ضرب المثل
کوئی فقرہ، جملہ، شعر یا مصرع جو زندگی کے بارے میں کسی خاص اصول، حقیقت یا رویے کو جامع اور بلیغ طور پر بیان کرے اور عوام و خواص اسے ترجمانی کے لیے استعمال کرنے لگیں، کہاوت کہلاتا ہے۔ اسی کو عربی میں ضرب المثل کہا جاتا ہے۔[1]
مثالیں:
- ناچ نہ جانے آنگن ٹیڑھا (اپنی نااہلی کو دوسروں پر ڈالنا)۔
- گربہ کشتن، روز اول باید (کسی فرد کو ابتدا ہی میں قابوکیا جا سکتا ہے)۔
عام ضرب الامثال
ترمیم- وہ آستین کا سانپ نکلا (وہ دھوکے باز نکلا)۔
- بھینس کے آگے بین بجانا (بات کا اثر نہ ہونا)۔
- سانپ بھی مرجائے لاٹھی بھی نہ ٹوٹے (یعنی مقصد بھی پورا ہوجائے اور نقصان بھی نہ
ہو)۔
- اقرار جرم اصلاح جرم۔
- ڈوبتے کو تنکے کا سہارا۔
- خوشامد بری بلا ہے۔
- چور کی داڑھی میں تنکا(قصوروار ہمیشہ خوف
زدہ رہتا ہے)۔
- بھوکے کو مٹھی بھر چاول بھی کافی ہے
(ضرورت مند کے لیے تھوڑی سی چیز بھی کافی ہے)۔
- جھوٹ کے پاؤں نہیں ہوتے۔
- چھوٹی ندی آسانی سے پار ہوتی ہے (چھوٹی مشکل جلد ٹل جاتی ہے)۔
- لاتوں کے بھوت باتوں سے نہیں مانتے۔
- جیسا کروگے ویسا بھروگے۔
