تحریک ختم نبوت 1974ء

(تحریک ختم نبوت1974 سے رجوع مکرر)

1974ء ميں وزیر اعظم پاکستان جناب ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں احمدیوں جن کوقادیانی بھی کہا جاتا ہے، کوغیر مسلم اقلیت قرار دے دیا گیا، 30 جون 1974 کو مولانا شاہ احمد نورانی نے بل پیش کیا اور مولانا مفتی محمود قادیانیوں کو کافر قرار دینے والی کمیٹی کے سربراہ بنے قومی اسمبلی میں چھ بل پیش ہوئے ان میں سے ایک بل مولانا غوث ہزاروی نے پیش کیا اور آخری اور ختمی بل مولانا شاہ احمد نورانی نے پیش کیا جس پر قومی اسمبلی کی کارروائی ہوئی 6 ستمبر 1974ء تک بحث و تمحیص کے بعد اسے ایک قانونی شق کی حیثیت دے دی گئی۔ دوسری آئینی ترمیم کے اس حصے جس میں احمدیوں کو واضح طور پر آئین پاکستان نے غیر مسلم قرار دیا ہے، کو آرڈیننس 20 کہا جاتا ہے۔

تحریک ختم نبوت 1974ء اور فسادات
بسلسلہ تحریک ختم نبوت
تاریخ29 مئی 1974 ء-اکتوبر 1974ء
مقام
پاکستان
طریقہ کار
اختتامسرکاری طور پر احمدیوں کو کافر قرار دے دیا گيا
آرڈیننس XX
  • احمدیوں کے خلاف تشدد کے واقعات
مرکزی رہنما
مفتی محمود شاہ احمد نورانی
عبدالستار خان نیازی
ثناء اللہ امرتسری
سید عطا اللہ شاہ بخاری
ابو اعلی مودودی
محمد عبدالغفور حیدری
آغا شورش کشمیری
محمد یوسف لدھیانوی
مرزا ناصر احمد
مرزا طاہر احمد
دوست محمد شاید
ابو العطاء جالندھری
محمد احمد مظہر

تاریخ

قیام پاکستان کے بعد احمدیوں کے خلاف کئی سال تک تحریکیں چلتی رہیں، 1953ء اس حوالے سے زیادہ مشہور سال ہے ان تحریکوں میں کئی علما مثلاً عبدالستار خان نیازی اور مودودی صاحب کو پھانسی کی سزا بھی سنائی گئی لیکن اس پر عملدرآمد نہ ہوا۔ آزاد کشمیر کی اسمبلی میں احمدی عقائد کے خلاف ایک قرارداد منظور ہو چکی تھی کہ پنجاب کے شہر ربوہ میں 29 مئی کو اسلامی جمعیت طلبہ کے طلبہ پر قادیانیوں نے حملہ کرکے تشدد کیا جس میں ان کے ناک، کان اور جسم کے اعضا بے دردی سے علاحدہ کیے گئے۔ جسے سانحہ ربوہ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ اس واقعے کے بعد ملک بھر میں پریشانی کی ایک لہر دوڑ گئی مولانا یوسف بنوری رحمتہ ﷲ علیہ کی قیادت میں ایک تحریک شروع ہوئی جس کا نام تحریک ختم نبوت ﷺ 1974 ہے مولانا شاہ احمد نورانی صدیقی نے قومی اسمبلی (پاکستان) میں 30 جون 1974 احمدیوں اور لاہوری گروہ کے خلاف ایک قرارداد پیش کی کہ یہ لوگ مرزا غلام احمد قادیانی کو نبی مانتے ہیں جبکہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم آخری نبی اور رسول تھے لہٰذا اس باطل عقیدے کی بنا پر احمدیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دیا جائے۔



۔

بحث و تمحیص

اس تحریک میں سب مکاتب فکر کے علما شامل تھے، مجاہد ختم نبوت مولانا شاہ احمد نورانی صدیقی رحمتہ ﷲ علیہ کو قادیانیوں کو کافر قرار دینے میں اہم کردار ادا کیا ان کا نام قادیانیوں کو کافر قرار دینے میں پہلے نمبر پر ہے، اس تحریک میں علما کے علاوہ دیگر بہت سے سیاست دانوں جیسے کہ مفتی محمود وغیرہ نے حصہ لیا جن میں نوابزادہ نصر اللہ خان کا نام نمایاں ہے، سوائے چند ایک رکن قومی اسمبلی پاکستان کے اکثر ارکان نے اس قرارداد کی حمایت میں دستخط کر دیے، احمدی اور لاہوری گروپ کے نمائندوں کو ان کی خواہش کے مطابق اپنی صفائی کا مکمل موقع دیا گیا اور دوماہ اس پر بحث ہوتی رہی پوری قومی اسمبلی کے ارکان کو ایک کمیٹی کی شکل دے دی گئی تھی اور کئی کئی گھنٹے کیمرے کے سامنے بیانات و دلائل و جرح کا سلسلہ جاری رہتا، اس وقت کے اٹارنی جنرل جناب یحیٰ بختیار فریقین کے مؤقف کو سن کر ایک دوسرے تک بیان پہنچانے کا فریضہ سر انجام دیتے رہے۔ کمیٹی اس بات کی پابند تھی کہ کئی سال تک اس مناظرے کو کہیں نشر نہیں کرے گی۔

نتیجہ

بہت سے سیاست دان اس تحریک سے قبل اس مسئلے کی سنگینی سے ناواقف تھے، لیکن جب انھیں کیمرے کے سامنے احمدی نمائندوں (مرزا ناصر وغیرہ) کے قول و اقرار سے اصل صورت حال کا علم ہوا تو وہ بھی اپنے ایمان کی حفاظت کے سلسلے میں سنجیدہ ہو گئے، بالآخر مرزا ناصر سے ایک سوال ہوا کہ اگر کبھی دنیا میں کہیں تم لوگوں کی حکومت قائم ہو جائے تو تم (احمدی/مرزائی) غیر احمدی کلمہ گو مسلمانوں کو وہاں کس درجے میں رکھو گے تو اس نے جواب دیا کہ ہم انھیں اقلیت سمجھیں گے، یوں اس کے کلیہ کے مطابق احمدیوں کو ایک غیر مسلم اقلیت قرار دے دیا گیا۔ اب پاکستان کے مسلمان غیر سرکاری طور پر 7 ستمبر کو یوم ختم نبوت کے طور پر مناتے ہیں۔

کورٹ میں چیلنج

اس قانون کے پاس ہوتے ہی احمدیوں نے ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ میں اس قانونی ترمیم کو چیلنج کیا، مسلمانوں کی طرف سے ڈاکٹر سید ریاض الحسن گیلانی اور احمدیوں کی طرف سے فخرالدین جی ابراہیم نے اس کیس کی پیروی کی، لیکن مرزا غلام احمد کی تصانیف میں لکھی ہوئی اسلام مخالف باتیں دلائل قاطعہ ثابت ہوئیں اور احمدی کورٹس میں بھی خود کو مسلمان ثابت نہ کر سکے

بیرونی حوالہ جات

حوالہ جات