عرف (فقہ)
فقہ اسلامی کی ایک اصطلاح، «وہ امر جو عام طور پر عوام و خواص کے درمیان اچھا سمجھا جانے کی وجہ سے رائج اور عقول سلیمہ اسے تسلیم کرتی ہوں»۔[1] اس تعریف میں امر کا لفظ قول اور فعل دونوں کو عام ہے۔
یہی تعریف علامہ ہبۃ اللہ بیری نے شرح اشباہ میں مستصفی سے نقل کی ہے۔
” | عادت اور عرف وہ چیز ہے جو نفوس انسانی میں عقول سلیمہ کے اچھا سمجھنے کی وجہ سے رچ بس جائے اور سلیم طبیعتیں اسے قبول کریں۔ | “ |
اقسام
ترمیمعرف دو قسمیں ہیں، ایک وہ جو تمام بلاد اسلام میں عام ہو اور اس پر تمام ارباب حل و عقد متفق ہوں، اسے عرف عام یا عادت عام کہتے ہیں۔ یہ اجماع کی ایک صورت ہے، جس کی حجت میں ائمہ اربعہ میں کسی کا اختلاف نہیں ہے۔ دوسری وہ جو تمام بلاد اسلام میں عام نہیں ہو اور اس پر تمام اہل حل و عقد کا اتفاق نہ ہو بلکہ کسی ایک بلد اور اس کے ارباب حل و عقد میں رائج ہو۔ اسے عرف خاص یا عادت خاصہ کہتے ہیں۔ متقدین احناف صرف عرف عام کا اعتبار کرتے ہیں عرف خاص کا نہیں۔ لیکن بلخ، بخارا اور خوارزم کے مشائخ اور ابو للیث اور ابو علی نے عرف و خاص کا اعتبارکیا ہے۔ بالکل یہی صورت شوافع کے یہاں معلوم ہوتی ہے، اس لیے ’العادۃ محکمۃ‘ کے اصول کا علامہ سیوطی نے بیع کے چند فتووں کے ساتھ ابن اصلاح اور عراقی کے دو فتووں کو نقل کیا ہے۔ ان سے معلوم ہوتا ہے کہ شوافع عادت خاصہ کا اعتبار کرتے ہیں۔ امام شافعی کے بارے میں علی حسب اللہ لکھتے ہیں، انھوں نے اپنے مذہب جدید کے بہت سے احکام کی بنا اہل مصر پر رکھی ہے اور اہل عراق اور اہل حجاز کے عرف پر مبنی احکام کو چھوڑ دیا ہے۔ گویا عرف و عادۃ خواہ عام ہو یا خاص احناف اورشوافع دونوں کے یہاں معتبر ہے۔
شرائط عرف
ترمیمعرف و عادۃ کو ماخذ قانون دینے کی لازمی شرط یہ ہے کہ وہ عرف کتاب اللہ اور سنت نبوی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے خلاف نہ ہو۔ کیوں کہ نص شریعی کا قانونی وزن بہر حال عرف سے زیادہ ہے۔ لیکن اگر عرف شرعی دلیل کے مخالف ہو تو اس کو رد کردینے میں کوئی شبہ نہیں ہے۔
- عرف صالح قول کے لیے فقہانے بعض شرائط پیش کیں ہیں۔
- عرف نص شرعی سے معارض نہ ہو۔
- قانون سازی کے وقت عرف باقی ہو۔
- عرف غالب و عام ہو۔
- معاشرے میں اس کا پورا کرنا ضروری تصور کیا جائے۔
- معاملہ کرنے والوں نے اس کے خلاف کوئی شرط عائد نہ کی ہو۔