راولپنڈی
پیش نظر مضمون منتخب بنائے جانے کے لیے امیدوار ہے۔ منتخب مضامین ویکیپیڈیا کی بہترین کارکردگی کا نمونہ ہیں چناں چہ نامزد کردہ مضمون کا ہر لحاظ سے منتخب مضمون کے معیار پر پورا اُترنا ضروری ہے۔ براہ کرم اس مضمون |
راولپنڈی (انگریزی: Rawalpindi) ، (ہندی: रावलपिंडी) ((بنگالی: রাওয়ালপিন্ডি)) ، [2] صوبہ پنجاب ، پاکستان میں سطح مرتفع پوٹھوہار پر واقع ایک اہم شہر ہے۔ یہ شہر افواجِ پاکستان کا صدر مقام بھی ہے اور 1960ء میں جب موجودہ دارالحکومت اسلام آباد زیر تعمیر تھا انہی دنوں میں قائم مقام دارالحکومت کا اعزاز راولپنڈی کو ہی حاصل تھا۔ راولپنڈی اور اسلام آباد کے درمیان سماجی اور اقتصادی روابط کو مشترکہ طور پر " جڑواں شہر " کے نام سے جانا جاتا ہے۔ 2017ء کی مردم شماری کے مطابق راولپنڈی میٹروپولیٹن کی آبادی 3،461،806 افراد پر مشتمل ہے۔<[3] مردم شماری کے مطابق راولپنڈی آبادی کے لحاظ سے پاکستان کا چوتھا بڑا شہر ہے۔ راولپنڈی کی مشہور سڑک مری روڈ ہمیشہ ہی سے سیاسی جلسے جلوسوں کا مرکز رہی ہے۔ راولپنڈی مری، نتھیا گلی، ایوبیہ، ایبٹ آباد اور شمالی علاقہ جات سوات، کاغان، گلگت، ہنزہ، سکردو اور چترال جانے والے سیاحوں کا بیس کیمپ ہے۔ اس شہر میں بہت سے کارخانے ہیں۔[4] 1765ء میں اس علاقے کے حکمران گکھڑوں کو شکست ہوئی اور یہ شہر سکھوں کی حکمرانی کے تحت آگیا۔ راولپنڈی کا بابو محلہ ایک زمانے میں یہودی تاجروں کی ایک جماعت کا گھر تھا جو 1830ء کی دہائی میں مشہد، فارس چلے گئے تھے۔[5][6][7][8] 1849ء میں اس شہر کو برطانوی راج نے فتح کر لیا ۔راولپنڈی کی آب و ہوا برطانوی حکام کو بہت پسند آئی جس کی وجہ سے 19ویں صدی کے آخر میں یہ شہر برطانوی انڈین آرمی کی شمالی کمان کا سب سے بڑا گیریژن شہر بن گیا۔ برطانوی فوج نے 1921ء تک اس شہر کو ایک چھوٹے سے قصبے سے پنجاب کے تیسرے بڑے شہر میں تبدیل کر دیا ۔[9]نالہ لئی، اپنے سیلابی ریلوں کی وجہ سے بہت مشہور ہے جو راولپنڈی شہر کے بیچوں بیچ بہتا ہوا راولپنڈی کو دو حصّوں راولپنڈی شہر اور راولپنڈی کینٹ میں تقسیم کرتا ہے۔ تاریخ بتاتی ہے کہ نالہ لئی کا پانی کبھی اتنا صاف شفاف اور خالص تھا کہ اسے پیا جا سکے، لیکن اب یہ گھروں سے خارج ہونے والے فضلے اور کارخانوں سے بہنے والے کیمیائی مادّوں کے سبب اِس درجہ غلیظ ہو گیا ہے کہ اِس کے قریب سے گزرنا محال ہے۔ راولپنڈی شہر دارالحکومت اسلام آباد سے 8 کلومیٹر، لاہور سے 275 کلومیٹر، کراچی سے 1540 کلومیٹر، پشاور سے 160 کلومیٹر اور کوئٹہ سے 1440 کلومیٹر کی دوری پر ہے۔ [10][11][12]
راولپنڈی | |
---|---|
Rawalpindi | |
انتظامی تقسیم | |
ملک | ![]() |
دار الحکومت برائے | |
تقسیم اعلیٰ | تحصیل راولپنڈی |
جغرافیائی خصوصیات | |
متناسقات | 33°36′03″N 73°04′04″E / 33.6007°N 73.0679°E |
رقبہ | |
• رتبہ | 4 |
بلندی | |
آبادی | |
تعداد آبادی | 2,098,231 افراد (اعداد و شمار 2017ء) |
مزید معلومات | |
اوقات | پاکستان کا معیاری وقت |
سرکاری زبان | |
رمزِ ڈاک | 45000 , 46000 |
فون کوڈ | 051 |
قابل ذکر | |
باضابطہ ویب سائٹ | باضابطہ ویب سائٹ |
جیو رمز | 1166993 |
![]() |
|
![]() |
|
درستی - ترمیم ![]() |
تاریخترميم
راولپنڈی، پنڈی کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔ ماہرینِ آثارِ قديمہ اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ پوٹھوہار سطح مرتفع پر واقع تہذیب و ثقافت 3000 سال قدیم ہے۔ یہاں ملنے والا مادہ اس بات کا ثبوت پیش کرتا ہے کہ یہاں پر بدھ پرست لوگوں کی تہذیب، ٹیکسلا اور ویدی تہذیب (ہندو تمدّن) کی معاصر تھی۔ ٹیکسلا اتنی اہمیت کا حامل ہے کہ اس کا شمار "گینس بک آف ورلڈ ریکارڈ" میں بھی ہوتا ہے کیونکہ یہاں پر دنیا کی سب سے قدیم یونیورسٹی "ٹیکسلا یونیورسٹی" کے آثارات ملے ہیں۔ [13]
بظاہر، ایشیا کی ایک خانہ بدوش قوم سفید ہن کے زوال کے ساتھ ہی یہ شہر بھی زوال پذیر ہو گیا۔ اس علاقے میں پہلے مسلمان حملہ آور محمود غزنوی نے تباہ شدہ شہر کو ایک گکھڑ حاکم "کائے گوہر" کی سرپرستی میں دے دیا۔ لیکن شہر کی صورت حال میں کوئی واضح تبدیلی نہ آ سکی۔ آخر گکھڑ رہنما جھنڈا خان کی حکومت کے نے شہر کی صورت حال کو درست کیا اور اس کا نام ایک گاؤں "راول" کے نام پر 1493ء میں "راولپنڈی" رکھ دیا[14]۔ راولپنڈی گکھڑوں کے زیرِ حکومت رہا ، حتیٰ کہ آخری گکھڑ حکمران "مقرب خان" کو سکھوں کے ہاتھوں 1765ء میں شکست واقع ہوئی۔ سکھوں نے دوسرے علاقوں کے تاجروں کو راولپنڈی میں آ کر رہنے کی دعوت دی۔ یوں راولپنڈی نمایاں ہوا اور تجارت کے لیے بہترین علاقہ ثابت ہونے لگا۔