- اینٹ کا جواب پتھر۔
- جہاں پھول ہوں وہاں کانٹے ضرور ہوتے ہیں ۔
- چراغ تلے اندھیرا۔
- جس کا کام اسی کو ساجھے۔
- باتوں میں ماہر، کام میں کاہل۔
- خوبصورت پنجرے سے پرندے کا پیٹ نہیں
بھرتا۔
- ہاتھوں سے لگائی گرہیں دانتوں سے کھولنا پڑتی ہیں۔
- زیادہ فکر سے کام بگڑ جاتا ہے.
- سیر کو سوا سیر (ایک سے بڑھ ایک ہونا)۔
- دھوبی کا کتا گھر کا نہ گھاٹ کا۔
- ٹیڑھی کھیر۔(مشکل راستہ/حل)
- اونٹ کے منہ میں زیرہ۔
- نیکی کر دریا میں ڈال۔
- بندر کیا جانے ادرک کا سواد۔
- کھودا پہاڑ نکلا چوہا۔
- دور کے ڈھول سہانے۔
- سیکھ نہ دیجیے باندرا کو جو گھر بئے کا جائے سیکھواکو دیجیے جاکو سیکھ سہائے۔
اشعار میں ضرب الامثال
ترمیم- آباد مر کے کوچۂ جاناں میں رہ گیا
- دی تھی دعا کسی نے کہ جنت میں گھر ملے
- آباد لکھنوی
- پے ہے عیب جوُ ترے، حاتم تو غم نہ کر
- دشمن ہے عیب جوُ ، تو خدا عیب پوش ہے
- شاہ حاتم
- فکر معاش، عشق بتاں، یاد رفتگاں
- اس زندگی میں اب کوئی کیا کیا کرے
- سودا
- ﺟﻮ کہ ﻇﺎﻟﻢ ﮨﻮ ﻭﮦ ﮨﺮﮔﺰ ﭘﮭﻮﻟﺘﺎ ﭘﮭﻠﺘﺎ ﻧﮩﯿﮟ
- ﺳﺒﺰ ﮨﻮﺗﮯ ﮐﮭﯿﺖ ﺩﯾﮑﮭﺎ ﮨﮯ ﮐﺒﮭﻮ ﺷﻤﺸﯿﺮ ﮐﺎ
