آیۃ اللہ محسن آراکی:

آیۃ اللہ محسن الآراکی ایک شیعہ مجتہدعالم دین ہیں۔وہ المجمع العالمی للتقریب بین المذاھب الإسلامیۃ کے سربراہ ہیں۔انہوں نے انگلستان میں مرکز اسلامی کی بنیاد رکھی،اس کے علاوہ وہ ایران کے مجلس خبرگان کے سابقہ رکن بھی رہ چکے ہیں،انہیں مفکراسلامی شہید محمدباقرالصدر کے ایرانی شاگردوں میں ممتازترین شاگردہونے کا اعزازحاصل ہے۔آپ حوزہائے علمیۃ نجف اور قم کے برجستہ علماء میں ہیں،انہیں عربی اورانگریزی دونوں زبانوں پراپنی مادری زبان کی طرح عبور حاصل ہے،

فہرست: ولادت اورخاندان علمی مراحل اساتذہ عربی کی کتابیں انگریزی کی کتابیں مقالہ جات اورمضامین ادارتی پروجیکٹ سیاسی اور معاشرتی سرگرمیاں ذمہ داریاں تدریس اورحالیہ سرگرمیاں ولادت اور خاندان: آیۃ اللہ شیخ محسن آراکی ۱۹۵۶ ءکونجف اشرف عراق میں پیداہوئے،ان والدگرامی آیۃ اللہ میرزا حبیب اللہ آراکی حوزہ علمیہ نجف اشرف کے مشہورومعروف فقہا میں شامل تھے،اس کے علاوہ علمی منزلت ومرتبے کے ساتھ ساتھ میدان عمل میں بھی نمایاں تھے، ایک مقام پر آیۃ اللہ سید کاظم مرعشی فرماتے ہیں ’’ ایک دفعہ میں آیۃ اللہ خوئی کے ساتھ ایک ایسی شخصیت کے بارے میں گفتگو کررہا تھا جن کے اندر حوزہ علمیہ کی زعامت کی صلاحیت ہو ۔ تو آیۃ اللہ خوئی نے فرمایا اس کے لئے بہترین اور مناسب آیۃ اللہ میرزاحبیب اللہ کی ذات ہے‘‘ ان کی والدہ گرامی آیۃ اللہ صفرعلی آراکی کی دخترنیک اختر تھیں۔ آیۃ اللہ صفر علی آراکی کا شمارحوزہ علمیہ نجف اشرف کےبزرگ فقہا میں ہونے کے ساتھ ساتھ مشہور عبادت گذاروں بھی میں ہوتا تھا ان کے علم فقہ اور اصول میں متعدد مستدل کتب ہیں۔ علمی مراحل: انہوں نے اپنی تعلیم کاآغازاپنے والدین کے پاس قرآن پاک کی تعلیم سےکیا اوراپنی ہمشیرہ سے فارسی ادبیات کی کتاب ’’گلستان سعدی‘‘ اور ابتدائی کلاس کی کتابیں پڑھیں، اس زمانے کے غیرمناسب حالات کے پیش نظرجن سے مدارس دوچار تھے اور خاص طور سے عربی زبان سیکھنے کی خاطر ان کےوالد نے آیۃ اللہ شیخ محمد رضا مظفر کی زیرنگرانی چلنے والے اسکول منتدی النشر میں داخل کرایا جہاں انہوں نے تیسری کلاس سے تعلیم شروع کی اور مڈل تک تعلیم حاصل کی ۔ اس کے بعد ۱۹۶۸ءکووالد کے حکم پر عمل کرتے ہوئے علوم اسلامی کی تحصیل کی خاطرحوزہ علمیہ میں داخل ہوئے جہاں انہوں نے اپنے والد کے پاس مقدمات اور سطوح کی بعض کتب جیسے علم نحو میں شرح صمدیۃ ،علم منطق میں حاشیۃ ملا عبداللہ اورعلم الاصول میں معالم الدین کاکچھ حصہ جبکہ علم فقہ میں شرح اللمعۃ کی چند کتابیں پڑھنے کے علاوہ علم الاصول میں رسائل اور کفایۃ کے بعض حصے مکمل کئے اور بعض دیگرکتب حوزہ علمیہ نجف کے برجستہ اساتذہ کے پاس مکمل کیں ۔ انہوں نے شرح اللمعہ کے بعض حصے آیۃ اللہ سید عزالدین بحرالعلوم کے پاس پڑھےاور اصول الفقہ کی بڑی کتاب رسائل آیۃ اللہ سیدکاظم الحائری کے پاس پڑھی جبکہ مکاسب کے چند حصے آیۃ اللہ شیخ محمد تقی الجواہری سے پڑھے اور بعض دوسرے حصے آیۃ اللہ سید محمود ہاشمی الشاہرودی اور آیۃ اللہ شیخ عبدالمجید الروشنی سے پڑھے کفایۃ کے کچھ حصے آیۃاللہ عباس الخاتم الیزدی اور آیۃ اللہ سید حسن مرتضوی سے پڑھے۔ انہوں نے تفسیر اورعلوم القرآن آیۃ اللہ مصطفیٰ خمینی ،آیۃ اللہ شیخ محمد ہادی معرفت اور آیۃ اللہ علامہ سید باقر الحکیم سے پڑھی۔ فلسفہ میں آیۃ اللہ شیخ عباس قوچانی سے شرح منظومہ اورأسفار کا حصہ اول ودوم پڑھا۔ ۱۳۹۵ق بمطابق ۱۹۷۵ء میں سطحیات مکمل کرنے کے بعد درس خارج کا آغاز کیا جہاں زکات کے چند مباحث آیۃ اللہ خوئی کے پاس ، بعض دوسرے مباحث اور تقریبا اصول کا مکمل دورہ آیۃ اللہ شیخ وحید خراسانی کے پاس پڑھا۔ اور چند سال دورہٗ فقہ کے مباحث جیسے طہارت، إجارہ،حکومت اسلامی، الأراضی الموت،ولایۃ الامر،خمس، اجتہادوتقلید اورقضاء کے مباحث کے لئے آیۃ اللہ سید کاظم الحائری کے درس میں حاضر ہوئے، فلسفہ میں نہایۃ الحکمۃ آیۃ اللہ شیخ مصباح الیزدی کے پاس پڑھی اور کتاب أسفار کے بعض أجزاء آیۃ اللہ شیخ مرتضیٰ مطہری اور آیۃ اللہ جوادی آملی سے پڑھے اورانہوں نے مغربی فلسفہ کی تعلیم علامہ شہید آیۃ اللہ بہشتی سے حاصل کی۔