پھر انگریزوں نے 1849ء میں سکھوں کی ہی روش کو اپناتے ہوئے راولپنڈی کو 1851ء میں انگریز فوج کا مستحکم قلعہ بنا دیا ۔ 1880 کے عشرہ میں راولپنڈی تک ریلوے لائن بچھائی گئی اور ٹرین سروس کا افتتاح 1 جنوری 1886ء میں کیا گیا۔ ریلوے لنک کی ضرورت لارڈ ڈلہوزی کے بعد پیش آئی جب راولپنڈی کو شمالی کمانڈ کا صدر مقام بنا دیا گیا اور راولپنڈی برطانوی فوج کا ہندوستان میں سب سے بڑا قلعہ بن گیا۔[15]
1951ء میں راولپنڈی میں پاکستان کے پہلے وزیرِ اعظم جناب لیاقت علی خان کو کمپنی باغ میں خطاب کرتے ہوئے شہید کر دیا گیا۔ اس سانحے کے باعث کمپنی باغ کا نام وزیر اعظم لیاقت علی خان کے نام سے منسوب کرکے لیاقت باغ رکھ دیا گیا۔
2007 میں لیاقت باغ کے مین گیٹ پر پاکستان کی سابق وزیر اعظم بے نظیر کو قتل کیا گیا۔1979 میں ان کے والد پاکستان کے سابق وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کو راولپنڈی کی سنٹرل جیل میں پھانسی دی گئی تھی۔[16] [17]
مغل دورترميم
مغل دور کے دوران، راولپنڈی گکھڑ قبیلے کی حکمرانی میں رہا، جس نے بدلے میں مغلیہ سلطنت سے وفاداری کا عہد کیا۔ اس شہر کو مغل سلطنت کی سرحدوں کی حفاظت کے لیے ایک اہم چوکی کے طور پر تیار کیا گیا تھا۔ گکھڑوں نے 16 ویں صدی میں قریبی کاروان سرائے کو مضبوط کیا اور اسے راوت قلعہ میں تبدیل کر دیا تاکہ پوٹھوہار کی سطح مرتفع کو شیر شاہ سوری کی افواج سے بچایا جا سکے۔1581ء میں اٹک قلعہ کی تعمیر کی۔ اکبر نے اپنے بھائی مرزا محمد حکیم کے خلاف مہم کی قیادت کرتے ہوئے راولپنڈی کے ماحول کو مزید محفوظ بنایا۔ دسمبر 1585ء میں، شہنشاہ اکبر راولپنڈی پہنچا، اور 13 سال تک راولپنڈی اور اس کے آس پاس رہا جب اس نے سلطنت کی سرحدوں کو بڑھایا، اس دور میں جسے شہنشاہ کے طور پر اپنے کیریئر میں "شاندار دور" کے طور پر بیان کیا گیا ہے۔[18]
1559ء میں کمال خان کی موت کے بعد گکھڑ کے سرداروں کے درمیان انتشار اور دشمنی کے آغاز کے ساتھ ہی، مغل بادشاہ نے راولپنڈی کو سید خان کو نوازا تھا۔ شہنشاہ جہانگیر نے 1622 میں راولپنڈی میں شاہی کیمپ کا دورہ کیا، جہاں اسے پہلی بار فارس کے شاہ عباس اول کے قندھار پر حملہ کرنے کے منصوبے کا علم ہوا۔[19] [19] [20]
سکھ دورترميم
سکھ حکمران مہاراجہ رنجیت سنگھ نے 1810 میں ضلع پر قبضہ کرنے کے بعد سردار ملکھا سنگھ کے بیٹے کو راولپنڈی کا گورنر بنایا۔ جولائی 1813ء میں حیدران کے مقام پر افغانوں کی شکست سے راولپنڈی پر سکھوں کی حکومت مضبوط ہو گئی۔ سکھ حکمرانوں نے کچھ مقامی گکھڑ قبائل کے ساتھ اتحاد کیا، اور 1827ء میں اکوڑہ خٹک میں سید احمد بریلوی کو مشترکہ طور پر شکست دی۔ یہودی پہلی بار 1839ء میں مشہد، فارس سے راولپنڈی کے بابو محلہ میں پہنچے، تاکہ قاجار خاندان کے قائم کردہ یہودی مخالف قوانین سے فرار ہوسکیں۔ 1841ء میں دیوان کشن کور کو راولپنڈی کا سردار مقرر کیا گیا۔[21][22]
14 مارچ 1849ء کو سکھ سلطنت کے سردار چتر سنگھ اور راجہ شیر سنگھ نے راولپنڈی کے قریب جنرل گلبرٹ کے سامنے ہتھیار ڈال دیے اور شہر کو انگریزوں کے حوالے کر دیا۔ اس کے بعد سکھ سلطنت کا خاتمہ 29 مارچ 1849ء کو ہوا۔[23][24]
برٹش دورترميم
برطانوی ایسٹ انڈیا کمپنی کی طرف سے راولپنڈی پر قبضہ کرنے کے بعد، کمپنی کی فوج کی 53ویں رجمنٹ نے نئے قبضے میں لیے گئے شہر میں ایک مستقل فوجی چھاؤنی بنانے کا فیصلہ کیا۔ اس شہر نے اپنا پہلا ٹیلی گراف آفس 1850ء کی دہائی کے اوائل میں دیکھا۔ شہر کا گیریژن چرچ 1854 ء میں تعمیر کیا گیا تھا اور یہ وہ جگہ ہے جہاں کلکتہ کے بشپ رابرٹ ملمین کو 1876ء میں راولپنڈی میں ان کی موت کے بعد دفن کیا گیا تھا۔ 1857 ء کے سپاہی بغاوت کے دوران، علاقے کے گکھڑ اور جنجوعہ قبائل انگریزوں کے وفادار رہے۔ برطانوی دور میں متعدد سول اور فوجی عمارتیں تعمیر کی گئیں، اور راولپنڈی کی میونسپلٹی 1867 ء میں قائم کی گئی۔ یہ شہر ریلوے سے بھی جڑا ہوا تھا ۔ راولپنڈی کی چھاؤنی پورے خطے میں دیگر چھاؤنیوں کے لیے فیڈر کے طور پر کام کرتی تھی۔[25] راولپنڈی برطانوی دور میں بڑی حد تک صنعتی بنیاد سے خالی رہا۔ کشمیر کی بیرونی تجارت کا ایک بڑا حصہ شہر سے گزرتا تحا ۔ سنٹرل راولپنڈی میں 1883ء میں سردار سوجن سنگھ کی طرف سے ایک بڑی مارکیٹ کھولی گئی، جب کہ انگریزوں نے شہر کے اشرافیہ کے لیے ایک شاپنگ ڈسٹرکٹ تیار کیا جسے صدر کے نام سے جانا جاتا ہے جس میں بریگیڈیئر جنرل میسی کی یاد میں ایک محراب تعمیر کیا گیا تھا۔[26] رائے بہادر سجھان سنگھ کا باغ جس میں ایک چھوٹا عجائب گھر، شادی گھر جسے سجھان سنگھ کے بڑے بیٹے سردار ہردیت سنگھ کی شادی کے موقع پر کھولا گیا۔ اسی باغ میں 1902ء میں سجھان سنگھ نے سردار ہردیت سنگھ لائبریری قائم کی۔ جس کی نگرانی سجھان سنگھ کا کزن شام سنگھ کرتا تھا۔ یہاں 80کے قریب اخبارات و جرائد آتے تھے اور مختلف موضوعات پر سینکڑوں کتابیں موجود تھیں۔ شہر کے اہم تعلیمی اداروں میں سریشت نیتی ہائی سکول، اینگلو سنسکرت ہائی سکول، ڈینیز ہائی سکول،ماموں جی اسلامیہ ہائی سکول، مشن سکول اور مشن جسے بعد میں گارڈن کالج کہا گیا۔ بنی میں مائی ویرو کا تالاب بھی شہر کے اہم مقامات میں شامل تھا۔ راولپنڈی کی چھاؤنی 1883 ء میں کے قیام کے بعد فوجی طاقت کا ایک بڑا مرکز بن گئی۔ برطانیہ کی فوج نے شہر کو ایک چھوٹے سے قصبے سے 1921ء تک پنجاب کے تیسرے سب سے بڑے شہر تک پہنچا دیا۔ شہر کی موافق آب و ہوا اور مری کے قریبی پہاڑی اسٹیشن کی وجہ سے اس شہر کو انگلینڈ سے نئے آنے والے فوجیوں کے لیے پسندیدہ پہلی پوسٹنگ سمجھا جاتا تھا۔ 1901ء میں راولپنڈی کو ناردرن کمانڈ اور راولپنڈی ملٹری ڈویژن کا سرمائی ہیڈ کوارٹر بنا دیا گیا۔ پنجاب میں قحط کے بعد 1905ء میں برطانوی حکمرانی کے خلاف فسادات پھوٹ پڑے جس کے بعد کسانوں کو یہ ماننے پر مجبور کیا گیا کہ یہ جان بوجھ کر کیا گیا ہے۔ پہلی جنگ عظیم کے دوران، راولپنڈی ضلع برطانوی جنگی کوششوں کے لیے بھرتی کرنے والے اضلاع میں "پہلے نمبر پر" رہا، جس کے بدلے میں برطانوی حکومت کی طرف سے زیادہ مالی امداد اس علاقے میں بھیجی گئی۔ 1921 ء تک، راولپنڈی کی چھاؤنی نے شہر پر سایہ کر لیا تھا - راولپنڈی پنجاب کے ان سات شہروں میں سے ایک تھا جس کی نصف سے زیادہ آبادی ضلع چھاؤنی میں رہتی تھی۔ 1926ء میں راولپنڈی کی سکھوں اور مسلم برادریوں کے درمیان فرقہ وارانہ فسادات اس وقت شروع ہوئے جب سکھوں نے ایک جلوس کی موسیقی کو خاموش کرنے سے انکار کر دیا جو ایک مسجد کے سامنے سے گزر رہا تھا۔ ایچ ایم ایس راولپنڈی کو 1925ء میں ہارلینڈ اینڈ وولف نے اوشین لائنر کے طور پر لانچ کیا تھا۔ وہی کمپنی جس نے آر ایم ایس ٹائٹینک بنایا تھا۔ اس جہاز کو مسلح بحری جہاز میں تبدیل کر دیا گیا، اور اکتوبر 1939ء میں اسے غرق کر دیا گیا۔ برطانوی حکومت نے 1930 ء کی دہائی سے شروع ہونے والے ایک دہائی سے زیادہ عرصے کے دوران راولپنڈی کے تجربات کے دوران ہندوستانی فوجیوں پر زہریلی گیس کا تجربہ کیا۔[27]
تقسیم ہندترميم
5 مارچ 1947 ء کو راولپنڈی کی ہندو اور سکھ برادریوں نے حکومت پنجاب کے اندر مسلم وزارت کے قیام کے خلاف ایک جلوس نکالا۔ پولیس اہلکاروں نے مظاہرین پر گولیاں چلائیں، جبکہ ہندو اور سکھ کمزور مسلم جوابی مظاہرین کے خلاف لڑے۔ اس علاقے کی تقسیم کا پہلا فساد اگلے دن 6 مارچ 1947 ء کو شروع ہوا۔تحریک پاکستان کی کامیابی کے بعد 1947 ء میں پاکستان کی آزادی کے آغاز کے وقت، راولپنڈی میں 43.79% مسلمان تھے، جبکہ ضلع راولپنڈی میں مجموعی طور پر 80% مسلمان تھے۔ یہ خطہ، اس کی بڑی مسلم اکثریت کی وجہ سے، پاکستان کو دیا گیا۔ راولپنڈی کی ہندو اور سکھ آبادی، جو کہ شہر کے 33.72% اور 17.32% پر مشتمل تھی، نے مغربی پنجاب میں ہندو مخالف اور سکھ مخالف قتل و غارت گری کے بعد بڑے پیمانے پر ہندوستان کے نئے آزاد تسلط کی طرف ہجرت کی۔ جبکہ ہندوستان سے مسلمان مہاجرین مشرقی پنجاب اور شمالی ہندوستان میں مسلم دشمنی کے بعد شہر میں آباد ہوئے۔[28] [29][30]
آب و ہواترميم
اسلام آباد اور راولپنڈی جڑواں شہر ہیں اور مارگلہ کی پہاڑیوں کے قریب ہونے کی وجہ سے یہاں موسم سردیوں میں کافی سرد ہو جاتا ہے لیکن 17 جنوری 1967 کو راولپنڈی میں تاریخ کی سب سے زیادہ سردی ریکارڈ کی گئی اور اس شہر کا درجہ حرارت منفی 3.9 ڈگری ریکارڈ کیا گیا اور اسی دن اسلام آباد میں منفی 6 ڈگری سردی پڑی اور یہ ان دونوں شہروں کی سب سے شدید سردی ہے جو اب تک ریکارڈ کی گئی۔راولپنڈی ایک بے ترتیب لیکن گرد سے پاک صاف ستھرا شہر ہے۔شہر کا درجہ حرارت گرمیوں میں نا قابل پیشین ہوتا ہے۔ شہر میں بارش کا سالانہ اوسط درجہ 36 انچ ہوتا ہے۔ موسم گرما میں گرمی زیادہ سے زیادہ 52 ڈگری اور موسم سرما میں درجہ حرارت 5- تک گر سکتا ہے۔[31] [32][33]
لوگترميم
جنوری 2006 کے مطابق راولپنڈی میں نوست و خواند کی قابلیت کی شرح %70.5 ہے۔ شہر کی آبادی میں پوٹھوہاری، پنجابی، مہاجر قوم (بھارت سے پاکستان ہجرت کر کے آنے والے افراد) اور پٹھان شامل ہیں۔ راولپنڈی شہر میں ضلع اٹک سے تعلق رکھنے والی برادریاں کافی تعداد میں آباد ہیں اس کے علاوہ صوبہ سرحد کے ہزارہ ڈویژن سے تعلق رکھنے والے افراد کی ایک بڑی تعداد رہائش پذیر ہے جن کی مادری زبان ہندکو ہے یہ لوگ شہر اور شہر کے اطراف میں بکھری آبادیوں، اپنی ذاتی رہائش گاہوں یا پھر کرایہ کے گھروں میں رہتے ہیں۔
