عالم ناسوت اس کائنات ہست وبود کو جس میں ہم بس رہے ہیں ” عالم ناسوت “ یا عالم وجود کہا جاتا ہے عالم بشریت انسانی طبیعت[1]
ﻋﺎﻟﻢ ﻧﺎﺳﻮﺕ ﻋﺎﻟﻢ ﺣﯿﻮﺍﻧﺎﺕ ﮨﮯ ۔ ﺍﺱ ﮐﺎ ﻓﻌﻞ ﺣﻮﺍﺱ ﺧﻤﺴﮧ ﺳﮯ ﮨﮯ ﺟﯿﺴﮯ ﮐﮭﺎﻧﺎ ﭘﯿﻨﺎ ﺳﻮﻧﺎ ﺳﻮﻧﮕﮭﻨﺎ ﺩﯾﮑﮭﻨﺎ ﺳﻨﻨﺎ [2] عالَم علم سے ہے جس کے معنیٰ ہیں نشان۔ چونکہ عالم کا زرّہ زرّہ اﷲ کے وجود کی نشانی ہے ہر چیز اﷲ کے وجود پر دلالت کرتی ہے اس لیے اس کو عالم کہا جاتا ہے کیونکہ مخلوقات کی ہر جنس کا الگ الگ عالَم ہے جیسے عالَمِ انسان، عالَمِ جنات، عالَمِ نباتات، عالَمِ جمادات، عالَمِ ناسوت، عالَمِ لاہوت، عالَمِ ملکوت اور عالَمِ جبروت وغیرہ ہزاروں عالم ہیں اور سارے عالموں کا پالنے والا اﷲ ہے۔ اصطلاح تصوف چار عالم بیان کیے جاتے ہیں:

چاروں میں سے پہلے تین وجودوں کا تعلق عالم خلق سے ہے اور یہ تینوں فانی ہیں اور ان میں صفات الہیہ کی معرفت سے فیض یاب ہونے کی استعداد و صلاحیت موجود ہے فرشتے۔ اللہ تعالیٰ کی مخلوقات میں ایسی مخلوق ہیں جو عالم لاہوت اور عالم ناسوت ، دونوں کے ساتھ یکساں ربط رکھ سکتے ہیں۔ اپنی نورانیت کے باعث یہ تجلیات الٰہی کے بھی متحمل ہوجاتے ہیں اور مخلوق ہونے کے لحاظ سے انسانوں کے ساتھ بھی اتصال پیدا کرلیتے ہیں

حوالہ جات ترمیم

  1. فرہنگ اصطلاحات تصوف،صفحہ 160،غازی عبد الکبیر منصورپوری،مغربی پاکستان اردو اکیڈمی لاہور
  2. ﻣﻔﺘﺎﺡ ﺍﻟﻌﺎﺷﻘﯿﻦ ۔ ﻣﻠﻔﻮﻇﺎﺕ ﺧﻮﺍﺟﮧ ﻧﺼﯿﺮ ﺍﻟﺪﯾﻦ ﭼﺮﺍﻍ ﺩﮨﻠﻮﯼصفحہ 10،اکبر بک سیلر لاہور