- سودا
- ﺩﻥ ﮐﭩﺎ، ﺟﺲ ﻃﺮﺡ ﮐﭩﺎ ﻟﯿﮑﻦ
- ﺭﺍﺕ ﮐﭩﺘﯽ ﻧﻈﺮ ﻧﮩﯿﮟ ﺁﺗﯽ
- سید محمد اثر
- ﺗﺪﺑﯿﺮ ﻣﯿﺮﮮ ﻋﺸﻖ ﮐﯽ ﮐﯿﺎ ﻓﺎﺋﺪﮦ ﻃﺒﯿﺐ
- ﺍﺏ ﺟﺎﻥ ﮨﯽ ﮐﮯ ساتھ یہ ﺁﺯﺍﺭ ﺟﺎﺋﮯ ﮔﺎ
- میر تقی میر
- ﺍﺏ ﺗﻮ ﺟﺎﺗﮯ ﮨﯿﮟ ﺑﺖ ﮐﺪﮮ ﺳﮯ ﻣﯿﺮ
- ﭘﮭﺮ ﻣﻠﯿﮟ ﮔﮯ ﺍﮔﺮ ﺧﺪﺍ ﻻﯾﺎ[2]
- میر تقی میر
- ﻣﯿﺮﮮ ﺳﻨﮓ ﻣﺰﺍﺭ ﭘﺮ ﻓﺮﮨﺎﺩ
- رکھ ﮐﮯ ﺗﯿﺸﮧ ﮐﮩﮯ ﮨﮯ، ﯾﺎ ﺍﺳﺘﺎﺩ
- میر تقی میر
- ﺷﺮﻁ سلیقہ ﮨﮯ ﮨﺮ ﺍﮎ ﺍﻣﺮ ﻣﯿﮟ
- ﻋﯿﺐ ﺑﮭﯽ ﮐﺮﻧﮯ ﮐﻮ ﮨﻨﺮ ﭼﺎﮨﺌﯿﮯ
- میر تقی میر
- ﺑﮩﺖ کچھ ﮨﮯ ﮐﺮﻭ ﻣﯿﺮ ﺑﺲ
- کہ ﺍللہ ﺑﺲ ﺍﻭﺭ ﺑﺎﻗﯽ ﮨﻮﺱ
- میر تقی میر
- ﻣﺮ ﮔﯿﺎ ﮐﻮﮦ ﮐﻦ ﺍﺳﯽ ﻏﻢ ﻣﯿﮟ
- آنکھ ﺍﻭﺟﮭﻞ، ﭘﮩﺎﮌ ﺍﻭﺟﮭﻞ ﮨﮯ
- میر تقی میر
- ﯾﺎ ﺗﻨﮓ نہ ﮐﺮ ﻧﺎﺻﺢ ﻧﺎﺩﺍﮞ، ﻣﺠﮭﮯ ﺍﺗﻨﺎ
- ﯾﺎ ﭼﻞ ﮐﮯ ﺩﮐﮭﺎ ﺩﮮ، ﺩﮨﻦ ﺍﯾﺴﺎ، ﮐﻤﺮ ﺍﯾﺴﯽ
- مہتاب رائے تاباں
- ﭨﻮﭨﺎ کوکعبہ ﮐﻮﻥ ﺳﯽ ﺟﺎﺋﮯ ﻏﻢ ﮨﮯ ﺷﯿﺦ
- ﮐﭽﮫ ﻗﺼﺮ ﺩﻝ ﻧﮩﯿﮟ کہ ﺑﻨﺎﯾﺎ نہ ﺟﺎﺋﮯ ﮔﺎ
- قائم چاند پوری
- ﮐﯽ ﻓﺮﺷﺘﻮﮞ ﮐﯽ ﺭﺍﮦ ﺍﺑﺮ ﻧﮯ ﺑﻨﺪ
- ﺟﻮ گنہ ﮐﯿﺠﺌﯿﮯ ﺛﻮﺍﺏ ﮨﮯ ﺁﺝ
- میر سوز
- ﮨﺸﯿﺎﺭ ﯾﺎﺭ ﺟﺎﻧﯽ، یہ ﺩﺷﺖ ﮨﮯ ﭨﮭﮕﻮﮞ ﮐﺎ
- ﯾﮩﺎﮞ ﭨﮏ ﻧﮕﺎﮦ ﭼﻮﮐﯽ ﺍﻭﺭ ﻣﺎﻝ ﺩﻭﺳﺘﻮﮞ ﮐﺎ
- نظیر اکبر آبادی
- ﭘﮍﮮ ﺑﮭﻨﮑﺘﮯ ﮨﯿﮟ ﻻﮐﮭﻮﮞ ﺩﺍﻧﺎ، ﮐﺮﻭﮌﻭﮞ ﭘﻨﮉﺕ، ﮨﺰﺍﺭﻭﮞ ﺳﯿﺎﻧﮯ