آبادیترميم
آبادی کے لحاظ سے راولپنڈی پاکستان کا چوتھا [34]بڑا اور صوبہ پنجاب کا تیسرا بڑا شہر ہے۔ مرکزی حثیت ہونے کی وجہ سے اس کی آبادی دن بدن بڑھتی چلی جا رہی ہے۔ بے شمار لوگوں نے زندگی کی بہتر سہولیات کی تلاش میں دیہات چھوڑ کر شہر کی طرف ہجرت کی اور یہ سلسلہ ابھی تک جاری ہے۔ 2017ء کی مردم شماری کے مطابق اس وقت راولپنڈی شہر کی آبادی 2,280,733 [35] ہے۔ آبادی کا تناسب فی مربع کلومیٹر 1936.17 [36] ہے۔
ذرائع آمد و رفتترميم
شہر میں سفر کی مناسب سہولتیں میسر ہیں اور شہر کے بڑے حصوں کو ملانے والی سڑکوں کی حالت بہترین ہے۔ مری روڈ شہر کی سب سے مصروف ترین سڑک ہے۔ شہر کے اندر سفر کرنے کے لیے پبلک ٹرانسپورٹ جن میں ٹیکسی، بسیں، رکشا، ویگن وغیرہ ہر وقت دستیاب رہتی ہیں۔ پیر ودھائی اڈہ ، سواں اڈہ اور فیض آباد اڈا پر پورے پاکستان کے لیے ہر وقٹ ٹرانسپورٹ موجود رہتی ہے۔ اس کی علاوہ داولپنڈی شہر میں راولپنڈی-اسلام آباد میٹرو بس بھی ہے جس سے روزانہ ہزاروں کی تعداد میں سفر کر رہے ہیں۔ یہ سروس بذریعہ پل جو سٹیڈیم روڈ کے پاس سے اسلام آباد میں داخل ہوتی ہے اور ریڈ زون میں اس کا اخری سٹاپ ہے۔
میٹرو بسترميم
راولپنڈی-اسلام آباد میٹرو بس میں تیز نقل و حمل کا ایک نظام ہے۔ راولپنڈی و اسلام آباد جڑواں شہروں میں شہری ٹرانسپورٹ کا جدید نظام جو حکومت پاکستان نے ترکی حکومت کی مدد سے تعمیر کیا۔ اس کی لمبائی 24 کلو میٹر (14.9میل) ہے۔ جس پر 24 اسٹیشن قائم کیے گئے ہیں، جو دونوں شہروں کے اہم مقامات پر ہیں۔ پنجاب کی صوبائی حکومت نے وزیر اعلیٰ میاں محمد شہباز شریف نے تقریباً پینتالیس ارب روپے کی لاگت اور ترکی کی مدد سے مری روڈ و اسلام آباد میں تیار ایک عظیم الشان بین الاقوامی طرز کی راولپنڈی-اسلام آباد میٹرو بس کا افتتاح کیا ۔ جہاں شہریوں کو ٹرانسپورٹ کی سستی اور اعلیٰ سہولت فراہم کی، وہیں شہر کی خوبصورتی اور ملک کی ترقی کی راہ میں چار چاند لگا دیے۔
شاہراتترميم
پاکستان کے مروجہ نظام شاہرات کے تحت قائم بین الاضلاعی شاہرات کے ذریعے یہ شہر اسلام آباد، اٹک، جہلم، چکوال، مری ، گوجرخان ، کوہاٹ ، مظفر آباد، لاہور ، پشاور اور ایبٹ آباد کے ساتھ متصل ہے۔ جی ٹی روڈ قومی شاہراہ 5 راولپنڈی شہر کو پاکستان مختلف حصوں سے ملاتی ہے۔۔ جی ٹی روڈ قومی شاہراہ 5 راولپنڈی شہر کے درمیان میں ہے۔
موٹروےترميم
راولپنڈی شہر کو موٹروے ایم 1 موٹروے (پاکستان) اسلام آباد اور پشاور اور ایم 2 موٹروے (پاکستان) لاہور اور اسلام آباد سے ملاتی ہے۔ دونوں موٹرویز چھ لینوں پر مشتمل ہیں۔
ریلوے اسٹیشنترميم
راولپنڈی ریلوے اسٹیشن 19ویں صدی میں تعمیر کیا گیا تھا۔ یہاں سے ٹرینیں پاکستان کے مختلف شہروں کو جاتی ہیں جن میں کراچی، لاہور،پشاور، کوئٹہ، نوشہرہ، حیدرآباد، سبی، سکھر، ملتان، بہاولپور، رحیم یار خان، فیصل آباد، لاڑکانہ، کوہاٹ، نوابشاہ، میانوالی، سرگودھا، گجرات، نارووال ، ڈیرہ غازی خان، سکھر ، گجرات (پاکستان) ، گوجرانوالہ ، جہلم ، گوجرخان ، اٹک ، ساہیوال ، خانیوال ، منڈی بہاؤ الدین ، سیالکوٹ ، حویلیاں اور جیکب آباد ہیں۔
ہوائی اڈاترميم
بینظیر بھٹو بین الاقوامی ہوائی اڈا مصروف ترین ہوائی اڈا ہے جو راولپنڈی شہر میں ہے۔ جو گزشتہ کچھ عرصے میں مناسب جگہ و سہولیات کے نا ہونے کے باعث بدل کر نیو اسلام آباد بین الاقوامی ہوائی اڈا جو تقریبا 25 کلو میٹر پرانے ائیر پورٹ کی دوری پر واقع ہے، منتقل کر دیا گیا ہے جس میں پی ائی اے کے علاوہ دیگر 25 ائیر لائنز اپنی خدمات سر انجام دیتی ہیں۔ پرانے ائیر پورٹ کو اب صرف عسکری فورسز استعمال کرتی ہیں جو نور خان ائیر بیس سے منسلک ہے۔
راولپنڈی میں فضائی کمپنیوں کے دفاترترميم
راولپنڈی کے دلکش مناظرترميم
راولپنڈی میں بہت سارے اچھے ہوٹل، طعام خانے، عجائب گھر اور سبزہ زار ہیں۔ راولپنڈی کو دیکھنے کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ اس کے بازاروں میں گھوما جائے۔ شہر کی دو اہم شاہراہیں: جی ٹی روڈ بالعموم مشرق سے مغرب تک چلتے ہوئے مال روڈ کنٹونمنٹ سے ہوتا ہوا گزرتا ہے اور مری روڈ مال روڈ کے شمال سے شروع ہوتا، ریلوے لائنوں کو اوپر اور نیچے سے عبور کرتا ہوا اسلام آباد تک پہنچتا ہے۔ راولپنڈی کے دو اہم بازار: ایک راجا بازار جو پرانے راولپنڈی شہر میں واقع ہے اور صدر بازار۔میٹرو بس سروس کے لیے بنائے گئے 9 کلو میٹر طویل پل اور اتنی ہی لمبی پھولدار پودوں سے لدی کیاریاں شامل ہیں۔
