علی احمد کرد مشہور وکیل اور سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے سابق صدر ہیں وہ 1948 کو کوئٹہ میں پیدا ہوئے۔ دوران طالب علمی سیاست میں حصہ لیا اور حکومت وقت کی پرزور مخالفت کرنے کے باعث صرف سترہ برس کی عمر میں جیل یاترا کر ڈالی۔ اس کے بعد وہ جمہوریت کے بے خوف سپاہی بن کر آمریت پر پے درپے وار کرنے لگے۔ دراصل علی احمد کرد کا تعلق بلوچستان کے ایک ممتاز علمی و سیاسی خاندان سے ہے۔ میر عبد العزیز کرد ان کے چچا تھے جنھوں نے بیسویں صدی کے اوائل میں میر یوسف عزیز مگسی کی معیت میں انگریزوں کے خلاف تحریکِ مزاحمت شروع کی تھی۔ یوں غاصبوں اور آمروں کے خلاف مزاحمت علی احمد کرد کو گھٹی ہی میں مل گئی ۔

علی احمد کرد
معلومات شخصیت
مقام پیدائش کوئٹہ   ویکی ڈیٹا پر (P19) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
شہریت پاکستان   ویکی ڈیٹا پر (P27) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
عملی زندگی
پیشہ کارکن انسانی حقوق ،  وکیل   ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں

سیاسی جدوجہد ترمیم

کرد نے جب ایل ایل بی کا امتحان دیا تو پولیس ان کی تلاش میں تھی۔ یہ ان کی خوش قسمتی تھی کہ وہ امتحان دینے کے بعد ہی اس کے قابو میں آئے ورنہ کرد کا تعلیمی سال برباد ہوجاتا۔ 1973ء میں ایل ایل بی کرنے کے بعد وہ کوئٹہ میں وکالت کرنے لگے۔ اسی سال کرد کو ایک جھوٹے کیس میں پھنسا دیا گیا۔ یوں انھیں چار برس جیل میں گزارنے پڑے۔ رہائی کے بعد وہ پھر بلوچستان بار کونسل کے رکن بنے۔1973 میں جب بھٹو صاحب نے بلوچستان نیشنل عوامی پارٹی کی حکومت کو برطرف کیا تو علی احمد کرد احتجاج کرنے والے اولین رہنماؤں میں شامل تھے۔ حتی کہ گورنر اکبر بگٹی کے خوف سے پارٹی کے رہنما زیر زمین چلے گئے تب بھی طلبہ کے ساتھ برطرفی کے خلاف مظاہرے کرتے رہے۔ یوں وہ اکبر بگٹی کی نظروں میں ناپسندیدہ شخصیت ٹھہرے۔ انھیں دنوں کرد نے کوئٹہ کی کبیر بلڈنگ میں زیادہ وقت گزارا جہاں سردار عطا اللہ مینگل بیٹھتے تھے۔ یوں وہ اکبر بگٹی کے جال میں پھنسے سے بچ گئے۔

وکلا تحریک ترمیم

علی احمد کرد 9 مارچ 2008ء میں چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کی معطلی کے بعد شروع ہونے والی تحریک میں قومی افق پر نمودار ہوئے۔ اور اپنی تقاریر سے اس تحریک میں نئی روح پھونک دی۔ پیپلز پارٹی کی حکومت کی وجہ سے وکلا تحریک کچھ عرصے کے لیے ماند پڑ گئی تھی لیکن اکتوبر 2008 کے آخر میں علی احمد کرد نے سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے انتخاب میں سرکاری امیداور کو شکست فاش دی تو تحریک میں نئی جان پڑ گئی۔ اس انتخاب سے یہ بھی ثابت ہو گیا کہ فتح آخر سچ کی ہوتی ہے۔

شخصیت ترمیم

تقریر کرتے ہوئے علی احمد کرد شعلہ جوالہ بنے نظر آتے ہیں لیکن عام زندگی میں وہ بڑے مہذب نفیس اور رحم دل انسان ہیں۔ فارغ اوقات میں کرد کو پہاڑوں پر چڑھنا اور فطرت کی آغوش میں چلنا پھرنا پسند ہے۔ وہ کوئٹہ کے گرد و نواح میں کھڑے تمام پہاڑوں کی سیر کر چکے ہیں۔