عبد اللہ بن عمر
عبد اللہ بن عمر خلیفہ دوم عمر ابن الخطاب کے صاحبزادے تھے۔ حبر الامۃ (امت کا بڑا عالم) لقب ہے۔ان کے والد کے خلیفہ برحق ہونے کے حوالے جن کتب احادیث میں درج ہیں ان تمام صحیح و مستند احادیث کے تمام راوی ثقہ،عادل اور ضابط ہیں اور اس پر تمام اہل سنت والجماعت کا اجماع و اتفاق ہے۔
عبد اللہ بن عمر | |
---|---|
(عربی میں: عبد الله بن عمر ابن الخطاب) | |
معلومات شخصیت | |
پیدائش | سنہ 610 مکہ[1] |
وفات | سنہ 693 (82–83 سال)[2] مکہ |
شہریت | ![]() ![]() |
اولاد | سالم بن عبد اللہ |
والد | عمر ابن الخطاب[1] |
والدہ | زینب بنت مظعون |
بہن/بھائی | |
عملی زندگی | |
نمایاں شاگرد | نافع مولی ابن عمر، طاؤس بن کیسان، بکیر بن الاخنس السدوسی، محمد بن سیرین، ابراہیم بن ابی عبلہ |
پیشہ | عسکری قائد، محدث، مفسر قرآن، مفتی |
پیشہ ورانہ زبان | عربی |
عسکری خدمات | |
لڑائیاں اور جنگیں | غزوۂ بدر، غزوہ احد، غزوہ خندق، جنگ موتہ، غزوہ تبوک، فتح مکہ |
درستی - ترمیم ![]() |
نام ونسبترميم
عبداللہ نام ، ابوعبدالرحمن کنیت، آبائی سلسلہ نسب یہ ہے، عبداللہ بن عمر بن خطاب ابن نفیل بن عبدالعزی بن رباح بن قرط بن زراح بن عدی بن کعب بن لوی بن غالب بن فہر، ماں کا نام زینب تھا، نانہالی نسب نامہ یہ ہے، زینب بنت مظعون بن حبیب بن وہب بن حذافہ بن حمح بن عمرو بن حصین۔
ولادتترميم
یہ صحیح روایت سے ثابت ہے کہ حضرت ابن عمرؓ غزوۂ احد میں جو ۳ھ میں پیش آیا ، چودہ برس کے تھے، اس حساب سے ان کی پیدائش کا تخمینی زمانہ بعثت کا دوسرا سال ہے اور ۶نبوی میں جب حضرت عمرؓ مشرف بہ اسلام ہوئے تو ابن عمر کا سن تقریبا ًپانچ برس کا ہوگا۔
اسلامترميم
حضرت عبداللہ بن عمرؓ نے ہوش سنبھالا ہی تھا کہ اپنے گھر کے درودیوار پر اسلام کو پر تو فگن دیکھا اور اسلام ہی کے دامن مکیں ان کی نشو نما ہوئی، بعض روایتوں میں ہے کہ وہ اپنے والد بزرگوار سے پہلے مشرف باسلام ہوئے تھے مگر صحیح یہ ہے کہ انہوں نے اپنے والد بزرگوار کے ساتھ اس طرح اسلام قبول کیا تھا جس طرح خاندان کے بڑے بزرگ کے تبدیل مذہب کے گھر کے کمسن بچے بھی غیر شعوری طورسے اپنے مذہب کو بدل ڈالتے ہیں ،جن غیر معتبر راویوں نے حضرت ابن عمرؓ کے اسلام کا واقعہ نقل کیا ہے ،درحقیقت ان کو بیعتِ رضوان کے واقعہ کے ساتھ التباس ہوا ہے، صحیح بخاری میں خود حضرت ابن عمرؓ کی زبانی منقول ہے کہ جب میرے باپ مسلمان ہوئے تو میں چھوٹا بچہ تھا،[3] ظاہر ہے کہ ایک چھوٹا بچہ حق وباطل کی تمیز کی وہ دقتِ نگاہ نہیں رکھتا،جواس زمانہ میں اس کو کسی مذہب کے بذات خود ردوقبول پر آمادہ کرسکے۔
ہجرتترميم
انوار اسلام کی چمک کے ساتھ ساتھ مشرکین کے ظلم وطغیان کی گرج بھی برابر بڑھتی گئی اورحضرت عمرؓ اوران کا خاندان بھی ان کی ستم کیشیوں سے محفوظ نہ رہا، اس لیے حضرت عمرؓ نے بھی اپنے اہل وعیال کے ساتھ ہجرت کی۔
بدرترميم
ہجرت کے بعد حق وباطل کی پہلی آویزش غزوۂ بدر ہے، اس وقت ابن عمرؓ کی عمر کل ۱۳ سال کی تھی، تاہم جانبازی کے شوق میں شرکت کی درخواست کی،صغیر السن ہونے کی وجہ سے آنحضرت ﷺ نے قبول نہ فرمائی۔ [4]
احدترميم
اس کے ایک سال بعد، دوسرا معرکہ احد میں ہوا، اس میں بھی انہوں نے اپنا نام پیش کیا ،مگر چونکہ چودہ سال سے متجاوز نہیں ہوئے تھے، اس لیے اس مرتبہ بھی ان کی درخواست مسترد ہوگئی۔ [5]
خندقترميم
احد کے دو سال بعد ۵ھ غزوۂ خندق میں ان کی عمر پندرہ سال پوری ہوچکی تھی؛ چنانچہ یہی وہ سب سے پہلا معرکہ ہے جس میں ان کو سرکاررسالت سے شرکت کی اجازت ملی۔ [6]
بیعت رضوانترميم
۶ھ میں صلح حدیبیہ کے موقع پر آنحضرت ﷺ کے ہم رکاب ہوئے اوربیعت رضوان کا بھی شرف حاصل کیا اورحسنِ اتفاق یہ کہ یہ شرف اپنے پدر عالی قدر سے پہلے حاصل کیا، اس کی صورت یہ پیش آئی کہ حدیبیہ کے دن حضرت عمرؓ نے عبداللہ کو ایک انصاری کے پاس گھوڑا لانے کے لیے بھیجا تھا کہ جہاد میں وہ اس پر سوار ہوسکیں، عبداللہ باہر نکلے تو معلوم ہوا کہ آنحضرت ﷺ صحابہؓ سے بیعت لے رہے ہیں،چنانچہ انہوں نے پہنچ کر پہلے خود بیعت کی اور اس کے بعد گھوڑا لے کر گئے اورحضرت عمرؓ کو اس کی اطلاع دی، انہوں نے بھی جاکر بیعت کا شرف حاصل کیا۔ [7]
خیبرترميم
اس کے بعد غزوۂ خیبر میں بھی وہ مجاہدانہ شریک ہوئے اوراس سفر میں آنحضرت ﷺ نے حلال وحرام کے جو بعض خاص احکام جاری فرمائے وہ ان کے راوی ہیں۔ [8]
فتح مکہترميم
قریش اوراسلام کی فتح وشکست کا آخری معرکہ فتح مکہ تھا، اس وقت ابن عمرؓ کی عمر۲۰ سال کی تھی، پورے جوان ہوچکے تھے اور ایک سرفروش مجاہد کی حیثیت سے دوسرے مجاہدین کے دوش بدوش تھے، سامان ِجنگ میں ایک تیز رفتار گھوڑا اورایک بھاری نیزہ تھا جسم پر ایک چھوٹی سی چادر تھی اورخوداپنے ہاتھ سے گھوڑے کے لیے گھانس کاٹ رہے تھے اس حالت میں آنحضرت ﷺ کی نظر پڑی تو تعریف کے لہجہ میں فرمایاکہ عبداللہ ہے عبداللہ، فتح کے بعد خانہ کعبہ میں آنحضرت ﷺ کے پیچھے پیچھے داخل ہوئے، چنانچہ ان کا بیان ہے کہ آنحضرت ﷺ اونٹ پر سوار مکہ کے بالائی حصہ کی طرف سے داخل ہوئے تھے اسامہ بن زید ؓ ان کے ساتھ سوار تھے، عثمان بن طلحہ ؓ اوربلال ؓ جلو میں تھے، خانہ کعبہ کے صحن میں اونٹ بٹھاکر کنجیاں منگائیں اورکعبہ کھول کر تینوں ایک ساتھ داخل ہوئے، ان لوگوں کے بعد سب سے پہلا داخل ہونے والا میں تھا۔ [9]
غزوہ حنینترميم
فتح مکہ کے بعد غزوۂ حنین میں بھی صف آرا تھے، چنانچہ حنین کی واپسی کے بعد کے واقعات کے سلسلہ میں کہتے ہیں کہ جب ہم غزوۂ حنین سے لوٹے تو حضرت عمرؓ نے اعتکاف کی نذر کے متعلق پوچھا جو جاہلیت کے زمانہ میں مانی تھی، آنحضرت ﷺ نے اُس کے پورا کرنے کا حکم دیا۔ [10]
محاصرہ طائفترميم
اس کے بعد طائف کا محاصرہ ہوا، اس محاصرہ میں بھی ابن عمرؓ پیش پیش تھے، چنانچہ اس محاصرہ کے واقعات بیان کرتے تھے کہ جب محاصرہ میں مسلمانوں کو کامیابی نہ ہوئی تو آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ انشا اللہ کل محاصرہ اٹھا کر واپس ہوجائیں گے، یہ ارشاد لوگوں پر گراں گذرا انہوں نے عرض کیا، کیا بغیر فتح کیے ہوئے لوٹ چلیں؟ آپ نے فرمایا اچھا کل پھڑ لڑلو، چنانچہ دوسرے دن لڑے اور فتح کے بجائے الٹے زخمی ہوئے، آپ نے پھر فرمایا کہ انشاء اللہ کل واپس جائں گے، اس مرتبہ لوگوں نے بخوشی منظور کرلیا، اس پر آپ مسکرادیے۔ [11]
حجتہ الوداعترميم
حجتہ الوداع آنحضرت ﷺ کا آخری حج تھا، اس میں مسلمانوں کا جم غفیر آپ کے ہمرکاب تھا، حضرت ابن عمرؓ بھی اس شرف میں شریک تھے، چنانچہ حجۃ الوداع کے واقعات میں ان کا بیان ہے کہ حجۃ الوداع میں آنحضرت ﷺ اوربعض صحابہؓ نے بال منڈائے تھے اوربعضوں نے صرف ترشوانے پر اکتفا کی تھی۔ [12]
غزوہ تبوکترميم
۹ھ میں غزوۂ تبوک پیش آیا، اس میں آنحضرت ﷺ نے ۳۰ ہزار کی جمعیت کے ساتھ رومیوں کے مقابلہ کے لیے تبوک کا رخ کیا تھا، حضرت ابن عمرؓ اس میں بھی شریک تھے، چنانچہ فرماتے ہیں کہ جب آنحضرت ﷺ حجر ،(قدیم اقوام عادوثمود کی آبادیاں) کی طرف گذرے تو فرمایا ان لوگوں کے مسکن میں داخل نہ ہو جنہوں نے (خدا کی نافرمانی کرکے) اپنے اوپر ظلم کیا کہ مباداتم بھی اس عذاب میں مبتلا نہ ہوجاؤ جس میں وہ مبتلا ہوئے، اگر گذرنا ہے توخشیت الہی سے روتے ہوئے گذرجاؤ۔ [13] غرض غزوۂ خندق سے لے کر آخر تک آنحضرت ﷺ کی زندگی میں کوئی ایسی بڑی مہم نہ تھی جس میں انہوں نے شرکت کی عزت حاصل نہ کی ہو۔
عہد صدیقیترميم
ابن عمرؓ عہدہ صدیقی میں کہیں نہیں نظرآتے۔
عہد فاروقیترميم
البتہ عہد فاروقی کے بعض فتوحات میں شریک رہے، لیکن محض ایک سرفروش مجاہد کی حیثیت سے نافع کا بیان ہے کہ جب ابن عمرؓ نہاوند کی جنگ میں شریک ہوئے اوربیمار پڑگئے تو پیاز کو تاگے میں پرو کر دوامیں پکاتے تھے، جب اس میں پیاز کا مزہ آجاتا تھا تو اس کو نکال کے دواپی لیتے تھے، [14] شام اورمصر کی فتوحات میں بھی شرکت کا پتہ چلتا ہے؛ لیکن ان فتوحات میں ان کا کوئی نمایاں کارنامہ نہیں ہے اوراس زمانہ میں سلطنت کے انتظامی امور میں بھی انہوں نے کوئی حصہ نہیں لیا، غالبا اس کا سبب یہ ہے کہ حضرت عمر اپنے عزیزوں کو اس میں پڑنے نہ دیتے تھے، تاہم جہاں امت کے نفع ونقصان کا کوئی سوال پیش آجاتا تو حضرت ابن عمرؓ اپنےوالد بزرگوار کی سخت گیری کے خطرہ کو برداشت بھی کرلیتے تھے،چنانچہ جب حضرت عمرؓ کا وقت آخرہوا اورابن عمرؓ کو اپنی بہن ام المومنین حفصہ ؓ کی زبانی معلوم ہوا کہ حضرت عمرؓ کسی کو اپنا جانشین نامزد کرنے کا خیال نہیں رکھتے جس سے ان کے خیال میں آئندہ مشکلات پیش آنے کا خطرہ تھا توڈرتے ڈرتے باپ کی خدمت میں حاضر ہوئے ان کا بیان ہے کہ میں جرأت تو کر گیا مگر مارے خوف کے معلوم ہوتا تھا کہ پہاڑ اٹھا رہاہوں، میں پہنچا تو پہلے حضرت عمرؓ لوگوں کے حالات پوچھتے رہے، پھر میں نے جرأت کرکے عرض کیا کہ میں لوگوں کی چہ میگوئیاں گوش گذار کرنے حاضر ہوا ہوں ان کا خیال ہے کہ آپ کسی کو اپنا جانشین منتخب نہ فرمائیں گے، فرض کیجئے کہ وہ چرواہا جو آپ کی بکریوں اوراونٹوں کو چراتا ہے،اگر گلہ کو چھوڑ کر آپ کے پاس چلاجائے تو شرکا ءکا کیا حشر ہوگا؟ ایسی حالت میں انسانوں کی گلہ بانی کا فرض تو اس سے کہیں بڑھ کر ہے، حضرت عمرؓ نے اس معقول استدلال کو پسند کیا،پھر کچھ سوچ کر بولے خدا خود اپنے گلہ کا نگہبان ہے اگر میں کسی کو اپنا جانشین نامزد نہ کروں تو کوئی مضائقہ نہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے بھی نامزد نہیں فرمایا تھا، اوراگر کرجاؤں تو بھی کوئی حرج نہیں کہ ابوبکرؓ نامزد کرگئے تھے، ابن عمرؓ کابیان ہے کہ جب حضرت عمرؓ نے رسول اللہ ﷺ اورابوبکرؓ کا نام لیا تو میں سمجھ گیا کہ وہ آنحضرت ﷺ کے اسوۂ حسنہ پر کسی کو ترجیح نہ دیں گے اورکسی کو اپنا جانشین خود نہ بناجائیں گے، [15]چنانچہ انہوں نے اپنے بعد اپنی جانشینی کا مسئلہ مسلمانوں کی ایک جماعت کے سپرد کردیا، جس میں متعدد اکابر صحابہ شامل تھے۔
عہد عثمانیترميم
ابن عمرؓ اپنے والد بزرگوار کی وفات کے بعد سب سے پہلے انتخاب خلیفہ کی مجلس شوریٰ میں نظر آتے ہیں، کیونکہ حضرت عمرؓ نے وصیت فرمائی تھی کہ خلیفہ کے انتخاب میں عبداللہ بحیثیث مشیر شریک ہوں،مگر صرف مشورہ دے سکتے ہیں خلیفہ نہیں نامزد کیے جاسکتے ۔ [16]
حضرت عثمان ؓ کے زمانہ میں ان کو ملکی معاملات میں حصہ لینے کا موقع ملا، مگر انہوں نے اس سے کوئی فائدہ نہیں اٹھایا، حضرت عثمان ؓ نے قضاء کا عہدہ پیش کیا،انہوں نے معذرت کردی کہ میں نہ دوشخصوں کےدرمیان فیصلہ کرتا ہوں اورنہ دوشخصوں کی امامت کرتا ہوں؛ کیونکہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا ہے کہ قاضی تین قسم کے ہوتے ہیں ،ایک جاہل جس کا ٹھکانا دوزخ ہے دوسرا عالم مائل الی الدنیا، اس کا مستقر بھی دوزخ ہے، تیسرا جو اجتہاد کرتا ہے اورصحیح رائے قائم کرتا ہے اس کے لیے نہ عذاب ہے نہ ثواب،حضرت عثمان نے فرمایا کہ تمہارے باپ تو فیصلے کرتے تھے ،بولے یہ صحیح ہے ؛لیکن جب ان کو کسی پیچیدہ بات میں دشواری پیش آتی تھی تو آنحضرت ﷺ کی طرف رجوع کرتے تھے اور جب آنحضرتﷺ کو دشواری ہوتی تھی تو جبرئیل سے دریافت فرماتے تھے میں کس کی طرف رجوع کروں گا،کیا آپ نے آنحضرتﷺ سے نہیں سنا کہ جس نے خدا کی پناہ مانگی اس نے پناہ کی جگہ پناہ مانگی،اس لیے خدارا مجھ کو کہیں کا عامل نہ بنائیے، ان کے انکار پرحضرت عثمانؓ نے زیادہ اصرار نہیں کیا، البتہ یہ عہدلے لیا کہ اس کا تذکرہ کسی سے نہ کرنا۔ [17]
