مصر

براعظم افریقا کا اسلامی ملک
  

عرب جمہوریہ مصر یا مصر، جمهورية مصر العربية (قبطی زبان:Ⲭⲏⲙⲓ Khēmi)، بر اعظم افریقا کے شمال مغرب اور بر اعظم ایشیا کے سنائی جزیرہ نما میں واقع ایک ملک ہے۔ مصر کا رقبہ 1،001،450 مربع کلومیٹر ہے۔ مصر کی سرحدوں کو دیکھا جائے تو شمال مشرق میں غزہ پٹی اور اسرائیل، مشرق میں خلیج عقبہ اور بحیرہ احمر، جنوب میں سوڈان، مغرب میں لیبیا اور شمال میں بحیرہ روم ہیں۔ خلیج عقبہ کے اس طرف اردن، بحر احمر کے اس طرف سعودی عرب اور بحیرہ روم کے دوسری جانب یونان، ترکی اور قبرص ہیں حالانکہ ان میں سے کسی کے ساتھ بھی مصر کی زمینی سرحد نہیں ملتی ہے۔

مصر
مصر
مصر
پرچم
مصر
مصر
نشان

 

شعار
(عربی میں: مصر أمّ الدنيا ویکی ڈیٹا پر (P1451) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
ترانہ:  بلادی، بلادی، بلادی  ویکی ڈیٹا پر (P85) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
زمین و آبادی
متناسقات 27°N 29°E / 27°N 29°E / 27; 29  ویکی ڈیٹا پر (P625) کی خاصیت میں تبدیلی کریں[1]
بلند مقام
پست مقام
رقبہ
دارالحکومت قاہرہ  ویکی ڈیٹا پر (P36) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
سرکاری زبان عربی[2]  ویکی ڈیٹا پر (P37) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
آبادی
حکمران
طرز حکمرانی جمہوریہ  ویکی ڈیٹا پر (P122) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
اعلی ترین منصب عبدالفتح السیسی (8 جون 2014–)  ویکی ڈیٹا پر (P35) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
سربراہ حکومت مصطفی مدبولی (14 جون 2018–)  ویکی ڈیٹا پر (P6) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
قیام اور اقتدار
تاریخ
یوم تاسیس 28 فروری 1922  ویکی ڈیٹا پر (P571) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
عمر کی حدبندیاں
شادی کی کم از کم عمر
لازمی تعلیم (کم از کم عمر)
لازمی تعلیم (زیادہ سے زیادہ عمر)
دیگر اعداد و شمار
منطقۂ وقت 00 (معیاری وقت)
متناسق عالمی وقت+03:00 (روشنیروز بچتی وقت)[3]  ویکی ڈیٹا پر (P421) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
ٹریفک سمت دائیں[4]  ویکی ڈیٹا پر (P1622) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
ڈومین نیم eg.  ویکی ڈیٹا پر (P78) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
آیزو 3166-1 الفا-2 EG  ویکی ڈیٹا پر (P297) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
بین الاقوامی فون کوڈ +20  ویکی ڈیٹا پر (P474) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
Map
اگر یہ آپ کا مطلوبہ صفحہ نہیں تو دیکھیے، مصری (ضدابہام)

کسی بھی ملک کے مقابلے میں مصر کی تاریخ سب سے پرانی اور طویل ہے اور اس کی تاریخی ابتدا 6 تا 4 ملنیا قبل مسیح مانی جاتی ہے۔ مصر کو گہوارہ ثقافت بھی مانا جاتا ہے۔ قدیم مصر میں کتب، زراعت، شہرکاری، تنظیم اور مرکزی حکومت کے آثار ملتے ہیں۔[5] مصر میں دنیا کے قدیم ترین یادگار عمارتیں موجود ہیں جو مصر کی قدیم وراثت، تہذیب، فن اور ثقافت کی گواہی دیتی ہیں۔ ان میں اہرامات جیزہ، ابوالہول، ممفس، مصر، طیبہ اور وادی ملوک شامل ہیں۔ ان مقامات پر اکثر سائنداں اور محققین تحقیق میں سرگرداں نظر آتے ہیں اور مصر کی قدیم روایات اور تاریخی حقائق سے آشکارا کرتے ہیں۔ مصر کی قدیم تہذیب ہی وہاں کی قومی علامت ہے جسے بعد میں یونانی قوم، فارس، قدیم روم، عرب قوم، ترکی عثمانی اور دیگر اقوام نے متاثر کرنے کی کوشش کی ہے۔ قدیم مصر مسیحیت کا ایک بڑا مرکز تھا لیکن 7ویں صدی میں مسلمانوں نے یہاں اپنے قدم جمانے شروع کیے اور مصر مکمل طور سے مسلم اکثریت ملک بن گیا مگر عیسائی بھی وہاں موجود رہے گوکہ اقلیت میں تھے۔