انہوں  نےپی ایچ کی ڈگری   University of Portsmouph برطانیہ سے حاصل کی  ان کے مقالے کا موضوع ’ Free Will between Islamic Contemporary Philosophy and Western Contemporary Philosophy‘‘ تھاجسے انہوں انگریزی میں تحریر کیا ۔

اساتذہ: آیۃ اللہ سیدابوالقاسم خوئی آیۃ اللہ شہیدسیدمحمدباقرالصدر آیۃ اللہ عباس قوچانی آیۃ اللہ شیخ مرتضی مطہری آیۃ اللہ ڈاکٹرسید بہشتی آیۃ سید کاظم الحائری آیۃ اللہ شیخ وحید الخراسانی آیۃ اللہ محمدتقی مصباح یزدی آیۃ اللہ عبداللہ جوادی آملی علمی سرگرمیاں: زمانہ طالب علمی کے آغاز ہی سےاور بعدازآں جوں جوں آگے کے مراحل میں داخل ہوتےگئے تو ان عادت یہ تھی کہ سابقہ کتب کی تدریس کرتے تھے۔ جب نجف اشرف میں قیام پذیر تھے تو مقدمات سے شرح اللمعہ تک تدریس کی۔ حوزہ علمیہ قم المقدسہ کی طرف ہجرت کی تو یہاں بھی مختلف شہروں قم ،أھواز اور دزفول میں شرح اللمعہ،رسائل ومکاسب ،نہایۃ الحکمۃ ،شرح المنظومۃ ، الأسفار، الإشارات ،شرح التجرید اور کفایۃ الأصول تدریس کرتے رہے۔ دزفل میں وہ آیۃ اللہ سید علی خامنٰی کے نمائندہ تھےجہاں انہوں نے حوزہ علمیہ کی بنیاد رکھی اورعلوم اسلامی کےمختلف مراحل کی تدریس شروع کی۔یہاں حلقات الأصول ،رسائل،مکاسب ،فلسفہ کے ساتھ ساتھ فقہ کے مباحث جیسے ’’حکومت اسلامی اور قضاء ‘‘ اور اصول فقہ کی تدریس میں بحث خارج تک پہنچے۔ اس کے علاوہ عربی ،فارسی اور انگریزی میں علم تفسیر قرآن کی بھی تدریس کرتے رہے۔