مگر ملکی انتظام سے اس کنارہ کشی کے باوجود جہاد فی سبیل اللہ میں برابر شریک ہوتے رہے چنانچہ ۲۷ھ میں، افریقہ ،اتونس، الجزائر، مراکش، کی مہم میں شریک ہوئے،[18] پھر ۳۰ھ میں خراساں اورطبرستان کے معرکوں میں سعید بن عاصؓ کے ساتھ رہے، [19]جب فتنہ وفساد شروع ہوا تو بالکل کنارہ کش ہوگئے اور پھر کسی چیز میں حصہ نہیں لیا، اسی احتیاط کی بنا پر خلافت کے اعزاز سے بھی انکار کردیا، حضرت عثمانؓ کی شہادت کے بعد لوگوں نے آپ سے درخواست کی کہ آپ امیرابن امیر ہیں ہم سب آپ کے ہاتھ پر بیعت کرنے کو آمادہ ہیں فرمایا، جہاں تک میرے امکان میں ہے اپنے لیے ایک پچھنے کے برابر بھی خون نہ بہنے دوں گا، لوگوں نے دھمکی دی کہ اگر آپ اس بارگراں کو نہیں سنبھالتے تو ہم آپ کو قتل کردیں گے؛ لیکن انہوں نے اس دھکمی کی بھی مطلق پرواہ نہ کی اورخلافت جیسے رفیع اعزاز سے جو اس وقت فتنوں کا مرکز بن گیا تھا اپنے کو بچا ئے رکھا۔ [20]
البتہ اس بارے میں اختلاف ہے کہ ابن عمرؓ نے حضرت علیؓ اورامیر معاویہ ؓ میں سے کس کی خلافت تسلیم کی، ابن حجر کا بیان ہے کہ چونکہ حضرت علیؓ کی خلافت کے بارہ میں مسلمانوں کا اختلاف تھا اس لیے ابن عمرؓ نے ان کے ہاتھ پر بیعت نہیں کی،کیونکہ ان کی رائے تھی کہ جب تک کسی شخص پر لوگوں کا اجماع نہ ہوجائے اس وقت تک اس کے ہاتھ پر بیعت نہ کرنی چاہئے۔ [21] لیکن مستدرک نے غسان بن عبدالحمید کی روایت نقل کی ہے کہ ابن عمرؓ نے اس شرط پر حضرت علیؓ کے ہاتھ پر بیعت کرلی تھی کہ وہ ان کے ساتھ خانہ جنگی میں نہ شریک ہوں گے اورجناب امیر نے ان کو اس کی اجازت بھی دے دی تھی، [22] ہمارے نزدیک مستدرک کی روایت زیادہ صحیح اورقریب قیاس ہے ؛کیونکہ ابن حجر نے جس اصول کی بنا پر ابن عمرؓ کا حضرت علیؓ کی خلافت سے دست کش ہونا بتایا ہے، اس سے ہمارے خیال کی تائید ہوتی ہے، گو علیؓ کی خلافت پر تمام مسلمانوں کا اتفاق نہیں ہوا تھا ،تاہم اسلام کے ارباب حل وعقد یعنی مہاجرین وانصار کی اکثریت حضرت علیؓ کے ساتھ تھی اوران کی نہایت ہی مختصر جماعت آپ سے الگ رہی،البتہ یہ مسلم ہے کہ انہوں نے جنگ جمل اورصفین میں کسی کا ساتھ نہیں دیا اور ان کے ہاتھ سے کسی مسلمان کا ایک قطرہ خون نہیں گرا؛ لیکن ضمیر حق پرست تھا اس لیے جنگ میں حضرت علیؓ کا ساتھ نہ دینے پر آخر دم تک متاسف رہے، فرماتے تھے کہ گو میں نے اپنا ہاتھ آگے نہیں بڑھایا، لیکن حق پر مقاتلہ افضل ہے۔ [23]
جنگ صفین کے بعد جب حضرت ابوموسیٰ اشعریؓ اورحضرت عمروبن العاصؓ کو حکم بنایا گیا تو ابوموسیٰ ؓ نے خلافت کے لیے ابن عمرؓ کا نام پیش کیا تھا، [24] مگر عمروبن العاصؓ نے اس سے اختلاف کیا، حکم کے فیصلہ سناتے وقت آپ بھی عام مسلمانوں کے ساتھ امت مسلمہ کی قسمت کا فیصلہ سننے کے لئے دومتہ الجندل آئے تھے۔ ان واقعات کے بعد مسلمانوں میں دو نئے فرقے پیدا ہوگئے تھے، ایک وہ جو حضرت علیؓ کو براسمجھتا تھا،دوسرا وہ جو حضرت عثمانؓ کی برائیاں بیان کرتا تھا کہ وہ احد میں بھاگ کھڑے ہوئے تھے، اس بارہ میں حضرت ابن عمرؓ کی رائے پوچھی تو فرمایا کہ عثمان ؓتو وہ رسول اللہ ﷺ کے چچیرے بھائی اور آپ کے داماد تھے اوردیکھو کہ وہ گھران کا ہے جہاں تم دیکھ رہے ہو، [25] حضرت علیؓ کے بعد پھرامیر معاویہؓ کی خلافت تسلیم کرلی اوراس عہد کے بعض معرکوں میں شریک ہوئے ؛چنانچہ قسطنطنیہ کی مہم میں شریک تھے۔ [26]
خلافت یزیدترميم
امیر معاویہ کے بعد جب یزید تخت حکومت پر بیٹھا توحضرت ابن عمرؓ نے محض اختلاف اُمت کے فتنہ سے بچنے کے لیے اس کی بیعت کرلی اورفرمایا اگر یہ خیر ہے تو ہم اس سے راضی ہیں اور اگر شر ہے تو ہم نے صبر کیا۔ [27] کچھ دنوں کے بعد جب مدینہ والوں نے فسخ بیعت کیا تو آپ نے اسی فتنہ سے بچنے کے خاطر اپنے اہل وعیال کوبلا کرفرمایا کہ میں نے اس شخص کے ہاتھ پر خدا اور رسول کی بیعت کی ہے اورمیں نے آنحضرت ﷺ کو فرماتے سنا ہے کہ قیامت کے دن ہر دھوکہ باز کا ایک ایک جھنڈا کھڑا کیا جائے گا کہ یہ فلاں کی فریب کاری ہے اورسب سے بڑا فریب یہ ہے کہ خدا کے ساتھ شرک کیا جائے کہ ایک شخص کسی کے ہاتھ پر خدا اوررسول کے لیے بیعت کرلے اورپھر اس کو فسخ کردے، اس لیے تم میں سے کوئی شخص فسخ بیعت میں حصہ نہ لے اگر کسی نے حصہ لیا تو میرے اوراس کے درمیان تلوار فیصلہ کرے گی۔ [28] یزید کی بیعت آپ نے کسی لالچ یا خوف کی بنا پر نہیں کی تھی، امیر معاویہ ؓنے جب یزید کوولی عہد بنانا چاہا تو عمروبن العاصؓ کو ان کے پاس ان کا عندیہ لینے کے لیے بھیجا تھا انہوں نے جاکر دبی زبان سے اس کا اظہار کیا اوراس کے عوض ایک رقم خطیر پیش کرنا چاہی ،رشوت کانام سن کر وہ غصہ سے کانپ اُٹھے اوراسی وقت عمروبن العاصؓ کو کھڑے کھڑے نکال دیا۔ [29]
معاویہ بن یزید،مروان بن حکم اورعبداللہ بن زبیرؓ کی خلافتترميم
یزید کے بعد اس کا بیٹا معاویہ خلیفہ ہوا،مگر اس کی خلافت صرف تین مہینہ رہی، اس کے بعد وہ خود خلافت سے دست بردار ہوگیا، [30] اب اس کی وفات کے بعد ایک طرف مکہ میں عبداللہ بن زبیرؓ نے خلافت کا دعویٰ کیا اورعراق حجاز ویمن کے لوگوں نے ان کے ہاتھ پر بیعت کی، دوسری طرف شام میں مروان نےاپنی بیعت لی ،گواکثر اسلامی ممالک ابن زبیرؓ کی طرف مائل تھے، لیکن حضرت ابن عمرانؓ کے دعوائے خلافت کو بازیچۂ اطفال سے زیادہ وقعت نہ دیتے تھے(ابن سعد قسم اول جزء ۴،تذکرہ ابن عمر)چنانچہ ان ہی کے زمانہ میں جب فریقین میں جنگ برپا تھی تو ایک شخص نے ان سے آکر کہا کہ خدا فرماتا ہے کہ فتنہ کو روکنے کیلئے لڑو، انہوں نے جواب دیا تھا کہ جب فتنہ تھا تو ہم لڑے، فتنہ یہ تھا کہ مسلمانوں کو کفار اس کی اجازت نہیں دیتے تھے کہ وہ اپنے خدا کی عبادت کرسکیں، اب یہ خانہ جنگی جہاد نہیں ؛بلکہ بادشاہی کے لیے لڑائی ہے (صحیح بخاری کتاب التفسیر، باب حتی لاتکون فتنۃ)مگر باایں ہمہ جب عبدالملک کی طرف سے حجاج ابن زبیرؓ سے لڑنے کے لیے مکہ معظمہ گیا اورخانۂ کعبہ کے ایک حصہ کو اپنے گولوں کا نشانہ بنایا تو وہ سخت برہم ہوئے اوراپنی برہمی کو قابو میں نہ رکھ سکے ۔ [31]
خلافت عبدالملکترميم
مروان کے بعد جب عبدالملک کی خلافت پر بیعت ہوئی تو آپ نے بھی تحریری بیعت نامہ بھیج دیا جس کا مضمون یہ تھا کہ خدا اوررسول کی سنت پر میں اورمیرے لڑکے امیرالمومنین عبداللہ الملک کی سمع وطاعت کا بقدر استطاعت عہد کرتے ہیں، [32]عبدالملک حضرت ابن عمرؓ کا بڑا احترام کرتا تھا اورمذہبی معاملات میں ان کی اقتداکرتا تھا اورحج کے موقع پر ارکان میں آپ کی اقتدا کافرمان جاری کرتا تھا۔ [33]
علالت اوروفاتترميم
۷۴ھ میں تراسی چوراسی برس کی عمر میں وفات پائی ،وفات کا واقعہ یہ ہے کہ حج کے زمانہ میں ایک شخص کے نیزہ کی نوک جو زہر میں بجھی ہوئی تھی ان کے پاؤں میں چبھ گئی یہ زہران کے جسم میں سرایت کرگیااوریہی زخم ان کی موت کا باعث ہوا، عام طور سے خیال کیا جاتا ہے کہ یہ کوئی اتفاقی واقعہ نہ تھا،بلکہ حجاج کے اشارہ سے اس طرح زخمی کیے گئے تھے ؛البتہ اس کی تفصیل میں اختلاف ہے، مستدرک کی روایت ہے کہ حجاج نے جب خانۂ کعبہ میں منجنیق نصب کرائی اورابن زبیر ؓ کو شہید کرایا تو اس کا یہ فعل شنیع ابن عمرؓ کو بہت ناپسند ہوا، آپ نے اس کو بہت برابھلا کہا، حجاج برافروختہ ہوگیا اوراس کے اشارے سے شامیوں نے زخمی کردیا۔ [34]
حافظ ابن حجر لکھتے ہیں کہ عبدالملک نے حجاج کو ہدایت کی تھی کہ وہ ابن عمرؓ کی مخالفت نہ کرے، یہ حکم اس پر بہت شاق گذرا ؛لیکن عدول حکمی بھی نہیں کرسکتا تھا، اس لیے دوسرا طریقہ اختیار کیا اورآپ کو زخمی کرادیا۔ [35] ابن سعد کی روایت ہے کہ ایک مرتبہ حجاج خطبہ دے رہا تھا، اس میں اس نے ابن زبیرؓ پر یہ اتہام لگایا کہ انہوں نے نعوذ باللہ کلام اللہ میں تحریف کی ہے، حضرت ابن عمرؓ نے اس کی تردید کی اورفرمایا تو جھوٹ بولتا ہے،نہ ابن زبیرؓ میں اتنی طاقت ہے نہ تجھ میں یہ مجال ہے، مجمع عام کے سامنے ان کی یہ ڈانٹ اس کو بہت ناگوار ہوئی، لیکن حضرت ابن عمرؓ کے ساتھ علانیہ کوئی بُرابرتاؤ نہیں کرسکتا تھا، اس لیے خفیہ انتقام لیا۔ [36] ابن خلقان اوراسد الغابہ میں اس کے علاوہ دوروایتیں نقل کی گئی ہیں، ایک یہ کہ ایک دن حجاج خطبہ دے رہا تھا، اس کو اس قدر طول دیا کہ عصر کا وقت تنگ ہوگیا، آپؓ نے فرمایا کہ آفتاب تیرا انتظار نہیں کرسکتا، حجاج نے کہا جی میں آتا ہے کہ تمہاری آنکھیں پھوڑ دوں ،فرمایا تجھ کو تاہ بین سے یہ بھی کچھ بعید نہیں، دوسری روایت یہ ہے کہ عبدالملک نے فرمان جاری کیا کہ تمام حجاج مناسک حج میں حضرت ابن عمرؓ کی اقتداء کریں، حضرت ابن عمرؓ عرفات اوردوسرے مواقف سے بغیر حجاج کا انتظار کیے بڑھ جاتے تھے، حجاج کی فرعونیت کب اس کو گوارا کرتی؛ مگر عبدالملک کے حکم سے مجبور تھا، اس لیے آپ کی جان کا خواہاں ہوگیا۔ [37]
ابن عبدالبر نے استیعاب میں بھی یہی دونوں روایتیں نقل کی ہیں، اگرچہ ان روایتوں کی صورت واقعہ میں اختلاف ہے، مگر تضاد نہیں، اس لیے ان میں سے کسی کو غلط نہیں کہا جاسکتا ،ہوسکتا ہے کہ یہ تمام واقعات یکے بعد دیگرے آتے رہے ،مگر حجاج ضبط کرتا رہا،لیکن جب اس نے دیکھا کہ ابن عمرؓ کے سامنے اس کی پیش نہیں چلتی اوروہ اس کو مطلق دھیان میں نہیں لاتے تو اخیر میں آپ کا قصہ ختم کردینے کا فیصلہ کرلیا، لیکن علی الاعلان وہ آپ پر ہاتھ نہیں ڈال سکتا تھا، اس لیے یہ صورت نکالی کہ اپنے آدمیوں میں سے کسی کو حکم دیا کہ وہ حج کے موقع پر جب لوگوں کا اژدحام ہوتا ہے مسموم نیزہ سے آپ کے پاؤں میں خراش دیدیں، اس اژدحام میں زخمی کرنے والا گرفتار بھی نہ ہوسکے گا اورزہر کے اثرسے آپ کا کام بھی تمام ہوجائے گا اوریہ ہوا ،جب آپ بیمار ہوئے تو حجاج عیادت کو آیا اورمزاج پرسی کے بعد کہاکہ کاش مجھ کو ملزم کا پتہ چل جاتا تو میں اس کی گردن اُڑادیتا،آپ نے فرمایا تم ہی نے یہ سب کچھ کیا اور پھر کہتے ہو کہ میں مجرم کو قتل کر دیتا،نہ تم حرم میں اسلحہ باندھنے کی اجازت دیتے نہ یہ واقعہ پیش آتا، [38] یہ سن کر وہ خاموش ہوگیا۔ حضرت ابن عمرؓ کو مدینہ منورہ میں وفات پانے کی تمنا بہت تھی ،چنانچہ جب آپ کی حالت نازک ہوئی تو دعا کرتے تھے کہ خدایا مجھ کو مکہ میں موت نہ دے،[39] اوراپنے صاحبزادہ سالم سے وصیت بھی کی کہ اگر میں مکہ ہی میں مرجاؤں تو حدود حرم کے باہر دفن کرنا؛ کیونکہ جس زمین سے ہجرت کی پھر اسی میں پیوند خاک ہوتے اچھا نہیں معلوم ہوتا، وصیت کے چنددنوں بعد سفر آخرت کیا،[40] اورعلم وعمل کا یہ آفتاب تاباں ہمیشہ کے لیے روپوش ہوگیا۔
تجہیز وتکفینترميم
وفات کے بعد وصیت کے مطابق لوگوں نے حرم کے باہر دفن کرنا چاہا، مگر حجاج نے مداخلت کی اورخود ہی نمازجنازہ پڑھالی ،مجبوراً"فخ" مہاجرین کے قبرستان میں سپردخاک کیے گئے۔ [41]
فضل وکمالترميم
حضرت ابن عمرؓ کو آنحضرت ﷺ کی صحبت آپ کی بارگاہ کی دائمی حاضر باشی،سفروحضر کی ہمرکابی،فاروق اعظم کی تعلیم وتربیت اورخود ان کی تلاش وجستجو نے مذہبی علوم کا دریا بنادیا تھا،قرآن ،تفسیر، حدیث،فقہ وغیرہ تمام مذہبی علوم کا بحر بے کران تھے ،آپ کا شمار علمائے مدینہ کے اس زمرہ میں تھا جوعلم و عمل کے مجمع البحرین سمجھے جاتے تھے۔ [42]
تلاوت وتفسیر قرآنترميم
