عبداللہ بن زبعری
حضرت عبد اللہ ؓبن زبعری صحابی رسول تھے۔قریش کے بڑے آتش بیان شاعر تھے۔
حضرت عبد اللہ ؓبن زبعری | |
---|---|
معلومات شخصیت | |
تاریخ وفات | سنہ 636ء |
عملی زندگی | |
پیشہ | شاعر |
درستی - ترمیم |
نام ونسب
ترمیمعبد اللہ نام، باپ کا نام زبعری تھا، نسب نامہ یہ ہے،عبد اللہ بن زبعری بن قیس بن عدی بن سہم ،بن عمرو بن مصیص قرشی سہمی۔
اسلام سے پہلے
ترمیمقبولِ اسلام سے پہلے عبد اللہ اسلام اورپیغمبر اسلام ﷺ کے سخت دشمن تھے،ان کا زور ومال ان کی قوت و طاقت ان کی شاعری اورزبان آوری سب مسلمانوں کی ایذا رسانی کے لیے وقف تھی، قریش کے بڑے آتش بیان شاعر تھے،اس کا مصرف آنحضرتﷺ کی ہجو تھی [1] احد کے مشرک مقتولین کا نہایت زبردست مرثیہ کہا تھا حضرت حسان بن ثابتؓ نے اس کا جواب دیا۔ [2]
سلام
ترمیمفتحِ مکہ کے بعد جب معاندین اسلام کا جتھا ٹوٹا تو عبد اللہ اورہبیر بن وہب نجران بھاگ گئے،عبد اللہ حسان بن ثابت پر بہت سے وار کرچکے تھے،عبد اللہ کے فرار پر انھیں بدلہ لینے کا موقع ملا؛چنانچہ انھوں نے یہ شعر کہا لا تعد من رجلا احلک بغمنہ نجران فی عیش احذلئیم ترجمہ:ایسا شخص معدوم نہ ہو، جس کے بغض نے تم کو نجران کی نا پسندیدہ اورمکروہ زندگی میں مبتلا کر دیا ہے۔ عبد اللہ نے سنا تو نجران سے لوٹ آئے اورآنحضرتﷺ کی خدمت میں حاضر ہوکر مشرف باسلام ہو گئے، گذشتہ خطاؤں پر سخت نادم وشرمسار تھے،آنحضرتﷺ سے ان کی معافی چاہی،آپ نے معاف کر دیا اور اب وہی زبان جو کلمۂ شہادت پڑہنے کے قبل تیرو نشتر کی طرح مسلمانوں کے دلوں پر ہجو کے چر کے لگائی تھی، نعتِ رسول کے پھول برسانے لگی ،تمام ارباب سیر نے ان کے نعتیہ اشعار لکھے ہیں، ہم طوالت کے خیال سے انھیں قلم انداز کرتے ہیں،حافظ ابن حجر کے بیان کے مطابق آنحضرتﷺ نے نعت کے صلہ میں انھیں ایک حلہ میں مرحمت فرمایا تھا۔ [3]
غزوات
ترمیمقبولِ اسلام کے بعد متعدد غزوات میں شریک ہوئے اورجہاد فی سبیل اللہ کا شرف حاصل کیا۔ [4]
وفات
ترمیموفات کے بارہ میں ارباب سیر خاموش ہیں۔