عربی کتابیں: 1. الولاية الإلهيّة وولاية الفقيه (1991م). 2. المختار من مقتل الحسين في بحار الأنوار (1992م). 3. مدخل إلى منهج المعرفة الإسلاميّة (1997م). 4. المعرفة الإسلامية، منهجاً وتصوراً. 5. نظرية النص على الإمامة في القرآن الكريم. 6. صلح الإمام الحسن وثورة الإمام الحسين من منظور السنن التأريخية في القرآن الكريم. 7. حوار في الإمامة. 8. مدخل إلى العرفان الإسلامي. 9. الأسس النظرية للدولة الإسلامية. 10. أساس الحكم في الإسلام. 11. معالم الفكر الأصولي الجديد. 12. حجّية سنة الصحابي، دراسة ونقد. 13. الصحوة الإسلامية المعاصرة، أدوار وروّاد. 14. نظرية الحكم في الإسلام. 15. فقه القضاء. 16. مبدأ العلية والإرادة. 17. ملكيّة المعادن في الفقه الإسلامي. انگریزی کتابیں: 1. Contemporary Islamic Awakening (ترجمة: الصحوة الإسلامية). 2. Free Will between Islamic Contemporary Philosophy and Western Contemporary Philosophy. تحقیقی مقالے اور مضامین: آیۃ اللہ محسن الآراکی کے مقالے قومی اوربین الاقوامی رسائل میں عربی،فارسی اورانگرزی زبانوں میں شائع ہو چکے ہیں۔ اس کے علاوہ انہوں نے حجۃ الاسلام سید منذر الحکیم کے تعاون سے بھی تحقیقات کی ہیں جسے ’’مجمع الفکر الاسلامی نے شائع کیا ہے۔ اسی طرح مقداد السیوری کی کتاب ’’ اللوامع الالٰھیۃ فی المباحث الکلامیۃ‘‘ کی بھی تحقیق علامۃ سید عمار ابو رغیف کے تعاون سے مکمل کی جسے بعد میں مذکورہ ادارے نے شائع کیا ۔ علمی اور فرھنگی اداروں کی بنیاد:

آیۃ اللہ الآراکی نےجہاں بھی قیام کیا مثلا نجف ،قم ،دزفل ،لندن وہاں انہوں نے مختلف علمی ،دینی ،اور ثقافتی اداروں کی بنیاد رکھی  جوکہ مندرجہ ذیل ہیں ۔