تلاوت قرآن کے ساتھ آپ کو غیر معمولی شغف تھا، اس کی سوروآیات پر فکر وتدبر میں عمرعزیز کا بہت بڑا حصہ صرف کیا، اس کا اندازہ اس سے ہوسکتا ہے کہ صرف بقرہ پر ۱۴برس صرف کیے ،[43] اس غیر معمولی شغف نے آپ میں قرآن کی تفسیر و تاویل کا غیر معمولی ملکہ پیدا کردیاتھا، فہم قرآن کا ملکہ آپ میں عنفوان شباب ہی میں پیدا ہوگیا تھا، چنانچہ اکابر صحابہؓ کے ساتھ آنحضرت ﷺ کی علمی مجلسوں میں شریک ہوتے تھے، ایک مرتبہ آنحضرت ﷺ کے گرد صحابہؓ کا مجمع تھا، ابن عمرؓ بھی موجود تھے، آنحضرتﷺ نے قرآن پاک کی اس مثال: "أَلَمْ تَرَ كَيْفَ ضَرَبَ الله مَثَلاً كَلِمَةً طَيّبَةً كَشَجَرةٍ طَيّبَةٍ أَصْلُهَا ثَابِتٌ وَفَرْعُهَا فِى السماء تُؤْتِى أُكُلَهَا كُلَّ حِينٍ بِإِذْنِ رَبّهَا" [44] تم نے نہیں دیکھا کہ اللہ نے کلمہ طیبہ کی کیسی اچھی مثال دی ہے کہ وہ پاک درخت کے مثل ہے جسکی جڑ مضبوط ہے اورشاخیں آسمان تک ہیں وہ اپنے خدا کے حکم سے ہر وقت پھل لاتا ہے۔ کے متعلق صحابہ کرامؓ سے پوچھا کہ وہ درخت کون سا ہے، جو مرد مسلم کی طرح سدابہار ہے، اس کے پتے کبھی خزاں رسیدہ نہیں ہوتے اورہر وقت پھل دیتا رہتا ہے،اس سوال کے جواب میں تمام صحابہؓ حتی کہ حضرت ابوبکرؓ تک خاموش رہے، توآپﷺ نے خود بتایا کہ یہ کھجور کا درخت ہے ؛لیکن ابن عمرؓ پہلے ہی سمجھ چکے تھے؛ لیکن اکابر صحابہؓ کی خاموشی کی وجہ سے چپ رہے، جب حضرت عمرؓ سے اس کا ذکر کیا تو انہوں نے کہا کہ تم نے جواب کیوں نہ دیا، تمہارا جواب دینا مجھے فلاں فلاں چیز سے زیادہ محبوب ہوتا ۔ [45] قرآن کے الفاظ کے معنوں پر بہت غائر نظر تھی، وہ ان کے ایسے جامع معنی اختیار کرتے تھے جو مفہوم پر پورے طور سے عادی ہوتی تھے، چنانچہ"اَقِمِ الصَّلوٰۃ لِدُلُوک الشمس الی غسق الیل" میں دلوک کے معنی ڈھلنے کے لیتے تھے۔ "دلوک"لغت میں ڈھلنے زرد ہونے غروب ہونے ،تینوں معنوں کے لیے استعمال ہوتا ہے، حضرت ابن عمرؓ اس کے معنی مطلق ڈھلنے کے لیتے تھے، [46] اس معنی سے ظہر ،عصر اور مغرب تینوں کے اوقات متعین ہوجاتے ہیں، اس لیے کہ میل یا زوال کی تین منزلیں ہیں، ایک متعارف جس میں سمت الراس سے زوال ہوتا ہے، جو ظہر کا وقت ہے،دوسرا جس میں سمت نظر سے ڈھلتا ہے، یہ عصر کا وقت ہے، تیسرا وہ جس میں سمت افق سے ڈھل کر غروب ہوجاتا ہے، یہ مغرب کا وقت ہے۔ بعض اوقات آیات کے شان نزول اورناسخ و منسوخ کی لاعلمی کی وجہ سے لوگوں کے دلوں میں شبہات پیدا ہوجاتے ہیں، ابن عمرؓ اپنی فہم قرآنی سے اس قسم کے شکوک کا ازالہ کردیتے تھے ،ایک شخص کو قرآن پاک کی اس آیت: "وَالَّذِينَ يَكْنِزُونَ الذَّهَبَ وَالْفِضَّةَ وَلَا يُنْفِقُونَهَا فِي سَبِيلِ اللَّهِ فَبَشِّرْهُمْ بِعَذَابٍ أَلِيمٍ" [47] جو لوگ سونا اورچاندی جمع کرتے ہیں اوراس کو خدا کی راہ میں صرف نہیں کرتے،اس کو عذاب الیم کی بشارت دیدو۔ کے بارہ میں یہ شبہ پیدا ہوا کہ زکوٰۃ دینے کے بعد کیوں انفاق فی سبیل اللہ کا مطالبہ ہے اور عدم انفاق کی صورت میں عذاب الیم کی وعید کیوں ہے، اس نے ابن عمرؓ سے پوچھا، آپ نے بتایا کہ یہ وعید اس شخص کے لیے ہے،جو سونا چاندی جمع کرکے زکوٰۃ نہیں دیتا، وہ قابل افسوس ہے اور یہ آیت زکوٰۃ کے نزول کے قبل کی ہے،زکوٰۃ توخود ہی مال کو ظاہر کردیتی ہے ۔[48]
اسی آیت میں ایک شخص نے کنز کے معنی پوچھے، آپ نے ایسے لطیف معنی بتائے کہ اگر یہ آیت نزول زکوۃ کے بعد کی بھی ہوتی تب بھی اس پر کوئی اعتراض نہ ہوسکتا، کنز کے لغوی معنی مال مدفونہ کے ہیں، حضرت ابن عمرؓ نے بتایا کہ کنز اس مال کو کہتے ہیں جس کی زکوٰۃ ادا کی جائے، اس معنی سے لاینفقون کا مفہوم صرف یکنزون سے ادا ہوجاتا ہے اورینفقونہا سے مزید تاکید ہوجاتی ہے اورکنز کے لغوی معنی بھی نہیں جاتے ،کیونکہ زکوٰۃ نہ دی جائے گی تو خواہ مخواہ جمع ہی ہوگا، ورنہ پھر زکوٰۃ کا مطالبہ اورعذاب الیم کی وعید کیوں ہوتی اورجمع بمنزلہ دفن کے ہے، اس سے اندازہ ہوسکتا ہے کہ قرآن پاک اصل مفہوم ومنشاء اوراس کے انداز بیان کو سمجھنے میں ابنِ عمرؓ کو کیسا ملکہ حاصل تھا۔ ایک مرتبہ ایک شخص نے پوچھا کہ آپ فتنہ میں قتال کے بارے میں کیا فرماتے ہیں، قرآن کا حکم ہے کہ: قاتلو ھم حتی لاتکون فتنۃ ان لوگوں سے مقاتلہ کرویہاں تک کہ فتنہ نہ باقی رہے یہ سوال مسلمانوں کی خانہ جنگی کے زمانہ میں کیا گیا تھا، انہوں نے فرمایا تم فتنہ کے معنی کیا سمجھتے ہو، یہاں قتال علی الفتنہ کا یہ مطلب نہیں ہے کہ تم بادشاہت کے لیے لڑو، بلکہ قتال سے وہ قتال مراد ہے جو آنحضرت ﷺ نے مشرکین کے ساتھ فرمایا تھا، کہ ان کے دین میں داخل نہ ہونا مسلمانوں کے لیے فتنہ تھا۔ [49] صحیح بخاری میں اس واقعہ کے متعلق جو روایت ہے وہ اس سے زیادہ صحیح ہے کہ حضرت ابن زبیرؓ کے ہنگامہ کے زمانہ میں دو آدمی ان کے پاس آئے اور کہا سب لوگ ختم ہوچکے، آپ عمرؓ کے بیٹے اور رسول اللہ ﷺ کے صحابی ہیں، آپ کیوں نہیں میدان میں آتے، فرمایا خدا نے بھائی کا خون حرام کیا ہے اس لیے میں نہیں نکلتا ،دونوں نے کہا خدا توخود فرماتا ہے۔ "وَقَاتِلُوهُمْ حَتَّى لَا تَكُونَ فِتْنَةٌ وَيَكُونَ الدِّينُ لِلَّهِ" [50] یعنی ان سے لڑو یہاں تک کہ فتنہ باقی نہ رہے اوردین خالص خدا کے لیے ہوجائے۔ فرمایا بیشک ہم لڑے یہاں تک فتنہ باقی نہ رہا اوردین خدا کے لیے ہوگیا اور تم لوگ اس لیے لڑنا چاہتے ہو کہ فتنہ پیدا ہو اوردین غیر خدا کے لیے ہوجائے، دوسری روایت میں ہے کہ انہوں نے کہا یہ اس وقت کا حکم ہے جب مسلمان تعداد میں کم تھے اور وہ اپنے مذہب کا اعلان نہیں کرسکتے اورجب کرتے تھے تو کفاران کو ستاتے تھے، یہی فتنہ تھا جس کو روکنے کے لیے جہاد تھا، اب مسلمانوں کی تعداد بہت بڑھ گئی،اس لیے اب اس فتنہ کا ڈر نہیں رہا۔ [51]
حدیثترميم
تفسیر قرآن کے بعد حدیث نبوی ﷺ کا درجہ ہے، ابن عمرؓ کا شمار اساطین حفاظ حدیث میں ہے،اگر ان کی مرویات کی تعداد حدیث کی کتابوں سے علیحدہ کرلی جائے تو ان کے بہت سے اوراق سادہ رہ جائیں گے، ان کی مجموعی تعداد ۱۶۳۰ ہے، ان میں ۱۷۰ متفق علیہ ہیں اور ۸۱ میں بخاری اور۳۱ میں مسلم منفرد ہیں۔ [52]
حدیث کی طلب وجستجوترميم
ابن عمرؓ کو حدیث نبوی ﷺ کا اتنا شوق اوراس کی اس قدر جستجو تھی کہ اپنی غیر حاضری کے اقوال اورافعال نبوی ﷺ ،ان لوگوں سے جو آپ ﷺ کی خدمت میں حاضر رہا کرتے تھے پوچھ لیا کرتے تھے اوران کو یادرکھتے تھے ،[53] اگر کوئی ایسی حدیث یا ایسا مسئلہ سنتے، جو ان کے علم میں نہ ہوتا، تو فوراً خود آنحضرت ﷺ یا حدیث کے راوی کے پاس جاکر اس کی تصدیق کرتے ، ایک مرتبہ کسی نے ایک مسئلہ بیان کیا، جو ان کے علم میں نہ تھا، فوراً خدمت نبوی ﷺ میں حاضر ہوکر اس کی تصدیق کی، [54] ایک مرتبہ ایک لیثی نے ابو سعید خدریؓ کے حوالہ سے بیان کیا کہ آنحضرت ﷺ نے سونا چاندی کی بیع صرف اس صورت میں جائز رکھی ہے کہ برابر ہو،ان کو اس کا علم نہ تھا، اس لیے ابو سعید خدریؓ کے پاس جاکر اس کی تصدیق کی۔ [55]
حدیث کی اشاعت و تعلیمترميم
اس تلاش وجستجو نے ابن عمرؓ کو حدیث کا دریا بنادیا تھا جس سے ہزاروں لاکھوں مسلمان سیراب ہوئے، ان کی ذات سے حدیث کا وافرحصہ اشاعت پذیر ہوا،حضرت ابن عمرؓ آنحضرت ﷺ کے بعد ساٹھ سال سے زیادہ زندہ رہے، اس میں آپ کا مشغلہ صرف علم کی اشاعت تھا، [56] اسی لیے آپ نے کوئی عہدہ قبول نہیں کیا کہ اس سے یہ مبارک سلسلہ منقطع ہوجاتا، مدینہ میں مستقل حلقہ درس تھا، اس کے علاوہ اشاعت کے لیے سب سے بہترین موقع حج کا تھا، جس میں تمام اسلامی ملکوں کے مسلمان جمع ہوتے تھے، چنانچہ آپ اس موقع پر فتوی دیتے تھے، اس سے بہت جلد مشرق سے مغرب تک احادیث پھیل جاتی تھیں،[57]لوگوں کے گھروں پر جاکر حدیث سناتے تھے،زید بن اسلم اپنے باپ سے روایت کرتے ہیں کہ وہ ابن عمرؓ کے ساتھ عبداللہ بن مطیع کے یہاں گئے،عبداللہ نے خوش آمدید کہا اوران کے لیے فرش بچھایا،انہوں نے کہا میں اس وقت تمہارے پاس صرف ایک حدیث سنانے کی غرض سے آیا ہوں ،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے کہ جس شخص نے (امیر کی) اطاعت سے دستبرداری کی وہ قیامت کے دن ایسی حالت میں آئے گا کہ اس کے پاس کوئی دلیل نہ ہوگی اورجو شخص جماعت سے الگ ہو کر مراوہ جاہلیت کی موت مرا۔ [58] ان کی تعلیم کا سلسلہ ہر وقت جاری رہتا تھا،علی بن عبدالرحمن کا بیان ہے کہ میں حالتِ نماز میں کنکریوں سے شغل کررہا تھا،نماز تمام کرچکا تو ابن عمرؓ نے ٹوکا اورکہا جس طریقہ سے رسول اللہ ﷺ پڑھتے تھے، اس طریقہ سے پڑھا کرو، پھر خود ہی طریقہ بتایا ۔ [59] ایک مرتبہ سعید بن یسار مکہ کے راستہ میں آپ کے ساتھ تھے صبح ہونے کے قریب ہوئی تو سعید نے سواری سے اتر کرو ترپڑھی اور پڑھ کر پھر ابن عمرؓ سے مل گئے، انہوں نے پوچھا کہاں تھے، کہاصبح ہوجانے کے خوف سے سواری سے اتر کروتر اداکی،ابن عمرؓ نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ کی ذات تمہارے لیے اسوۂ حسنہ نہیں ہے، سعد نے کہا خدا کی قسم ضرور ہے، کہا رسول اللہ ﷺ اونٹ ہی پر بیٹھے بیٹھے وتر پڑھتے تھے۔ [60] خود آپ کی ذات گرامی اوصاف نبوی ﷺ کی ایسی زندہ تصویر اورایسا جامع مرقع تھی جو سینکڑوں درس اورہزاروں تلقینات سے زیادہ کارآمد تھی جس کا صرف ایک نظر دیکھ لینا اورچند ساعتیں آپ کی صحبت اٹھالینا برسوں کے درس و تدریس کے برابر ہوتا ہے، آپ کے صحیفہ زندگی میں تمام احادیث عملاً بعنوان جلی مرقوم تھیں وہ تمام صحابہ اورتابعین جنہوں نے ان کو دیکھا تھا، بالاتفاق ان کی اس حیثیت کو تسلیم کرتے تھے، حضرت ابوحذیفہ ؓ کہتے تھے کہ آنحضرت ﷺ کی وفات کے بعد ہرشخص کچھ نہ کچھ بدل گیا،عمرؓ اوران کے بیٹے عبداللہ بن عمرؓ نہیں بدلے،حضرت عائشہ ؓ فرمایا کرتی تھیں کہ عہد نبوی کی حالت و کیفیت کا عبداللہ بن عمرؓ سے زیادہ کوئی پابند نہیں رہا، حضرت نافع جو عبداللہ بن عمرؓ کے خادم اورشاگرد خاص تھے اورجو ان کی خدمت میں تیس برس رہے تھے، وہ تابعین اوراپنے شاگردوں سے کہتے کہ اگر اس زمانہ میں ابن عمرؓ ہوتے تو ان کو آثارنبوی کی شدت سے اتباع کرتے ہوئے دیکھ کر تم یہی کہتے کہ یہ دیوانہ ہے۔ [61] آپ کی ذات دوسروں کے لیے نمونہ تھی، لوگ دعا کرتے تھے کہ خدایا ہماری زندگی میں ابن عمرؓ کو زندہ رکھ کہ ان کی اقتدا سے فیض یاب ہوتے رہیں، ان سے زیادہ عہد رسالت کا کوئی واقف کار نہیں۔ [62] اکابر علماء مشکلات میں ان کی طرف رجوع کرتے تھے، سعید بن جبیرجو خود بھی بڑے تابعی تھے بیان کرتے ہیں کہ ایک مرتبہ ایک شخص نے لعان کے متعلق مجھ سے سوال کیا،مجھ کو معلوم نہ تھا، میں نے ابن عمرؓ سے جاکر دریافت کیا،[63] ابن شہاب زہری جن سے بڑا کوئی محدث تابعین میں نہیں گذرے، کہاکرتے تھے کہ ابن عمرؓ وہ ہیں جو رسول اللہ ﷺ کے بعد ساٹھ برس تک افادۂ خلق میں مصروف رہے، ان سے رسول اللہ ﷺ کی کوئی بات چھپی نہ تھی۔ [64] چونکہ آپ ایک عالَم کے مقتدا تھے، آپ کا ہر قول وفعل دوسروں کے لیے نمونہ بن جاتا تھا،اس لیے اپنے ان امورواعمال کی جن کا سنت سے تعلق نہ ہوتا،بلکہ طبعاًیابدرجہ مجبوری سرزد ہوتے توتصریح فرمادیتے تھے، آپ مروہ میں بال بنوارہے تھے،لوگ گردوپیش جمع ہوکر دیکھنے لگے،فرمایا یہ سنت نہیں ہے، بلکہ بال تکلیف دے رہے تھے،اس لیے بنوادیے۔ [65] ایک شخص آپ کے پہلو میں نماز پڑھ رہا تھا، چوتھی رکعت میں پلتھی مارکر بیٹھا اور دونوں پاؤں موڑلیے، آپ نے اس کو مذموم بتایا، اس نے کہا آپ ایسے بیٹھتے ہیں ،فرمایا مجبوری سے کرتا ہوں، [66] آپ کا بدن بھاری تھا اس لیے مسنون طریقہ سے نہیں بیٹھ سکتے تھے۔
احتیاط فی الحدیثترميم
