محمد بن عبد اللہ

عرب سیاسی رہنما اور بانی اسلام
(حضرت محمد سے رجوع مکرر)

کام جاری صارف: Tahir697

محمد ﷺ بن عبد اللہ
اسم محمدی خط ثلث میں
احمد، ابوالقاسم، ابوالطیب، نبی التوبہ، نبی الرحمۃ، بدر الدجی، نور الہدی، خیر البری، نبی المرحمۃ، نبی الملحمۃ، الرحمۃ المہداۃ، حبیب الرحمن، المختار، المصطفٰی، المجتبی، الصادق، المصدق، الامین، صاحب مقام المحمود، صاحب الوسیلۃ والدرجۃ الرفیعۃ، صاحب التاج والمعراج، امام المتقین، سید المرسلین، النبی الامی، رسول اللہ، خاتم النبیین، الرسول الاعظم، السراج المنیر، الرؤوف الرحیم، العروۃ الوثقی
پیدائش 9 ربیع الاول 53 ق.ھ ، 1 عام الفیل/ 22 اپریل 571ء (مشہور قول کے مطابق)
مکہ مکرمہ
وفات 12 ربیع الاول 11ھ / 8 جون 632ء
مدینہ منورہ
معظم در اسلام
بعثت رمضان 12ھ / اگست 610ء، غار حرا در مکہ مکرمہ
مرکز قیام مدینہ منورہ کی مسجد نبوی میں واقع حجرہ عائشہ
نسب اسماعیل بن ابراہیم کی نسل میں قریش عرب سے
والدہ آمنہ بنت وہب
والد عبدللہ بن عبدالمطلب
رضاعی والدہ حلیمہ سعدیہ
رضاعی والد حارث بن عبد العزی
اولاد نرینہ قاسم، عبد اللہ، ابراہیم
صاحبزادیاں زینب، رقیہ، ام کلثوم، فاطمہ
ازواج مطہرات خدیجہ بنت خویلد، سودہ بنت زمعہ، عائشہ بنت ابوبکر، حفصہ بنت عمر، زینب بنت خزیمہ ام سلمہ، زینب بنت جحش، جویریہ بنت حارث، ام حبیبہ، صفیہ بنت حی، میمونہ بنت حارث، ماریہ القبطیہ (باختلاف اقوال)
مہر

ابو القاسم محمد بن عبد اللہ بن عبد المطلب (12 ربیع الاول عام الفیل / 8 جون 570ء یا 571ء – 12 ربیع الاول 10ھ / 8 جون 632ء) مسلمانوں کے آخری نبی ہیں۔ اہل اسلام کے نزدیک محمد تمام مذاہب کے پیشواؤں سے کامیاب ترین پیشوا تھے۔[1] آپ کی کنیت ابوالقاسم تھی۔ مسلمانوں کے عقیدہ کے مطابق حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اللہ کی طرف سے انسانیت کی جانب بھیجے جانے والے انبیا اکرام کے سلسلے کے آخری نبی ہیں جن کو اللہ نے اپنے دین کی درست شکل انسانوں کی جانب آخری بار پہنچانے کیلئے دنیا میں بھیجا۔ انسائیکلوپیڈیا بریٹانیکا کے مطابق آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم دنیا کی تمام مذہبی شخصیات میں سب سے کامیاب شخصیت تھے۔[2] 570ء (بعض روایات میں 571ء) مکہ میں پیدا ہونے والے حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر قرآن کی پہلی آیت چالیس برس کی عمرمیں نازل ہوئی۔ ان کا وصال تریسٹھ (63) سال کی عمر میں 632ء میں مدینہ میں ہوا، مکہ اور مدینہ دونوں شہر آج کے سعودی عرب میں حجاز کا حصہ ہیں۔ حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم بن عبداللہ بن عبدالمطلب بن ہاشم بن عبد مناف کے والد کا انتقال ان کی دنیا میں آمد سے قریبا چھ ماہ قبل ہو گیا تھا اور جب ان کی عمر چھ سال تھی تو ان کی والدہ حضرت آمنہ بھی اس دنیا سے رحلت فرما گئیں۔ عربی زبان میں لفظ "محمد" کے معنی ہیں 'جس کی تعریف کی گئی'۔ یہ لفظ اپنی اصل حمد سے ماخوذ ہے جس کا مطلب ہے تعریف کرنا۔ یہ نام ان کے دادا حضرت عبدالمطلب نے رکھا تھا۔ محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو رسول، خاتم النبیین، حضور اکرم، رحمت للعالمین اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے القابات سے بھی پکارا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ بھی آپ کے بہت نام و القاب ہیں۔ نبوت کے اظہار سے قبل حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اپنے چچا حضرت ابوطالب کے ساتھ تجارت میں ہاتھ بٹانا شروع کر دیا۔ اپنی سچائی، دیانت داری اور شفاف کردار کی وجہ سے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم عرب قبائل میں صادق اور امین کے القاب سے پہچانے جانے لگے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اپنا کثیر وقت مکہ سے باہر واقع ایک غار میں جا کر عبادت میں صرف کرتے تھے اس غار کو غار حرا کہا جاتا ہے۔ یہاں پر 610ء میں ایک روز حضرت جبرائیل علیہ السلام (فرشتہ) ظاہر ہوئے اور محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو اللہ کا پیغام دیا۔ جبرائیل علیہ السلام نے اللہ کی جانب سے جو پہلا پیغام حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو پہنچایا وہ یہ ہے۔

اقْرَأْ بِاسْمِ رَبِّكَ الَّذِي خَلَقَ (1) خَلَقَ الْإِنسَانَ مِنْ عَلَقٍ (2) -- القرآن
ترجمہ: پڑھو (اے نبی) اپنے رب کا نام لے کر جس نے پیدا کیا (1) پیدا کیا انسان کو (نطفۂ مخلوط کے ) جمے ہوئے خون سے (2)
سورۃ 96 ( الْعَلَق ) آیات 1 تا 2

یہ ابتدائی آیات بعد میں قرآن کا حصہ بنیں۔ اس واقعہ کے بعد سے حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے رسول کی حیثیت سے تبلیغ اسلام کی ابتدا کی اور لوگوں کو خالق کی وحدانیت کی دعوت دینا شروع کی۔ انہوں نے لوگوں کو روزقیامت کی فکر کرنے کی تعلیم دی کہ جب تمام مخلوق اپنے اعمال کا حساب دینے کے لیے خالق کے سامنے ہوگی۔ اپنی مختصر مدتِ تبلیغ کے دوران میں ہی انہوں نے پورے جزیرہ نما عرب میں اسلام کو ایک مضبوط دین بنا دیا، اسلامی ریاست قائم کی اور عرب میں اتحاد پیدا کر دیا جس کے بارے میں اس سے پہلے کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی محبت مسلمانوں کے ایمان کا حصہ ہے اور قرآن کے مطابق کوئی مسلمان ہو ہی نہیں سکتا جب تک وہ ان کو اپنی جان و مال اور پسندیدہ چیزوں پر فوقیت نہ دے۔ قیامت تک کے مسلمان ان کی امت میں شامل ہیں۔

حلیہ

ابن عباس نے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا حلیہ یوں بیان کیا: ڈیل ڈول، قد و قامت دونوں معتدل اور درمیانی تھے (جسم نہ زیادہ فربہ اور نہ دبلا پتلا، ایسے ہی قد نہ زیادہ لمبا اور نہ کوتاہ بلکہ معتدل) آپ کا رنگ کھلتا گندمی سفیدی مائل، آنکھیں سرمگیں، خندہ دہن، خوبصوورت ماہ تابی چہرہ، داڑھی نہایت گنجان جو پورے چہرہ انور کا احاطہ کئے سینہ کے ابتدائی حصہ پر پھیلی ہوئی تھی۔[3]

مقالات بسلسلۂ
محمد
محمد
 
باب محمد


صبح سعادت

تاریخ ادیان و ملل شاہد ہے کہ حضرت عیسیٰ ابن مریم (علیہ السلام) کے ظہور پر تقریباً چھ صدیاں گزر چکی ہیں اور معمورہ عالم خدا کے پیغمبروں کی معرفت حاصل کی ہوئی صداقت حق کو فراموش کر چکا ہے تمام کائنات انسانی خدا پرستی کے بجائے مظاہر پرستی میں مبتلا ہے اور ہر ملک میں نوع انسانی سے لے کر نوع جمادات تک کی پرستش سرمایہ نازش بنی ہوئی ہے کوئی انسان کو اوتار (خدا) کہہ رہا ہے تو کوئی خدا کا بیٹا۔ ایک اگر مادہ پرست ہے تو دوسرا خود اپنی آتما (روح) کو ہی خدا سمجھ رہا ہے سورج کی پوجا ہے چاند تاروں کی پرستش ہے حیوانوں ‘ درختوں اور پتھروں کی عبادت ہے ‘ آگ ‘ پانی ‘ ہوا ‘ مٹی کے سامنے ناصیہ فرسائی ہے غرض کائنات کی ہر شے پرستش اور پوجا کے لائق ہے اور نہیں ہے تو صرف ذات واحد قابل پرستش نہیں ہے نہ اس کی احدیت کا تصور خالص ہے اور نہ صمدیت کا۔ اس کو اگر مانا بھی جاتا ہے تو دوسروں کی پرستش اور عبادت کے ذریعہ وہ اگر خالق موجودات ہے تو دوسروں کے واسطہ اور احتیاج کے ساتھ مادہ ‘ روح اور ترکیب سب ہی باتوں کا محتاج ہے وہ اگر مالک موجودات ہے بھی تو انسان ‘ حیوان ‘ درخت ‘ پتھر کے بل بوتہ پر ‘ غرض ساری دنیا میں اصل کار فرمائی مظاہر کی تھی اور ” ذات حق “ صرف نام کے لیے ‘ حقیقت سے چشم پوشی تھی مگر مجاز کے ساتھ ذوق عشق ‘ ذات حق سے بعد تھا مگر مظاہر سے قربت ‘ سرمایہ سعادت حق سے بیگانگی تھی۔ مگر مخلوقات کی عبادت گزاری شعار عام تھا اور ہر طرف
{ مَا نَعْبُدُہُمْ اِلَّا لِیُقَرِّبُوْنَا اِلَی اللّٰہِ زُلْفٰی } [4]
” ہم ان کو نہیں پوجتے مگر اس لیے تاکہ وہ خدا کی جانب ہماری قربت کا ذریعہ بن جائیں “
کا مظاہرہ نظر آتا تھا۔
یہی وہ تاریک دور تھا جس میں ” سنت اللہ “ یعنی خدا کے قانون ہدایت و ضلالت نے ماضی کی تاریخ کو پھر دہرایا اور غیرت حق نے فطرت کے قانون رد عمل (REACTION ) کو حرکت دی یعنی آفتاب ہدایت برج سعادت سے نمودار ہوا اور چہار جانب چھائی ہوئی شرک و جہالت اور رسم و رواج کی تاریکیوں کو فنا کرکے عالم ہست و بود کو علم و یقین کی روشنی سے منور کردیا۔

9 ربیع الاول مطابق 20 اپریل 571ء کی صبح ‘ وہ صبح سعادت تھی۔جب مدنیت و حضارت سے محروم ‘ بن کھیتی کی سر زمین مکہ کے ایک معزز قبیلہ قریش (بنی ہاشم) میں عبداللہ بن عبد المطلب کے یہاں آمنہ بنت وہب کے مشکوئے معلی سے آفتاب رسالت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ظہور کیا۔خدایا ! وہ صبح کیسی سعادت افروز تھی جس نے کائنات ارضی کو رشد و ہدایت کے طلوع کا مژدہ جانفزا سنایا اور وہ ساعت کیسی مبارک و محمود تھی جو معمورہ عالم کے لیے پیغام بشارت بنی ‘ عالم کا ذرہ ذرہ زبان حال سے نغمے گا رہا تھا کہ وقت آپہنچا کہ اب دنیائے ہست و بود کی شقاوت دور اور سعادت مجسم سے عالم معمور ہو ‘ ظلمت شرک و کفر کا پردہ چاک ہو اور آفتاب ہدایت روشن و تابناک ہو ‘ مظاہر پرستی باطل ٹھہرے اور خدائے واحد کی توحید مقصد حیات قرار پائے۔
دنیا تو کیا ملک قبیلہ اور خاندان کو بھی یہ علم نہ تھا کہ مذاہب عالم جس آفتاب رسالت کے طلوع ہونے کے منتظر ہیں وہ اس غیر متمدن سر زمین اور عبد المطلب کے گھرانے سے جلوہ گر ہوگا کہ اس کی ولادت باسعادت کو خاص اہمیت دیتے اور تاریخ ولادت کو اپنے سینہ میں محفوظ رکھتے مگر جس خالق کائنات کے نوشتہ تقدیر نے اس کو مقدس ہستی بنانے کا فیصلہ کیا اسی کے ید قدرت نے ولادت باسعادت کے لیے ایک معجزانہ تاریخی نشان بھی ظاہر کردیا اور وہ اصحاب الفیل کا واقعہ تھا۔ معتبر اور مستند روایات شاہد ہیں کہ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ولادت اس واقعہ سے چند ماہ بعد ہوئی۔
یہ واقعہ جن خصوصیات کا حامل ہے ان کے پیش نظریہ عرب کے لیے عموماً اور اہل حجاز کے لیے خصوصاً نہایت عجیب اور حیرت زا تھا اور اس لیے وہ کبھی اس کو فراموش نہیں کرسکتے تھے اس لیے انھوں نے اس کا نام ہی عام الفیل (یعنی ہاتھیوں والا سال) رکھ دیا۔ مگر وہ یہ سمجھنے سے قاصر تھے کہ دراصل یہ واقعہ ایک ” نشان “ ہے اس جلیل القدر ہستی کے ظہور کا جو ایک روز تمام معمورہ انسانی کو مرکز توحید اور قبلہ ابراہیمی پر جمع کر دے گی اور اس کو غیر اللہ (بتوں) کی آلودگیوں سے پاک کرکے توحید الٰہی کے نغموں کے لیے مخصوص کرائے گی۔ کیونکہ یہی وہ پہلا مقام ہے جو صرف خدائے واحد کی پرستش کے لیے بنایا گیا۔
یہ مندر نہیں تھا کہ مورتی کی پوجا کی جائے ‘ یہ گرجا اور کلیسا بھی نہ تھا کہ یسوع مسیح (علیہ السلام) اور کنواری مریم (علیہا السلام) کے مجسّموں کے سامنے سر جھکایا جائے ‘ نہ یہ آتش کدہ تھا کہ آگ کو نور کا مظہر قرار دے کر اس کی پرستش کی جائے اور نہ یہ صلوات یہود تھا کہ حضرت عزیر (علیہ السلام) کو خدا بیٹا بنا کر اس کی تقدیس کے نغمے گائے جائیں بلکہ یہ تو خدا اور صرف ایک خدا کی عبادت کے لیے بنایا گیا تھا۔
{ اِنَّ اَوَّلَ بَیْتٍ وُّضِعَ لِلنَّاسِ لَلَّذِیْ بِبَکَّۃَ مُبٰرَکًاوَّ ھُدًی لِّلْعٰلَمِیْنَ } [5]
غرض بعثت کے بعد قدرت کے اعجاز نما ہاتھوں نے عام الفیل میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ولادت کا راز سر بستہ آشکارا کردیا تب دنیا نے یہ سمجھا کہ ابرہۃ الاشرم اور اس کے لشکر سے کعبۃ اللہ کی یہ حفاظت اس لیے تھی کہ وہ وقت قریب آپہنچا جب دوبارہ یہ مقدس مقام خدائے واحد کی عبادت اور توحید خالص کی مرکزیت کا شرف حاصل کرنے والا ہے پس جو طاقت بھی اس مقصد عظمیٰ سے متصادم ہوگی خود ہی پاش پاس ہو کر رہ جائے گی۔
ابرہہ عیسائی تھا اور اہل عرب (قریش) مشرک ‘ پھر کون کہہ سکتا ہے کہ ابرہہ اور اس کے لشکر کی بربادی قریش کی نصرت و حمایت کے لیے تھی ‘ نہیں ! بلکہ اس لیے سب کچھ ہوا کہ مشیت الٰہی کے خلاف ابرہہ کی خواہش تھی کہ یمن (صنعا) میں جو خوبصورت گرجا (القلیس) باپ ‘ بیٹا اور روح القدس (تثلیث) کے فروغ دینے کو بنایا گیا تھا۔
مرکز توحید ” کعبۃ اللہ “ کی جگہ وہ مرجع خلائق بنے اور اس مقصد کی خاطر اس نے انہدام کعبہ کے لیے لشکر کشی کی ادھر قریش یعنی سارا عرب اس کی مقاومت سے عاجز و درماندہ تھا ابرہہ وقت کے تمام جنگی اسلحہ اور سر و سامان کا مالک اور قریش ان سب سے یکسر محروم ‘تب غیرت حق حرکت میں آئی اور دنیا نے دیکھ لیا کہ دنیوی طاقت کے گھمنڈ پر مشیت الٰہی سے ٹکرانے والا خود ہی فنا کے گھاٹ اتر گیا اور محور توحید ” کعبہ “ خدائی حفاظت کے سایہ میں اسی طرح قائم رہا۔
{ اِنَّ فِیْ ذٰلِکَ لَعِبْرَۃً لِّمَنْ یَّخْشٰی } [6]
” بلاشبہ اس بات میں بڑی ہی عبرت ہے اس شخص کے لیے جو خوف خدا رکھتا ہے “
قرآن عزیز نے سورة الفیل میں اسی حقیقت کو معجزانہ اسلوب بیان کے ساتھ نقل کیا ہے :
{ اَلَمْ تَرَ کَیْفَ فَعَلَ رَبُّکَ بِاَصْحٰبِ الْفِیْلِ ۔ اَلَمْ یَجْعَلْ کَیْدَہُمْ فِیْ تَضْلِیْلٍ ۔ وَّ اَرْسَلَ عَلَیْہِمْ طَیْرًا اَبَابِیْلَ۔ تَرْمِیْہِمْ بِحِجَارَۃٍ مِّنْ سِجِّیْلٍ ۔ فَجَعَلَہُمْ کَعَصْفٍ مَّاْکُولٍ ۔ } [7]
” (اے پیغمبر ! ) کیا تجھے نہیں معلوم کہ تیرے پروردگار نے ہاتھیوں والوں کے ساتھ کیا معاملہ کیا ؟ کیا ان کے فریب کو ناکام نہیں بنادیا ؟ اور ان پر فوج در فوج پرند بھیج دیئے وہ پرند ان پر کنکریاں پھینکتے تھے پھر (خدا نے) ان (ہاتھیوں والوں) کو کھائے ہوئے بھس کے مانند کردیا۔ “
بہرحال عام الفیل نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ولادت باسعادت کا سال ہے اور یہ واقعہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ظہور قدسی کا سب سے بڑا قریبی نشان ہے اور یہ حقیقت اس شخص پر بخوبی عیاں ہے۔
{ لِمَنْ کَانَ لَہٗ قَلْبٌ اَوْ اَلْقَی السَّمْعَ وَہُوَ شَہِیْدٌ} [8]
” جس کے پاس قبول حق کے لیے دل ہے یا وہ حاضر دماغی کے ساتھ امر حق کی جانب کان لگائے ہوئے ہے۔ “

تاریخ ولادت کی تحقیق

تمام ارباب تاریخ و سیر کا تین باتوں پر کلی اتفاق ہے ایک یہ کہ ولادت کا سال ” عام الفیل “ تھا۔چنانچہ سیرت و مغازی کے مشہور امام محمد بن اسحاق اور جلیل القدر محدث و مورخ حافظ ابن کثیر ; جمہور کی یہی رائے نقل کرتے ہیں :
( (وَکَانَ مَوْلَدُہٗ (علیہ السلام) ُ عَامَ الْفِیْلِ وَھَذَا ھُوَ الْمَشْھُوْرُ عَنِ الْجُمْھُوْرِ وَ قَالَ اِبْرٰھِیْمُ بْنُ مُنْذِرٍ اَلْخَزَامِیُّ وَ ھُوَ الَّذِیْ لَا یَشُکُّ فِیْہِ اَحَدُ عُلَمَائِنَا اَنَّہٗ وُلِدَ عَامَ الْفِیْلِ ) ) [9]
” جمہور کے نزدیک یہی قول مشہور ہے کہ نبی کی ولادت عام الفیل میں ہوئی اور ابراہیم بن منذر کہتے ہیں کہ اس بات میں کسی عالم کو بھی شک و شبہ نہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) عام الفیل میں پیدا ہوئے۔ “
( (وَالْمُجْتَمَعُ عَلَیْہِ اَنَّہٗ وُلِدَ عَامُ الْفِیْلِ )) [10]
” اور اس پر سب کا اتفاق ہے کہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) عام الفیل میں پیدا ہوئے۔ “
اور دوسری اور تیسری بات یہ کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ولادت ربیع الاول کے مہینے میں شنبہ (پیر) کے دن صبح صادق کے وقت ہوئی :
( (وَھَذا مَا لَا خِلَافَ فِیْہِ اَنَّہٗ وُلِدَ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یَوْمَ الْاِثْنَیْنِ ثُمَّ الْجَمْھُوْرُ عَلَی اَنَّ ذَالِکَ کَانَ فِیْ شَھْرِ رَبِیْعِ الْاَوَّلَ )) [11]
” اور اس پر کلی اتفاق ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) دو شنبہ (پیر) کے دن پیدا ہوئے پھر جمہور کا یہ بھی فیصلہ ہے کہ ربیع الاول کا مہینہ تھا۔ “
( (قَالَ اَبُوْ قَتَادَۃَ (رض) اَنَّ اَعْرَابِیًّا قَالَ یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ ! مَا تَقُوْلُ فِیْ صَوْمٍ یَوْمِ الْاَثْنَیْنِ فَقَالَ ‘ ذَالِکَ یَوْمُ وُلِدَتُ فِیْہِ وَ اُنْزِلَ عَلَّی فِیْہِ )) [12]
” ابو قتادہ (رض) فرماتے ہیں گاؤں کے ایک آدمی نے کہا اے اللہ کے رسول ! آپ پیر کے دن کے متعلق کیا فرماتے ہیں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا یہ وہ دن ہے جس میں میری ولادت ہوئی اور جس میں مجھ پر سب سے پہلی وحی نازل ہوئی۔ “
لیکن اہل سیر و تاریخ اس باب میں مختلف الرائے ہیں کہ ربیع الاول کی کون سی تاریخ تھی عوام میں تو مشہور قول یہ ہے کہ 12 ربیع الاول تھی اور بعض کمزور روایات اس کی پشت پر ہیں اور اکثر علماء 8 ربیع الاول کہتے ہیں لیکن صحیح اور مستند قول یہ ہے کہ 9 ربیع الاول تاریخ ولادت ہے اور مشاہیر علمائے تاریخ و حدیث اور جلیل المرتبہ ائمہ دین اسی تاریخ کو ” صحیح “ اور ” اثبت “ کہتے ہیں چنانچہ حمیدی ‘ عقیلی ‘ یونس بن یزید ‘ ابن عبداللہ ‘ ابن حزممحمد بن موسیٰ خوارزمی ‘ ابوالخطاب ابن دحیہ ‘ ابن تیمیہابن قیمابن کثیرحافظ ابن حجر عسقلانیشیخ بدر الدین عینی جیسے مقتدر علماء کی یہی رائے ہے۔
محمود پاشا فلکی نے (جو قسطنطنیہ کا مشہور ہیئت داں اور منجم گزرا ہے) ہیئت کے مطابق جو زائچہ اس غرض سے مرتب کیا تھا کہ محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانہ سے اپنے زمانہ تک کسوف و خسوف (سورج گرہن و چاند گرہن) کا صحیح حساب معلوم کرے پوری تحقیق کے ساتھ یہ ثابت کیا ہے کہ سن ولادت با سعادت میں کسی حساب سے بھی دو شنبہ (پیر) کا دن 12 ربیع الاول کو نہیں آتا بلکہ 9 ربیع الاول ہی کو آتا ہے اس لیے بلحاظ قوت و صحت روایات اور باعتبار حساب ہیئت و نجوم ولادت مبارک کی مستند تاریخ 9 ربیع الاول ہے۔
8 اور 9 کا اختلاف حقیقی اختلاف نہیں ہے بلکہ مہینے کے 29 اور 30 کے حساب پر مبنی ہے اور جبکہ حساب سے ثابت ہوگیا کہ صحیح تاریخ 21 اپریل تھی تو 8 کے متعلق تمام اقوال دراصل 9 کی تائید میں پیش ہو سکتے ہیں۔ اصحاب فیل کے واقعہ سے کس قدر عرصہ بعد ولادت ہوئی ؟ متعدد اقوال میں سے مشہور قول یہ ہے کہ پچاس دن بعد ظہور قدسی ہوا ہے :
( (وَقِیْلَ بِخَمْسِیْنَ یَوْمًا وَھُوَ اَشْھَر)) [13]
” ایک قول یہ ہے کہ اصحاب فیل کے واقعہ سے پچاس دن بعد ولادت باسعادت ہوئی اور یہی قول زیادہ مشہور ہے۔ “

نسب مبارک

نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) عربی النسل ہیں اور عرب کے معزز قبیلہ قریش کی سب سے زیادہ مقتدر شاخ بنی ہاشم سے ہیں ‘ قرآن عزیز نے اہل عرب کو خطاب کرتے ہوئے متعدد مقامات پر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے عربی نژاد ہونے کا ذکر کیا ہے :
{ ہُوَ الَّذِیْ بَعَثَ فِی الْاُمِّیِنَ رَسُوْلًا مِّنْہُمْ یَتْلُوْا عَلَیْہِمْ اٰیٰتِہٖ وَیُزَکِّیْہِمْ وَیُعَلِّمُہُمُ الْکِتٰبَ وَالْحِکْمَۃَ } [14]
” (خدا) وہ ذات ہے جس نے امیین (ان پڑھ لوگوں) میں سے ہی ایک رسول بھیج دیا جو ان پر اس کی آیات پڑھتا اور ان کا تزکیہ کرتا اور ان کو الکتاب (قرآن) اور حکمت سکھاتا ہے۔ “
{ لَقَدْ جَآئَکُمْ رَسُوْلٌ مِّنْ اَنْفُسِکُمْ } [15]
” بلاشبہ تمہارے پاس تم ہی میں سے ایک رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آیا۔ “
{ اِذْ بَعَثَ فِیْھِمْ رَسُوْلًا مِّنْ اَنْفُسِھِمْ } [16]
” جب کہ بھیج دیا اللہ نے ان میں ایک رسول جو بلحاظ نسب ان ہی میں سے ہے۔ “
{ وَکَذٰلِکَ اَوْحَیْنَا اِلَیْکَ قُرْاٰنًا عَرَبِیًّا لِّتُنْذِرَ اُمَّ الْقُرٰی وَمَنْ حَوْلَہَا } [17]
” اسی طرح ہم نے آپ پر قرآن کو بزبان عربی اتارا ہے تاکہ (اے محمد ) تم مکہ والوں اور ان کے گرد و پیش کے بسنے والوں کو (برائیوں سے) ڈراؤ۔ “
{ اَعْجَمِیٌّ وَّ ھٰذَا لِسَانٌ عَرَبِیٌّ مُّبِیْنٌ} [18]
” کیا (اس قرآن کو) سکھا دیتا ہے کوئی عجمی اور حالت یہ ہے کہ یہ واضح عربی زبان میں ہے۔ “
ماہرین انساب عرب کا اس پر اتفاق ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) حضرت اسماعیل بن ابراہیم (علیہما السلام) کی نسل سے ہیں اس لیے کہ قریش بغیر کسی اختلاف رائے کے عدنانی ہیں اور عدنان کے اسماعیلی ہونے میں دو رائے کی گنجائش ہی نہیں ہے۔
عرب کے علم الانساب کے مشہور عالم محدث ابن عبد البر (رحمہ اللہ علیہ) تحریر فرماتے ہیں :
( (وَاَجْمَعُوْا اَنَّ مُحَمَّدًا رسول اللّٰہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مِنْ وُلْدِ عَدْنَانَ وَاَنَّ عَدْنَانَ مِنْ وُّلْدِ اِسْمٰعِیْلَ وَاَنَّ رَبِیْعَۃَ وَ مُضَرَ مِنْ وُلْدِ اِسْمٰعِیْلَ )) [19]
” اور علمائے انساب کا اس پر اتفاق ہے کہ محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) عدنان کی نسل سے ہیں اور عدنان اسماعیل (علیہ السلام) کی نسل سے ہے اور ربیعہ اور مضر بھی اسماعیل (علیہ السلام) کی اولاد ہیں۔ “
علمائے انساب نے نسب نامہ کی تفصیل اس طرح بیان کی ہے :
محمد بن عبداللہ بن عبدالمطلب بن ہاشم بن عبد مناف بن قصی بن کلاب بن مرہ بن کعب بن لوی بن غالب بن فہر بن مالک بن نضر بن کنانہ بن خزیمہ بن مدرکہ بن الیاس بن مضر بن نزار بن معد بن عدنان
(عربی میں :محمد بن عبد اللہ بن عبد المطلب بن هاشم بن عبد مناف بن قصي بن كلاب بن مرة بن كعب بن لؤي بن غالب بن فهر بن مالك بن النضر بن كنانۃ بن خزيمۃ بن مدركۃ بن الياس بن مضر بن نزار بن معد بن عدنان)
اور والدہ کی جانب سے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا نسب نامہ کلاب پر جا کر پدری سلسلہ نسب کے ساتھ مل جاتا ہے یعنی آمنہ بنت وہب بن عبد مناف بن زہرہ بن کلاب۔ کلاب کو حکیم بھی کہتے ہیں۔
البتہ عدنان اور حضرت اسماعیل کے درمیان سلسلہ کے ناموں سے متعلق ماہرین انساب کی آرا مختلف ہیں۔ [20] اس لیے نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کے متعلق یہ ارشاد فرما کر ” کَذِبَ النَّسَّابُوْنَ “ (نسب بیان کرنے والوں نے غلط بیانی کی ہے) کسی رائے کی توثیق نہیں فرمائی اور اپنے سلسلہ نسب کے متعلق صرف اس قدر ارشاد فرمایا ہے :
( (اَنَّ اللّٰہَ اصْطَفٰی کَنَانَۃَ مِنْ وُّلْدِ اِسْمٰعِیْلَ وَ اَصْطَفٰی قُرَیْشًا مِّنْ کَنَانَۃَ وَاصْطَفٰی مِنْ قُرَیْشٍ بَنِی ہَاشِمٍ وَاصْطَفَانِیْ مِنْ بَنِیْ ھَاشِمٍ )) [21]
” اللہ تعالیٰ نے اسماعیل (علیہ السلام) کی نسل میں سے کنانہ کو ممتاز بنایا اور کنانہ میں سے قریش کو عزت و عظمت بخشی اور قریش میں سے بنی ہاشم کو امتیاز عطا فرمایا اور بنی ہاشم میں سے مجھ کو منتخب فرمایا۔ “
گویا اس طرح سلسلہ نسب کے صرف ان حصوں کی تصدیق فرمائی جو ماہرین انساب کے درمیان بلا خلاف مسلم تھے۔
اسلام نے نسبی تفاخر اور اس پر مبنی سماجی رسم و رواج کو بہت بڑا گناہ اور جرم قرار دیا ہے وہ کہتا ہے خدا کے یہاں فضیلت کا معیار ایمان اور عمل صالح ہے اور وہاں حسب و نسب کی کوئی پرسش نہیں ہے نیز نسبی تفاخر اسلام کے بنیادی قانون ” اخوت اسلامی “ کے قطعاً منافی ہے اس لیے اسلام کے اجتماعی دستور میں اس کے لیے کوئی جگہ نہیں ہے تاہم واقعاتی طور پر تاریخ یہ پتہ دیتی ہے کہ ہمیشہ انبیاء و رسل علیہم السلام اپنی قوم اور اپنے ملک کے معزز خاندان میں سے ہوتے رہے ہیں حکمت خداوندی کا یہ فیصلہ غالباً اس لیے ہوا کہ قوموں اور ملکوں کے رسم و رواج اور نسبی تفاخر کے خلاف ان کی دعوت حق اور ان کا پیغام صداقت کہیں ذاتی مفاد کے لیے نہ سمجھ لیا جائے اور اس طرح اس کا اخلاقی پہلو کمزور نہ ہوجائے مثلاً کسی سماجی زندگی میں ذات پات کی تقسیم اور کا سٹ سسٹم اس طرح موجود ہے کہ اس کی وجہ سے بعض انسان بعض کو حقیر و ذلیل سمجھنے لگے ہیں تو اگر اس قوم یا ملک میں کوئی پیغمبر اس خاندان سے تعلق رکھتا ہو جس کو قومی اور ملکی رواج نے نیچ اور پست اقوام کا لقب دے رکھا ہے ایسی حالت میں اس ظلم صریح اور باطل کوشی کے خلاف اس پیغمبر کی صدائے حق اتنی سرعت کے ساتھ کامیاب نہ ہوتی جس قدر اس حالت میں ہوسکتی ہے جب کہ وہ خود اس قوم و ملک کے اونچے خاندان سے تعلق رکھتا ہو اور صرف ایک اسی خاص مسئلہ میں نہیں بلکہ اس کے پیغام حق کی تمام اصلاحات میں یہ فرق ضرور نظر آئے گا۔
بہرحال یہ حکمت ہر مقام اور ہر موقع پر مفید ہو یا نہ ہو عرب کے حالات و واقعات کے لیے از بس مناسب اور مفید ثابت ہوئی چنانچہ صدائے اسلام نے جب اپنی انقلابی اور اصلاحی گرج سے روحانیت کی خفتہ کائنات میں تہلکہ ڈال دیا تو ایک جانب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اہل عرب کو یہ سنایا کہ جہاں تک خاندانی امتیاز کا تعلق ہے تو میں قریشی بھی ہوں اور ہاشمی بھی اور یہ امتیاز تمہارے نقطہ نظر سے بہت بلند ہے مگر میری نگاہ میں اس کی حیثیت صرف یہ ہے : ” وَلَا فَخَرَ “ ” یہ کوئی فخر کرنے کی چیز نہیں ہے۔ “ اور دوسری جانب نسبی تفاخر کی بنیادوں کے انہدام اور مساوات انسانی کی دعوت عام کے لیے اس خدائی فرمان کا اعلان کرکے کائنات انسانی کی تمام تاریک ذہنیت کے خلاف انقلاب عظیم برپا کردیا :
{ یٰٓـاَیُّہَا النَّاسُ اِنَّا خَلَقْنَاکُمْ مِّنْ ذَکَرٍ وَّاُنثٰی وَجَعَلْنَاکُمْ شُعُوْبًا وَّقَبَائِلَ لِتَعَارَفُوْا اِنَّ اَکْرَمَکُمْ عِنْدَ اللّٰہِ اَتْقَاکُمْ اِنَّ اللّٰہَ عَلِیْمٌ خَبِیْرٌ} [22]
” لوگو ! میں نے تم سب کو ایک مرد و عورت سے پیدا کیا ہے (یعنی انسان کی ابتدا آدم اور اس کی بیوی حوا (علیہما السلام) سے ہوئی ہے) اور تم کو خاندانوں اور قبیلوں میں صرف اس لیے بانٹ دیا ہے کہ آپس میں (صلہ رحمی کے لئے) پہچان اور معرفت کا طریقہ قائم کرلو (اور اصل یہ ہے کہ) بلاشبہ اللہ کے نزدیک وہی عزت والا ہے جو تم میں سے پرہیزگاری کی زندگی بسر کرنے والا ہے۔ “
اور حجۃ الوداع کے موقع پر جب آپ ہزارہا صحابہ کرام (رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین) کی موجودگی میں وداعی پیغام سنا رہے اور اسلام کے بنیادی اصول کے استحکام کے لیے اہم وصایا پیش فرما رہے تھے اس حکم خداوندی کی تائید میں یہ انقلاب آفریں پیغام بھی ارشاد فرمایا :
اِنَّ اللّٰہَ یَقُوْلُ :
{ یٰٓـاَیُّہَا النَّاسُ اِنَّا خَلَقْنَاکُمْ مِّنْ ذَکَرٍ وَّاُنثٰی وَجَعَلْنَاکُمْ شُعُوْبًا وَّقَبَائِلَ لِتَعَارَفُوْا اِنَّ اَکْرَمَکُمْ عِنْدَ اللّٰہِ اَتْقَاکُمْ اِنَّ اللّٰہَ عَلِیْمٌ خَبِیْرٌ} [23]
فَلَیْسَ لِعَرَبِیٍّ عَلٰی عَجَمِیٍّ فَضْلٌ وَلَا لِعَجَمِیٍّ عَلٰی عَرَبِیٍّ فَضْلٌ وَلَا لِاَسْوَدَ عَلٰی اَبْیَضَ فَضْلٌ وَلَا لِاَبْیَضَ عَلٰی اَسْوَدَ فَضْلٌ اِلَّا بِالتَّقْوٰی۔ یَا مَعْشَرَ الْقُرَیْشِ لَا تَجِیْئُوْا بِالدُّنْیَا تَحْمِلُوْنَھَا عَلٰی رِقَابِکُمْ وَیَحِییُٔ النَّاسُ بِالْآخَرِۃ فَاِنِّیْ لَا اُغْنِیْ عَنْکُمْ مِنَ اللّٰہِ شَیْئًا۔۔ الخ)) [24]
” اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ہے اے افراد نسل انسانی ! بلاشبہ ہم نے تم کو ایک مرد اور عورت سے پیدا کیا ہے اور ہم نے تمہارے درمیان خاندان اور قبائل بنا دیئے ہیں تاکہ (صلہ رحمی کے لئے) تعارف پیدا کرو بلاشبہ تم میں اللہ کے نزدیک وہی برگزیدہ ہے جو زیادہ متقی (نیک کردار) ہے پس (خوب یاد رکھو کہ) نہ عربی کو عجمی پر کوئی فضیلت ہے اور نہ عجمی کو عربی پر کوئی برتری حاصل ہے نہ کالے کو گورے پر کوئی فضیلت ہے اور نہ گورے کو کالے پر کوئی بزرگی بلکہ ان سب کے لیے فضیلت کا معیار صرف تقویٰ (نیک عملی) ہے اے گروہ قریش ایسا نہ ہو کہ تم (خاندانی فخر کے زعم باطل کی وجہ سے قیامت میں) دنیا کو کاندھے پر لاد کر لاؤ اور دوسرے لوگ (نیک عملی کی بدولت) آخرت کا سامان لے کر آئیں ‘ واضح رہے کہ (تمہارے محض قریشی ہونے کی وجہ سے) میں تم کو خدا کے فیصلے سے قطعاً بےپرواہ نہیں بنا سکتا (خدا کے یہاں تو صرف عمل ہی کام آئے گا) “
اور ایک مرتبہ نسبی فخر کے خلاف تبلیغ حق کرتے ہوئے اس کو جاہلی تعصب فرمایا اور مسلمانوں کو اس سے بچنے کے لیے سخت تاکید فرمائی۔ ارشاد فرمایا :
( (اِنَّ اللّٰہَ تَعَالٰی قَدْ اَذْھَبَ عَنْکُمْ عَصَبِیَّۃَ الْجَاھِلِیَّۃِ وَ فَخْرَھَا بِالْاٰبَائِ وَاِنَّمَا ھُوَ مُؤْمِنٌ تَقِیُّ اَوْ فَاجِرٌ شَقَی النَّاسُ کُلُّھُمْ بَنُوْ آدَمَ وَ آدَمُ خُلِقَ مِنْ تُرَابٍ )) [25]
” اللہ تعالیٰ نے (دعوت اسلام کے ذریعہ) تمہارے درمیان سے جاہلیت کے تعصب اور نسبی فخر کو مٹا دیا ہے اور اب انسان یا نیکوکار مومن ہے اور یا بدکار (پاپی) ۔ سب انسان آدم (علیہ السلام) کی اولاد ہیں اور آدم (علیہ السلام) کی پیدائش مٹی سے ہوئی ہے (پھر فخر کرنے کا کیا موقع ہے ؟ )“
اسی مقدس تعلیم کا نتیجہ تھا کہ اسلام کے دور اولین میں نہ ذات پات کا کوئی سوال باقی رہ گیا تھا اور نہ خاندانی تفاخر کی کوئی حیثیت سمجھی جاتی تھی اور اس صدائے حق نے غلاموں تک کو سروری بخش دی تھی ‘ چنانچہ اسامہ بن زید (رضی اللہ عنہ) کی سالاری لشکر اور امامت جہاد ‘ بلال حبشی (رضی اللہ عنہ) کے لیے صدیق اکبر (رضی اللہ عنہ) کا یہ ارشاد ” سید ھذہ الامۃ “ ” اس امت کا سردار “ قریش اور ہاشمی صحابہ (رضوان اللہ علیہم) کے درمیان ایک عجمی انسان ابوہریرہ (رضی اللہ عنہ) کی جلالت و عظمت ‘ صہیب رومی اور سلمان فارسی (رضی اللہ عنہ) کی رفعت و بلندی مرتبت اور اسی قسم کے ہزاروں واقعات تھے جو چشم فلک نے آنکھوں سے دیکھے اور تاریخ نے آغوش صفحات میں محفوظ رکھے ہیں مگر وائے بدبختی کہ بیرونی اثرات اور عرب سے باہر عجمی ماحول نے ایک عرصہ کے بعد مسلمانوں کو پھر اسی لعنت سے دو چار کردیا جس کا مرثیہ علامہ اقبال مرحوم (رحمہ اللہ علیہ) کو اس طرح کرنا پڑا :