- ﺟﻮ ﺧﻮﺏ ﺩﯾﮑﮭﺎ ﺗﻮ ﯾﺎﺭ ﺁﺧﺮ، ﺧﺪﺍ ﮐﯽ ﺑﺎﺗﯿﮟ ﺧﺪﺍ ﮨﯽ ﺟﺎنے
- نظیر اکبر آبادی
- ﭨﮏ ساتھ ﮨﻮ ﺣﺴﺮﺕ ﺩﻝ ﻣﺮﺣﻮﻡ ﺳﮯ ﻧﮑﻠﮯ
- ﻋﺎﺷﻖ ﮐﺎ ﺟﻨﺎﺯﮦ ﮨﮯ ﺫﺭﺍ ﺩﮬﻮﻡ ﺳﮯ ﻧﮑﻠﮯ
- فدوی عظیم آبادی
- رکھ نہ ﺁﻧﺴﻮ ﺳﮯ ﻭﺻﻞ ﮐﯽ ﺍﻣﯿﺪ
- ﮐﮭﺎﺭﯼ ﭘﺎﻧﯽ ﺳﮯ ﺩﺍﻝ ﮔﻠﺘﯽ ﻧﮩﯿﮟ
- قدرت اللہ قدرت
- ﺑﻠﺒﻞ ﻧﮯ ﺁﺷﯿﺎنہ ﭼﻤﻦ ﺳﮯ ﺍﭨﮭﺎﻟﯿﺎ
- ﭘﮭﺮ ﺍﺱ ﭼﻤﻦ ﻣﯿﮟ ﺑﻮﻡ ﺑﺴﮯ ﯾﺎ ﮨﻤﺎ ﺭﮨﮯ
- مصحفی
- ﮨﺰﺍﺭ ﺷﯿﺦ ﻧﮯ ﺩﺍﮌﮬﯽ ﺑﮍﮬﺎئی ﺳﻦ ﮐﯽ ﺳﯽ
- ﻣﮕﺮ ﻭﮦ ﺑﺎﺕ ﮐﮩﺎﮞ ﻣﻮﻟﻮﯼ ﻣﺪﻥ ﮐﯽ ﺳﯽ
- انشا اللہ خاں انشا
- ﺍﮮ ﺧﺎﻝ ﺭﺥ ﯾﺎﺭ ﺗﺠﮭﮯ ﭨﮭﯿﮏ ﺑﻨﺎﺗﺎ
- ﺟﺎ ﭼﮭﻮﮌ ﺩﯾﺎ ﺣﺎﻓﻆ ﻗﺮﺁﻥ سمجھ ﮐﺮ
- شاہ نصیر
- ﺁﺋﮯ ﺑﮭﯽ ﻟﻮﮒ، ﺑﯿﭩﮭﮯ ﺑﮭﯽ، اٹھ ﺑﮭﯽ ﮐﮭﮍﮮ ﮨﻮﺋﮯ
- ﻣﯿﮟ ﺟﺎ ﮨﯽ ﮈﮬﻮﻧﮉﮬﺘﺎ ﺗﯿﺮﯼ ﻣﺤﻔﻞ ﻣﯿﮟ ﺭﮦ ﮔﯿﺎ
- آتش
- ﻟﮕﮯ منہ ﺑﮭﯽ ﭼﮍﺍﻧﮯ ﺩﯾﺘﮯ ﺩﯾﺘﮯ ﮔﺎﻟﯿﺎﮞ ﺻﺎﺣﺐ
- ﺯﺑﺎﮞ ﺑﮕﮍﯼ ﺗﻮ ﺑﮕﮍﯼ ﺗﮭﯽ، ﺧﺒﺮ ﻟﯿﺠﺌﯿﮯ ﺩﮨﻦ ﺑﮕﮍﺍ
- آتش
- ﻣﺸﺎﻕ ﺩﺭﺩ ﻋﺸﻖ ﺟﮕﺮ ﺑﮭﯽ ﮨﮯ، ﺩﻝ ﺑﮭﯽ ﮨﮯ
- ﮐﮭﺎؤں ﮐﺪﮬﺮ ﮐﯽ ﭼﻮﭦ، ﺑﭽﺎؤں کدھر کی چوٹ
- آتش
- ﻓﺼﻞ ﺑﮩﺎﺭ ﺁئی ﭘﯿﻮ ﺻﻮﻓﯿﻮ ﺷﺮﺍﺏ
- ﺑﺲ ﮨﻮ ﭼﮑﯽ ﻧﻤﺎﺯ مصلٰی ﺍﭨﮭﺎﺋﯿﮯ
- آتش
- ﺯﺍﮨﺪ ﺷﺮﺍﺏ ﭘﯿﻨﮯ ﺳﮯ ﮐﺎﻓﺮ ﮨﻮﺍ ﻣﯿﮟ ﮐﯿﻮﮞ
- ﮐﯿﺎ ﮈﯾﮍﮪ ﭼﻠﻮ ﭘﺎﻧﯽ ﻣﯿﮟ ﺍﯾﻤﺎﻥ بہہ ﮔﯿﺎ
- ذوق
- ﺍﻥ ﺩﻧﻮﮞ ﮔﺮچہ ﺩﮐﻦ ﻣﯿﮟ ﮨﮯ ﺑﮍﯼ ﻗﺪﺭ ﺳﺨﻦ
