طوبیٰ
ہہشت کے درخت کا نام جس کی شاخیں ہر ایک اہل جنت کے مکان پر چھائی ہوئی ہوں گی۔ طوبیٰ(جنت کا درخت) جنت ایک انعام ہے جو اللہ کی طرف سے ہمیں عطاکیا جائے گا۔اس کا اندازہ ہماری عقل اور سوچ نہیں لگا سکتی،ہاں ہمارا علم کچھ ادراک کرسکتا ہے جب ہم اپنے علم کو اللہ کی اطاعت پر،اللہ کی دہلیزپر ڈال دیں،آج ہم اللہ کی بنائی ہوئی چیزوں کی بھی معرفت سے بہت دور ہیں،نبی کریمﷺ نے اپنی تعلیمات کے ذریعہ ہمیں اللہ کے فضل سے آگاہ کیا۔لیکن آج اُن تعلیمات کو لینے کے لیے صحابہ والی سوچ،فہم اور فکر کی ضرورت ہے اور اس علم کو سنبھالنے کے لیے صحابہ جیسا تعلق رسول اللہ ﷺ سے ہونا ضروری ہے،نبی کریم ﷺ نے جنت کے بارے میں خبر دیتے ہوئے ذکر کیا۔
عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے:
ذكرت عند النبي صلى اللہ عليہ وسلم طوبى فقال رسول اللہ صلى اللہ عليہ وسلم: «يا أبا بكر هل بلغك ما طوبى؟» قال: اللہ ورسولہ أعلم۔ قال «طوبى شجرة في الجنة ما يعلم طولها إلا اللہ يسير الراكب تحت غصن من أغصانها سبعين خريفا ورقها الحلل يقع عليها الطير كأمثال البخت» فقال أبو بكر: يا رسول اللہ إن هناك لطيرا ناعما؟ قال «أنعم منہ من يأكلہ وأنت منهم إن شاء اللہ تعالى۔
(محمد بن اسماعیل ابن کثیر، تفسیر ابن کثیر ،ج-8، دار الكتب العلميہ، منشورات محمد علي بيضون ، بيروت،لبنان، 1419 ھ،ص :13/ عبد الرحمن بن أبي بكر، جلال الدين السيوطي، الدر المنثور،ج-4، دار الفكر ،بيروت،لبنان، 1419 ہ،ص:649)
ترجمہ : انھوں نے کہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس"طوبی"کا ذکر کیا گیا۔آپ نے ارشاد فرمایا: اے ابوبکر کیا تم"طوبیٰ" کے بارے میں جانتے ہو؟انھوں نے عرض کیا اللہ اور اس کا رسول سب سے زیادہ جانتا ہے۔آپ نے ارشاد فرمایا"طوبیٰ"جنت میں ایک درخت ہے جس کی اونچائی اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا،ایک گھوڑا سوار اس کی ٹہنیوں کے نیچے 70 سال تک چلتا جائے تو بھی اس کا سایہ ختم نہ ہو ، اس کے پتے بہت چوڑے چوڑے ہیں ان پر بختی اونٹنی جیسے پرندے آ کر بیٹھتے ہیں۔حضرت ابوبکر نے کہا: یہ پرندے تو بڑی بڑی نعمتوں والے ہوں گے۔آپ نے فرمایا ان سے زیادہ نعمتوں والے انھیں کھانے والے ہوں گے اور انشاء اللہ تم بھی انھیں کھانے والوں میں سے ہوگے۔