صل اللہ علیہ وآلہ وسلم

دعا ہے، "اے نبی! آپ پر سلامتی ہو۔" یہ عام طور پر مسلمان پیغمبر محمد کے نام کے ساتھ کہتے یا لکھتے ہیں۔
(صلی اللہ علیہ وسلم سے رجوع مکرر)

یہ مختصر ترین دعا ہے جو مسلمانوں کے نبی حضرت سیدنا محمّد صَلَّىٰ اللَّٰهُ عَلَيْہِ وَآلِہِ وَسَلَّمَ پر ان کے نام کے ساتھ ان کے اعلیٰ ترین درجے پر پہنچنے کے لیے الله تبارک و تعالیٰ سے کی جاتی ہے۔‌ اس دعا کو درودپاک کہا جاتا ہے اور اس کو لازمی طور پر نام سیدنا محمّد صَلَّىٰ للَّٰهُ عَلَيْہِ وَآلِہِ وَسَلَّمَ کے ساتھ لکھا اور پڑھا جاتا ہے۔‌

صلوٰۃ کا معنی

ترمیم

صلوٰۃ کا لغوی معنی دعا ہے، جب اس کی نسبت اللہ تعالیٰ کی طرف کی جائے تو اس سے مراد رحمت فرمانا ہے اور جب اس کی نسبت فرشتوں کی طرف کی جائے تو اس سے مراد اِستغفار کرنا ہے اور جب ا س کی نسبت عام مومنین کی طرف کی جائے تو اس سے مراد دعا کرنا ہے۔[1] علامہ احمد صاوی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں : (یہاں آیت اِنَّ اللّٰهَ وَ مَلٰٓىٕكَتَهٗ یُصَلُّوْنَ عَلَى النَّبِیِّؕ-یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا صَلُّوْا عَلَیْهِ وَ سَلِّمُوْا تَسْلِیْمًا میں ) اللہ تعالیٰ کے درود بھیجنے سے مراد ایسی رحمت فرمانا ہے جو تعظیم کے ساتھ ملی ہوئی ہو اور فرشتوں کے درود بھیجنے سے مراد ان کا ایسی دعا کرنا ہے جو رسولِ کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی شان کے لائق ہو۔[2]
اِنَّ اللّٰهَ وَ مَلٰٓىٕكَتَهٗ یُصَلُّوْنَ عَلَى النَّبِیِّؕ-یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا صَلُّوْا عَلَیْهِ وَ سَلِّمُوْا تَسْلِیْمًا[3]
بے شک اللہ اور اس کے فرشتے درود بھیجتے ہیں اس غیب بتانے والے (نبی) پر اے ایمان والو ان پر درود اور خوب سلام بھیجو

تفسیر:
ان اللہ وملائکتہ یصلون علی النبی ، ابن عباس (رضی اللہ عنہ) نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ اپنے نبی پر رحمت نازل فرماتا ہے اور فرشتے آپ کے لیے دعائے رحمت کرتے ہیں ۔ ابن عباس (رضی اللہ عنہ) نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ اپنے نبی پرر حمت نازل فرماتا ہے اور فرشتے آپ کے لیے دعائے رحمت کرتے ہیں۔ ابن عباس (رضی اللہ عنہ) نے فرمایا کہ یصلون برکت دیتے ہیں۔ بعض نے کہا کہ اللہ کی طرف ۔ صلوۃ کا معنی ہے رحمت اور صلوۃ ملائکہ سے مراد ہے استغفار ، یایھا الذین امنو اصلواعلیہ ، ان کے لیے رحمت کی دعا کرو۔ ، وسلم و اتسلیما اور ان کو سلام کا تحفہ دو ۔ ابو العالیہ کا بیان ہے کہ اللہ کی صلوۃ کا مطلب ہے اس کا تعریف کرنا فرشتوں کے سامنے اور ملائکہ کے صلوۃ کا معنی ہے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے حق میں دعا کرنا۔ عبد الرحمن بن ابی لیلیٰ کا بیان ہے میری ملاقات حضرت کعب بن عجرہ سے ہوئی تو انھوں نے مجھ سے کہا : کیا (حدیث کا) ایک تحفہ میں تم کو پیش کروں جو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے میں نے خود سنی ہے ؟ میں نے کہا : کیوں نہیں ، ضروروہ تحفہ مجھے عنایت فرمایئے ۔ کعب نے کہا : ہم نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے عرض کیا، یارسول اللہ ! آپ کو سلام کرنا تو اللہ نے ہمیں بتادیا لیکن آپ (اور آپ کے اہل بیت) پر دو ودکس طرح پڑھیں ؟ فرمایا کہو :[4] اللھم صل علی محمد وعلی ال محمد کما صلیت علی ابراھیم وعلی ال ابراھیم انک حمید مجید، اللھم بارک علی محمد وعلی ال محمد کمابارکت علی ابراھیم وعلی ال ابراھیم انک حمید مجید، [5] مسلم کی روایت میں دونوں جگہ ، علی ابراھیم ، کا لفظ نہیں ہے (صرف، علی ال ابراھیم، ہے) حضرت ابو حمید ہ ساعدی روای ہیں کہ صحابہ نے کہا : یارسول اللہ ! ہم آپ پر دو ود کیسے پڑھیں تو فرمایا : کہو، اللھم صل علی محمد وازواجہ وذریتہ کما صلیت علی ابراھیم وبارک علی محمد وازواجہ وذریتہ کما بارکت علی ابراھیم وعلی ال ابراھیم انک حمید مجید، [6] حضرت ابو حمید السا عدی سے روایت ہے فرماتے ہیں کہ کہا گیا اے اللہ کے رسول ! ہم آپ پر کیسے دو ود بھیجیں ۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کہ آپ لوگ کہو، اللھم صل علی محمد وازواجہ وذریتہ کما صلیت علی ابراھیم وبارک علی محمد وازاجہ وذریتہ کما بارکت علی ال ابراھیم انک حمید مجید، حضرت ابن مسعود (رضی اللہ عنہ) کی روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : قیامت کے دن مجھ سے سب سے زیادہ قریب وہ ہوگا جو مجھ پر سب سے زیادہ درود ھتا ہوگا۔ [7] حضرت ابوہریرہ (رضی اللہ عنہ) سے مروی ہے فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا جو مجھ پر ایک بار دو ود بھیجے گا اللہ اس پردس باررحمت فرمائے گا۔ حضرت ابو طلحہ راوی ہیں کہ ایک روز رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تشریف لائے ، اس وقت حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے چہرہ پر شگفتگی تھی۔ فرمایا : مجھ سے جبرئیل (علیہ السلام) نے آکر کہا آپ کا رب فرماتا ہے محمد ! ((صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)) کیا تم اس بات پر خوش نہ ہوگے کہ تمھاری امت میں سے جو کوئی تم پر درود پڑھے گا، میں اس پردس رحمتیں نازل کروں گا اور تمھاری امت میں سے جو کوئی آپ سلام پڑھے گا ، میں دس بار اس پر سلامتی نازل کروں گا ۔ [8] حضرت ابن مسعود راوی ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اللہ کے کچھ فرشتے زمین پر گھومتے پھرتے ہیں ، وہ مجھے میری امت کا سلام پہنچا تے ہیں ۔ [9]  

