مذاہب عالم میں اخلاقیات کا تصور....http://in.linkedin.com/pub/wasiullah-khan/73/924/a82 الله تعالیٰ نے اس دنیا کو وجود بخشا، اس میں ضروریات مہیا کیں ، انسان کو اسکا مکین بنایا اور اسے زندگی گزارنے کا ڈھنگ اور سلیقہ سکھایا چنانچہ آج تک دنیا میں جہاں کہیں بھی انسانی آبادی ہے خواہ اسکا تعلق کسی بھی دین ومذہب یا دھرم سے ہو، اسکا اپنا ایک طرز معاشرت ہے جسے وہ شدّت کے ساتھ اختیار کئے ہوئے ہے اور لغوی معنٰی کے اعتبار سے یہی مذہب کا مفہوم ہے ۔ کیوں کہ مذہب اسم ظرف ہے، بمعنٰی چلنے کی جگہ ، چلنے کا راستہ وغیرہ اور اصطلاحی طورپر اس کی تعریف یوں کی جاسکتی ہے کہ جن اصولوں پر چل کر زندگی گزاری جا سکے ، ان اصولوں کو مذہب کہتے ہیں ۔دوسرے الفاظ میں اس کی تعبیر یوں کی جا سکتی ہے کے مذہب دراصل کسی ما فوق الفطرت ہستی یا قوت کو تسلیم کرکے اپنی زندگی کو اس کی مرضیات کے سانچے میں ڈھالنے کا نام ہے ۔ مذہب، فرد اور معاشرہ کی تر بیت کرتا ہے ، ایک با مقصد زندگی گزارنے کا شعوربخشتا ہے ،دنیا اور آخرت کے لئے ایک با قاعدہ او رمرتب لائحہ عمل پیش کرتا ہے اور نیک و بد کی تمیزو شعور کو جِلا بخشتا ہے۔ مذہب انسانی زندگی کے تمام شعبوں سے تعلق رکھتا ہے خواہ اسکا تعلق عقائد سے ہو ، عبادات سے ہو ، سماجیات سے ہو یا اخلاقیات سے ہو۔ جہاں تک اخلاقیات کا تعلق ہے ، یہ وہ موضوع ہے جو انسان کی اخلاقیات سے بحث کرتا ہے اور اس کے لئے نیک و بد کی تمیز کا معیار فراہم کرتا ہے۔اخلاق سے مقصود باہم بندوں کے حقوق و فرائض ہیں جن کو ادا کرنا ہر انسان کے لئے پسندیدہ بلکہ ضروری ہے،کیونکہ اس کے بغیر ایک مضبوط و مستحکم اور صحت مند و توانا معاشرہ قائم نہیں ہو سکتا ہے۔ ہر زمانہ اور ہر قوم میں معلمینِ اخلاق ان کی طرف دعوت دیتے رہے ہیں ۔ فلاسفہ اور حکماء نے اس موضوع پر اتنا لکھا ہے کہ کتب خانے بھر گئے ہیں۔ مگر انبیاء کرام علیہم السّلام کا طریقہ ان سے الگ رہا ہے ۔ انہوں نے صر ف زبان اور قلم سے کام نہیں لیا بلکہ اپنی مقدس زندگیوں سے اخلاقِ عالیہ کے بہترین نمونے پیش کئے اور دنیا کوعملی طورپر اپنے نقشِ قدم پر چلنے کی دعوت دی۔۔۔۔ ہرمذہب نے اپنے اپنے طرز پر اخلاقیات کے اصول پیش کئے۔ اخلاقِ حسنہ کو مذہب کا معیار قرار دیا اور راخلاق ذمیمہ سے ناگواری کے نام (Universal Truths) کا اظہار کیا ۔ ویسے تو اخلاقیات کے زمرے میں وہ چیزیں بھی شامل ہیں جنہیں ہم عالم گیر صداقتیں سے جانتے ہیں ۔ ایک ایسا شخص جسکا تعلق کسی بھی مذہب سے نہ ہو وہ بھی ہر طرح کی برائیوں کو کسی نہ کسی حد تک ضرور غلط قرار دیگا ، لیکن مذاہب جب ان باتوں کو اخلاقیات کے پیرائے میں پیش کرتے ہیں اور اخلاقِ قبیحہ سے اجتناب کا مطالبہ کرتے ہیں تو یہ چیزیں عالم گیر صداقتوں سے بڑھکر ثابت ہوتی ہیں ۔ مذاہب انہیں صداقتوں کو اپنے معتقدین کے سامنے انتہائی حسین حقیقتوں کی صورت میں پیش کرتے ہیں ۔ اور لوگ ان کو اسلئے قبول کرتے ہیں کہ کہیں نہ کہیں ان کے دلوں میں یہ عقیدہ راسخ ہو تا ہے کہ انہیں اس کا بدلہ ضرور ملے گا ۔ خواہ وہ موکش کی شکل میں ہو ، نروان کے روپ میں ہو ، نجات کی خوش خبری ہو یا بعث بعدالموت کی حقیقت۔ اسلئے ہم کہہ سکتے ہیں کہ اخلاقیات مذاہب کی روح ہیں ، جسکے بغیر مذہبی تعلیمات نا مکمل رہ جا تی ہیں ۔۔۔ زیرِ بحث موضوع ( مذاہب عالم میں اخلاقیات کا تصور )کا ذکر مذاہب عالم کی بیشتر کتب میں ملتا ہے ۔جس طرح اسلامی تعلیمات کی بنیاد قرآن و سنّت میں اخلاقیات کابڑے اہتمام سے ذکر کیا گیا ہے اور اسلام کے پیرو کاروں کو مختلف اسلوب و اندازسے اپنے اندر ایسے اوصاف کو پیدا کرنے پرزور دیاگیا ہے ،اسی طرح دیگر مذاہب میں بھی اخلاقیات کی تعلیم موجودہے۔ چنانچہ اس موضوع پر اردو زبان میں بھی مختلف کتابیں علمائے اسلام اور دیگر مذاہب کے محققیں نے تصنیف کی ہیں ۔ جن میں سے چند کتب کے نام درج ذیل ہیں ۔ اسماء کتب مصنّفیں سیرةالنّبی ۔جلد ۔ششم علّامہ سید سلیمان ندوی اخلاقِ نبوی قاضی زین العابدین میرٹھی کتاب مقدس( پرانا اور نیا عہد نامہ ) بائبل سوسائٹی ہند ٢٠۶ مہاتما گاندھی روڈ بینگلور دنیا کے بڑے مذہب عماد الحسن آزاد فاروقی مذاہبِ عالم کا انسائکلوپیڈیا لیوس مور : اردو ترجمہ :یاسر جواد ء ہندو مذہب (مطالعہ و جائزہ) پروفیسر محسن عثمانی ندوی 􀀀 دعوت نمبر ۔ ہندومت شمارہ ٢٧ ۔دوشنبہ۔ ٢٢ مارچ ١٩٩٣ مذاہب عالم میں خدا کا تصور ڈاکٹر ذاکر نائک ہندوستانی مذاہب ڈاکٹر رضی احمد کمال بین الاقوامی مذاہب فروفیسر محّمداکرم رانا تقابلِ ادیان پروفیسر محمّد یوسف خان اس موضوع کے انتخاب کا محرک راقم الحروف کے نزدیک یہ ہے کہ اخلاقیات جو مذاہب میں ریڑھ کی ہڈی کا مقام رکھتے ہیں ، وہ منظر عام پر لائے جائیں تاکہ ایک طرف مذاہب میں اخلاق کی معنویت واضح ہو، تقابلی مطالعۂ ادیان کے پہلو سے اخلاقیا ت کی کسوٹی پر مذاہب کو دیکھاجائے اور دوسری طرف مشترک اخلاقی تعلیمات کی روشنی میں ایک مثالی انسانی معاشرہ تشکیل دینے میں علمبرداران مذاہب سرگرمئی عمل اور فعالیت کا ثبوت دیں۔ یہ مقالہ مندرجہ ذیل ابواب پر مشتمل ہو گا ۔ ابواب ١۔ مقدمہ ٢۔ پہلا باب : مذہب بنی نوع انسان کے لئے ایک ناگزیر ضرورت ٣۔ دوسرا باب : ا سلام میں اخلاقیات کا تصور ۴۔ تیسراباب : یہودیت اور عیسائیت میں اخلاقیات کا تصور ۵۔ چوتھاباب : ہندوستانی مذاہب میں اخلاقیات کا تصور ۶۔ خلاصۂ مباحث خاکسار شعبہ سنی دینیات کی بورڈ آف اسٹڈیز کا انتہائی ممنون ہوں گا اگر وہ اس موضوع کو تحقیقی کام کے لئے شرف قبولیت بخشیں۔ حوالہ کتب بین الاقوامی مذاہب فروفیسر محمد اکرم رانا تقابلِ ادیان پروفیسرمحمدیوسف خا ن اخلاقِ نبوی قاضی زین العابدین میرٹھی سیرةالنّبی ۔جلد ۔ششم علّامہ سید سلیمان ندوی ہندوستانی مذاہب ڈاکٹر رضی احمد کمال