فرقہ بندی ہے کہیں اور کہیں ذاتیں ہیں

کیا زمانہ میں پنپنے کی یہی باتیں ہیں

سرور دو عالم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ فرما کر ” اِنَّمَا ھُوَ مُؤْمِنٌ تَقِیٌّ اَوْ فَاجِرٌ شَقِیٌّ“ اس مسئلہ کو اس درجہ صاف کر دیا تھا کہ مسلمان کی زندگی میں کبھی اس کے برعکس زندگی کا کوئی اثر پڑنا ہی نہیں چاہیے تھا ‘ ذات پات تو صرف اس لیے تھیں کہ چھوٹے چھوٹے حلقوں میں باہمی تعارف ‘ صلہ رحمی اور حسن سلوک کا معاملہ ایک دوسرے کے ساتھ بآسانی ہو سکے ورنہ کیسی ذات ؟ کہاں کا خاندان ؟ کون برادری ؟ یہاں تو صرف دو ہی فطری اور نیچرل تقسیمیں ہیں یا نیکوکار یا بدکار کسی قوم کسی خاندان اور کسی ملک کا انسان ہو اگر سچی خدا پرستی اور نیکوکاری رکھتا ہے تو وہ سب ایک برادری اور ایک قوم ہیں اور اگر مشرک و کافر اور بدکار پاپی تو یہ سب ایک گروہ اور ایک ٹولی ہیں۔

ولادت با سعادت اور یتیمی

خاتم الانبیاء محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے والد ماجد کا نام عبداللہ اور والدہ ماجدہ کا آمنہ تھا۔ابھی آفتاب ہدایت نے کائنات ہست و بود میں طلوع نہیں کیا تھا اور حضرت آمنہ کی مشکوئے معلی اس ودیعت کی امین ہی تھی کہ والد ماجد کا انتقال ہوگیا اور ارباب سیرت کہتے ہیں کہ حضرت عبداللہ ایک قافلہ کے ساتھ شام تشریف لے گئے تھے ‘ واپسی میں جب قافلہ مدینہ (یثرب) پہنچا تو وہ بیمار ہوگئے اور اس لیے اپنے ننہال بنی نجار میں قیام پذیر رہے قافلہ جب مکہ پہنچا تو عبد المطلب نے بیٹے کے متعلق دریافت کیا قافلہ نے ان کی بیماری اور مدینہ میں قیام کا واقعہ کہہ سنایا۔ تب عبدالمطلب نے اپنے بڑے لڑکے حارث کو دریافت حال کے لیے مدینہ بھیجا حارث جب مدینہ پہنچے تو معلوم ہوا کہ حضرت عبداللہ نے ایک ماہ چند روز بیمار رہ کر داعیٔ اجل کو لبیک کہہ دیا۔ واپس آ کر جب حارث نے باپ کو حادثہ کی اطلاع دی تو عبد المطلب اور تمام خاندان کو اس صدمہ جانکاہ نے بےحال کردیا کیونکہ عبداللہ اپنے باپ اور بھائیوں کے بہت چہیتے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم 9 ربیع الاوّل، اکیاون (53) قبل ہجرت (واقعہ فیل کے پچاس دن بعد) بمطابق بیس بحساب دیگر بائیس اپریل، پانچ سو اکہتر عیسوی، اٹھارویں سن چالیس نوشیروانی، یکم جیٹھ چھ سو اٹھائیس بکرمی شمسی، بیس ماہِ ہفتم سن دو ہزار پانچ سو پچاسی ابراہیمی، گیارہ ماہِ ہشتم سن تین ہزار چھ سو پچھتر طوفانی، بروز پیر صبح صادق کے وقت۔ ان کی پیدائش پر معجزات نمودار ہوئے جن کا ذکر قدیم آسمانی کتب میں تھا۔ مثلاً آتشکدہ فارس جو ہزار سال سے زیادہ سے روشن تھا بجھ گیا۔ مشکوٰۃ کی ایک حدیث ہے جس کے مطابق حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا ارشاد ہے کہ ' میں اس وقت بھی نبی تھا جب آدم مٹی اور پانی کے درمیان میں تھے۔۔۔ میں ابراہیم علیہ السلام کی دعا، عیسیٰ علیہ السلام کی بشارت اور اپنی والدہ کا وہ خواب ہوں جو انہوں نے میری پیدائش کے وقت دیکھا اور ان سے ایک ایسا نور ظاہر ہوا جس سے شام کے محلات روشن ہو گئے'۔[26][27]
جس سال آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی پیدائش ہوئی اس سے پہلے قریش معاشی بدحالی کا شکار تھے مگر اس سال ویران زمین سرسبز و شاداب ہوئی، سوکھے ہوئے درخت ہرے ہو گئے اور قریش خوشحال ہو گئے۔[28]
پیدائش سے چند ماہ قبل والد ماجد جناب حضرت عبد اللہ کا انتقال ہو گیا تھا۔ گویا حضرت محمدﷺ دنیا میں دُرِّیتیم بن کر آئے۔ محمدﷺ نام رکھا گیا اور ساتویں دن عقیقہ ہوا۔
غرض جب ولادت باسعادت ہوئی تو اس سے قبل ہی آپ کو یہ یتیمی کا شرف حاصل ہوچکا تھا۔ چنانچہ قرآن نے آپ کی یتیمی و دنیوی وسائل سے محرومی کے باوجود آغوش رحمت کردگار میں نشوونما پا کر ” ہادی عالم “ بننے کا معجزانہ اختصار کے ساتھ سورة والضحیٰ میں تذکرہ کیا ہے۔
{ اَلَمْ یَجِدْکَ یَتِیْمًا فَاٰوٰی ۔ وَوَجَدَکَ ضَآلًّا فَہَدٰی ۔ وَوَجَدَکَ عَائِلًا فَاَغْنٰی۔ } [29]
” (اے پیغمبر ! ) کیا تجھ کو خدا نے یتیم نہیں پایا پھر اپنی آغوش (رحمت) میں جگہ دی اور کیا تجھ کو ناواقف نہیں پایا پھر تجھ کو (کائنات کی ہدایت کے لئے) ہدایت مآب بنایا اور کیا تجھ کو (ہر قسم کے وسائل سے محروم) و محتاج نہیں پایا پھر تجھ کو (ہر قسم کی سروری دے کر) غنی بنادیا۔ “
بقول حضرت ابوقتادہ (رحمہ اللہ علیہ) ان آیات میں عجیب و غریب اعجاز اور اسلوب بیان کے ساتھ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی حیات طیبہ کے تمام ارتقائی مدارج کا تذکرہ ہے تم سمجھتے ہو کہ ” فَاٰوٰی “ کے معنی یہ ہیں کہ پروردگار عالم نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے رہنے سہنے کی صورت پیدا کردی یا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بے یارو مددگار نہیں رہنے دیا یہ بھی صحیح ہے مگر اس کلام ربانی کی اصل روح یہ ہے کہ اس نے ذات اقدس (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ہر قسم کے مادی اسباب و وسائل سے بےپرواہ رکھ کر اپنی آغوش رحمت میں لے لیا اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے نشو وارتقاء کو خالص اپنی تربیت میں کامل و مکمل کیا۔ [30]
{ وَوَجَدَکَ ضَآلًّا فَہَدٰی } [31]
کی تفسیر کو خود قرآن ہی نے دوسری جگہ روشن کردیا مثلاً سورة شورٰی میں ہے :
{ وَکَذٰلِکَ اَوْحَیْنَا اِلَیْکَ رُوْحًا مِّنْ اَمْرِنَا مَا کُنْتَ تَدْرِیْ مَا الْکِتٰبُ وَلَا الْاِیْمَانُ وَلٰـکِنْ جَعَلْنَاہُ نُوْرًا نَّہْدِیْ بِہٖ مَنْ نَّشَائُ مِنْ عِبَادِنَا } [32]
” اور اسی طرح ہم نے تیری جانب اپنے امر کی روح کا القاء کیا (حالانکہ اس سے پہلے) نہ تو کتاب (قرآن) سے واقف تھا اور نہ ایمان کی حقیقت سے لیکن ہم نے اس کو نور (روشنی) بنادیا اور ہم اپنے بندوں میں سے جس کو چاہتے ہیں (اس کی صلاحیت و استعداد کے پیش نظر) اس کے ذریعہ ہدایت دیتے ہیں۔ “
اور آیت عَآئِـلًا فَاَغْنٰی میں دنیوی احتیاج و غنا کا ذکر روح کلام نہیں ہے بلکہ اس جانب اشارہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو قربت و کمال کا وہ مرتبہ عظمیٰ عطا فرمایا ہے کہ مادی اور روحانی ہر قسم کی احتیاج سے بالاتر بنا کر صفات حمیدہ اور اخلاق کریمانہ کی مثل اعلیٰ ” غنا “ سے بہرہ ور بنادیا ‘ یہی وہ غنا ہے جس کا خود ذات اقدس (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس طرح ذکر فرمایا ہے :
( (لَیْسَ الْغِنٰی عَنْ کَثْرَۃِ الْعَرَضِ وَلٰکِنَّ الْغِنٰی عَنِ النَّفْسِ )) [33]
” غنی مالداری کی بہتات کا نام نہیں ہے حقیقی غنی نفس کا ماسویٰ اللہ سے مستغنی ہوجانا ہے۔ “

ایامِ رضاعت و طفولت

رسول اللّٰہ کی ولادت باسعادت کے بعد سب سے پہلے آپؐ کی والدہ ماجدہ سیدہ آمنہ رضی اللّٰہ عنہا نے اپنے لختِ جگر کو چند روز تک خود دودھ پلایا ، اس کے بعد کچھ مدت کیلئے ابولہب کی کنیز ثویبہ نے یہ خدمت انجام دی، اور اس کے بعد یہ شرف قبیلہ بنو سعد سے تعلق رکھنے والی بی بی حلیمہ سعدیہ کے حصے میں آیا۔ [34] [35]

حلیمہ سعدیہ رضی اللہ عنہا کی گود میں

در اصل مکہ مکرمہ کے شرفاء میں یہ رواج تھا کہ وہ اپنے شیر خوار بچوں کو کچھ عرصہ کیلئے ’’بادیہ‘‘ (گاؤں)میں رکھنا پسند کرتے تھے، تاکہ شہر کے آلودہ ماحول سے دور صاف ستھری اور خالص آب وہوا میں بچے کی صحت پر خوشگوار اثرات مرتب ہوں اور اس کی نشوونما بھی اچھی ہو۔نیز یہ کہ شہر میں چونکہ بیرونی لوگوں کی بکثرت آمدورفت رہا کرتی ہے ،لہٰذا ان کے ساتھ مسلسل اختلاط اور میل جول کی وجہ سے زبان بھی خالص نہیں رہتی اور لب ولہجہ بھی متأثر ہوتا ہے، جبکہ گاؤں والوں کی زبان خالص ہوا کرتی ہے اور اس میں دوسری کسی زبان کی ملاوٹ کا احتمال نہیں ہوتا۔
چنانچہ جن دنوں رسول اللہﷺکی ولادت ہوئی آپؐ کی والدہ ماجدہ نے بھی حسبِ دستور اپنے لختِ جگر کو گاؤں بھیجنے کا ارادہ کیا،اتفاق سے انہی دنوں بادیۂ بنی سعد سے تعلق رکھنے والی کچھ عورتیں بچے گود لینے کی غرض سے شہر مکہ کی جانب روانہ ہوئیں، جن میں حلیمہ سعدیہ بھی تھیں، مکہ پہنچنے کے بعد شہر میں گھوم پھر کر سب ہی عورتوں نے کوئی نہ کوئی شیر خوار بچہ گود لے لیا، جبکہ حلیمہ کو کوئی بچہ نہ مل سکا، البتہ ایک یتیم بچہ تھا جسے کسی عورت نے محض اس وجہ سے اپنانا قبول نہیں کیا تھا کہ اس یتیم بچے کو گود لے کر شاید کوئی معقول معاوضہ اور مالی فائدہ نہ مل سکے… اور پھر یتیم بھی ایسا کہ جس نے باپ کا نام تو سنا ہو… مگر آنکھیں باپ کی صورت دیکھنے کو ترستی ہوں… جس کا باپ اس کی پیدائش سے پہلے ہی اس دنیا سے رخصت ہو چکا…!
حلیمہ کو چونکہ کوئی بچہ نہیں مل سکا تھا اس لئے سوچا کہ خالی ہاتھ واپس جانے سے بہتر ہے کہ اس یتیم کو ہی قبول کر لیا جائے، چنانچہ بادلِ ناخواستہ اسے گود لے لیا…جس یتیم بچے کو گود لینے پر حلیمہ رنجیدہ و دلبرداشتہ تھیں اور اس چیز کو اپنی ناکامی تصور کررہی تھیں… انہیں کیا خبر تھی کہ بظاہر تو یہ ناکامی تھی… لیکن ایسی ناکامی پر ہزاروں کامیابیاں قربان ہو جائیں… ! حلیمہ خود بھی لاغر وفاقہ زدہ تھیں … لہٰذ ابقول ان کے خود ان کے اپنے شیر خوار بیٹے کو کبھی پیٹ بھرکر دودھ پینا نصیب نہیں ہوا تھا،لیکن اُس وقت جب انہوں نے بنوہاشم کے اس ’’دُرِّیتیم‘‘کو گود لیا اور پہلی بار اسے اپنا دودھ پلایا تو اس نے خوب سیر ہوکر دودھ پیا اور اس کے بعد دیر تک سوتا رہا، اور تب حلیمہ نے اپنے حقیقی بیٹے کوبھی دودھ پلایا تو پہلی بار اس نے بھی خوب پیٹ بھرکر دودھ پیا اور اس کے بعدوہ بھی دیرتک سوتا رہا… یہ بات حلیمہ اور ان کے شوہر(حارث بن عبدالعزیٰ)کیلئے انتہائی حیرت انگیز تھی۔ان کی ایک بکری اور ایک اونٹنی بھی اس سفر میں ہمراہ تھی، وہ دونوں بھی فاقہ زدہ تھیں اور ان کا دودھ نہ ہونے کے برابر تھا، لیکن اس روز ان دونوں نے بھی خوب زیادہ دودھ دیا، حلیمہ اور ان کے شوہر نے اس روز خوب جی بھرکر دودھ پیا۔ گاؤں سے مکہ شہر کی طرف آتے وقت کیفیت یہ تھی کہ حلیمہ کی گدھی کمزوری کی وجہ سے سب سے پیچھے پیچھے چل رہی تھی اور حلیمہ کی سہیلیاں بار بار راستے میں رک کر اس کا انتظار کرتی تھیں… لیکن اب مکہ سے گاؤں کی طرف واپسی کا وقت آیا تو کیفیت یہ ہوئی کہ حلیمہ کی وہی گدھی اس قدر چست اور تیزرفتار ہوگئی کہ سب سے آگے آگے دوڑنے لگی ،جس پر حلیمہ کی سہیلیاں بار بار انہیں پیچھے سے پکارتیں کہ حلیمہ رک جاؤ… کچھ ہمارا بھی توخیال کرلو… اور باربار پوچھتیں کہ حلیمہ کیا یہ تمہاری وہی گدھی ہے…؟ حلیمہ جواب دیتیں کہ ہاں یہ وہی توہے… اس پروہ کہتیں کہ وَاللّہ اِنّ لَھا لَشَأناً … یعنی’’بخدا آج تواس کی شان ہی نرالی ہے…!‘‘ اسی طرح گاؤں پہنچنے کے بعدان کی کھیتی باڑی اور غلہ و خوراک وغیرہ … غرضیکہ ہر چیز میں نہایت تیزی کے ساتھ حیرت انگیز طور پر بہترین اور برکت کے آثار نمایاں ہوتے چلے گئے، خود حلیمہ کی صحت بھی بہت اچھی ہوگئی …جس پروہ دونوں میاں بیوی انتہائی حیران بھی تھے اور بہت زیادہ خوش بھی،حتیٰ کہ ایک روز حلیمہ کے شوہر نے انہیں کہا:(تَعْلَمِي وَاللّہِ یَا حَلِیمَۃ ! لَقَد أخَذتِ نَسَمَۃً مُبَارَکَۃ…) یعنی:’’حلیمہ! یقین کرو، بخدا مجھے تویوں لگتا ہے کہ تم یہ جو بچہ لائی ہویہ انتہائی مبارک ہے…‘‘! اس پر حلیمہ نے برجستہ جواب دیا: (وَاللّہِ اِنِّي لَأرجُو ذَلِکَ) یعنی:’’بخدا مجھے بھی ایساہی محسوس ہوتا ہے…‘‘۔ اور یوں حلیمہ سعدیہ اور ان کے افرادِ خانہ کو اس ’’دُرِیتیم‘‘ کی قدروقیمت کا مکمل ادراک و احساس ہوا اور وہ اس کی بدولت فیوض وبرکات کااپنی کھلی آنکھوں سے مسلسل مشاہدہ بھی کرتے رہے اور خوب مستفید و مستفیض بھی ہوتے رہے…! دو سال دیکھتے ہی دیکھتے گذر گئے… حلیمہ کا دل بالکل نہیں چاہتا تھاکہ یہ بچہ ان کی آغوش سے واپس چلا جائے،لیکن مدتِ رضاعت پوری ہوچکی تھی،لہٰذا بادلِ ناخواستہ وہ اسے اس کی والدہ کے پاس مکہ شہر لے گئیں، بچے کی والدہ نے اپنے لختِ جگرکی اتنی اچھی صحت دیکھی تو انتہائی خوش ہوئیں، ماں کی یہ خوشی دیکھ کر حلیمہ نے موقع مناسب سمجھا اور ڈرتے ڈرتے کہاکہ ’’آپ دیکھ رہی ہیں کہ گاؤں کی صاف ستھری فضاء میں بچے کی صحت کتنی عمدہ ہے،لیکن اب مجھے یہ فکر ستا رہی ہے کہ کہیں ایسا نہ ہوکہ اب یہاں شہر میں اس کی صحت خراب ہو جائے…اس لئے میں چاہتی ہوں کہ اگر آپ اجازت دیں تو میں بچے کو مزید کچھ عرصہ کیلئے واپس اپنے ہمراہ لے جاؤں…بی بی آمنہ دیکھ ہی چکی تھیں کہ بادیۂ بنی سعد میں رہتے ہوئے بچے کی صحت خوب عمدہ ہے اور وہاں کی آب وہوا اس کو خوب موافق آئی ہے، نیز انہوں نے اپنے لختِ جگر کیلئے حلیمہ کا جب یہ جذبہ اور پیار بھی دیکھا تو وہ مسکرائیں اور مزید کچھ عرصہ کیلئے بچے کولے جانے کی اجازت دے دی۔ [36] حضرت حلیمہ کا یہ تمام واقعہ سیرۃ ابن ہشام میں مذکور ہے صرف خط کشیدہ الفاظ ایک دوسری روایت کے الفاظ کا ترجمہ ہے جسکو علامہ سیوطی نے [37] خصائص الکبریٰ میں تذکرہ کیا ہے۔[38]

حادثۂ شقِ صدر

حلیمہ سعدیہ اس بچے (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم) کی واپسی پر بہت خوش تھیں ،اور یو ں بادیۂ بنی سعد میں مزید تین سال(یعنی کل پانچ سال) گذر گئے ،لیکن ایک روز نہایت عجیب واقعہ پیش آیا جس کی وجہ سے حلیمہ انتہائی خوفزدہ اور پریشان ہو گئیں۔ہوا یہ کہ یہ بچہ ایک روز جب گاؤں کے دوسرے ہم عمر بچوں کے ہمراہ کھیل کود میں مشغول تھاکہ اچانک وہاں کوئی اجنبی نمودار ہوا،اور اس نے بچے کو زمین پر لٹا کر اس کا سینہ چاک کردیا…دوسرے بچوں نے جب یہ منظر دیکھا تو فوراً دوڑتے ہوئے حلیمہ کے گھر پہنچے اور بتایا کہ کسی نے محمد() کو قتل کر دیا ہے۔حلیمہ انتہائی پریشانی کے عالم میں وہاں پہنچیں تو دیکھا کہ گھبراہٹ کی وجہ سے آپؐ کے چہرے کا رنگ قدرے بدلا ہوا ہے۔ درحقیقت وہ اجنبی شخص جبریل امین علیہ السلام تھے جواللہ کے حکم سے وہاں آئے تھے، انہوں نے رسول اللہ کا سینہ چاک کرکے قلبِ مبارک باہر نکالا ،اور اس میں سی سیاہ نقطے کی مانند جمے ہوئے خون کاایک چھوٹا سا ٹکڑا کال کریہ کہتے ہوئے پھینک دیاکہ ’’یہ شیطان کاحصہ ہے‘‘(یعنی اس حصے کو دل سے نکال کر پھینک دیا تاکہ شیطان کبھی آپؐپر غالب نہ آسکے) پھر آپؐ کے دل کو سونے کی طشتری میں رکھ کرآبِ زمزم سے دھویا،اس میں ایمان وحکمت کا جوہر بھرا، اور پھر اسے اسی طرح جوڑ کر سینے میں اس کے مقام پر رکھ دیا۔

(۱)دراصل یہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی طرف سے اپنے حبیب صلی اللہ علیہ وسلم کیلئے ایک قسم کا روحانی آپریشن اور سامانِ عصمت تھا۔ اس حادثہ کی وجہ سے حلیمہ سعدیہ بہت زیادہ گھبرا گئیں ،اور آپؐ کی سلامتی کو مدِنظر رکھتے ہوئے چند روز بعد آپؐ کو مکہ شہر میں آپؐ کی والدہ ماجدہ کے پاس چھوڑ آئیں۔ [39][40]

والدہ کی کفالت میں

بادیۂ بنی سعد میں تقریباً پانچ سال گذارنے کے بعد آپ ﷺ اپنی والدہ کے سایۂ شفقت میں واپس پہنچ گئے ۔جب چھ سال کے ہوئے تو والدہ نے اپنے شوہرِ نامدار یعنی عبداللہ بن عبدالمطلب سے خلوص و وفاء کے اظہار کے طور پر مدینہ کا سفر کیا، اس سفر میں کمسن بیٹے (یعنی آپﷺ) کو بھی یہ سوچ کر ہمراہ لیا کہ بیٹے کو باپ کی شکل دیکھنا تو نصیب نہ ہو سکا… کم ازکم اب اسے باپ کی قبر کی زیارت ہی نصیب ہو جائے۔اس سفر میں کنیز ام ایمن بھی ہمراہ تھیں ، یہ کمسن بچہ اس طویل اور کٹھن سفر میں مناظرِ فطرت کا بغور مطالعہ و مشاہدہ کرتا رہا، اس مختصر قافلے نے مدینہ میں تقریباً ایک ماہ قیام کیا۔
حاشیہ آپ ﷺ جب بعد میں مکہ سے ہجرت کر کے مدینہ پہنچے اور وہاں مستقل قیام کیا تب ایک روز آپؐ جب بنو جار کے ایک محلے سے گذر رہے تھے آپؐ کی نگاہ اس مکان پر پڑی جہاں آپؐ نے بچپن میں اپنی والدہ ماجدہ کے ہمراہ سفرِ مدینہ کے موقع پر قیام کیا تھا، اتنا عرصہ گذر جانے کے باوجود آپؐ نے اس مکان کو پہچان لیا، اور پھر سن آٹھ ہجری میں فتحِ مکہ کی غرض سے مدینہ سے مکہ کی جانب سفرکے دوران راستے میں ابواء نامی مقام پر آپ اپنی والدہ کی قبر پر بھی گئے ،اور وہاں خوب روئے، جیساکہ حدیث کے الفاظ ہیں زارَ النّبِيّﷺ قبرَ أمِّہٖ فَبَکَیٰ وَ أبکَیٰ مَن حَولَہٗ …’’یعنی آپؐ نے اپنی والدہ کی قبر کی زیارت کی اور تب آپؐ خود بھی روئے اور دوسروں کو بھی رلایا…‘‘ [41]

والدہ کی وفات

آپ ﷺ کی والدہ بی بی آمنہ مدینہ میں تقریباً ایک ماہ قیام کے بعد جب مکہ کی طرف واپس روانہ ہوئیں تو راستے میں انتہائی تند و تیز اور گرم صحرائی ہواؤں نے آلیا، جس کی وجہ سے شدید بیمار پڑ گئیں ، راستے میں علاج کا کوئی انتظام تھا اور نہ ہی راحت و آرام کا کوئی بندو بست چند روز کی اس علالت کے بعد آخر مدینہ اور مکہ درمیان ’’اَبواء‘‘ نامی مقام پر اس جہانِ فانی سے کوچ کرگئیں …! اور انہیں اسی مقام پرہی دفن کر دیاگیا۔ کمسن بچے نے اپنی معصوم آنکھوں سے ماں کو یوں پر دیس میں نزع اور موت کی کشمکش سے گذرتے دیکھا… جس سے اس کا گدازِ قلب مزید بڑھ گیا۔ [42] [43]

دادا کی کفالت میں

اُمِ ایمن جو اس سفر میں ہمراہ تھیں ٗپردیس میں بی بی آمنہ کی علالت اور پھر وفات کے بعد اس کمسن بچے کو ہمراہ لئے ہوئے واپس مکہ پہنچیں اور وہاں اسے اس کے دادا عبد المطلب کے حوالے کر دیا یہ بچہ اس سفر کے لیے ماں کی انگلی تھامے ہوئے جب گھر سے روانہ ہوا تھا تب سرپر آپ کا سایہ نہ تھا اور اب اس طویل اور تھکا دینے والے سفر کے بعد جب واپس مکہ میں اپنے گھر پہنچا تو کیفیت یہ تھی کہ ماں کی ممتا سے بھی محروم ہو چکا تھا…! یوں ہمارے پیارے رسول ﷺ اپنی پیاری ماں کی وفات کے بعد اب اپنے دادا محترم یعنی جناب عبدالمطلب کی کفالت میں آگئے،اُس وقت آپؐ کی عمر مبارک چھ سال تین ماہ اور دس دن تھی۔ دادا نے جب اپنے اس یتیم پوتے کواپنے دامنِ کفالت و تربیت میں لیا تو جی بھرکر اسے پیار دیا،اسے اپنی جان سے بھی زیادہ عزیز رکھا،اور اپنے بچوں سے بھی بڑھ کر اس کے ساتھ ہمیشہ لاڈ اور پیار کیا، وہ آپ ﷺ کو ہمیشہ اپنے ساتھ بٹھا کر کھانا کھلاتے دن بھر آپ ﷺ کو اپنے ساتھ ہی رکھتے، اور رات کو جب آپ ﷺ سو جاتے تو وہ باربار اٹھ کر آپ ﷺ کی خبرگیری کیا کرتے۔ عبدالمطلب چونکہ اپنے قبیلہ کے سردار ہونے کے علاوہ متولیٔ کعبہ بھی تھے اس لئے کعبۃ اللہ کے قریب ان کیلئے خاص مسند بچھائی جاتی تھی جس پر کبھی کسی کو بیٹھنے کی جرأت نہ ہوتی، یہاں تک کہ ان کے اپنے بیٹے بھی جب وہاں آتے تو اس مسند کے آس پاس بیٹھ جاتے مگر آپ ﷺ کو عبدالمطلب ہمیشہ اس مسندِ خاص پر اپنے ساتھ ہی بٹھاتے، اگر کبھی کوئی آپ ﷺ کو وہاں سے اٹھانے کی کوشش کرتا تو عبدالمطلب یوں کہتے: دَعُوا اِبنِي ! فَوَاللّہِ اِنَّ لَہٗ لَشَأناً… یعنی : ’’میرے بیٹے کو یہیں بیٹھا رہنے دو،کیونکہ اللہ کی قسم اس کی تو شان بڑی ہی نرالی ہے…‘‘،اور ساتھ ہی فرطِ محبت سے آپ ﷺ کی پشت پر ہاتھ پھیرتے اور آپ ﷺ کے اس اندازِ شاہانہ اور استغناء کو دیکھ کر خوش ہوا کرتے۔ [44] لیکن آپؐ دادا کی اس شفقت سے بھی جلد ہی محروم ہو گئے جب بیاسی سال کی عمر پا کر یہ شفیق و مہربان دادا بھی راہیٔ ملکِ عدم ہو گئے، اور مکہ مکرمہ میں محلہ حجون میں دفن ہوئے۔ جب ان کا جنازہ اٹھا تو آپ ﷺ بھی ساتھ تھے، شدتِ غم اور فرطِ محبت سے اُس وقت آپؐ جنازے کے ہمراہ روتے جارہے تھے…! اُس وقت آپؐ کی عمر مبارک صرف 8 سال 2 ماہ اور 10 دن تھی۔ [45]