1. پبلک لائبریری مسجد طريحي نجف اشرف. 2. مركز تعلیمات إسلامي (1980م) خرمشهر اإيران. 3. مركزإسلامي بیداری (1980م) خرمشهرایران. 4. مجمع الفكر الإسلامي (1990م) قم ایران. 5. مجلة الفكر الإسلامي ۔ قم ایران. 6. شيخ أنصاري کانفرنس کا انعقاداوراس کے جنرل سکیریٹری(1995م) قم ایران. 7. حوزة علمية (مدرسة آية الله القاضي) دزفول ايران. 8. مؤسسة الخميني الخيرية (دارأيتام، شفاخانہ) دزفول ایران. 9. أصول الدين کالج(1367ش، 1409ه، 1989م) دزفول برانچ. 10. المركز الإسلامي إنگلینڈ (1416ه، 1996م). 11. اسلامی مراكز : مانچسٹر، برمنگهم، نيوكاسل، گلاسكو وغيره۔ برطانیہ. 12. حوزة علمية لندن (معهد الإمام الحسين للدراسات الإسلامية) برطانيہ لندن ۔ 13. Islamic College for Advanced Studies بريطانيہ لندن. 14. پیائمری اسکول لندن میں مقیم ایرانیوں کے لئے. 15. علماء کونسل برطانيہ کاقیام. 16. عربی ،فارسی اورانگریزی میں رسائل وجرائد کا اجراء جن میں شؤون إسلامية" و"البلاغ" عربی، و"صبا" فارسي، اور"Discourse" وغيره انگریزی میں. سیاسی اور اجتماعی سرگرمیاں: آیۃ اللہ الآراکی نے اپنی سیاسی سرگرمیاں تو نجف اشرف سے ہی عراق کے ظالم حکمراں اور ایرانی شہنشاہیت کے خلاف شروع کردی تھیں ۔جس کی ایک وجہ ان کے والد گرامی اور امام خمینی کے درمیان گھریلو تعلقات تھے لہذا انہوں نے امام کا ساتھ دیا۔ جس کے باعث انہیں ایک سال تک روپوش ہونا پڑا۔ پھر ۱۹۷۶ ء میں نجف اشرف کو خیرباد کہ کر قم المقدسہ کی طرف ہجرت کی۔یہاں بھی ایرانی شاہی خفیہ ادارہ ان کو بار بار بلا کر پوچھ گچھ کرتاتھا لیکن جب انہیں اپنے مطلب کی معلومات نہیں ملیں تو بالآخر رہا کردیا ۔ ذمہ داریاں: ایران میں اسلامی انقلاب کی کامیابی کے بعد انہیں دین ومعاشرے کی خدمت کرنے کا موقع ملا جو مندرجۃ ذیل ہے۔ آیۃ اللہ شیخ شہید القدوسی کے حکم پر ۱۹۸۱کو آبدان اور خرم شہر کےجیلوں کی سربراہی کے فرائض انجام دیے۔ ۱۹۸۲ میں صوبہ خوزستان میں جیل کے سربراہ متعین ہوئے ۔اس کے بعد اسی صوبے کے گورنر متعین ہوئے ۔ ۱۹۸۴ میں شوق حصول علم کے لئے تمام عہدوں سے استعفا دے کر حوزہ علمیہ وآپس آگئے۔ لیکن ٹھیک تین سال بعد شہر دزفل والوں کے بے پناہ اصرار کی وجہ سے جنوبی صوبہ خوزستان میں امام خمینی کے نمائیندے اور امام جمعہ تعینات ہوئے ۔پھر جنگ کے خاتمہ تک اسی منصب پر فائز رہے۔

ان کی ذمہ داریوں میں مزید اضافہ ہوا جب صوبہ خوزستان میں زمینوں کے حاکم شرع، اور اہواز میں شہید چمران یونیورسٹی میں نمائندہ ولی فقیہ وغیرہ جیسے  اہم عہدوں پر فائز ہوئے ۔

وہ دزفل میں امام جمعہ کے منصب پر فائز رہنے کے دوران ایران عراق جنگ میں پیش پیش رہے ۔ ۱۹۸۸ سے ۱۹۹۷ تک اسلامی انقلاب کے سپاہ بدر میں نمائندہ ولی فقیہ کے منصب پر فائز رہے ۔ ۱۹۹۱ میں صوبہ خوزستان کی طرف سے پارلیمنٹ میں نمائندہ منتخب ہوئے ۔ ۱۹۹۵ میں رہبر انقلاب اسلامی آیۃ اللہ خامنہ ای کی طرف سے لندن میں نمائندہ بناکر بھیج دئے گئے جہاں انہوں نے علمی،دینی اور فرھنگی ادارے بنائے جن میں مشہور سب سے ’’مرکزاسلامی‘‘ ہے۔ تدریس اور حالیہ سرگرمیاں: آیۃ اللہ آراکی اس وقت حوزہ علمیہ قم مین فقہ واصول کے درس خارج دیتے ہیں۔اس کے علاوہ تفسیر قرآن اور علوم حدیث کی بھی تدریس میں مشغول ہیں اس کے ساتھ ساتھ تصنیف وتألیف کا کام بھی جاری ہے۔ وہ ’’مجمع جہانی اہل بیتؑ‘‘ کے اہم رکن ہونے کے ساتھ دارالتقریب بین المذاہب کے سربراہ بھی ہیں ۔ اس علاوہ اپنے قائم کئے ہوئے اداروں کی سربراہی کے فرائض بھی انجام دے رہے ہیں جن میں المجمع الفکرالاسلامی اور مئو سسۃ الامام الخمینی الخیریۃ قابل ذکر ہے۔