عبداللہ بن میمون قداح
اکثر مورخین نے مہدی کو عبد اللہ بن میمون قدح کی طرف منسوب کیا ہے۔ میمون ایران کا باشندہ تھا اور مختلف ادیان و مذاہب کے اصول سے خوب واقف تھا۔ اس نے زنادقہ کی تائید میں ’ کتاب المیزان ‘ لکھی ہے۔ جس پڑھنے سے آدمی لا مذہب ہوجاتا ہے۔ یہ ظاہر میں اپنے مریدوں سے محمد بن اسمعیل کی بیعت لیتا تھا، لیکن حقیقت میں خود ملحد اور زندیق تھا۔ اس کے بیٹا عبد اللہ جس نے اپنے باپ سے اسرار دعوت اسماعیلیہ سیکھے۔ اس کا پیشہ آنکھوں کا علاج تھا۔ اس لیے وہ قداح کے نام سے مشہور تھا اس نے دعوت اسماعیلہ کے نو مدارج فری مسنری کی مانند مرتب کیے۔ جن کو طے کرنے کے بعد اباحی بن جاتا ہے۔ یعنی اعمال شریعت چھوڑ دیتا ہے اور محرمات کو مباح سمجھتا ہے۔ یہ اپنے وطن ’ قوس العباس ‘ جو اہواز کا ایک موضع ہے سے عسکر مکرم پہنچا۔ جہاں اس نے اپنے آپ کو شیعہ ظاہر کیا۔ اس طرح اس نے شہرت اور مال و دولت حاصل کی۔ یہاں کے شیعہ باشندوں پر یہ راز کھل گیا تو وہ بصرہ سے ہوتا ہوا سلیمہ پہنچا اور مہدی کے ظاہر ہونے تک اس کے جانشین یہیں رہے اور عبد اللہ کے انتقال کے بعد اس کے لڑکے احمد نے اس کی جگہ لی۔
طلبی ہونے کا دعویٰ
ترمیماس خاندان میں احمد پہلا شخص ہے جس نے یہ دعویٰ کیا ہے کہ میں عقیل بن طالب کی نسل سے ہوں۔ کچھ دنوں کے بعد کہنے لگا۔ میں حضرت علی بن ابی طالب کی اولاد میں شامل ہوں۔ اس نے دعوت اسمٰعیلہ کی اشاعت کی کوشش بہت کی اور مختلف شہروں میں کئی داعی بھیجے۔ جن میں مشہور حسین اہوازی ہے جو عراق کی سمت روانہ کیا۔ اس داعی کی ملاقات حمدان بن اشعت ( قرمط ) سے ہوئی، جو قرامطہ کا بانی تھا ۔
عبد اللہ المہدی
ترمیماحمد کے انتقال کے بعد اس کے دو بیٹوں حسین اور ابو شلطع محمد مجیب سے حسین اس کا جانشین ہوا۔ اس نے سلمیہ کی ایک یہودن سے نکاح کیا۔ مگر قبل اس کے اس کا انتقال ہو گیا۔ اس لیے اس نے یہودن کے اس لڑکے جو اس کے پہلے شوہر سے تھا متبنیٰ بنا کر اسے اپنا جانشین قرار دیا۔ لیکن اس کا بھائی چونکہ اس لڑکے کی عمر صرف دس سال تھی اس لیے اس نے اپنے بھائی ابو الشلطع کو اس کا ولی مقرر کیا۔ اس لڑکے کا اصل نام ابو سعید الخیر تھا۔ وہ 73 سال کی عمر میں جب کہ مہدی کی حیثیت پرقاوہ میں ظاہر ہوا اور اس نے اپنا نام عبد اللہ (عبید اللہ ) رکھا ۔
ویصان
ترمیمپرفیسر اولیری کا کہنا ہے کہ جو لوگ یہ کہتا ہے کہ میمون ویصان ثنوی کا لڑکا ہے ان کا مقصد صرف یہی معلوم ہوتا ہے کہ فاطمین کو زنادقہ کی طرف منسوب کریں۔ کیوں کہ تاریخ میں جو شخص ابن ویصان سے مشہور تھا، وہ وہی ہے جو ثنویت کا قائل تھا اور جسے لوگ زندیق کہا کرتے تھے۔ میمون کو ویصان کا لڑکا قرار دینا بھاری تاریخی غلطی ہوگی۔ کیوں کہ ابن ویصان ثنوی میمون سے تقریباً چارسو سال بیشتر فوت ہو چکا تھا ۔
