۃ الشيخ عبدالستار محمد حفظہ اسد اللہ

5- فضيلۃ الشيخ سید عبداللہ عبد الخالق حفظہ اللہ

6- فضيلۃ الشيخ عبدالسلام ابراہیم حفظہ اللہ

"7-فضيلۃ الشيخ مہدی زمان حفظہ اللہ

8- فضيلۃ الشيخ عبدالصمد کلیم رحمہ اللہ

ان معزز حضرات میں سے بعض اُس وقت سعودی عرب کے امام محمد بن سعود یونیورسٹی میں زیر تعلیم تھے ، سب نے ایک وفد کی شکل میں امام محمد بن سعود یونیورسٹی رياض کے اس وقت کے مدیر جناب فضیلۃ الشیخ علامہ عبدالله بن عبدالمحسن التركي حفظه الله ورعاه سے ملاقات کی اور انہیں مدرسہ کے ساتھ پیش آنے والے سانحہ سے آگاہ کیا اور مزید تفصیلی صورتحال جاننے کیلئے انہیں شگر بلتستان آنے کی دعوت دی چنانچہ ان طلباء حضرات کی خصوصی دعوت پر علامہ عبداللہ بن عبدالمحسن التركي نے جامعۃ الإمام کے اساتذہ پر مشتمل ایک وفد شگر بلتستان روانہ کردیا ، یہ وفد ان دو فاضل شخصیات پر مشتمل تها :

1- فضيلة الشيخ عبدالعزيز بن محمد المرزوق .

2 - فضيلة الشيخ ناصر بن عبدالرحمن السعید .

وفد کے معزز اراکین نے شگر بلتستان کا تفصیلی دورہ کیا, مدرسے کے ساتھ پیش آنے والے ناگہانی صورتحال کا بغور جائزہ لیا , نازک حالات کا سنجیدگی سے مطالعہ کیا اور علاقے میں مدرسے کی تعمیر نو کی ضرورت کو شدت سے محسوس کرتے ہوئے ایک جدید عمارت جامعہ بلتستان الاسلامیہ کا سنگ بنیاد بتاریخ 17 رجب 1403 ہجری بمطابق یکم مئی 1983ء بروز اتوار کو اپنے دست مبارک سے رکھا , اور اس طرح اللہ کے فضل وکرم اور علماء واساتذہ کی انتھک محنت, بے پناہ جد وجہد کے بعد ایک عظیم الشان فلاحی , تعلیمی , اور دعوتی ادارہ وجود میں آگیا .

سن 1983 میں "جامعہ بلتستان الاسلامیہ" شگر بلتستان میں پہلا غیر سرکاری تعلیمی ادارہ تھا جہاں دینی ودنیاوی تعلیم کا ایک ساتھ انتظام تھا, طلباء کو ماہانہ بنیاد پر وظیفہ بھی دیا جاتا , طلباء عصری تعلیم کیلئے صبح کے ٹائم میں گورنمنٹ پرائمری اسکول جایا کرتے اور اسکول سے واپسی کے بعد دوپہر کے وقت دینی تعلیم حاصل کرتے , اس وقت پہلی جماعت سے پرائمری تک مفت تعلیم کا انتظام تھا ,  یہ ادارہ اُس وقت شگر بلتستان میں واحد ادارہ تھا جہاں مفت دینی ودنیاوی تعلیم کے ساتھ ساتھ مفت قیام وطعام کی بہترین سہولت حاصل تھی .