لیکن اس فضل وکمال ،اس وسعت علم اوراس دقت ِنظر کے باوجود حدیث بیان کرنے میں حددرجہ محتاط تھے، محمد بن علی راوی ہیں کہ صحابہ کی جماعت میں ابن عمرؓ سے زیادہ حدیث بیان کرنے میں کوئی محتاط نہ تھا، وہ حدیث میں کمی وبیشی سے بہت ڈرتے تھے، [67]ابو جعفر کا بیان ہے کہ ابن عمرؓ رسول اللہ ﷺ کی حدیثوں میں کمی و زیادتی سے بہت زیادہ خائف رہتے تھے،(مستدرک: ۳/۵۶) سعید اپنے والد کی زبانی بیان کرتے ہیں کہ حدیث نبوی میں ابن عمرؓ سے زیادہ محتاط میری نظر سے کوئی نہیں گذرا،[68] اس لیے آپ عام طور پر حدیث بیان کرنے سے گریز کرتے تھے، مجاہد کا بیان ہے کہ مدینہ کے راستہ میں میرا اورابن عمرؓ کا ساتھ ہوا، اس درمیان میں انہوں نے صرف ایک حدیث بیان کی ،[69] امام شعبی کا بیان ہے کہ میں ایک سال تک عبداللہ بن عمر کے پاس بیٹھا؛ لیکن انہوں نے کوئی حدیث نہیں بیان کی، اس کا یہ مقصد نہیں ہے کہ وہ روایت حدیث کو براسمجھتے تھے یا کم بیان کرتے تھے ؛بلکہ بلا ضرورت نہیں بیان کرتے تھے۔ وہ احادیث کو آنحضرت ﷺ کے الفاظ میں روایت کرنا ضروری سمجھتے اوراس میں تغیر پسند نہ کرتے تھے، ایک مرتبہ عبید بن عمیر ؓ حدیث سنارہے تھے کہ : مَثَلُ الْمُنَافِقِ كَشَاةٍ مِنْ بَيْنِ رَبِيضَيْنِ إِذَا أَتَتْ هَؤُلَاءِ نَطَحْنَهَا وَإِذَا أَتَتْ هَؤُلَاءِ نَطَحْنَهَا’ حضرت ابن عمرؓ نے فورا ٹوک دیا کہ یہ حدیث اس طرح نہیں ؛بلکہ یوں ہے، "كَشَاةٍ بَيْنَ غَنَمَيْن" عبید عمر میں آپ سے بڑے تھے، اس لیے ان کو غیر ت آگئی، بہت برہم ہوئے، ان کے اس بے جا غصہ کا یہ جواب دیا کہ اگر میں نے آنحضرت ﷺ سے اس طریقہ سے نہ سنا ہوتا تو نہ تردید کرتا۔ [70] اس احتیاط کی بنا پر اکابر علما آپ کی مرویات کو اتنی قابل اعتماد سمجھتے تھے کہ پھر کسی مزید توثیق کی ضرورت باقی نہیں رہتی، امام شعبی فرماتے تھے کہ ابن عمرؓ کی روایت بہت درست ہوتی تھی، [71] ابن شہاب زہریؓ ان کی رائے کے بعد پھر کسی دوسری رائے کی ضرورت نہیں سمجھتے تھے، موطا امام مالک جس کو امت نے کتاب اللہ کے بعد صداقت اوروثوق میں دوسرا درجہ دیا ہے زیادہ تر ان ہی کی روایات پر مشتمل ہے، خصوصاً وہ روایات جو حضرت ابن عمرؓ سے ان کے خادم وشاگرد نافع نے بیان کی ہیں اور ان سے امام مالک نے سنا ہے حضرت ابن عمرؓ آنحضرت ﷺ کی خدمت میں تقریباً پندہ برس رہے، پھر شیخین کا پورا زمانہ دیکھا اورحضرت عمر کی خدمت میں گو یا تیس برس رہے، پھر حضرت نافع ابن عمرؓ کی صحبت میں تیس برس رہے ،پھر امام مالک حضرت نافع کے حلقہ درس میں دس بارہ برس بیٹھے، اسی طرح "مالک عن نافع عن ابن عمر"کا سلسلہ محدثین کے نزدیک سلسلۃ الذہب کہا جاتا ہے اور بجاکہا جاتا ہے کہ: این سلسلہ ازظلائے ناب است این خانہ تمام آفتاب امت ذات نبوی کے علاوہ آپ کے شیوخ میں حضرت ابوبکرؓ، عثمانؓ، ،علیؓ، زید بن ثابتؓ عبداللہ بن مسعودؓ، بلالؓ، صہیب ؓ، رافع بن خدیجؓ، عائشہؓ، اورحفصہؓ جیسے اکابر امت ہیں۔ [72]
تلامذہترميم
آپ کے علم کی کثرت اورفیضان نے آپ کے تلامذہ کا دائرہ بہت وسیع کردیا تھا، صاحبزادوں میں بلال، حمزہ، زید، سالم، عبداللہ، عبید اللہ ،عمر، پوتوں میں ابوبکر،محمد، عبداللہ ،غلاموں میں نافع، اسلم، بھتیجوں میں حفص، عبداللہ، عام لوگوں میں زید ،خالد ،عروہ، ابن زبیر،موسیٰ بن طلحہ، ابوسلمہ بن عبدالرحمن، عامر بن سعد، حمید بن عبدالرحمن، سعید ابن مسیب، عون بن عبداللہ، قاسم، محمد بن ابی بکر، مصعب بن سعد، ابوبردہ بن ابی موسیٰ اشعریؓ، انس بن سیرین، بسر بن سعید، بکربن عبداللہ المزنی، ثابت البنانی،جبلہ بن سحیم،حرملہ، حکم بن مینا، حکیم بن ابی جرہ، حمید بن عبدالرحمن حمیری، ابوصالح الصمان زاد ان ابو عمر، زبیر بن عربی زیادبن حییر، ابو عقیل، زہرہ بن معبد، سالم بن ابی الجعد، زید بن جیر، حشمی، سعد بن عبیدہ، سعید ابن حارث، سعید بن عمرو، صفوان بن محرز،طاؤس عطا، عکرمہ ،مجاہد ،سعید ابن جبیر، ابولزبیر، عبداللہ بن شقیق، عقیلی عبداللہ بن ابی ملیکہ ،عبداللہ بن مرہ ہمدانی، عبداللہ ابن کیسان، عبید بن جریح ،عبداللہ بن مقسم، عکرمہ بن خالد مخزومی ،علی بن عبداللہ البارقی، علی بن عبدالرحمن وغیرہ ہم۔ [73]
فقہترميم
حدیث کے بعد فقہ کا درجہ ہے کہ اسی پر تشریع اسلامی کا دارومدار ہے، حضرت ابن عمرؓ کو تفقہ فی الدین میں درجہ کمال حاصل تھا،آپ کی ساری عمر علم وافتا میں کٹی،مدینہ کے ان مشہور صاحب فتاویٰ صحابہؓ میں جن کے فتاویٰ کی تعداد زیادہ ہے،ایک ابن عمرؓ بھی تھے، [74] فقہ مالکی جوائمہ اربعہ میں سے ایک امام کی فقہ ہے، اس کا تمام تر دارومدار حضرت ابن عمرؓ کے فتاوی پر ہے،[75] اس بنا پر امام مالک فرماتے تھے کہ ابن عمر ؓ ائمہ دین میں تھے ، [76] ابن عمرؓ کے فتاوی جمع کئے جائیں تو ایک ضخیم جلد تیار ہوسکتی ہے ،[77] کبار کی رائے ہے کہ تنہا ابن عمرؓ کے اقوال ، اسلامی مسائل کے استفتاء کے لیے کافی ہیں۔
احتیاط فی الفتاویٰترميم
مگر اس تفقہ کے باوجود حدیث کی طرح فتاوی میں بھی بہت محتاط تھے، جب تک کسی مسئلہ کے متعلق پورا یقین نہ ہوتا، فتویٰ نہ دیتے، حافظ ابن عبدالبر نے استیعاب میں لکھا ہے کہ وہ اپنے فتوں میں اوراعمال میں نہایت سخت محتاط تھے اورخوب سونچ سمجھ کر کہنے والے اورکرنے والے تھے۔ [78] اگر کوئی مسئلہ نہ معلوم ہوتا تو اپنی کسرِ شان کا لحاظ کیے بغیر نہایت صفائی کے ساتھ اپنی لا علمی ظاہر کردیتے،ایک مرتبہ کسی نے مسئلہ پوچھا، آپ کو علم نہ تھا، فرمایا مجھے نہیں معلوم، اس کو ان کی صاف بیانی پر تعجب ہوا، کہنے لگا، ابن عمرؓ بھی خوب آدمی ہیں جو چیز معلوم نہ تھی اس سے صاف لا علمی ظاہر کردی، [79] عقبہ بن مسلم کا بیان ہے کہ ایک شخص نے آپ سے کوئی مسئلہ دریافت کیا، فرمایا مجھ کو نہیں معلوم ،تم میری پیٹھ کو جہنم کا پل بنانا چاہتے ہو کہ تم یہ کہہ سکو کہ ابن عمرؓ نے مجھ کو ایسا فتویٰ دیا تھا۔[80] ابن عباس ؓ کو آپ کا یہ طرز عمل تعجب انگیز معلوم ہوتا تھا، فرمایا کرتے تھے کہ مجھ کو ابن عمرؓ پر تعجب آتا ہے کہ جس چیز میں ان کو ذرا بھی شک ہوتا ہے خاموش رہتے ہیں اور مستفتی کو لوٹا دیتے ہیں، [81] اگر کبھی فتویٰ دینے کے بعد غلطی معلوم ہوتی تو بلا پس وپیش پہلے فتویٰ سے رجوع کرلیتے اور مستفتی کو صحیح فتویٰ سے آگاہ کردیتے ،ایک مرتبہ عبدالرحمن بن ابی ہریرہؓ نے آبی مردار کے متعلق استفتاء کیا کہ اس کا کھانا جائز ہے یا نہیں، آپ نے ناجائز بتایا،بعد میں قرآن منگا کر دیکھا تو یہ حکم ملا"احل لکم صید البحر وطعامہ" چنانچہ انہوں نے عبدالرحمن کے پاس کہلا بھیجا کہ اس کے کھانے میں کوئی ہرج نہیں ،[82]دوسرے عام مفتیوں کو بھی اپنی رائے و قیاس سے فتویٰ دینے سے منع فرماتے تھے، حضرت جابرؓ بصرہ کے مفتی تھے، ابن عمرؓ ان سے ملے تو پہلی ہدایت یہی فرمائی کہ تم بصرہ کے مفتی ہو، لوگ تم سے استفتا کرتے ہیں، کتاب اللہ اورسنت رسول اللہ ﷺ کے بغیر فتوی نہ دیا کرو، [83] آپ کے نزدیک کتاب اللہ اور سنتِ رسول اللہ کے علاوہ کوئی تیسری قسم تھی ہی نہیں۔ [84]
قیاس واجتہادترميم
تاہم اس احتیاط کے باوجود بعض مسائل میں قیاس واجتہاد ناگزیر ہے؛ کیونکہ کتاب وسنت میں تمام مسائل کا استقصا نہیں ہے، ورنہ فقہ کا دروازہ ہمیشہ کے لیے بند ہوجائے گا، ابن عمرؓ پہلے کتاب اللہ پھر سنت رسول اللہ ﷺ یعنی رسول اللہ ﷺ کے فیصلوں اورعملی مثالوں کی طرف رجوع کرتے تھے، جب مقصد حاصل نہ ہوتا تو اجتہاد کرتے، [85] لیکن مستفتی سے کہہ دیتے کہ یہ میرا قیاس ہے، طاؤس کا بیان ہے کہ جب ابن عمرؓ کے سامنےکوئی ایسا مسئلہ پیش ہوتا جس کے بارہ میں کتاب اورسنت میں کوئی حکم نہ ہوتا، تو پوچھنے والوں سے کہتے کہ، اگر کہو تو اپنے قیاس سے بتادوں۔ [86]
لیکن قیاس واجتہاد میں بھی آپ کو ایسا خداداد ملکہ حاصل تھا اورآپ کی رائے بھی اتنی صائب اور فیصلہ کن سمجھی جاتی کہ بڑے بڑے ائمہ اس کے بعد پھر کسی دوسرے کی رائے کی ضرورت نہ سمجھتے تھے، امام ابن شہاب زہری نے اپنے شاگرد امام مالک کو ہدایت کی تھی کہ ابن عمرؓ کے مقابلہ میں کسی کی رائے کو ترجیح نہ دینا کہ وہ آنحضرت ﷺ کے بعد ساٹھ برس تک زندہ رہے، اس لیے آنحضرت ﷺ اورآپ کے صحابہ ؓ کی کوئی بات ان سے چھپی نہ تھی، [87] امام زین العابدینؓ فرماتے تھے کہ ابن عمرؓ بڑے صائب الرائے تھے، [88] بڑے بڑے مشائخ کہا کرتے تھے کہ جس نے ابن عمرؓ کے قول کو اختیار کیا اس نے پھر تلاش و تفحص کے لیے کچھ نہیں چھوڑا ۔ [89]
بعض فتاوےترميم
ایک شخص نے حاملہ عورت کے روزہ کی نسبت پوچھا کہ اگر حاملہ کو روزہ سخت معلوم ہو، یا اس سے نقصان پہنچنے کا احتمال ہو، تو وہ روزہ رکھےیا افطار کرلے فرمایا افطار کرلے اورروزہ کے عوض روزانہ ایک مدگیہوں مسکین کو دیدیا کرے ، [90] قرآن پاک کی آیت ،"وَعَلَى الَّذِينَ يُطِيقُونَهُ فِدْيَةٌ طَعَامُ مِسْكِينٍ" کے متعلق صحابہؓ کی دو جماعتیں ہیں ،ایک اس حکم کو منسوخ سمجھتی ہے اور دوسرے اس کو حاملہ، دودھ پلانی والی اورکبیرالسن بوڑھوں کے لیے مخصوص کرتی ہے،حضرت ابن عمرؓ کا یہ فتویٰ دوسرے فریق کی تائید کرتا ہے۔ عورتوں کے استعمالی زیوروں کی زکوٰۃ کے بارہ میں صحابہؓ اورمجتہدین کا اختلاف ہے، ایک گروہ اس کی بھی زکوۃ واجب ٹھہراتا ہے، جو حنفیہ کا مسلک ہے، دوسراگروہ زیور میں زکوٰۃ کے وجوب کا قائل نہیں، حضرت ابن عمرؓ کا عمل دوسرے گروہ کا موئد ہے ؛چنانچہ اپنی لڑکیوں کو سونے کے زیورات پہناتے تھے اوران کی زکوٰۃ نہیں دیتے تھے، [91] اس سے حضرت ابن عمرؓ کا یہ فیصلہ معلوم ہوتا ہے کہ استعمالی زیورات میں زکوٰۃ نہیں ہے کہ وہ ایک طرح سے عملاً عورت کے ضروریات میں سے ہیں، ہاں البتہ اگر کوئی زیور کو سرمایہ کے طور پر تجارت کی غرض سے رکھے تو بے شبہ اس پر زکوٰۃ واجب ہوگی، صحابہؓ میں حضرت عائشہؓ کا بھی یہی مسلک ہے اورمجتہدین میں امام شافعی وغیرہ اس طرف گئے ہیں۔ سکھائے ہوئے کتے کے شکار کی حلت کا مسئلہ تو خود قرآن پاک میں مذکور ہے، مگر اس کی بعض تفصیلات میں لوگوں کا اختلاف ہے،حضرت ابن عمرؓ کا مسلک یہ تھا کہ اگر کتے نے شکار کا کوئی حصہ خود نہیں کھایا ہے تو خواہ وہ شکار مردہ ملے یا زندہ، دونوں صورتوں میں کھایا جاسکتا ہے۔ [92] اگرچہ غلام کے افعال عموماً آقا کی مرضی کے تابع ہیں،تاہم اس کے کچھ فطری حقوق ایسے ہیں جن میں اس کو مکمل اختیار ہے اورآقا کی مرضی اور منشاء کو کوئی دخل نہیں، ابن عمرؓ غلام کے ان حقوق کے بڑے محافظ تھے، فرماتے تھے کہ اگر غلام کو آقانے شادی کی اجازت دے دی تو پھر طلاق دینے نہ دینے کا کامل اختیار اسی غلام کو ہوگا، آقا کو اس میں کوئی دخل نہ ہوگا، یعنی اگر آقا طلاق دلانا چاہے تو غلام طلاق دینے پر مجبور نہیں ہے۔ [93] اسی طرح آپ عورتوں کے حقوق کے بھی بڑے محافظ تھے کہ ان کے شوہر ان کو بازیچۂ اطفال نہ بنالیں کہ جب تک چاہا کھیلا اورجب چاہا بگاڑدیا، ایک شخص نے آکر پوچھا کہ ابو عبدالرحمن میں اپنی بیوی کا معاملہ اس کے ہاتھ میں دیدیا تھا، یعنی طلاق اس کی مرضی پر محول کردی تھی اس نے طلاق لے لی، آپ کا کیا فتویٰ ہے، فرمایا عورت نے جو کچھ کیا صحیح کیا ، یعنی طلاق پڑگئی اس نے کہا ایسا نہ کیجئے فرمایا میں کرتا ہوں کہ تم نے خود کیا ۔ [94] ربا (سود) کے معاملہ میں بہت سخت تھے، اگر ربا کا خفیف شائبہ بھی نکلتا، تو اس کو ناجائز سمجھتے تھے،ایک مرتبہ ایک سنار نے پوچھا کہ میں سونے کی چیزیں بناکر اس سے زیادہ وزن کے سونے کے ساتھ بیچتا ہوں اوریہ زیادتی میری محنت کاصلہ ہوتی ہے،آپ نے منع کیا ،سونار بار بار پوچھتا تھا اور آپ منع کرتے تھے،آخر میں فرمایا کہ دینار سے دینار اوردرہم سے درہم کے تبادلہ میں کسی قسم کی زیادتی نہ ہونا چاہئے اس کا مجھ سے عہدلیا گیا ہے اورمیں تم سے عہد لیتا ہوں۔ [95] اس تشدد کی بنا پر آپ قرض کے معاملہ میں کسی جانب سے بھی رعایت پسند نہ کرتے تھے؛ چنانچہ یہ صورت بھی آپ کے نزدیک ناپسندیدہ تھی کہ ایک شخص مدتِ معینہ کے لیے قرض لے پھر قرض خواہ مدت معینہ سے پہلے روپیہ لینا چاہے اوراس کے عوض میں رقم کا کچھ حصہ چھوڑدے، (زرقانی شرح موطا:۱۴۱ مطبوعہ مصر)گوربا کا فائدہ قرض خواہ کو ملتا ہے،اس لیے عام معنی میں یہ شکل ربا کے تحت میں نہیں آتی، لیکن چونکہ قرض کے سلسلہ میں رعایت ہے اوراس سے ایک فریق کو فائدہ پہنچتا ہے،اس لیے اس میں ان کو ربا کاشائبہ نظر آیا۔ ابن عمرؓ کے فضل و کمال کی جستجو میں جہاں تک ہم اندازہ کرسکے ہیں، اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ مذہبی علوم کے علاوہ عرب کے دوسرے مروجہ علوم شاعری، نسابی اورخطابت کو آپ کی بارگاہ علم میں بارنہ تھا، اس کا ایک کھلا ہوا سبب یہ ہے کہ آپ زہد و اتقا کے سبب سے مذہبی علوم کے علاوہ دوسرے علوم میں وقت صرف کرنا پسند نہ فرماتے تھے، اس لیے جو وقت بھی ملتا تھا، وہ اسی علمی جہاد میں صرف ہوتا تھا، دوسرا سبب یہ معلوم ہوتا ہے کہ عرب کے جاہلانہ جذبات سے آپ کا دامن ِاخلاق ہمیشہ پاک رہا،حسن وعشق ،حسب و نسب، غلط تہوروشجاعت آپ کے نزدیک بے معنی الفاظ تھے، اس لیے آپ شاعر اورنساب نہ بن سکے کہ یہی چیزیں عرب کی شاعری کے عناصر اوراسکی مائہ خمیر ہیں۔ سیاست کے خار زار سے ہمیشہ دامن کشان رہے، اس لیے تیغ زبان کے جوہر نہ کھلے؛ چنانچہ انہوں نے خطیب کی حیثیت سے کوئی خاص شہرت نہیں حاصل کی،تاہم اپ کے مختصر کلمات اورحکیمانہ اقوال پر زور خطبوں سے زیادہ وقیع،زیادہ پراثراورزیادہ مفید تھے، اہل علم کے بارے میں فرماتے تھے کہ "آدمی اس وقت اہل علم کے زمرہ میں شمار ہونے کے قابل ہوگا جب وہ اپنے سے بلند آدمی پر حسد نہ کرے گا اوراپنے سے کمتر کو حقیر نہ سمجھے گا اوراپنے علم کی قیمت نہ لے گا، ایمان کے متعلق فرماتے تھے کہ بندہ اس وقت تک ایمان کی حقیقت تک نہیں پہنچ سکتا، جب تک وہ مذہب کے اس بلند مقام پر نہ پہنچ جائے جہاں سے عوام اس کے مذہب میں اس کو احمق نظر آئیں، یہ بھی فرمایا کرتے تھے کہ کوئی بندہ خواہ وہ خدا کے نزدیک برگزیدہ ہی کیوں نہ ہو، مگر جب دنیا کا کچھ حصہ اس کو مل جاتا ہے تو خدا کے یہاں اس کا کوئی نہ کوئی درجہ ضرور گھٹ جاتا ہے[96] نیکی کے بارے میں ارشاد تھا کہ نیکی بہت آسان شے ہے، خندہ جبینی اورشیریں کلامی ۔ [97]
فضائلِ اخلاقترميم
خشیتِ الہی تمام اعمال صالحہ کی بنیاد ہے، خشیت یہ ہے کہ خدا کے ذکر سے انسان کے قلب میں گداز پیدا ہو، قرآن پاک میں صحابہؓ کی تعریف میں ہے"إِذَا ذُكِرَ اللَّهُ وَجِلَتْ قُلُوبُهُمْ"کہ جب خدایاد آتا ہے تو ان کے دل ہل جاتے ہیں،حضرت ابن عمرؓ میں یہ کیفیت بڑی نمایاں تھی، چنانچہ وہ قرآن پاک کی یہ آیت : أَلَمْ يَأْنِ لِلَّذِينَ آمَنُوا أَنْ تَخْشَعَ قُلُوبُهُمْ لِذِكْرِ اللَّهِ (آیہ) کیا مسلمانوں کے لیے وہ وقت نہیں آیا کہ خدا کی یاد سے ان کے دل میں خشوع پیدا ہو۔ پڑھتے تھے تو ان پر بے انتہارقت طاری ہوتی، [98] ایک مرتبہ حضرت عمیرؓ نے ، "فَكَيْفَ إِذَا جِئْنَا مِنْ كُلِّ أُمَّةٍ بِشَهِيدٍ" تلاوت کی توآپ اس قدر روئے کہ داڑھی اورگریبان آنسوؤں سے تر ہوگئے اورپاس بیٹھنے والوں پر اس قدر اثر ہوا کہ وہ بہ مشکل برداشت کرسکے، [99] فتنہ کے زمانہ میں جب ہر حوصلہ مند اپنی خلافت کا خواب دیکھتا تھا، ابن عمرؓ اپنے فضل و کمال، زہد واتقا، لوگوں میں اپنی عام ہر دلعزیزی اورمقبولیت ؛بلکہ اکثروں کی خواہش کے باوجود خداکے خوف سے محترز رہے، نافعؓ کہتے ہیں کہ میں نے اپنے کانوں سے سنا، ایک دن ابن عمرؓ خانہ کعبہ میں سربسجود ہوکر کہہ رہے تھے کہ خدایا تو خوب جانتا ہے کہ میں نے حصولِ دنیا میں قریش کی مزاحمت صرف تیرے خوف سے نہیں کی۔ [100]
عبادت وریاضتترميم
آپ بڑے عبادت گذار وشب زندہ دارتھے ، اوقات کا بیشتر حصہ عبادت الٰہی میں صرف ہوتا، نافع روایت کرتے ہیں کہ ابن عمرؓ رات بھر نمازیں پڑھتے تھے، صبح کے قریب مجھ سے پوچھتے کہ سپیدہ صبح نمو دار ہوا؟ اگر میں ہاں کہتا تو پھر طلوع سحر تک استغفار میں مشغول ہوجاتے اور اگر نہیں کہتا تو بدستور نماز میں مشغول رہتے، [101] روزانہ کا معمول تھا کہ مسجد نبوی سے دن چڑھے نکلتے بازار کی ضروریات پوری کرتے، (ابن سعدتذکرہ ابن عمرؓ ) پھر نماز پڑھ کر گھر جاتے ،محمد بن زید اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ ابن عمرؓ رات بھر میں چار پانچ مرتبہ اُٹھ اُٹھ کر نمازیں پڑھتے تھے، ابن سیرین کا بیان ہے کہ رات کو جتنی مرتبہ آنکھ کھلتی تھی اٹھ کر نماز پڑھتے تھے، [102] تلاوت قرآن سے بڑا شغف تھا، ایک رات میں پورا قرآن ختم کردیتے ، حج کسی سال ناغہ نہیں ہوا حتی کہ فتنہ کے زمانہ میں بھی جب مکہ بالکل غیر مامون حالت میں تھا،انہوں نےحج نہ چھوڑا، چنانچہ ابن زبیرؓ اورحجاج کی جنگ کے زمانہ میں جب انہوں نے حج کا قصد کیا تو لوگوں نے روکا کہ یہ حج کا موقع نہیں فرمایا اگر کسی نے روک دیا تو اسی طرح رک جاؤں گا، جس طرح آنحضرت ﷺ کو دشمنوں نے روکا تھا، صلح حدیبیہ کے زمانہ میں تو آپ رک گئے تھے اور اگر نہ روکا تو سعی وطواف پورا کروں گا، چنانچہ صرف اس لیے کہ آنحضرت ﷺ نے صلح حدیبیہ کے موقع پر عمرہ کی نیت کی تھی، انہوں نے اس موقع پر عمرہ کی نیت کی کہ آنحضرت ﷺ کے اس واقعہ سے مشابہت ہوجائے ،(صحیح بخاری ،کتاب المناسک باب اذا حضرالمعتمر)وہ یوں بھی تمام مسائل کے بڑے واقف کار تھے اوربکثرت حج کیے تھے، اس لیے صحابہؓ کی جماعت میں مناسکِ حج کے سب سے بڑے عالم مانے جاتے تھے، [103] معمولی سے معمولی عبادت بھی نہ چھوٹتی تھی، چنانچہ ہر نماز کے لیے تازہ وضو کرتے تھے، [104] مسجد جاتے وقت نہایت آہستہ آہستہ چلتے کہ جتنے قدم زیادہ پڑیں گے اتنا ہی زیادہ اجر ملے گا۔ [105]
پابندی سنتترميم
حضرت ابن عمرؓ کی زندگی حیات نبویﷺ کا عکس اورپرتو تھی،لوگ کہا کرتے تھے کہ ابن عمرؓ کو پابندی سنت کا والہانہ جنون تھا، [106] صرف عبادات ہی میں نہیں ؛بلکہ آنحضرت ﷺ کے اتفاقی اوربشری عادات کی بھی وہ پوری پیروی کرتے تھے، یہاں تک کہ جب وہ حج کے لیے سفر میں نکلتے تھے تو آنحضرت ﷺ اس سفر میں جن جن مقامات پر اترتے تھے وہاں وہ بھی منزل کرتے تھے، جن مقامات پر حضور ﷺ نے نمازیں پڑھی تھیں وہاں یہ بھی پڑھتے تھے، [107] حج کے سفر میں وہی راستہ اختیار کرتے جن راستوں سے آنحضرت ﷺ گذرا کرتے تھے ،[108]انتہا یہ ہے کہ جس مقام پر حضورﷺ نے کبھی طہارت کی تھی، اس پر پہنچ کر وہ بھی طہارت کرلیا کرتے تھے، آنحضرت ﷺ مسجد قبا میں سوار اورپیادہ دونوں طریقوں سے تشریف لے گئے تھے، حضرت ابن عمرؓ کا بھی یہی عمل تھا، آنحضرت ﷺ ذوالحلیفہ میں اترکر نماز پڑھتے ،ابن عمرؓ بھی یہی کرتے تھے۔ [109] عام دعوت خصوصاً ولیمہ قبول کرنا مسنون ہے، حضرت ابن عمرؓ روزہ کی حالت میں بھی دعوت ولیمہ ردنہ کرتے تھے، اگرچہ اس حالت میں کھانے میں نہ شریک ہوسکتے تھے، مگر داعی کے یہاں حاضری ضرور دیتے تھے، [110] آنحضرت ﷺ مکہ میں داخل ہونے کے قبل بطحا میں تھوڑا سا سولیتے تھے، حضرت ابن عمرؓ بھی ہمیشہ اس پر عامل رہے، [111] عبادات کے علاوہ وضع قطع اورلباس وغیرہ میں بھی اسوۂ نبوی ﷺ کو پیش نظر رکھتے تھے؛ چنانچہ ارکان میں صرف رکنِ یمانی کو چھوڑتے تھے، تویہ کے دن احرام کھولتے تھے، رنگوں میں زرد رنگ استعمال کرتے، چپل پہنتے تھے، لوگوں نے دریافت کیا کہ آپ ایسا کیوں کرتے ہیں، فرمایا آنحضرت ﷺ کیا کرتے تھے، [112] غرض آنحضرت ﷺ کے وہ تمام حرکات وسکنات جو آپ نے برسبیل سنت کیے یا طبعا صادر ہوئے، ابن عمرؓ ان سب کی اقتداء کرنا ضروری سمجھتے تھے۔
زہد وورعترميم
حضرت ابن عمرؓ کی زندگی زہدوتقویٰ کا نمونہ تھی، لوگوں کا اس پر اتفاق تھا کہ حضرت عمرؓ کے وقت میں ان کے جیسے بہت سے لوگ تھے، لیکن ابن عمرؓ اپنے زمانہ میں بے نظیر تھے، عام طورپر لوگوں میں آخر عمر میں جب قوی کا انحطاط ہوتا ہے، تو زہد و تقوی کا میلان ہوتا ہے، لیکن حضرت ابن عمرؓ کی پیشانی پر عنفوان شباب ہی میں زہدوورع کا نور چمکتا تھا اورجوانان قریش میں آپ کی ذات دنیا کی ہواوہوس اورنفس کی خواہشوں پر سب سے زیادہ قابورکھنے والی ذات تھی، [113] حضرت جابرؓ فرماتے تھے کہ ہم میں سوائے ابن عمرؓ کے کوئی ایسا نہ تھا جس کو دنیاوی دلفریبیوں نے اپنی طرف مائل نہ کیا ہو، البتہ ان کا دامن کبھی دنیا سے آلودہ نہیں ہوا، [114] اس سے بڑھ کر اُنکے زہد وتقویٰ کی کیا سند ہوسکتی تھی، کہ خود زبانِ رسالت نے ان کو "رجلٌ صالحٌ کی سند عطا کی، اس کا واقعہ یہ ہے کہ حضرت ابن عمرؓ نوعمری کے زمانہ میں اکثر مسجد میں سویا کرتے تھے، ایک دفعہ انہوں نے دوزخ کے فرشتوں کو خواب میں دیکھا، جا کر اپنی بہن ام المومنین حضرت حفصہ ؓ سے بیان کیا، انہوں نے آنحضرت ﷺ سے اس کا تذکرہ کیا، آنحضرت نے فرمایا کہ عبداللہ جوان صالح ہے اس کے بعد وہ اکثر نمازوں میں مشغول رہے، (صحیح بخاری کتاب الرویا:۲/۱۰۴۰) اورآخر عمر تک یہی زندگی قائم رہی، ایک مرتبہ حضرت جابرؓ نے لوگوں سے کہا کہ جو آنحضرت ﷺ کے ایسے اصحاب کو دیکھنا چاہتا ہو، جن میں آپ کے بعد بھی کوئی تغیر نہیں ہوا، تو وہ ابن عمرؓ کو دیکھے ، ان کے علاوہ ہم سے ہر شخص کو حوادث زمانہ نے کچھ نہ کچھ بدل دیا ہے، [115] حضرت زین العابدینؓ فرماتے تھے کہ ابن عمرؓ زہد و تقویٰ اوراصابت رائے میں ہم سب پر فائق تھے،[116] ان کی پوری زندگی بزرگوں کے بیانات کی لفظ بہ لفظ تصدیق کرتی ہے، ابن عمرؓ چھوٹی چھوٹی باتوں میں بھی تقویٰ اورپابندی سنت کا خیال رکھتے تھے ،ایک مرتبہ پانی مانگا، کسی نے شیشہ کے گلاس میں لاک رپیش کیا، انہوں نے انکار کردیا، جب دوبارہ وہ لکڑی کے پیالے میں لایا تو پی لیا، پانی پی کر وضو کے لیے برتن مانگا، انہوں نے طشت وآفتاب پیش کیا، آپ نے انکار کردیا، اورلوٹے سے وضو کیا۔ [117] مال ودولت آپ کی نگاہ میں کوئی حقیقت نہیں تھی اوربڑی سے بڑی دولت کو ٹھکرادیتے تھے ،امیر معاویہؓ نے جب یزید کو ولی عہد بنانا چاہا تو عمروبن العاصؓ کو حضرت ابن عمرؓ کا عندیہ کیلئے بھیجا، انہوں نے آکر کہا کہ آپ صحابی اورامیر المومنین کے لڑکے ہیں، لوگ بھی آپ کی بیعت پر آمادہ ہیں، پھر کیوں نہ ہم لوگ آپ کے دستِ حق پرست پر بیعت کرلیں، انہوں نے پوچھا کیا سب آمادہ ہیں؟ کہا وہاں معدودے چند اشخاص کے سوا سب تیار ہیں ، کہا اگر تین آدمی بھی میرے مخالف ہیں تو مجھے خلافت کی ضرورت نہیں ہے، جب عمروبن العاص ؓ کو یقین ہو گیا کہ وہ کشت وخون کو ناپسند کرتے ہیں تو دبے لفظوں میں کہا کہ پھر آپ ایسے شخص کے ہاتھ پر کیوں نہ بیعت کرلیں جس پر سب متفق ہوجائیں گے، اس کے عوض آپ کو اس قدر زمین اورنقد ومال دیا جائے گا کہ آپ کی پشتہا پشت کے لیے کافی ہوگا، یہ سن کر آپ غصہ سے بیتاب ہوگئے اور کہا تمہاری یہ مجال، ابھی میرے یہاں سے نکل جاؤ اورپھر کبھی صورت نہ دکھانا، میرا دین تمہارے درہم و دینار کے عوض فروخت نہیں ہوسکتا، مجھ کو امید ہے کہ جب دنیا سے جاؤں گا تو میرے ہاتھ ان آلائشوں سے پاک ہوں گے۔ [118] زہد وتقوی کی اصل آزمائش کا وہ وقت ہوتا ہے جب دنیا اپنے تمام سازو سامان اور دلفریبیوں کے ساتھ دعوت دیتی ہے، مگر انسان اس کی طرف نظر اٹھا کر بھی نہیں دیکھتا حضرت ابن عمرؓ کو بارہا ایسے موقعے ملے کہ اگر آپ چاہتے تو دنیاوی جاہ و جلال اورشان و شوکت کے بلند سے بلند مرتبہ پر فائز ہوسکتے تھے، مگر انہوں نے ان کی طرف آنکھ اٹھاکر بھی نہ دیکھا، چنانچہ حضرت عثمانؓ کی شہادت کے بعد لوگوں نے خلافت قبول کرنے کی خواہش کی اور اس پر سخت اصرار کیا، مگر آپ نے صاف انکار کردیا اوران فتنوں میں پڑنا گوارا نہ کیا، [119] اس سلسلہ میں ایک عجیب واقعہ قابل ذکر ہے جس سے ان کی اصلی فطرت کا پتہ چلتا ہے،سفیان ثوریؒ امام شعبی سے روایت کرتے ہیں کہ ایک مرتبہ عبداللہ بن زبیرؓ، مصعب بن زبیر،عبدالملک ؓ بن مروان اورابن عمرؓ، چاروں آدمی خانہ کعبہ میں جمع تھے، سب کی رائے ہوئی کہ ہر شخص رکن یمانی پکڑ کر اپنی اپنی دلی تمناؤں کے لیے دعامانگے، پہلے عبداللہ بن زبیرؓ اٹھے اوردعا مانگی کہ خدایا تو بڑا ہے اورتجھ سے بڑی ہی چیزں مانگی جاتی ہیں اس لیے میں تجھ کو تیرے عرش ،تیرے حرم، تیرے نبی اورتیری ذات کی حرمت کا واسطہ دلا کر دعا کرتا ہوں کہ مجھے اس وقت تک زندہ رکھ جب تک کہ حجاز پر میری حکومت اورعام خلافت نہ تسلیم کرلی جائے، اس کے بعد مصعبؓ بن زبیرؓ اٹھے اوررکن یمانی پکڑ کر دعا مانگی کہ تو تمام چیزوں کا رب ہے، آخر میں سب کو تیری ہی طرف لوٹنا ہے، میں تیری اس قدرت کا واسطہ دے کر جس کے قبضہ میں تمام عالم ہے دعا کرتا ہوں کہ مجھے اس وقت تک دنیا سے نہ اٹھا جب تک کہ میں عراق کا والی نہ ہوجاؤں اورسکینہ میرے نکاح میں نہ آجائے، اس کے بعد عبدالملک نے کھڑے ہوکر دعا کی کہ اے زمین و آسمان کے خدا میں تجھ سے ایسی چیزیں مانگتا ہوں جس کو تیرے اطاعت گذار بندوں نے تیرے حکم سے مانگا ہے، میں تجھ سے تیری ذات کی حرمت، تیری مخلوقات وبیت الحرم کے رہنے والوں کے حق کا واسطہ دے کر دعا مانگتا ہوں کہ تو مجھے دنیا سے اس وقت تک نہ اٹھا،جب تک کہ مشرق و مغرب پر میری حکومت نہ ہو جائے، اوراس میں جو شخص رخنہ اندازی کرے، اس کا سر نہ قلم کردوں، جب یہ لوگ دعا مانگ چکے تو وہ بادہ حق کا سرشار اٹھا، جس کے نزدیک دنیاوی طمطراق کی حقیقت سراب سے زیادہ نہ تھی اوراس کی زبان سے یہ الفاظ نکلے کہ تو رحمن ورحیم ہے، میں تیری اس رحمت کا واسطہ دیکر دعا کرتا ہوں جو تیرے غضب پر غالب ہے کہ تو مجھے آخرت میں رسوانہ کر اوراُس عالم میں مجھے جنت عطافرما۔ [120] براء روایت کرتے ہیں کہ میں ایک مرتبہ ابن عمرؓ کی لاعلمی میں ان کے پیچھے پیچھے جارہا تھا وہ چپکے چپکےکہتے جاتے تھے کہ لوگ کندھوں پر تلواریں رکھے آپس میں کٹے مرتے ہیں اورمجھ سے کہتے ہیں کہ ابن عمرؓ ہاتھ لاؤ بیعت کریں۔ [121] عموماً پیٹ بھر کھانا نہ کھاتےتھے، ایک شخص چورن لایا، آپ نے پوچھا،کیا ہے؟ اُس نے کہا اگر کھانا ہضم نہ ہوتو اس سے ہضم ہوجاتا ہے،فرمایا، اس کی مجھ کو کیا ضرورت ہے میں نے تو مہینوں سے شکم سیر ہوکر کھانا ہی نہیں کھایا۔ [122]
مشتبہات سے اجتنابترميم
شدت ورع کی بنا پر ہمیشہ مشتبہ چیزوں سے پرہیز فرماتے تھے،مروان نے اپنے زمانہ میں میل کے نشان کے پتھر نصب کرائے تھے، ابن عمرؓ ادھر رخ کرکے نماز پڑھنا مکروہ سمجھتے تھے، [123] کہ اس میں پتھر کی پرستش کا خیالی شائبہ ہے اس طرح حضرت ابن عمرؓ اوردوسرے صحابہؓ ہمیشہ عہدِرسالت ﷺ اور اس کے بعد خلفائے اربعہؓ کے وقت تک کھیتوں کا لگان لیا کرتے تھے، لیکن ایک مرتبہ رافع بن خدیجؓ نے بیان کیا کہ آنحضرت ﷺ نے کھیتوں کے کرایہ سے منع کیا ہے، حضرت ابن عمرؓ نے سناتو جاکر ان سے تصدیق چاہی، رافع نے کہا کہ ہاں منع کیا ہے کہا تم کو معلوم ہے کہ عہد نبوی ﷺ میں زمین پر لگان لیا جاتا تھا، اگرچہ ان کو اس کا یقین نہ تھا کہ آنحضرت ﷺ نے ایسا حکم دیا ہوگا، مگر محض اس احتمال کی بنا پر لگان لینا چھوڑدیا کہ شاید بعد میں آنحضرت ﷺ نے ممانعت فرمادی ہو اورمجھے علم نہ ہوا ہو۔ [124] ککڑی اورخربوزہ صرف اس لیے نہ کھاتے تھے کہ اس میں گندی چیزوں کی کھاد دی جاتی ہے۔ [125] ایک مرتبہ کسی نے کھجور کا سرکہ ہدیہ بھیجا،پوچھا کیا چیز ہے، معلوم ہوا کھجور کا سرکہ ہے انہوں نے اس خیال سے پھکوادیا کہ سکرنہ پیدا ہوگیا ہو۔ [126] اگرچہ غنا کا مسئلہ مختلف فیہ ہے تاہم احتیاط کا اقتضایہی ہے کہ اس سے احتراز کیا جائے؛ چنانچہ جب اپنے صاحبزادے کو گنگناتے ہوئے سنتے تو تنبیہ فرماتے۔ [127] اگر کسی چیز میں صدقہ کے شائبہ کا بھی وہم ہوتا تو اس کو استعمال نہ کرتے ایک دن بازار گئے وہاں ایک دودھاری بکری بک رہی تھی، اپنے غلام سے کہا لے لو، اس نے اپنے دام سے خرید لیا، آپ دودھ سے افطار کرنا پسند کرتے تھے، اس لیے افطار کے وقت اسی بکری کا دودھ پیش کیا گیا، فرمایا کہ یہ دودھ بکری کا ہے اوربکری غلام کی خریدی ہوئی ہے اورغلام صدقہ کا ہے اس لیے اس کو لے جاؤ، مجھ کو اس کی حاجت نہیں ہے۔ [128] ایک مرتبہ کہیں دعوت میں تشریف لے گئے، وہاں پھولدار فرش بچھا ہوا تھا،کھانا چناگیاتو پہلے ہاتھ بڑھایا،پھر کھینچ لیا اورفرمایا کہ دعوت قبول کرنا حق ہے،مگر میں روزہ سے ہوں ،یہ عذر پھولدار فرش کی وجہ سے تھا۔ [129] ایک مرتبہ احرام کی حالت میں سردی معلوم ہوئی ،فرمایا مجھ کو اُڑھادو، آنکھ کھلی تو چادر کی لحاف پھول بوٹوں پر نظر پڑی جو ابریشم سے کڑھے ہوئے تھے، فرمایا اگر اس میں یہ چیز نہ ہوتی تو استعمال میں کوئی مضائقہ نہ تھا۔ [130]
صدقات وخیراتترميم
صدقہ وخیرات حضرت ابن عمرؓ کا نمایاں وصف تھا، ایک ایک نشست میں بیس بیس ہزار تقسیم کردیتے تھے، دودو تین تین ہزار کی رقمیں تو عموماً خیرات کیا کرتے تھے، [131] بسا اوقات یکمشت ۳۰ ہزار کی رقم خدا کی راہ میں لٹادی،[132] قرآن پاک میں نیکوکاری کے لیے محبوب چیز خدا کی راہ میں دینے کی شرط ہے، "لَنْ تَنَالُوا الْبِرَّ حَتّٰى تُنْفِقُوْا مِمَّا تُحِبُّوْنَ" حضرت ابن عمرؓ اس آیت کی عملی تفسیر تھے، آپ ہمیشہ اپنی پسندیدہ چیزوں کو راہِ خدا میں دیدیتے تھے،چنانچہ جو غلام آپ کو پسند ہوتا اس کو راہ خدا میں آزاد کردیتے اورآپ کی نظر میں وہ غلام پسندیدہ ہوتا، جو عبادت گذار ہوتا، غلام اس راز کو سمجھ گئے تھے، اس لیے وہ مسجدوں کے ہورہتے ، حضرت ابن عمرؓ اس کے ذوق عبادت کو دیکھ کر خوش ہوتے اورآزاد کردیتے ،آپ کے احباب مشورہ دیتے کہ آپ کے غلام آپ کو دھوکہ دیتے ہیں اور صرف آزادی کے لیے یہ دینداری دکھاتے ہیں، آپ فرماتے ،"من خد عناباللہ انخد عنالہ" جو شخص ہم کو خدا کے ذریعہ سےدھوکہ دیتا ہے ہم اس کا دھوکہ کھا جاتے ہیں، [133] آپ کو ایک لونڈی بہت محبوب تھی، اس کو راہ خدا میں آزاد کرکے اپنے ایک غلام کے ساتھ بیاہ دیا، اس سے ایک لڑکا پیدا ہوا، لڑکے کو آپ چومتے اورفرماتے کہ اس سے کسی کی بوآتی ہے، (اصابہ : ۴/۱۰۹) اسی طریقہ سے ایک دوسری چہیتی لونڈی کو آزاد کردیا اورفرمایا "لَنْ تَنَالُوا الْبِرَّ حَتّٰى تُنْفِقُوْا مِمَّا تُحِبُّوْنَ" [134] آپ اس کثرت سے غلام آزاد کرتے تھے کہ آپ کے آزاد کردہ غلاموں کی تعداد ایک ہزار سے متجاوز ہوگئی تھی، [135] ایک مرتبہ انہوں نے نہایت عمدہ اونٹ خریدا اورسوار ہوکر حج کو چلے، اتفاق سے اس کی چال بہت پسند آئی، فوراً اتر پڑے اورحکم دیا کہ سامان اتارلو اوراس کو قربانی کے جانوروں میں داخل کردو۔ [136]
مسکین نوازیترميم
مسکین نوازی آپ کا نمایاں وصف تھا، خود بھوکے رہتے، لیکن مسکینوں کی شکم سیری کرتے ،عموماً بغیر مسکین کے کھانا نہ کھاتے تھے۔ آپ کی اہلیہ آپ کی غیر معمولی فیاضی سے بہت نالاں رہتی تھیں اورشکایت کیا کرتی تھیں کہ جوکھانا میں ان کے لیے پکاتی ہوں وہ کسی مسکین کو بلاکر کھلادیتے ہیں،فقراء اس کو سمجھ گئے تھے اس لیے مسجد کے سامنے آپ کی گذرگاہ پر آکر بیٹھتے تھے، جب آپ مسجد سے نکلتے تو ان کو لیتے آتے تھے بیوی نے عاجز ہوکر ایک مرتبہ کھانا فقراء کے گھروں پر بھجوادیا اورکہلا بھیجا کہ راستہ میں نہ بیٹھا کریں اوراگر وہ بلائیں تو بھی نہ آئیں ابن عمرؓ مسجد سے واپس ہوکر حسب معمول گھر آئے اور غصہ میں حکم دیا کہ فلاں فلاں محتاجوں کو کھانا بھجوادو،کیا تم چاہتی ہو کہ میں رات فاقہ میں بسرکرو ں؛چنانچہ بیوی کے اس طرز عمل پر رات کو کھانا نہ کھایا۔ [137] اگر دستر خوان پر کسی فقیر کی صدا کانوں میں پہنچ جاتی تو اپنے حصہ کا کھانا اس کو اٹھوادیتے اورخود روزہ سے دن گذاردیتے ،ایک مرتبہ مچھلی کھانے کی خواہش ہوئی، آپ کی بیوی صفیہ نے بڑے اہتمام سے لذیذ مچھلی تیار کی، ابھی دسترخوان چنا ہی گیا تھا کہ ایک فقیر نے صدا لگائی فرمایا فقیر کو دیدو،بیوی کو عذر ہوا، پھر دوبارہ فرمایا کہ نہیں دیدو مجھ کو یہی پسند ہے، لیکن چونکہ بیوی نے آپ کی فرمائش سے پکائی تھی، اس لیے اس کو نہ دیا اورکھانے کے لیے انگور کے چند دانے خرید ے گئے، ایک سائل آیا، حکم دیا انگور دیدو لوگوں نے عرض کیا آپ اس کو کھالیجئے اس کو دوسرے دیدیے جائیں گے فرمایا نہیں یہی دیدو مجبوراً وہی دینے پڑے اوردے کر پھر اس سے خریدے گئے، [138]آپ کا یہ سلوک ان ہی لوگوں کے ساتھ تھا جو درحقیقت اس کے مستحق ہوتے تھے؛ چنانچہ جب دسترخوان پر بیٹھتے اورکوئی خوش پوش اورمر فحہ الحال دکھائی پڑتا، تونہ بلاتے ،لیکن آپ کے بھائی اورلڑکے وغیرہ اس کو بیٹھا لیتے اوراگر کوئی خستہ حال اورمسکین نظر آتا ،تو اس کو فورا ًبلاتے اورفرماتے یہ لوگ شکم سیر اشخاص کو بلاتے ہیں اور جو بھوکے اورکھانے کے حاجتمند ہوتے ہیں ان کو چھوڑدیتے ہیں۔ [139]
فیاضی اورسیرچشمیترميم
فقراء ومساکین کے علاوہ آپ کے ہم چشم اورہم رتبہ اشخاص پر بھی آپ کا ابرکرم رہتا تھا، اگر کبھی بھولے سے کوئی چیز کسی کے پاس چلی جاتی تو پھر اس کو واپس نہ لیتے تھے، عطا کہتے ہیں کہ ایک دفعہ ابن عمرؓ نے مجھ سے دوہزار درہم قرض لیے، جب ادا کیے تو دوسوزیادہ آگئے میں نے واپس کرنا چاہاتو کہا تمہیں لے لو، [140] اسی طریقہ سے ایک مرتبہ ایک اور رقم کسی سے قرض لی جب واپس کی تو مقروضہ درہم سے زیادہ کھرے درہم ادا کیے، قرض خواہ نے کہا یہ درہم میرے درہموں سے زیادہ کھرے ہیں، فرمایا عمدا ایسا کیا تھا، [141] آپ کے غلام نافع کا بیان ہے کہ ایک مرتبہ بیس ہزار درہم ایک وقت تقسیم کردئے ، تقسیم ہوجانے کے بعد جو لوگ آئے ان کو ان لوگوں سے قرض لے کردیتے،[142] جن کو پہلے دے چکے تھے، اقامت کی حالت میں بھی اکثر روزہ رکھتے تھے،لیکن اگر کوئی مہمان آجاتا تو افطار کرتے کہ مہمان کی موجودگی میں روزہ رکھنا فیاضی سے بعید ہے، [143] جہاں مہمان جاتے ۳ دن کی مسنون مہمانی کے بعد اپنا سامان خود کرتے ،جب مکہ جاتے تو عبداللہ بن خالد کے گھرانے میں اترتے ؛لیکن ۳ دن کے بعد اپنی جملہ ضروریات بازار سے پوری کرتے تھے، [144] ایک مرتبہ کہیں جارہے تھے، راستہ مین ایک اعرابی ملا، حضرت ابن عمرؓ نے سلام کیا اورسواری کا گدھا اورسرکا عمامہ اتار کر اس کو دیدیا، ابن دینار ساتھ تھے، یہ فیاضی دیکھ کر بولے، خدا آپ کو صلاحیت دے یہ اعرابی تو معمولی چیزوں سے خوش ہوجاتے ہیں ،یعنی ا تنی فیاضی کی ضرورت نہ تھی، فرمایا ان کے والد میرے والد کے دوست تھے، میں نے آنحضرت ﷺ سے سنا ہے کہ سب سے بڑی نیکی اپنے باپ کے احباب کے ساتھ صلہ رحمی ہے۔ [145]
استغناترميم
