عقیقہ
عقیقہ ﻋﻘﯿﻘﮧ ﺳﮯ ﻣﺮﺍﺩ ﺑﮑﺮﯼ ﻭﻏﯿﺮﮦ ﮐﻮ ﺑﭽﮯ ﮐﯽ ﭘﯿﺪﺍﺋﺶ ﭘﺮ ﺫﺑﺢ ﮐﺮﻧﺎ ﮨﮯ، ﻋﻘﯿﻘﮧ ﮐﺮﻧﺎ ﺳﻨﺖ ﮨﮯ، ﮐﻮﺋﯽ ﮐﺮﮮ ﺗﻮ ﺛﻮﺍﺏ ﮨﻮﮔﺎ ﻧﮧ ﮐﺮﮮ ﺗﻮ ﮔﻨﺎﮦ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﮯ۔ ﺣﺪﯾﺚ ﻣﺒﺎﺭﮐﮧ ﻣﯿﮟ ﺁﺗﺎ ﮨﮯ : ﻋﻦ ﺳﻠﻤﺎﻥ ﺑﻦ ﻋﺎﻣﺮ ﺍﻟﻀﺒﯽ ﻗﺎﻝ ﺳﻤﻌﺖ ﺭﺳﻮﻝ ﺍﻟﻠﻪ ﺻﻠﯽ ﺍﻟﻠﻪ ﻋﻠﻴﻪ ﻭﺁﻟﻪ ﻭﺳﻠﻢ ﻳﻘﻮﻝ ﻣﻊ ﺍﻟﻐﻼﻡ ﻋﻘﻴﻘﺔ، ﻓﺎﻫﺮﻳﻘﻮﺍ ﻋﻨﻪ ﺩﻣﺎً ﻭ ﺍﻣﻴﻄﻮﺍ ﻋﻨﻪ ﺍﻻ ﺫﯼ .[1] ﺳﻠﻤﺎﻥ ﺑﻦ ﻋﺎﻣﺮ ﺍﻟﻀﺒﯽ ﻓﺮﻣﺎﺗﮯ ﮨﯿﮟ ﮐﮧ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺣﻀﻮﺭ ﺍﮐﺮﻡ ﺻﻠﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﻭﺁﻟﮧ ﻭﺳﻠﻢ ﺳﮯ ﺳﻨﺎ ﮨﮯ ﮐﮧ ﺑﭽﮯ ﮐﯽ ﻭﻻﺩﺕ ﭘﺮ ﻋﻘﯿﻘﮧ ﮨﮯ، ﭘﺲ ﺗﻢ ﺍﺱ ﮐﯽ ﻃﺮﻑ ﺳﮯ ﺧﻮﻥ ﺑﮩﺎﺅ ( ﯾﻌﻨﯽ ﺑﮑﺮﯼ ﺫﺑﺢ ﮐﺮﻭ) ﺍﻭﺭ ﺍﺱ ﺳﮯ ﺗﮑﻠﯿﻒ ﮐﻮ ﺩﻭﺭ ﮐﺮﻭ۔ﺍﺑﻮ ﺩﺭﺩﺍﺀ ﮐﯽ ﺭﻭﺍﯾﺖ ﻣﯿﮟ ﮨﮯ : ﻋﻦ ﺍﻟﻐﻼﻡ ﺷﺎتینﻭ ﻋﻦ ﺍﻟﺠﺎﺭﻳﺔ ﺷﺎۃ .[2] ﺑﭽﮯ ﮐﯽ ﻃﺮﻑ ﺳﮯ ﺩﻭ ﺑﮑﺮﯾﺎﮞ ﺍﻭﺭ ﺑﭽﯽ ﮐﯽ ﻃﺮﻑ ﺳﮯ ﺍﯾﮏ ﺑﮑﺮﯼ ﺫﺑﺢ ﮐﺮﻭ۔ﻣﺴﺘﺤﺐ ﺍﻭﺭ ﺑﮩﺘﺮ ﯾﮩﯽ ﮨﮯ ﮐﮧ ﺳﺎﺗﻮﯾﮟ ﺩﻥ ﻋﻘﯿﻘﮧ ﮨﻮ ﺟﺎﺋﮯ ﺍﮔﺮ ﮐﺴﯽﻭﺟﮧ ﺳﮯ ﻧﮧ ﮐﺮ ﺳﮑﯿﮟ، ﺗﻮ ﻃﺮﯾﻘﮧ ﯾﮧ ﮨﮯ ﮐﮧ ﺟﺲ ﺩﻥ ﺑﭽﮧ ﭘﯿﺪﺍ ﮨﻮﺍ ﮨﮯ ﺍﺱ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﻮﯾﮟ ﺩﻥ ﮐﺎ ﺣﺴﺎﺏ ﮐﺮﯾﮟ۔ ﻣﺜﻼً ﺟﻤﻌﮧ ﮐﻮ ﭘﯿﺪﺍ ﮨﻮﺍ ﺗﻮ ﻋﻤﺮ ﺑﮭﺮ ﻣﯿﮟ ﺟﺐ ﺑﮭﯽ ﮐﺮﻧﺎ ﮨﻮ ﺗﻮ ﺟﻤﻌﺮﺍﺕ ﮐﻮ ﻋﻘﯿﻘﮧ ﮐﺮﯾﮟ، ﺗﻮ ﯾﮧ ﺳﺎﺗﻮﺍﮞﺩﻥ ﺑﻦ ﺟﺎﺗﺎ ﮨﮯ۔ ﺑﺎﻗﯽ ﺟﺎﻧﻮﺭ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﻭﮨﯽ ﺷﺮﺍﺋﻂ ﮨﯿﮟ ﺟﻮ ﻗﺮﺑﺎﻧﯽ ﮐﮯ ﺟﺎﻧﻮﺭ ﮐﮯ ﻟﺌﮯ ﮨﯿﮟ۔ ﻧﻮﭦ : ﻋﻘﯿﻘﮧ ﻗﺮﺑﺎﻧﯽ ﮐﮯ ﺣﺼﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﺳﮯ ﺑﮭﯽ ﺍﺩﺍ ﮨﻮ ﺟﺎﺗﺎ ﮨﮯ۔اور ہاں عقیقہ میں بکری ہو یا بکرا کوئی فرق نہیں پڑتا اور عقیقہ کی جو تقسیم ہے وہ قربانی جیسی ہی ہے قربانی کی طرح عقیقہ کی تقسیم کریں۔ ایک اور وضاحت کر دوں، اگر عقیقہ بچپن میں والدین نے نہ کیا ہو تو پھر خود بھی اپنا عقیقہ بڑے ہوکر کیا جا سکتا ہے، لیکن یاد رہے کہ عقیقہ سنت ہے سنت سے محروم نہ رہیں۔ جزاکم اللہ خیرا۔