اب ندیم الفہرست میں لکھتا ہے عبد اللہ میمون کا لڑکا ہے جو قداح کے نام سے مشہور ہے۔ یہ شخص قوزح العباس ( کرج ) کا رہنے والا تھا، جو اہواز کے قریب ایک موضع ہے۔ اس کے باپ کی طرف سے فرقہ میمونہ منسوب ہے۔ یہ لڑکا ظاہر میں ابو الخطاب محمد بن ابو زینب کی جو علی بن ابی طالب کی الوہیت کا قائل تھا کی پیروی کرتا تھا۔ میمون اور اس کا لڑکا عبد اللہ دونوں ویصانی تھے۔ عبد اللہ ایک مدت تک نبوت کا دعویٰ کیا، وہ بڑا شعبدہ باز تھا اور دور دراز ملکوں کی خبر دیتا تھا۔ ابن ندیم کا پہلے میمون کا مذہب بیان کرتا اور اس کے بعد کہتا کہ وہ اور اس کا لڑکا دونوں ویصانی تھے۔ اس بات کو ظاہر کرتا ہے کہ دونوں ویصان کے لڑکے نہیں تھے۔ بلکہ ویصان کی طرح وہ بھی ثنوی تھے ۔
کفیل
ترمیماسماعیلی داعی ادریس کی روایت کے مطابق اسمعیل کے انتقال کے بعد جب محمد ان کے جانشین ہوئے تو ان کو جعفر صادق نے چھپا دیا اور عوام میں موسیٰ کاظم کو ان کا حجاب یا مستودع ( یعنی ظاہری نائب ) بنادیا۔ چونکہ میمون دعوت باطنیہ کا صدر تھا، لہذا عام لوگوں نے سمجھ لیا کہ مہدی میمون کی اولاد میں سے ہے۔ مختصر یہ ہے کہ اس طرح دو سلسلے قائم ہو گئے۔ ایک سلسلہ اماموں کا دوسرا کفیلوں کا ہے۔ اسماعلیوں کی روایت کے مطابق امام اور کفیل کی ترتیب اس طرح ہے۔
امام | کفیل |
---|---|
محمد بن اسمعیل بن صادق | میمون القدع |
عبد اللہ | عبد اللہ |
احمد | احمد |
حسین | حسین |
المہدی | المہدی |
دی غویہ کاتبصرہ
ترمیمدی غویہ Doeje کا کہنا ہے کہ عرب اور اسلام سے بڑی نفرت کا ہی وہ سبب تھا جس نے تیسری صدی کے نصف میں ایک شخص عبد اللہ میمون کو جو پیشے سے قداح اور نسل کے اعتبار سے ایرانی تھا ایسی تجویز سمجھائی جو بڑی دلیری اور چالاکی سے سوچی گئی اور غیر معمولی یقین اور قوت سے عمل میں لائی گئی ۔
دی غویہ Doeje مزی لکھتا ہے کہ اس مقصد کو حاصل کرنے کے لیے ایسے ذریعہ فراہم کیے گئے جو بجا طور پر شیطانی کہے جا سکتے ہیں۔ انسانی کمزوری کے ہر پہلو پر حملہ کیا گیا، ایمان لانے والوں کو جانثاری سکھائی گئی، بے پروا اشخاص کو صرف رخصت ہی نہیں بلکہ آزادی کی تعلیم دی گئی، عقلمندوں کو فلسفہ سکھایا گیا۔ متعبصوں کو آخرت کی امیدیں دلائیں گئیں اور عام لوگوں کو معجزے دیکھائے گئے۔ اسی طرح یہود کے سامنے ایک مسیح، نصاری کے روبرو ایک فارقلیط، مسلمانوں کے لیے ایک مہدی اور ایرانی اور شامی مشرکوں کے لیے ایک فلسفیانہ مذہبی نظام پیش کیا گیا، جو ہمارے لیے حیرت انگیز ہے اور اگر ہم اس کے مقصد کو بھول سکیں تو ہماری تحسین کا مستحق ہے ۔
دوزی Dozy کا کہنا ہے کہ فاتح اور مفتوح کو ایک ہی جماعت میں مربوط کرنا اور آزاد خیال آدمیوں کو جو مذہب کو عام لوگوں کے لیے ایک لگام سمجھتے ہیں ایک ہی انجمن میں جس کی تعلیم کے مختلف مدارج ہوں شامل کرنا، مومنوں کو کافروں کی حکومت قائم کرنے کے لیے ہتیار بنانا، غرض کہ ایک بڑی متحد اور اطاعت کیش پارٹی اپنے لیے بنانا جو وقت آنے پر تخت اگر خود اس کو نہیں کم از کم اس کو اولاد کو دے سکے۔ یہ تھا عبد اللہ میمون کا زبردست خیال جو اگرچہ عجیب اور بے باک تھا، لیکن عبد اللہ نے اسے اپنی حیرت انگیز فراست، بے مثل ہوشیاری اور ایک انسانی دل کی گہری معرفت سے اسے واقع بنا کر پیش کیا ۔
ماخذ ڈاکٹر زاہد علی۔ تاریخ فاطمین مصر