اس فیاضی کے ساتھ حددرجہ مستغنی المزاج واقعہ ہوئے تھے،کبھی کسی کے سامنے دستِ سوال دراز نہیں کیا، لوگ خدمت بھی کرنا چاہتے تو آپ قبول نہ کرتے ،عبدالعزیز بن ہارون نے ایک مرتبہ لکھ بھیجا کہ آپ اپنی ضروریات کی اطلاع مجھ کو دیا کیجئے، ان کو جواب میں لکھ بھیجا کہ جن کی پرورش تمہارے ذمہ ہے ان کی امداد کرو اوراوپر کاہاتھ نیچے کے ہاتھ سے بہتر ہے اوپر کے ہاتھ سے مراد دینے والا اورنیچے کے ہاتھ سے مراد لینے والا۔ [146] مگر اسی کے ساتھ کسی کا ہدیہ بھی واپس نہیں کرتے تھے، چنانچہ مختار اکثرمال ومتاع بھیجا کرتا تھا، آپ قبول کرلیتے اورفرماتے کہ میں کسی سے مانگتا نہیں، لیکن جو خدا دیتا ہے اس کو رد بھی نہیں کرتا، [147]آپ کی پھوپی رملہ نے دوسو دینار بھیجے،انہوں نے شکریہ کے ساتھ قبول کرلیے، حضرت امیر معاویہؓ نے آپ کے سامنے ایک لاکھ کی رقم اس خیال سے پیش کرنی چاہی کہ آپ یزید کی خلافت پر راضی ہوجائیں،آپ نےفرمایا: میرایمان اتنا سستا نہیں ہے ۔ [148]
محبت نبوی ﷺترميم
آنحضرت ﷺ کی محبت ان کا سرمایہ حیات اورجان حزین کی تسکین کا باعث تھی، آپ کی وفات کے بعد ایسے شکستہ دل ہوئے کہ اس کے بعد نہ کوئی مکان بنایا اورنہ باغ لگایا، [149] وفات نبوی ﷺ کے بعد جب آپ کا ذکر آتاتو بے اختیار روپڑتے، (ابن معتدتذکرہ ابن عمرؓ)جب سفر سے لوٹتے تو روضہ نبوی ﷺ پر حاضر ہوکر سلام کہتے، [150] ذات نبوی ﷺ کے ساتھ اس شیفتگی کا قدرتی نتیجہ یہ تھاکہ آلِ اطہار ؓ سے بھی وہی تعلق تھا، ایک مرتبہ ایک اعرابی نے مچھر کے خون کا کفارہ پوچھا، آپ نے پوچھا تم کون ہو اس نے کہا عراقی، فرمایا لوگو ذرااس کو دیکھنا یہ شخص مجھ سے مچھر کے خون کا کفارہ پوچھتا ہے، حالانکہ ان لوگوں نے نبی کے جگر گوشہ کو شہید کیا ہے، جن کے متعلق آنحضرت ﷺ فرماتے تھے کہ یہ دونوں میرے باغ دنیا کے دو پھول ہیں۔ [151] یہ محبت آلِ اطہارؓ کے ساتھ مخصوص نہ تھی ؛بلکہ جس چیز کو بھی آنحضرت ﷺ کے ساتھ کسی قسم کی نسبت ہوتی، اس سے آپ کو وہی شغف تھا،آنحضرت ﷺ کبھی ایک درخت کے نیچے اترے تھے،ابن عمرؓ ہمیشہ اس کو پانی دیتے تھے کہ خشک نہ ہوجائے ،[152]مدینۃ الرسول ﷺ سے اس درجہ محبت تھی کہ تنگی کی حالت میں بھی وہاں سے نکلنا گوارانہ تھا، ایک مرتبہ آپ کے ایک غلام نے تنگ حالی کی شکایت کی اورمدینہ سے جانے کی اجازت چاہی ،اس سےفرمایا کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا ہے کہ جو شخص مدینہ کے مصائب پر صبر کریگا قیامت میں میں اس کا شفیع ہوں گا۔ [153]
اختلاف اُمت کا لحاظترميم
حضرت ابن عمرؓ اس کام سے جس میں امت مسلمہ کے اختلاف وافتراق کا ادنی خطرہ بھی نکلتا ہو احتراز فرماتے تھے، ان کی حق پرستی مسلم ہے، لیکن امت کے ضرر کے خیال سے بعض مواقع پر خاموش ہوجاتے تھے ،فرماتے تھے کہ ایک مرتبہ امیر معاویہؓ نے دعویٰ سے کہا کہ خلافت کا ہم سے زیادہ حقدار کون ہے، میرے دل میں خیال آیا کہ جواب دوں کہ تم سے زیادہ وہ حقدار ہے جس نے تم کو اورتمہارے باپ کو اس پر مارا تھا،مگر فساد کے خیال سے خاموش رہا، [154]اختلاف امت سے بچنے کا ادنی ادنی باتوں میں خیال رکھتے تھے،منی میں آنحضرتﷺ عصر کی نماز میں قصر کرتے تھے، آپ کے بعد حضرت ابوبکرؓ وعمرؓ کا بھی یہی طریقہ رہا،حضرت عثمانؓ بھی ابتدا میں دوہی رکعت پڑھتے تھے، مگر کچھ دنوں کے بعد پوری چار پڑھنے لگے، حضرت ابن عمرؓ بھی تفریق کے خیال سے امام کے پیچھے چار پڑھتے،لیکن اکیلے ہوتے تو قصر کرتے اورفرماتے کہ "الخلاف منکر" [155] اختلاف ناپسندیدہ ہے،فرمایا کرتے تھے کہ اگر میری خلافت پردوشخص کے علاوہ پوری امت محمدی ﷺ متفق ہوجائے تو بھی میں ان دوسے نہ لڑوں گا، لوگوں کو نصیحت کرتے کہ ہم دوسروں سے اس لیے لڑتے تھے کہ دین فساد کا ذریعہ نہ بنے اورخالص خدا کے لیے ہوجائے اورتم لوگ اس سے لڑتے ہو کہ دین غیر خدا کا ہو کر فتنہ و فساد کی بنیاد بن جائے، ایک شخص نے کہا کہ آپ سے زیادہ فتنہ پردراز امت محمد میں کوئی نہیں، فرمایا یہ کیسے خدا کی قسم نہ میں نے ان کا خون بہایا، نہ ان کی جماعت میں اختلاف ڈالا، نہ ان کی مجتمع قوت منتشرکی، اس نے برسبیل مبالغہ کہا کہ اگر آپ چاہتے تو دوشخص بھی آپ کی خلافت میں اختلاف نہ کرتے ،آپ نے فرمایا میں اس کو ناپسند کرتا ہوں کہ ایک شخص کہے کہ میں تمہاری خلافت سے راضی ہوں، دوسرا کہے کہ میں راضی نہیں ہوں ،براء روایت کرتے ہیں کہ میں ایک دن عبداللہ بن عمرؓ کی لاعلمی میں ان کے پیچھے پیچھے جارہا تھا وہ فرماتے جاتے تھے کہ لوگ تلواریں لیے آپس میں کٹے مرتے ہیں، پھر کہتے ہیں کہ ابن عمرؓ بیت کے لیے ہاتھ بڑھاؤ ۔ [156] اسی اختلاف امت سے بچنے کے لیے ہر خلیفہ کے ہاتھ پر بیعت کرلیتے تھے کہ مبادانکار کسی نئے فتنہ کی بنیاد نہ بن جائے، چنانچہ فتنہ کے زمانہ میں ہر امیر کے پیچھے نماز پڑھ لیتے اور زکوٰۃ ادا کردیتے خود فرماتے تھے کہ میں دورِ فتن میں جنگ وجدل سے الگ رہتا ہوں اورہر غالب کے پیچھے نماز پڑھ لیتا ہوں،[157] مگر یہ اطاعت اسی حد تک تھی جہاں تک مذہب اجازت دیتا اور اگر اس سے مذہبی پابندی میں کوئی خلل پڑتا، تو اطاعت ضروری نہیں سمجھتے تھے، چنانچہ ابتداً حجاج کے پیچھے نماز پڑھا کرتے تھے، لیکن جب اس نے نماز میں تاخیر شروع کی تو اس کے پیچھے نماز پڑھنی چھوڑ دی ؛بلکہ مکہ چھوڑ کر مدینہ چلے آئے۔ [158] اس احتیاط کی بنا پر حضرت عثمانؓ کے عہد خلافت میں فتنہ وفساد اورافتراق کا جو طوفان اٹھا،جس میں بہت کم ایسے مسلمان تھے،جن کا ہاتھ ایک دوسرے کے خون سے رنگین نہ ہوا ہو،ابن عمرؓ اپنے کمالِ احتیاط کے باعث اس ہنگامہ عام میں بھی بچے رہے ،چنانچہ محمد کہتے ہیں کہ اگر ہم میں سے کوئی شخص مستثنی کیا جاسکتا ہے تو وہ عبداللہ بن عمر ہیں۔
اظہارِحق میں جرأت وبیباکیترميم
اس مصالحانہ اور مرنج ومرنجان زندگی کے باوجود دینی اورمذہبی معاملات میں ان کی حق گوئی مصالح امت کے خیال پر غالب آجاتی تھی ،چنانچہ بنی امیہ کے جابرانہ طرز عمل پر نہایت سختی سے نکتہ چینی کرتے تھے،حجاج کے مظالم سے دنیائے اسلام تنگ آگئی تھی ؛مگر کسی کو دم مارنے کی مجال نہ تھی؛ لیکن حضرت ابن عمرؓ بے خوف وخطر اس کے منہ پر کہہ دیتے ،ایک مرتبہ حجاج خطبہ دے رہا تھا، حضرت ابن عمرؓ بھی تھے،آپ نے فرمایا یہ خدا کا دشمن ہے اس نے حرام الہی کو تباہ کیا، بیت اللہ کو تباہ کیا،اولیا اللہ کو قتل کیا،[159] ایک مرتبہ حجاج نے دوران خطبہ میں کہا کہ عبداللہ بن زبیرؓ نے کلام اللہ میں تغیر و تبدل کیا ہے،حضرت ابن عمرؓ نے جھلا کر فرمایا کہ توجھوٹ بکتا ہے نہ ابن زبیرؓ میں اتنی طاقت ہے اورنہ تیری یہ مجال ہے، [160] مرض الموت میں جب حجاج عیادت کو آیا اور انجان بن کر کہا کاش زخمی کرنے والے کا مجھ کو علم ہوجاتا تو بگڑکر کہا کہ وہ تمہارا نیزہ تھا حجاج نے پوچھا یہ کیسے کہا تم نے ایام حج میں لوگوں کو مسلح کیا اور حرم محترم میں ہتھیاروں کو داخل کیا،پھر پوچھتے ہو،کس نے زخم کیا، [161] ایک مرتبہ حجاج مسجد میں خطبہ دے رہا تھا، اس کو اس قدر طول دیاکہ عصر کا وقت آخر ہوگیا آپ نے آواز دی کہ نماز کا وقت جارہا ہے،تقریر ختم کرو اس نے نہ سنا، دوبارہ پھر کہا اس مرتبہ بھی اس نے خیال نہ کیا تیسری مرتبہ پھر کہا تین مرتبہ کہنے کے بعد حاضرین سے فرمایا،اگر میں اٹھ جاؤں تو تم بھی اٹھ جاؤ گے لوگوں نے کہاہاں چنانچہ یہ کہہ کر کہ معلوم ہوتا ہے کہ تم کو نماز کی ضرورت نہیں ہے اٹھ گئے اس کے بعد حجاج منبر سےاتر آیا اورنماز پڑھی اورابن عمرؓ سے پوچھا کہ تم نے ایسا کیوں کیا ،کہا کہ ہم لوگ نماز کے لیے مسجد میں آتے ہیں، اس لیے جس وقت نماز کا وقت آجائے،اس وقت فورا ًتم کو نماز پڑھنی چاہیے، نماز کے بعد جس قدر تمہارا دل چاہے،بکا کرو،[162] اسی وجہ سے خلفائے بنوا میہ اپنی رعونت کے باوجود ان کا بہت لحاظ کرتے تھے،آنحضرت ﷺ کے وقت سے خط لکھنے کا یہ طریقہ تھا کہ کاتب بسم اللہ کے بعد اپنا نام لکھتا،پھر مکتوب الیہ کا نام لکھتا کہ منجانب فلاں ابی فلاں لیکن خلفائے امیہ نے جہاں اوربدعات رائج کیں وہاں اس طریقہ کو بھی بدل دیا اوراظہار ترفع کے لیے یہ طریقہ رائج کیا کہ خط میں پہلے خلیفہ کا نام لکھا جائے پھر بھیجنے والا اپنا نام تحریر کرے ابن عمرؓ کی خود اری اس کو گوارا نہیں کرسکتی تھی، اس لیے انہوں نے جو بیعت نامہ لکھا،اس میں اسی سابق طریقہ پر"من عبداللہ بن عمر الی عبداللہ بن مروان" لکھا، اس تحریر کو دیکھ کر درباریوں نے کہا کہ ابن عمرؓ نے حضورسے پہلے اپنا نام لکھا ہے،عبدالملک نے کہا کہ ابو عبدالرحمن کی ذات سے اتنا بھی بہت غنیمت ہے۔ [163]
مساواتترميم
اسلام نے ان تمام امتیازات کو جن سے ایک انسان کی تحقیر اور دوسرے کی بیجا عظمت ظاہر ہو مٹادیا،ابن عمرؓ اس مساوات کا عملی نمونہ تھے، وہ ان تمام امتیازات کو جن سے مساوات میں فرق آتا ہو ناپسند فرماتے تھے،چنانچہ جہاں لوگ آپ کی تعظیم کے لیے کھڑے ہوتے ہوں نہ بیٹھتے، [164] اپنے غلاموں کو بھی مساوات کا درجہ دیدیا تھا اوران کو عزت نفس کی تعلیم دیتے تھے،دستور تھا کہ غلام تحریر میں پہلے آقا کا نام لکھتا،پھر اپنا ،انہوں نے اپنے غلاموں کو ہدایت کردی کہ جب مجھ کو خط لکھو تو پہلے اپنا نام لکھو، [165] غلاموں کو دسترخوان پر ساتھ بٹھاتے ایک مرتبہ دسترخوان بچھا ہوا تھا، ادھر سے کسی کا غلام گذرا تو اس کوبھی بلا کر ساتھ بٹھایا، [166] غلاموں کے کھانے پینے کا خیال بال بچوں کی طرح رکھتے تھے،ایک مرتبہ ان لوگوں کے کھانے میں تاخیر ہوگئی ،خانساماں سے پوچھا غلاموں کو کھانا کھلادیا، اس نے نفی میں جواب دیا برہم ہوکر فرمایا جاؤ ابھی کھلادو، انسان کے لیے یہ سب سے بڑا گناہ ہے کہ اپنے غلاموں کے خورد ونوش کا خیال نہ رکھے، [167] غلاموں کو نہ کبھی برابھلا کہتے تھے اورنہ کبھی ان کو مارپیٹ کرتے تھے،اگر کبھی غصہ کی حالت میں ایسا کوئی فعل سرزد ہوجاتا تو اس کو کفارہ کے طور پر آزاد کردیتے ،سالم کہتے ہیں کہ ابن عمرؓنے ایک مرتبہ کے علاوہ کبھی کسی غلام کو لعنت ملامت نہیں کی،ایک مرتبہ غصہ میں الع کہنے پائے تھے کہ زبان روک لی اور فرمایا میں ایسی بات زبان سے نکال رہا ہوں جو نہ نکالنی چاہئے ،ایک مرتبہ ایک غلام کو کسی بات پر ماربیٹھے،مارنے کے بعد اس قدر متاثر ہوئے کہ اس کو آزاد کردیا۔
تواضع وانکسارترميم
اس مساوات کا دوسرا پہلو انکسار و تواضع ہے،جب تک یہ صفت نہ ہوگی،اس وقت تک مساوات کاجذبہ نہیں پیدا ہوسکتا، ابن عمرؓ میں یہ صفات بھی بدرجہ اتم موجود تھیں، اپنی تعریف سننا خود پرستی کا پہلا زینہ ہے،ابن عمرؓ اپنی تعریف سننا سخت ناپسند کرتے تھے،ایک شخص ان کی تعریف کررہا تھا، انہوں نے اس کے منہ میں مٹی جھونک دی اورکہا آنحضرت ﷺ نے فرمایا ہے کہ مداحوں کے منہ میں خاک ڈالا کرو،[168] اپنے لیے معمولی انسانوں سے زیادہ شرف گوارانہ کرتے تھے،ایک مرتبہ کسی نے آپ سے کہا تم سبط ہو تم وسط ہو فرمایا: سبحان اللہ سبط بنی اسرائیل تھے اور امت وسط پوری امتِ محمد یہ ہے،ہم تو مضر کے درمیانی لوگ ہیں، اس سے زیادہ اگر کوئی رتبہ دیتا ہے تو جھوٹا ہے،بلا امتیاز ہر کس وناکس کو سلام کرتے ،بلکہ اسی ارادہ سے گھر سے نکلتے تھے،طفیل بن کعب جو روازانہ صبح و شام ان کے ساتھ بازار جایا کرتے تھے، بیان کرتے تھے کہ ابن عمرؓ بلا امتیاز تاجر مسکین اور خستہ حال سب کو سلام کرتے تھے،ایک دن مین نے ان سے پوچھا آپ بازار کیوں جاتے ہیں،حالانکہ نہ خرید و فروخت کرتے ہیں،نہ کسی جگہ بیٹھ تے ہیں،فرمایا صرف لوگوں کو سلام کرنے کی غرض سے [169] اتفاق سے اگر کسی کو سلام کرنا بھول جاتے تو پلٹ کر سلام کرتے،[170] تواضع کا ایک مظہر حلم بھی ہے،ابن عمرؓ تلخ سے تلخ باتیں سن کر پی جاتے تھے،ایک مرتبہ ایک شخص نے آپ کو پیہم گالیاں دینی شروع کیں،آپ نے صرف اس قدر جواب دیا کہ میں اورمیرے بھائی عالی نسب ہیں،پھر خاموش ہوگئے۔ [171]
