عشقِ حقیقی ایک لافانی و لامحدود انسانی جذبہ ہے جس کا براہ راست تعلق ایک روح سے دوسری روح تک ہوتا ہے روحِ اوّل یعنی خدائے حکیم و علیم کے وجود یا علتِ اوّل کے اثبات کی جانب کششِ شدید انسانی روح کی، عشق حقیقی کہلاتا ہے، خدا جس کا تصور ہر مذہب میں مختلف اصطلاحات و تعبیرات اور براہین و لطائف سے مرقع ہے کی جانب انسان کی لاشعوری کشش عشق حقیقی کا بنیادی محرک ہے صوفیا بعض اوقات عشق حقیقی کو وحدت الوجود کے دائرے تک محدود کر لیتے ہیں تاکہ نطق سلامت رہے اور عشق حقیقی کی تعبیر میں کوئی منطقی ابہام پیدا نہ ہو جبکہ بعض عشاق اسے علتِ اوّل کی کششِ شدید پر ہی موقوف کر لیتے ہیں عشق مجازی کی طرح عشق حقیقی حواس اور نطق کی تعیین سے ماوراء ہی رہا ہے ورنہ عشق مجازی اور عشق حقیقی باہم مختلط ہو جاتے ہیں البتہ بعض وجودی صوفی عشق حقیقی ہی کو عشق مجازی کی انتہائی تشکیل سمجھتے ہیں معروف صوفی بزرگ حضرت شاہ نیاز بریلوی فرماتے ہیں۔[1]

یار کو ہم نے جابجا دیکھا

کہیں ظاہر کہیں چھپا دیکھا

کہیں وہ بادشاہ تخت نشیں

کہیں کاسہ لیے گدا دیکھا

حوالہ جات

ترمیم
  1. نعمان نیئر کلاچوی (2014)۔ عشق کی سائنس۔ فیکٹ پبلیکیشنز لاہور۔ ص 76۔ ISBN:9789696320067