پیر عتیق احمد چشتی شاعر، ادیب، محقق، سکالراور خطیب ہیں۔

پیدائش

ترمیم

پیر عتیق احمد چشتی(تاریخ پیدائش 25 مارچ) چکوال(پاکستان) میں پیدا ہوئے۔ آپ کے والد گرامی علامہ پیر ظہور احمد چشتی معروف عالم دین ہیں اور دادا صوفی عبد العزیز چشتی علاقہ کی معروف شخصیت اور پنجابی کے صوفی شاعر تھے۔

تعلیم

ترمیم

پیر عتیق احمد چشتی نے ابتدائی تعلیم چکوال میں ہی حاصل کی۔ میٹرک ملت سیکنڈری اسکول گوجرخان سے کیا۔ درسِ نظامی کی تکمیل ادارہ تعلیماتِ اسلامیہ راولپنڈی سے کی۔ دورہء حدیث مفسرِ قرآن علامہ سید ریاض حسین شاہ نقوی بخاری سے پڑھا۔

بیعت

ترمیم

پیر عتیق احمد چشتی کی بیعت عکسِ مہرِ علی، قطبِ دوراں پیر سید شاہ عبد الحق گیلانی الحسنی والحسینی والیء گولڑہ شریف کے دستِ حق پرست پہ ہے۔ نیز شاعرِ ہفت زباں پیر نصیر الدین نصیر کی شفقتیں بھی حاصل رہیں۔ 2008ء میں آستانہ عالیہ چشتیہ نظامیہ سوہاوہ شریف(آزاد کشمیر) کے سجادہ نشین پیر سید عبد الجبار شاہ جعفری نے پیر عتیق احمد چشتی کو سلسلہء چشتیہ نظامیہ کی خلافت و اجازتِ بیعت دی۔

شاعری

ترمیم

پیر عتیق احمد چشتی کم و بیش گذشتہ چھبیس ستائیس سال سے شاعری کر رہے ہیں۔ زیادہ تر نعت اور منقبت اور کبھی کبھار غزل کہتے ہیں۔

