علی بن عیسی ربعی
ابو حسن علی بن عیسیٰ بن فرج بن صالح بغدادی شیرازی ربعی زہیری (328ھ - 420ھ = 940ء- 1029ء) وہ ایک بغدادی نحوی تھے جن کا اصل تعلق شیراز سے تھا۔ چوتھی اور پانچویں صدی ہجری کے ممتاز نحوی علماء میں شمار ہوتے ہیں ۔ عربی نحو کے مؤرخین انہیں بغدادی مکتبۂ نحو کے اہم شخصیات میں شامل کرتے ہیں۔[1]
علی بن عیسی ربعی | |
---|---|
معلومات شخصیت | |
تاریخ پیدائش | سنہ 940ء |
وفات | سنہ 1029ء (88–89 سال) بغداد |
عملی زندگی | |
استاد | Abū ʿAlī al-Fārisī |
درستی - ترمیم |
حالات زندگی
ترمیمابو حسن علی بن عیسی ربعی 328ھ میں پیدا ہوئے۔ ان کا اصل تعلق شیراز سے تھا، مگر زندگی کا زیادہ تر حصہ بغداد میں گزارا۔ وہ زبان و نحو کے عالم تھے اور بغداد میں ابو سعید سیرافی کے شاگرد رہے۔ ابو حسن علی بن عیسی ربعی نے ابو علی فارسی کے "کتاب الإیضاح" کی شرح کے بعد ان سے ملاقات کے لیے شیراز کا سفر کیا، جہاں انہوں نے بیس سال تک ابو علی سے نحو کی تعلیم حاصل کی۔ ان کی ذہانت سے متاثر ہو کر ابو علی نے کہا: "اگر میں مشرق سے مغرب تک سفر کروں تو تم جیسا نحوی نہیں پاؤں گا۔" تعلیم مکمل کرنے کے بعد وہ بغداد واپس آئے اور ابو علی کی تعلیمات کو عین ان کے انداز میں بیان کرتے رہے۔ وہ 420ھ میں 90 سال کی عمر میں بغداد میں وفات پا گئے۔ ابو حسن ربعی کی عجیب و غریب حرکات کی وجہ سے بعض لوگ انہیں دیوانہ سمجھتے تھے ۔ وہ نفسیاتی اضطراب کا شکار تھے جس کے باعث کتے مارنے کی طرف مائل رہتے۔ ایک واقعے میں، جب وہ اور ابن جنی ایک ویرانے کے قریب پہنچے، تو وہاں ایک کتا دیکھ کر اسے مارنے گئے۔ کتا بھاگ گیا، اور ابن جنی انہیں روک نہ سکے۔ الربعی نے طنزاً کہا: "اے ابن جنی! نحو کے ماہر ہو، لیکن کتوں کو قابو کرنا نہیں آتا۔"[2][3][4][5]
مؤلفات
ترمیمتُنسَب إليه المؤلفات التالية:[6][7]
- «البديع».
- «شرح مختصر الجرمي».
- «شرح الإيضاح للفارسي».
- «التنبيه على خطأ ابن جني في فسر شعر المتنبي».
- «المبني على فعال».
- «شرح البلغة».
حوالہ جات
ترمیم- ↑ خير الدين الزركلي (2002)۔ الأعلام۔ مج4 (15 ایڈیشن)۔ دار العلم للملايين۔ صفحہ: 318
- ↑ عبد الكريم الأسعد. الوسيط في تاريخ النحو العربي. دار الشروق للنشر والتوزيع - الرياض. الطبعة الأولى. ص. 131
- ↑ ياقوت الحموي. إرشاد الأريب إلى معرفة الأديب. تحقيق: إحسان عباس. دار الغرب الإسلامي - بيروت. الطبعة الأولى - 1993. الجزء الرابع، ص. 1829
- ↑ أبو البركات الأنباري. نزهة الألباء في طبقات الأدباء. تحقيق: إبراهيم السامرائي. مكتبة المنار - الزرقاء، الأردن. الطبعة الثالثة - 1985. ص. 249
- ↑ خير الدين الزركلي. الأعلام. دار العلم للملايين - بيروت. الطبعة الخامسة - 2002. الجزء الرابع، ص. 318
- ↑ خير الدين الزركلي، ج. 4، ص. 318
- ↑ عمر رضا كحالة. معجم المؤلفين. مكتبة المثنَّى - بيروت، دار إحياء التراث العربي. الجزء السابع، ص. 164