ابوطالب کی کفالت میں

رسول اللہ کے دادا محترم عبدالمطلب نے وفات سے قبل وصیت کی تھی کہ ان کے بعد آپؐ کی کفالت و تربیت آپؐ کے چچا ابوطالب کے ذمہ ہو گی،چنانچہ ابوطالب نے اس عظیم ذمہ داری کو بہت ہی احسن طریقے سے تادمِ آخر نبھایا، آپؐ سے وہ اس قدرمحبت رکھتے تھے کہ آپؐ کو ہمیشہ اپنی اولاد سے بڑھ کر چاہا اور اپنے بچوں پر مقدم رکھا، جب سوتے تو آپؐ کو ساتھ لے کر سوتے،اور جب باہر جاتے تو آپؐ کو ساتھ لے کر جاتے۔ یوں زندگی کے دن گذرتے رہے… وقت کا پہیہ چلتا رہا اور آپؐ ابوطالب کی زیرِ سرپرستی بچپن اور کم سنی کی حدود سے گذرنے کے بعد اب لڑکپن کی عمر میں داخل ہو گئے اور اب کچھ ہوش سنبھالا تو محسوس کیاکہ چونکہ آپؐ کے مشفق ومحسن چچا قلیل المال اور کثیر العیال ہیں ٗ لہٰذا تلاشِ معاش کے سلسلہ میں ان کا ہاتھ بٹاناچاہئے۔چنانچہ اس جذبے کے تحت آپؐ نے اس دورمیں بکریاں بھی چرائیں اور محنت ومشقت بھی کی رسول اللہ ﷺ نے بچپن اور پھر لڑکپن کی منزلیں طے کرنے کے بعد نوجوانی کے مرحلے میں جب قدم رکھا تو آپ ؐ نے بھی تجارت کوہی اپنا ذریعۂ معاش بنایا،اور اس دور میں اپنے سرپرست اور مشفق چچا ابوطالب کے ہمراہ آپؐ نے متعدد تجارتی سفر بھی کئے۔ان دنوں تجارت کے حوالے سے چہار سو آپؐ کے حسنِ معاملہ ٗ راست بازی اور امانت و دیانت کے چرچے ہونے لگے،اپنے اور پرائے ٗ دوست ودشمن سبھی آپؐ کو ’’صادق و امین ‘‘کے لقب سے پکارنے لگے…!!حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے حضرت ابو طالب کے ساتھ شام کا تجارتی سفر بھی اختیار کیا اور تجارت کے امور سے واقفیت حاصل کی۔ اس سفر کے دوران میں ایک بحیرا نامی عیسائی راہب نے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم میں کچھ ایسی نشانیاں دیکھیں جو ایک آنے والے پیغمبر کے بارے میں قدیم آسمانی کتب میں لکھی تھیں۔ اس نے حضرت ابوطالب کو بتایا کہ اگر شام کے یہود یا نصاریٰ نے یہ نشانیاں پا لیں تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی جان کو خطرہ ہو سکتا ہے۔ چنانچہ حضرت ابوطالب نے یہ سفر ملتوی کر دیا اور واپس مکہ آ گئے۔۔۔[46] اس سے معلوم ہوتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا بچپن عام بچوں کی طرح کھیل کود میں نہیں گزرا ہوگا بلکہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم میں نبوت کی نشانیاں شروع سے موجود تھیں۔ اس قسم کا ایک واقعہ اس وقت بھی پیش آیا جب آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم بدوی قبیلہ میں اپنی دایہ کے پاس تھے۔ وہاں حبشہ کے کچھ عیسائیوں نے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو بغور دیکھا اور کچھ سوالات کیے یہاں تک کہ نبوت کی نشانیاں پائیں اور پھر کہنے لگے کہ ہم اس بچے کو پکڑ کر اپنی سرزمین میں لے جائیں گے۔ اس واقعہ کے بعد حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو مکہ لوٹا دیا گیا۔[47][48]

شام کا دوسرا سفر اور شادی

تقریباً 25 سال کی عمر میں آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے شام کا دوسرا بڑا سفر کیا جو حضرت خدیجہ علیہا السلام کے تجارتی قافلہ کے لیے تھا۔ حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ایمانداری کی بنا پر اپنے آپ کو ایک اچھا تاجر ثابت کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم دوسرے لوگوں کا مال تجارت بھی تجارت کی غرض سے لے کر جایا کرتے تھے۔خدیجہ بنت خویلد انتہائی شریف النفس اور صاحبِ حیثیت خاتون تھیں، مکہ میں ان کا خاص مقام و رتبہ تھا اور قریش کے عوام وخواص سبھی انہیں نہایت عزت و عظمت کی نگاہ سے دیکھتے تھے۔ خدیجہ رضی اللہ عنہا کا سلسلۂ نسب پانچویں پشت میں رسول اللہ کے خاندان سے جا ملتا ہے، وہ بیوہ تھیں، اپنی شرافتِ نفس ٗپاکیزگیٔ اخلاق اور عفت و عصمت کی وجہ سے زمانۂ جاہلیت میں بھی لوگ انہیں ’’طاہرہ‘‘کے لقب سے پکارا کرتے تھے۔ حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کا کاروبار اس قدر وسیع پیمانے پر تھا کہ اہلِ مکہ کا جب کوئی تجارتی قافلہ روانہ ہوتا تو اس میں اکثریت حضرت خدیجہؓ کے مال واسباب سے لدے ہوئے اونٹوں کی ہوتی،اپنے کاروباری امور کی انجام دہی و نگرانی کی غرض سے حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا مختلف اشخاص کی خدمات حاصل کیاکرتی تھیں۔ انہی دنوں حضرت خدیجہؓ کو جب رسول اللہ ﷺ کی راست بازی اور امانت و دیانت کی خبریں ملیں تو انہوں نے آپؐ کو یہ پیغام بھجوایا کہ آئندہ جو تجارتی قافلہ مکہ سے ملکِ شام کیلئے روانہ ہوگا اس کی نگرانی آپؐ کریں، ساتھ ہی معقول معاوضے کابھی وعدہ کیا۔ آپ ﷺ نے اپنے سرپرست ومشفق چچا ابوطالب سے مشورے کے بعد اس پیشکش کو قبول فرمایا اور سفرِ شام کیلئے تیار ہوگئے۔ چنانچہ آپ ﷺ حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کا مالِ تجارت لے کر ملکِ شام کی طرف روانہ ہوئے،توفیقِ الٰہی سے اس سفر میں بہت زیادہ منافع ہوا۔حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا نے ’’میسرہ‘‘نامی اپنا ایک غلام بھی اس سفر میں آپؐ کے ہمراہ روانہ کیا تھا، اس نے واپس مکہ پہنچنے پر حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کے سامنے آنکھوں دیکھا حال بیان کیا، آپؐ کی راست بازی، معاملہ فہمی، پرہیزگاری ،امانت و دیانت، فہم و فراست ،حسنِ تعامل و دیگر صفاتِ حمیدہ کا تذکرہ کیا،یہ سب کچھ حضرت خدیجہ کیلئے انتہائی فرحت ومسرت اور اطمینان کا باعث بنا۔ حضرت خدیجہؓ اس سے قبل دوبار بیوہ ہو چکی تھیں،ان کا پہلا نکاح عتیق مخزومی سے ٗ اور پھر اس کی موت کے بعد دوسرا نکاح ہند تمیمی سے ہوا تھا۔ دوسری بار بھی جب وہ بیوہ ہوگئیں توان کے مقام ورتبے اور مال ودولت کی وجہ سے بڑے بڑے سردارانِ قریش متعدد بار انہیں پیغامِ نکاح بھجوا چکے تھے، لیکن حضرت خدیجہؓ اپنی ذہانت و فہم و فراست کی وجہ سے اس حقیقت کو خوب جان چکی تھیں کہ ان میں سے کوئی بھی مخلص نہیں ہے،یہ سبھی لوگ لالچی اور محض مال وجمال کے بھوکے ہیں… اسی لئے وہ ایسے تمام پیغامات کو رد کر چکی تھیں۔ ایسے میں رسول اللہ ﷺ جب حضرت خدیجہ ؓکا مالِ تجارت لے کرگئے اور اس سفر میں منافع بہت زیادہ ہوا… اور پھر یہ کہ سفر سے واپسی پر آپؐ نے حضرت خدیجہؓ کواس تجارت کا حساب و کتاب پیش کیا… اور چپ چاپ چل دئیے…! حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا بس سوچتی ہی رہ گئیں کہ کس قدر عجیب وغریب ہے یہ نوجوان … کس قدر سچا اور مخلص ہے یہ انسان… کس قدر سچی اور صاف ستھری ہے اس کی تجارت… کتنی معصومیت ہے اس کی ہر ادا میں… دوسروں کی بنسبت منافع کس قدر زیادہ لایا ہے لیکن معاوضہ کے معاملے میں کوئی تقاضا نہیں کوئی مطالبہ نہیں کوئی بحث و تکرار نہیں معاوضہ جو ملا بس چپ چاپ قبول کرلیا…! حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کیلئے یہ سب کچھ انتہائی باعثِ حیرت تھا… ایک طرف مسلسل پیغامات بھیجنے والے بڑے بڑے سردارانِ قریش جو کہ دراصل حرص وطمع کے مارے ہوئے اور مال و زر کے پجاری تھا اور دوسری طرف سیدھا سادھا ٗسچا ٗمخلص اور اس قدر قناعت پسند ٗ متوکل وقانع قسم کا یہ نوجوان…! حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کو آپ ﷺ کی یہی ادا بھا گئی اور وہ سمجھ گئیں کہ یہی توان کی وہ متاعِ گمشدہ ہے جس کی وہ مدت سے متلاشی تھیں…! تب حضرت خدیجہ ؓنے اپنے دل کی بات اپنی ایک خاص راز دار سہیلی نفیسہ بنت مُنَبِّہ سے کہی، اور انہیں آپﷺ کی طرف پیغامِ نکاح لے کرجانے کو کہا۔نفیسہ نے یہ پیغام آپؐ تک پہنچایا،جس پر آپ ﷺ نے اپنے چچاؤں خصوصاً جناب ابوطالب اور حضرت حمزہ ؓسے مشورہ کیا، ان دونوں نے اس رشتے کی تائید کی ،اور پھر یہ دونوں آپ ﷺ کی طرف سے اظہارِ رضا مندی کے طور پر حضرت خدیجہؓ کے چچا عمرو بن اسد کے پاس پہنچے اور آپؐ کی طرف سے رضامندی کی انہیں اطلاع دی ،اور یوں آپ ﷺ اور حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا اس رشتۂ ازدواج میں منسلک ہو گئے،اور یہ مبارک ترین رشتہ حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کی وفات تک ٗ یعنی مسلسل پچیس برس قائم رہا۔ رسول اللہﷺ کی یہ پہلی شادی تھی،جبکہ حضرت خدیجہؓ اس سے قبل دوبار بیوہ ہو چکی تھیں،اس شادی کے وقت آپ ﷺ کی عمر مبارک پچیس سال ٗ جبکہ حضرت خدیجہؓ کی عمر چالیس سال تھی۔ ۔[49] حضرت خدیجہ علیہا السلام قریش کی مالدار ترین اور معزز ترین خواتین میں سے تھیں۔حضرت خدیجہ علیہا السلام سے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی چار بیٹیاں حضرت زینب، حضرت رقیہ، حضرت ام کلثوم اور حضرت فاطمہ پیدا ہوئیں۔ بعض علمائے اہلِ تشیع کے مطابق حضرت فاطمہ علیہا السلام کے علاوہ باقی بیٹیاں حضرت خدیجہ علیہا السلام کی بھانجیاں تھیں۔

بعثت (پہلی وحی)

اب زندگی میں ایک اور انقلاب ہوا کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو خلوت گزینی کی طرف رغبت ہوئی اور غار حرا میں روز وشب بسر ہونے لگے بت پرستی سے شروع ہی سے نفرت تھی اس لیے کبھی نہ کسی صنم کے آگے سر جھکایا اور نہ کسی ایسی مجلس میں شرکت فرمائی جو صنم پرستی کے میلے کہلاتے تھے ‘ اب خلوت میں فطرت سلیم جس طرح رہنمائی کرتی خدائے واحد کی عبادت کرتے مگر ایک خلش سینے میں ایسی تھی جو اس حالت میں بھی بےچین ہی رکھتی ‘ اکثر یہ سوچ کر تڑپ جاتے تھے کہ میری قوم خصوصاً اور دنیائے انسانی عموماً کس طرح خدائے واحد کو چھوڑ کر صنم پرستی اور مظاہر پرستی میں مبتلا ہے اور یہ کہ اخلاق کی دنیا کس طرح الٹ گئی ہے آخر وہ کونسا نسخہ کیمیا ہے جو اس حالت میں انقلاب پیدا کر دے اور سچی خدا پرستی اور نیک عملی پھر ایک مرتبہ اپنی نمود دکھلائے۔
یہی جذبات و تاثرات تھے جو قلب مضطرب میں موجزن تھے اور خلوت کدہ حرا میں انہی کیفیات کے ساتھ ذات اقدس (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مصروف یاد الٰہی رہتے اور جب کئی کئی دن اس طرح گزر جاتے تو کبھی حضرت خدیجہ (رضی اللہ عنہا) حاضر ہو کر آزوقہ حیات دے جاتیں اور کبھی خود بنفس نفیس جا کر چند روز کا سامان خوردو نوش لے آتے اور حرا میں پھر مشغول عبادت ہوجاتے چنانچہ چودہ صدیاں گزرنے کے بعد آج بھی حرا زبان سے اس کیف آگیں منظر کا شاہد ہے جس کا لطف اس نے برسوں اٹھایا ہے مشہور محدث و مؤرخ حافظ عماد الدین ابن کثیر (رحمہ اللہ علیہ) نے اس واقعہ کو ان مختصر الفاظ میں حسن و خوبی کے ساتھ بیان کیا ہے :
( (وَاِنَّمَا کَانَ رسول اللّٰہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یُحِبُّ الْخَلَائَ وَالْاِنْفِرَادَ عَلٰی قَوْمِہٖ لِمَا یَرَأَھُمْ عَلَیْہِ مِنَ الضَّلَالِ الْمُبِیْنِ مِنْ عِبَادَۃِ الْاَوْثَانِ وَالسُّجُوْدِ لِلْاَصْنَامِ وَ قَوِیَتْ مُحَبَّتُہٗ لِلْخَلْوَۃِ عِنْدَ مُقَارَبَۃِ اِیْحَائِ اللّٰہِ اِلَیْہِ صَلَوَاتُ اللّٰہِ وَ سَلَامُہٗ عَلَیْہِ )) [50]
” اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) (دور شباب میں) خلوت پسند ہوگئے تھے اور قوم سے الگ تنہائی میں وقت گزارتے تھے کیونکہ وہ قوم کی اس کھلی گمراہی کو دیکھ کر کہ ” وہ بت پرستی میں مبتلا اور بتوں کے سامنے سجدہ گزار ہے “ کڑھتے تھے اور جوں جوں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر وحی الٰہی کے نزول کا زمانہ قریب ہوتا جاتا تھا (مشیت الٰہی سے) اسی قدر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خلوت پسندی میں اضافہ ہوتا جاتا۔ ”
صَلَوَاتُ اللّٰہِ وَ سَلَامُہٗ عَلَیْہِ “ (اس ذات اقدس پر خدا کی رحمتیں اور سلامتی نازل ہو) ۔ “
بہرحال یہی وہ خلوت کدہ عبادت تھا جہاں ذات اقدس (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر سب سے پہلے وحی الٰہی کا نزول ہوا اور بالترتیب سورة اقراء اور سورة مدثر کی چند آیات سنانے کے لیے بشیر و نذیر بنادیا۔