راولپنڈی کے مشہور علاقےترميم
راولپنڈی کے مشہور علاقے درج ذیل ہیں:
- بحریہ ٹاؤن
- ڈیفنس ہاؤسنگ سکیم
- ہزارہ کالونی
- شکریال
- صادق آباد
- سیٹلائیٹ ٹاؤن
- اصغر مال
- رحیم آباد
- خیابان سرسید
- ڈھوک کا لا خان
- پیرودھاہی
- قاضی آباد
- ڈھوک چراغ دین
- مریڑ حسن
- ندیم آباد
- جھنڈا چچی
- شمس آباد
- ڈھوک حسو
- گوالمنڈی
- رتہ امرال
- گنجمنڈی
- وارث خان
- امرپورہ
- پرانا قلعہ
- راجا بازار
- صدر
- ڈھوک کھبہ
- گلزارِقائد
- مسلم ٹاؤن
- مورگاہ
- بکرا منڈی
- اڈیا لہ
- دھمیال
- شاہ چن چراغ
- موتی با زار
- نیا محلہ
- آریہ محلہ
- لُنڈا بازار
- چٹیاں ہٹیاں
- بھابڑا بازار
- ندیم کالونی
- لیاقت مارکیٹ
- ٹنچ بھاٹا
- اصغر مال روڈ
- ٹرنک بازار
- نرنکاری بازار
- ڈھوک کھبا
- گوالمنڈی
- برماشیل
- رحمت آباد
- ڈھوک منشی
- نیو افضل ٹاون
- اسکیم تھری
- فضل ٹاون
- چکلالہ
- ڈھوک چوھدریاں
- گنگال
- مورگاہ
- پونچھ ہاؤس
- ڈَھوک کھبہ
- ڈَھوک فرمان علی
- ڈَھوک پیراں فقیراں
- ڈھوک سیٌداں
- ڈھوک علی اکبر
- ڈھوک کِھلو
- ڈھوک پراچہ
- ڈھوک کالا خان
- ڈھوک رَتہ
- ڈھوک چوہدریاں
- ڈھوک حسو
- ڈھوک چراغ دین
- ڈھوک منشی
- ڈھوک مستقیم
- ڈھوک حکم داد
زبانیںترميم
پوٹھوہاری/پنجابی (68.7%) پشتو (10.9%) اردو (10.2%) Others (5.33%) ہندکو (1.8%) کشمیری (1.00%) سرائیکی (0.02%) سندھی (0.01%) بلوچی ({{{value9}}}%)
|
راولپنڈی شہر کی اکثر آبادی ایک یا ایک سے زیادہ زبانیں بولتی ہے۔
- اردو، قومی زبان اور عام رابطہ کے لیے استعمال ہوتی ہے۔
- پوٹھوہاری ، اردو اور پنجابی زبان راولپنڈی کے مقامی لوگ بولتے ہیں۔
- پشتو اور انگریزی زبان بھی کافی زیادہ بولی جاتی ہے۔
- دری، ہزارگی، فارسی اور تاجک، مختلف افغان مہاجرین بولتے ہیں۔
- دیگر زبانوں میں پہاڑی، گوجری، کشمیری، ہندکو ، سرائیکی ، میواڑی ، ہزاروی ، بلتی، بلوچی، براہوی اور سندھی بھی بولی جاتی ہے۔
- تحریری طور پر اردو اور انگریزی ہی راولپنڈی میں استعمال ہوتی ہیں جبکہ عربی اور فارسی انتہائی کم مقدار میں استعمال ہوتی ہیں۔
عجائب گھرترميم
- پاکستان آرمی میوزیم
- ایوب پارک میوزیم
- سگنلز میوزیم
باغات / پارکسترميم
- آئی ویو پارک بحریہ ٹاؤن راولپنڈی
- ایوب نیشنل پارک
- لیاقت باغ
- گالف کورس پارک
- جناح پارک
- رومی پارک
- شاہ بلوط پارک
- نواز شریف پارک
- چلڈ رن پارک
- ضیاء الحق پارک
- کمرشل مارکیٹ پارک
ذرائع ابلاغترميم
پریس کلب راولپنڈیترميم
راولپنڈی پریس کلب صحافت اور ادبی سرگرمیوں میں نمایاں کردار ادا کر رہا ہے۔
اخبارات و رسائلترميم
ریڈیوترميم
فلم/ڈرامہترميم
ہوٹل / شرب و طعامترميم
- سیور فوڈز
- بالا تکہ ہائوس
- مصطفی دارالماہی
- عادل ہوٹل
- مجید نہاری
- کالا خان نہاری
- اکبر جی سری پائے
- شہنشاہ تکہ ہائوس
- تہذیب بیکرز
- راحت بیکرز
- کاکا سویٹس
- کریم سموسہ
- لذیذیہ ریسٹورنٹ
- کے ایف سی
- میکڈونلڈ
- پرل کانٹیننٹل
- فلیش مین ہوٹل
- او پی ٹی پی
- چیزیس
- حافظ مرغ چنے
تجارتی مراکز / بازارترميم
جی ایچ کیو (پاکستان)ترميم
جی ایچ کیو (پاکستان) پاکستان فوج کے مرکزی دفاتر کا مخفف ہے اس کا مطلب ہے جنرل ہیڈ کوائٹر (صدر دفاتر)۔ یہ پاکستان کے شہر راولپنڈی میں واقع ہے۔ اس کا آغاز 14 اگست 1947ء کو برطانوئی ہندی فوج کی نادرن کمانڈ ہیڈ کوارٹر کے طور پر ہوا۔
تعلیم / تعلیمی ادارےترميم
راولپنڈی میں بہت سارے تعلیمی ادارے ہیں جن میں اسکول، کالج اور یونیورسٹیاں شامل ہیں۔ گارڈن کالج کو امریکن پریسبٹیرین مشن نے قائم کیا تھا جس میں شروع میں نو پروفیسرز تھے اور کالج کا سالانہ خرچ بیس ہزار روپے تھا۔سریشت نیتی ہائی سکول رائے بہادر بوٹا سنگھ کے عطیہ سے قائم کیا گیا تھا جسے 1906ء میں اس شرط کے ساتھ حکومت کے حوالے کر دیا گیا کہ صبح کی اسمبلی میں تمام مذاہب کے طلبا اپنی اپنی مقدس آیات کی تلاوت لازمی کریں گے اور کوئی ایک استاد طلبا کو اخلاقیات پر سبق بھی پڑھائے گا۔ یہ سکول پنجاب کا سب سے بڑا سکول تھا جہاں چار سو کے قریب طلبا زیر تعلیم تھے۔ ڈینیز ہائی سکول کی جگہ پر پہلے کنٹونمنٹ ٹریننگ اکیڈمی تھی لیکن 1893ء میں یہ عمارت گر گئی جس کے بعد کنٹونمنٹ کے مجسٹریٹ میجر ڈینی نے یہاں سکول قائم کر دیا۔ کنٹونمنٹ اس کو سالانہ پندرہ سو امداد دیتا تھا جبکہ 230 طلبا کی فیس بھی 1200 وصول ہوتی تھی۔ یہاں ایک ہیڈ ماسٹر اور پندرہ ماسٹر تھے۔ ماموں جی اسلامیہ ہائی سکول 1896ء میں مسلمانوں نے مل کر بنایا جسے حکومت سالانہ 1843 روپے گرانٹ دیتی تھی۔ 247 طلبا ء سے سالانہ فیسوں کی مد میں 2391 روپے وصول ہوتے تھے اورسکول کا سالانہ خرچ 5183 روپے تھا۔ ضلع میں لڑکیوں کے 34 سکول تھے جن میں سے 20 کھیم سنگھ بیدی نے قائم کیے تھے۔ گرمکھی سکولوں کے علاوہ لڑکوں کے تمام سکولوں میں ذریعہ تعلیم اردو تھا۔ ذیل میں راولپنڈی کے سرکاری اور غیر سرکاری اسکول، کالج اور یونیورسٹیوں میں سے کچھ کے نام ہیں:
