عبد القدوس گنگوہی
شیخ عبد القدوس النعمانی الغزنوی ثم الگنگوہی ایک ہندوستانی صوفی، سلسلہ چشتیہ صابریہ کے بزرگ اور روحانی پیشوا تھے۔
عبد القدوس گنگوہی | |
---|---|
معلومات شخصیت | |
تاریخ پیدائش | سنہ 1456ء |
تاریخ وفات | سنہ 1537ء (80–81 سال) |
عملی زندگی | |
پیشہ | مصنف ، شاعر |
درستی - ترمیم |
ولادت
ترمیمان کی ولادت 852ھ مطابق 1450ء ردولی میں ہوئی والد محترم کا نام شیخ محمد اسماعیل تھا۔[1]
شجرہ نسب
ترمیمشیخ عبد القدوس بن مولوی اسماعیل بن قاضی صفی الدین بن خواجہ نصیرالدین بن خواجہ نظام الدین بن خواجہ آدم بن خواجہ ظہیر الدین بن خواجہ احمد بن خواجہ عبد الواسع بن خواجہ عبد القادر بن عبد الغنی بن عثمان بن اسحاق بن عمر بن فضل اللہ بن نصیرالدین بن سعد الدین بن نجم الدین بن داؤد بن جعفر بن حامد بن خیرالدین بن امام طاہر بن امام ابراہیم بن امام احمد بن امام اعظم ابی حنیفہ ہے۔[2]
القاب و خطابات
ترمیمساقی خمخانہ اسرار،بہ بادہ توحید سرشار،طائر اقلیم الوہیت،سائر میدان ہویت،قطب العالم و العالمیان، [1]
تعلیم و تربیت
ترمیمشیخ عبد القدوس گنگوہی کے والد شیخ اسماعیل نے بچپن ہی سے اپنے فرزند کی تعلیم و تربیت کی طرف خصوصی توجہ فرمائی اور خطوط نویسی اور خوش نویسی کی تربیت شیخ عبد القدوس کو اپنے والد سے ہی حاصل ہوئی تھی، یہی وجہ ہے کہ ان کے مکاتیب اپنی دل آویزی کے لیے مشہور ہیں، زمانہٴ طالب علمی میں شیخ عبد القدوس کے ذوق کا یہ عالم تھا کہ وہ دن رات تحصیل علم میں مصروف رہتے تھے، انھوں نے ابتدا سے ہی حصول علم اور عبادت وریاضت کو اپنی زندگی کا مقصد بنا لیا تھا، شیخ رکن الدین، ان کے ذوقِ علم اور شوقِ عبادت پر اس طرح روشنی ڈالتے ہیں: ”چوں حضرت قطبی بہ تعلیم کتا بہا مشغول شدند در تمام روزمی خواندو تمام شب بشغل ذکرو عبادت حق مشغول بودند۔“ ترجمہ : جب حضرت قطبی کتابوں کے مطالعہ اور تعلیم میں مشغول ہوئے تو سارا دن کتابیں پڑھتے رہتے اور ساری رات ذکر کے شغل میں اور اللہ تعالیٰ کی عبادت میں مشغول رہتے تھے[3]
بیعت و خلافت
ترمیمشیخ عبد القدوس گنگوہی بظاہر شیخ محمد بن شیخ مخدوم عارف بن شیخ احمد عبد الحق کے مرید و خلیفہ تھے؛ لیکن شیخ احمد عبد الحق ردولوی سے انھیں بے انتہا عقیدت و تعلق تھا، اسی تعلق کی وجہ سے ان کو شیخ احمد عبد الحق سے بھی فیضِ روحانی حاصل تھا، جس کا اظہار شیخ عبد القدوس گنگوہی نے خود انوار العیون میں تحریر فرمایا ہے: اس فقیر کو اجازت جناب شیخ العالم(شیح احمد عبد الحق) سے معاملے کے پہلے ہی عالم میں حاصل ہو گئی تھی، اس کے بعد شیخ العالم کے پوتے شیخ الوقت شیخ محمد سے بیعت کی اور اجازت کے شرف سے مشرف ہوا اور شیخ العالم نے اس فقیر پر معاملے کے عالم میں کئی بار لطف فرمایا اور ہاتھ پکڑ کر اکرام و الطاف کی زبان سے فرمایا کہ میں نے تمھیں خدا تک پہنچایا، اسی طرح سے یہ معاملات شیخ العالم کے ساتھ اتنی بار ہوئے کہ شمار و قطارمیں نہیں آتے، یہ معاملات ہمیں شیخ العالم کی رحلت کے چالیس سال بعد ولایت کی شکل میں حاصل ہوئے[4]
سلاسل اربعہ
ترمیمعبد القدوس گنگوہی کو چاروں سلاسل طریقت میں اجازت حاصل تھی، سلسلہ چشتیہ صابر یہ میں بظاہر انھیں شیخ محمد بن شیح عارف سے اجازت حاصل تھی؛چشتیہ نظامیہ میں شیخ عبد القدوس کو شیخ درویش محمد اودھیبن قاسم اودھ( خلیفہ سید بڈھن بہرائچی) سے اجازت حاصل تھی، نیزاسی واسطے سے انھیں سہروردیہ،نقشبندیہ اور قادریہ میں بھی اجازت حاصل تھی۔ شاہ سید محمدحسین مراد آبادی نے شیخ عبد القدوس کے روحانی سلاسل کی تفصیل میں ”سلاسلِ اربعین“ کے نام سے ایک رسالہ تصنیف فرمایا ہے۔[5]
شادی