حقیقت وحی

یہ ” وحی “ و ” تنزیل “ کیا ہے جس کو نبوت و رسالت کے خصائص میں سے کہا جاتا ہے اور یہ منصب نبوت و رسالت کیا شئے ہے جس کا وحی وتنزیل کے ساتھ اتنا گہرا اور قریبی تعلق ہے کہ منطقی اصطلاح میں لازم و ملزوم کہا جاسکتا ہے اور اس اصطلاحی گفتگو سے قطع نظر سادہ الفاظ میں اس سوال کو کیوں نہ اس طرح پیش کردیا جائے کہ کائنات انسانی کے ہر معاملہ میں جبکہ حسن و قبح کے درمیان امتیاز پیدا کرنے کے لیے فطرت نے ہم کو جوہر عقل عطا کردیا ہے اور انسان کے اندر کی یہ سرچ لائٹ (SEARCH LIGHT ) ہر ایک مادی شعبہ حیات میں رہنمائی کرتی ہے تو پھر رسول و نبی کے ذریعہ پیغام الٰہی کی حاجت کیا ہے ؟ اور عالم روحانیات کے مسائل اور معرفت الٰہی کے حصول میں تنہا عقل ہی کیوں کافی نہیں سمجھی جاتی ؟ یہی وہ سوال ہے جس کے حل ہوجانے پر وحی اور نبوت دونوں کی حقیقت بھی خود بخود واضح ہوسکتی ہے۔
اس سوال کو حل کرنے کے لیے پہلے ایک تمہید قابل توجہ ہے اور دراصل وہی اس مسئلہ کی کلید ہے۔تم جب کائنات کے وجود و خلق کو عمیق فکر و نظر سے مشاہدہ کرتے ہو تو یہ حقیقت ہر جگہ ابھری ہوئی نظر آتی ہے کہ خالق کائنات نے اپنی ربوبیت کاملہ کے فیض وعطاء سے ہر شئے کو جس طرح وجود بخشا اور خلق کیا اس کو ” ہدایت “ (راہنمائی) سے بھی سرفراز کیا ہے اور اگر یہ نہ ہوتی تو کائنات کا وجود و خلق مہمل اور بیکار ہوجاتا ‘ کیونکہ یہی ” ہدایت “ ہر ایک جاندار پر زندگی اور معیشت کی راہ کھولتی ‘ ان کی حیات کو مفید بناتی اور ضروریات حیات کی طلب و حصول میں رہنمائی کرتی ہے اور یہی ناموس فطرت کا وہ فیض عام ہے جس کے بغیر کوئی مخلوق بھی سامان حیات اور وسائل تربیت سے استفادہ نہیں کرسکتی اور نہ وجود حیات کی یہ گرمجوشیاں ہی ظہور پذیر ہوسکتیں۔
” مچھلی کے جائے کن تیرا ئے “ اسی حقیقت کی جانب اشارہ ہے وہ جب اس دنیا میں آنکھ کھولتے ہیں تو خود بخود پانی میں تیرنے لگتے اور اپنی غذا کی جستجو میں مصروف ہوجاتے ہیں ‘ پرندوں کے بچے انڈے سے باہر آتے ہی ہوا میں اڑنے کی کیوں کوشش کرتے نظر آتے ہیں حیوان اور انسان کا بچہ جب اس کارگاہ ہستی میں قدم رکھتا ہے تو بھوک و پیاس دور کرنے کے لیے ماں باپ سے تعلیم حاصل نہیں کرتا بلکہ خود بخود ماں کے سینہ پر منہ رکھ کر غذا کے خزانہ سے دودھ کیوں چوسنے لگتا ہے۔
آخر یہ سب کیا ہے اور کیوں ہے ؟ تم کہتے ہو کہ یہ فطرت کا قانون ہے جو ان سب کو فیض ہدایت سے فیضیاب کرکے مخلوق کی نشوونما کا سامان مہیا کرتا ہے یہ ہدایت ہے جوہر حرکت حیات میں اپنا کام کر رہی ہے اور یہ فیض ہدایت ہے جو خالق کائنات کی جانب سے مخلوقات کی نشوونما کے لیے فیض عام ہوا ہے۔ لیکن ابھی وسعت نظر کو آگے بڑھنے دیجئے اور قدرت حق کے مشاہدہ کے لیے تیز گام ہوجائیے توکارگاہ قدرت اور نوامیس فطرت کی کرم فرمائیاں اور زیادہ جلوہ آرا نظر آئیں گی ‘ اور تم دیکھو گے کہ یہ ” ہدایت “ بھی دوسری موجودات کی طرح ارتقائی درجات رکھتی ہے اور ہر ایک درجہ اپنی افادیت کی نمو جدا رکھتا ہے چنانچہ اس راہ میں سب سے پہلے وجدان کی ہدایت سامنے آتی ہے اور یہ طبیعت حیوانی کے فطری اور باطنی الہام کا نام ہے یہی وہ ابتدائی درجہ ہے جو بچہ کو قید ہستی میں آنے کے فوراً بعد ہی کسی خارجی تعلیم و تربیت کے بغیر اس کی غذا کا پتہ دیتا اور اسباب حیات کے لیے معلم بنتا ہے اور یہی وہ حقیقت ہے جو انسان کی ارتقائی منزل پر پہنچ کر اور ” ضمیر کی آواز ‘ اندر کی صدا “ بن کر حقائق کی معرفت کے لیے خارجی دلائل وبراہین سے زیادہ قوی حجت ثابت ہوتی ہے۔
اس کے بعد ہدایت حواس کا درجہ ہے یہ پہلے درجہ سے بلند ہے اور اس کی عطا و بخشش سے ہر ایک ذی روح دیکھنے ‘ سننے ‘ سونگھنے ‘ چکھنے کی قوتیں حاصل کرتا ہے اور ان کے ذریعہ کائنات عالم میں اپنی افادیت اور استفادہ دونوں کو ترقی دیتا ہے۔ قدرت حق کی جانب سے یہ دونوں درجے انسان اور حیوان دونوں کو عطا ہوئے ہیں اور دونوں کی یکساں طور پر راہنمائی کرتے ہیں ‘ مگر ان دونوں سے بلند ایک درجہ اور ہے جو ہدایت عقل کہلاتا ہے اور صرف انسان ہی کے لیے مخصوص ہے اور یہ بھی پہلے دو درجوں کی طرح بدیہی اور فطرت کے قوانین و نوامیس میں نمایاں جگہ رکھتا ہے یہی وہ ہدایت ہے جو انسان کو بقیہ تمام حیوانات سے امتیاز بخشتی اور اس کے سامنے فکر و نظر اور ترقیوں کی راہیں کھولتی ہے۔
اور اسی کی بدولت وہ اشرف المخلوقات کہلانے کا مستحق سمجھا جاتا ہے۔ عطیہ الٰہی ” ہدایت “ کے یہ تینوں درجے اپنے اپنے حلقہ اثر میں حضرت انسان کی رہنمائی کا حق ادا کرتے رہتے ہیں چنانچہ وجدان اس میں سعی پیہم کا جوش و ولولہ پیدا کرتا ہے ” حواس “ اس کے لیے معلومات فراہم کرتے ہیں اور ” عقل “ اس کو جزئیات و کلیات کا علم بخشتی اور ان سے متعلق احکام و نتائج ترتیب دیتی ہے۔ غرض یہی وہ ” ہدایت “ ہے قرآن عزیز نے جس کا ذکر انسانی تخلیق و تربیت کے سلسلہ میں کیا ہے مثلاً حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اور فرعون کے باہمی مکالمہ میں حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے خدائے برحق کی ربوبیت کاملہ کا جس طرح اظہار فرمایا ہے اس کا ذکر یوں کیا ہے :
سورة طہ میں ہے :
{ رَبُّنَا الَّذِیْٓ اَعْطٰی کُلَّ شَیْئٍ خَلْقَہٗ ثُمَّ ھَدٰی } [51]
” ہمارا پروردگار وہ ہے جس نے ہر چیز کو اس کی بناوٹ دی پھر اس پر راہ عمل کھول دی۔ “
اور سورة اعلٰی میں ہے :
{ الَّذِیْ خَلَقَ فَسَوّٰی ۔ وَالَّذِیْ قَدَّرَ فَہَدٰی۔ } [52]
” وہ پروردگار جس نے ہر چیز پیدا کی پھر اس کو درست کیا پھر ہر وجود کے لیے ایک اندازہ ٹھہرا دیا ‘ پھر اس پر راہ عمل کھول دی۔ “
اس آیت میں وجود کائنات کے چار مراتب بیان کرکے قرآن نے ایک عظیم الشان ” حقائق علمیہ “ کا باب کھول دیا ہے۔ یہ چار مراتب بالترتیب ” خلق ‘ تسویہ ‘ تقدیر ‘ ہدایت “ ہیں اور یہی چار مراتب خلاصہ حقائق ہیں ‘ خلق یہ کہ وجود بخشا ‘ تسویہ یہ کہ اس کی استعداد کے مطابق اس کی درست کاری کی ‘ تقدیر یہ کہ ہر شئے سے متعلق اس کے بدء خلق سے اس کے نتیجہ حیات تک کے لیے پہلے سے ایک مقررہ اندازہ طے کردیا اور ہدایت یہ کہ اس پر ہر قسم کی راہ عمل کھول دی۔ اور سورة بلد میں ہے :
{ اَلَمْ نَجْعَلْ لَّـہٗ عَیْنَیْنِ ۔ وَلِسَانًا وَّشَفَتَیْنِ ۔ وَہَدَیْنٰـہُ النَّجْدَیْنِ ۔ } [53]
” کیا ہم نے اس کو (دیکھنے کے لئے) دو آنکھیں نہیں دیں اور کیا (بولنے کے لئے) زبان اور دو ہونٹ نہیں دیئے اور ہم نے اس کو اچھی اور بری دونوں راہیں دکھا دیں۔ “
اور سورة دہر میں ہے :
{ اِنَّا خَلَقْنَا الْاِنسَانَ مِنْ نُّطْفَۃٍ اَمْشَاجٍ نَّبْتَلِیْہِ فَجَعَلْنَاہُ سَمِیْعًا بَصِیْرًا ۔ اِنَّا ہَدَیْنٰـہُ السَّبِیْلَ اِمَّا شَاکِرًا وَّاِمَّا کَفُوْرًا ۔ } [54]
” ہم نے انسان کو (مرد و عورت کے) ملے جلے نطفہ سے پیدا کیا جس کو (ہم) مختلف حالتوں میں پلٹتے ہیں پھر اسے سننے والا اور دیکھنے والا بنادیا ہم نے اس پر راہ عمل کھول دی اب یہ اس کا کام ہے کہ شکرگزار بنے یا ناشکرگزار ۔ “
مگر یہ بات بھی بہت صاف ہے کہ ہدایت کے ان ہر سہ مراتب وجدان ‘ حواس ‘ عقل کی راہ عمل اپنے اپنے دائرہ عمل ہی تک محدود ہے یعنی وجدان ایک جاندار کے اندر زندگی کے لیے جوش عمل اور سعی مسلسل ولولہ تو پیدا کرسکتی ہے مگر حیوان یا انسان سے باہر محسوسات خارجیہ کا ادراک اور علم اس کے دائرہ عمل سے خارج ہے ‘ اسی طرح ہدایت حواس محسوسات کا ادراک ضرور پیدا کردیتی ہے لیکن یہ اس کے احاطہ عمل سے باہر ہے کہ وہ محسوسات کے نتائج و احکام اور جزئیات سے کلیات کا اور کلیات سے جزئیات کا استنباط کرسکے کیونکہ یہ کار فرمائی ” ہدایت عقل “ سے متعلق ہے جو عام حیوانات کے لیے نہیں بلکہ صرف انسان کے ساتھ ہی مخصوص ہے۔
تو ہدایت عقل اگرچہ پہلی دونوں ہدایات کے مقابلہ میں بلند مرتبہ رکھتی اور کائنات کی بلند ترین ہستی ( حضرت انسان) کی رہنمائی کرتی ہے تاہم اس سے بھی انکار نہیں ہوسکتا کہ ” عقل کا دائرہ “ وسیع تر ہونے کے باوجود پھر محدود ہے کیونکہ یہ ایک حقیقت ثابتہ ہے کہ عقل جو کچھ اور جس قدر بھی نتائج و احکام کا استنباط و استخراج کرتی ہے اس کا دائرہ محسوسات ہی تک محدود رہتا ہے اور حواس خمسہ (قوت باصرہ ‘ سامعہ ‘ لامسہ ‘ شامہ ‘ ذائقہ) نے اپنی اپنی خدمات انجام دے کر جو کچھ ہمارے لیے فراہم کیا ہے عقل اسی پر اپنا تصرف کرتی اور کرسکتی ہے لیکن یہ بات کہ محسوسات کی سرحد سے پرے کیا کچھ ہے اور اس پردے کے پیچھے کیا ہے ؟ اس مقام پر پہنچ کر عقل بھی درماندہ ہو کر رہ جاتی ہے اور یہ درجہ ہدایت بھی اس سلسلہ میں ہم کو کسی قسم کی روشنی پہنچانے سے معذور نظر آتا ہے۔
علاوہ ازیں اگر وجدان کی تکمیل کے لیے حواس اور حواس کی تکمیل کے لیے عقل کی ہدایت موجود نہ ہوتی تو انسان ہرگز ان مدارج ارتقاء اور مراتب رفیع پر نہ پہنچ پاتا جن تک آج پہنچا ہوا ہے اور آئندہ جن تک پہنچنے کے لیے میدان عمل میں گامزن ہے اگر انسان میں وجدان کی قوت نہ ہوتی تو کس طرح حواس کی دنیا تک اپنی حیات کو پہنچا سکتا اور اگر محسوسات کے ادراک کے لیے حواس کی قوتیں نہ ہوتیں تو انسان کس طرح اپنی ذات سے خارج اشیاء کا ادراک کرسکتا اور ترقی کے لیے کوئی قدم اٹھاسکتا اور جبکہ حواس کے وسائل ادراک محدود ہیں ‘ اور نہ صرف محدود بلکہ بسا اوقات گمراہی اور غلطی میں مبتلا کردیتے ہیں مثلاً ہم کو طویل فاصلہ کی بڑی سے بڑی چیز چھوٹی نظر آتی ہے یا خلط صفراء کے بڑھ جانے سے شیریں سے شیریں چیز ذائقہ میں تلخ معلوم ہوتی ہے یا فاصلہ ہونے کی وجہ سے ہم رنگوں کے امتیاز میں اکثر غلطی کر جاتے ہیں تو ان تمام حالتوں میں عقل کی ہدایت کام آتی اور صحیح رہنمائی کرتی ہے اور اصل حقیقت کو پیش نظر لاتی ہے وہ کہتی ہے کہ اگر طویل فاصلہ کی بنا پر تم کو جہاز ایک چھوٹی سی چیز نظر آتا ہے تو یہ نگاہ اور قوت باصرہ کا قصور ہے ورنہ جہاز ایک لمبی چوڑی اور بڑی شے کا نام ہے اسی طرح شیریں اور تلخ کا فیصلہ کرتی ہے اور کہتی ہے کہ حقائق میں کوئی تبدیلی نہیں ہوئی شیریں ہر حالت میں شیریں ہے اس لیے ذائقہ کی یہ تلخی مرض کی وجہ سے ہے غرض حواس کی غلطیوں سے محفوظ رکھ کر اصل حقیقت کو واضح کرنا عقل کی ہدایت کا فریضہ ہے اس لیے ہم ایک قدم اور آگے بڑھا کر یہ کہے بغیر نہیں رہ سکتے کہ اس سے قطع نظر کہ عقل محسوسات کی حدود سے آگے کچھ نہیں جانتی ‘ انسان کی عملی زندگی کے تمام حالات میں عقل کی ہدایت بھی کافی اور موثر ثابت نہیں ہوتی اس لیے کہ ہم دیکھتے ہیں کہ نفس انسانی جذبات ‘ رجحانات اور قسم قسم کی خواہشات سے متاثر و مغلوب ہے بلکہ اکثر یہ مشاہدہ ہوتا رہتا ہے کہ جب عقل اور جذبات کے درمیان کشمکش ہوتی ہے تو فتح جذبات ہی کی ہوتی ہے اور عقل درماندہ ہو کر رہ جاتی ہے۔
تو ان حالات میں عقل ہی تقاضا کرتی ہے کہ یہاں عقل سے بھی بلند اور کوئی درجہ ہونا چاہیے جو عقل سے زیادہ موثر رہنما اور ہر قسم کی کوتاہیوں سے پاک اور بےلوث ثابت ہو۔
اس تمہید کا حاصل یہ نکلا کہ انسان محسوسات کے دائرہ میں محدود رہ کر بھی اور ماورائے محسوسات کے ادراک کے لیے بھی ہدایت عقل سے بلند (ایک چوتھے) درجہ ہدایت کا محتاج ہے تو اب لائق غور و فکر ہے یہ بات کہ جس رب العٰلمین نے اپنی ربوبیت کاملہ سے انسان کے ارتقائی کمالات کی حاجات و ضروریات کے پیش نظر ہدایت وجدان سے بلند ہدایت حواس اور ہدایت حواس سے رفیع ہدایت عقل عطا فرمائی تو جبکہ عقل کی ہدایت بھی خالص حدود سے آگے نہیں جاسکتی اور حصول کمالات اور اعمال کے صحیح ضبط و نظم کے لیے ہی کافی نہیں ہے نیز ماورائے محسوسات کے عدم علم کے باوجود اس کے انکار پر کوئی مثبت علمی دلیل موجود نہیں ہے بلکہ اس کے برعکس وجدانی جذبات و احساسات اور شعور نفس اس کے حقیقت ہونے کا پتہ دیتے ہیں تو کیا اس خدائے برحق کی ربوبیت اور فیض رحمت کے لیے یہ منافی نہ تھا کہ وہ انسان کو ہدایت عقل سے بلند کوئی مرتبہ ہدایت عطا نہ کرے ؟ ضرور منافی تھا اور اس لیے ایسا نہیں ہوا بلکہ اس نے اس کو ایک اور بلند تر مرتبہ ہدایت وحی بخشا یہ مرتبہ ہدایت اپنی رہنمائی میں ہر قسم کی کوتاہیوں اور خطا و قصور سے مامون و محفوظ ہے کیونکہ یہ خدا کی جانب سے ہر شے کی حقیقت کا علم و یقین عطا کرتا ہے اور ہدایت وحی کے افاضہ کی صورت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ ایک ایسی مقدس ہستی کو جو ہر قسم کے گناہوں اور عیوب سے ” معصوم “ ہوتی ہے اس مقصد کے لیے چن لیتا ہے کہ وہ اس کی جانب لوازم بشریت کے ساتھ مقید رہ کر دوسرے انسانوں کی طرح انسان اور بشر کہلاتی ہے اور دوسری جانب سے کائنات انسانی تک ” ہدایت وحی “ کو پہنچا دے ‘ اس لیے یہ مقدس ہستی ایک جانب عیوب و مآثم سے معصوم رہ کر خدا کے ساتھ وہ تعلق رکھتی ہے جو دوسرے مقدس انسانوں کو بھی حاصل نہیں ہوتا اور اس طرح خدا اور اس کے بندوں کے درمیان افاضہ ہدایت وحی کے لیے ایلچی اور واسطہ بنتی ہے ایسی حقیقت کا نام مذہب کی اصطلاح میں نبوت و رسالت ہے۔
قرآن حکیم نے ہدایت کے اس مرتبہ عالی کا جگہ جگہ ذکر کیا ہے حسب ذیل چند شواہد ملاحظہ ہوں :
{ وَاَمَّا ثَمُوْدُ فَہَدَیْنَاہُمْ فَاسْتَحَبُّوا الْعَمٰی عَلَی الْہُدٰی } [55]
” لیکن قوم ثمود تو اسے بھی ہم نے راہ حق و ہدایت دکھلائی تھی لیکن اس نے اندھے پن کو پسند کیا اور ہدایت کی راہ نہ چلی۔ “
{ قُلْ اِنَّ ھُدَی اللّٰہِ ھُوَ الْھُدٰی وَ اُمِرْنَا لِنُسْلِمَ لِرَبِّ الْعٰلَمِیْنَ } [56]
” (اے پیغمبر ! ) کہہ دیجئے یقیناً اللہ کی ہدایت ہی حقیقی ہدایت ہے اور ہم سب کو اس کا حکم دیا گیا ہے کہ تمام کائنات عالم کے پروردگار کے آگے سر عبودیت جھکا دیں۔ “
{ وَ الَّذِیْنَ جَاھَدُوْا فِیْنَا لَنَھْدِیَنَّھُمْ سُبُلَنَا وَ اِنَّ اللّٰہَ لَمَعَ الْمُحْسِنِیْنَ } [57]
” اور جن لوگوں نے ہماری راہ میں سعی وجانفشانی کی تو ضرور ہے کہ ہم بھی ان پر اپنی راہیں کھول دیں اور بلاشبہ اللہ ان لوگوں کا ساتھی اور مددگار ہے جو نیک کردار ہیں۔ “
{ اِنَّ عَلَیْنَا لَلْہُدٰی ۔ وَاِنَّ لَنَا لَـلْآخِرَۃَ وَالْاُوْلٰی ۔ } [58]
” بلاشبہ یہ ہمارا کام ہے کہ ہم رہنمائی کریں (ہدایت وحی عطا کریں) اور یقیناً آخرت اور دنیا دونوں ہمارے ہی لیے ہیں۔ “
ارتقائی نقطہ نظر سے ہدایت وحی اور مسئلہ نبوت و رسالت کی وضاحت کے لیے اشہب فکر کو یوں بھی مہمیز کیا جاسکتا ہے کہ جب کہ یہ عقلی اور عملی نظریہ مسلمات میں سے ہے کہ بقائے انفع یا بقائے اصلح کے فطری قانون کے مطابق کائنات کی گونا گوں موجودات میں ہر ایک شئے اپنے موجود رہنے کے لیے کوئی حکمت و مصلحت ضرور رکھتی ہے اور حکیم مطلق کا قانون فطرت کسی شئے کو اسی وقت تک باقی رکھتا ہے جب تک اس کا وجود نافع اور مفید ہونے کی صلاحیت رکھتا اور جس غرض وغایت کے لیے اس کو پیدا کیا گیا ہے اس کو پورا کرتا ہے اور اسی قانون بقائے انفع و اصلح سے یہ بات بھی بہت واضح اور نمایاں طور پر ثابت ہوتی ہے کہ نفع اور افادیت کا سب سے اہم جز یہ ہے کہ ہر شے اپنے سے بلند مخلوق اور سلسلہ مخلوقات میں سے ہر نوع اپنے سے بلند نوع کی بقاء کے لیے مفید و معاون ثابت ہو پس جبکہ حضرت انسان کو عقل بھی موجودات عالم کی سب سے بلند مخلوق اور مدارج ارتقاء کی بلند ترین کڑی تسلیم کرتی ہے اور اسی قانون کی رو سے موجودات عالم کی ہر شئے اس کی خدمت ‘ اس کے نفع اور اس کی افادیت میں مصروف عمل نظر آتی ہے تو یہ کیوں کر ممکن تھا کہ اشرف المخلوقات (انسان) کا وجدان ‘ اس کے جذبات عالیہ اور اس کے افکار و خیالات کی پرواز جبکہ عالم مادیات سے کہیں زیادہ بلند اور رفیع ہیں اور اس کی عقل یہ جاننے کے باوجود کہ وہ ماورائے مادہ سے ناواقف ہے پھر بھی اس پردہ کے پیچھے کچھ ہونے کا احساس رکھتی اور اس کی معرفت کے لیے چسک محسوس کرتی ہے فطرت الٰہی کا فیضان اور بقائے انفع کا ناموس اس کو عالم مادیات و محسوسات ہی کے اندر محصور رکھتا ‘ اگر ایسا ہوتا تو بلاشبہ فطرت بخیل ٹھہرتی بلکہ یہ فطرت کا بہت بڑا ظلم ہوتا اور یہ ظاہر ہے کہ تنہا عقل اس کو اس منزل تک پہنچانے کے لیے قاصر و ناکام ہے لہٰذا از بس ضروری تھا کہ فطرت الٰہی اس کی رہنمائی کے لیے مزید کوئی سامان مہیا کرتی اور انسان کی ذہنی و فکری ترقیوں کو درجہ تکمیل تک پہنچاتی۔ پس ماورائے مادہ علوم و معارف اور کائنات انسانی کی فلاح و نجات کے مقصد عظمیٰ کے لیے عقل کی رہنمائی کا یہی وہ فیضان الٰہی ہے جس کو قرآن کی اصطلاح اور مذہبی بول چال میں وحی و نبوت کہا جاتا ہے اور آیت ذیل اسی حقیقت کا اعلان کرتی ہے :
{ وَ اُوْحِیَ اِلَیَّ ھٰذَا الْقُرْاٰنُ لِاُنْذِرَکُمْ بِہٖ وَ مَنْم بَلَغَ } [59]
” اس نے (خدا نے) مجھ پر اس قرآن کی وحی کی تاکہ اس کے ذریعہ تمہیں (اہل عرب کو) اور انھیں جن تک اس کی تعلیم پہنچ جائے (ربع مسکون کو) انکار اور بدعملی کے نتیجہ سے ڈراؤں۔ “
{ اِنَّآ اَوْحَیْنَآ اِلَیْکَ کَمَآ اَوْحَیْنَآ اِلٰی نُوْحٍ وَّ النَّبِیّٖنَ مِنْم بَعْدِہٖ وَ اَوْحَیْنَآ اِلٰٓی اِبْرٰھِیْمَ وَ اِسْمٰعِیْلَ وَ اِسْحٰقَ وَ یَعْقُوْبَ وَ الْاَسْبَاطِ وَعِیْسٰی وَ اَیُّوْبَ وَ یُوْنُسَ وَ ھٰرُوْنَ وَ سُلَیْمٰنَ وَ اٰتَیْنَا دَاوٗدَ زَبُوْرًا ۔ وَ رُسُلًا قَدْ قَصَصْنٰھُمْ عَلَیْکَ مِنْ قَبْلُ وَ رُسُلًا لَّمْ نَقْصُصْھُمْ عَلَیْکَ وَ کَلَّمَ اللّٰہُ مُوْسٰی تَکْلِیْمًا ۔ رُسُلًا مُّبَشِّرِیْنَ وَ مُنْذِرِیْنَ لِئَلَّا یَکُوْنَ لِلنَّاسِ عَلَی اللّٰہِ حُجَّۃٌم بَعْدَ الرُّسُلِ وَ کَانَ اللّٰہُ عَزِیْزًا حَکِیْمًا ۔ } [60]
” (اے پیغمبر ! ) ہم نے تمہاری جانب اسی طرح وحی بھیجی جس طرح نوح پر اور ان نبیوں پر جو نوح کے بعد ہوئے بھیجی تھی اور جس طرح ابراہیم ‘ اسماعیل ‘ اسحاق ‘ یعقوب ‘ اور اولاد یعقوب ‘ عیسیٰ ‘ ایوب ‘ یونس ‘ ہارون ‘ سلیمان پر بھیجی اور داؤد کو زبور عطا فرمائی ‘ نیز خدا کے وہ رسول جن کا حال ہم (قرآن میں) پہلے سنا چکے ہیں اور وہ جن کا حال ہم نے تمہیں نہیں سنایا اور (اسی طرح) اللہ نے موسیٰ سے کلام کیا جیسا کہ واقعی طور پر کلام کرنا ہوتا ہے یہ تمام رسول (خدا پرستی اور نیک عملی پر) خوش خبری دینے والے اور (انکار حق پر) ڈرانے والے تھے (اور اس لیے بھیجے گئے تھے) کہ ان کے آنے (اور نیک و بد بتلانے) کے بعد لوگوں کے پاس کوئی حجت باقی نہ رہے جو وہ خدا کے حضور پیش کرسکیں (یعنی یہ عذر کرسکیں کہ ہمیں راہ حق کی طرف کسی نے دعوت نہیں دی تھی) اور خدا (اپنے کاموں میں) سب پر غالب ہے اور (اپنے تمام کاموں میں) حکمت والا ہے۔ “
{ وَلَمَّا جَائَ عِیْسٰی بِالْبَیِّنَاتِ قَالَ قَدْ جِئْتُکُمْ بِالْحِکْمَۃِ وَلِاُبَیِّنَ لَکُمْ بَعْضَ الَّذِیْ تَخْتَلِفُوْنَ فِیْہِ فَاتَّقُوا اللّٰہَ وَاَطِیْعُوْنِ ۔ اِنَّ اللّٰہَ ہُوَ رَبِّیْ وَرَبُّکُمْ فَاعْبُدُوْہُ ہٰذَا صِرَاطٌ مُّسْتَقِیْمٌ ۔ } [61]
” اور جب عیسیٰ (خدا کی) نشانیاں لے کر آیا ‘ کہا میں تمہارے پاس حکمت و دانائی لے کر آیا ہوں اور اس لیے آیا ہوں کہ بعض ان باتوں کو جن کے متعلق تمہارے درمیان اختلاف ہے صاف صاف بیان کر دوں پس اللہ کے متقی بندے بن جاؤ اور میری پیروی کرو (اس بات میں کہ) بیشک اللہ ہی میرا اور تمہارا پروردگار ہے پس اسی کی عبادت کرو کہ یہی سیدھا راستہ ہے۔ “
{ یٰٓاَیُّھَا النَّاسُ قَدْ جَآئَکُمْ بُرْھَانٌ مِّنْ رَّبِّکُمْ وَ اَنْزَلْنَآ اِلَیْکُمْ نُوْرًا مُّبِیْنًا ۔ فَاَمَّا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا بِاللّٰہِ وَ اعْتَصَمُوْا بِہٖ فَسَیُدْخِلُھُمْ فِیْ رَحْمَۃٍ مِّنْہُ وَ فَضْلٍ وَّ یَھْدِیْھِمْ اِلَیْہِ صِرَاطًا مُّسْتَقِیْمًا ۔ } [62]
” (اے افراد نسل انسانی ! ) تمہارے پاس تمہارے پروردگار کی طرف سے برہان (دلیل و حجت) آگئی اور ہم نے تمہاری طرف واضح اور آشکارا روشنی بھیج دی پس جو لوگ اس پر ایمان لائے اور انھوں نے اس کا سہارا مضبوط پکڑ لیا تو وہ انھیں عنقریب اپنی رحمت کے سایہ میں داخل کر دے گا اور ان پر اپنا فضل کرے گا اور انھیں اپنے تک پہنچنے کی راہ دکھائیگا ‘ ایسی راہ جو بالکل سیدھی راہ ہے۔ “
قرآن نے ان آیات میں ہدایت وحی کو حکمت ‘ برہان (حجت و دلیل) اور نور مبین (آشکارا روشنی) کہا ہے تاکہ یہ بخوبی واضح ہوجائے کہ جس طرح محسوسات و مادیات کے لیے عقل کو روشنی اور دلیل راہ کہا جاتا ہے اسی طرح عقل کے دائرہ حدود سے آگے کے لیے ہدایت وحی یہی حیثیت رکھتی اور یہی خدمات انجام دیتی ہے۔ ہدایت وحی کی ضرورت پر اب تک جو کچھ کہا گیا اگر اس کے علاوہ مزید اضافہ مطلوب ہو تو مبدء فیاض کے اس لطیف و حسین فیضان کے متعلق اس روشن پہلو سے بھی نظر کی جاسکتی ہے کہ جب ہم حواس کی قوتوں کا فکر عمیق سے مطالعہ کرتے ہیں تو یہ حقیقت صاف نمایاں نظر آتی ہے کہ ناموس فطرت نے یہاں ایک قوت کے عملی نظام کو اس طرح سانچہ میں ڈھالا ہے کہ انسان کے اندر ودیعت کی ہوئی قوت حواس اس وقت تک اپنا صحیح عمل نہیں کر پاتی ‘ جب تک خارج سے اس کی مدد نہ کی جائے مثلاً قوت باصرہ دیکھنے کی قوت کا نام ہے اور تم اس سے اپنی زندگی میں برابر کام لیتے رہتے ہو اور اس بحث سے قطع نظر کہ جو شئے باہر موجود ہے وہ آنکھ کے باریک پردوں پر اپنا عکس ڈال رہی ہے یا آنکھ کے پردوں میں جو روشنی ہے وہ اندر سے بشکل شعاع نکل کر موجود خارجی کو متاثر کر رہی ہے اور اس کو ہم دیکھنا کہتے ہیں تم نے کبھی اس پر ضرور غور کیا ہوگا کہ جب تم کسی قسم کی بھی روشنی میں ہوتے ہو تو اپنی قوت باصرہ کی استعداد کے مطابق جس شئے کو دیکھنا چاہتے ہو دیکھتے ہو لیکن جوں ہی تاریکی کا شکار ہوجاتے ہو اور شب دیجور کے ساتھ ابر سیاہ کے پردے روشنی پرچھا جاتے ہیں اس وقت حلقہ چشم میں قوت باصرہ کی موجودگی کے باوجود تم یہ کہا کرتے ہو کہ ہاتھ کو ہاتھ نہیں سوجھتا تو آخر بینا ہوتے ہوئے ایسا کیوں کہتے ہو ؟ تمہارا جواب اس وقت یہ ہوتا ہے کہ قانون قدرت نے یہی مقرر کردیا ہے کہ باطنی قوائے عمل اس وقت تک اپنا صحیح کام نہیں کرتے جب تک خارج سے اسی سلسلہ کی مدد نہ پہنچے۔ اس لیے قوت باصرہ کی باطنی قوت بھی محتاج ہے کہ دیئے (چراغ) کی روشنی سے لے کر ماہتاب و آفتاب تک جس حیثیت کی بھی روشنی ہو اس کی مدد کرے تو وہ اپنا عملی مظاہرہ کرسکے گی اور یہی حال دوسرے حواس کا بھی ہے۔ پس اگر یہ صحیح ہے اور بلاشبہ صحیح ہے کہ خدائے واحد کا قانون قدرت اور ناموس فطرت اپنی وحدت کی جلوہ نمائی کا مظاہرہ کائنات مادی اور عالم روحانی میں یکساں طور پر کرتا رہتا ہے تو بےتامل یہ کہا جاسکتا ہے کہ اگرچہ اس میں کوئی شک و شبہ کی گنجائش نہیں کہ عقل حضرت انسان کے اندر کی وہ روشنی ہے جس کو ید قدرت نے انسانیت کے ارتقائی منازل پر گامزن ہو کر انسانیت کی مثل اعلیٰ اور مقصد عظمیٰ کو پانے کے لیے ودیعت کیا ہے مگر مسطورہ بالا قانون یہاں بھی اسی طرح کار فرما ہے جیسا کہ قوائے حواس میں کارفرما نظر آتا ہے یعنی اگر عقل عالم محسوسات و مادیات کے دائرے میں اپنا عملی مظاہرہ کرنا چاہتی ہے تو وہ محسوسات خارجی کی مدد کی ضرور محتاج رہتی ہے مثلاً اس کا یہ فریضہ ہے کہ جزئیات کے ذریعہ کلی کا استخراج کرے لیکن وہ ایسا جب ہی کرسکے گی کہ خارج میں اس سلسلہ کی جزئیات کا ایک بڑا ذخیرہ اپنے حقائق اصلیہ کو اس کے سامنے پیش کرے پس اگر عقل کی روشنی اور ان حقائق کے درمیان وہم ‘ خیال اور ظن کے تاریک پردے حائل ہوجائیں تو عقل کی روشنی ہرگز اپنا صحیح کام نہیں کرسکتی۔ اسی طرح جب وہ ماورائے محسوسات (روحانیات) کی جانب اپنی روشنی کو متوجہ کرتی ہے تو یہی اوہام ‘ ظنون ‘ خیالات اور جذبات فاسدہ کے تاریک پردے اس کے اور عالم روحانیات کے درمیان عموماً حائل ہوجاتے ہیں اور وہ اکثر و بیشتر ان سے مغلوب ہو کر گم کردہ راہ ہوجاتی اور معرفت حق اور معرفت باطل کے درمیان فرق و امتیاز سے عاجز نظر آتی ہے۔ ایسی حالت میں خالق کائنات کی رحمت کاملہ اور ربوبیت تامہ اس کو خاسر و ناکام نہیں چھوڑتی اور خارج سے اس کی پوری مدد کرتی ہے اور یہی وہ خارج کی روشنی ہے جو نبی اور پیغمبر کے ذریعے کائنات انسانی تک پہنچی اور دین و مذہب کی زبان میں وحی (روشنی) کہی جاتی ہے چنانچہ قرآن عزیز نے اسی حقیقت کو نمایاں کرنے کے لیے جگہ جگہ وحی کو نور (روشنی) سے تعبیر کیا ہے :
{ یٰٓــاَیُّھَا النَّاسُ قَدْ جَآئَ کُمْ بُرْھَانٌ مِّنْ رَّبِّکُمْ وَ اَنْزَلْنَآ اِلَیْکُمْ نُوْرًا مُّبِیْنًا } [63]
” (اے افراد نسل انسانی ! ) تمہارے پاس تمہارے پروردگار کی جانب سے برہان (دلیل و حجت) آگئی اور ہم نے تمہاری جانب واضح اور آشکارا روشنی (وحی الٰہی بشکل قرآن) بھیج دی۔ “
{ قَدْ جَآئَکُمْ مِّنَ اللّٰہِ نُوْرٌ وَّ کِتٰبٌ مُّبِیْنٌ} [64]
” اللہ کی جانب سے تمہارے پاس (حق کی) روشنی آچکی اور ایسی کتاب آگئی جو (اپنی ہدایتوں میں نہایت) روشن کتاب ہے۔ “
{ یُرِیْدُوْنَ اَنْ یُّطْفِئُوْا نُوْرَ اللّٰہِ بِاَفْوَاھِھِمْ وَ یَاْبَی اللّٰہُ اِلَّآ اَنْ یُّتِمَّ نُوْرَہٗ وَ لَوْکَرِہَ الْکٰفِرُوْنَ } [65]
” یہ لوگ (مشرکین ‘ یہود ‘ نصاریٰ ) چاہتے ہیں کہ اللہ کی روشنی کو اپنی پھونکوں سے بجھا دیں حالانکہ اللہ یہ روشنی پوری کئے بغیر رہنے والا نہیں اگرچہ کافروں کو پسند نہ آئے۔ “
{ وَ لَقَدْ اَرْسَلْنَا مُوْسٰی بِاٰیٰتِنَآ اَنْ اَخْرِجْ قَوْمَکَ مِنَ الظُّلُمٰتِ اِلَی النُّوْرِ } [66]
” اور (دیکھو واقعہ یہ ہے کہ) ہم نے اپنی نشانیوں کے ساتھ موسیٰ کو بھیجا تھا کہ اپنی قوم کو تاریکیوں سے نکالے اور روشنی میں لائے۔ “
{ وَکَذٰلِکَ اَوْحَیْنَا اِلَیْکَ رُوْحًا مِّنْ اَمْرِنَا مَا کُنْتَ تَدْرِیْ مَا الْکِتٰبُ وَلَا الْاِیْمَانُ وَلٰـکِنْ جَعَلْنَاہُ نُوْرًا نَّہْدِیْ بِہٖ مَنْ نَّشَائُ مِنْ عِبَادِنَا وَاِنَّکَ لَتَہْدِیْ اِلٰی صِرَاطٍ مُّسْتَقِیْمٍ } [67]
” اور اسی طرح ہم نے تیری جانب اپنے ” امر “ میں سے ” روح امر “ کی وحی بھیجی حالانکہ اس سے قبل تو نہیں جانتا تھا کہ کیا ہے کتاب ؟ اور نہیں جانتا تھا کہ کیا ہے ایمان ؟ ہم اپنے بندوں میں سے جس کو چاہتے ہیں ان کو اس کے ذریعہ راہ دکھاتے ہیں اور اے پیغمبر ! بلاشبہ تو (لوگوں کو) سیدھی راہ کی جانب رہنمائی کرتا ہے۔ “
پھر اس مسئلہ کی اہمیت پر ایک دوسرے پہلو سے بھی فکر و نظر کی ضرورت ہے وہ یہ کہ ہم اس عالم ہست و بود میں روز و شب کے مشاہدات و تجربات سے یہ نتیجہ نکالنے میں حق بجانب ہوتے ہیں کہ یہاں ہر شئے کی کیفیت و کمیت یا اس کی حقیقت معلوم کرنے کے لیے ایک ترازو یا پیمانہ ضرور ہے اور یہ کہ ہر ایک پیمانہ اور ہر ایک ترازو اپنے اندر ایک خاص صلاحیت رکھتا اور اپنی صلاحیت کے مطابق ہی اشیاء کے ناپ تول میں کام دے سکتا ہے مثلاً موتی اور جواہرات کے تولنے کے لیے ایک خاص ترازو (کانٹا) ہے ‘ اب اگر ہم یہ چاہیں کہ اس میں شکر ‘ روئی ‘ غلہ جیسی چیزوں کو تولیں تو ظاہر ہے کہ اس کے لیے یہ نہیں بلکہ دوسری قسم کا ترازو کام دے گا یا مثلاً کپڑا ‘ زمین وغیرہ جیسی اشیاء کی پیمائش کے لیے ہم ایک خاص قسم کا پیمانہ (گز) استعمال کرتے ہیں پس اگر ہم چاہتے ہیں کہ اس سے حرارت و برودت کی بھی پیمائش کرلیں تو اس کے لیے یہ نہیں بلکہ دوسرا پیمانہ تھرمامیٹر (THERMOMETER ) کام میں لانا ہوگا اور اسی طرح ہوا کے دباؤ اور سطح کی اونچائی معلوم کرنے کے لیے بیرو میٹر (BARO METER ) اور زلزلوں اور بھونچالوں کی حالت دریافت کرنے کے لیے سیزموگراف (SEISMO GRAPH ) اور آواز کی مقدار و قوت کی پیمائش کے لیے فونو گراف (PHONO GRAPH ) جدا جدا قسم کے پیمانے استعمال کرنے ہوں گے کیونکہ ان کی اپنی صلاحیت و استعداد کار کا یہی فطری تقاضا ہے کہ اگر اس کے خلاف ان کا استعمال کیا جائے گا تو یا تو قطعاً بیکار ثابت ہوں گے اور یا صحیح حقیقت نہ بتلا سکیں گے حالانکہ ان سب کا ایک ہی کام ہے یعنی ناپ تول اور ایک ہی نام ہے ترازو اور پیمانہ مگر ہر شئے کی حقیقت اور اس کی کیفیت و کمیت کے پیش نظر چونکہ ان سب کی صلاحیت کار کی حدود متعین ہیں لہٰذا ان میں سے کوئی ایک بھی اپنی حدود سے متجاوز ہو کر کار آمد ثابت نہیں۔
قانون قدرت کی کارفرمائی کو رہنما بناکر اگر ہم اسی نقطہ نظر سے آگے قدم بڑھائیں اور خالص مادیات سے گزر کر معنویات کی حدود پر جا پہنچیں تو یہاں بھی وہی کرشمہ قدرت نظر آتا ہے یعنی انسان کی انفرادی و اجتماعی حیات کے لیے رحمت کردگار نے جو پیمانے مقرر کئے ہیں اور جن کو وجدان ‘ حواس اور عقل کہا جاتا ہے ان میں بھی جدا جدا صلاحیتوں کے اعتبار سے حدود منقسم ہیں مثلاً پیمانہ وجدان انسان کی صرف اسی کیفیت و حالت سے متعلق ہے جو قدرت کے ہاتھوں نے اس کے وجود کے ساتھ ساتھ اس میں ودیعت کردی ہے اور حواس کا پیمانہ ان ہی اشیاء سے تعلق رکھتا ہے جو دیکھنے ‘ سننے ‘ چکھنے ‘ چھونے اور سونگھنے میں آسکتی ہیں اور پیمانہ عقل ان دونوں سے آگے عالم مشاہدات و محسوسات کے حقائق اور ان کی کیفیات کے جانچنے ‘ ان کے درمیان امتیاز پیدا کرنے ‘ ان سے نتائج اخذ کرنے اور ان پر احکام صادر کرنے کی خدمت انجام دیتا ہے۔
پس اگر ہم چاہیں کہ وجدان سے حواس اور حواس سے عقل کا کام لیں تو خود عقل ہی کے نزدیک ایسا کرنا غلط ہوگا کیونکہ یہ قانون فطرت کی مقررہ حدود کی خلاف ورزی کے مرادف ہے جس کے اقدام پر ناکامی کے ماسوا اور کچھ ہاتھ نہیں آتا۔ لیکن عقل انسانی اس کے آگے نہ جاننے کے باوجود پھر جاننے کی جو جستجو رکھتی اور اپنی ترقی کو اس کے اندر محدود نہیں سمجھتی ‘ نیز تمام خارجی دلائل سے بڑھ کر انسان کے اندر کی قوی تر حجت وبرہان ” وجدان “ ان ہر دو عالم سے بھی بلند تر عالم کے وجود کا جو پتہ دیتی ہے اس کے پیش نظر ہم وسعت نظر کا قدم اور آگے بڑھاتے اور مسطورہ بالا عالم معنویات سے لطیف تر معنوی عالم کا کھوج لگانا چاہتے اور اس کائنات سے اپنا رشتہ جوڑنا چاہتے ہیں جہاں حسن ‘ صداقت اور محبت حاشیہ1 (ذات حق کی صفات ربوبیت ‘ عدالت اور رحمت) اپنی جلوہ آرائیوں سے اس کائنات کو بھی منور کر رہی ہیں تو ہم دیکھتے ہیں کہ یہاں پہنچ کر پیمانہ عقل بھی کوتاہ ہو کر رہ جاتا ہے اور اس کی رفعت پرواز وہاں تک رسائی نہیں کر پاتی ‘ خصوصاً ایسی حالت میں کہ انسانوں کے درمیان عقل کا اس درجہ تفاوت موجود ہے کہ ایک شخص کی عقل اس کو نہ صرف ممکن الوقوع سمجھتی ہے بلکہ اس کو وجود پذیر کر دکھاتی ہے بلکہ تفاوت عقلی کی بوالعجبیوں کا تو یہ حال ہے کہ ایک ہی شخص کی عقل ایک وقت جس بات پر ناممکن کا فتویٰ صادر کردیتی ہے دوسرے وقت میں اسی بات کو ممکن سمجھنے لگتی ہے تو جب پیمانہ عقل کا عالم محسوسات میں یہ حال ہے تو عالم غیب تک اس کی رسائی معلوم ؟ اور پھر جس پیمانہ کے توازن کو غیر متوازن بنانے کے لیے وہم و خیال اور جذبات کا سیل رواں موجیں مارتا رہتا ہو کیسے کہا جاسکتا ہے کہ خارج سے مدد و یاوری کے بغیر عقل معرفت الٰہی اور علوم غیب تک رسائی حاصل کرسکتی ہے ؟
حاشیہ1آج کل علمائے جدید میں یہ بحث جاری ہے کہ سائنس نے اپنی حدود کو اس طرح محدود رکھا کہ اس کے دائرہ میں حسن ‘ صداقت اور محبت کی کوئی قدر و قیمت نظر نہیں آتی اور اس لیے وہ خدا کی ہستی کی معرفت ضروری نہیں سمجھتی مگر یہ سائنس کا کمال نہیں ہے بلکہ نقص ہے جو آج نہیں تو کل ضرور پورا ہو کر رہے گا۔
پس انسان کی بیچارگی و درماندگی کے اس مقام پر بھی رحمت کردگار اپنے فیضان سے اس کو محروم نہیں رکھتی اور معنوی و روحانی حقائق کی معرفت کے لیے ایک مقدس ہستی (پیغمبر) کے ذریعہ اس کو عقل سے بھی رفیع و لطیف پیمانہ ہدایت وحی عطا کردیتی ہے تاکہ انسان سعادت و شقاوت میں امتیاز کرنے کے بعد حیات سرمدی اور نجات ابدی کو پا سکے۔
قرآن عزیز نے وحی الٰہی کو یہی حیثیت دیتے ہوئے سورة شورٰی میں ارشاد فرمایا ہے :
{ اَللّٰہُ الَّذِیْ اَنْزَلَ الْکِتٰبَ بِالْحَقِّ وَالْمِیزَانَ } [68]
” اللہ وہ ہے جس نے حق کے ساتھ کتاب (قرآن) کو نازل کیا اور اتارا میزان (ترازو) کو (یعنی دین حق کو جو حق و باطل کے لیے ترازو اور پیمانہ ہے) “
چنانچہ شاہ عبد القادر (رحمہ اللہ علیہ) موضح القرآن میں اس آیت کی تفسیر کرتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں :
” ترازو فرمایا دین حق کو جس میں بات پوری ہے نہ کم نہ زیادہ “

صاحب وحی کی معرفت کی وجدانی دلیل

” ہدایت وحی “ یا ” نبوت و رسالت “ کی حقیقت و اہمیت پر گزشتہ سطور میں کوتاہ قلمی کے باوجود جو کچھ سپرد قرطاس کیا گیا اس کی تکمیل کے لیے اس سوال کو بھی حل کرنا از بس ضروری ہے کہ جب کوئی شخص یہ دعویٰ کرے کہ وہ حامل وحی ہے اور خدا کا پیغمبر اور ایلچی تو اس کے دعویٰ صدق و کذب کی معرفت کا کونسا طریقہ ہے ؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ اگرچہ علم الکلام کے ماہرین (متکلمین) نے اس معرفت کے لیے بہت سے دلائل وبراہین پیش کئے ہیں اور اس مسئلہ کی اہمیت کے پیش نظر اس پر معرکہ الآراء بحثیں کی ہیں تاہم وہ اپنے طرز استدلال میں اصطلاحی فلسفیانہ اسلوب رکھتی ہیں جس کو ہم مذہبیات و روحانیات میں خاص اہمیت دینے کو آمادہ نہیں ہیں کیونکہ اس راہ میں وہی اسلوب بیان مفید ‘ دل نشیں اور جاذب قلوب ہوسکتا ہے جس کی بنیاد و نہاد وجدانی طرز استدلال پر رکھی گئی ہو اور عقلیت کا پورا پورا لحاظ رکھتے ہوئے اصطلاحی فلسفہ و منطق کی قیود میں اس کو پابہ زنجیر نہ کردیا گیا ہو اور یہ اس لیے کہ معرفت الٰہی اور معرفت علوم غیبیہ کے لیے دلیل ” وجدان “ سے زیادہ دوسری کوئی دلیل وبرہان موثر نہیں ہے اسی حکمت بالغہ کے پیش نظر قرآن عزیز کے تمام عقلی استدلالات۔۔ جن پر غور کرنے کے لیے ” قرآن “ عقل و فکر اور تدبر کو مخاطب بناتا ہے۔ کی بنیاد بھی ” وجدان “ پر قائم کی گئی ہے البتہ یہ قرآن حکیم کا اعجاز بلاغت ہے کہ ان وجدانی دلائل کو اگر کوئی فلسفی دقیق فلسفیانہ طریق استدلال کے سانچہ میں ڈھال کر زیر بحث لانا چاہے تو یہ وجدان پر مبنی استدلالات اسی اہمیت و قوت کے ساتھ اپنی صداقت اور ثمرہ و نتیجہ کو اس رنگ میں بھی تسلیم کرا لیتے ہیں۔
غرض ” وجدان “ اس سوال کا جواب یہ دیتا ہے کہ تم مدعیٔ نبوت کی زندگی کو صداقت کی کسوٹی پر خوب کسو اور اگر آج وہ ہستی تمہارے سامنے نہیں ہے تو تعصب اور نسلی و جماعتی حسد سے پاک اور بےلوث ہو کر بےلاگ تاریخی حقائق سے دریافت کرو ‘ پس اگر تم پر یہ حقیقت منکشف ہوجائے کہ اس کی قبل از دعویٰ نبوت زندگی کا ہر شعبہ حیات صداقت و حقانیت کا مظہر ہے اور ہر ایک شعبہ زندگی بےداغ صداقت کا پیکر اور نہ صرف اسی قدر بلکہ اس کا وجود ہر قسم کی بداخلاقیوں ‘ گناہوں اور آلودگیوں سے پاک اور معصوم ہے اور اخلاقی بلندیوں کا مخزن اور ان ہی کیفیات و حالات کے ساتھ اس نے جانے بوجھے لوگوں میں زندگی کا بڑا حصہ گزارا ہے تو پھر اس کے دعویٰ صداقت میں شک و شبہ کرنا عقل سلیم کے خلاف ہوگا کیونکہ عقل بآسانی یہ فیصلہ کرتی ہے کہ جس ہستی نے اپنی مدت حیات کے طویل عرصہ میں نازک سے نازک موقعوں پر بھی کبھی ایک لمحہ کے لیے انسانی دنیا پر جھوٹ نہ بولا ہو ‘ آخر دماغی و قلبی انقلابات کی وہ کونسی تاریخ ہے جس کی بنا پر ایسی با ہوش و حواس ہستی کے متعلق یہ کہا جاسکے کہ وہ خالق کائنات خدائے برحق پر کذب بیانی اور افترا پردازی کے لیے یک بیک آمادہ ہوجائے ‘ چنانچہ قرآن عزیز نے اسی حقیقت کو سورة یونس میں اس طرح بیان فرمایا ہے :
{ قُلْ لَّوْ شَآئَ اللّٰہُ مَا تَلَوْتُہٗ عَلَیْکُمْ وَ لَآ اَدْرٰکُمْ بِہٖ فَقَدْ لَبِثْتُ فِیْکُمْ عُمُرًا مِّنْ قَبْلِہٖ اَفَـلَا تَعْقِلُوْنَ ۔ فَمَنْ اَظْلَمُ مِمَّنِ افْتَرٰی عَلَی اللّٰہِ کَذِبًا اَوْ کَذَّبَ بِاٰیٰتِہٖ اِنَّہٗ لَا یُفْلِحُ الْمُجْرِمُوْنَ۔ } [69]
” اور تم کہو اگر اللہ چاہتا تو میں قرآن تمہیں سناتا ہی نہیں اور تمہیں اس سے خبردار ہی نہ کرتا (مگر اس کا چاہنا یہی ہوا کہ تم میں اس کا کلام نازل ہو اور تمہیں اقوام عالم کی ہدایت کا ذریعہ بنائے) پھر دیکھو ! یہ واقعہ ہے کہ میں اس معاملے سے پہلے تم لوگوں کے اندر ایک پوری عمر بسر کرچکا ہوں۔ کیا تم سمجھتے بوجھتے نہیں ؟ پھر اس سے بڑا ظالم کون ہے جو باندھے اللہ پر بہتان یا جھٹلائے اس کی آیتوں کو بیشک بھلا نہیں ہوتا گنہگاروں کا۔ “
صاحب وحی کی صداقت کی یہ ایسی بہترین کسوٹی اور دلیل ہے کہ جب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے 6ھ میں بادشاہان عالم کے نام اسلام کی دعوت و پیغام کے سلسلہ میں والانامے بھیجے تو وقت کی سب سے بڑی طاقت (رومن امپائر) کے بادشاہ ہر کلیوس (ہرقل) کے پاس حضرت دحیہ کلبی (رضی اللہ عنہ) نامہ مبارک لے کر پہنچے تب اس نے بھی جب آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی صداقت کو پرکھنا چاہا تو سب سے پہلے اسی وجدانی دلیل کو معیار صداقت ٹھہرایا اور صورت حال یہ پیش آئی کہ اس نے سرکاری حکام سے دریافت کیا یہاں کوئی حجازی قافلہ موجود ہے جس سے اس ہستی کے متعلق معلومات حاصل ہو سکیں ؟ اتفاق سے ابو سفیان (جو ابھی مسلمان نہیں ہوئے تھے) کی سرکردگی میں ایک تجارتی قافلہ مقیم تھا۔ چنانچہ ان لوگوں کو شاہی دربار میں طلب کیا گیا اور ہر کلیوس نے رئیس التجارۃ (ابوسفیان) سے نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے متعلق چند سوالات کئے جن میں سب سے اہم سوال یہ تھا کہ وہ تمہارے اندر ہی پلا بڑھا ‘ رہا سہا ہے تو کیا تم نے اس کی زندگی کے اس طویل دور میں کبھی جھوٹ کا شائبہ پایا ہے ؟ ابوسفیان (رضی اللہ عنہ) نے جواب دیا :
کبھی نہیں ‘ بلکہ اس کے برعکس وہ اپنی قوم میں ” الصادق الامین “ کے لقب سے یاد کیا جاتا ہے۔ یہ سن کر ہر کلیوس نے یہ کہا :
( (وَسَأَلْتُکَ ھَلْ کُنْتُمْ تَتَّھِمُوْنَہٗ بِالْکِذْبِ قَبْلَ اَنْ یَّقُوْلَ مَا قَالَ فَذَکَرْتَ اَنْ لَا فَقَدْ اَعْرِفُ اَنَّہٗ لَمْ یَکُنْ لِیَذَرُ الْکَذِبَ عَلٰی النَّاسِ وَیَکْذِبُ عَلٰی اللّٰہِ )) [70]
” میں نے تجھ سے یہ بھی دریافت کیا : کیا کبھی اس کے اس دعویٰ سے قبل تم نے اس کو جھوٹا پایا ہے ؟ تونے کہا ” کبھی نہیں “ تب میں نے یقین کرلیا کہ جو ہستی انسانوں پر جھوٹ کہنے کو آمادہ نہ ہو وہ کبھی خدا پر جھوٹ نہیں بول سکتی۔ “
” جو ہستی انسانوں پر جھوٹ کہنے کو آمادہ نہ ہو وہ کبھی خدا پر جھوٹ نہیں بول سکتی۔ “ دیکھئے یہ جملہ اس سلسلہ میں وجدان انسانی کا کس درجہ صحیح ترجمان ہے کہ ہر کلیوس نے بھی تمام عقلی و نقلی دلائل سے الگ ہو کر وجدان کے تقاضے سے پہلی دلیل جو پیش کی وہ وہی تھی جس کو وجدان کے خالق (خدائے برتر) نے اپنے پیغمبر سے (صداقت دعویٰ کے لئے) پیش کرائی۔ چنانچہ مولانا ابو الکلام آزاد نے ان آیات کی تفسیر اسی حقیقت کی روشنی میں اس طرح کی ہے :
” پھر آیت (16) میں صداقت نبوت کی ایک سب سے زیادہ واضح اور وجدانی دلیل بیان کی ہے۔ فرمایا ‘ ساری باتیں چھوڑ دو ‘ صرف اسی بات پر غور کرو کہ میں تم میں کوئی نیا آدمی نہیں ہوں جس کے خصائل و حالات کی تمہیں خبر نہ ہو ‘ تم ہی میں سے ہوں اور اعلان وحی سے پہلے ایک پوری عمر تم میں بسر کرچکا ہوں ‘ یعنی چالیس برس تک کی عمر کہ عمر انسانی کی پختگی کی کامل مدت ہے اس تمام مدت میں میری زندگی تمہاری آنکھوں کے سامنے رہی ‘ بتلاؤ اس تمام عرصہ میں کوئی ایک بات بھی تم نے سچائی اور امانت کے خلاف مجھ میں دیکھی ؟ پھر اگر اس تمام مدت میں مجھ سے یہ نہ ہوسکا کہ کسی انسانی معاملہ میں جھوٹ بولوں تو کیا ایسا ہوسکتا ہے کہ اب خدا پر بہتان باندھنے کے لیے تیار ہو جاؤں اور جھوٹ موٹ کہنے لگوں مجھ پر اس کا کلام نازل ہوتا ہے ؟ کیا اتنی سی موٹی بات بھی تم نہیں پاسکتے ؟
تمام علمائے اخلاق و نفسیات متفق ہیں کہ انسان کی عمر میں ابتدائی چالیس برس کا زمانہ اس کے اخلاق و خصائل کے ابھرنے اور بننے کا اصلی زمانہ ہوتا ہے جو سانچہ اس عرصہ میں بن گیا پھر بقیہ زندگی میں بدل نہیں سکتا ‘ پس اگر ایک شخص چالیس برس کی عمر تک صادق و امین رہا ہے تو کیونکر ممکن ہے کہ اکتالیسویں برس میں قدم رکھتے ہی ایسا کذاب و مفتری بن جائے کہ انسانوں پر ہی نہیں بلکہ فَاطِرَ السَّمٰوَاتِ وَالْاَرْضِ ( آسمان و زمین کے پیدا کرنے والے خدا) پر افترا کرنے لگے ؟ چنانچہ اس کے بعد فرمایا : دو باتوں سے تم انکار نہیں کرسکتے جو شخص اللہ پر افتراء کرے اس سے بڑھ کر کوئی شریر نہیں اور جو صادق کو جھٹلائے وہ بھی سب سے زیادہ شریر انسان ہے اور شریر ومفتری انسان کبھی کامیاب نہیں ہوسکتا۔ اب صورت حال نے یہاں دونوں فریق پیدا کردیئے ہیں۔ اگر میں مفتری علی اللہ ہوں تو مجھے ناکام و نامراد ہونا پڑے گا اگر تم سچائی کے مکذب ہو تو تمہیں اس کا خمیازہ بھگتنا ہے ‘ فیصلہ اللہ کے ہاتھ ہے اور اس کا قانون ہے کہ مجرموں کو فلاح نہیں دیتا۔ چنانچہ اللہ کا فیصلہ صادر ہوگیا ‘ جو مکذب تھے ان کا نام و نشان بھی باقی نہیں رہا ‘ جو صادق تھا اس کا کلمہ صدق آج تک قائم ہے اور قائم رہے گا۔ “ [71] بہرحال ” صاحب وحی “ کے دعویٰ صداقت کی یہ وجدانی دلیل عقل سلیم اور فکر مستقیم کی نگاہ میں علم الیقین پیدا کرنے کے لیے کافی ووافی ہے تاہم بقیہ شرائط یعنی صداقت تعلیم ‘ نزول وحی کا ادعاء اور مخالفین کے مقابلہ میں تحدی (چیلنج) اور تحدی کا ایفائے ‘ مدعی نبوت و رسالت کے لیے یہ تمام امور بھی از بس ضروری ہیں اور اپنی جگہ تفصیل طلب اور قابل لحاظ ہیں اس لیے کہ ان شرائط کے پیش نظر ہی نبی اور مصلح کے درمیان امتیاز ‘ نبی اور ساحر و شعبدہ باز کے مابین فرقِ بَیِّن اور نبی اور متنبی میں تضاد قائم کیا جاسکتا ہے۔

