جمعیت علماء ہند اور راجیو دھون

زین العابدین ندوی                                         

دارالعلوم امام ربانی ؒ، نیرل ۔ مہاراشٹر                                                    

جب معالجین اور اطباء ہی ان امراض کے شکار ہوں جس سے بچنے کی وہ تدبیریں بتاتے ہوں تو ایسی صورت میں ساری تدبیریں بیکار اور تمام دوائیاں بے اثر ہو جاتی ہیں ،اور معاشرہ پر اس کا برا اثر پڑتا ہے جس کے نتیجہ میں ایسی مہلک بیماریاں جنم لیتی ہیں جس سبب پوری کی پوری قوم تباہ وبرباد ہو جاتی ہے اور امت ٹوٹ کر رہ جاتی ہے ، کسی کہنے والے نے بہت خوب کہا ہے کہ اگر قوم کی قیادت کا دم بھرنے والے صرف زبانی جمع خرچ کے امام ہوں اور حکمت عملی اور خوش تدبیری کی صلاحیت سے محروم ہوں تو ان کے پیچھے چلنے والے ان کی بات سننے والے سو سال پیچھے چلے جاتے ہیں ، اور ان کی طاقتیں ابھرنے سے پلے ہی وادی عدم میں چلی جاتی ہیں ، لیکن اس کے بر عکس اگر قوم کا قائد اپنے ارادہ وعمل میں مضبوط اور حالات کا صحیح تدارک کرنے کی صلاحیت رکھتا ہو اور ایک قدم آگے بڑھ کر گفتار کا غازی ہونے کے بجائے کردار کے غازی کا رو ل ادا کرے تو ایسی قوم کا عزم وحوصلہ چٹانوں کو بھی پاش پاش کر سکتا ہے ، ہندوستان کی صورتحال کو ایک طرف رکھئے اور دوسری جانب ہندی مسلمانوں کے مسائل پر بھی نظر رکھئے ، جہا ں ایک طرف ملک پسماندگی کا شکار ہو رہا ہے اور آئے ن یہ ملک اقتصادی ، سماجی اور سیاسی بحران کی زدمیں آتا جا رہا ہے ، جو تھمنے کا نام نہیں لیتا اور ملک میں اپوزیشن کا حال یہ ہے کہ وہ اپنی مصلحت کے سبب زبان کھولنے کی طاقت نہیں رکھتی، جس کے نتیجہ میں ملک میں نئے نئے قوانین کامنظور ہوجانا ایک معمولی سا کام بنتا جا رہا ہے ، خوا ہ وہ قانون ملکی آئین کے مخالف ہو یا موافق  اس پر کوئی چرچا نہیں کیا جاتا ہے ۔

ملک کی ایسی مسموم فضاء میں اگر کسی نے سیکولرزم اور حق پرستی کی بات کی ہے اور اس حق کو ادا کرنے کے لئے خطرات بھی مول لئے اور بدزبانیاں بھی برداشت کیں تو اس میں ایک نام راجیو دھون سینئر ایڈوکیٹ آف سپریم کورٹ کا شامل کرنا بھی ضروری ہے جنہوں نے مسلم فریق کی جانب سے بابری مسجد قضیہ میں وکالت کی اور پوری جد وجہد اور کد وکاوش سے اس معاملہ کی پیروی کی ، جس سبب تمام مسلمانان ہند کو ان کا احسان مند ہونا چاہئے ، اور ان کے اس عمل کی قدردانی کرنی چاہئے ، یہ اور بات ہے کہ فیصلہ مسلم فریق کے حق میں نہیں آیا جو سراسر ناانصافی پر مبنی ہے ، اور جمہوریت کے نام پر ایسا کلنک ہے جسے چاہ کر بھی دھویا  نہیں جا سکتا ، فیصلہ خواہ کچھ بھی ہو ہمیں راجیو جی کی قدر کرنی ہے ا س لئے کہ وہ ہمارے حقوق کی بازیابی کے لئے گویا اپنی جان پر کھیل گئے ، ہونا تو یہ چاہئے تھا مگر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔کیا کہیں کیسے کہیں اور کیوں نہ کہیں ؟ ان کے ساتھ جمعیت علماء ہند کی جانب سے لئے گئے اس فیصلہ پر حیرت بھی ہے اور تکلیف بھی ، تکلیف تو اس لئے کہ ہمیں اب تک احسان کا بدلہ احسان سے دینا نہیں آیا ، اور ہمارے سارے جلسے جلوس ، ریلیاں ٹولیاں اور اندھ بھکتیاں اس سے آگے نہ بڑھ سکیں  کہ جہاں اپنا مفاد متاثر ہوتا نظر آیا تو ہم محسنوں کے احسان بھول گئے ، خیر خواہوں کی خیر خواہی کو لات مار دیا ، اور اپنا الو سیدھا کرنے کے واسطہ سارے ہی کام کر ڈالے خواہ اس سے قوم کا نقصان ہو یا ملت کا خسارہ ، اور حیرت اس بات پر ہے کہ ایسے موقع پر جبکہ اس شخص کی اشد  ضرورت ہے آپ نے اس کو سائڈ لگا دیا ، کہیں ایسا تو نہیں کہ آپ کو اس بات کا یقین ہو چلا ہے کہ ریویو پیٹیشن کے باوجود بھی فیصلہ اپنے حق میں نہیں آنا ہے اس لئے ان کو رکھنے نا رکھنے کا کوئی فائدہ نہیں ، اس بات کا بھی امکان ہے کہ ریویو پیٹیشن کے مسئلہ کو اس لئے تیار کیا گیا کہ لوگوں کی توجہات اپنی طرف مبذول کئے رہیں ، اور ساتھ ساتھ یہ خطرہ بھی ہو سکتا ہے کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ اگر راجیو جی شامل رہے تو فیصلہ مسلمانوں کے حق میں آجائیگا اور بابری نام کی یہ دکان بند ہو جائیگی ۔

اس موقع پر یہ بات بھی غور کرنے کی ہے کہ آخر جمعیت علماء ہند کو اس مسئلہ میں اتنی جلدی کیوں ہے ؟ جبکہ اس مسئلہ کی اصل پیروکار مسلم پرسنل لاء بورڈ ہے ، اور جمعیت تمام ہی اقدامات میں اس سے پہل کرنےمیں لگی ہوئی ہے ، اور لوگوں کو گویا یہ باور کرانے کی کوشش کی جارہی ہے کہ اس مسئلہ کی اصل پیروکار جمعیت علماء ہند ہے ، رہا بعد میں مولانا ارشد مدنی صاحب کا تردیدی بیان ، جس میں انہوں نے یہ کہا کہ راجیو دھون ہمارے ساتھ ہیں وہ ہم سے بالکل الگ نہیں ہیں ، تو سوال یہ ہے کہ مقبول اعجاز صاحب نے کس کے اشارہ پر یہ جرات کرنے کی کوشش کی ، جس کے جواب میں راجیو دھون صاحب کو اپنے لیٹر پیڈ پر اس سبکدوشی اور برطرفی کو کو تحریر کرنے کی ضرورت محسوس ہوئی ، معاملہ کچھ تو رہا ہوگا جس کی پردہ داری کی جا رہی ہے ، ورنہ بے سبب دھوئیں نہیں اٹھا کرتے ۔