عمرو خالد
اس مضمون کی ویکائی کی ضرورت ہے تاکہ یہ ویکیپیڈیا کے اسلوب تحریر سے ہم آہنگ ہو سکے۔ براہ کرم اس مضمون کی ویکائی میں مدد کریں۔ |
اس مضمون میں کسی قابل تصدیق ماخذ کا حوالہ درج نہیں ہے۔ |
30 اپریل 2006ء کی اشاعت میں معروف امریکی اخبار نیویارک ٹائمز نے دنیا کے مقبول ترین افراد کا ذکر کرتے ہوئے عمرو خالد کو عرب دنیا کا سب سے موثر مسلمان مبلغ قرار دیا تھا۔ بعد ازاں معروف بین الاقوامی جریدے ’’ٹائم ‘‘ نے انھیں دنیا کی پہلی 13 موثر شخصیات میں شامل کیا۔ اب انھیں دنیا کی چھٹی سب سے موثر شخصیت قرار دیا گیا ہے۔ ان کے اندر روایتی مسلمان سکالرز جیسی خصوصیت نہیں ہے۔ انھوں نے کسی دینی مدرسے سے سند فضیلت حاصل نہیں کی۔
عمرو محمد حلیمی خالد 5 ستمبر 1967ء کو مصر کے شہر اسکندریہ میں پیدا ہوئے۔ انھوں نے 1988 میں قاہرہ یونیورسٹی سے اکاونٹنگ میں گریجویشن کیا۔ 2001ء میں اسلامک سٹڈیز انسٹی ٹیوٹ سے ایک ڈپلوما کیا۔ 1990ء میں اس وقت اتفاقیہ تبلیغ کا سلسلہ شروع کیا جب وہ اکاونٹنٹ تھے۔ دراصل ان کی برتھ ڈے پارٹی تھی کہ حاضرین نے ان سے گفتگو کی فرمائش کی۔ انھوں نے اچھا خاص لیکچر دے دیا۔ سامعین اس قدر متاثر ہوئے کہ اس کے بعد آ نے والے دنوں میں انھوں نے عمرو خالد سے مزید لیکچرز کی فرمائش کی۔ یوں وہ ریگولر لیکچرر بن گئے۔ انھوں نے اپنے گھر میں بھی یہ سلسلہ شروع کر دیا۔ پھر قاہرہ کے اپر کلاس طبقے نے بھی ان کے لیکچرز کی فرمائش شروع کر دی۔
ان کے لیکچرز کی شہرت یوں پھیلی کہ الحسیری مسجد، قاہرہ میں انھیں لیکچر کے لیے بلایا گیا۔ وہاں 40 ہزار افراد نے ان کا لیکچر سنا۔ 1998 میں انھوں نے ملازمت کو خیر آباد کہا اور سارا وقت تبلیغ دین کے لیے وقف کر دیا۔ سیٹلائٹ ٹی وی چینلز میں ان کے لیکچرز بہت زیادہ مقبول ہوئے۔ ان کے سامعین اور ناظرین کی عمریں 15 سے 35 برس کے درمیان ہوتی ہیں۔ یہ بات بھی دلچسپ ہے کہ ان میں سے زیادہ تر کا تعلق اپر مڈل کلاس سے ہوتا ہے۔ عمرو خالد کا کہنا ہے کہ یہی وہ لوگ ہیں جو عالم اسلام میں تبدیلی پدا کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔
مصر کے دولت مند خاندانوں اور موثر لوگوں میں عمرو خالد کی پسندیدگی بڑھتی چلی جا رہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مصری حکومت نے انھیں جلاوطنی کی زندگی گزارنے پر مجبور کر رکھا ہے۔ عمرو خالد وقتا فوقتاً اپنے ساتھیوں کے ہمراہ جنگل میں جاکر ترتیبی کیمپ بھی منعقد کرتے ہیں۔ ان کیمپوں میں شریک افراد بتاتے ہیں کہ عمرو خالد ان کے ساتھ ہی خیموں میں سوتے ہیں۔ وہی غزا کھاتے ہیں جو باقی لوگوں کے لیے ہوتی ہے۔ برتن دھونے کا معاملہ ہو یا دیگر امور ایک عام فرد کی طرح اپنی ذمہ داریاں ادا کرتے ہیں۔ ان کی عمر محض چالیس برس ہے۔ وہ کسی کی بہتری کے لیے کوشاں رہتے ہیں۔ اور ہر روز 200 افراد کا فون سنتے ہیں۔
عمرو خالد کا کہنا ہے کہ اسلام ہماری زندگی کے سارے پہلوؤں پر غالب آنا چاہیے۔ اس کے نتیجے میں ہمارا رویہ بہتر ہونا چاہیے۔ ہمارے ہاں عموماً دو قسم کے لوگ ہوتے ہیں۔ ایک وہ جو عبادات کا خوب اہتمام کرتے ہیں لیکن ان کا رویہ اچھا نہیں ہوتا۔ دوسرے وہ جن کا رویہ اچھا ہوتا ہے لیکن وہ عبادات کے حوالے سے غافل ہوتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ کیا ہم دونوں خصوصیات اپنے اندر پیدا نہیں کرسکتے؟