بعثت

غرض خاتم الانبیاء محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی حیات طیبہ کے انفرادی اور اجتماعی دونوں پہلوؤں کا یہ حال تھا کہ ایک جانب خلو تہائے راز میں معرفت الٰہی کے لیے استغراق ‘ صراط مستقیم کی جستجو ‘ نوع انسانی کے اصلاح حال کی تڑپ اور طلب تھی اور دوسری جانب افراد قوم و ملک کے ساتھ راست گفتاری ‘ صداقت شعاری ‘ حسن معاملت اور اصابت فکر جیسے اخلاق کریمانہ وصفات حمیدہ سے متصف معاشرتی زندگی کا مظاہرہ تھا اور ان امتیازات کی وجہ سے ہر فرد کی نگاہ میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی وہ قدر و منزلت تھی کہ باتفاق رائے ” الصادق الامین “ کے لقب سے یاد کئے جاتے تھے اور کل جو دشمنی ان کو محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے دعویٰ نبوت کی بنا پر ہوئی وہ آج محمد بن عبداللہ کے ساتھ قطعاً نہیں تھی اور سب ہی ان کی تقدیس و تطہیر کے قائل تھے۔
یہی حالات و واقعات تھے جبکہ عمر مبارک چالیس منزلیں طے کرچکی تھی رمضان کا مہینہ تھا اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) غار حرا میں مشغول عبادت تھے کہ اچانک آپ کے سامنے جبرائیل (علیہ السلام) فرشتہ نمودار ہوا اور اس نے بشارت دی کہ اللہ تعالیٰ نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ثقلین کی رشد و ہدایت کے لیے چن لیا اور رسالت و پیغمبری کے منصب کبریٰ پر فائز کیا۔ یہ واقعہ چونکہ نوع انسانی کی تاریخ میں حیرت زا انقلاب کا باعث ثابت ہوا اور اس نے ذات اقدس (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو معراج رفعت کی اس حد پر پہنچا دیا جہاں عالم ادیان و ملل کی تمام اصلاحات و انقلابات اس ہستی کا فیض رحمت نظر آتے ہیں اس لیے تاریخ و حدیث کے روشن صفحات نے اس واقعہ کی تمام تفصیلات کو بسند صحیح اپنے سینہ میں محفوظ رکھا ہے۔ چنانچہ فن حدیث و تاریخ اسلام کے امام بخاری (رحمہ اللہ علیہ) نے اپنی مشہور و مقبول کتاب اَلْجَامِعُ الصَّحِیْح میں صدیقہ عائشہ (رضی اللہ عنہا) کی سند سے اس واقعہ کو جن الفاظ میں نقل کیا ہے اس کا ترجمہ درج ذیل ہے عائشہ صدیقہ (رضی اللہ عنہا) فرماتی ہیں :
” نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر شروع میں سچے خوابوں کا سلسلہ جاری رہا ۔ کوئی خواب آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نہیں دیکھتے تھے مگر وہ اپنی تعبیر میں اس درجہ روشن اور صحیح ثابت ہوتا تھا جیسا کہ طلوع صبح کے لیے سپیدہ صبح کا ظہور ہوتا ہے پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو خلوت محبوب ہوگئی اور حرا میں مشغول عبادت رہنے لگے۔ گاہے گاہے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اہل و عیال کے پاس بھی تشریف لے آتے تھے حضرت خدیجہ (رضی اللہ عنہا) آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لیے کچھ توشہ تیار کرتیں اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس کو لے کر پھر غار میں واپس تشریف لے جاتے اسی طرح حرا میں مشغول استغراق و عبادت تھے کہ اچانک ایک روز آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر خدا کا فرشتہ نمودار ہوا اور کہنے لگا : اِقْرَاْ ” پڑھئے “ نبی امی نے کہا مَا اَنَا بِقَارِیْ ” میں پڑھنا نہیں جانتا “ پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ارشاد فرماتے تھے کہ جب میں نے فرشتہ سے یہ کہا تو اس نے مجھ کو گرفت میں لے لیا جس کی شدت سے مجھ کو تکلیف محسوس ہونے لگی اور پھر چھوڑ کر مجھ سے دوبارہ کہا ” پڑھئے “ اور میں نے وہی جواب پھر دیا ” میں پڑھنا نہیں جانتا “ تب اس نے پھر وہی عمل کیا ‘ اور گرفت چھوڑ کر تیسری مرتبہ پھر پہلا جملہ دہرایا اور میں نے بھی وہی سابق جواب دیا غرض تین مرتبہ یہی گفتگو اور یہی عمل ہوتے رہنے کے بعد چوتھی مرتبہ فرشتہ نے (سورة اقراء کی) یہ چند آیتیں تلاوت کیں :
{ اِقْرَاْ بِاسْمِ رَبِّکَ الَّذِیْ خَلَقَ ۔ خَلَقَ الْاِنْسَانَ مِنْ عَلَقٍ ۔ اِقْرَاْ وَرَبُّکَ الْاَکْرَمُ ۔ الَّذِیْ عَلَّمَ بِالْقَلَمِ ۔ عَلَّمَ الْاِنْسَانَ مَا لَمْ یَعْلَمْ ۔ } [72]
” پروردگار کے نام سے پڑھ جس نے پیدا کیا ‘ اس نے انسان کو خون بستہ سے پیدا کیا ‘ پڑھ اور تیرا پروردگار بہت کرم کرنے والا ہے جس نے قلم (تحریر) کے ذریعہ (انسان کو) علم سکھایا ‘ انسان کو وہ سب کچھ سکھایا جس سے وہ ناواقف تھا۔ “
حضرت شاہ عبد القادر دہلوی (رحمہ اللہ علیہ) اس آیت کی تفسیر میں بہت ہی لطیف بات ارشاد فرماتے ہیں ‘ موضح القرآن میں لکھتے ہیں : اول جبرائیل (علیہ السلام) وحی لائے تو یہی پانچ آیتیں ‘ حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کبھی لکھا پڑھا نہ تھا (اس لیے اللہ تعالیٰ نے) فرمایا کہ قلم سے بھی علم وہی دیتا ہے یوں بھی (یعنی بغیر وسائل کے وہبی طور پر) وہی دے گا۔
غرض نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان آیات کو دہرایا اور یہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ذہن نشین ہوگئیں اس کے بعد جب حراء سے فارغ ہوئے تو یہ حالت کہ قلب (شدت وحی سے) کانپ رہا تھا ‘ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مکان میں داخل ہوتے ہی فرمایا : مجھ کو کپڑا اڑھاؤ۔ حضرت خدیجہ نے فوراً کپڑا اڑھا دیا۔ جب کچھ سکون ہوا تو خدیجہ (رضی اللہ عنہا) کو تمام واقعہ سنایا اور پھر فرمایا :

خَشِیْتُ عَلٰی نَفْسِیْ ” مجھے اپنی جان کا خوف ہے۔ “

یعنی مجھے یہ خوف ہے کہ شاید میں وحی کے بار کو برداشت نہ کرسکوں۔حضرت خدیجہ الکبریٰ رضی اللہ عنہا نے سن کر عرض کیا ” قسم بخدا ! خدا آپ کو ہرگز رسوا نہیں کرے گا ‘ کیونکہ آپ صلہ رحمی کرتے ہیں ‘ مہمانوں کی مہمانداری ‘ بیچاروں کی چارہ گری فرماتے اور مفلس کے لیے ذریعہ معاش مہیا کرتے ہیں اور حق رسی کی کڑی سے کڑی مصیبت میں مددگار بنتے ہیں۔ “ اس گفتگو کے بعد حضرت خدیجہ (رضی اللہ عنہا) نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اپنے چچا زاد بھائی ورقہ بن نوفل کے پاس لے گئیں ‘ ورقہ زمانہ جاہلیت کے ان لوگوں میں سے تھے جنہوں نے سچی عیسائیت کو قبول کرلیا تھا۔ عبرانی زبان سے واقف اور انجیل کی کتابت کیا کرتے تھے اور بہت ضعیف العمر اور نابینا تھے (حضرت) خدیجہ (رضی اللہ عنہا) نے ورقہ سے کہا : برادر من آپ اپنے بھتیجے کا واقعہ تو سنئے ورقہ نے دریافت حال کیا ‘ تب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے گزرا ہوا واقعہ سنایا ‘ ورقہ نے سنا تو کہا ھَذَا النَّامُوْسُ الَّذِیْ کَانَ یَنْزِلُ عَلٰی مُوْسٰی ” یہ وہ فرشتہ (جبرئیل (علیہ السلام)) ہے جو حضرت موسیٰ (علیہ السلام) پر وحی الٰہی لے کر آیا کرتا تھا کاش کہ میں اس وقت تک زندہ رہوں جب تیری قوم تجھ کو تیرے وطن (مکہ) سے نکالے گی۔ “ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے دریافت کیا : ” کیا میری قوم مجھ کو وطن سے بےوطن کرے گی “ ورقہ نے کہا : ” بیشک ایسا ہوگا اور جس پیغام کے لیے خدا نے آپ کو پیغمبر بنایا ہے اس خدمت پر جو بھی مامور ہوا اس کے ساتھ یہی صورت پیش آئی ہے پس اگر وہ وقت میری زندگی میں آیا تو میں پوری قوت کے ساتھ تیری حمایت کروں گا “ مگر ورقہ کو یہ وقت نہیں آیا اس سے قبل ہی ان کا انتقال ہوگیا۔ [73]

حدیث بخاری اور بعض مستشرقین کی کوتاہ اندیشی

حضرت عائشہ صدیقہ (رضی اللہ عنہا ) کی حدیث میں نزول وحی سے نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر جو فوری تاثر ہوا اس کو خود زبان مبارک سے اس طرح ظاہر کیا گیا ہے اِنِّیْ خَشِیْتُ عَلٰی نَفْسِیْ اور پھر اس کے متصل ہی حضرت خدیجہ (رضی اللہ عنہا ) کے تسکین دہ الفاظ منقول ہیں تو یہ واقعہ کا ایسا پہلو ہے جس کی فطری صداقت اور غیر مصنوعی سادگی خود بخود دل میں اتر جاتی ہے اور واقعہ کا نقشہ اس طرح سامنے آجاتا ہے کہ ایک صادق و امین ہستی اپنی پاک اور بے لوث زندگی کے ساتھ ایک غار میں محو استغراق ہے اس کے قلب میں خدائے برتر کے لیے عشق سے سرشارجذبہ عبودیت موجزن ہے ‘ وہ شرک اور گناہوں کی آلودگیوں سے نفور و بیزار گوشہ تنہائی کو پسند کرکے پہاڑ کے ایک غار میں سرگرم عبادت ہے یہ سلسلہ اگرچہ عرصہ سے جاری ہے مگر اچانک ایک روز خدا کا فرشتہ (جبرئیل) جو ہمیشہ سے خدا کے پیغمبروں کے پاس وحی لے کر آتا رہا ہے ‘ اس پر ظاہر ہوتا ہے اور وحی الٰہی کی پیغام رسانی کرتے ہوئے اس کو نبوت و رسالت کی بشارت دیتا ہے یہ ہستی چونکہ اس سے قبل اس منصب جلیل کی حقیقت سے ناآشنا تھی اس لیے اس حیرت زا خبر اور وحی الٰہی کی عظیم ترین روحانی قوت کے زبردست اثر نے جو فوری انقلاب ذات اقدس (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں پیدا کیا اس کی وجہ سے تشویش اور گھبراہٹ کا رونما ہونا ایک فطری بات تھی ” خَشِیْتُ عَلٰی نَفْسِیْ “ کی مراد یہ نہیں تھی کہ جان کا خوف آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو پریشان کئے ہوئے تھا ایک عربی نژاد ‘ قریشی الاصل اور شخصی شجاعت کے مالک سے اس قسم کی توقع کیسے ہوسکتی ہے ؟ بلکہ مطلب یہ تھا کہ وہ اس بار عظیم کو برداشت بھی کرسکے گا یا نہیں چنانچہ اس اعلیٰ تاثر کو اس مقدس انسان کی رفیقہ حیات خدیجۃ الکبریٰ (رضی اللہ عنہا ) نے محسوس کرتے ہوئے اس کے اخلاق کریمانہ اور اوصاف حمیدہ کا ذکر کیا اور کہا کہ ایسی ہستی ناکام زندگی کے لیے نہیں ہوتی اور خدا کبھی آپ کو رسوا نہیں کرے گا اور پھر اس مقدس پیغمبر کو ورقہ کے پاس لے گئیں تاکہ ایک ایسے شخص سے جو عرصہ سے خدا کی وحی اور خدا کی کتاب کا ذکر کرتا رہتا ہے اس اجمال کی تفصیل معلوم کریں۔
اس صاف اور سادہ بات کو دیکھئے اور پھر بعض مستشرقین یورپ کی اس مضحکہ خیز نکتہ چینی پر نظر ڈالئے جو تعصب اور کوتاہ نظری کی عینک لگا کر کی گئی ہے :
” اگر پیغمبر اسلام پر حرا میں وحی الٰہی کا نزول اور فرشتہ کا ظہور ہوا ہوتا تو پھر آپ وحی الٰہی سے فیضیاب ہو کر اور منصب رسالت کی بشارت سن کر یہ کیوں فرماتے اِنِّیْ خَشِیْتُ عَلٰی نَفْسِیْ اور خدیجہ کو تسکین دینے کی ضرورت پیش نہ آتی کیا آپ کو خدا پر بھروسہ نہیں تھا ؟ “
ببیں تفاوت رہ از کجاست تا بکجا ‘ حقیقت حال کیا تھی اور اس کو رنگ و روغن دے کر کیا بنادیا ؟
یہاں نہ خدا پر عدم اعتماد کی کوئی جھلک ہے اور نہ فرشتہ کے ظہور اور وحی کے نزول پر ریب و شک کا معاملہ ہے بلکہ اس حقیقت کے اعتراف ہی کی وجہ سے جو صورت حال پیدا ہوگئی تھی اس کا ایک فطری تاثر ہے جو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی صداقت کا مزید ثبوت فراہم کرتا ہے ‘ کیونکہ اگر اس کے برعکس کہیں آپ اس واقعہ کو اس طمطراق کے ساتھ پیش فرماتے کہ گویا ذات اقدس کے لیے یہ کوئی نئی بات نہیں بلکہ جانی بوجھی بات ہے تب البتہ اس کی گنجائش ہوسکتی تھی کہ اس شخص نے (دعویٰ نبوت کے لئے) پہلے سے ایک منصوبہ قائم کر رکھا تھا ‘ اور حرا کی خلوتیں بھی اسی مقصد کے لیے تھیں چنانچہ اب موقع دیکھ کر اس نے یہ اعلان کردیا کہ میں خدا کا پیغمبر ہوں اور مجھ پر وحی آتی ہے۔
بہرحال اس مسئلہ پر ہم نے مختصر طور پر جو کچھ لکھا ہے علمائے اسلام نے مختلف اسالیب بیان کے ساتھ اسی حقیقت کا اظہار فرمایا ہے مثلاً مشہور محدث و مفسر حافظ عماد الدین ابن کثیر (رحمہ اللہ علیہ) فرماتے ہیں :
( (ثُمَّ قَالَ ” لَقَدْ خَشِیْتُ عَلٰی نَفْسِیْ “ وَذٰلِکَ لِاَنَّہٗ شَاھَدٌ اَمْرًا لَمْ یَعْھَدْہٗ قَبْلَ ذٰلِکَ وَلَا کَانَ فِیْ خَلَدِہٖ )) [74]
” آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے پھر فرمایا : ” لَقَدْ خَشِیْتُ عَلٰی نَفْسِیْ “ یہ اس لیے فرمایا کہ آپ نے ایک ایسی حقیقت کا آج مشاہدہ کیا کہ اس سے قبل اس سے واقف نہیں تھے اور نہ کبھی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے دل میں یہ خیال گزرا تھا کہ ایسا کچھ پیش آئے گا “
اور حکیم الامت شاہ ولی اللہ دہلوی (رحمہ اللہ علیہ) کی لطیف توجیہ کا حاصل یہ ہے :
” پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر غار حرا میں حق (وحی) کا نزول ہوا جب فرشتہ اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے درمیان سلسلہ کلام ختم ہوگیا تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ایک خاص کیفیت طاری ہوئی جس کو ہم اپنی زبان میں تشویش و اضطراب سے تعبیر کرتے ہیں اور حقیقت میں یہ ایک نفسیاتی کیفیت تھی جس کا پیش آنا فطری تھا اس لیے کہ جب نزول وحی کی وجہ سے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بشری قویٰ پر ملکوتی صفات نے اثر کیا تو دو متضاد قوتوں کے درمیان تصادم اور پھر ملکوتی قوت کے غلبہ کی وجہ سے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اندر تشویش پیدا ہوجانا یقینی تھا یہی وجہ ہے کہ ابتدائے نزول وحی کے بعد کچھ مدت تک وحی کا سلسلہ منقطع رہا کیونکہ انسان بشریت اور ملکیت دو جہات کے درمیان محصور ہے پس جس ہستی کی بشریت پر ملکوتی صفات غالب آ کر اس کو ظلمتوں سے نور کی جانب لے جاتی ہیں تو جس قوت کے ساتھ یہ غلبہ اپنا اثر کرتا ہے انسان اپنے اندر اسی شدت کے ساتھ بشریت و ملکیت کے درمیان تصادم اور تزاحم محسوس کرتا ہے اور شدت تصادم کا یہ سلسلہ اس وقت تک جاری رہتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کی ملکوتی قوت و استعداد کو اس درجہ کامل و مکمل کر دے جو منصب نبوت و رسالت کے لیے ضروری ہے حتیٰ کہ اس کی قوت بشری (قوت بہیمی و حیوانی) قوت ملکوتی کے ہاتھ میں پوری طرح تابع اور منقاد ہوجاتی ہے اور اب وہ ہستی جس کو فیضان نبوت سے سرفراز کیا گیا ہے مطمئن اور تصادم کی کشمکش سے بالاتر ہو کر اس منصب جلیل (نبوت و رسالت) کی خدمت کے قابل ہوجاتی ہے۔ “ [75]