  • پیر عتیق احمد چشتی کے بارے میں مشاہیر کے خیالات
  • پروفیسرشریف کنجاہی۔
  • آپ کے ارسال کردہ اوراق نے مجھے متاثر کیا ہے۔ ان مین وہ سب کچھ ہے جسے بعض نے ’’حسنِ بیان‘‘ کہا ہے تو بعض نے ’’آمد‘‘۔ شاعری دورِ قدیم ہی سے آستانوں کی مرہون رہی ہے اپنی خوشبو کے ساتھ۔ یہ مہک ہی جانِ شعر ہوتی ہے اورکسی پھول کی کوئی پتی اس سے خالی نہیں ہوتی۔ خدا کرے کہ یہ مہک آپ کے کلام میں موجود رہے۔
  • سیدرضی ترمذی۔
  • آپ کا سارا کلام حضرت محمد ﷺ خاتم النّبیّین اور ان کی آل کی محبّت کی نہایت لطیف خوشبو میں بسا ہوا ہے۔۔۔۔ یہ کرم اور نصیب کی بات ہے ،جسے وہ عطا کرنے والا عطا کرے۔
  • پروفیسر ڈاکٹر عاصی کرنالی۔
  • اُن کا تمام کلام اپنے فنی اورمعنوی محاسن سے پُرہے،اُن کے یہاں جذبے کی نفاست‘خیال کی رفعت اورفکرکاعلو تمامتر موجودہے جسے وہ سلیس زبان وبیاں میں شعری لباس میں جلوہ گرکرتے ہیں۔ اُن کی نعتیں اُس باطنی صداقت کی آئینہ دار ہیں جونعت کی اساس ہوتی ہے۔ اِن میں دل کاگدازہے جوشعریت میں تاثیر پیدا کرتا ہے۔ وہ مضامین لائے گئے ہیں جونعت کے کینوس کووسیع کرتے ہیں۔ دلی کیفیات‘داخلی واردات‘اجتماعی جذبوں اور خیالوں کی آئینہ داری‘خصوصاً امتِ مسلمہ کی احوال نگاری،مہجوری ومشتاقی سے حاضری وحضوری تک کی قلبی حالتوں کااظہار،الغرض نعت سے منقبت تک پوری ذمہ داری کے ساتھ ’’حقوقِ شاعری ‘‘ اداکئے گئے ہیں۔ غزلیں بھی نظرسے گذریں جوایساآئینہ ہیں جومصفااورمجلّاہے اورکسی سفلی جذبے کے غبارکاکوئی ذرہ اس آئینے کی سطح پرنہیں ہے۔ اِن غزلوں میں بھی سادہ گوئی اوردل نشینی کاجوہرھے۔ اور یہ بھی ذاتی اور اجتماعی احوال کی عکاسی کے وصف سے معمو رہیں ۔
  • مظفر وارثی۔
  • عتیق صاحب کا مجموعۂ رنگ و نور چند نعتوں اور غزلوں کی شکل میں میرے سامنے ہے۔ اس میں نور بھی ہے اور رنگ بھی،نور نعتوں کا رنگ غزلوں کا۔ یقینا یہ مجموعہ اہلِ نظر حضرات کو اپنے حصار میں لے لے گا۔
  • محسنؔ بھوپالی۔
  • آپ کے نعتیہ اشعار حضورِاکرم ﷺسے آپ کی مودت اور عقیدت کے آئینہ دا رہیں جب کہ آپ کی غزلیں قدرتِ کلام اور زبان وبیان پر قابلِ رشک گرفت کی مظہر ہیں۔
  • ڈاکٹرخورشیدرضوی۔
  • ان کے ہاں جذبے کی صداقت اظہارکی لطافت سے ہم آہنگ ہے چنانچہ دل سے نکلے ہوئے یہ اشعاردلوں میں جااُترنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ کہیں شوکت وفخامتِ الفاظ اورکہیں سہلِ ممتنع، اُن کے فنّی جلال وجمال کی آئینہ داری کرتے ہیں۔
  • کرامت بخاری۔
  • عتیق احمدچشتی کے ہاں حسن وعشق کے معاملات اوررشتے ایک کونیاز دوسرے کوناز ایک کوخادم دوسرے کومخدوم اور ایک کوعاشق دوسرے کو محبوب کادرجہ عطاکرتے ہوئے روحانیات کے منطقۂ سکونی کی طرف لے جاتے ہیں۔ عتیق احمدچشتی عشق ومحبت کی ترجمانی کرتے ہوئے زندگی اوراُس کی تلخیوں ،بشریت اور اُس کے تقاضوں اور ارضیت اور اُس کے حقائق سے لاتعلق نہیں رہتے بلکہ غمِ زندگی ،غمِ جاناں ،غمِ دوراں، غمِ فرقت،غمِ عاقبت اور سب سے بڑھ کرغمِ ہستی کوبیان کرتے وقت اِسے اسمِ اعظم قراردیتے ہیں۔
  • اسمِ اعظم برائے آدم ہے
  • غم سلامت رہے تو کیا غم ہے
  • پیر شمیم صابر صابری۔
  • صاحبزادہ عتیق احمد چشتی صاحب کے مجموعۂ کلام ’’رنگ و نور‘‘ کے چند منتخب حصوں کے مطالعہ کرنے کا اتفاق ہوا۔ سادہ اور رواں الفاظ کے نیچے محبت اور پیار کا سمندر ٹھا ٹھیں مار رہا ہے۔ حضورسیّد الکونین امام الانبیاء باعثِ ارض و سما شافعِ روزِ جزا جنابِ محمد مصطفیٰ ﷺ کا یہ پیار ہی کونین کا حقیقی اور ابدی خزانہ ہے جس کا کوئی نعم البدل نہیں۔ الفاظ کی بر جستگی اور سلاست مسلسل کاوش کا غمّاز ہے ۔

حوالہ جات

ترمیم

بیرونی روابط

ترمیم