- ﮐﻮﻥ ﺟﺎﺋﮯ ﺫﻭﻕ ﭘﺮ ﺩﻟﯽ ﮐﯽ ﮔﻠﯿﺎﮞ ﭼﮭﻮﮌ ﮐﺮ
- ذوق
- ﺍﺳﯽ ﻟﺌﮯ ﺗﻮ ﻗﺘﻞ ﻋﺎﺷﻘﺎﮞ ﺳﮯ ﻣﻨﻊ ﮐﺮﺗﮯ ﮨﯿﮟ
- ﺍﮐﯿﻠﮯ ﭘﮭﺮ ﺭﮨﮯ ﮨﻮ ﯾﻮﺳﻒ ﺑﮯ ﮐﺎﺭﺭﻭﺍﮞ ﮨﻮ ﮐﺮ
- خواجہ وزیر
- ﺑﻠﺒﻞ ﮐﮯ ﮐﺎﺭﻭﺑﺎﺭ پہ ﮨﯿﮟ ﺧﻨﺪﮦ ﮨﺎﺋﮯ ﮔﻞ
- ﮐﮩﺘﮯ ﮨﯿﮟ ﺟﺲ ﮐﻮ ﻋﺸﻖ ﺧﻠﻞ ﮨﮯ ﺩﻣﺎﻍ ﮐﺎ
- غالب
- ﺩﯾﺎ ﮨﮯ ﺧﻠﻖ ﮐﻮ ﺑﮭﯽ ﺗﺎ ﺍﺳﮯ ﻧﻈﺮ نہ ﻟﮕﮯ
- ﺑﻨﺎ ﮨﮯ ﻋﯿﺶ ﺗﺠﻤﻞ ﺣﺴﯿﻦ ﺧﺎﮞ ﮐﮯ ﻟﺌﮯ
- غالب
- ﺟﺎﻧﺘﺎ ﮨﻮﮞ ﺛﻮﺍﺏ ﻃﺎﻋﺖ ﻭ ﺯﮨﺪ
- ﭘﺮ ﻃﺒﯿﻌﺖ ﺍﺩﮬﺮ ﻧﮩﯿﮟ ﺁﺗﯽ
- غالب
- ﮔﻮ ﻭﺍﮞ ﻧﮩﯿﮟ، پہ ﻭﺍﮞ ﮐﮯ ﻧﮑﺎﻟﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﺗﻮ ﮨﯿﮟ
- ﮐﻌﺒﮯ ﺳﮯ ﺍﻥ ﺑﺘﻮﮞ ﮐﻮ ﻧﺴﺒﺖ ﮨﮯ ﺩﻭﺭ ﮐﯽ
- غالب
- ﺩﺍﻡ ﻭ ﺩﺭ ﺍﭘﻨﮯ ﭘﺎﺱ ﮐﮩﺎﮞ
- ﭼﯿﻞ ﮐﮯ ﮔﮭﻮﻧﺴﻠﮯ ﻣﯿﮟ ﻣﺎﺱ ﮐﮩﺎﮞ
- غالب
- ﮐﻮچۂ ﻋﺸﻖ ﮐﯽ ﺭﺍﮨﯿﮟ ﮐﻮئی ﮨﻢ ﺳﮯ ﭘﻮﭼﮭﮯ
- ﺧﻀﺮ ﮐﯿﺎ ﺟﺎﻧﯿﮟ ﻏﺮﯾﺐ، ﺍﮔﻠﮯ ﺯﻣﺎﻧﮯ ﻭﺍﻟﮯ
- وزیر علی صبا
- ﺍﺫﺍﮞ ﺩﯼ ﮐﻌﺒﮯ ﻣﯿﮟ، ﻧﺎﻗﻮﺱ ﺩﯾﺮ ﻣﯿﮟ ﭘﮭﻮﻧﮑﺎ
- ﮐﮩﺎﮞ ﮐﮩﺎﮞ ﺗﺮﺍ ﻋﺎﺷﻖ ﺗﺠﮭﮯ ﭘﮑﺎﺭ ﺁﯾﺎ
- محمد رضا برق
- ﻟﮕﺎ ﺭﮨﺎ ﮨﻮﮞ ﻣﻀﺎﻣﯿﻦ ﻧﻮ ﮐﮯ ﺍﻧﺒﺎﺭ
- ﺧﺒﺮ ﮐﺮﻭ ﻣﯿﺮﮮ ﺧﺮﻣﻦ ﮐﮯ ﺧﻮشہ ﭼﯿﻨﻮﮞ ﮐﻮ
- میر انیس
- ﻭﮦ شیفتہ کہ ﺩﮬﻮﻡ ﮨﮯ ﺣﻀﺮﺕ ﮐﮯ ﺯﮨﺪ ﮐﯽ
- ﻣﯿﮟ ﮐﯿﺎ ﮐﮩﻮﮞ کہ ﺭﺍﺕ ﻣﺠﮭﮯ ﮐﺲ ﮐﮯ ﮔﮭﺮ ﻣﻠﮯ
- شیفتہ