بشریت اور نبوت کا باہمی تعلق

” نبوت “ اور ” بشریت “ کے درمیان اس درجہ نازک رشتہ ہے کہ قرآن حکیم کی تعلیم سے قبل پیروان مذاہب و ادیان نے اس راہ میں بھی اعتدال کو ترک کرکے افراط اور تفریط کو اسوہ بنا لیا تھا اور اس بارے میں ان کو سخت ٹھوکر لگی تھی چنانچہ بعض پیروان مذاہب نے یہ دیکھ کر کہ نبی اور رسول باوجود اس امر کے کہ وہ انسان اور بشر کی شکل و صورت رکھتا ہے لیکن ساتھ ہی افراد انسانی سے جدا ایسی خصوصیات کا حامل نظر آتا ہے جو مجاہدات و ریاضات کے ذریعہ سے بھی دوسروں کو حاصل نہیں ہوتیں ‘ اس لیے دراصل وہ بشر نہیں بلکہ خدا یا خدا کا بیٹا ہے جس نے انسانوں کی نجات کے لیے جامہ بشریت اختیار کرلیا ہے۔
اوتار اور ابن اللہ کا عقیدہ دراصل ایک ہی سلسلہ کی دو کڑیاں ہیں۔
اس کے برعکس دوسری جماعت نے یہ کہا کہ نبوت و رسالت کوئی منصب نہیں ہے کہ خدا کی جانب سے عطیہ مناصب کی طرح دیا جاتا ہو بلکہ اخلاق کریمانہ اور صفات حمیدہ کا وہ اعلیٰ درجہ ہے جو ہر ایک انسان اپنی روحانی جدوجہد سے حاصل کرسکتا ہے اور کہتے ہیں کہ اگرچہ عطا و بخشش ہر شئے کے لیے اسی کی جانب (خدا کی جانب) سے ہے لیکن کسی شے کا بطور منصب عطا ہونے کی حدود میں محدود رہنا اور روحانی جدوجہد سے ہر شخص کے حاصل کرلینے کے لیے اس کا دروازہ کھلا رہنا ان دونوں باتوں کے درمیان جو فرق ہے ہمارا خیال یہ ہے کہ نبوت بھی اور درجات روحانیت کی ہی طرح ہے اور عطاء منصب کی شکل میں خاص امتیاز نہیں رکھتی۔
قرآن حکیم نے اس افراط وتفریط کو ختم کرنے کے لیے نبوت و رسالت کی حقیقت کو بہت عمدہ طریقوں سے آشکارا کیا ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ خدائے تعالیٰ نے انسان کی رہنمائی کے لیے جو مختلف درجات ہدایت کا سلسلہ قائم کیا ہے اس کا اعلیٰ درجہ ” ہدایت وحی “ کا ہے اور یہ انسان کی روحانیت اور مقصد حیات کی کامرانی کا کفیل وضامن ہے اور جبکہ ہدایت کا یہ سلسلہ انسانی راہنمائی کے لیے ہے تو عقل سلیم کا تقاضا یہ ہے کہ یہ درجہ انسان ہی کو بخشا جائے لیکن کیا ہر شخص کو جدا جدا بخش دیا جائے ؟ نہیں ایسا نہیں ہونا چاہیے اس لیے کہ یہاں درجات عقل مختلف ہیں اور درجات استعداد میں بھی تنوع موجود ہے اس لیے از بس ضروری ہے کہ کسی خاص ہستی کو اس کے لیے چن لیا جائے تو اب یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اس انتخاب کی نوعیت کیا ہونی چاہیے یہ کہ جو عمدہ صلاحیتوں کے ساتھ زیادہ سے زیادہ مجاہدات اور ریاضات کے ذریعہ نفس پر قابو پائے یا یہ کہ خدائے تعالیٰ جس کو یہ درجہ عطا فرمائے اس کی صلاحیتوں اور اس کی استعدادات کی تخلیق ہی اس طرح کر دے کہ صدق و امانت اس کا مایہ خمیر بنا ہوا ہو اور خارجی مجاہدہ اور ریاضت کا محتاج نہ ہو۔ یہ جدا امر ہے کہ خدائے برتر کے سامنے اظہار عبودیت اور تقرب الی اللہ کے لامتناہی فیض سے فیضیاب ہونے کے لیے اس سلسلہ کو بھی کلیتاً ترک نہ کرے۔ تو اس کا جواب یہ ہے کہ عقل و بصیرت اس فیصلہ کو حق بجانب سمجھتے ہیں کہ یہاں دوسری شکل عمل میں آنی چاہیے اس لیے کہ جس طرح خدائے برتر کے مقررہ قانون قدرت نے ہدایت وحی سے پہلے کے مختلف درجات ہدایت کو انسان کے مجاہدہ و ریاضت پر موقوف نہیں رکھا اور اس بخشش و فیض کو حسب حال عطیہ الٰہی کی حیثیت میں رکھا ہے یعنی وجدان ‘ حواس اور عقل ان سب درجات ہدایات کا جب یہی حال ہے کہ وہ جدوجہد سے نہیں بلکہ عطیہ الٰہی سے ملتے ہیں تو ہدایت وحی بھی جس کو بخشا جائے وہ بطور منصب و عطیہ کے ہی عطا ہو البتہ یہ از بس ضروری ہے کہ جس کو بھی بخشا جائے اس کی روحانی صلاحیتیں اور استعدادات ہر طرح اس منصب کی اہل ہوں اور ایسی ہستی کو عطا نہ ہو کہ اس کی صلاحیت و استعداد عطا کرنے والے کی بے سلیقگی پر چشمک زن ہو۔
غرض نبی اور رسول اس ہستی کو کہتے ہیں جو لوازم بشریت کے ساتھ اپنے تقدس و طہارت اور اخلاق حسنہ و اوصاف حمیدہ کے اس بلند مقام پر فائز ہو اور اس کے صفات صدق و امانت اس درجہ مسلم ہوں کہ اس کو بشر معصوم کہہ سکیں وہ نہ خدا ہوتا ہے اور نہ ابن خدا بلکہ خدا کی جانب سے ہدایت وحی کا حامل ‘مخلوق خدا کے لیے خدا کا ایلچی اور ان کی ہر قسم کی رشد و ہدایت کا کفیل ہو چونکہ وہ بشر ہے اس لیے افراد نسل انسانی سے تعلق رکھتا ہے ‘اور چونکہ ہر قسم کی آلودگیوں اور گناہوں سے پاک اور معصوم ہے اس لیے اس کو اللہ سبحانہ کے ساتھ ہم کلامی کا شرف حاصل ہے پس نبوت و رسالت کا بشریت کے ساتھی یہی وہ تعلق ہے جو ہر قسم کی افراط وتفریط سے بری اور حقیقت حال کے لیے آئینہ دار ہے اور اسی حقیقت کو نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے خود زبان وحی ترجمان سے ظاہر فرمایا ہے۔
اِنَّمَا اَنَا قَاسِمُ وَاللّٰہُ یُعْطِیْ ” خدا دینے والا ہے اور میں تقسیم کرنے والا ہوں۔ “
یعنی ایک جانب خدا سے وحی ہدایت حاصل کرتا ہوں اور دوسری جانب خدا کے بندوں تک اس کو پہنچا دیتا ہوں یہی میرا فریضہ رسالت و نبوت ہے اور اسی حقیقت کو قرآن حکیم نے مختلف اسالیب بیان کے ساتھ اس سلسلہ کے غلط کار لوگوں کی ہدایت کے لیے اس طرح بیان کیا ہے :
{ قُلْ سُبْحَانَ رَبِّیْ ھَلْ کُنْتُ اِلَّا بَشَرًا رَّسُوْلًا } [76]
” کہہ دیجئے ‘ پاکی ہے میرے پروردگار کے لیے ‘ میں نہیں ہوں مگر انسان اور خدا کا ایلچی (رسول) “
{ قُلْ لَّآ اَمْلِکُ لِنَفْسِیْ نَفْعًا وَّ لَا ضَرًّا اِلَّا مَا شَآئَ اللّٰہُ وَ لَوْ کُنْتُ اَعْلَمُ الْغَیْبَ لَاسْتَکْثَرْتُ مِنَ الْخَیْرِ وَ مَا مَسَّنِیَ السُّوْٓئُ اِنْ اَنَا اِلَّا نَذِیْرٌ وَّ بَشِیْرٌ لِّقَوْمٍ یُّؤْمِنُوْنَ } [77]
” وہی ہو کر رہتا ہے جو خدا چاہتا ہے اگر مجھے غیب کا علم ہوتا تو ضرور ایسا کرتا کہ بہت سی منفعت بٹور لیتا اور (زندگی میں) کوئی گزند مجھے نہ پہنچتا ‘ میں اس کے سوا کیا ہوں کہ ماننے والوں کے لیے (گناہوں کی پاداش عمل سے) خبردار کرنے والا اور نیک عمل پر بشارت دینے والا ہوں۔ “
{ قَالَ اِنِّیْ عَبْدُ اللّٰہِ اٰتٰنِیَ الْکِتٰبَ وَ جَعَلَنِیْ نَبِیًّا ۔ وَّ جَعَلَنِیْ مُبٰرَکًا اَیْنَ مَا کُنْتُ ۔ } [78]
” (عیسیٰ (علیہ السلام) نے ) کہا : میں اللہ کا بندہ ہوں ‘ اس نے مجھ کو (ہدایت انسانی کے لئے) کتاب دی اور مجھ کو نبی بنایا اور اس نے مجھ کو بابرکت کیا خواہ میں کسی جگہ ہوں۔ “
{ فَاْتِیٰہُ فَقُوْلَآ اِنَّا رَسُوْلَا رَبِّکَ فَاَرْسِلْ مَعَنَا بَنِیْٓ اِسْرَآئِیْلَ وَ لَا تُعَذِّبْھُمْ قَدْ جِئْنٰکَ بِاٰیَۃٍ مِّنْ رَّبِّکَ وَ السَّلٰمُ عَلٰی مَنِ اتَّبَعَ الْھُدٰی } [79]
” تم (موسیٰ و ہارون) اس (فرعون) کے پاس جاؤ اور کہو ہم تیرے پروردگار کے بھیجے ہوئے آئے ہیں پس بنی اسرائیل کو ہمارے ساتھ رخصت کر دے اور ان پر سختی نہ کر۔ ہم تیرے پروردگار کی نشانی لے کر تیرے سامنے آگئے اس پر سلامتی ہو جو سیدھی راہ اختیار کرے۔ “
{ رُسُلًا مُّبَشِّرِیْنَ وَ مُنْذِرِیْنَ لِئَلَّا یَکُوْنَ لِلنَّاسِ عَلَی اللّٰہِ حُجَّۃٌم بَعْدَ الرُّسُلِ وَ کَانَ اللّٰہُ عَزِیْزًا حَکِیْمًا } [80]
” یہ تمام رسول (خدا پرستی و نیک عملی کے نتائج کی) خوش خبری دینے والے اور (انکار حق کے نتائج سے ) ڈرانے والے تھے (اور اس لیے بھیجے گئے تھے) کہ ان کے آنے (اور نیک و بد بتلانے) کے بعد لوگوں کے پاس کوئی حجت باقی نہ رہے جو وہ خدا کے حضور پیش کرسکیں اور وہ خدا (اپنے کاموں میں) سب پر غالب ہے اور (تمام کاموں میں) حکمت والا ہے۔ “
{ یٰٓاَیُّھَا النَّبِیُّ اِنَّآ اَرْسَلْنٰکَ شَاھِدًا وَّ مُبَشِّرًا وَّ نَذِیْرًا ۔ وَّ دَاعِیًا اِلَی اللّٰہِ بِاِذْنِہٖ وَ سِرَاجًا مُّنِیْرًا۔ } [81]
” اے نبی ! بلاشبہ ہم نے تجھ کو بھیجا ہے (حق پر) گواہی دینے والا اور (نیکی کے انجام پر) بشارت دینے والا اور (بدی کے انجام سے ) ڈرانے والا اور بلانے والا اللہ کی راہ کی طرف اس کے حکم سے اور بھیجا روشن چراغ بنا کر۔ “
{ عٰلِمُ الْغَیْبِ فَـلَا یُظْہِرُ عَلٰی غَیْبِہٖ اَحَدًا ۔ اِلَّا مَنِ ارْتَضٰی مِنْ رَّسُوْلٍ فَاِنَّہٗ یَسْلُکُ مِنْم بَیْنِ یَدَیْہِ وَمِنْ خَلْفِہٖ رَصَدًا ۔ لِیَعْلَمَ اَنْ قَدْ اَبْلَغُوْا رِسَالَاتِ رَبِّہِمْ وَاَحَاطَ بِمَا لَدَیْہِمْ وَاَحْصٰی کُلَّ شَیْئٍ عَدَدًا ۔ } [82]
” وہ (خدا) غیب کی تمام باتوں کا جاننے والا ہے پس وہ اپنے غیب (کے معاملات) پر کسی کو خبردار نہیں کرتا مگر جس کو پیغمبر بنا کر چن لے ‘ پس بلاشبہ وہ (خدا) اس رسول کے آگے اور پیچھے نگہبان چلاتا ہے (یعنی اس کو اس بات سے محفوظ رکھتا ہے کہ خدا کی دی ہوئی خبر میں شیطان یا اس کا نفس کوئی ملاوٹ کرسکے اور اس کو شبہ پڑجائے کہ یہ خدا کی وحی ہے یا کچھ اور) تاکہ خدا یہ ظاہر کر دے کہ انھوں نے (رسولوں نے ) بلاشبہ اپنے پروردگار کے پیغام (ٹھیک ٹھیک) پہنچا دیے۔ “
ان آیات کی تفسیر میں حضرت شاہ عبد القادر (رحمہ اللہ علیہ) یہ تحریر فرماتے ہیں :
” یعنی رسول کو خبر دیتا ہے غیب کی پھر چوکیدار (فرشتے) رکھتا ہے اس کے ساتھ کہ اس میں شیطان دخل نہ کرنے پاوے اور اپنا (رسول کا) نفس غلط نہ سمجھے یہی معنی ہیں اس بات کے کہ پیغمبروں کو عصمت ہے اوروں کو نہیں اور ان کا معلوم ” بیشک “ ہے اوروں کے معلوم میں شبہ ہے۔ “
” نبی “ اور ” رسول “ سے متعلق مسطورہ بالا افراط وتفریط کے ساتھ ساتھ مشرکین عرب ایک نئی گمراہی میں مبتلا تھے وہ کہتے تھے کہ اول تو ” پیغمبر “ کا وجود ہی ہمارے لیے اچنبھے کی بات ہے ‘ اور اگر یہ اچنبھا ہونا ہی تھا تو اس کے لیے ہماری طرح کا ایک انسان ہی کیوں چنا گیا ‘ کیوں ایک فرشتہ نہ بھیجا گیا اور اگر انسان ہی بھیجنا تھا تو مکہ اور طائف کی کسی متمول سرمایہ دار ہستی کو پیغمبر بنایا جاتا ورنہ اس کو ہی غیب سے خزانے اور بےنظیر باغات عطا کئے جاتے تب ہم سمجھتے کہ بیشک یہ خدا کا فرستادہ ہے :
{ وَقَالُوْا مَالِ ہٰذَا الرَّسُوْلِ یَاْکُلُ الطَّعَامَ وَیَمْشِیْ فِی الْاَسْوَاقِ لَوْلَا اُنْزِلَ اِلَیْہِ مَلَکٌ فَیَکُوْنَ مَعَہٗ نَذِیْرًا ۔ اَوْ یُلْقٰی اِلَیْہِ کَنْزٌ اَوْ تَکُوْنُ لَہٗ جَنَّۃٌ یَّاْکُلُ مِنْہَا ۔ } [83]
” اور وہ (مشرکین) کہتے ہیں ‘ یہ کیسا رسول ہے جو کھانا کھاتا اور بازاروں میں چلتا پھرتا ہے ایسا کیوں نہ ہوا کہ اس کے ساتھ آسمان سے فرشتہ اترتا اور وہ خدا کے پیغام سے خبردار کرتا یا ایسا کیوں نہ ہوا کہ (ہماری آنکھوں دیکھتے) اس پر آسمان سے خزانہ اتر آتا یا قدرتی باغ ہوتا کہ وہ (ہر وقت مرضی کے مطابق) اس سے (پھل) کھاتا۔ “
{ وَما اَرْسَلْنَا قَبْلَکَ مِنَ الْمُرْسَلِیْنَ اِلَّا اِنَّہُمْ لَیَاْکُلُوْنَ الطَّعَامَ وَیَمْشُونَ فِی الْاَسْوَاقِ وَجَعَلْنَا بَعْضَکُمْ لِبَعْضٍ فِتْنَۃً اَتَصْبِرُوْنَ وَکَانَ رَبُّکَ بَصِیْرًا } [84]
” اور ہم نے تجھ سے پہلے بھی ایسے ہی پیغمبر بھیجے تھے جو کھانا کھاتے تھے اور بازاروں میں چلتے پھرتے تھے (یعنی پیغمبری کے لیے بشریت منافی نہیں ہے بلکہ انسانوں کے لیے انسان ہی کو پیغمبر ہونا چاہیے) اور ہم نے (انسانوں میں سے انسان ہی کو پیغمبر بنا کر) ایک دوسرے کی آزمائش کا سامان کردیا کہ آیا تم صبر و استقامت کا ثبوت دیتے ہو یا نہیں اور تیرا پروردگار بلاشبہ (انسانوں کے کردار کا) دیکھنے والا ہے۔ “
{ وَ قَالُوْا لَوْلَآ اُنْزِلَ عَلَیْہِ مَلَکٌط وَ لَوْ اَنْزَلْنَا مَلَکًا لَّقُضِیَ الْاَمْرُ ثُمَّ لَا یُنْظَرُوْنَ ۔ وَ لَوْ جَعَلْنٰہُ مَلَکًا لَّجَعَلْنٰہُ رَجُلًا وَّ لَلَبَسْنَا عَلَیْھِمْ مَّا یَلْبِسُوْنَ ۔ } [85]
” اور وہ کہتے ہیں اس پر (محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر) کیوں فرشتہ نہیں اتارا گیا اور اگر ہم فرشتہ اتارتے تو البتہ (نتائج اعمال کا) فیصلہ کردیا جاتا اور پھر وہ مہلت نہ دیئے جاتے اور اگر ہم اس کو فرشتہ کردیتے تو بھی (انسانوں کی ہدایت کے لئے) اس کو بصورت انسان ہی ظاہر کرتے اور (اس طرح) ہم پھر ان لوگوں کو اس شبہ میں مبتلا کردیتے جس میں اب مبتلا ہیں۔ “
اس جگہ ان کی گمراہی کو دو دلائل سے واضح کیا ہے ایک یہ کہ ایمان و اعتقاد کی زندگی سر تا سر غیب سے متعلق ہے پس اگر انسان کو اسی عالم میں عالم غیب کے معاملات کا مشاہدہ کرا دیا جائے اور پھر بھی وہ انکار پر جما رہے تو خدا کا قانون امہال (مہلت کا قانون) نافذ نہیں ہوگا بلکہ نتائج اعمال کا فوراً ہی ظہور ہو کر رہے گا اور یہ ان کے لیے بھی مضر ہے اور خدا کی حکمت رحمت و ربوبیت کے بھی خلاف ہے دوسری دلیل یہ کہ انسانی دنیا میں اگر فرشتہ کے ذریعہ ہدایت وحی کو بھیجا جائے تو انسان کس طرح اس سے مانوس ہوسکتے ہیں ‘ پھر اگر اسے بھی انسان ہی کی شکل میں بھیجیں تو شبہ کرنے والوں کا شبہ اسی طرح قائم رہے گا۔ اس لیے عقل و نقل دونوں کا فیصلہ یہی ہے کہ ہدایت کے لیے انسان ہی کو مبعوث ہونا چاہیے :
{ وَ مَا مَنَعَ النَّاسَ اَنْ یُّؤْمِنُوْٓا اِذْ جَآئَھُمُ الْھُدٰٓی اِلَّآ اَنْ قَالُوْٓا اَبَعَثَ اللّٰہُ بَشَرًا رَّسُوْلًا۔ قُلْ لَّوْ کَانَ فِی الْاَرْضِ مَلٰٓئِکَۃٌ یَّمْشُوْنَ مُطْمَئِنِّیْنَ لَنَزَّلْنَا عَلَیْھِمْ مِّنَ السَّمَآئِ مَلَکًا رَّسُوْلًا ۔ } [86]
” اور لوگوں کے پاس جب ہدایت آپہنچی تو ان کو ایمان لانے سے کسی بات نے نہیں روکا مگر اس نے کہ وہ کہتے ہیں کہ کیا خدا کسی بشر کو پیغمبر بنا کر بھیجے گا ‘ اے پیغمبر ! کہہ دیجئے اگر زمین پر انسانوں کی جگہ فرشتوں کی آبادی ہوتی اور وہ اس پر چلتے پھرتے تو ہم ضرور ان کے لیے آسمان سے فرشتہ کو ہی رسول بنا کر بھیجتے۔ “
{ وَ مَآ اَرْسَلْنَا قَبْلَکَ اِلَّا رٍجَالًا نُّوْحِیْٓ اِلَیْھِمْ فَسْئَلُوْٓا اَھْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ۔ وَ مَا جَعَلْنٰھُمْ جَسَدًا لَّا یَاْکُلُوْنَ الطَّعَامَ وَ مَا کَانُوْا خٰلِدِیْنَ ۔ } [87]
” اور (اے پیغمبر ! ) ہم نے تجھ سے پہلے بھی جن پر وحی نازل کی ہے وہ انسانوں کے سوا اور کچھ نہیں تھے پس (معترضین) اگر تم نہیں جانتے ہو تو جاننے والوں سے دریافت کرلو اور نہ ہم نے ان کو بےجان (دھڑ) بنایا تھا کہ وہ کھانا نہ کھاتے ہوں اور نہ وہ (خدا کی طرح) ہمیشہ رہنے والے تھے۔ “
بہرحال ان آیات میں قرآن عزیز نے علمی اور تاریخی دونوں قسم کے دلائل سے یہ صاف کردیا کہ کائنات انسانی کی ہدایت کے لیے انسان کا نبی اور ہادی ہونا فطری بات ہے اور اس لیے اقوام ماضیہ میں ایساہی ہوتا رہا ہے۔ پھر اس مسئلہ کی جانب بھی توجہ کی ہے کہ نبوت و رسالت کا تعلق سرداری ‘ سرمایہ داری اور جتھ بندی سے کچھ نہیں ہے اور اس کے لیے جن فطری اعلیٰ ملکات و استعدادات کی ضرورت ہے ان کے پیش نظر اللہ تعالیٰ ہی خوب واقف ہے کہ کون اس منصب کا اہل ہے :
{ وَقَالُوْا لَوْلَا نُزِّلَ ہٰذَا الْقُرْاٰنُ عَلٰی رَجُلٍ مِّنَ الْقَرْیَتَیْنِ عَظِیْمٍ ۔ اَہُمْ یَقْسِمُوْنَ رَحْمَۃَ رَبِّکَ نَحْنُ قَسَمْنَا بَیْنَہُمْ مَعِیْشَتَہُمْ فِی الْحَیَاۃِ الدُّنْیَا وَرَفَعْنَا بَعْضَہُمْ فَوْقَ بَعْضٍ دَرَجَاتٍ لِّیَتَّخِذَ بَعْضُہُمْ بَعْضًا سُخْرِیًّا وَرَحْمَتُ رَبِّکَ خَیْرٌ مِّمَّا یَجْمَعُوْنَ۔ } [88]
” اور وہ کہتے ہیں یہ قرآن کیوں ان دو بستیوں (مکہ اور طائف) کے کسی سردار پر نازل نہیں ہوا (تو ) کیا تیرے پروردگار کی رحمت کو یہ تقسیم کرنے والے ہیں ؟ نہیں بلکہ ہم نے ہی ان کے درمیان ان کی دنیوی معیشت کو تقسیم کیا ہے اور ہم نے ہی بعض انسانوں کو بعض پر بلندی درجات عطا کی ہے تاکہ بعض بعض کے مسخر رہیں (یعنی بعض مقتدیٰ ہوں اور بعض مقتدی ‘ بعض پیغمبر ہوں اور بعض امتی) اور تیرے پروردگار کی رحمت (نبوت) اس (دولت و ثروت) سے (کہیں زیادہ) بہتر ہے جو وہ خزانہ کئے ہوئے ہیں۔ “
{ وَ اِذَا جَآئَْتھُمْ اٰیَۃٌ قَالُوْا لَنْ نُّؤْمِنَ حَتّٰی نُؤْتٰی مِثْلَ مَآ اُوْتِیَ رُسُلُ اللّٰہِط اَللّٰہُ اَعْلَمُ حَیْثُ یَجْعَلُ رِسَالَتَہٗ } [89]
” اور جب ان کے پاس خدا کی جانب سے کوئی آیت آتی ہے تو یہ (مشرکین) کہتے ہیں ہم اس وقت تک ایمان نہیں لائیں گے جب تک ہم کو بھی وہی چیز (وحی) نہ دی جائے جو خدا کے رسولوں کو دی گئی (لیکن ایسا نہیں ہوسکتا اس لیے کہ) اللہ ہی خوب جانتا ہے کہ وہ اپنے منصب رسالت کو کس کے سپرد کرے۔ “
اور یہ بات تو بہت واضح اور صاف ہے کہ جس شخص کو کوئی منصب عطا کیا جائے تو انصاف کا تقاضا یہ ہے کہ وہ ہر طرح اس کے لیے جوہر قابل اور اہل ہونا چاہیے لیکن یہ ضروری نہیں کہ ہر ایک جوہر قابل کو وہ منصب ملے کیونکہ معطی کی مصلحت ہی خوب فیصلہ کرسکتی ہے کہ کس کو ملے اور کس کو نہ ملے چہ جائیکہ جوہر قابل بھی نہ ہو۔ اس لیے ضروری ہوا کہ جو نبی اور رسول ہو وہ ہر حیثیت سے انسان کامل اور گناہوں سے معصوم ہو لیکن یہ ضروری نہیں کہ جو شخص بھی اخلاق حمیدہ اور روحانی مجاہدات کے ذریعہ تقدیس کا درجہ حاصل کرسکا ہو وہ منصب نبوت پر بھی ضرور فائز ہو۔ بہرحال نبوت منصب ہے ڈگری نہیں ہے اور اس لیے جن کو بھی دیا جاتا ہے ان کو متنبہ کردیا جاتا ہے کہ یہ تم پر فضل خداوندی ہے ورنہ اگر وہ تم سے اس کو سلب کر لیناچا ہے تو تمہاری طاقت بلکہ کائنات کی طاقت سے باہر ہے کہ پھر یہ تم کو مل سکے :
{ وَ لَئِنْ شِئْنَا لَنَذْھَبَنَّ بِالَّذِیْٓ اَوْحَیْنَآ اِلَیْکَ ثُمَّ لَا تَجِدُ لَکَ بِہٖ عَلَیْنَا وَکِیْلًا ۔ اِلَّا رَحْمَۃً مِّنْ رَّبِّکَ اِنَّ فَضْلَہٗ کَانَ عَلَیْکَ کَبِیْرًا ۔ } [90]
” اور (اے پیغمبر ! ) اگر ہم چاہیں تو جو تجھ پر ہم نے وحی کی ہے اس کو چھین لیں اور پھر تجھ کو کوئی بھی ایسا کارساز نہ ملے جو ہم پر زور ڈال سکے ‘ لیکن یہ (جو سلسلہ وحی جاری ہے تو) اس کے سوا کچھ نہیں ہے کہ تیرے پروردگار کی رحمت سے ہے اور یقین کر کہ تجھ پر تیرے پروردگار کا بڑا ہی فضل ہے۔ “

نبی اور مصلح

مسطورہ بالا تفصیلات سے یہ بات بھی واضح ہوگئی کہ چونکہ نبی اور رسول کو براہ راست خدائے برتر سے شرف مکالمت حاصل ہوتا ہے یا خدا کا معصوم فرشتہ خدا کی وحی لا کر سناتا ہے اس لیے اس کا ذریعہ علم ” علم یقین “ کا وہ درجہ رکھتا ہے جس میں شک و شبہ کی مطلق گنجائش نہیں رہتی اور اس کے علاوہ تمام ذرائع علم یقین کے اس درجہ سے نیچے ہیں بلکہ ان کی افادیت ” ظن “ سے آگے نہیں بڑھتی اس لیے اگر ایک مرد صالح اپنی قوم یا نوع انسانی کی اصلاح حال کے لیے کوئی قدم اٹھائے تو مقدس سے مقدس تر ہونے کے باوجود اس کے اپنے طریقہ اصلاح میں غلطی کا وقوع اور امکان دونوں موجود رہتے ہیں بلکہ بعض اوقات وہ ایسی فاش غلطی کر گزرتا ہے کہ اس سے فائدہ پہنچنے کے بجائے قوم کو نقصان اٹھانا پڑتا ہے اس لیے ایک نیکوکار مصلح یہ کبھی دعویٰ نہیں کرتا کہ وہ اصلاح حال کے لیے جو کچھ اپنی جانب سے کہتا ہے غلطی سے پاک ہے مگر ایک نبی اور رسول کے لیے از بس ضروری ہے کہ وہ یہ بھی اعلان کرے کہ میں خدا کی جانب سے اصلاح حال کے لیے خدا کا پیغام رساں ہوں اور یہ بھی دعویٰ کرے کہ وہ جو تعلیم و اصلاح پیش کر رہا ہے خدا کا فرمودہ ہے اور اس لیے ہر قسم کی غلطی اور لغزش سے پاک اور محفوظ ہے ‘ وہ یہ نہیں کہے گا کہ یہ میرے دل کی آواز ہے یا اندر سے جو آواز آتی ہے اس کا نتیجہ اور ثمرہ ہے بلکہ صاف صاف یہ کہے گا کہ اس میں میرا اپنا کچھ نہیں میں تو صرف ایلچی اور پیغامبرہوں یہ جو کچھ بھی ہے خدا کا فرمان اور اس کی وحی ہے۔ چنانچہ قرآن عزیز نے جگہ جگہ ان دونوں باتوں کو واضح کیا ہے وہ کہتا ہے کہ ہر ایک پیغمبر کو یہ حکم دیا گیا ہے کہ وہ اعلان کردیں کہ خدا نے ان کو اپنی ہدایت وحی کے لیے چن لیا ہے اور وہ خدا کے پیغمبر ہیں اور یہ بھی حکم دیا گیا ہے کہ جو کچھ ان پر وحی کیا جاتا ہے اس کو حرف بہ حرف امت تک پہنچائیں۔
حضرت نوح (علیہ السلام) اپنی قوم سے خطاب کرتے ہوئے فرماتے ہیں :
{ قَالَ یٰقَوْمِ لَیْسَ بِیْ ضَلٰلَۃٌ وَّ لٰکِنِّیْ رَسُوْلٌ مِّنْ رَّبِّ الْعٰلَمِیْنَ ۔ اُبَلِّغُکُمْ رِسٰلٰتِ رَبِّیْ وَ اَنْصَحُ لَکُمْ وَ اَعْلَمُ مِنَ اللّٰہِ مَا لَا تَعْلَمُوْنَ ۔ } [91]
” (نوح (علیہ السلام) نے) کہا اے میری قوم ! مجھ کو گمراہی سے کوئی واسطہ نہیں ہے بلکہ میں تو تمام کائنات کے پروردگار کی جانب سے بھیجا ہوا ہوں تم تک اپنے پروردگار کی جانب سے پیغام پہنچاتا ہوں اور تمہاری خیر خواہی کرتا ہوں اور میں اللہ کی باتوں میں سے وہ باتیں جانتا ہوں جن سے تم بیخبر ہو۔ “
اور حضرت ہود (علیہ السلام) اور قوم کے درمیان مکالمہ میں حضرت ہود (علیہ السلام) نے یہ اعلان فرمایا :
{ قَالَ یٰقَوْمِ لَیْسَ بِیْ سَفَاھَۃٌ وَّ لٰکِنِّیْ رَسُوْلٌ مِّنْ رَّبِّ الْعٰلَمِیْنَ ۔ اُبَلِّغُکُمْ رِسٰلٰتِ رَبِّیْ وَ اَنَا لَکُمْ نَاصِحٌ اَمِیْنٌ ۔ } [92]
” (ہود (علیہ السلام) نے) کہا : اے میری قوم ! میں بیوقوف نہیں ہوں لیکن میں جہانوں کے پروردگار کی جانب سے بھیجا ہوا ہوں ‘ میں اپنے پروردگار کا پیغام تم تک پہنچاتا ہوں اور میں تمہارا خیر خواہ ہوں اور (پیغام الٰہی اور خیر خواہی میں) صاحب امانت ہوں۔ “
اور صالح (علیہ السلام) نے فرمایا : { قَالَ یٰقَوْمِ لَقَدْ اَبْلَغْتُکُمْ رِسَالَۃَ رَبِّیْ وَ نَصَحْتُ لَکُمْ وَ لٰکِنْ لَّا تُحِبُّوْنَ النّٰصِحِیْنَ } [93]
” (صالح (علیہ السلام) نے ) کہا اے قوم ! بلاشبہ میں نے تم کو اپنے پروردگار کا پیغام پہنچا دیا اور تمہاری خیر خواہی کی مگر تم خیر خواہی کرنے والوں کو ناپسند کرتے ہو۔ “
اور حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے اپنے باپ آزر سے یہ ارشاد فرمایا :
{ وَ اذْکُرْ فِی الْکِتٰبِ اِبْرٰھِیْمَ اِنَّہٗ کَانَ صِدِّیْقًا نَّبِیًّا ۔ اِذْ قَالَ لِاَبِیْہِ یٰٓــاَبَتِ لِمَ تَعْبُدُ مَا لَا یَسْمَعُ وَ لَا یُبْصِرُ وَلَایُغْنِیْ عَنْکَ شَیْئًا ۔ یٰٓاَبَتِ اِنِّیْ قَدْجَآئَنِیْ مِنَ الْعِلْمِ مَا لَمْ یَاْتِکَ فَاتِّبَعْنِیْٓ اَھْدِکَ صِرَاطًا سَوِیًّا ۔ } [94]
” اور یاد کرو کتاب (قرآن) میں ابراہیم کا حال ‘ بلاشبہ تھا وہ بہت ہی صادق اور نبی جب اس نے اپنے باپ سے کہا : اے باپ ! ایسی چیز کی پوجا کیوں کرتا ہے جو نہ سنتی ہے نہ دیکھتی ہے اور نہ تجھ کو کسی (نقصان) سے بےپرواہ کرتی ہے (یعنی بت پرستی کیوں کرتا ہے ؟ ) اے باپ ! بلاشبہ مجھ کو علم (وحی) سے وہ حصہ ملا ہے جو تجھ کو حاصل نہیں ہے پس میری پیروی کر میں تجھ کو سیدھی راہ دکھلاؤں گا۔ “
اور لوط (علیہ السلام) نے اپنی قوم سے مکالمہ کرتے ہوئے یہ فرمایا :
{ اِذْ قَالَ لَہُمْ اَخُوْہُمْ لُوْطٌ اَلَا تَتَّقُوْنَ ۔ اِنِّیْ لَکُمْ رَسُوْلٌ اَمِیْنٌ ۔ فَاتَّقُوا اللّٰہَ وَاَطِیْعُوْنِ } [95]
” جب کہا ان سے ان کے بھائی (لوط) نے کیا تم پرہیزگاری اختیار نہیں کرتے بلاشبہ میں تمہارے لیے خدا کا بھیجا ہوا ہوں (اور اس پیغامبری میں) صاحب امانت ہوں پس اللہ سے ڈرو اور میری پیروی کرو۔ “
اور حضرت یعقوب و یوسف (علیہما السلام) کے ایک طویل حیرت زا واقعہ کے ضمن میں یعقوب (علیہ السلام) کا وہ مقولہ بھی منقول ہے جس میں انھوں نے اپنے بیٹے یوسف (علیہ السلام) کو وحی الٰہی کے ذریعہ یہ بشارت دی ہے کہ جس طرح خدا نے تیرے باپ دادا ‘ ابراہیم ‘ اسماعیل ‘ اسحاق اور یعقوبعلیہم السلام کو پیغمبری عطا فرمائی اسی طرح تجھ کو بھی اس منصب جلیل سے سرفراز کرے گا :
{ وَکَذٰلِکَ یَجْتَبِیْکَ رَبُّکَ وَ یُعَلِّمُکَ مِنْ تَاْوِیْلِ الْاَحَادِیْثِ وَ یُتِمُّ نِعْمَتَہٗ عَلَیْکَ وَ عَلٰٓی اٰلِ یَعْقُوْبَ کَمَآ اَتَمَّھَا عَلٰٓی اَبَوَیْکَ مِنْ قَبْلُ اِبْرٰھِیْمَ وَ اِسْحٰقَ اِنَّ رَبَّکَ عَلِیْمٌ حَکِیْمٌ} [96]
” اور اسی طرح تیرا پروردگار تجھ کو چن لے گا اور تجھ کو تعبیر رویا کا علم بخشے گا اور تجھ پر اپنی نعمت (نبوت) کی تکمیل کرے گا اور اولاد یعقوب پر (جو اس کے اہل ہوں گے) جیسا اس نے اس سے پہلے تیرے باپ دادا ‘ ابراہیم و اسحاق پر اس (نبوت) کو پورا کیا بیشک تیرا پروردگار جاننے والا ہے حکمت والا ہے۔ “
اور پھر حضرت یوسف (علیہ السلام) کی تبلیغ و دعوت اس طرح قرآن میں مذکور ہے :
{ یٰصَاحِبَیِ السِّجْنِ ئَاَرْبَابٌ مُّتَفَرِّقُوْنَ خَیْرٌ اَمِ اللّٰہُ الْوَاحِدُ الْقَھَّارُ ۔ مَا تَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِہٖٓ اِلَّآ اَسْمَآئً سَمَّیْتُمُوْھَآ اَنْتُمْ وَ اٰبَآؤُکُمْ مَّآ اَنْزَلَ اللّٰہُ بِھَا مِنْ سُلْطٰنٍ اِنِ الْحُکْمُ اِلَّا لِلّٰہِ اَمَرَ اَلَّا تَعْبُدُوْٓا اِلَّآ اِیَّاہُ ذٰلِکَ الدِّیْنُ الْقَیِّمُ وَ لٰکِنَّ اَکْثَرَ النَّاسِ لَا یَعْلَمُوْنَ۔ } [97]
” اے میرے قید کے رفیقو ! کیا بہت سے آقا اور خداوند بہتر ہیں یا یکتا خدا کی ذات جو ہر شئے پر غالب ہے تم اس کے سوا جن کو پوجتے ہو ان کی حقیقت اس کے سوا کچھ نہیں کہ چند نام ہیں جو تم نے اور تمہارے باپ داداؤں نے گھڑ گئے ہیں اللہ تعالیٰ نے اس کے لیے کوئی دلیل نہیں اتاری اور حکم تو خدا کے سوا کسی کا نافذ نہیں اس نے یہی حکم دیا ہے کہ اس کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو دین کی سیدھی راہ یہی ہے لیکن اکثر لوگ (اس حقیقت کو) نہیں جانتے۔ “
اور حضرت شعیب (علیہ السلام) نے اصحاب ایکہ کے سامنے یہ اعلان کیا :
{ کَذَّبَ اَصْحٰبُ الْاَیْکَۃِ الْمُرْسَلِیْنَ ۔ اِذْ قَالَ لَہُمْ شُعَیْبٌ اَ لَا تَتَّقُوْنَ ۔ اِنِّیْ لَکُمْ رَسُوْلٌ اَمِیْنٌ ۔ فَاتَّقُوا اللّٰہَ وَاَطِیْعُوْنِ ۔ } [98]
” اصحاب ایکہ نے پیغمبروں کو جھٹلایا جب ان سے شعیب (علیہ السلام) نے کہا : کیا تم خدا سے نہیں ڈرتے بلاشبہ میں تمہارے لیے (خدا کی جانب سے) صاحب امانت پیغامبر ہوں پس اللہ سے ڈرو اور میری پیروی کرو۔ “
اور حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے فرعون کے دربار میں بےدھڑک یہ اعلان فرمایا :
{ وَ قَالَ مُوْسٰی یٰفِرْعَوْنُ اِنِّیْ رَسُوْلٌ مِّنْ رَّبِّ الْعٰلَمِیْنَ ۔ حَقِیْقٌ عَلٰٓی اَنْ لَّآ اَقُوْلَ عَلَی اللّٰہِ اِلَّا الْحَقَّ قَدْ جِئْتُکُمْ بِبَیِّنَۃٍ مِّنْ رَّبِّکُمْ فَاَرْسِلْ مَعِیَ بَنِیْٓ اِسْرَآئِیْلَ۔ } [99]
” اور موسیٰ نے کہا : اے فرعون ! بلاشبہ میں جہانوں کے پروردگار کا پیغمبر ہوں ‘ میرے لیے یہی لائق ہے کہ میں خدا کے بارے میں حق کے سوا کچھ نہ کہوں۔ میں تمہارے پروردگار کی طرف سے ” دلیل “ لے کر آیا ہوں پس تو میرے ساتھ بنی اسرائیل کو (آزاد کرکے) بھیج دے (جن کو صدیوں سے غلام بنا رکھا تھا) “
اور حضرت داؤد و سلیمان (علیہما السلام) کے واقعہ میں سلیمان (علیہ السلام) نے ملکہ سبا کو دعوت اسلام کے لیے جو نامہ مبارک تحریر فرمایا تھا اس کا اسلوب بیان یہ ہے :
{ اِنَّہٗ مِنْ سُلَیْمٰنَ وَاِنَّہٗ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ ۔ اَلَّا تَعْلُوْا عَلَیَّ وَاْتُوْنِیْ مُسْلِمِیْنَ ۔ } [100]
” یہ سلیمان کی جانب سے ہے اور یہ شروع ہے اللہ کے نام سے جو رحمن ہے رحیم ہے بات یہ ہے کہ مجھ پر اپنی بلندی و برتری کا اظہار نہ کر (کیونکہ میں بادشاہ نہیں بلکہ پیغمبر ہوں) اور میرے پاس خدا کی فرمان بردار بندی بن کر حاضر ہو۔ “
اور حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) سے قبل ایک علاقہ میں خدا کے چند نبی دعوت و تبلیغ اسلام کے لیے مامور کئے گئے تھے انھوں نے اپنی قوم سے فرمایا :
{ قَالُوْا رَبُّنَا یَعْلَمُ اِنَّآ اِلَیْکُمْ لَمُرْسَلُوْنَ ۔ وَ مَاعَلَیْنَآ اِلَّا الْبَلٰغُ الْمُبِیْنُ ۔ } [101]
” انھوں نے کہا ہمارا پروردگار (خوب) جانتا ہے کہ بلاشبہ ہم تمہاری جانب اس کے بھیجے ہوئے ہیں اور ہمارے اوپر اس سے زیادہ کوئی ذمہ داری نہیں کہ امر حق کا صاف اور کھلا پیغام پہنچا دیں۔ “
اور حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) نے بار بار بنی اسرائیل کے سامنے یہ اعلان فرمایا کہ میں خدا کا پیغمبر ہوں اور میری بتلائی ہوئی راہ کے سوا کوئی راہ مستقیم نہیں کیونکہ میں جو کچھ بھی پیش کر رہا ہوں خدا کا فرمودہ ہے :
{ قَالَ اِنِّیْ عَبْدُ اللّٰہِ اٰتٰنِیَ الْکِتٰبَ وَ جَعَلَنِیْ نَبِیًّا } [102]
” (عیسیٰ (علیہ السلام) نے) کہا بلاشبہ میں اللہ کا بندہ ہوں اس نے مجھ کو ” کتاب “ عطا کی ہے اور اس نے مجھ کو نبی بنایا ہے۔ “
{ وَاِذْ قَالَ عِیْسَی ابْنُ مَرْیَمَ یٰـبَنِیْ اِسْرَآئِیلَ اِنِّیْ رَسُوْلُ اللّٰہِ اِلَیْکُمْ } [103]
” جب کہا عیسیٰ بن مریم نے اے بنی اسرائیل ! بلاشبہ میں تمہاری جانب خدا کی جانب سے بھیجا ہوا ہوں (رسول ہوں) “
اور خاتم الانبیاء محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی دعوت و تبلیغ میں تو جگہ جگہ یہ حقیقت بہت نمایاں نظر آتی ہے :
{ یٰٓاَیُّھَا النَّبِیُّ اِنَّـآ اَرْسَلْنٰکَ شَاھِدًا وَّ مُبَشِّرًا وَّ نَذِیْرًا ۔ وَّ دَاعِیًا اِلَی اللّٰہِ بِاِذْنِہٖ وَ سِرَاجًا مُّنِیْرًا۔ } [104]
” اے نبی بلاشبہ ہم نے تجھ کو (حق کے لئے) گواہ اور نیک عملی کے لیے بشارت دینے والا اور (بد عملی کے نتائج سے) ڈرانے والا اور خدا کے حکم سے اس کی جانب بلانے والا اور (ہدایت و صراط مستقیم کے لئے) روشن چراغ بنایا ہے۔ “
{ قُلْ یٰٓـاَیُّھَا النَّاسُ اِنِّیْ رَسُوْلُ اللّٰہِ اِلَیْکُمْ جَمِیْعَانِ الَّذِیْ لَہٗ مُلْکُ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ لَآ اِلٰہَ اِلَّا ھُوَ یُحْیٖ وَ یُمِیْتُ فَاٰمِنُوْا بِاللّٰہِ وَ رَسُوْلِہِ النَّبِیِّ الْاُمِّیِّ الَّذِیْ یُؤْمِنُ بِاللّٰہِ وَ کَلِمٰتِہٖ وَ اتَّبِعُوْہُ لَعَلَّکُمْ تَھْتَدُوْنَ } [105]
” (اے محمد) کہہ دیجئے اے لوگو ! بیشک میں تم سب کی جانب اللہ کا بھیجا ہوا ہوں اسی کے لیے ہے بادشاہت آسمانوں کی اور زمین کی ‘ کوئی خدا نہیں ہے مگر صرف وہی یکتا ذات ‘ وہی زندگی بخشتا ہے اور وہی موت دیتا ہے پس ایمان لاؤ اللہ پر اور اس کے رسول نبی امی پر جو خود اللہ پر اور اس کی باتوں پر ایمان لاتا ہے اور اس کی پیروی کرو تاکہ تم راہ پاؤ۔ “
{ اِنَّ الدِّیْنَ عِنْدَ اللّٰہِ الْاِسْلَامُ } [106]
” بلاشبہ اللہ کے نزدیک (ہمیشہ سے) دین (حق) اسلام ہی ہے۔ “
{ وَ مَنْ یَّبْتَغِ غَیْرَ الْاِسْلَامِ دِیْنًا فَلَنْ یُّقْبَلَ مِنْہُ } [107]
” جو شخص اسلام کے ماسوا کو دین بنانا چاہے تو خدا کے یہاں وہ مقبول نہیں ہے۔ “
غرض پیغمبر اور نبی کے لیے از بس ضروری ہے کہ وہ اپنی دعوت اصلاح اور تعلیم حق پر خود بھی ایمان لائے اور کائنات کے سامنے بھی یہ اعلان کرے کہ یہ پیغام ہدایت اور یہ تعلیم حق میری جانب سے نہیں بلکہ خدا کی جانب سے ہے اور اسی نے مجھ کو اپنا ایلچی بنا کر اس کی دعوت کے لیے بھیجا ہے یہ جو کچھ ہے سب خدا کا اپنا ہے میں تو صرف اس کی جانب پکارنے والا ہوں اور اس میں شک و شبہ کا کوئی سوال ہی نہیں ہے اور یہ ہر قسم کی لغزش و خطا سے پاک علم یقین اور وحی الٰہی ہے جس کے متعلق خدا کا یہ فیصلہ ہے ۔
{ لَا یَاْتِیْہِ الْبَاطِلُ مِنْم بَیْنِ یَدَیْہِ وَلَا مِنْ خَلْفِہٖ تَنْزِیْلٌ مِّنْ حَکِیْمٍ حَمِیْدٍ } [108]
اور { وَمَا یَنْطِقُ عَنِ الْہَوٰی ۔ اِنْ ہُوَ اِلَّا وَحْیٌ یُّوْحٰی ۔ } [109]
لیکن ” مصلح غیر نبی “ کو یہ مجاز حاصل نہیں ہے کہ وہ اپنی دعوت اصلاح کے بارے میں یہ دعویٰ کرے کیونکہ اس کی یہ دعوت اصلاح یا کسی پیغمبر اور نبی کی ہدایت وحی کی پیروی میں ہوگی تب تو اس کی حیثیت ایک یاد دہانی کرنے والے کی ہے اور یا ہدایت وحی کے اتباع کے ساتھ اس کے اپنے اجتہاد اور ضمیر کی آواز کا بھی دخل ہوگا تو اس کے اس حصہ اصلاح کا لغزش ‘ خطا بلکہ بعض اوقات غلط روی سے بھی محفوظ رہنا لازمی اور ضروری نہیں ہے۔