یونیورسٹیاں/جامعاتترميم
- آرمی میڈیکل کالج ،راولپنڈی
- کالج آف الیکٹریکل اینڈ مکینیکل ا نئرنگ راولپنڈی
- جامعہ فاطمہ جناح برائے خواتین
- فاؤنڈیشن یونیورسٹی راولپنڈی
- گورنمنٹ وقار النساء ویمن یونیورسٹی ، راولپنڈی
- نیشنل کالج آف آرٹس راولپنڈی
- نیشنل یونیورسٹی آف میڈیکل سائنسز راولپنڈی
- پیر مہر علی شاہ بارانی یونیورسٹی، راولپنڈی
- راولپنڈی میڈیکل یونیورسٹی راولپنڈی
- راولپنڈی ویمن یونیورسٹی
- رفاہ انٹرنیشنل یونیورسٹی
- راولپنڈی میڈیکل یونیورسٹی
- بارانی انسٹیٹیوٹ آف انفارمیشن ٹیکنالوجی
کالجز/دانشگاہیںترميم
- گورنمنٹ اصغر مال کالج، راولپنڈی
- لیڈرشپ کالج آف کامرس
- راولپنڈی کالج آف کامرس
- پنجاب کالج آف انفارمیشن ٹیکنالوجی
- اسلام آباد کالج آف مینجمنٹ اینڈ کامرس
- راول کالج آف کامرس
- سکالرز کینٹ کالج آف کامرس
- PACE کالج
- اورینٹ انٹرنیشنل کامرس کالج
- فیڈرل سائنس اینڈ کامرس کالج
- زاویہ کالج
- سپر ونگز کالج
- اقرا کالج آف کامرس اینڈ کمپیوٹر سائنسز
- جناح انسٹی ٹیوٹ آف انفارمیٹکس اینڈ کامرس
- فاطمہ جناح کالج آف کامرس
- ہورائزن کالج فار گرلز
- گلوبل کالج سسٹم
- ظہور الاسلام گرلز ڈگری کالج
- OPF-گرلز کالج
- پنجاب کالج آف انفارمیشن ٹیکنالوجی
- فاطمہ جناح ڈگری کالج برائے خواتین
- اورینٹ انٹرنیشنل کامرس کالج
- عسکری کالج
- SKANS سکول آف اکاؤنٹنسی
- سول کالج آف کامرس
- راولپنڈی ماڈل کالج آف کامرس
- پنجاب کالج آف ایکسی لینس ان کامرس
- اسلام آباد کالج آف مینجمنٹ اینڈ کامرس
- NICON کالج آف کمپیوٹر اینڈ مینجمنٹ سائنسز
- پنجاب کالج آف کامرس
- لٹل آکسفورڈ کالج آف کامرس
- خیبر انسٹی ٹیوٹ آف پروفیشنل سکلز
- انڈس کالج آف کامرس
- راولپنڈی کالج آف کامرس
- فوجی فاؤنڈیشن کالج
- تصورات کالج اور اکیڈمی
- ایف جی۔ سر سید کالج
- چناب کالج آف سائنس اینڈ کامرس
- ملٹری کالج آف سگنلز
- گورنمنٹ پوسٹ گریجویٹ کالج
- گورنمنٹ گورڈن کالج ، راولپنڈی
- بلقیس ایجوکیشن کالج برائے خواتین
- جناح اسلامیہ کالج آف کامرس
- سر سید سائنس کالج
- مسلم لاء کالج
- او پی ایف گرلز کالج
- بہترین لاء کالج
- راول کالج آف کامرس
- فضایہ انٹرمیڈیٹ کالج
- گورنمنٹ کالج آف ٹیکنالوجی
- ماڈرن کالج آف کامرس اینڈ سائنسز
- کیپس کالج
مذہبترميم
2017ء کی مردم شماری کے مطابق راولپنڈی شہر کی 97.01% مسلمان ہے۔ جب کہ عیسائی ، سکھ مت، ہندومت اور دوسرے مذاہب کے لوگ بھی آباد ہیں۔
مذہب | فیصد |
---|---|
اسلام | 97.2% |
ہندو | 0.12% |
سکھ مت | 0.71% |
مسیحی | 1.3% |
دیگر مذاہب [ا] | 1.05% |
کھیلترميم
صحتترميم
راولپنڈی میں صحت کی صورت حال پاکستان کے دوسرے شہروں سے کچھ خاص بہتر نہیں، تاہم پچھلے چند سالوں سے سرکاری ہسپتالوں کی صورت حال ماضی کی نسبت کافی بہتر ہوئی ہے۔
ہسپتالترميم
جنرل پوسٹ آفس راولپنڈیترميم
جنرل پوسٹ آفس (General Post Office / GPO) راولپنڈی کا مرکزی ڈاک خانہ ہے۔ یہ راولپنڈی شہر میں بنک روڈ پر واقع ہے۔ ڈاک کا موجودہ نظام انگریز دور سے تعلق رکھتا ہے۔
شہر/قصبہ | رمزِ ڈاک | ضلع/صدر ڈاک خانہ | صوبہ/عملداری |
---|---|---|---|
راولپنڈی Cantt | 45000 | راولپنڈی | پنجاب |
راولپنڈی GPO | 46000 | راولپنڈی | پنجاب |
راولپنڈی سیٹلائٹ ٹاؤن | 46300 | راولپنڈی | پنجاب |
راولپنڈی ویسٹرج | 46060 | راولپنڈی | پنجاب |
انتظامی تقسیمترميم
راولپنڈی ڈویژنترميم
راولپنڈی ڈویژن پاکستان کے صوبہ پنجاب کی ایک انتظامی تقسیم تھی۔ 2000 کی حکومتی اصلاحات کے نتیجے میں اس تیسرے درجے کی تقسیم کو ختم کر دیا گیا۔ 2008ء کے عام انتخابات کے بعد پنجاب نے اس کے آٹھ ڈویژنوں کو بحال کر دیا۔
اتنظامیہترميم
راولپنڈی ڈویژن کے چھ اضلاع مندرجہ ذیل ہیں۔
انتظامی ٹاؤنترميم
راولپنڈی کی تحصیلیںترميم
جغرافیہترميم
حدود اربعہترميم
آبی ذخائرترميم
رقبہترميم
سیاستترميم
قومی اسمبلی پاکستانترميم
راولپنڈی سے قومی اسمبلی کی 7 نشستیں ہیں جس کی فہرست مندرجہ ذیل ہے۔ [37]
پنجاب صوبائی اسمبلیترميم
راولپنڈی سے پنجاب صوبائی اسمبلی کے لیے 14 حلقے ہیں جن کی فہرست مندرجہ ذیل ہے۔ [38]
- پی پی-6 (راولپنڈی-1)
- پی پی-7 (راولپنڈی-2)
- پی پی-8 (راولپنڈی-3)
- پی پی-9 (راولپنڈی-4)
- پی پی-10 (راولپنڈی-5)
- پی پی-11 (راولپنڈی-6)