- ﮨﺮ ﭼﻨﺪ ﺳﯿﺮ ﮐﯽ ﮨﮯ ﺑﮩﺖ ﺗﻢ ﻧﮯ شیفتہ
- ﭘﺮ ﻣﮯ ﮐﺪﮮ ﻣﯿﮟ ﺑﮭﯽ ﮐﺒﮭﯽ ﺗﺸﺮﯾﻒ ﻻﺋﯿﮯ
- شیفتہ
- ﻓﺴﺎﻧﮯ ﺍﭘﻨﯽ ﻣﺤﺒﺖ ﮐﮯ ﺳﭻ ﮨﯿﮟ، ﭘﺮ کچھ کچھ
- ﺑﮍﮬﺎ ﺑﮭﯽ ﺩﯾﺘﮯ ﮨﯿﮟ ﮨﻢ ﺯﯾﺐ ﺩﺍﺳﺘﺎﮞ ﮐﮯ ﻟﺌﮯ
- شیفتہ
- ﮐﯿﺎ ﻟﻄﻒ، ﺟﻮ ﻏﯿﺮ ﭘﺮﺩﮦ ﮐﮭﻮﻟﮯ
- ﺟﺎﺩﻭ ﻭﮦ ﺟﻮ ﺳﺮ چڑھ ﮐﮯ ﺑﻮﻟﮯ
- دیا شنکر نسیم
- ﺩﯾﻨﺎ ﻭﮦ اس کا ﺳﺎﻏﺮ ﻣﮯ ﯾﺎﺩ ﮨﮯﻧﻈﺎﻡ
- منہ ﭘﮭﯿﺮ ﮐﺮ ﺍُﺩﮬﺮ ﮐﻮ، ﺍﺩﮬﺮ ﮐﻮ ﺑﮍﮬﺎ ﮐﮯ ﮨﺎتھ
- نظام رام پوری
- ﮔﺮﮦ ﺳﮯ کچھ ﻧﮩﯿﮟ ﺟﺎﺗﺎ، ﭘﯽ ﺑﮭﯽ ﻟﮯ ﺯﺍﮨﺪ
- ﻣﻠﮯ ﺟﻮ ﻣﻔﺖ ﺗﻮ ﻗﺎﺿﯽ ﮐﻮ ﺑﮭﯽ ﺣﺮﺍﻡ ﻧﮩﯿﮟ
- امیر مینائی
- ﻭﮦ ﺟﺐ ﭼﻠﮯ ﺗﻮ ﻗﯿﺎﻣﺖ ﺑﭙﺎ ﺗﮭﯽ ﭼﺎﺭ ﻃﺮﻑ
- ﭨﮩﺮ ﮔﺌﮯ ﺗﻮ ﺯﻣﺎﻧﮯ ﮐﻮ ﺍﻧﻘﻼﺏ نہ ﺗﮭﺎ
- داغ
- ﭘﺎﻥ ﺑﻦ ﺑﻦ ﮐﮯ ﻣﺮﯼ ﺟﺎﻥ ﮐﮩﺎﮞ ﺟﺎﺗﮯ ﮨﯿﮟ
- یہ ﻣﺮﮮ ﻗﺘﻞ ﮐﮯ ﺳﺎﻣﺎﻥ ﮐﮩﺎﮞ ﺟﺎﺗﮯ ﮨﯿﮟ
- ظہیر الدین ظہیر
- ﺩﯾﮑﮭﺎ ﮐﺌﮯ ﻭﮦ ﻣﺴﺖ ﻧﮕﺎﮨﻮﮞ ﺳﮯ ﺑﺎﺭ ﺑﺎﺭ
- ﺟﺐ ﺗﮏ ﺷﺮﺍﺏ ﺁﺋﮯ کئی ﺩﻭﺭ ﮨﻮ ﮔﺌﮯ
- شاد عظیم آبادی
- ﺧﻼﻑ ﺷﺮﻉ ﮐﺒﮭﯽ ﺷﯿﺦ ﺗﮭﻮﮐﺘﺎ ﺑﮭﯽ ﻧﮩﯿﮟ
- ﻣﮕﺮ ﺍﻧﺪﮬﯿﺮﮮ ﺍﺟﺎﻟﮯ ﻣﯿﮟ ﭼﻮﮐﺘﺎ ﺑﮭﯽ ﻧﮩﯿﮟ
- اکبر الہ آبادی
- دیکھ آؤ ﻣﺮﯾﺾ ﻓﺮﻗﺖ ﮐﻮ
- ﺭﺳﻢ ﺩﻧﯿﺎ ﺑﮭﯽ ﮨﮯ، ﺛﻮﺍﺏ ﺑﮭﯽ ﮨﮯ
- حسن بریلوی
- ﺗﻤﮩﯿﮟ ﭼﺎﮨﻮﮞ، ﺗﻤﮩﺎﺭﮮ ﭼﺎﮨﻨﮯ ﻭﺍﻟﻮﮞ ﮐﻮ ﺑﮭﯽ ﭼﺎﮨﻮﮞ
- ﻣﺮﺍ ﺩﻝ ﭘﮭﯿﺮ ﺩﻭ، مجھ ﺳﮯ یہ ﺟﮭﮕﮍﺍ ﮨﻮ ﻧﮩﯿﮟ ﺳﮑﺘﺎ