کیفیت وحی

وحی سے متعلق جو حقائق سپرد قلم ہوچکے ہیں ان میں ایک یہ اضافہ بھی قابل توجہ ہے : عربی میں وحی کے معنی مخفی اشارہ کے ہیں گویا یہ فطرت الٰہی کی وہ سرگوشی ہے جو ہر ایک مخلوق پر اس کی راہ عمل کھولتی ہے چنانچہ قرآن نے شہد کی مکھی کے نظام بیت کے متعلق فطری ہدایت کو لفظ وحی سے ہی تعبیر کیا ہے :
{ وَ اَوْحٰی رَبُّکَ اِلَی النَّحْلِ اَنِ اتَّخِذِیْ مِنَ الْجِبَالِ بُیُوْتًا وَّ مِنَ الشَّجَرِ وَ مِمَّا یَعْرِشُوْنَ } [110]
” اور تیرے پروردگار نے شہد کی مکھی کے دل میں یہ بات ڈال دی کہ پہاڑوں میں اور درختوں میں اور ان ٹٹیوں میں جو اسی غرض سے بلند کی جاتی ہیں اپنے لیے چھتے بنائے۔ “
اور مذہب و دین کی اصطلاح میں اس الہام کو کہتے ہیں جو خدائے برتر کی جانب سے نبی اور پیغمبر پر اس طرح القا یا فرشتہ کے ذریعہ نازل کیا جاتا ہے کہ اس مقدس ہستی کو اس کے منجانب اللہ ہونے کا روز روشن سے بھی زیادہ یقین حاصل ہوجاتا ہے اور کسی قسم کے بھی شک و شبہ اور تردد کی گنجائش باقی نہیں رہتی اور اسی لیے وہ تحدی کے ساتھ یہ دعویٰ کرتا ہے کہ یہ خدا کی وحی اور اس کا بخشا ہوا علم یقین ہے نزول وحی کی یہ صورت کس طرح پیش آتی ہے اور کون سے وہ طریقے ہیں جن کے ذریعہ نبی معصوم کو خدا کی وحی کا علم ہوتا ہے ؟ قرآن عزیز اس کے متعلق یہ کہتا ہے :
{ وَمَا کَانَ لِبَشَرٍ اَنْ یُّکَلِّمَہُ اللّٰہُ اِلَّا وَحْیًا اَوْ مِنْ وَّرَائِ حِجَابٍ اَوْ یُرْسِلَ رَسُوْلًا فَیُوْحِیَ بِاِذْنِہٖ مَا یَشَائُ اِنَّہٗ عَلِیٌّ حَکِیْمٌ} [111]
” اور کسی انسان کے لیے یہ صورت ممکن نہیں کہ اللہ تعالیٰ اس سے (اس دنیا میں بالمواجہہ) گفتگو کرے مگر یا وحی (کے القاء) کے ذریعہ یا پس پردہ یا بھیج دے فرشتہ کو پس وہ اس کی (خدا کی) اجازت سے اس پر وحی لا اتارے جو اس کی (خدا کی) مرضی ہو بلاشبہ وہ (خدا) بلند وبالا حکمت والا ہے۔ “
غرض وحی ایک خاص ذریعہ علم کا نام ہے جو خدا کی جانب سے اس کے نبیوں اور رسولوں کے لیے مخصوص ہے اور اس کا تعلق براہ راست عالم قدس اور عالم غیب سے ہے اسی بنا پر اگرچہ انبیاء و رسل کو اس کی معرفت اور اس کے منجانب اللہ ہونے کا یقین کامل آفتاب عالم تاب سے زیادہ بدیہی ہوتا ہے لیکن وہ اس کی حقیقی کیفیت کو دوسروں پر تشبیہ و تمثیل ہی کے ذریعہ واضح کرسکتے ہیں۔
چنانچہ جب بعض صحابہ (رضوان اللہ تعالیٰ علیہم) عنم و رضوا عنہ نے حضرت اقدس (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے نزول وحی کی کیفیت کے متعلق سوالات کئے تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ جوابات ارشاد فرمائے :
( (اَحْیَانَا یَاتِیْنِیْ کَصَلْصَلَۃِ الْجَرَسِ ))
” کبھی یوں معلوم ہوتا ہے گویا گھنٹہ کی مسلسل گونج ہے۔ “
( (دَوَیٌّ کَدَوِیٍّ النَّحْلِ ))
” (کبھی) جس طرح شہد کی مکھیوں کی بھنبھناہٹ سے گونج پیدا ہوتی ہے اس طرح کی گونج محسوس کرتا ہوں۔ “
( (وَاَحْیَانَا یَتَمَثَّلُ لِیَ الْمَلَکُ رَجُلًا فَاَعِیْ مَا یَقُوْل))
” اور (کبھی) ایسا ہوتا ہے کہ فرشتہ انسان کی شکل میں ظاہر ہو کر مجھ کو خدا کی وحی سناتا ہے اور میں اس کو محفوظ کرلیتا ہوں۔ “
ان جوابات میں کیفیت وحی کو اگرچہ قریب الفہم بنانے کی کافی کوشش کی گئی ہے پھر بھی یہ تسلیم کرنا پڑتا ہے کہ حقیقی کیفیت کو خدا اور خدا کے پیغمبر کے علاوہ دوسرا کوئی نہیں پاسکتا اور پیغمبر اس حقیقت کا اذعان اور اس کے منجانب اللہ ہونے پر غیر متبدل یقین تو رکھتا ہے لیکن غیر نبی پر حقیقی کیفیت کو واضح کرنے سے معذور ہے اور یہ کوئی تعجب کی بات نہیں ہے اس لیے کہ یہ صورت حال تو دنیا کی بن دیکھی اشیاء کے بارے میں بھی صبح سے شام تک ہم مشاہدہ کرتے رہتے ہیں۔
مثلاً جس شخص نے سیب کو نہیں دیکھا اور نہیں چکھا اس کے سامنے دیکھنے اور چکھ لینے والا اگرچہ سیب کی حقیقت کا بہتر سے بہتر نقشہ بھی پیش کر دے اور اس کے رنگ ‘ مزہ ‘ خوشبو ‘ لطافت وغیرہ کی تعبیر بحد کمال بھی پہنچا دے تب بھی وہ شخص سیب کو آنکھ سے دیکھنے اور زبان سے چکھ لینے والے کے مقابلہ میں کسی طرح اس کی حقیقی کیفیت سے آگاہ نہیں ہوسکتا وہ بلاشبہ سیب کے متعلق صحیح علم تو حاصل کرسکتا ہے لیکن حقیقی ذوق کو ہرگز نہیں پاسکتا ‘ اسی طرح نبی کی تعلیم و تلقین سے ہم وحی کے متعلق ایک اجمالی علم ضرور حاصل کرلیتے ہیں لیکن اس کی حقیقی کیفیت کو نہیں پاسکتے۔
نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے قرآن میں مسطور ہر سہ اقسام وحی میں سے پہلی قسم ” اِلَّا وَحْیًا “ کے متعلق یہ بھی ارشاد فرمایا ہے :
وَھُوَ اَشَدُّہٗ عَلَیَّ فَیَفْصِمُ عَنِّیْ وَقَدْ وَعِیْتُ مَا قَالَ ” اور وحی کی یہ صورت مجھ پر بہت سخت گزرتی ہے پھر جب یہ کیفیت ختم ہوجاتی ہے تو وحی الٰہی نے جو کچھ کہا ہوتا ہے وہ سب مجھے محفوظ ہوتا ہے۔
“ یعنی جب فرشتہ بشکل انسان تمثل اختیار کرکے وحی الٰہی لاتا ہے یا مِنْ وَّرَائِ حِجَابٍ براہ راست خدائے برتر سے ہم کلامی کا شرف حاصل ہوتا ہے تو یہ دونوں صورتیں آپ پر آسان ہوتی ہیں مگر ”
القائے وحی “ کی پہلی شکل سخت گزرتی ہے ایسا کیوں ہوتا ہے ؟ اس کے متعلق علمائے حق یہ ارشاد فرماتے ہیں :
خالق کائنات نے انسان کو لوازم بشریت کی قیود و شروط کے ساتھ اس درجہ پابند بنادیا ہے کہ انبیاء و رسل جیسی مقدس اور معصوم ہستیوں کو بھی اپنی تطہیر و تقدیس کے باوجود ان اثرات سے متاثر ہوئے بغیر کوئی چارہ کار نہیں ہے اس لیے جب ان پر خدا کی وحی کا نزول ہوتا اور ایسی حالت میں ان پر عالم قدس کے تمام اثرات چھا جاتے اور انوار و تجلیات کی آغوش میں وہ حضرت حق سے ہم کلامی کا شرف حاصل کرتے ہیں تو اس حالت میں ان پر دو قسم کی کیفیتوں میں سے ایک کیفیت ضرور طاری ہوتی ہے ‘ ایک یہ کہ اس کے بشری خواص کو مغلوب کرکے اس کی روحانی کیفیات کو عالم قدس کی جانب اس درجہ بلند اور رفیع کیا جائے کہ وہ حضرت حق کی وحی کے اثرات قبول کرنے اور محفوظ رکھنے کے قابل ہو سکے اور چونکہ جذب و انجذاب کی اس خاص حالت اور عالم آب و گل سے عالم قدس کی جانب اس مخصوص رفعت میں بشری خصوصیات اور روحانی موثرات کے درمیان سخت قسم کا تصادم پیدا ہوجاتا ہے اس لیے اس تصادم اور تزاحم سے نبی پر ابتدائً ایک اضطرابی کیفیت طاری ہوجاتی ہے اور آہستہ آہستہ جب یہ تصادم ختم ہو کر عالم قدس کے تمام پاک اور لطیف اثرات اس ہستی پر چھا جاتے ہیں اور وہ ان میں محو اور مستغرق ہو کر لذت وحی کو پا جاتی ہے تو پھر یہ اذیت و تکلیف یکلخت جاتی رہتی ہے اور اس کی مسرت کی کوئی انتہا نہیں رہتی اور یہ سب کچھ چند دقیقوں میں ہو گزرتا ہے۔ یہی وہ صورت وحی ہے جس کی کیفیات کو ذات اقدس (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے صَلْصَلَۃَ الْجَرَسِ اور دَوَیُّ النَّحْلِ کی تمثیلات میں سمجھانے کی کوشش فرمائی ہے تمثیلات میں اس پہلو کے اختیار کرنے کی وجہ بھی مسطورہ بالا حقیقت ہے اس لیے کہ اس صورت خاص میں جب بشری حواس و ادراکات پر عالم قدس کے روحانی اثرات کا غلبہ ہوتا ہے تو اول حواس و ادراکات میں اضطراب و بےچینی پیدا ہوجاتی ہے اور حاسہ سمع کہ جس کا تعلق سماعت وحی سے ہے وہ شروع میں ایک خاص قسم کی گونج محسوس کرتا ہے جو اس عالم پست سے دور کا بھی تعلق نہیں رکھتی اور اس کے بعد وہ وحی الٰہی کی اصل کیفیت سے لذت اندوز ہوتا اور اس کو علم یقین اور اذعان حق کے ساتھ لیتا ہے کیونکہ عالم قدس کے قوی موثرات اس پر غالب آ کر وحی الٰہی کے حصول کا ہر طرح اہل بنا دیتے ہیں مگر دوسروں پر اس حقیقت کے تمام و کمال سمجھانے میں ان علامات و اثرات کے اظہار سے آگے نہیں جاتا جن کو ابھی صَلْصَلَۃُ الْجَرَسُ اور دَوِیُّ النَّحْلِ کی تعبیرات میں سن چکے ہو وحی الٰہی کی اس نوع کے علاوہ دوسری ہر دو انواع یعنی و رائے حجاب کلام الٰہی کی سماعت یا فرشتہ کے ذریعہ وحی کے نزول میں صورت حال برعکس ہوتی ہے اور اس وقت نبی کے بشری خواص کو عالم قدس کی جانب رفعت دینے اور عالم خاک وگل سے عالم نور کی جانب جذب انجذاب سے متاثر کرنے کی تکلیف نہیں دی جاتی بلکہ عالم قدس کی تمام کیفیات خود ہبوط و نزول کرتی اور نبی کی روحانیت کو متاثر بناتی ہیں اور یا فرشتہ بحکم حضرت حق اپنے ملکوتی جسد کو جامہ انسانیت کے ساتھ متمثل کرلیتا اور عالم قدس کے اثرات اور بشری خواص میں امتزاج پیدا کرکے نبی کے حضور حاضر ہوتا اور وحی الٰہی کی تلاوت کرتا ہے اور اس لیے ان دونوں صورتوں میں نبی اور رسول کو پہلی قسم کے تصادم سے دو چار ہونا نہیں پڑتا۔

مخالفت

جیسے جیسے اسلام قبول کرنے والوں کی تعداد بڑھتی جا رہی تھی مقامی قبیلوں اور لیڈروں نے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو اپنے لیے خطرہ سمجھنا شروع کر دیا۔ ان کی دولت اور عزت کعبہ کی وجہ سے تھی۔ اگر وہ اپنے بت کعبے سے باہر پھینک کر ایک اللہ کی عبادت کرنے لگتے تو انہیں خوف تھا کہ تجارت کا مرکز ان کے ہاتھ سے نکل جائے گا۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو اپنے قبیلے سے بھی مخالفت کا سامنا کرنا پڑا کونکہ وہ ہی کعبے کے رکھوالے تھے۔ قبائل نے ایک معاہدہ کے تحت مسلمانوں کا معاشی اور معاشرتی بائیکاٹ کیا یہاں تک کہ مسلمان تین سال شعبِ ابی طالب میں محصور رہے۔ یہ بائیکاٹ اس وقت ختم ہوا جب کعبہ پر لٹکے ہوئے معاہدے میں یہ دیکھا گیا کہ لفظ 'اللہ' کے علاوہ تمام حروف دیمک کی وجہ سے کھائے گئے ہیں۔ جب مخالفت حد سے بڑھ گئی تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اپنے ساتھیوں کو حبشہ جہاں ایک عیسائی بادشاہ نجاشی حکومت کرتا تھا کی طرف ہجرت کرنے کی اجازت دے دی۔

619ء میں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی بیوی حضرت خدیجہ اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے پیارے چچا حضرت ابوطالب انتقال فرما گئے۔ اسی لیے حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اس سال کو عام الحزن یعنی دکھ کا سال قرار دیا۔

معراج

 
مسجدِ اقصیٰ، جہاں سے سفرِ معراج کی ابتداء ہوئی

620ء میں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم معراج پر تشریف لے گئے۔ اس سفر کے دوران میں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم مکہ سے مسجد اقصیٰ گئے اور وہاں تمام انبیائے کرام کی نماز کی امامت فرمائی۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم آسمانوں میں اللہ تعالٰی سے ملاقات کرنے تشریف لے گئے۔ وہاں اللہ تعالٰی نے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو جنت اور دوزخ دکھائی۔ وہاں آپ کی ملاقات مختلف انبیائے کرام سے بھی ہوئی۔ اسی سفر میں نماز بھی فرض ہوئی۔۔[112]

مدنی زندگی

ہجرت

622ء تک مسلمانوں کے لیے مکہ میں رہنا ممکن نہیں رہا تھا۔ کئی دفعہ مسلمانوں اور خود حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو تکالیف دیں گئیں۔ اس وجہ سے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے مسلمانوں کو مدینہ ہجرت کرنے کی اجازت دے دی۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اللہ کے حکم سے حضرت ابوبکر کے ساتھ ستمبر 622ء میں مدینہ کی طرف روانہ ہوئے اور مکہ میں اپنی جگہ حضرت علی بن ابی طالب علیہ السلام کو امانتوں کی واپسی کے لیے چھوڑا۔ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے مدینہ پہنچنے پر انصار نے ان کا شاندار استقبال کیا اور اپنے تمام وسائل پیش کر دیے۔ جب آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم مدینہ پہنچے تو انصار استقبال کے لیے آئے اور خواتین چھتوں پر سے دیکھ رہی تھیں۔ اور دف بجا کر کچھ اشعار پڑھ رہی تھیں جن کا ترجمہ یہ ہے۔

ہم پر چودھویں کی رات کا چاند طلوع ہو گیا وداع کی پہاڑیوں سے ہم پر شکر واجب ہے جب تک کوئی اللہ کو پکارنے والا باقی رہے۔

آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی اونٹنی حضرت ابو ایوب انصاری کے گھر کے سامنے رکی اور حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ان کے گھر قیام فرمایا۔ جس جگہ اونٹنی رکی تھی اسے حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے قیمتاً خرید کر ایک مسجد کی تعمیر شروع کی جو مسجد نبوی کہلائی۔ اس تعمیر میں انہوں نے خود بھی حصہ لیا۔ یہاں حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے مسلمانوں کے درمیان میں عقدِ مؤاخات کیا یعنی مسلمانوں کو اس طرح بھائی بنایا کہ انصار میں سے ایک کو مہاجرین میں سے ایک کا بھائی بنایا۔ خود حضرت علی علیہ السلام کو اپنا بھائی قرار دیا۔ انصار نے مہاجرین کی مثالی مدد کی۔ ہجرت کے ساتھ ہی اسلامی تقویم کا آغاز بھی ہوا۔ آپ کے مدینہ آنے سے، اوس اور خزرج، یہاں کے دو قبائل جن نے بعد میں اسلام قبول بھی کیا میں لڑائی جھگڑا ختم ہوا اور ان میں اتحاد اور بھائی چارہ پیدا ہو گیا۔ اس کے علاوہ یہاں کچھ یہودیوں کے قبائل بھی تھے جو ہمیشہ فساد کا باعث تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے آنے کے بعد یہودیوں اور مسلمانوں کے درمیان میں ہونے والے معاہدہ 'میثاق مدینہ' نے مدینہ میں امن کی فضا پیدا کر دی۔ اسی دور میں مسلمانوں کو کعبہ کی طرف نماز پڑھنے کا حکم دیا گیا، اس سے پہلے مسلمان بیت المقدس کی طرف منہ کر کے نماز ادا کرتے تھے جو یہودیوں کا بھی قبلہ تھا۔

میثاقِ مدینہ

میثاق مدینہ کو بجا طور پر تاریخ انسانی کا پہلا تحریری دستور قرار دیا جا سکتا ہے۔ یہ 730 الفاظ پر مشتمل ایک جامع دستور ہے جو ریاست مدینہ کا آئین تھا۔ 622ء میں ہونے والے اس معاہدے کی 53دفعات تھیں۔ یہ معاہدہ اور تحریری دستور مدینہ کے قبائل (بشمول یہود و نصاریٰ) کے درمیان میں جنگ نہ کرنے کا بھی عہد تھا۔ معاہدے کا بکثرت ثبوت پوری تفصیل کے ساتھ کتبِ تواریخ میں ملتا ہے مگر اس کے باوجود مغربی مصنفین اسے نظر انداز کرنے کی ناکام کوشش کرتے ہیں۔[113][114][115][116][117][118][119]

یہود و مشرکین کی سازشیں

میثاقِ مدینہ کے بعد یہود مجبور تھے کہ وہ علی الاعلان حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور اسلام کے خلاف بات نہ کر سکتے تھے اسی لیے انہوں نے خفیہ سازشیں شروع کیں جن میں سے ایک ادب اور اظہارِ آزادی کی آڑ میں حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی ذاتِ گرامی حملہ کرنا تھا۔ عرب لوگ جو شعر و شاعری کے بڑے خوگر تھے ان کے لیے شاعری کے ذریعے حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی ہتک کرنے کی کوشش کی گئی کیونکہ اسلام میں ایمان اس وقت تک مکمل نہیں ہوتا جب تک حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی ذات کی اہمیت و درجہ مال و جان و اولاد سے زیادہ نہ ہوجائے۔ اس سلسلے میں تین شعرا نے حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے خلاف ہجو لکھیں۔ ایک کا نام کعب بن الاشرف تھا جو یہودی تھا دوسری کا نام اسماء بنت مروان تھا اور تیسرے کا نام ابوعفک تھا۔ جب وہ شاعر حد سے گزر گئے اور ان کے رکیک اشعار سے حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو شدید رنج پہنچا تو ان تینوں کو انہی کے قبیلے کے افراد نے قتل کر ڈالا۔ کعب بن الاشرف کو ان کی ایک رشتہ دار ابونائلہ نے قتل کیا۔ اسماء بنت مروان کو ان کے ہم قبیلہ ایک نابینا صحابی عمیر بن عوف نے قتل کر دیا۔ ابو عفک کو حضرت سالم بن عمیر نے قتل کیا۔[120]

جنگیں

مدینہ میں ایک ریاست قائم کرنے کے بعد مسلمانوں کو اپنے دفاع کی کئی جنگیں لڑنا پڑیں۔ ان میں سے جن میں حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم شریک تھے انہیں غزوہ کہتے ہیں اور جن میں وہ شریک نہیں تھے انہیں سریہ کہا جاتا ہے۔ اہم غزوات یا سریات درج ذیل ہیں۔

  • غزوہ بدر : 17 رمضان (17 مارچ 624ء) کو بدر کے مقامات پر مسلمانوں اور مشرکینِ مکہ کے درمیان میں غزوہ بدر ہوئی۔ مسلمانوں کی تعداد 313 جبکہ کفار مکہ کی تعداد 1300 تھی۔ مسلمانوں کو جنگ میں فتح ہوئی۔ 70 مشرکینِ مکہ مارے گئے جن میں سے 36 حضرت علی علیہ السلام کی تلوار سے ہلاک ہوئے۔ مشرکین 70 جنگی قیدیوں کو چھوڑ کر بھاگ گئے۔ مسلمان شہداء کی تعداد 14 تھی۔ جنگ میں فتح کے بعد مسلمان مدینہ میں ایک اہم قوت کے طور پر ابھرے۔
  • غزوہ احد :7 شوال (23 مارچ 625ء) میں ابوسفیان کفار کے 3000 نفری لشکر کے ساتھ مدینہ پر حملہ آور ہوا۔ احد کے پہاڑ کے دامن میں ہونے والی یہ جنگ غزوہ احد کہلائی۔ آپ نے مسلمانوں کے ایک گروہ کو ایک ٹیلے پر مقرر فرمایا تھا اور یہ ہدایت دی تھی کہ جنگ کا جو بھی فیصلہ ہو وہ اپنی جگہ نہ چھوڑیں۔ ابتدا میں مسلمانوں نے کفار کو بھاگنے پر مجبور کر دیا۔ ٹیلے پر موجود لوگوں نے بھی یہ سوچتے ہوئے کہ فتح ہو گئی ہے کفار کا پیچھا کرنا شروع کر دیا یا مالِ غنیمت اکٹھا کرنا شروع کر دیا۔ خالد بن ولید نے جو ابھی مسلمان نہیں ہوئے تھے اس بات کا فائدہ اٹھایا اور مسلمانوں پر پچھلی طرف سے حملہ کر دیا۔ یہ حملہ اچانک تھا۔ مسلمانوں کو اس سے کافی نقصان ہوا لیکن کفار چونکہ پیچھے ہٹ چکے تھے اس لیے واپس چلے گئے۔ اس جنگ سے مسلمانوں کو یہ سبق ملا کہ کسی بھی صورت میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے حکم کی خلاف ورزی نہ کریں۔
  • غزوہ خندق (احزاب): شوال۔ ذی القعدہ (مارچ 627ء) میں مشرکینِ مکہ نے مسلمانوں سے جنگ کی ٹھانی مگر مسلمانوں نے حضرت سلمان فارسی کے مشورہ سے مدینہ کے ارد گرد ایک خندق کھود لی۔ مشرکینِ مکہ ان کا کچھ نہ بگاڑ سکے۔ خندق کھودنے کی عرب میں یہ پہلی مثال تھی کیونکہ اصل میں یہ ایرانیوں کا طریقہ تھا۔ ایک ماہ کے محاصرے اور اپنے کئی افراد کے قتل کے بعد مشرکین مایوس ہو کر واپس چلے گئے۔ بعض روایات کے مطابق ایک آندھی نے مشرکین کے خیمے اکھاڑ پھینکے۔
  • غزوہ بنی قریظہ: ذی القعدہ۔ ذی الحجہ (اپریل 627ء) کو یہ جنگ ہوئی۔ مسلمانوں کو فتح حاصل ہوئی۔
  • غزوہ بنی مصطلق: شعبان (دسمبر 627ء۔ جنوری 628ء) میں یہ جنگ بنی مصطلق کے ساتھ ہوئی۔ مسلمان فتح یاب ہوئے۔
  • غزوہ خیبر: محرم (مئی 628ء) میں مسلمانوں اور یہودیوں کے درمیان یہ جنگ ہوئی جس میں مسلمان فتح یاب ہوئے۔
  • جنگِ موتہ: 5 جمادی الاول (اگست۔ ستمبر 629ء) کو موتہ کے مقام پر یہ جنگ ہوئی۔ اس میں حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم شریک نہیں ہوئے تھے اس لیے اسے غزوہ نہیں کہتے۔
  • غزوہ فتح (فتحِ مکہ): رمضان 8ھ (جنوری 630ء) میں مسلمانوں نے مکہ فتح کیا۔ جنگ تقریباًً نہ ہونے کے برابر تھی کیونکہ مسلمانوں کی ہیبت سے مشرکینِ مکہ ڈر گئے تھے۔ اس کے بعد مکہ کی اکثریت مسلمان ہو گئی تھی۔
  • غزوہ حنین: شوال (جنوری۔ فروری 630ء) میں یہ جنگ ہوئی۔ پہلے مسلمانوں کو شکست ہو رہی تھی مگر بعد میں وہ فتح میں بدل گئی۔
  • غزوہ تبوک: رجب (اکتوبر 630ء) میں یہ افواہ پھیلنے کے بعد کہ بازنطینیوں نے ایک عظیم فوج تیار کر کے شام کے محاذ پر رکھی ہے اور کسی بھی وقت حملہ کیا جا سکتا ہے، مسلمان ایک عظیم فوج تیار کر کے شام کی طرف تبوک کے مقام پر چلے گئے۔ وہاں کوئی دشمن فوج نہ پائی اس لیے جنگ نہ ہو سکی مگر اس علاقے کے کئی قبائل سے معاہدے ہوئے اور جزیہ ملنے لگا اور مسلمانوں کی طاقت کے چرچے عرب میں دور دور تک ہو گئے۔

صلح حدیبیہ

مدینہ اورمشرکینِ مکہ کے درمیان مارچ 628ء کو ایک معاہدہ ہوا جسے صلح حدیبیہ (عربی میں صلح الحديبيۃ) کہتے ہیں۔ 628ء (6 ھجری) میں 1400 مسلمانوں کے ہمراہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم مدینہ سے مکہ کی طرف عمرہ کے ارادہ سے روانہ ہوئے۔ عرب کے رواج کے مطابق غیر مسلح افراد چاہے وہ دشمن کیوں نہ ہوں کعبہ کی زیارت کر سکتے تھے جس میں رسومات بھی شامل تھیں۔ یہی وجہ تھی کہ مسلمان تقریباًً غیر مسلح تھے۔ مگر عرب کے رواج کے خلاف مشرکینِ مکہ نے حضرت خالد بن ولید (جو بعد میں مسلمان ہو گئے) کی قیادت میں دو سو مسلح سواروں کے ساتھ مسلمانوں کو حدیبیہ کے مقام پر مکہ کے باہر ہی روک لیا۔ اس وقت تک مسلمان انتہائی طاقتور ہو چکے تھے مگر یہ یاد رہے کہ اس وقت مسلمان جنگ کی تیاری کے ساتھ نہیں آئے تھے۔ اسی لیے بعض لوگ چاہتے تھے کہ جنگ ضرور ہو۔ خود مسلمانوں میں ایسے لوگ تھے جن کو معاہدہ کی شرائط پسند نہیں تھیں۔ مثلاً اگر کوئی مسلمان مکہ کے لوگوں کے کے پاس چلا جائے تو اسے واپس نہیں کیا جائے گا مگر کوئی مشرک مسلمان ہو کر اپنے بزرگوں کی اجازت کے بغیر مدینہ چلا جائے تو اسے واپس کیا جائے گا۔ مگر حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی دانشمندی سے صلح کا معاہدہ ہو گیا۔ اس کی بنیادی شق یہ تھی کہ دس سال تک جنگ نہیں لڑی جائے گی اور مسلمان اس سال واپس چلے جائیں گے اور عمرہ کے لیے اگلے سال آئیں گے۔ چنانچہ مسلمان واپس مدینہ آئے اور پھر 629ء میں حج کیا۔ اس معاہدہ سے پہلے جب مسلمانوں کے ایک نمائندے کو مشرکین نے روک لیا تھا تو حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے مسلمانوں سے اپنی بیعت بھی لی جسے بیعتِ رضوان کہا جاتا ہے۔ اس بیعت میں مسلمانوں نے عہد کیا کہ وہ مرتے دم تک حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا ساتھ نہیں چھوڑیں گے۔ اس معاہدہ کے بہت سود مند اثرات برآمد ہوئے۔

حکمرانوں کو خطوط

صلح حدیبیہ کے بعد محرم 7ھ میں حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے مختلف حکمرانوں کو خطوط لکھے اور اپنے سفیروں کو ان خطوط کے ساتھ بھیجا۔ ان خطوط میں اسلام کی دعوت دی گئی۔ ان میں سے ایک خط ترکی کے توپ کاپی نامی عجائب گھر میں موجود ہے۔ ان حکمرانوں میں فارس کا بادشاہ خسرو پرویز، مشرقی روم (بازنطین) کا بادشاہ ھرکولیس، حبشہ کا بادشاہ نجاشی، مصر اور اسکندریہ کا حکمران مقوقس اور یمن کا سردار شامل ہیں۔ پرویز نے یہ خط پھاڑ دیا تھا اور بعض روایات کے مطابق حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے پیشینگوئی کی تھی کہ اس کی سلطنت اسی طرح ٹکرے ٹکرے ہو جائے گی۔ نجاشی نے حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی نبوت کی تصدیق کی اور کہا کہ ہمیں انجیل میں ان کے بارے میں بتایا گیا تھا۔ مصر اور اسکندریہ کے حکمران مقوقس نے نرم جواب دیا اور حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی خدمت میں کچھ تحائف روانہ کیے اور حضرت ماریہ قبطیہ کو روانہ کیا جن سے حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے بیٹے ابراہیم کی ولادت ہوئی۔۔[121]

فتح مکہ

اگرچہ صلح حدیبیہ کی مدت دس سال طے کی گئی تھی تاہم یہ صرف دو برس ہی نافذ رہ سکا۔ بنو قزع کا حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے اتحاد تھا جبکہ ان کے مخالف بنو بکر قریش مکہ کے ساتھ تھے۔ ایک رات بنو بکر کے کچھ آدمیوں نے شب خون مارتے ہوئے بنو قزع کے کچھ لوگ قتل کر دیے۔ قریش نے ہتھیاروں کے ساتھ اپنے اتحادیوں کی مدد کی جبکہ بعض روایات کے مطابق چند قریش بذات خود بھی حملہ آروں میں شامل تھے۔ اس واقعہ کے بعد نبی اکرم نے قریش کو ایک تین نکاتی پیغام بھیجا اور کہا کہ ان میں سے کوئی منتخب کر لیں: 1۔ قریش بنو قزعہ کو خون بہا ادا کرے، 2۔ بنو بکر سے تعلق توڑ لیں، 3۔ صلح حدیبیہ کو کالعدم قرار دیں۔

قریش نے جواب دیا کہ وہ صرف تیسری شرط تسلیم کریں گے۔ تاہم جلد ہی انہیں اپنی غلطی کا احساس ہوا اور ابو سفیان کو معاہدے کی تجدید کے لیے روانہ کیا گیا لیکن نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اس کی درخواست رد کر دی۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اس وقت تک قریش کے خلاف چڑھائی کی تیاری شروع کر چکے تھے۔

630ء میں انہوں نے دس ہزار مجاہدین کے ساتھ مکہ کی طرف پیش قدمی شروع کر دی۔ مسلمانوں کی ہیبت دیکھ کر بہت سے مشرکین نے اسلام قبول کر لیا اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے عام معافی کا اعلان کیا۔ ایک چھوٹی سے جھڑپ کے علاوہ تمام کارروائی پر امن انداز سے مکمل ہو گئی اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم فاتح بن کر مکہ میں داخل ہو گئے۔ داخل ہونے کے بعد سب سے پہلے آپ نے کعبہ میں موجود تمام بت توڑ ڈالے اور شرک و بت پرستی کے خاتمے کا اعلان کیا۔

