عدالت سے فیصلہ کی امید، انصاف کی توقع بے سود

زین العابدین ندوی                                                                                                                 

دارالعلوم امام ربانیؒ ، نیرل                                                                                                               

بابری مسجد قضیہ کے سلسلہ میں عدالت کے حالیہ فیصلہ سے اب یہ یقین ہو چکا ہے کہ عدالت سے فیصلہ کی امید تو کی جا سکتی ہے مگر انصاف کی توقع بے سود اور ضیاع وقت ہے ،اور یہ بھی سمجھنے میں کوئی کسر باقی نہیں رہی کہ وہاں بھی ثبوتوں کا منہ بند کر دیا جاتا ہے جس کی اساس ہی ثبوتوں پر رکھی گئی ہو ، یہ باتیں اس وقت کہنا اس لئے ضروری ہے کہ تمام دلائل اور شواہد کو مسترد کرتے ہوئے فیصلہ ان کے حق میں دیا گیا جن کے پاس سوائے آستھا کے کوئی دلیل نہیں، اس فیصلہ کو گرچہ تسلیم کر لیا جائے لیکن یہ بات یاد رکھنے کی ہے کہ اس فیصلہ نے ملک ہندوستان کے وقار کو بری طریقہ سے مجروح کیا ہے ، ہندوستانی جمہوریت تو ایک زمانہ سے داغدار ہوتی چلی آرہی ہے ، اس کا دامن چھلنی چھلنی کیا جا چکا ہے ، اس کی روح بہت زمانہ پہلے ہی ختم ہو چکی ہے  جس کے اعادہ کی ضرورت نہیں ہے ، اور اس بار رہی سہی کسر بھی عدالت کی مشارکت سے نکالی ہی جا چکی ہے ، اس موقع پر یہ بات سمجھنے کی ہے اور ہوش کے ناخن لینے کی ہے کہ آپ کسی بھی نظام پر اتنا ہی اعتبار کریں جتنا مناسب ہو ، اندھے بہرے ہو کر عدالت عدالت کی رٹ لگانے کی عادت چھوڑ دیں ، کیونکہ جمہوری ملک میں عدالت انہیں کی ہوتی ہے جن کی حکومت ہوتی ہے ، جس کا بھر پور فائدہ اٹھاتے ہوئے بابری مسجد سے ہمیں بے دخل کر دیا گیا ، بابری مسجد کا ہمارے ہاتھوں سےنکل جانا کسی ایک مسجد کا نقصان نہیں بلکہ ہمارے تشخصات ،ہماری اسلامی تہذیب اور دین وشریعت کا کھلا ہوا نقصان ہے ، یہ ایک ایسا منحوس باب کھول دیا گیا ہے جس کے بعد ثبوت کی فراہمی کی بنیاد پر نہیں بلکہ اسلام دشمنی کی بنیاد پر فیصلے سنانے کی تیاری کی جائے گی  ۔

جب کسی ملک کی عدالت میں دستاویزات اور دلائل کو نظر انداز کرتے ہوئے یکطرفہ فیصلوں کا بازار شروع ہو جائے توا س ملک کی عدالت پر اعتبار کرنا نہ صرف یہ کہ مشکل ہے بلکہ نا ممکن ہے ، ایسی صورتحال میں ملک کے مسلمانوں کو غیروں پر اعتماد کرنے کے بجائے خود میں مضبوط طاقت پیدا کرنے کی ضرورت ہے ، اور آپسی اختلافات کو بالکل ختم کرتے ہوئے ایک دیوار بن جانا چاہئے ، میں تمام ان ہندی مسلمانوں سے سوال کرتا ہوں ، جنہوں نے مسلکی اختلافات کی دکانیں کھول رکھی ہیں ، کہ مجھے اب ذرا بتاو بابری کس مسلک کی مسجد تھی ، وہ دیوبندیوں کی تھی یا بریلویوں کی اہلحدیثوں کی تھی یا کسی اور کی ، وہ مسجد تھی اور صرف مسجد تھی ، ہمارے اندرونی اختلافات کے سبب ہماری مسجد ہمارے ہاتھوں سے تقریبا چلی گئی ، کوئی ایسا مسلمان ہے جسے اس فیصلہ سے دلی تکلیف نہ ہوئی ہو؟  ہر گز نہیں ہر ایک کو برابر کی تکلیف ہوئی ، غیر ہمارے ان اختلافات کا فائدہ کب تک اٹھاتے رہیں گے ، ہم کب تک اپنے ہی ملک میں رسوا ہوتے رہیں گے ، جن کو ہم نے چلنا سکھایا ، کھانا کھلایا ، بھائیوں جیسی محبت دی انہوں نے ہمارے احسانات کا بدلہ اس شکل میں دیا کہ ہماری عبادت گاہوں سے ہمیں محروم کر دیا ، اس میں اگر غیروں کا قصور ہے، تو ہمارے اپنے بھی اتنے ہی مجرم ہیں ، جنہوں نے ہمیں مسلک ومذہب کے نام پر بانٹ رکھا ہے ، اے مسلمانوں باز آجاؤ ورنہ ہمیں اس سے بھی برے دن دیکھنے پڑ سکتے ہیں ، یہ تو ابتدائی مراحل ہیں ، اس لئے خدا کے واسطہ اب ایک ہو جاؤ اور خدا سے لو لگاؤ ، اور خود کو حقیقی مسلمان بناؤ ، اللہ ہماری مد د فرمائے ،