- پی پی-12 (راولپنڈی-7)
- پی پی-13 (راولپنڈی-8)
- پی پی-14 (راولپنڈی-9)
- پی پی-15 (راولپنڈی-10)
- پی پی-16 (راولپنڈی-11)
- پی پی-17 (راولپنڈی-12)
- پی پی-18 (راولپنڈی-13)
- پی پی-19 (راولپنڈی-14)
- پی پی-20 (راولپنڈی-15)
اہم شخصیاتترميم
- سیّد حسین الدین شاہ (عالم دین و پیر طریقت)
- شمع خالد (افسانہ نگار)
- شیخ رشید احمد
- اظہر محمود، کرکٹر
- معین خان، کرکٹر
- سہیل تنویر، کرکٹر
- احسان مانی ، چیئرمین پی سی بی
- چودھری تنویر خان
- ملک ابرار احمد، سیاستدان
- حسن عباس رضا
- آنند بخشی
- ڈاکٹر محمد عالم
- سمیرا سلیم کاجل
- مصطفی شاہ خالد گیلانی، تحریک پاکستان کے راہنما
- محمود احمد منٹو، سابق سینیٹر و رہنما تحریک پاکستان
- ممتاز احمد شیخ
- اشرف سلیم
- آغا سجاد کشور (سینئر اداکار)
- محمد بشارت راجہ
- سید مقبول حسین
- خالد شریف
- مسعود خواجہ
- مقصود جعفری
- جمیل ملک
- توصیف تبسم
- صفیہ شمیم
- راجہ راشد حفیظ
جڑواں شہرترميم
اسلام آباد اور راولپنڈی کو پاکستان کے جڑواں شہر کہا جاتا ہے۔بلکہ بعض جگہوں پر آج بھی دونوں شہروں کے تھانوں کو مسئلہ ہوتا ہے کہ یہ حدود اسلام آباد کی ہے یا راولپنڈی کی۔دو ہزار سال پہلے بھی گندھارا سندھ کی تہذیب کا ایک جیتا جاگتا مرکز تھا اور آج پھر تاریخ نے جو انگڑائی لی ہے اور اسلام آباد کو پاکستان کا مرکز بنا دیا ہے۔ یہی نہیں بلکہ یہاں دنیا کی دو بڑی تجارتی شاہراہوں کا ملاپ ہو رہا ہے۔ایک چین کو مشرقِ وسطیٰ سے ملاتی ہے تو دوسری بھارت اور بنگلہ دیش سمیت جنوبی ایشیاء کو کابل اور ماسکو تک لے جاتی ہے۔ ان دونوں شاہراہوں پر ابھی بین الاقوامی تجارت شروع نہیں ہو ئی لیکن جب بھی ہو گی راولپنڈی اور اسلام آباد پاکستان کا سب سے بڑا شہری علاقہ بن جائیں گے۔یہاں دنیا بھر سے تاجر اور سیاح آئیں گے
شہر | علاقہ | ملک | سال |
---|---|---|---|
اسلام آباد | پاکستان | پاکستان | 1967 |
مزاراتترميم
- شاہ چن چراغ
- عید گاہ شریف
- دربار سخی پیر،سواں اڈا
- دربار عالیہ موہڑہ شریف
- دربار سخی شاہ پیارا
- دربار شہید بابا مریڑ حسن
سینما گھرترميم
- روز سینما فوارہ چوک
- شبستان سینماکمیٹی چوک
- گلستان سینما کمیٹی چوک
- کہکشاں سینما کمیٹی چوک
- ریالٹو سینما مری روڈ
- موتی محل سینمامری روڈ
- سنگیت سینما مری روڈ
- ناز سینما مری روڈ
- نادر سینما سیٹلائٹ ٹاؤن
- پی اے ایف سینما چک لالہ
- کیپیٹل سینما بینک روڈ صدر
- اوڈین سینما مال روڈ
- پلازہ سینما مال روڈ
- سیروز سینما حیدر روڈصدر
- خورشید سینما ڈِنگی کھوئی
- ناولٹی سینما موہن پورہ
- نشاط سینما لیاقت روڈ
- امپیریل سینما راجا بازار
- تاج محل سینما سٹی صدر روڈ
- تصویر محل لالکڑتی بازار
- گریژن سینما آر اے بازار
- قاسم سینما دھمیال کیمپ
شہر نتائجترميم
درجہ | شہر | آبادی (1998 مردم شماری) | آبادی (2017 مردم شماری) | اضافہ | صوبہ |
---|---|---|---|---|---|
1 | کراچی | 9,856,318 | 16,051,521 [39] | 62.86% | سندھ |
2 | لاہور | 5,143,495 | 11,126,285 | 116.32% | پنجاب، پاکستان |
3 | فیصل آباد | 2,008,861 | 3,203,846 | 59.49% | پنجاب، پاکستان |
4 | راولپنڈی | 1,409,768 | 2,098,231 | 48.84% | پنجاب، پاکستان |
5 | گوجرانوالہ | 1,132,509 | 2,027,001 | 78.98% | پنجاب، پاکستان |
6 | پشاور | 982,816 | 1,970,042 | 100.45% | خیبر پختونخوا |
7 | ملتان | 1,197,384 | 1,871,843 | 56.33% | پنجاب، پاکستان |
8 | حیدرآباد، سندھ | 1,166,894 | 1,732,693 | 48.49% | سندھ |
9 | اسلام آباد | 529,180 | 1,014,825 | 91.77% | اسلام آباد وفاقی دارالحکومت علاقہ |
10 | کوئٹہ | 565,137 | 1,001,205 | 77.16% | بلوچستان |
حوالہ جاتترميم
- ↑ "صفحہ راولپنڈی في GeoNames ID". GeoNames ID. اخذ شدہ بتاریخ 14 مارچ 2023ء.
- ↑ "Rawalpindi | Meaning of Rawalpindi by Lexico". 06 مارچ 2019 میں اصل سے آرکائیو شدہ. اخذ شدہ بتاریخ 04 مارچ 2019.
- ↑ "Pakistan - Constitutional Beginnings". www.country-data.com. اخذ شدہ بتاریخ 24 نومبر 2022.
- ↑ Planet، Lonely. "History of Islamabad & Rawalpindi – Lonely Planet Travel Information". www.lonelyplanet.com. 04 مارچ 2016 میں اصل سے آرکائیو شدہ. اخذ شدہ بتاریخ 18 جون 2016.
- ↑ Junaidi، Ikram (23 October 2015). "What is being built on GHQ land?". www.dawn.com. 07 نومبر 2019 میں اصل سے آرکائیو شدہ. اخذ شدہ بتاریخ 18 جون 2016.
- ↑ "The lost Jewish history of Rawalpindi". 24 فروری 2016 میں اصل سے آرکائیو شدہ. اخذ شدہ بتاریخ 24 ستمبر 2016.