فضائل

ترمیم

(1)…حضرت ابو طلحہ انصاری رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں : ایک دن حضورپُرنور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ تشریف لائے اور بشاشت چہرہِ اقدس میں نمایاں تھی،ارشاد فرمایا: ’’میرے پاس حضرت جبریل عَلَیْہِ السَّلَام آئے اور کہا: ’’آپ کا رب عَزَّوَجَلَّ فرماتا ہے: کیا آپ راضی نہیں کہ آپ کی اُمت میں جو کوئی آپ پر درود بھیجے، میں اس پر دس بار درود بھیجوں گا اور آپ کی اُمت میں جو کوئی آپ پر سلام بھیجے، میں اس پر دس بار سلام بھیجوں گا۔[10]
(2)… حضرت عبد اللہ بن مسعود رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،حضور پُر نور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’قیامت کے دن مجھ سے سب لوگوں میں زیادہ قریب وہ ہوگا، جس نے سب سے زیادہ مجھ پر درود بھیجا ہے۔[11]
(3)…حضرت انس رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،حضور اقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا’’جو مجھ پر ایک بار درود بھیجے اور وہ قبول ہو جائے، تو اللہ تعالیٰ اس کے 80 برس کے گناہ مٹا دے گا۔[12]
(4)…حضرت عبد اللہ بن عمرو رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمَا فرماتے ہیں :جو نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ پر ایک بار درود بھیجے تو اللہ تعالیٰ اوراس کے فرشتے اس پر ستر بار درود بھیجتے ہیں ۔[13]

حوالہ جات

ترمیم
  1. (تفسیرات احمدیہ، الاحزاب، تحت الآیۃ: 56، ص634)
  2. (صاوی، الاحزاب، تحت الآیۃ: 56، 5 / 1654)
  3. (سورہ احزاب آیت 56)
  4. ۔(تفسیر بغوی سورہ احزاب)
  5. (صحیح بخاری و مسلم متفق علیہ)
  6. (صحیح بخاری و مسلم متفق علیہ) ۔
  7. (رواہ جامع الترمذی فضائل صلوۃ)
  8. (رواہ سنن النسائی ، و دارمی)
  9. (رواہ سنن النسائی و والدارمی)
  10. (سنن نسائی، کتاب السہو، باب الفضل فی الصلاۃ علی النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم، ص222، الحدیث: 1292)
  11. (ترمذی، کتاب الوتر، باب ما جاء فی فضل الصلاۃ علی النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم، 2 / 27، الحدیث: 484)
  12. (در مختارورد المحتار، کتاب الصلاۃ، باب صفۃ الصلاۃ، فصل فی بیان تألیف الصلاۃ الی انتہائہا، 2 / 284)
  13. (مسند امام احمد، مسند عبد اللّٰہ بن عمرو بن العاص رضی اللّٰہ تعالی عنہما، 2 / 614، الحدیث: 6766)