جامعہ بلتستان الاسلامیہ کا مدیر اول

فضیلۃ الاستاذ "سید عبد اللہ عبد الخالق" حفظہ اللہ کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ آپ اس ادارے کے پہلے مدیر عام تھے , آپ کو  انتظامی صلاحیتوں اور ادارے کی تعمیر وترقی میں بے پناہ جد وجہد, نمایاں خدمات سر انجام دینے کی بناء پر جامعہ بلتستان الاسلامیہ کا مدیر عام منتخب کیا گیا ,  آپ نے اس ادارے کی تاسیس میں قابل قدر خدمات انجام دی ہیں , آپ 1993تک جامعہ بلتستان الاسلامیہ کے مدیر اور سربراہ رہے , اپنے دور ادارت میں اپنی سیاسی بصیرت اور کمال فہم وفراست سے جامعہ کو ترقی کی کئی منزلوں سے روشناس کرایا اور اولین فرصت میں جامعہ کیلئے رہائشی اور تدریسی مقاصد کے تحت قیمتی اراضی حاصل کیں ، جدید عمارتوں کی بنیاد رکهی ، نظام تعلیم میں بہتری لاتے ہوئے وقت کے تقاضوں سے ہم آہنگ نصاب تعلیم متعارف کرایا  ، مستقبل کے چیلنجوں سے نمٹنے کیلئے سکردو شہر میں پلاٹ خریدا جس پر اسلامک اکیڈمی کے نام سے کئی منصوبے زیر تکمیل ہیں جن میں تجارتی سینٹر کی تعمیر گذشتہ سال سے جاری ہے,  چنانچہ 18 دکانوں کی مکمل تعمیر وتزئین کے ساتھ جامعہ بلتستان الاسلامیہ نے خود کفالت کی جانب اپنے سفر کا آغاز کردیا ہے, اس کے علاوہ عصری علوم کے شوقین طلبہ کیلئے جدید ہاسٹل تعمیر کا آغاز بھی ہوچکا ہے ,  مخیر حضرات کو اس پر توجہ دینے کی ضرورت ہے, اشیاء خورد ونوش میں خود کفالت کے غرض سے 600 کنال پر مشتمل  زمین جامعہ کیلئے حاصل کی گئی , جامعہ بلتستان الاسلامیہ کا عرب جامعات سے معادلہ ہوا ، جس سے طلبہ کو بیرون ممالک کے یونیورسٹیوں میں تعلیم حاصل کرنے کے سنہری مواقع میسر آئے ، بیشک یہ ایک بہت بڑا اعزاز تها جو جامعہ بلتستان کے حصے میں آیا، اور ایک تاریخی سنگ میل تھی جسے جامعہ نے عبور کر لیا.

چنانچہ آپ نے انتہائی جد وجہد سے اندرون و بیرون ملک جامعہ بلتستان الاسلامیہ کو ایسے متعارف کرایا کہ مختصر عرصے میں جامعہ ایک مقبول ومشہور دینی درسگاہ کے طور پر دنیا کے نقشے پہ نمودار ہوا اور جامعہ کے طلبہ کیلئے بیرون ممالک کے جامعات میں داخلے کے دروازے کھل گئے , یہ سلسلہ الحمد للہ تا حال جاری ہے اور دعا ہے کہ آئندہ بھی جاری وساری رہے .


شیخ عبد الستار محمد حفظہ اللہ


اس وقت جامعہ کی ادارت جناب فضیلۃ الشیخ عبدالستار محمد حفظہ اللہ کے پاس ہے، آپ نے اپنی مسلسل جدوجہد اور کاوشوں سے جامعہ کو ترقی کے کئی منزلوں سے آشنا کرایا ہے ، ان میں درج ذیل امور قابلِ ذکر اور سرفہرست ہیں .

جامعہ کا وفاق المدارس پاکستان سے الحاق ہوا جس سے طلبہ کیلئے وفاق کے امتحانات میں شرکت کیلئے آسانی پیدا ہوگئی ، شگر کے بیشتر علاقوں میں علم کی روشنی پھیلانے کیلئے جامعہ کے زیر انتظام برانچوں کا جال بچھایا گیا ، لوگوں کی سہولت کیلئے ہر محلہ میں مسجد ومدرسہ کی بنیاد رکهی گئی ، خدمت خلق کے مختلف شعبہ جات مثلاً کفالت ایتام ، افطار صائم، تقسیم قربانی ، فراہمی آب , اور ہنگامی مدد وتعاون وغیرہ کے شعبہ جات قائم کرکے علاقے کے غریب عوام اور نادار افراد کی مدد کر رہے ہیں ، جامعہ بلتستان الاسلامیہ وزارتِ تعلیم حکومت پاکستان سے رجسٹرڈ ہوا ، چنانچہ ایک منظور شدہ دینی وفلاحی ادارے کے طور پر جامعہ کی قانونی حیثیت تسلیم کر لی گئی اور جامعہ میں میٹرک تک عصری تعلیم کی قانونی منظوری دی گئی.  الحمد للہ .