- ↑ "Pakistan - Constitutional Beginnings". www.country-data.com. اخذ شدہ بتاریخ 26 اکتوبر 2022.
- ↑ "Pakistan - Constitutional Beginnings". www.country-data.com. اخذ شدہ بتاریخ 24 نومبر 2022.
- ↑ "New Islamabad Airport: 'Faulty' airport design stirs Senate debate – The Express Tribune". The Express Tribune (بزبان انگریزی). 18 June 2016. 18 جون 2016 میں اصل سے آرکائیو شدہ. اخذ شدہ بتاریخ 18 جون 2016.
- ↑ Kalhoro، Zulfiqar Ali (13 June 2015). "The havelis of Potohar: Pakistan's opportunity to promote heritage tourism". www.dawn.com. 09 جون 2016 میں اصل سے آرکائیو شدہ. اخذ شدہ بتاریخ 18 جون 2016.
- ↑ Reporter، A (20 March 2013). "NCA to document Potohar history". www.dawn.com. 05 اگست 2016 میں اصل سے آرکائیو شدہ. اخذ شدہ بتاریخ 18 جون 2016.
- ↑ Shamil، Taimur (16 October 2015). "The temples of Rawalpindi: Old wisdom in a new world". 26 ستمبر 2016 میں اصل سے آرکائیو شدہ. اخذ شدہ بتاریخ 24 ستمبر 2016.
- ↑ Padishah، Nur al-Din Muhammad Jahangir (1968). Tuzk-e Jahangiri. Majlis-e Taraqqi-e Adab.
- ↑ "حقائق کی دنیا". 14 جون 2020 میں اصل سے آرکائیو شدہ.
- ↑ Dutt، Nalinaksha (1998). Buddhist Sects in India. Motilal Banarsidass Publ. ISBN 978-8120804289. 19 اگست 2020 میں اصل سے آرکائیو شدہ. اخذ شدہ بتاریخ 04 جنوری 2020.
- ↑ "Plate British Museum". The British Museum (بزبان انگریزی). 19 اکتوبر 2020 میں اصل سے آرکائیو شدہ. اخذ شدہ بتاریخ 19 اکتوبر 2020.
- ↑ Bernstein، Richard (2001). Ultimate Journey: Retracing the Path of an Ancient Buddhist Monk who Crossed Asia in Search of Enlightenment. A.A. Knopf. ISBN 9780375400094. 19 اگست 2020 میں اصل سے آرکائیو شدہ. اخذ شدہ بتاریخ 22 جون 2017.
- ↑ Malik، Iftikhar Haider (2006). Culture and Customs of Pakistan. Greenwood Publishing Group. ISBN 9780313331268.
- ^ ا ب Agrawal، Ashvini (1983). Studies in Mughal History. Motilal Banarsidass. ISBN 9788120823266. 18 اگست 2020 میں اصل سے آرکائیو شدہ. اخذ شدہ بتاریخ 07 دسمبر 2017.
- ↑ Findly، Ellison (1993). Nur Jahan: Empress of Mughal India. Oxford University Press. صفحہ 173. ISBN 9780195360608. 19 اگست 2020 میں اصل سے آرکائیو شدہ. اخذ شدہ بتاریخ 07 دسمبر 2017.
- ↑
- ↑ Griffin، Sir Lepel Henry (1890). The Panjab Chiefs: Historical and Biographical Notices of the Principal Families in the Lahore and Rawalpindi Divisions of the Panjab, Volume 2. Civil and Military Gazette Press. 20 اگست 2020 میں اصل سے آرکائیو شدہ. اخذ شدہ بتاریخ 07 دسمبر 2017.
- ↑ Gazetteer of the Rawalpindi district. "Civil and Military Gazette" Press. 1895. 19 اگست 2020 میں اصل سے آرکائیو شدہ. اخذ شدہ بتاریخ 07 دسمبر 2017.
- ↑ Rogers، Ayesha Pamela. "Rawalpindi Historic Urban Landscape Project". 24 فروری 2022 میں اصل سے آرکائیو شدہ. اخذ شدہ بتاریخ 08 دسمبر 2017.
- ↑ The Indian Army and the Making of Punjab. Orient Blackswan. 2003. ISBN 9788178240596. 19 اگست 2020 میں اصل سے آرکائیو شدہ. اخذ شدہ بتاریخ 10 دسمبر 2017.
- ↑ Nijjar، Bakhshish Singh (1996). History of the United Panjab. Atlantic Publishers & Dist. ISBN 9788171565344. 19 اگست 2020 میں اصل سے آرکائیو شدہ. اخذ شدہ بتاریخ 08 دسمبر 2017.
- ↑ "UK tested poison gas on Indian soldiers". USA Today. 1 September 2007. 05 جنوری 2012 میں اصل سے آرکائیو شدہ. اخذ شدہ بتاریخ 22 نومبر 2013.
- ↑ "The forgotten massacre". The Nation. 29 December 2014. 07 دسمبر 2017 میں اصل سے آرکائیو شدہ. اخذ شدہ بتاریخ 08 دسمبر 2017.
- ↑ NOORANI، A.G. "Horrors of Partition". Frontline (India). 25 فروری 2014 میں اصل سے آرکائیو شدہ. اخذ شدہ بتاریخ 08 دسمبر 2017.
- ↑ Ispahani، Farahnaz (2017). Purifying the Land of the Pure: A History of Pakistan's Religious Minorities. Oxford University Press. ISBN 978-0-19-062167-4. 19 اگست 2020 میں اصل سے آرکائیو شدہ. اخذ شدہ بتاریخ 08 دسمبر 2017.
- ↑ Burki، Shahid Javed (2015). Historical Dictionary of Pakistan. Rowman & Littlefield. ISBN 9781442241480. 19 اگست 2020 میں اصل سے آرکائیو شدہ. اخذ شدہ بتاریخ 08 دسمبر 2017.
- ↑ "Pakistan Air Force". Defense General. 18 اکتوبر 2012 میں اصل سے آرکائیو شدہ. اخذ شدہ بتاریخ 20 اگست 2012.
- ↑ "PAF Active Bases". Pakistan Air Force. 26 جون 2010 میں اصل سے آرکائیو شدہ. اخذ شدہ بتاریخ 20 اگست 2012.
- ↑ https://en.wikipedia.org/wiki/List_of_cities_in_Pakistan_by_population
- ↑ https://www.pbs.gov.pk/sites/default/files/population/2017/results/04201.pdf
- ↑ https://www.pbs.gov.pk/sites/default/files/population/2017/results/04201.pdf
- ↑ https://na.gov.pk/en/mna_list.php?list=punjab
- ↑ https://www.pap.gov.pk/members/listing/en/21?bydistrict=123
- ↑ "آرکائیو کاپی" (PDF). 16 جون 2020 میں اصل (PDF) سے آرکائیو شدہ. اخذ شدہ بتاریخ 15 جنوری 2022.
راوپنڈی شہر کو 3D میں دیکھیے۔آرکائیو شدہ (Date missing) بذریعہ sketchup.google.com (Error: unknown archive URL) اس کے لیے آپ کو سافٹ ویئر Google Earth چاہیے ہو گا۔
ویکی کومنز پر راولپنڈی سے متعلق سمعی و بصری مواد ملاحظہ کریں۔ |