- مضطر خیر آبادی
- ﺍﻓﺴﻮﺱ، ﺑﮯ ﺷﻤﺎﺭ ﺳﺨﻦ ﮨﺎﺋﮯ ﮔﻔﺘﻨﯽ
- ﺧﻮﻑ ﻓﺴﺎﺩ ﺧﻠﻖ ﺳﮯ ﻧﺎ گفتہ ﺭﮦ ﮔﺌﮯ
- آزاد انصاری
- ﺗﻮﮌ ﮐﺮ ﻋﮩﺪ ﮐﺮﻡ ﻧﺎ ﺁﺷﻨﺎ ﮨﻮ ﺟﺎﺋﯿﮯ
- ﺑﻨﺪﮦ ﭘﺮﻭﺭ ﺟﺎﺋﯿﮯ، ﺍﭼﮭﺎ، ﺧﻔﺎ ﮨﻮ ﺟﺎﺋﯿﮯ
- حسرت موہانی
- یہ ﺩﺳﺘﻮﺭ ﺯﺑﺎﮞ ﺑﻨﺪﯼ ﮨﮯ ﮐﯿﺴﺎ ﺗﯿﺮﯼ ﻣﺤﻔﻞ ﻣﯿﮟ
- ﯾﮩﺎﮞ ﺗﻮ ﺑﺎﺕ ﮐﺮﻧﮯ ﮐﻮ ﺗﺮﺳﺘﯽ ﮨﮯ ﺯﺑﺎﮞ ﻣﯿﺮﯼ
- اقبال
- ﺍﻗﺒﺎﻝ ﺑﮍﺍ ﺍﭘﺪﯾﺸﮏ ﮨﮯ، ﻣﻦ ﺑﺎﺗﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﻣﻮﮦ ﻟﯿﺘﺎ ﮨﮯ
- ﮔﻔﺘﺎﺭ ﮐﺎ یہ ﻏﺎﺯﯼ ﺗﻮ ﺑﻨﺎ، ﮐﺮﺩﺍﺭ ﮐﺎ ﻏﺎﺯﯼ ﺑﻦ نہ ﺳﮑﺎ
- اقبال
- کچھ سمجھ ﮐﺮ ﮨﯽ ﮨﻮﺍ ﮨﻮﮞ ﻣﻮﺝ ﺩﺭﯾﺎ ﮐﺎ ﺣﺮﯾﻒ
- ﻭﺭنہ ﻣﯿﮟ ﺑﮭﯽ ﺟﺎﻧﺘﺎ ﮨﻮﮞ کہ ﻋﺎﻓﯿﺖ ﺳﺎﺣﻞ ﻣﯿﮟ ﮨﮯ
- وحشت کلکتوی
- دیکھ ﮐﺮ ﮨﺮ ﺩﺭ ﻭ ﺩﯾﻮﺍﺭ ﮐﻮ ﺣﯿﺮﺍﮞ ﮨﻮﻧﺎ
- ﻭﮦ ﻣﯿﺮﺍ ﭘﮩﻠﮯ ﭘﮩﻞ ﺩﺍﺧﻞ ﺯﻧﺪﺍﮞ ﮨﻮﻧﺎ
- عزیز لکھنوی
- ﭼﺘﻮﻧﻮﮞ ﺳﮯ ﻣﻠﺘﺎ ﮨﮯ ﮐﭽﮫ ﺳﺮﺍﻍ ﺑﺎﻃﻦ ﮐﺎ
- ﭼﺎﻝ ﺳﮯ ﺗﻮ ﮐﺎﻓﺮ پر ﺳﺎﺩﮔﯽ ﺑﺮﺳﺘﯽ ﮨﮯ
- یگانہ چنگیزی
- ﻭﮦ ﺁﺋﮯ ﺑﺰﻡ ﻣﯿﮟ ﺍﺗﻨﺎ ﺗﻮ ﺑﺮﻕ ﻧﮯ ﺩﯾﮑﮭﺎ
- ﭘﮭﺮ ﺍﺳﮑﮯ ﺑﻌﺪ ﭼﺮﺍﻏﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﺭﻭﺷﻨﯽ نہ ﺭﮨﯽ
- مہا راج بہادر برق
- ﮨﺮ ﺗﻤﻨﺎ ﺩﻝ ﺳﮯ ﺭﺧﺼﺖ ﮨﻮ گئی
- ﺍﺏ ﺗﻮ ﺁﺟﺎ ﺍﺏ ﺗﻮ ﺧﻠﻮﺕ ﮨﻮ گئی
