اسلام میں رقص کی ویسے تو ممانعت ہے مگر مزارات اور قوالیوں پر کیا جانے والا رقص جائز سمجھا جاتا ہے۔ اہل تصوف کے نزدیک اگر کسی شخص کے سامنے کوئی شعر پڑھا جائے جو اس کے موافقِ حال اور اس سے عقل پر مدہوشی غالب آجائے اور غیر اختیاری طور پراس سے حرکات صادر ہوں تو یہ جائز ہے۔ صوفیا اس جواز کی دلیل امام ابو یوسف کے جواب سے بھی لیتے ہیں کہ جب ان سے پوچھا گیا کہ بیاہ شادی کے سواء دف بجانا مکروہ ہے؟ انھوں نے فرمایا : نہیں۔ ممنوع صرف وہ موسیقی ہے جس سے بیہودہ اچھل کود ہو۔[1] اس جواز کی دلیل اس حدیث مبارکہ سے بھی پیش کی گئی ہے کہ:

dدرگاہ رومی پر دریشوں کا گھومتے ہوئے رقص۔ 2007 میں لی گئی ایک تصویر

جواز پر پیش کی جانے والی دوسری حدیث ہے کہ:

اسے صوفی رقص بھی کہا جاتاہے۔ درگاہ رومی میں کیا جانے والا صوفی رقص تمام دنیا میں مشہور ہے۔

حوالہ جات

ترمیم
  1. فتاوی عالمگیری،5: 352، طبع کوئٹہ
  2. عینی، بدرالدین، عمدۃ القاری شرح صحیح بخاری، 6: 270، طبع کوئٹہ
  3. عسقلانی، ابن حجر، فتح الباری شرح صحیح بخاری،2: 443

مزید دیکھیے

ترمیم

بیرونی روابط

ترمیم