عالم امر عالم خلق سے ماوراٗ کو عالم امر کہا جاتا ہے [1] یہ بغیر مادہ کے بنا ہے جس طرح عقول، نفوس اور اروح اسی کو عالم ملکوت اور عالم غیب بھی کہتے ہیں[2]

خواجہ معصوم

ترمیم

عالم امر سے مراد ترکیب عناصر خالی جن کو صرف کُن کے اشارے سے پیدا کیا گیا ہے۔ عالم امر کا اطلاق امر کُن سے پیدا ہونے والی تمام مخلوق پر بھی ہوتا ہے، یہ عالم بغیر مادے کے پیدا کیا گیا ہے۔ عالم امر کے پانچوں لطائف یعنی قلب، روح، سِر، خفی، اخفٰی کی اصل جڑ عرش کے اوپر ہے مگر اللہ تعالٰی نے اپنی قدرت کاملہ سے عالم امر کے ان پانچوں لطائف کو چند جگہ انسان کے جسم میں امانت رکھ دیا ہے تاکہ انسان ذکر الٰہی کے ذریعہ ان لطائف سے فیض یاب ہو سکے اور اللہ تعالٰی کا قرب حاصل کر سکے، عالم امر کو عالم غیب، عالم ارواح، عالم لاہوت، عالم حیرت سے بھی یاد کیا جاتا ہے، ان سب کے مجموعے کو عالم مجردہ ذات بھی کہتے ہیں، آیتہ کریمہ "اَلَا لَہُ الخَلقُ وَالاَمرُ" اس میں اس عالم امر و عالم خلق کی طرف اشارہ ہے۔[3]

تفسیر مظہری

ترمیم

عالم امر سے مراد مجردات ہیں، یعنی (لطائف خمسہ) قلب، روح سری، خفی اور اخفا، یہ فوق العرش ہیں اور یہ نفوس انسانیہ ملکیہ اور شیطانیہ میں یوں ساری ہیں جیسے سورج کی شعاعیں آئینہ میں ساری ہوتی ہیں۔ لائف کو عالم امر اس لیے کہتے ہیں اللہ تعالی نے ان کو کسی مادہ سے نہیں، بلکہ اپنے امر کن سے پیدا کیا اور بفوی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ سفوان بن عینیہ نے فرمایا کہ عالم امر اور عالم خلق دو مختلف چیزیں ہیں[4]

حوالہ جات

ترمیم
  1. فرہنگ اصطلاحات تصوف،صفحہ 21،غازی عبد الکبیر منصورپوری،مغربی پاکستان اردو اکیڈمی لاہور
  2. اصطلاحات صوفیہ،صفحہ 10، خواجہ شاہ محمد عبد الصمد،دلی پرنٹنگ ورکس دلی
  3. مکتوباتِ معصومیہ،
  4. تفسیر مظہری