حجۃ الوداع

حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اپنی زندگی کا آخری حج سن 10ھ میں کیا۔ اسے حجۃ الوداع کہتے ہیں۔ آپ 25 ذی القعدہ 10ھ (فروری 632ء) کو مدینہ سے روانہ ہوئے۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی ازواج آپ کے ساتھ تھیں۔ مدینہ سے 9 کلومیٹر دور ذوالحلیفہ کے مقام پر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے احرام پہنا۔ دس دن بعد آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم مکہ پہنچ گئے۔ حج میں مسلمانوں کی تعداد ایک لاکھ بیس ہزار سے زیادہ تھی۔ عرفہ کے دن ایک خطبہ دیا اور اس سے اگلے دن منیٰ میں ایک یادگار خطبہ دیا جو خطبہ حجۃ الوداع کے نام سے مشہور ہے۔ اس خطبہ میں انہوں نے اسلامی تعلیمات کا ایک نچوڑ پیش کیا اور مسلمانوں کو گواہ بنایا کہ انہوں نے پیغامِ الٰہی پہنچا دیا ہے۔ اور یہ بھی تاکید کی کہ یہ باتیں ان لوگوں کو بھی پہنچائی جائیں جو اس حج میں شریک نہیں ہیں۔ اس خطبہ میں انہوں نے یہ فرمایا کہ شاید مسلمان انہیں اس کے بعد نہ دیکھیں۔ انہوں نے فرمایا کہ مسلمان پر دوسرے مسلمان کا جان و مال حرام ہے۔ اور یہ بھی کہ نسل کی بنیاد پر کسی کو کسی پر فوقیت نہیں ہے۔ انہوں نے اسلام کے حرام و حلال پر بھی روشنی ڈالی۔ خطبہ کے آخر میں انہوں نے تاکید کی کہ جو حاضر ہے وہ غائب تک اس پیغام کو پہنچائے۔ ان دو خطبات کے علاوہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے غدیرِ خم کے مقام پر بھی خطبہ دیا جو خطبہ غدیر کے نام سے مشہور ہے۔ اس حج کے تقریباًً تین ماہ بعد آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اللہ کو پیارے ہو گئے۔[122]

وفات

حجۃ الوداع کے فوراً بعد آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کچھ بیمار ہوئے پھر ٹھیک ہو گئے مگر کچھ عرصہ بعد حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم پھر بیمار پڑ گئے اورکئی روز تک ان کے سر میں درد ہوتا رہا۔ بالاخر روایات کے مطابق مئی یا جون 632ء میں حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم انتقال کر گئے۔ انتقال کے وقت آپ کی عمر 63 برس تھی۔ حضرت علی نے غسل و کفن دیا اور اصحاب کی مختلف جماعتوں نے یکے بعد دیگرے نمازِ جنازہ ادا کی اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو مسجد نبوی کے ساتھ ملحق ان کے حجرے میں اسی جگہ دفن کیا گیا جہاں ان کی وفات ہوئی تھی۔ یہ اور اس کے اردگرد کی تمام جگہ اب مسجدِ نبوی میں شامل ہے۔

آپﷺ کو منگل کے روز کپڑے اتارے بغیر غسل دیا گیا۔ رسول اللہ کو غسل دینے والے افراد میں سیدنا عباس، حضرت اسامہ، اوس بن خولیٰ، حضرت عباس کے دو بیٹے قثم اور فضل اور رسول اللہﷺ کے آزاد کردہ غلام شقران شامل تھے۔ حضرت عباس اور ان کے دونوں صاحب زادے رسول اللہﷺ کی کروٹ بدل رہے تھے، حضرت اسامہ اور شقران پانی بہا رہے تھے۔ حضرت علی غسل دے رہے تھے اور حضرت اوس نے آپﷺ کو اپنے سینے پر ٹیک رکھا تھا۔[123] رسول اللہ کو پانی اور بیری کے پتوں سے تین بار غسل دیا گیا۔ پانی عرس نامی قباء میں واقع حضرت سعد بن خثیمہ کے کنویں کا تھا۔ آپﷺ اپنی حیات مبارکہ میں بھی پینے کے لیے اس کنویں کا پانی استعمال فرماتے تھے۔[124] پھر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو تین سفید سوتی یمنی چادروں میں کفنایا گیا۔ ان میں کرتا اور پگڑی نہ تھی بس آپ کو صرف چادروں میں لپیٹا گیا۔[125] حضرت ابوطلحہ نے آپ کی قبر اسی جگہ کھودی جہاں آپ نے وفات پائی تھی۔ قبر لحد والی کھودی پھر آپ کی چارپائی قبر کے کنارے رکھ دی گئی اور پھر دس دس صحابہ اندر داخل ہوتے جاتے اور فرداً فرداً نماز ادا کرتے، کوئی امام نہ تھا۔ سب سے پہلے آپ کے خانوادے نے نماز پڑھی، پھر مہاجرین نے، پھر انصار نے اور پھر بچوں نے، پھر عورتوں نے یا پہلے عورتوں نے پھر بچوں نے۔[126] نماز جنازہ پڑھنے میں منگل کا پورا ہی دن اور منگل کی بیشتر رات گزر گئی جس کے بعد رات کے اواخر میں رسول اقدس کو سپرد خاک کر دیا گیا۔[127] جنازے میں شریک افراد کے بارے اختلاف ہے۔

امہات المؤمنین اور اولاد

مؤمنین کی والدہ
ام المؤمنین
امہات المؤمنین - (ازواج مطہرات)

 

مقالہ بہ سلسلۂ مضامین

اولادِ محمد

حضرت محمد کے بیٹے

قاسم _ عبداللہ _ ابراھیم

حضرت محمد کی بیٹیاں

فاطمہ _ زینب _ ام کلثوم
رقیہ

حضرت فاطمہ کی اولاد
بیٹے

حسن _ حسین

حضرت فاطمہ کی اولاد
بیٹیاں

زینب _ ام کلثوم


حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی مختلف روایات میں گیارہ ازواج کے نام ملتے ہیں۔ جن عورتوں سے آپﷺ نے عقد فرمایا ان کی تعداد گیارہ تھی۔ جن میں سے نو عورتیں آپﷺ کی رحلت کے وقت حیات تھیں۔ اور دوعورتیں آپﷺ کی زندگی ہی میں وفات پاچکی تھیں۔ (یعنی حضرت خدیجہؓ اور ام المساکین حضرت زینب بنت خزیمہ رضی اللہ عنہما ) ان کے علاوہ مزید دوعورتیں ہیں جن کے بارے میں اختلاف ہے کہ آپﷺ کا ان سے عقد ہوا تھا یا نہیں لیکن ا س پر اتفاق ہے کہ انہیں آپﷺ کے پاس رخصت نہیں کیا گیا۔[128] نبی کریم ﷺ کی ازواج میں زیادہ تر پہلے بیوہ تھیں اور عمر میں بھی زیادہ تھیں اور زیادہ شادیوں کا عرب میں عام رواج تھا۔ مؤرخین کے مطابق اکثر شادیاں مختلف قبائل سے اتحاد کے لیے یا ان خواتین کو عزت دینے کے لیے کی گئیں۔ ان میں سے اکثر سن رسیدہ تھیں اس لیے حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر کثرت ازدواج کا الزام لگانے والوں کی دلیلیں ناکارہ ہو جاتی ہیں۔ ان میں سے صرف حضرت خدیجہ اور حضرت ماریہ قبطیہ سے اولاد ہوئی۔ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی ازواج کو امہات المؤمنین کہا جاتا ہے یعنی مؤمنین کی مائیں۔ ان کے نام اور کچھ حالات درج ذیل ہیں۔

  • حضرت خدیجہ: آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی پہلی شادی حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہما سے ہوئی۔ شادی کے وقت آپﷺ کی عمر پچیس سال تھی۔ اور حضرت خدیجہؓ کی عمر چالیس سال تھی۔ ان کے جیتے جی آپﷺ نے کوئی اور شادی نہیں کی۔ آپﷺ کی اولاد میں حضرت ابراہیم کے ماسوا تمام بیٹے اور صاحبزادیاں ا ن ہی حضرت خدیجہؓ کے بطن سے تھیں۔ صاحبزادگان میں سے تو کوئی زندہ نہ بچا۔ البتہ صاحبزادیاں حیات رہیں۔ ان کے نام یہ ہیں : زینب، رقیہ، ام کلثوم، فاطمہ - زینبؓ کی شادی ہجرت سے پہلے ان کے پھوپھی زاد بھائی حضرت ابو العاص بن ربیع سے ہوئی۔ رقیہ اور ام کلثوم رضی اللہ عنہما کی شادی یکے بعد دیگرے حضرت عثمانؓ سے ہوئی۔ حضرت فاطمہؓ کی شادی جنگ بدر اور جنگ احد کے درمیانی عرصہ میں حضرت علی بن ابی طالبؓ سے ہوئی۔ اور ان کے بطن سے حسن، حسین رضی اللہ عنہما، زینب اور ا م کلثوم رضی اللہ عنہما پیدا ہوئیں۔[128]
  • حضرت سودہ بنت زمعہ رَضی اللہُ تعالیٰ عنہا : ان سے رسول اللہﷺ نے حضرت خدیجہؓ کی وفات کے تقریباًً ایک مہینہ بعد نبوت کے دسویں سال ماہ شوال میں شادی کی۔ آپﷺ سے پہلے حضرت سَوْدَہؓ اپنے چچیرے بھائی سکران بن عَمرو کے عقد میں تھیں۔ اور وہ انہیں بیوہ چھوڑ کر انتقال کر چکے تھے۔ حضرت سودہ کی وفات شوال 54ھ میں مدینہ کے اندر ہوئی۔[129]
  • حضرت زینب بنت خزیمہ رَضی اللہُ تعالیٰ عنہا : یہ قبیلہ بنو ہلال بن عامر بن صَعْصَعہ سے تعلق رکھتی تھیں۔ مسکینوں پر رحم ومروت اوررقّت ورأفت کے سبب ان کا لقب اُمّ المساکین پڑ گیا تھا۔ یہ حضرت عبد اللہ بن جحشؓ کے عقد میں تھیں۔ وہ جنگ اُحد میں شہید ہو گئے تو رسول اللہﷺ نے 4ھ میں ان سے شادی کرلی۔ مگر صرف تین ماہ یا آٹھ ماہ رسول اللہﷺ کی زوجیت میں رہ کر ربیع الآخر یا ذی قعدہ 4ھ میں وفات پاگئیں۔ نبیﷺ نے ان کی نماز جنازہ پڑھائی۔ اور انہیں بقیع میں دفن کیا گیا۔[129]
  • حضرت ام سلمہ ہند رَضی اللہُ تعالیٰ عنہا : یہ ابو سلمہؓ کے عقد میں تھیں۔ جمادی الآخر 4ھ میں حضرت ابو سلمہؓ کا انتقال ہو گیا توان کے بعد شوال 4ھ میں رسول اللہﷺ نے ان سے شادی کرلی۔ فقیہ ترین اور نہایت عقلمند خاتون تھیں۔ چوراسی سال کی عمر میں 59ھ میں اور کہا جاتا ہے کہ 62ھ میں وفات پائی۔ اور بقیع میں دفن کی گئیں۔[129]
  • حضرت صفیہ بنت حی بن اخطب رَضی اللہُ تعالیٰ عنہا : یہ بنی اسرائیل سے تھیں۔ اور خیبر میں قید کی گئیں۔ لیکن رسول اللہﷺ نے انہیں اپنے لیے منتخب فرمالیا۔ اور آزاد کرکے شادی کرلی۔ یہ فتح خیبر 7ھ کے بعد کا واقعہ ہے۔ اس کے بعد خیبر سے بارہ میل کی دوری پر مدینہ کے راستہ میں سد صہباء کے پاس انہیں رخصت کرایا۔ 50ھ میں اور کہا جاتا ہے کہ 52ھ میں اور کہا جاتا ہے کہ 36ھ میں وفات پائی۔ اور بقیع میں مدفون ہوئیں۔[130]
  • حضرت جویریۃ بنت الحارث رَضی اللہُ تعالیٰ عنہا : ان کے والد قبیلہ خزاعہ کی شاخ بنو المصطلق کے سردار تھے۔ حضرت جویریہ بنو المصطلق کے قیدیوں میں لائی گئی تھیں۔ اور حضرت ثابت بن قیس بن شماسؓ کے حصے میں پڑی تھیں۔ انہوں نے حضرت جویریہؓ سے مکاتبت کرلی۔ یعنی ایک مقررہ رقم کے عوض آزاد کردینے کا معاملہ طے کر لیا۔ اس کے بعد رسول اللہﷺ نے ان کی طرف سے مقررہ رقم ادا فرمادی اوران سے شادی کرلی۔ یہ شعبان 5ھ یا 6ھ کا واقعہ ہے۔ اس شادی کے نتیجے میں مسلمانوں نے بنو المصطلق کے سو گھرانے آزاد کر دیے اورکہا کہ یہ لوگ رسول اللہﷺ کے سسرالی ہیں۔ چنانچہ یہ اپنی قو م کے لیے ساری عورتوں سے بڑھ کر بابرکت ثابت ہوئیں۔ ربیع الاول 56ھ یا 55ھ میں وفات پائی۔ عمر 65برس تھی۔[130]
  • حضرت میمونۃ بنت الحارث الہلالیۃ رَضی اللہُ تعالیٰ عنہا : یہ ام الفضل لبابہ بنت حارث ؓ کی بہن تھیں۔ ان سے رسول اللہﷺ نے ذی قعدہ 7ھ میں عمرہ ٔ قضاء سے فارغ ہونے … اور صحیح قول کے مطابق احرام سے حلال ہونے۔۔۔ کے بعد شادی کی اور مکہ سے 9میل دور مقام سرف میں انھیں رخصت کرایا۔ 61ھ اور کہا جاتا ہے کہ 63ھ میں وہیں ان کی وفات بھی ہوئی۔ اور وہیں دفن بھی کی گئیں۔ ان کی قبر کی جگہ آج بھی وہاں معروف ہے۔[130]
  • حضرت ام حبیبہ رملہ رَضی اللہُ تعالیٰ عنہا: یہ عبید اللہ بن جحش کے عقد میں تھیں۔ اور اس کے ساتھ ہجرت کر کے حبشہ بھی گئیں تھیں۔ لیکن عبید اللہ نے وہاں جانے کے بعد مرتد ہوکر عیسائی مذہب قبول کر لیا۔ اور پھر وہیں انتقال کرگیا۔ مگر اُم حبیبہؓ اپنے دین اور اپنی ہجرت پر قائم رہیں۔ جب رسول اللہﷺ نے محرم 7ھ میں عَمرو بن اُمیہ ضمریؓ کو اپنا خط دے کر نجاشی کے پاس بھیجا تو نجاشی کو یہ پیغام بھی دیا کہ اُم حبیبہؓ سے آپﷺ کا نکاح کر دے۔ اس نے امِ حبیبہؓ کی منظوری کے بعدان سے آپﷺ کا نکاح کر دیا۔ اور شُرحبیل بن حسنہ کے ساتھ انہیں آپﷺ کی خدمت میں بھیج دیا۔ نبیﷺ نے خیبر سے واپسی کے بعد ان کی رخصتی کرائی۔ 43ھ یا 44ھ یا 50ھ میں وفات پائی۔[130]
  • حضرت حفصہ بنت عمر رَضی اللہُ تعالیٰ عنہا : آپ حضرت عمر رَضی اللہُ تعالیٰ عنہُ کی بیٹی تھیں۔ ان کے پہلے شوہر خنیس بن حذافہ سہمیؓ تھے جو بدر اور احد کے درمیانی عرصہ میں رحلت کر گئے اور وہ بیوہ ہوگئیں۔ پھر رسول اللہﷺ نے ان سے شادی کرلی، شادی کا یہ واقعہ 3ھ کا ہے۔ شعبان 45ھ میں ساٹھ سال کی عمر میں مدینہ کے اندر وفات پائی۔ اور بقیع میں دفن ہوئیں۔[129]
  • حضرت عائشہ بنت ابی بکر رَضی اللہُ تعالیٰ عنہا: آپ حضرت ابوبکر رَضی اللہُ تعالیٰ عنہُ کی بیٹی تھیں اور کم عمر تھیں۔ ان سے رسول اللہﷺ نے نبوت کے گیارھوں برس ماہ شوال میں شادی کی، یعنی حضرت سودہؓ سے شادی کے ایک سال بعد۔ اور ہجرت سے دوبرس پانچ ماہ پہلے۔ اس وقت ان کی عمر چھ برس تھی۔ پھر ہجرت کے سات ماہ بعد شوال 1ھ میں انہیں رخصت کیا گیا۔ اس وقت ان کی عمر نو برس تھی۔ اور وہ باکرہ تھیں۔ ان کے علاوہ کسی اور باکرہ عورت سے آپﷺ نے شادی نہیں کی۔ حضرت عائشہؓ آپﷺ کی سب سے محبوب بیوی تھیں۔ اور امت کی عورتوں میں علی الاطلاق سب سے زیادہ فقیہ اور صاحب علم تھیں۔ عورتوں پر ان کی فضیلت ایسے ہی ہے جیسے تمام کھانو ں پر ثرید کی فضیلت۔ 17/ شعبان 57ھ یا 58ھ میں حضرت عائشہ ؓ نے وفات پائی۔ اور بقیع میں دفن کی گئیں۔[129]
  • حضرت زینب بنت جحش رَضی اللہُ تعالیٰ عنہا: یہ قبیلہ بنو اسد بن خزیمہ سے تعلق رکھتی تھیں۔ اور رسول اللہﷺ کی پھوپھی کی صاحبزادی تھیں۔ ان کی شادی پہلے حضرت زید بن حارثہ سے ہوئی تھی۔ جنہیں رسول اللہﷺ کا بیٹا سمجھا جاتا تھا۔ لیکن حضرت زیدؓ سے نباہ نہ ہو سکا اور انہوں نے طلاق دیدی۔ خاتمہ ٔ عدت کے بعد اللہ تعالیٰ نے رسول اللہﷺ کو مخاطب کرتے ہوئے یہ آیت نازل فرمائی: فَلَمَّا قَضَىٰ زَيْدٌ مِّنْهَا وَطَرً‌ا زَوَّجْنَاكَهَا (الاحزاب: 37)جب زید نے ان سے اپنی ضرورت ختم کر لی تو ہم نے انہیں آپ کی زوجیت میں دے دیا۔

انہیں کے تعلق سے سورۂ احزاب کی مزید کئی آیا ت نازل ہوئیں جن میں مُتَبنّیٰ (لے پالک ) کے قضیے کا دوٹوک فیصلہ کر دیا گیا - حضرت زینبؓ سے رسول اللہﷺ کی شادی ذی قعدہ 5ھ میں اور کہا جاتا ہے کہ 4ھ میں ہوئی۔ یہ سب عورتوں سے بڑھ کر عبادت گزار اورصدقہ کرنے والی خاتون تھیں۔ 20ھ میں وفات پائی۔ اس وقت ان کی عمر 53سال تھی۔ اور یہ رسول اللہﷺ کے بعد امہات المؤمنین میں پہلی بیوی ہیں جن کا انتقال ہوا۔ حضرت عمر بن خطابؓ نے ان کی نماز جنازہ پڑھائی اور انہیں بقیع میں دفن کیا گیا۔[130]

یہ گیارہ بیویاں ہوئیں جو رسول اللہﷺ کے عقد نکاح میں آئیں۔ اور آپﷺ کی صحبت ورفاقت میں رہیں۔ ان میں سے دوبیویاں، یعنی حضرت خدیجہ اور حضرت زینب ام المساکینؓ کی وفات آپﷺ کی زندگی ہی میں ہوئی۔ اور نو بیویاں آپﷺ کی وفات کے بعد حیات رہیں۔ ا ن کے علاوہ دو اور خواتین جو آپﷺ کے پاس رخصت نہیں کی گئیں۔ ان میں سے ایک قبیلہ بنو کلاب سے تعلق رکھتی تھیں۔ اور ایک قبیلہ کندہ سے، یہی قبیلہ کِنْدہ والی خاتون جونیہ کی نسبت سے معروف ہیں۔ ان کا آپﷺ سے عقد ہوا تھا یانہیں اور ان کا نام ونسب کیا تھا اس بارے میں اہل ِ سیر کے درمیان میں بڑے اختلافات ہیں۔

جہاں تک لونڈیوں کا معاملہ ہے تو مشہور یہ ہے کہ آپﷺ نے دولونڈیوں کو اپنے پاس رکھا۔ ایک ماریۃ القبطیۃ کو جنہیں مقوقس فرمانروائے مصر نے بطور ہدیہ بھیجا تھا۔ ان کے بطن سے آپﷺ کے بیٹے ابراہیم پیدا ہوئے۔ جو بچپن ہی میں 28یا 29شوال 10ھ مطابق 27جنوری 632ء کو مدینہ کے اندر انتقال کر گئے۔[131]

دوسری لونڈی ریحانہ بنت زید تھیں۔ جو یہود کے قبیلہ بنی نضیر یا بنی قریظہ سے تعلق رکھتی تھیں۔ یہ بنو قریظہ کے قیدیو ں میں تھیں۔ رسول اللہﷺ نے انہیں اپنے لیے منتخب فرمایا تھا اور وہ آپﷺ کے زیر دست تھیں۔ ان کے بارے میں بعض محققین کا خیال ہے کہ انہیں نبیﷺ نے بحیثیت لونڈی نہیں رکھا تھا بلکہ آزاد کر کے شادی کرلی تھی لیکن ابن قیم کی نظر میں پہلا قول راجح ہے۔ ابو عبید ہ نے ان دولونڈیوں کے علاوہ مزید دو لونڈیوں کا ذکر کیا ہے۔ جس میں سے ایک کا نام جمیلہ بتایا جاتا ہے، جوکسی جنگ میں گرفتار ہوکر آئی تھیں۔ اور دوسری کوئی اور لونڈی تھیں جنہیں حضرت زینب بنت جحش نے آپ کو ہبہ کیا تھا۔[132]

خطوطِ نبوی

مشہور صحابہ

غصہ

غصہ غیرت کی علامت ہے ایک غصہ وہ ہے جو عام کوئی بھی بات پر آجاتا ہے، اور بعض ایسا غصہ کرنے والے اپنے آپ کو بڑابہادر سمجھتے ہیں، دوسرا غصہ وہ ہے جوتلخ بات سن کر آجاتاہے، کڑوے جملے، ناگزیر رویوں، لفظ کی تیزی یا زہر بھرے رویے سے آتا ہے آپ ﷺ کو کبھی بھی غصہ نہیں آیا کسی بھی بد اخلاق رویے آپﷺ کی پیشانی پر شکن نہیں ڈال سکے، ایک غصہ وہ ہوتا ہے جس کا آنا ایمانی غیرت ہے اور نہ آنا بزدلی ہے یہ وہ غصہ ہے جو غیر شرعی امور کو دیکھ کرآتاہے جیسے ایک مؤمن گھر میں اللہ کی نافرمانی دیکھ کر غصہ کرتا ہے یا تربیتی امور کو متاثر کر نے والی چیز کو دیکھ کر آپ کو غصہ آجانا۔
سیدنا عبداللہ بن عمر بیان کرتے ہیں:
لقد جلست أنا وأخي مجلسا ما أحب أن لي بہ حمر النعم، أقبلت أنا وأخي، وإذا مشيخة من صحابة رسول اللہ - صلى اللہ عليہ وسلم - جلوس عند باب من أبوابہ، فكرهنا أن نفرق بينهم، فجلسنا حجرة، إذ ذكروا آية من القرآن، فتماروا فيها، حتى ارتفعت أصواتهم، فخرج رسول اللہ - صلى اللہ عليہ وسلم - مغضبا، قد احمر وجهہ، يرميهم بالتراب، ويقول: "مهلا يا قوم، بهذا أهلكت الأمم من قبلكم، باختلافهم على أنبيائهم، وضربهم الكتب بعضهاببعض، إن القرآن لم ينزل يكذب بعضہ بعضا، بل يصدق بعضہ بعضا، في عرفتم منہ فاعملوا بہ، وما جهلتم منہ فردوہ إلى عالمہ [133]
ترجمہ:میں اور میرے بھائی ایسی مجلس میں بیٹھے ہیں کہ اس کے بدلے مجھے سرخ اونٹ بھی ملنا پسند نہیں۔پھر میں نے کچھ بزرگ صحابہ کومسجد نبوی کے دروازے کے پاس بیٹھے ہوئے دیکھا۔ہم نے ان کے درمیان میں گھس کر تفریق کرنے کو اچھا نہیں سمجھا اس لیے ایک کونے میں بیٹھ گئے۔اس دوران میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہما نے قرآن ایک آیت کا تذکرہ چھیڑااور اس میں ان کے درمیان میں اختلاف رائے ہوگئی یہاں تک کہ ان کی آوازیں بلند ہونے لگیں۔نبی ﷺ غصہ کی حالت میں باہر نکلے۔آپﷺ کا چہرہ مبارک سرخ ہورہا تھااور آپ ﷺ مٹی پھینک رہے تھے اور فرمارہے تھے لوگو! رک جاؤ تم سے پہلی اُمتیں اسی وجہ سے ہلاک ہوئیں کہ انہوں نے اپنے انبیاء کے سامنے اختلاف کیااور اپنی کتابوں کے حصہ کو دوسرے حصے پر مارا۔قرآن اس لیے نازل نہیں ہوا کہ تم اس کے ایک حصہ سے دوسرے حصے کی تکذیب کرو، بلکہ وہ ایک دوسرے کی تصديق کرتا ہے، اس لیے تمہیں جتنی بات کا علم ہو اس پر عمل کرواور جو معلوم نہ ہوتو اس کے عالم سے معلوم کرلو۔

مزید دیکھیے

حوالہ جات

  1. انسائیکلوپیڈیا بریٹانیکا جلد 11
  2. انسائیکلوپیڈیا بریٹانیکا
  3. مسند احمد جلد 1 صفحہ 361
  4. (سورہ الزمر : ٣٩/٣)
  5. (سورہ آل عمران : ٣/٩٦)
  6. (سورہ النازعات : ٧٩/٢٦)
  7. (سورہ الفیل : ١٠٥/١ تا ٥)
  8. (سورہ ق : ٥٠/٣٧)
  9. (تاریخ ابن کثیر جلد ٢ ص ٢٦١)
  10. (تاریخ ابن کثیر جلد ٢ ص ٢٦١)
  11. (تاریخ ابن کثیر جلد ٢ ص ٢٦١)
  12. (صحیح مسلم ، کتاب الصیام ، حدیث 2750 )
  13. (فتح الباری جلد ٦‘ تاریخ ابن کثیر جلد ٢ ص ٢٦٠)
  14. (سورہ الجمعۃ : ٦٢/٢)
  15. (سورہ التوبۃ : ٩/١٢٨)
  16. (سورہ آل عمران : ٣/١٦٤)
  17. (سورہ الشورٰی : ٤٢/٧)
  18. (سورہ النحل : ١٦/١٠٣)
  19. (القصد والامم ص ٢٢ والانباہ علیٰ قبائل الرواۃ ص ٤٦)
  20. البدایہ والنہایہ جلد ٢۔
  21. (صحیح مسلم ،کتاب الانبیاء حدیث 5938)
  22. (سورہ الحجرات : ٤٩/١٣)
  23. (سورہ الحجرات : ٤٩/١٣)
  24. (مجمع الفوائد جلد ١ از معجم طبرانی کبیر)
  25. (سنن ابو داؤد کتاب التفسیر ‘ جامع ترمذی کتاب التفسیر )
  26. مشکوٰۃ۔ باب سید المرسلین صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم
  27. مستدرک الحاکم
  28. خصائصِ کبریٰ جلد اول صفحہ 48
  29. (سورہ الضحٰی : ٩٣/٦ تا ٨)
  30. تفسیر ابن کثیر سورہ الضحیٰ
  31. (سورہ الضحیٰ : ٩٣/٧)
  32. (سورہ الشورٰی : ٤٢/٥٢)
  33. (تفسیر ابن کثیر , سورہ الضحیٰ)
  34. ( زرقانی ص ۱۳۷ ج ۱ ۔ )
  35. (فتح الباری ص ۱۲۴ ج ۹ - کتاب النکاح - )
  36. روض الانف ج 1 ، صفحہ ۱۰۹
  37. خصائص کبری صفحہ ۵۴ جلد 1
  38. البدایہ والنھایہ ص ۲۷۵ ج ۲
  39. (مسلم:۲۴۰،کتاب الایمان)
  40. سیرت ابن هشام، ج ا ص ۵۶، نیز مجمع الزوائد ج ۸ ۱ : صفحہ ۲۳ ۔
  41. (مسلم:۹۷۶ ، کتاب الجنائز)
  42. روض الانف ج 1 صفحہ 111
  43. زرقانی جلد 1 صفحہ 162,163
  44. الفصول فی سیرۃ الرسول ﷺ،از: ابن کثیر،صفحہ:۹۳
  45. البدایۃ والنہایۃ ،تاریخ لابن کثیر، سیرت محمد
  46. تاریخ طبری جلد 2 صفحہ 34
  47. سیرت ابن ہشام جلد 1 صفحہ 177
  48. تاریخ طبری جلد 1 صفحہ 575
  49. البدایہ و النہایہ جلد 2 صفحہ 294
  50. (البدایہ والنھایہ جلد ٣ ص ٥)
  51. (سورہ طٰہٰ : ٢٠/٥٠)
  52. (سورہ الاعلیٰ : ٨٧/٢‘ ٣)
  53. (سورہ البلد : ٩٠/٨ تا ١٠)
  54. (سورہ الدھر : ٧٦/٢‘ ٣)
  55. (سورہ حم السجدۃ : ٤١/١٧)
  56. (سورہ الانعام : ٦/٧١)
  57. (سورہ العنکبوت : ٢٩/٦٩)
  58. (سورہ اللیل : ٩٢/١٢‘ ١٣)
  59. (سورہ الانعام : ٦/١٩)
  60. (سورہ النساء : ٤/١٦٣ تا ١٦٥)
  61. (سورہ الزخرف : ٤٣/٦٣‘ ٦٤)
  62. (سورہ النساء : ٤/١٧٤‘ ١٧٥)
  63. (سورہ النساء : ٤/١٧٤)
  64. (سورہ لمائدۃ : ٥/١٥)
  65. (سورہ التوبۃ : ٩/٣٢)
  66. (سورہ ابراہیم : ١٤/٥)
  67. (سورہ الشورٰی : ٤٢/٥٢)
  68. (سورہ الشوریٰ : ٤٢/١٧)
  69. (سورہ یونس : ١٠/١٦‘ ١٧)
  70. (صحیح بخاری ج 1 حدیث 7)
  71. (ترجمان القرآن ج ٢ ص ١٥١)
  72. (سورہ العلق : ٩٦/١ تا ٥)
  73. صحیح بخاری باب کیف کان بدء الوحی علی رسول اللّٰہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
  74. (تاریخ ابن کثیر ج ٣ ص ٧)
  75. (حجۃ اللہ البالغہ ج ٢ ص ١٥٣)
  76. (سورہ بنی اسرائیل : ١٧/٩٣)
  77. (سورہ الاعراف : ٧/١٨٨)
  78. (سورہ مریم : ١٩/٣٠‘ ٣١)
  79. (سورہ طٰہٰ : ٢٠/٤٧)
  80. (سورہ النساء : ٤/١٦٥)
  81. (سورہ الاحزاب : ٣٣/٤٥‘ ٤٦)
  82. (سورہ الجن : ٧٢/٢٦ تا ٢٨)
  83. (سورہ الفرقان : ٢٥/٧‘ ٨)
  84. (سورہ الفرقان : ٢٥/٢٠)
  85. (سورہ الانعام : ٦/٨‘ ٩)
  86. (سورہ بنی اسرائیل : ١٧/٩٤‘ ٩٥)
  87. (سورہ الانبیاء : ٢١/٧‘ ٨)
  88. (سورہ الزخرف : ٤٣/٣١‘ ٣٢)
  89. (سورہ الانعام : ٦/١٢٤)
  90. (سورہ بنی اسرائیل : ١٧/٨٦‘ ٨٧)
  91. (سورہ الاعراف : ٧/٦١‘ ٦٢)
  92. (سورہ الاعراف : ٧/٦٧‘ ٦٨)
  93. (سورہ الاعراف : ٧/٧٩)
  94. (سورہ مریم : ١٩/٤١ تا ٤٣)
  95. (سورہ الشعراء : ٢٦/١٦١ تا ١٦٣)
  96. (سورہ یوسف : ١٢/٦)
  97. (سورہ یوسف : ١٢/٣٩‘ ٤٠)
  98. (سورہ الشعراء : ٢٦/١٧٦ تا ١٧٩)
  99. (سورہ الاعراف : ٧/١٠٤‘ ١٠٥)
  100. (سورہ النمل : ٢٧/٣٠‘ ٣١)
  101. (سورہ یٰسٓ: ٣٦/١٦‘ ١٧)
  102. (سورہ مریم : ١٩/٣٠)
  103. (سورہ الصف : ٦١/٦)
  104. (سورہ الاحزاب : ٣٣/٤٥‘ ٤٦)
  105. (سورہ الاعراف : ٧/١٥٨)
  106. (سورہ آل عمران : ٣/١٩)
  107. (سورہ آل عمران : ٣/٨٥)
  108. (سورہ حم السجدۃ : ٤١/٤٢)
  109. (سورہ النجم : ٥٣/٣‘ ٤ )
  110. (سورہ النحل : ١٦/٦٨)
  111. (سورہ الشوریٰ : ٤٢/٥١)
  112. مناقب شہر آشوب جلد اول صفحہ 43
  113. ابو داؤد السجستانی۔ سنن۔ دار الاحیاء السنۃ النبویۃ۔ بیروت
  114. ابن سعد، الطبقات الکبری۔ بیروت
  115. ابن کثیر، البدایہ والنہایہ، مکتبۃ المعارف بیروت الطبعۃ الثانیۃ 1978ء
  116. محمد حمید اللہ، ڈاکٹر، الوثائق السیاسیۃ، دارالارشاد، بیروت
  117. ژاں ژاک روسو، معاہدہ عمرانی، مقتدرہ قومی زبان، اسلام آباد۔ 1998ء
  118. محمد حمید اللہ، ڈاکٹر، عہد نبوی میں نظام حکمرانی، اردو اکیڈمی سندھ 1981ء
  119. میثاقِ مدینہ از ڈاکٹر طاہر القادری[مردہ ربط]
  120. حرفِ زار از اوریا مقبول جان[مردہ ربط]
  121. الطبقات الکبریٰ جلد اول صفحہ 260 تا 262
  122. سیرت ابن ھشام جلد 3 صفحہ 603
  123. سنن ابن ماجہ، الکتاب الجنائز، حدیث 1628
  124. طبقات ابن سعد
  125. صحیح البخاری، حدیث :1264
  126. موطا امام مالک 231/1، و طبقات ابن سعد 292-298
  127. مسند احمد 62/6 و 274
  128. ^ ا ب الرحیق المختوم(اردو) صفحہ نمبر 634
  129. ^ ا ب پ ت ٹ الرحیق المختوم(اردو) صفحہ نمبر 635
  130. ^ ا ب پ ت ٹ الرحیق المختوم(اردو) صفحہ نمبر 636
  131. الرحیق المختوم(اردو) صفحہ نمبر 637
  132. زاد المعاد 1/29
  133. احمد بن حنبل الشیبانی، مسند احمد، رقم الحدیث: 6703، ج -6،مطبوعۃ: دار الحديث، القاهرة، 1416 هـ، ص :252