شیخ عبد الہادی فاروقی نے بیعت کا شرف خواجہ باقی باللہ سے حاصل کیا اور خلافت مجدد الف ثانی نے عطا کی۔

عبد الہادی فاروقی
معلومات شخصیت

بیعت

ترمیم

شیخ عبد الہادی فاروقی نے بیعت کا شرف خواجہ باقی باللہ قدس کے دست حق پرست پر حاصل کیا۔ آپ اپنے علاقے کے مشاہیر میں سے تھے۔ بعد ازاں خواجہ باقی باللہ نے آپ کو شیخ احمد سرہندی حضرت مجدد الف ثانی کے ہمراہ دہلی سے سرہند شریف بھیج دیا۔ آپ نے مجدد الف ثانی کی خدمت میں رہ کر سلسلہ عالیہ نقشبندی مجددیہ کے فیوض و برکات کسب واخذ کیے۔

مقام و منزلت

ترمیم

مجدد الف ثانی نے اپنے مرشد کامل خواجہ محمد باقی بالله کی خدمت میں عریضہ لکھا۔ مجدد الف ثانی نے اس میں اپنے مسترشدین کی ترقیات کا تذکرہ فرمایا۔ حضرت مجدد نے اس میں عبد الہدی فاروقی کے ابتدائی سلوک کا حال یوں تحریر فرمایا:

  • مولانا عبد الہادی نے نقط فوق میں استغراق کے ساتھ حضور پیدا کیا ہے، نیز وہ یہ بھی لکھتے ہیں کہ مطلق پاک ، یعنی اللہ تعالی کو اشیاء میں تنزیہی صفت سے دیکھتا ہوں اور افعال کو بھی اسی (حق تعالی ) سے جانتا ہوں ( جلد 1 مکتوب 14 ص 35)

عبد الہادی فاروقی کے نام حضرت مجدد الف ثانی کا ایک مکتوب گرامی دفتر 1 صفحہ 495 پر موجود ہے۔

خلافت و اجازت

ترمیم

مولانا عبد الہدی فاروقی بہت عرصہ تک مجدد الف ثانی کی خدمت و محبت میں رہے۔ آپ نے کمالات و مقامات کا اکتساب کیا۔ بالآخر شیخ و مرشد کامل نے آپ کو خلافت و اجازت سے سرفراز فرمایا۔

حسرت و افسوس

ترمیم

مولانا یار محمد قدیم بدخشی طالقانی اور مولانا عبد الہادی فاروقی دونوں اپنے مرشد کامل مجدد الف ثانی کی خدمت میں قیام کے زمانے میں ایک ہی حجرے میں رہتے تھے۔ مولانا یار محمد ندیم ہمیشہ رات بھر نماز فجر تک نوافل میں مشغول رہتے تھے لیکن مولانا عبد الہدی اپنی سخت بیماری کی وجہ سے اتنی ریاضت و عبادت نہیں کر سکتے تھے۔ لہذا اس پر بہت زیادہ افسوس و حسرت کیا کرتے تھے اور مولانا یار محمد ندیم کے حال پر رشک کیا کرتے تھے۔ ایک روز مجدد الف ثانی نے ارشاد فرمایا: سبحان اللہ شیخ عبد الہادی کی حسرت و افسوس نے مولانا یار محمد ندیم کی عبادت پر سبقت حاصل کر لی اور ان کے کام کو مولانا کے کام سے آگے بڑھا دیا گیا، پستی سے بلندی پر پہنچا دیا، بے شک بہت عطا فرمانے والے کا کام اسی طرح ہونا چاہیے۔

وصال

ترمیم

شیخ عبد الہادی فاروقی بد ایوانی کا وصال 9 شعبان 1041ھ بمطابق 10 مارچ 1629 کو بدایوں ہندوستان میں ہوا۔ آپ کا مزار خرم شاہ بدایوں میں مرجع خلائق ہے۔ [1]

حوالہ جات

ترمیم
  1. تاریخ و تذکرہ خانقاہ سرھند شریف مولف محمد نذیر رانجھا صفحہ 501 اور 502