ہر دلعزیزیترميم
اس مساوات ،تواضع اور علم کا یہ نتیجہ تھا کہ عام طور پر لوگوں میں آپ کو محبوبیت حاصل تھی، مجاہد کہتے ہیں کہ ایک دن میں ابن عمرؓ کے ساتھ نکلا، لوگ بکثرت ان کو سلام کررہے تھے ،انہوں نے مجھ سے مخاطب ہوکر کہا کہ لوگ مجھ سے اس قدر محبت کرتے ہیں کہ اگرچاندی سونے کے عوض بھی محبت خریدنا چاہوں تو اس سے زیادہ نہیں مل سکتی۔
سادگیترميم
ابن عمرؓ کی تصویر ِحیات تکلفات کے آب ورنگ سے یکسر پاک تھی،گو آپ بہت فارغ البال تھے اوپر گذرچکا ہے؛کہ ۲۰،۲۰ ہزار ایک ایک نشست میں لوگوں کو دے ڈالتے تھے ؛لیکن خود ان کی زندگی یہ تھی کہ کل اثاث البیت کا جائزہ لیا،تو فرش اوربستر ملا کر بھی اس کی قیمت سو درم (یعنی تقریبا بیس روپے) تک نہیں پہنچی تھی، [172] فاروق اعظم کا بیٹا اوریہ مسکنت اللہ اکبر، ہر وہ چیز ناپسند تھی جس میں تنعم کی بو ہوتی،چنانچہ جمعہ کے علاوہ اور دنوں میں خوشبو کا استعمال بھی پسند خاطرنہ تھا، ایک مرتبہ کپڑے بخورات میں بسائے گئے، ان کو جمعہ کے دن استعمال کیا، پھر اتار کر رکھدیا، اتفاق سے دوسرے دن سفر پیش آیا، منزل کے قریب پہنچ کر کپڑے مانگے تو وہی جوڑا پیش کیا گیا، لیکن اس میں خوشبو کا اثر تھا اس لیے واپس کردیا،[173] طریقہ ٔ طعام بھی نہایت سادھا تھا،اگر دسترخوان نہ پچھتا تو بڑے برتن میں کھانارکھ دیا جاتا، سب مع اہل و عیال اسیکے اطراف بیٹھ کر کھا لیتے، اس کش مکش میں کھانے والوں کو کبھی کھڑے ہوکر کھانا پڑتا۔ [174] دعوت وغیرہ میں عام طورپر معمول سے زیادہ اہتمام کیا جاتا ہے،لیکن ابن عمرؓ کا دسترخوان اس دن بھی تکلفات سے خالی ہوتا تھا، آپ کے غلام نافع کا بیان ہے کہ ایک دن ایک اونٹنی ذبح کی اور مجھ سے کہا مدینہ والوں کو مدعو کر آؤ، میں نے عرض کیا، کس چیز کی دعوت دیتے ہیں، روٹی تک تو ہے نہیں فرمایا، بس خدا تم کو بخشے گوشت موجود ہے،شوربہ موجود ہے جس کا دل چاہے گا،کھائے گا، جس کا دل نہ چاہے گا نہ کھائےگا۔ [175] اسی سادگی کی بناء پر تمام کام اپنے ہاتھ سے انجام دیتے تھے، مجاہد کا بیان ہے کہ ابن عمرؓ جو کام خود کرسکتے تھے وہ دوسروں سے نہ کراتے تھے حتی کہ اونٹنی وغیرہ بٹھانے میں بھی دوسروں سے مددنہ لیتے تھے، [176] گھر بھی اپنے ہاتھ سے بناتے تھے ،خود فرماتے تھے کہ میں نے بلا کسی اعانت کے آنحضرت ﷺ کے ساتھ اپنے ہاتھوں سے ایک گھر بنایا تھا۔
ذریعہ ٔمعاشترميم
حضرت عمرؓ کے زمانہ میں جب صحابہؓ کے وظیفے مقرر کیے گئے،توڈھائی ہزار ان کا وظیفہ بھی مقرر ہوا اور اسامہ بن زیدؓ کا ۳ہزار مقرر ہوا، انہوں نے اعتراض کیا کہ جب میں کسی چیز میں ان سے اور آپ ان کے والد سے پیچھے نہ رہے تو پھر اس تفریق کا کیا سبب ہے، حضرت عمرؓ نے فرمایا یہ سچ کہتے ہو، مگر آنحضرت ﷺ ان کے والد کو تمہارے والد سے اوران کو تم سے زیادہ محبوب رکھتے تھے، یہ جواب سن کر وہ خاموش ہوگئے،[177] اس کے علاوہ لگانی زمینیں بھی تھیں۔ [178]
لباسترميم
لباس بہت معمولی پہنتے تھے، عموماً قمیص، ازار اور سیاہ عمامہ استعمال کرتے تھے، چپل پہنتے تھے،ازار نصف ساق تک ہوتا تھا،رنگوں میں زرد رنگ استعمال کرتے تھے کہ خود حضورﷺ کو بھی یہ رنگ پسند تھا،کبھی کبھی بیش قیمت لباس بھی پہن لیتے تھے،نافع کہتے ہیں کہ میں نے ان کو پانسو تک کی چادر اوڑھے دیکھا ہے،انگوٹھی بھی رکھتے تھے جس پر عبداللہ بن عمرؓ کندہ تھا، مگر وہ صرف مہر وغیرہ کے وقت کام آتی تھی، پہنتے نہ تھے۔ [179]
حلیہترميم
شکل وصورت میں وہ اپنے والد بزرگوار سے بہت مشابہ تھے اوردراز قامت اور بھاری بھرکم تھے،رنگ گندمی تھا،کندھوں تک کاکلین تھیں،کبھی کبھی مانگ بھی نکالا کرتے تھے،داڑھی بقدر ایک مشت رکھتے تھے،موچھیں اس قدر گہری کترواتے تھے کہ لبوں کی سپیدی نمایاں ہوجاتی تھی زرد خضاب کرتے تھے۔ [180]
ازواج واولادترميم
ابن عمرؓ کے متعدد بیویاں تھیں جن سے بارہ لڑکے اور چارلڑکیاں تھیں ،ابوبکر، ابوعبیدہ،واقد،عبداللہ،عمر،حفصہ اور سودہ،صفیہ بنت ابی عبیدہ کے بطن سے تھے،عبدالرحمن ام علقمہ بنت علقمہ کے بطن سے تھے، سالم، عبیداللہ، ابو سلمہ اور قلابہ مختلف لونڈیوں کے بطن سے تھے۔
مزید دیکھیےترميم
حوالہ جاتترميم
- ^ ا ب عنوان : Абдуллах ибн Омар
- ↑ عنوان : Абдуллах ибн Омар
- ↑ (صحیح بخاری، باب اسلام عمرؓ)
- ↑ (ابن سعدج ۴ ق اول تذکرہ ابن عمرؓ)
- ↑ (بخاری کتاب المغازی:۲/۵۸۸)
- ↑ (ایضا باب غزوۂ خندق)
- ↑ ( بخاری کتاب المغازی باب غزوۂ حدیبیہ)
- ↑ (صحیح بخاری، باب غزوۂ خیبر:۲/۶۰۶)
- ↑ ( بخاری کتاب المغازی باب فتح مکہ )
- ↑ (بخاری کتاب المغازی باب غزوۂ حنین)
- ↑ (بخاری کتاب المغازی غزوۂ طائف)
- ↑ ( بخاری جلد ۲ باب حجۃ الوداع )
- ↑ (بخاری کتاب المغازی غزوۂ تبوک)
- ↑ (ابن سعد جزو۴ قسم اول ۱۱۸)
- ↑ (صحیح مسلم :۲/۱۰۸ مصر)
- ↑ (طبری :۲۷۷۹)
- ↑ (ابن سعد جز۴،قسم اول:۱۸)
- ↑ (فتوح البلدان بلاذری:۳۳۴)
- ↑ (ابن اثیر:۳/۸۴)
- ↑ (ابن سعد جز۴، قسم اول:۱۱۱)
- ↑ (فتح الباری :۵/۱۸)
- ↑ (مستدرک حاکم:۳/۵۵۴، طبع حیدرآباد)
- ↑ (استیعاب:۱/۳۸۱)
- ↑ (ابن اثیر :۳/۲۷۷)
- ↑ (صحیح بخاری کتاب التفسیر،وقاتلوھم حتی لاتکون فتنۃ)
- ↑ (ابن اثیر حالات حملہ قسطنطنیہ)
- ↑ ( ابن سعد جز۳، قسم اول تذکرہ ابن عمرؓ)
- ↑ (ایضاً:۱۳۴ تھوڑے تغیر کے ساتھ یہ واقعہ بخاری:۲/۱۰۵۳ میں بھی مذکور ہے)
- ↑ (ابن سعد قسم اول جز ۴ :۱۲۱)
- ↑ (ابوالفداء:۱/۱۹۳ ،مطبوعہ مصر)
- ↑ (مستدرک حاکم:۳/۸۸۷، حیدرآباد)
- ↑ (بخاری جلد۲ باب کیف یبایع الامام الناس)
- ↑ (بخاری :۱/۲۲۵)
- ↑ (مستدرک حاکم:۳/۵۵۷)
- ↑ (تہذیب التہذیب:۵/۳۳۰)
- ↑ (ابن سعد تذکرہ ابن عمرؓ)
- ↑ (ابن خلکان:۲۴۲/۱، مطبوعہ مصر ۱۲۹۹ء، واسد الغابہ:۲۳۰/۳)
- ↑ (مستدرک حاکم :۵۵۷/۳)
- ↑ (ابن سعد قسم اول جز ۴:۱۳۶)
- ↑ ( ابن سعد قسم اول جز،۴:۱۳۸)
- ↑ (تلخیص مستدرک ،جلد۳، وابن سعد تذکروابن عمر)
- ↑ (تذکرہ الحفاظ:۱/۳۵، مطبوعہ دائرۃ المعارف حیدرآباد)
- ↑ (مؤطا امام مالک مطبع احمدی دہلی)
- ↑ (ابراھیم)
- ↑ (بخاری وفتح الباری، کتاب التفسیر سورۂ ابراہیم وکتاب العلم باب الفہم)
- ↑ (موطا امام مالک مطبع احمدی دہلی باب ماجاء فی ولوک الشمس وغسق الیل)
- ↑ (التوبہ:۳۴)
- ↑ (بخاری :۱/۱۸۸،کرزن پریس دہلی)
- ↑ (موطا امام مالک :۱۰۹)
- ↑ (البقرہ: ۱۹۳)
- ↑ (یہ دونوں روایتیں صحیح بخاری :۶۴۸ /۲،کتاب التفسیر باب قاتلو ھم حتی لاتکون فتنۃ میں ہیں)
- ↑ (تہذیب الکمال :۲۰۷، مطبوعہ مصر)
- ↑ (اصابہ:۱۰۹/۴)
- ↑ (صحیح مسلم، کتاب صلوٰۃ المسافرین وقصرہا:۱/۲۷۵)
- ↑ (ایضاً:۶۳۰،باب الرباء)
- ↑ (استیعاب :۳۸۱/۱)
- ↑ (اسدالغابہ:۳/۲۲۸)
- ↑ (مسند احمد بن حنبل :۲/۱۵۴)
- ↑ (موطا امام مالک العمل فی الجلوس فی الصلوٰۃ: ۳۰)
- ↑ (موطا امام مالک باب الامر بالدیہ :۴۳)
- ↑ (مستدرک :۳/۵۶۱ ،وابن سعد تذکرہ ابن عمرؓ)
- ↑ (ابن سعد جز،۴ قسم اول :۱۰۶)
- ↑ (مسلم کتاب اللعان:۵۹۲/۱)
- ↑ ( تذکرۃ الحفاظ کرہ ابن عمرؓ)
- ↑ ( ابن سعد جز۴،قسم اول :۳۴)
- ↑ (موطا امام مالک العمل فی الجلوس فی الصلوٰۃ :۳۰)
- ↑ (تذکرۃ الحفاظ :۳۴/۱)
- ↑ ( اصابہ: ۴ /۱۰۹)
- ↑ (بخاری ،باب الفہم فی العلم:۱۶/۱)
- ↑ (مسند ابن حنبل: ۲ /۳۲)
- ↑ (اسد الغابہ:۳/۲۲۸)
- ↑ (تہذیب التہذیب :۲۲۸/۵،دائرۃ المعارف حیدرآباد)
- ↑ ( تہذیب التہذیب تذکرہ ابن عمرؓ)
- ↑ (اعلام الموقعین ابن قیم:۱۳/۱)
- ↑ ( مقدمہ مسوی شرح موطا شاہ ولی اللہ صاحب )
- ↑ (تہذیب التہذیب:۵/۲۲۱)
- ↑ (اعلام الموقعین ابن قیم:۱۳/۱)
- ↑ (استیعاب:۳۸۰/۱)
- ↑ (ابن سعدق:۱۲۵/۴)
- ↑ (اصابہ:۱۰۹/۴)
- ↑ (تذکرہ الحفاظ :۳۳/۱)
- ↑ (موطا امام مالک، باب ماجاء فی صید البحر :۱۸۴)
- ↑ (اعلام الموقعین :۶۷/۱)
- ↑ (ایضاً)
- ↑ (تذکرہ الحفاظ ذہبی:۳۳/۱)
- ↑ (اعلام الموقعین :۶۷/۱)
- ↑ ( تذکرہ الحفاظ:۳۳/۱)
- ↑ (مستدرک :۵۶۰/۱)
- ↑ (تذکرہ الحفاظ :۳۳)
- ↑ (موطا امام مالک :۹۶،جدیۃ من افطرفی رمضان)
- ↑ (ایضاً:۱۰۶ ، مالازکوٰۃ فیہ من الحلی اولتبروالبغبر)
- ↑ (موطا امام مالک ماجاء فی صید المعلمات :۱۸۳)
- ↑ (ایضاً ماجا فی طلاق العبد : ۲۰۹)
- ↑ (ایضا ماجاء فی الخلیۃ والبریہ واشاہ ذالک :۲۰۰)
- ↑ (ایضا بیع الذیب والورق عیناً وتبراً :۲۶۰)
- ↑ (ازالۃ الخفاء شاہ ولی اللہ مقصد دوم :۱۹۱)
- ↑ ( اسد الغابہ ترجمہ ابن عمرؓ مطبوعہ مصر)
- ↑ (اصابہ:۱۰۶/۴،مطبع شرفیہ مصر)
- ↑ (ابن سعد جز۴، قسم اول :۱۶۹)
- ↑ (اسد الغابہ:۲۲۹/۳)
- ↑ (اصابہ:۴/۱۰۹)
- ↑ (اصابہ:۴/۱۰۹)
- ↑ (ابن خلکان: :۴۴۱/۱)
- ↑ (ابوداؤد: جلد اول)
- ↑ (ابن سعد قسم اول جز ۴:۱۱۳)
- ↑ (مستدرک حاکم:۳/۵۶۱)
- ↑ (اسد الغابہ:۳/۲۲۷)
- ↑ (اصابہ:۴/۱۰۹)
- ↑ (صحیح بخاری : ۱۰۶ /۱،مسلم جلد اول باب التصریس بذی الحلیفہ)
- ↑ (صحیح بخاری:۲/۷۷۸ ،باب اجابۃ الداعی فی العرس وغیرہا)
- ↑ (ابوداؤد جلد ۱: ۲۰۰)
- ↑ (بخاری : ۱/۲۸)
- ↑ (تہذیب التہذیب :۵ /۳۳۰)
- ↑ (تہذیب التہذیب : ۵ / ۳۳۰)
- ↑ (مستدرک :۳ /۵۹۰)
- ↑ (مستدرک :۳ /۵۹۰)
- ↑ ( ابن سعد جز ۴ ق اول:۱۱۴)
- ↑ (ابن سعد قسم اول جز۴:۱۲۱)
- ↑ (استیعاب: ۱/۳۸۱)
- ↑ (ابن خلقان :۱/۴۴۲ ،مطبوعہ)
- ↑ (ابن سعد جز ۴ ق ۱:۱۱۱)
- ↑ (ابن سعد جز ۴ ق ۱:۱۱۰)
- ↑ (ازالۃ الخفا:۱۱۰ /۲،بحوالہ مصنف ابن ابی بکر )
- ↑ (بخاری: ۱/۳۱۵ ،باب ماکان اصحاب النبی ﷺ یو اسی بعضہم بعضانی الزراعۃ ولاثمر)
- ↑ (ابن سعد :۴ /۱۲۰)
- ↑ (ابن سعد جزو۴ ق ۱ :۱۲۲)
- ↑ (ابن سعد جزو۴ ق ۱ :۱۱۴)
- ↑ (ابن سعد قسم اول جز ۴ :۱۱۸)
- ↑ (ابن سعد قسم اول جز ۴ :۱۲۷)
- ↑ (اصابہ تذکرہ ابن عمرؓ)
- ↑ (اسد الغابہ:۳/۲۲۹)
- ↑ (ابن سعدق۱ جز۴:۱۱۰)
- ↑ (ابن سعد جزء ۴ ق اول :۱۲۳)
- ↑ (ایضا :۱۰۸)
- ↑ (تہذیب التہذیب: ۵/۳۳۰)
- ↑ ( بخاری جلد ۲)
- ↑ (ابن سعد جزو ۴ قسم اول :۱۳۲)
- ↑ (ایضا :۱۱۶)
- ↑ (ایضاً)
- ↑ (ایضاً :۱۲۲)
- ↑ (ایضاً)
- ↑ ( ابن سعد جزو۴ ق۱:۱۰۹)
- ↑ (ابن سعد تذکرہ ابن عمرؓ)
- ↑ (ایضاً)
- ↑ (ایضاً)
- ↑ (ایضاً)
- ↑ (ابن سعد جزواول ق۱ :۱۱۰)
- ↑ (ایضاً:۱۳۴)
- ↑ (ازالۃ الخفاء مقصد دوم :۱۸۹)
- ↑ (ایضاً)
- ↑ (بخاری : ۲/۸۸۶، باب رحمتہ الولد تقبیلہ و معانقہ)
- ↑ (اسد الغابہ جلد ۳/۲۲۷)
- ↑ (مسند احمد بن حببل :۲/۱۱۳)
- ↑ (طبقات ابن سعد جز ۴ ق۱:۱۳۴، وبخاری)
- ↑ (ابوداؤد:۱۹۶/۱، وسملم جلد ۱ باب قصر الصلوۃ بمعنی)
- ↑ ( ابن سعد جزء ۴ ق ۱ :۱۱۱)
- ↑ ( ایضاً:۱۱)
- ↑ (طبقات ،جز۴ ق۱،تذکرہ ابن عمر)
- ↑ (تذکرہ الفاظ:۳۲/۱)
- ↑ (ابن سعد،جزو۴،قسم اول،:۱۳۵)
- ↑ (بخاری:۱۳۲/۱)
- ↑ (ابن سعد قسم ۱،:۱۱۷)
- ↑ (ابن سعد، قسم اول،:۱۱۲)
- ↑ (ابن سعدق،اجز۴،:۱۲۰)
- ↑ (اسد الغابہ:۱۲۸/۳)
- ↑ (مسلم:۳۶۹ /۱باب فضل النققہ علی العیال والمملوک)
- ↑ (اصابہ:۱۰۸/۴)
- ↑ (مسند ابن حنبل:۹۴/۲)
- ↑ (موطائے امام مالک،:۳۸۰،باب جامع السلام)
- ↑ (ابن سعد،جز۴،ق ۱،:۱۳۲)
- ↑ (اصابہ ،جلد۴،:۱۰۸)
- ↑ (ابن سعد،جز۴،ق ۱،:۱۲۱)
- ↑ (ابن سعد،جز۴،ق ۱ :۱۲۴)
- ↑ (ابن سعد،جز۴،ق ۱ :۱۰۹)
- ↑ (ابن سعد،جز۴،ق ۱ :۱۲۱)
- ↑ (بخاری:۹۳۲/۲)
- ↑ (مستدرک حاکم:۵۵۹/۳)
- ↑ (بخاری،جلد۲،باب کراء المزارع)
- ↑ (ابن سعد جز۴،ق ۱ تذکرہ ابن عمرؓ)
- ↑ (تذکرہ ابن عمرؓ)