- عزیز الحسن مجذوب
- ﺍﺏ ﯾﺎﺩ ﺭﻓﺘﮕﺎﮞ ﮐﯽ ﺑﮭﯽ ﮨﻤﺖ ﻧﮩﯿﮟ ﺭﮨﯽ
- ﯾﺎﺭﻭﮞ ﻧﮯ ﮐﺘﻨﯽ ﺩﻭﺭ ﺑﺴﺎئی ﮨﯿﮟ ﺑﺴﺘﯿﺎﮞ
- فراق گورکھپوری
- ﺩﺍﻭﺭ ﺣﺸﺮ ﻣﯿﺮﺍ ﻧﺎمۂ ﺍﻋﻤﺎﻝ نہ دیکھ
- ﺍﺱ ﻣﯿﮟ ﮐﭽﮫ ﭘﺮﺩﮦ ﻧﺸﯿﻨﻮﮞ ﮐﮯ ﺑﮭﯽ ﻧﺎﻡ ﺁﺗﮯ ﮨﯿﮟ
- محمد دین تاثیر
- ﺍﻣﯿﺪ ﻭﺻﻞ ﻧﮯ ﺩﮬﻮﮐﮯ ﺩﺋﯿﮯ ﮨﯿﮟ ﺍﺱ ﻗﺪﺭ ﺣﺴﺮﺕ
- ﮐﮧ ﺍﺱ ﮐﺎﻓﺮ ﮐﯽ ' ﮨﺎﮞ' ﺑﮭﯽ ﺍﺏ 'ﻧﮩﯿﮟ' ﻣﻌﻠﻮﻡ ﮨﻮﺗﯽ ﮨﮯ
- چراغ حسن حسرت
- ﺍﻋﺘﺮﺍﻑ ﺍﭘﻨﯽ ﺧﻄﺎؤں ﮐﺎ ﻣﯿﮟ ﮐﺮﺗﺎ ﮨﯽ ﭼﻠﻮﮞ
- ﺟﺎﻧﮯ ﮐﺲ ﮐﺲ ﮐﻮ ﻣﻠﮯ ﻣﯿﺮﯼ ﺳﺰﺍ ﻣﯿﺮﮮ ﺑﻌﺪ
- کرار نوری
- ﻭﮦ ﻟﻮﮒ ﺟﻦ ﺳﮯ ﺗﺮﯼ ﺑﺰﻡ ﻣﯿﮟ ﺗﮭﮯ ﮨﻨﮕﺎﻣﮯ
- ﮔﺌﮯ ﺗﻮ ﮐﯿﺎ ﺗﺮﯼ ﺑﺰﻡ ﺧﯿﺎﻝ ﺳﮯ ﺑﮭﯽ ﮔﺌﮯ
- عزیز حامد مدنی
- ﺍﯾﮏ ﻣﺤﺒﺖ ﮐﺎﻓﯽ ﮨﮯ
- ﺑﺎﻗﯽ ﻋﻤﺮ ﺍﺿﺎﻓﯽ ﮨﮯ
- محبوب خزاں
- ﻣﺮﯼ ﻧﻤﺎﺯ ﺟﻨﺎﺯﮦ ﭘﮍﮬﯽ ﮨﮯ ﻏﯿﺮﻭﮞ ﻧﮯ
- ﻣﺮﮮ ﺗﮭﮯﺟﻦ ﮐﮯ ﻟﺌﮯ، ﻭﮦ ﺭﮨﮯ ﻭﺿﻮ ﮐﺮﺗﮯ
- آتش
- ﺍﯾﺴﯽ ﺿﺪ ﮐﺎ ﮐﯿﺎ ﭨﮭﮑﺎﻧﺎ، ﺍﭘﻨﺎ ﻣﺬﮨﺐ ﭼﮭﻮﮌ ﮐﺮ
- ﻣﯿﮟ ﮨﻮﺍ ﮐﺎﻓﺮ ﺗﻮ ﻭﮦ ﮐﺎﻓﺮ ﻣﺴﻠﻤﺎﮞ ﮨﻮ ﮔﯿﺎ
- نامعلوم[3]
- ﻣﺤﺒﺖ ﻣﯿﮟ ﻟﭩﺘﮯ ﮨﯿﮟ ﺩﯾﻦ ﺍﻭﺭ ﺍﯾﻤﺎﮞ
- ﺑﮍﺍ ﺗﯿﺮ ﻣﺎﺭﺍ ﺟﻮﺍﻧﯽ ﻟﭩﺎ ﺩﯼ
- نامعلوم[4]
حوالہ جات
ترمیم- ↑ "اردو کہاوتیں اور ضرب الامثال"۔ اردو گاہ
- ↑ "اردو کے ضرب المثل اشعار"
- ↑ حوالہ درکار ہے۔
- ↑ حوالہ درکار ہے۔