ضابطہ 20
آرڈیننس 20 ایک قانونی آرڈیننس ہے جو سابق پاکستانی صدر جنرل محمد ضیاء الحق کی سربراہی میں حکومتِ پاکستان نے پاکستان کی قومی اسمبلی میں پیش کیا۔ اس قانون کا مقصد احمدیہ جماعت کے پیروکاروں پر بعض پابندیاں عائد کرنا تھا۔ چنانچہ اس قانون کی رو سے احمدیہ]جماعت کے پیروکاروں کے لیے اپنے آپ کو مسلمان ظاہر کرنا جرم قرار دیا گیا ہے۔ ان کے لیے اپنے آپ کو مسلمان کہنا، اسلامی طریق پر سلام کرنا، متعدد اسلامی اصطلحات کا استعمال ممنوع قرار پائے ہیں۔
اس قانون کے ذریعہ پاکستان کے ضابطہ فوجداری کی شق 298 میں دو حصوں کا اضافہ کیا گیا ہے۔
298-B
ترمیم1۔ اس شق کے مطابق "قادیانی گروہ یا لاہوری گروہ کے کسی رکن کو جو اپنے آپ کو 'احمدی' یا کسی اور نام سے پکارے" کے لیے ممنوع قرار دیا گیا ہے کہ وہ (الف) بول، لکھ یا کسی اور طریقہ سے کسی خلیفہ یا آنحضور ﷺ کے کسی صحابی کے علاوہ کسی کو ""امیر المومنین" یا "خلیفہ المومنین" یا "خلیفہ المسلمین" یا "صحابی" یا "رضی اللہ عنہ" کہے۔ (ب) آنحضور ﷺ کی ازواج کے علاوہ کسی کو "ام المومنین" کہے۔ (ج) آنحضور ﷺ کے خاندان کے اہل بیت کے علاوہ کسی کو "اہل بیت" کہے۔ (د) اپنی جائے عبادت کو "مسجد" کہے۔
ان سب امور کے لیے ایسا کرنے والا احمدی تین سال تک قید نیز جرمانہ کی سزا کا حق دار ہو گا۔
2۔ اس شق کے مطابق "قادیانی گروہ یا لاہوری گروہ کے کسی رکن کو جو اپنے آپ کو 'احمدی' یا کسی اور نام سے پکارے" اپنی عبادت کے لیے بلانے کے طریق کو "اذان" کہنے یا مسلمانوں کے طریق پراذان دینے کی صورت میں تین سال تک قید نیز جرمانہ کی سزا کا حق دار ہو گا۔
298-C
ترمیماس شق کے تحت احمدی کہلانے والوں کے لیے خواہ وہ قادیانی فریق سے تعلق رکھتے ہوں یا لاہوری فریق سے، قرار دیا گیا ہے کہ اگر وہ اپنے آپ کو "براہ راست یا بالواسطہ" مسلمان کہیں یا اپنی مذہب کو اسلام کہیں یا اپنے مذہب کی اشاعت یا تبلیغ کریں یا کسی بھی طریق پر مسلمانوں کے جذبات کو مجروح کریں تو ان سب صورتوں میں تین سال تک قید اور جرمانہ کے مستحق ہوں گے۔