ان کی نظر میں مسلمان ممالک کا سنگین مسئلہ بے روزگاری ہے۔ اس لیے وہ زراعت، سمال انڈسٹریز، تعلیم صحت کے شعبے سمیت دیگر شعبہ جات میں جدوجہد کر رہے ہیں۔ اس جدوجہد میں کئی علاقوں میں شاندار نتائج حاصل ہوئے ہیں۔ 2003ء میں عمرو خالد نے رائٹ سٹارٹ فاؤنڈیشن کے نام سے ایک خیراتی ادارہ قائم کیا۔ یہ ایک نان پرافٹ فاؤنڈیشن ہے۔ اس کا مقصد مغرب میں ایسے پراجیکٹ شروع کرنا ہے جس میں عرب ملکوں کے نوجوان اپنے کردار ادا کر سکیں۔ ان کے زیر نگرانی بہت سے تعلیمی اداروں کا بھی ایک جال بچھا ہوا ہے جہاں مکمل تعلیمی سہولیات مفت فراہم کی جاتی ہے۔ عمرو خالد کے لیکچرز پوری دنیا کے لاکھوں لوگ سنتے ہیں۔ ان کی کتابوں کے دنیا کی کئی زبانوں میں تراجم ہو چکے ہیں۔ ان کی ویب سائیٹ کا شمار دنیا کی سب سے زیادہ دیکھی جانے والی ویب سائیٹس میں ہوتا ہے۔
عمرو خالد کو اس بات کا مکمل یقین ہے ان کے ساتھ تعلق والے لوگ اپنے خطے میں اخلاقی، سائنسی، ثقافتی اور معاشی انقلاب لائیں گے۔ وہ پہلے لوگوں کو ایمان کی طرف دعوت دیتے ہیں اس کے بعد انھیں اس کے ذریعے ترقی کی شاہراہ پر سفر کرنے کی دعوت دیتے ہیں۔ عمرو خالد سخت گیری کے حق میں نہیں ہیں اس لیے وہ القاعدہ کے رہنما اسامہ بن لادن کی حکمت عملی سے اختلاف کرتے ہیں۔
وہ ایک جدید اسلامی سوچ رکھنے والی شخصیت ہیں۔ لیکن مغرب اور مصری حکومت کی ان کے بارے میں رائے مختلف ہے۔ مصری حکومت کے فنڈز سے جاری ہونے والے لبرل جریدے ’’جمہوریہ‘‘ کی ایڈیٹر ہالا مصطفی کا کہنا ہے کہ خالد بھی یہاں کے روایتی علما جیسی سوچ اور نظریات رکھنے والی شخصیت ہیں فرق صرف اتنا ہے کہ وہ ان کا مسکراتا ہوا چہرہ ہیں۔ ان کا سٹائل اخوان المسلمون جیسا ہی ہے۔ ان میں سے کوئی سخت موقف رکھنے والا ہو یا نرم خو، سب کا ایک ہی مقصد ہے۔
مغربی ذرائع ابلاغ کے مطابق چونکہ عمرو خالد حجاب کے حق میں ہیں اس لیے وہ قدامت پسندی سے پیچھا کیسے چھڑا سکتے ہیں۔ عمرو خالد کہتے ہیں کہ حجاب کا اہتمام نہ کرنا سب سے بڑا گناہ ہے۔ اس حوالے سے وہ بہت زیادہ زور دیتے ہیں۔ اپنے ایک لیکچر کے دوران انھوں نے مسلمان لڑکیوں پر شدید تنقید کی جو مغربی طرز زندگی اختیار کرتی ہیں اور حجاب کا اہتمام نہیں کرتیں۔
خالد کہتے ہیں کہ ہمیں مغربی اقدار سے بچنا چاہیے۔ مغربی لوگ ڈپریشن، خودکشیوں، منشیات اور خاندانی ٹوٹ پھوٹ کے شکار ہو چکے ہیں۔ ہماری خواہش ہے کہ یہ مغربی لوگ واپس صراط مستقیم پر اللہ کے نظام کی طرف آ جائیں۔ انڈیپینڈنٹ کے ڈیورڈ ہارڈیکر کا کہنا ہے کہ جب ایک شخص کی سوچ اس طرح کی ہوگی تو وہ مشرق و مغرب کے درمیان پل کا کردار کیسے ادا کر سکتا ہے۔ اس کا جواب دیتے ہوئے عمرو خالد کہتے ہیں کہ پل کا کردار ادا کرنے کا مطلب یہ نہیں کہ ہم مغربی طرز زندگی کو اپنا لیں۔ مغربی طرز زندگی کی بعض چیزوں کو ہم کسی طور پر بھی اپنا نہیں سکتے۔ ہمارے اور ان کے کلچر میں بہت سی ایسی چیزیں ہیں جس پر اختلاف ہے۔