الحمد للہ ترقی وکامرانی کا یہ مبارک سفر تا حال جاری ہے اور ان شاء اللہ جاری رہے گا ، اللہ کے فضل وکرم سے اور مخلص علماء کرام کی جدوجہد کی بدولت اس ادارے کے ذریعے سینکڑوں علم کے پیاسوں کی سیرابی ہوتی ہے  ، سینکڑوں داعیانِ کتاب و سنت یہیں سے مستفید ہوئے ہیں ، پورے شگر میں ایک ایسا منفرد اداره بن گیا ہے جو معاشرے میں امن وامان کے قیام کو یقینی بنانے کیلئے کوشاں رہتا ہے اور یہاں کے مکینوں کو توحید وسنت کی طرف دعوت دیتا ہے اور جہالت کا قلع قمع کرتا ہے ، الله تعالی سے دعا ہے کہ اللہ تعالٰی اس چمن کے رنگ وبو میں مزید رونق عطا کرے اور جامعہ سے منسلک تمام داعیانِ حق کی زندگیوں میں اور انکے مال واولاد میں برکت عطاء فرمائے اور مزید علم کی روشنی سے جہالت کی اندهیروں کو مٹانے کی توفیق عطاء فرمائے , سب کو اسلام اور ملک پاکستان کے پاسبان ومحافظ بنائے, اور ان مدارس دینیہ کی امداد وحفاظت اور ان کے ساتھ تعاون کرنے کی توفیق عنایت فرمائے، آمین۔

13 جنوری سانحہ منبع العلوم

یہ1982ء کی بات ہے, 13 جنوری کی رات تھی۔ فرش پہ برف کی سفید چادر تھی اور عرش پہ نیلگوں آسماں کھلا تھا,  یخ بستہ ہوا چل رہی تھی اور ٹھٹھرتی اور سانسوں کو منجمد کرنے والی سردی اپنے عروج پہ تھی, وزیرپور گاؤں میں رات کی تاریکی پوری طرح سے پھیل چکی تھی, ماہ ربیع الاول کی 28 تاریخ تھی لہذا چاند کی روشنی بھی غائب تھی, مکانوں میں بتیاں بھی بجھ چکی تھیں اور مکین آرام کی نیند میں دنیا ومافیہا سے بے خبر ہوچکے تھے, ہر طرف سناٹا تھا, مدرسہ منبع العلوم کے طلباء اپنے استاد محترم شیخ فضل الرحمن حفظہ اللہ کی نگرانی میں رات کے مقررہ وقت تک مطالعہ کے بعد نیند کی آغوش میں چلے گئے تھے , تقریبا رات کے دو یا تین بجے کا وقت ہوگا کہ یکایک کمرے کا دروازہ زور سے پٹخنے لگا, ہر طرف شور وغل سنائی دینے لگا, کسی کو کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا کہ کیا ہوگیا ہے, خوف اور بدحواسی کے عالم میں کمرے سے نکل کر دیکھا تو ایک بھیانک منظر سامنے تھا, کمروں سے آگ کے غضبناک شعلے نکل رہے تھے, آگ نے پوری طاقت کے ساتھ مدرسے کو اپنی گرفت میں لے رکھا تھا,  اِدھر بوا فضل الرحمن آوازیں دیتے ہوئے لڑکوں کو باہر نکال رہے تھے, آگ کی خوفناکی اور دہشت اس کے بھڑکتے شعلوں سے عیاں تھی, اس کی تپش بہت دور تک محسوس کیجا رہی تھی, طلبہ کے چہروں پہ خوف اور دہشت نمایاں تھی, جبکہ شیخ فضل الرحمن حفظہ اللہ طلبہ کو  بستروں سے اٹھاکر اٹھاکر باہر نکال ریے تھے, بعض طلبہ سیڑھی اتر کر نکلنے میں کامیاب ہوئے جبکہ بعض کو کھڑکیوں کے ذریعہ مدرسہ سے  متصل مکانوں کی چھت پر پھینک دیا گیا, کیونکہ اس وقت تلک سیڑھی بھی جل کر راکھ ہوچکی تھی, پڑوس میں رہنے والے لوگ بھی مدد کیلئے پہنچ چکے تھے, انہوں نے کمروں میں موجود بسترے, کتابیں فٹیاں, ٹیبل کرسیاں وغیرہ نکالنے میں مدد کی, آگ بجھانے کیلئے پانی بھی دستیاب نہ تھا, چنانچہ اوپر منزل کے تمام کمرے مکمل طور پر جل گئے, تاہم کوئی جانی نقصان نہیں ہوا, سارے طلبہ بخیریت وعافیت مدرسے سے نکلنے میں کامیاب ہوگئے, زیر نظر تصویر اسی صحن کی ہے جس  میں طلبہ مدرسہ سے نکلنے والے شعلوں کو بے بسی سے دیکھ رہے تھے , غم اور دکھ کے عالم نے پورے ماحول کو رنجیدہ وافسردہ کردیا تھا, ہر آنکھ اشکبار تھی, خواتین وحضرات سبھی غمزدہ تھے , منبر ومحراب بھی نوحہ کناں تھے , مسجد سکسیوں اور آہوں سے بھر گئی تھی, مدرسے میں اکثریت کم عمر بچوں کی تھی, ایسے بلک بلک رویے کہ ان کی ہچکیاں بندھ گئیں, میں بھی اس دن بہت رویا کیونکہ میرا غم بھی دوسروں سے جدا نہ تھا, یہ ناقابل فراموش رات نہ صرف وزیرپور گاؤں کے لیے بھاری تھی بلکہ پوری جماعت اہلحدیث شگر کیلئے دل دہلانے والی رات تھی۔ میں اس رات کا منظر ساری زندگی نہیں بھول سکتا , میں اللہ تعالی کا شکر ادا کرتا ہوں کہ اس نے مجھے عافیت کی زندگی عطاء کی, اور پھر حرمین شریفین کا دیدار نصیب کرایا, نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پیارے شہر مدنیہ منورہ کی زیارت کی توفیق دی , مدینہ یونیورسٹی سے فیضیابی کا اعزاز بخشا اور آج اس تحریر کو آپ لوگوں تک پہنچانے تک میں الحمد للہ زندہ وسلامت ہوں.

