عبد الصمد کابلی
خواجہ عبد الصمد کابلی کا شمار دیہ یعقوب کابل کے بزرگ زادوں میں ہوتا تھا۔ آپ صاحب مقام ارشاد و ہدایت تھے۔ آپ خواجہ محمد معصوم کے اکابر خلفا میں سے تھے۔
خواجہ عبد الصمد کابلی | |
---|---|
ذاتی | |
پیدائش | |
وفات | (1108ھ بمطابق 1697ء) |
مذہب | اسلام |
سلسلہ | نقشبندیہ |
مرتبہ | |
پیشرو | محمد معصوم سرہندی |
تعارف
ترمیمخواجہ عبد الصمد کابل (افغانستان) سے جنوب مشرقی جانب تقریبا چار میل کے فاصلے پر واقع موضع دیہ یعقوب کے بزرگ زادوں میں سے تھے اور صاحب مقام ارشاد و ہدایت تھے۔
بیعت و خلافت
ترمیمجب خواجہ محمد معصوم (متوفی 1079ھ/1668ء) کی شہرت کابل پہنچی تو عبد الصمد کابلی سب کچھ چھوڑ کر عالم بے اختیاری میں سرہند شریف پہنچے۔ سرہند پہنچنے کے بعد آپ کو خواجہ محمد معصوم کے دست حق پر شرف بیعت حاصل ہوا۔ پیر و مرشد خواجہ معصوم کی نظر عنایت و شفقت سے ولایت ضلی واصلی حاصل کی۔ کمالات نبوت اور مقام خلت تک رسائی پائی ۔ ابراہیم مشرب تھے۔ مجدد الف ثانی (متوفی 1034ھ/1624ء) کے کمالات خاصہ سے کامل حصہ نصیب ہوا اور ولایت کبری کے کمالات سے ممتاز ہوئے۔ پیر و مرشد کی خدمت میں رہ کر سلسلہ عالیہ نقشبندیہ مجددیہ کے فیوض و برکات سمیٹتے رہے۔ اپنے وطن مالوف سے کئی بار خواجہ معصوم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور خرمن معصومی سے اپنے نصیب کا دانہ حاصل کیا اور معرکہ ابرار میں صاحب اعتبار ہو گئے۔ خواجہ محمد معصوم نے اجازت و خلافت سے سرفراز فرما کر آپ کو اپنے وطن مالوف میں خلق خدا کی رہنمائی کے لیے روانہ فرمایا۔
مسند ارشاد
ترمیمعبد الصمد کابلی اپنے وطن دیہ یعقوب ، کابل (افغانستان) میں پہنچ کر مسند ارشاد پر جلوہ افروز ہوئے اور خلق خدا کی رہنمائی میں مصروف ہو گئے۔ آپ نے اپنے گاؤں میں ایک عمدہ خانقاه تعمیر کرائی جہاں واردین و زائرین اور طالبین کے نان ونفقہ اور رہائش کا خوب بندوبست تھا۔ آپ کا زیادہ وقت کابل میں گزرتا تھا اور آپ کے صاحبزادگان مہمانوں اور ارادت مندوں کی تواضع میں اپنے گاؤں میں مصروف رہتے تھے۔ آپ کو کابل میں بہت زیادہ مقبولیت نصیب ہوئی۔
عنایات مرشد
ترمیمخواجہ محمد معصوم اور عبد الصمد کابلی کے درمیان بڑی موانست تھی۔ خواجہ معصوم نے اپنے ایک مکتوب میں آپ کو یوں تحریر فرمایا:
- وہ یار اور ہم نشیں جو گذشتہ دنوں اور گذشتہ سال ایک جا، ہم سفر اور ہم بستر تھے اور مونس و ہمدم (تھے) وہ کہاں گئے؟
خواجہ محمد معصوم کے چھ مکتوبات آپ کے نام ہیں جو دفتر اول اور دفتر سوم میں موجود ہیں۔
مہمان نوازی
ترمیمعبد الصمد کابلی مہمان نوازی میں اپنی نظیر نہیں رکھتے تھے۔ ایک روز میر صفر احمد معصومی (متوفی 1150ھ/1737ء) کی موجودگی میں اپنے صاحبزادوں سے فرمایا: گھر میں جو کچھ ہے اور جو بھی مہمان ہے، ہر ایک کو دے دو۔
حج بیت اللہ
ترمیمعبد الصمد کابلی نے آخری عمر میں حج بیت اللہ کی سعادت حاصل کی۔ ان دنوں اس فریضہ کی ادائیگی آپ کے لیے بہت ہی دشوارتھی لیکن حق سبحانہ کی مدد سے آپ نے حج ادا کیا اور بخیریت وطن واپس پہنچے۔
وصال
ترمیمسفر حج سے واپس آنے کے بعد عبد الصمد کابلی کا وصال 1108ھ بمطابق 1697ء میں ہوا۔ آپ کی تدفین دیہ یعقوب‘ کابل (افغانستان ) کے باغات میں سے ایک باغیچہ میں کی گئی۔ اپنے انتقال سے چند روز قبل آپ مقامات معصومی کے مصنف میر صفر احمد معصومی کو اس باغیچہ میں اپنے ساتھ لے گئے اور اظہار فرمایا کہ میں اپنی قبر کو اس جگہ پاتا ہوں۔ آپ لحظ بھر وہاں بیٹھے رہے، تا کہ وصول (ملاقات) سے پہلے وہ نور سے آراستہ ہو جائے۔ [1]
حوالہ جات
ترمیم- ↑ تاریخ و تذکرہ خانقاہ سرھند شریف مولف محمد نذیر رانجھا صفحہ 762 تا 764