عالم ملکوت یہ عالم مثال جو مختص ہے ملائکہ ارواح اور نفوس قدسیہ کے لیے یہ عالم ناسوت سے ترقی کے بعد آتا ہے[1]
عالَم علم سے ہے جس کے معنیٰ ہیں نشان۔ چونکہ عالم کا زرّہ زرّہ اﷲ کے وجود کی نشانی ہے ہر چیز اﷲ کے وجود پر دلالت کرتی ہے اس لیے اس کو عالم کہا جاتا ہے کیونکہ مخلوقات کی ہر جنس کا الگ الگ عالَم ہے جیسے عالَمِ انسان، عالَمِ جنات، عالَمِ نباتات، عالَمِ جمادات، عالَمِ ناسوت، عالَمِ لاہوت، عالَمِ ملکوت اور عالَمِ جبروت وغیرہ ہزاروں عالم ہیں اور سارے عالموں کا پالنے والا اﷲ ہے۔ اصطلاح تصوف چار عالم بیان کیے جاتے ہیں:

ان چاروں میں سے پہلے تین وجودوں کا تعلق عالم خلق سے ہے اور یہ تینوں فانی ہیں اور ان میں صفات الہیہ کی معرفت سے فیض یاب ہونے کی استعداد و صلاحیت موجود ہے عالم ناسوت کے بعد ذاکر اس مرتبہ سے ترقی کرکے مرتبہ عالم ملکوت میں پہنچتا ہے (ملکوت، ملک کا مبالغہ ہے) مرتبہ ملکیت میں نہ نفس ہے، نہ شیطان، نہ بشری طبائع ہیں، نہ طبعی حاجات۔ ملائکہ کا مقصود صرف اللہ جل شانہ کی رضا جوئی ہے، اس لیے اس مرتبہ میں ذکر کا مقصد محض حق سبحانہ وتعالیٰ کی رضا جوئی ہے اور بس۔ پس اسی رضائے الٰہی کے لیے اللہ اللہ کا ذکر کرتا ہے۔“ ملکوتی وجود کی تعلیم و تربیت کا نصاب "علم طریقت" ہے یعنی کسی شیخ کامل کے ہاتھ پر بیعت کر کے اس کے احکام و فرامین پر صدق دل سے عمل پیرا ہونا اعمال طریقت سے اس ملکوتی وجود کی نمود ہوتی ہے جو عالم ملکوت میں پہنچ کر صفات الہیہ کے ملکوتی انوار سے فیض یاب ہو کر وہاں کے ثمر "جنت النعیم "سے بہرہ ور ہوتا ہے اعمال طریقت کے بغیر جنت نعیم کا حصول قطعا ناممکن ہے[2]

حوالہ جات ترمیم

  1. فرہنگ اصطلاحات تصوف،صفحہ 157،غازی عبد الکبیر منصورپوری،مغربی پاکستان اردو اکیڈمی لاہور
  2. ﻣﻔﺘﺎﺡ ﺍﻟﻌﺎﺷﻘﯿﻦ ۔ ﻣﻠﻔﻮﻇﺎﺕ ﺧﻮﺍﺟﮧ ﻧﺼﯿﺮ ﺍﻟﺪﯾﻦ ﭼﺮﺍﻍ ﺩﮨﻠﻮﯼ،صفحہ 10،اکبر بک سیلر لاہور