Shahid Rustam
تورخیل قوم ایک پشتون قبیلہ سے تعلق رکھتے ہیں جس کا شجرہ نصب افغانستان سے جا ملتا ہے آبادی کہ لحاظ سے تورخیل قوم پاکستان میں خیبرپختونخوا کہ ضلع ڈیرہ اسماعیل خان تحصیل پروا اور گاؤں شموزی کھوی بھارا اور آس پاس کے چھوٹے بڑے گاوں اور ضلع بٹگرام ضلع پشین صوابی وزیر ستان اور افغانستان میں تورخیل سیدان کے نام سے جانے پہچانے جاتے ہیں چیف آف تورخیل حاجی ظریف خان مرحوم ولد رحیم خان تورخیل گاؤں شموزی تحصیل پروا ضلع ڈیرا اسماعیل خان میں قیام پاکستان کہ ایک سال بعد 1948 میں گاؤں شموزی میں پیدا ہوۓ جس کو لوگ اپنے وقت کا ایک اصول پرست دشمن اور حق پرست یعنی حق پر ڈٹ جانے والا نڈر بہادر غیرت مند جرت مند شخصیت کے نام سے پہچانتے ہیں جس کی زندگی کا عین مقصد ہر غریب یتیم کو سہارا دینا اور مظلوم کو انصاف دلانا تھا جس نے جوانی میں ہی اپنے باپ دادا کے تخت اور تورخیل قام کو عزت بخشی اور پشتون قام کے رسم رواج کے مطابق قام کہ روایتی رسم رواجی فیصلہ جرگہ کو ترجیح دینا شروع کردی جس سے معاشرے میں انکی مقبولیت بڑھی اور لوگوں کہ دلوں میں انکے لیے محبت پیدا ہوی چونکہ حاجی ظریف خان نرم مزاج عاجزی پسند اور حق پر فیصلہ کرنے والوں میں سے تھے کسی حد تک لیکن جب انکا مقابلہ معاشرے میں کسی ظالم جابر سے ہوتا تو وہ کہتے ظلم کو ظلم سے ہی مٹایا جاسکتا ہے شرافت کی زبان بہت کم لوگوں کو سمجھ آتی ہے بقول حضرت علی جیسا کہ انہوں نے فرمایا انسان کو خدا کے سامنے اچھا دیکھنا چاہیے نہ کہ لوگوں کے سامنے تاکہ وہ تم کو اچھا سمجھے اور تم ایک گناہ گار آدمی ہو تب جیسے ہی حاجی ظریف خان نے معاشرے مین شہرت اور عزت پای معاشرے میں انکے چاہنے والوں کے ساتھ ساتھ انکے دشمن بھی بنتے گئے جس کی وجہ سے انکے چند اپنے لوگ بھی سازش کا حصہ بنے اور حاجی ظریف خان کا ساتھ دینے سے انکار کردیا اور زمین جایداد کے مسائل تنازعات میں بھی پھنسانے کی کوشش کی جس کی وجہ سے انکو سخت تکلیف کا سامنا کرنا پڑا لیکن حاجی ظریف خان نے اپنی جدوجہد جاری رکھیں اور وقت کہ ہر ظالم سے ٹکراتا گیا حق اور باطل کی اس جنگ میں کئ بار ان پر حملہ ہوے سر پر چوٹیں لگی زخم کے نشان بن گیے منہ پر کلہاڑی چلی دانت ٹوٹ گیے یہان تک پیٹ پر خنجر چلے آنتوں کو چیر ڈالا اور بھری جوانی میں انکو نکلی دانتوں اور جانور کے آنتوں کا سہارا لینا پڑا یہاں تک کئ سازش وار دشمنوں نے انہیں کبھی غنڈا بدمعاش بد نام زمانہ کا لقب دینے کی کوشش جاری رکھیں پر وہ ناکام رہے پر حاجی ظریف خان ہر دور میں کامیاب ہوے اور اپنے باپ دادا کا اور قام کا نام روشن کرتے چلے گئے جب بھی پڑوس محلہ یا گاؤں میں کسی مظلوم کو دیکھتے تو انکا ہاتھ تھام لیتے اور محلہ پڑوس میں ایک ہی نعرہ لگاتے کہ آج کہ بعد اللہ اور سکے رسول کے بعد اس دنیا میں اسکا وارث میں ہوں خبردار اگر کسی نے انکی طرف آنکھ اٹھا کر دیکھا تو آج سے یہ میری پناہ میں ہے اسی طرح وقت کے گزرتے گزرتے علاقہ کہ لوگ انکے بہادری غیرت کے کارناموں کو سراہتے گئے یہاں تک کہ تحصیل پروا ضلع ڈیرہ اسماعیل خان کے ساتھ ساتھ صوبہ پنجاب کروڑ لعل عیسن بھکر میانوالی ڈی جی خان تونسہ شریف تک اپنا لوہا منواتا گیا تب آس پاس اور دور دراز کہ لوگوں نے بھی حاجی ظریف خان کو اپنے مسائل دکھ درد مشکل میں ایک سچا ساتھی لوگوں کے کام آنے والا ہمدرد ساتھی سمجھنے لگے اور اپنی زاتی مسائل کو حل کروانے کیلے حاجی ظریف خان کو مدعو کرنے کیلے آنے لگے پھر جب 90کی دھائ میں سپہ صحابہ اور اہل شیعان کے فساد جھگڑے تحصیل پروا ضلع ڈیرا اسماعیل میں بڑھنے لگے تو حاجی ظریف خان نے انکی روک تھام کیلے بہتر اقدام سر انجام دیے اور اہل شیعان کو محفوظ مقامات پر منتقل کردیا تاکہ علاقہ میں امن و امان کی فضا قائم ہوسکے جس کی وجہ سے آج بھی سپہ صحابہ اور اور اہل شیعان انکو محب وطن قدردان باعزت باکردار غیرت مند شخصیت کے نام سے یاد کرتے ہیں اسکے ساتھ ساتھ حاجی ظریف کا ایک کمال یہ بھی تھا کہ وہ ہدہ دم کرانے میں بھی ماہر تھے جس کی وجہ سے انکی جسم پر کوی زہریلی چیز اسر نہ کرتی اور وہ خود بیماری میں مبتلا شخص کو دم کرتے اور اللہ تعالی کے فضل و کرم سے وہ شفا یاب بھی ہوجاتے یہاں تک کہ انکے پاس کوی خاس علم بھی نہ تھا لیکن درویشی ملنگی میں انکی ایک الگ پہچان تھی جس کے ساتھ ہی ساتھ علاقہ کہ ہر بدمعاش ظالم غنڈے کو وہ اپنی گرفت میں رکھتے تاکہ علاقہ میں امن قائم رہے اور کوی کم ظرف علاقہ کہ لوگوں کو نقصان نہ پہنچا سکے اور بالا آخر سال 2024 میں پڑوس ایک مظلوم شخص جس کا نام اکبر کمہار تھا کو انصاف دلاتے دلاتے صوبہ پنجاب کہ ایک جرگہ کو تکمیل تک پہنچا کر تبیت خراب ہونے کی وجہ سے ملتان کے ہسپتال میں دم توڑ گئے اور 67 سال کی عمر سال 2014 کہ پہلے مہنے میں وفات پا گئے