شرعی مسائل
ترمیمالسلام علیکم مفتی صاحب! عقیقہ کی شرعی حیثیت کیا ہے؟ جواب: صاحبِ استطاعت والدین پر اپنی اولاد کا عقیقہ کرنا سنت ہے۔ حضرت سلمان بن عامر الضبی رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ میں نے رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: مَعَ الْغُلَامِ عَقِيقَةٌ فَأَهْرِيقُوا عَنْهُ دَمًا وَأَمِيطُوا عَنْهُ الْأَذَی. عقیقہ لڑکے کے ساتھ ہے، لہٰذا اس کی طرف سے خون بہاؤ اور تکلیف کو اس سے دور کرو۔ بخاري، الصحيح، 5: 2082، رقم: 5154، بيروت، لبنان: دار ابن کثير اليمامةأحمد بن حنبل، المسند، 4: 214، رقم: 17907، مصر: مؤسسة قرطبةترمذي، السنن، 4: 97، رقم: 1515، بيروت، لبنان: دار احياء التراث العربي لڑکے کی طرف سے دو بکریاں اور لڑکی کی طرف سے ایک ہے۔ حدیث مبارکہ میں ہے: عَنْ أُمِّ کُرْزٍ الْکَعْبِيَّةِ قَالَتْ سَمِعْتُ رَسُولَ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم يَقُولُ عَنِ الْغُلَامِ شَاتَانِ مُکَافِئَتَانِ وَعَنِ الْجَارِيَةِ شَاةٌ. حضرت ام کرز کعبیہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ میں نے رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا کہ لڑکے کی طرف سے دو بکریاں جو کفایت کرنے والی ہوں اور لڑکی کی طرف سے ایک بکری ہے۔ أحمد بن حنبل، المسند، 6: 422، رقم: 27409أبي داود، السنن، 3: 107، رقم: 2842، دار الفکردارمي، السنن، 2: 111، رقم: 1966، بيروت: دار الکتاب العربي ساتویں روز عقیقہ کرنا بھی سنت مبارکہ ہے: عَنْ سَمُرَةَ بْنِ جُنْدُبٍ رضی الله عنه أَنَّ رَسُولَ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم قَالَ کُلُّ غُلَامٍ رَهِينَةٌ بِعَقِيقَتِهِ تُذْبَحُ عَنْهُ يَوْمَ سَابِعِهِ وَيُحْلَقُ وَيُسَمَّی. حضرت سمرہ بن جندب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ہر لڑکا اپنے عقیقے کی وجہ سے مرہون (گروی رکھا ہوا) ہوتا ہے۔ اس کے ساتویں روز جانور ذبح کیا جائے، سر منڈایا جائے اور اس کا نام رکھا جائے۔ أبي داود، السنن، 3: 106، رقم: 2838 اگر گائے، بھینس اور اونٹ میں حصہ ڈال کر عقیقہ کرنا چاہیں تو بھی عقیقہ ہو سکتا ہے۔ فقہا کرام فرماتے ہیں: وکذٰلک اِن أراد بعضهم العقيقه عن ولد ولدله من قبل. اسی طرح اگر قربانی کے حصوں میں بعض افراد پہلے پیدا ہونیوالی اولاد کے عقیقہ کا ارادہ کر لیں تو جائز ہے۔ علاء الدين الکاساني، بدائع الصنائع، 5: 72، دار الکتاب العربيالشيخ نظام وجماعة من علما الهند، 5: 304، دار الفکرابن عابدين شامي، ردالمحتار، 6: 326، دار الفکر للطباعة بيروت معلوم ہوا، اگر ایک بڑے جانور میں کچھ لوگ قربانی کے حصے ڈالیں اور کچھ عقیقہ کے تو جائز ہے یعنی بڑے جانور میں عقیقہ ایک نہیں سات بکریوں کے برابر ہوگا۔ اہل حدیث مسلک کے عالم دین، فتاوی ستاریہ میں لکھتے ہیں: ایک گائے شرعاً سات بکریوں کے قائم مقام ہوتی ہے۔ لہٰذا ایک گائے تین لڑکوں اور ایک لڑکی یا صرف سات لڑکیوں کی طرف سے ہو سکتی ہے۔ فتاوی ستاريه، 3: 3 گائے سات بکریوں کے قائم مقام ہے۔ سات لڑکیوں یا دو لڑکوں اور تین لڑکیوں کی طرف سے عقیقہ ہو سکتا ہے2۔
فتاوی ستاريه، 4: 64 بحواله فتاوی علما حديث، 13: 192، از علی محمد سعيدی جامعه سعيديه خانيوال لہٰذا عقیقہ کرنا سنت ہے اور لڑکے کے لیے دو بکرے یا دو دنبے یا بڑے جانور گائے، بھینس اور اونٹ میں دوحصے اور لڑکی کے لیے ایک بکرا یا دنبہ یا بڑے جانور میں ایک حصہ ہے۔ واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔
حوالہ جات
ترمیم3. فتاوئ ستاریہ ص 458