جماعت اہلحدیث شگر کیلئے یہ بات باعث تسلی اور قابل اطمئنان تھا کہ اللہ تعالی نے اس نقصان کا بہت جلد نعم البدل عطا فرمادیا, یہ اللہ تعالی کا فضل اور احسان عظیم تھا, یہ جماعت کے بزرگوں کی دعائیں تھیں, یہ ماؤں بہنوں کی اللہ سے التجائیں تھیں,  یہ ان مشائخ اور اساتذہ کرام کی کاوشیں تھیں جو اُس وقت سعودی جامعات میں زیر تعلیم تھے انہوں نے بروقت اس سانحہ کو عرب محسنین ومخیر حضرات کے سامنے عمدہ طریقے سے پیش کیا,  جس کے نتیجے میں مختصر مدت کے اندر یکم مئی 1983 کو جامعہ بلتستان الاسلامیہ کے نام سے ایک تعلیمی, دعوتی اور رفاہی مرکز کی بنیاد رکھ دی گئی اور یوں ایک شاندار علمی مرکز کا قیام عمل میں آگیا, میں جماعت کے ان تمام مشائخ کو خراج تحسین پیش کرتا ہوں جو اس کار خیر میں پیش پیش تھے اللہ ان کی عمر میں برکت دے, اللہ انکی کاوشوں کو قبول فرمائے , اللہ ان کی ہر نیک تمنا پوری فرمائے, میں جماعت کے اُن بزرگوں کو بھی سلام پیش کرتا ہوں جو آج ہم میں موجود نہیں ہیں مگر انہوں نے حسب استطاعت اس ادارے کی تاسیس وقیام کیلئے جد وجہد کی, اسکی تعمیر وترقی میں کسی نہ کسی طریقے سے حصہ لیا, اللہ ان سب کی مغفرت فرمائے اور جنت میں اعلی مقام عطا فرمائے.

دوستو! اور ساتھیو! جامعہ بلتستان الاسلامیہ علاقہ شگر کی پہچان ہے, یہ بزرگوں کی جدوجہد کی ایک داستاں ہے, یہ جماعت اہلحدیث کی شان اور آن ہے, یہ ہم سب کے ماتھے کا جھومر ہے, اس کی قدر کرو, اس کی تعمیر وترقی میں اپنا حصہ ڈالو, اس کی کامیابی کیلئے دعائیں کرو, یہ ہم سب کا بحیثیت مسلمان ایک اہم اخلاقی فریضہ ہے, جامعہ اور جماعت اہلحدیث کیلئے آپ کی معمولی سی نیکی, آپ کی اچھی سوچ, آپ کا مثبت قدم, حوصلہ افزائی دو میٹھے بول, دعا کے دو لفظ علاقہ شگر میں قرآن وسنت کی تعلیم وتبلیغ کا سبب بنے گا, دنیا میں آپ کی عمر اور رزق میں برکتوں کاذریعہ بن جائے گا, اور قیامت کے روز آپ کے نامہ اعمال میں نیکیوں کا خزانہ بن جائےگا. إن شاء اللہ تعالی.

اللہ تعالی اس مادر علمی کو تا قیامت قائم ودائم رکھے. آمین ثم آمین

تحریر

الشیخ اکرم الہی مدینہ منورہ و الشیخ ہارون شگری

جمع و ترتیب

سید مطیع الرحمن شگری



  1. استشهاد فارغ (معاونت)