ترمیمقیام ردولی کے زمانے ہی میں عبد القددس گنگوہی کی شادی، شیخ عارف کی صاحبزادی سے ہو گئی تھی۔ یہ خاتون بڑی عابدہ اور زاہدہ بی بی تھیں۔ والد اور دادا دونوں کی نسبت وتعلق کے تمام اثرات موصوفہ میں موجود تھے۔ آپ کے صاحبزادگان کی تعداد 7 ہے۔[6]
سماع سے رغبت
ترمیمعبد القدوس گنگوہی کوسماع سے غیر معمولی رغبت تھی۔ اپنی اس رغبت کے باوجود انھوں نے کبھی سماع کے مسئلے کو شرعی نقطہ نظر سے جواز کا رنگ نہیں دیا؛ بلکہ جب کبھی یہ مسئلہ شرعی نقطہ نظر سے ان کے سامنے رکھا گیا ہمیشہ شرعیت کے حکم کو اپنے پر ترجیح دی اور اپنے عملِ سماع کو ایک مجبور و معذور کا عمل بتایا ہے۔
سلسلہٴ چشتیہ کے اکابرین سماع کو روحانی غذا قرار دیتے ہیں؛ لیکن اس کے لیے مقررہ آداب کی پابندی بھی لازمی قرار دیتے ہیں۔ عبد القدوس گنگوہی رشد نامہ میں سماع کے سلسلے میں تحریر فرماتے ہیں: ”آبِ چاہ بیرون نیا یدتا آنکہ اور اکشندہ بناشد ہم چناں اسرارِ الٰہی ست کہ دردل ست سماع پدید آرندہ آں اسرار است، و درباب سماع فتوی شرع است جائز لاھلہ وحرام بغیر واہل سماع کسے راگویند کہ ہیچ صوت جزپیام دوست نہ شنود وہیچ جمال بغیر جمال دوست نبیند۔“[7] کنویں سے اس وقت تک پانی باہر نہیں آتا جب تک اسے کوئی نکالنے والا نہ ہو، یہی حال اسرارِ الٰہی کا ہے کہ جو تیرے دل میں ہے، سماع ان اسرار کونکال کر ظاہر کرنے والا ہے اور سماع کے باب میں شریعت کا فتوی ہے کہ وہ اہل کے لیے جائز اور نا اہل کے لیے حرام ہے اور سماع کا اہل اس شخص کو کہتے ہیں کہ سوائے دوست کے پیغام کی آواز کے کوئی دوسری چیز نہ سنے اور کوئی جمال سوائے جمال دوست کے نہ دیکھے۔
تصنیفات
ترمیم- بحر الانشعاب علم صرف کی کتاب ہے جو زمانہٴ طالب علمی میں لکھی تھی۔
- شرح مصباح
- حاشیہ شرح صحائف
- شرح عوارف
- فوائد القراء ت
- رسالہٴ قدّوسی
- رشدنامہ
- نورا لمعانی، شرح قصیدہ امانی
- انوار العیون
- مظہر العجائب
- مجموعہٴ کلام فارسی
- رسالہ نورا لہدی
- رسالہ قرة العین
- مکتوبات قدّوسیہ
- اسرارالعجائب
- اورادِ شیخ عبد القدوس ۔[8]
خلفاء
ترمیمحضرت کے خلفاء کی مقدار بہت زیادہ بتائی جاتی ہے۔مشاہیران میں سے یہ ہیں۔شيخ سيد نادر مست بابا.شیخ بھورو، شیخ عمر، شیخ عبد الغفور اعظم پوری، شیخ رکن الدین، شیخ عبد الکبیر مشہور بہ بالا پیر۔ یہ ہر دو حضرات حضرت کے نسبی اور روحانی دونوں طرح کے فرزند ہیں۔ [9]
وفات
ترمیمعبد القدوس گنگوہی اپنی وفات سے تین سال قبل گوشہ نشینی اور تنہائی کی زندگی اختیار کر چکے تھے، زیادہ تر ان پر محویت اور بے خودی کا عالم طاری رہتا تھا۔ نماز کے اوقات میں خدام انھیں مطلع کرتے، ادائیگی نماز کے بعد پھر اسی عالمِ جذب ومستی میں غرق ہوجایا کرتے تھے، آخری ایام میں کئی روز تک بخار کے مرض میں مبتلا رہے، بالآخرکا 945ھ مطابق 1530ء کو وفات پائی اور گنگوہ میں مدفون ہوئے۔[10]
حوالہ جات
ترمیم- ^ ا ب مکتوبات قدوسیہ،کپتان واحد بخش سیال، صفحہ 21 الفیصل ناشران و تاجران کتب لاہور
- ↑ مکتوبات قدوسیہ،کپتان واحد بخش سیال، صفحہ 22 الفیصل ناشران و تاجران کتب لاہور
- ↑ لطائفِ قدوسی،شیخ رکن الدین، ص 9 مکتبہ مجتبائی دہلی 1893ء،
- ↑ انوارالعیون،شیخ عبد القدوس،ص25
- ↑ مکتوبات قدوسیہ،کپتان واحد بخش سیال، صفحہ 36 الفیصل ناشران و تاجران کتب لاہور
- ↑ مکتوبات قدوسیہ،کپتان واحد بخش سیال، صفحہ 51 الفیصل ناشران و تاجران کتب لاہور
- ↑ رشدنامہ، ص25
- ↑ مکتوبات قدوسیہ،کپتان واحد بخش سیال، صفحہ 52،53 الفیصل ناشران و تاجران کتب لاہور
- ↑ "آرکائیو کاپی"۔ 25 ستمبر 2021 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 17 دسمبر 2018
- ↑ حدیقۃ الاولیاء غلام سرور قادری صفحہ89،تصوف فاؤنڈیشن لاہور