سولہویں صدی تا بیسویں صدی کے آغاز تک مصر پر بیرونی طاقتوں نے حکومت کی۔ شروع میں سلطنت عثمانیہ اور بعد میں سلطنت برطانیہ نے مصر کو اپنی حکومت کا حصہ بنایا۔ جدید مصر کا آغاز 1922ء سے ہوا جب مصر کو برطانیہ سے آزادی ملی مگر آزادی کے بعد وہاں بادشاہت قائم ہو گئی۔ البتہ اب بھی وہاں برطانوی فوج کا غلبہ تھا اور کئی مصریوں کا کہنا ہے کہ بادشاہت دراصل برطانیہ کی ایک چال تھی تاکہ مصر ان کی کالونی کا حصہ بنا رہے۔ مصری انقلاب، 1952ء میں مصریوں نے برطانوی فوج اور افسروں کو اپنے ملک سے بھگادیا اور اس طرح مصر سے برطانیہ کا مکمل خاتمہ ہو گیا۔ برطانوی نہر سوئز کا قومیا لیا گیا اور شاہ فاروق اول کو مع اہل خانہ ملک بدر کر دیا گیا۔ اس طرح مصر ایک جمہوری ملک بن گیا۔ 1958ء میں جمہوریہ سوریہ کے ساتھ مل کر متحدہ عرب جمہوریہ کی بنیاد ڈالی گئی مگر 1961ء میں اسے تحلیل کرنا پرا۔ بیسویں صدی کے نصف آخر میں مصر میں سماجی اور مذہبی اتار چڑھاو دیکھنے کو ملا جس کی وجہ سیاسی عدم استحکام کی صورت حال پیدا ہو گئی اور اسی دوران میں 1948ء میں اسرائیل کے ساتھ تنازع، 1956ء میں سوئز بحران، 1967ء میں چھ روزہ جنگ اور 1973ء میں جنگ یوم کپور جیسے ناخوشگوار واقعات رونما ہوئے۔ مصر نے 1967ء تک غزہ پٹی پر اپنا قبضہ برقرار رکھا۔ 1978ء میں مصر نے کیمپ ڈیوڈ معاہدہ پر دستخط کیے اور غزہ پٹی سے اپنا قبضہ واپس لے لیا اور ساتھ ہی ساتھ اسرائیل کو ایک ملک کی حیثیت سے تسلیم کر لیا۔ ملک میں بدستور سیاسی ہنگامہ جاری رہا اور بے امنی کا دور دورہ رہا۔ 2011ء میں پھر ایک انقلاب برپا ہوا اور مصر کی سیاست میں زبردست تبدیلی آئی۔ اسی دوران مصر دہشت گردی کی زد میں رہا اور معاشی مسائل سے بھی دوچار رہا۔ مصر کی موجودہ حکومت بین صدارتی جمہوریہ ہے اور مصر کے موجودہ صدر عبدالفتاح السیسی ہیں۔ سیاست میں انھیں آمر کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔

مصر کا سرکاری مذہب اسلام ہے اور سرکاری زبان عربی ہے۔[6] مصر کی کل آبادی تقریباً 95 ملین ہے اور اس طرح یہ شمالی افریقا، مشرق وسطی اور عرب دنیا کا سب سے زیادہ آبادی والا ملک ہے۔ نائیجیریا اور ایتھوپیا کے بعد بر اعظم افریقا کا تیسرا بڑا آبادی والا ملک ہے اور دنیا بھر میں بلحاظ آبادی اس کا نمبر 15واں ہے۔ ملک کی زیادہ تر آبادی دریائے نیل کے کنارے پر بسی ہوئی ہے۔ ملک یا زیادہ تر زمینی حصہ صحرائے اعظم پر مشتمل ہے جو تقریباً ناقابل آباد ہے۔ کثیر آبادی والے علاقوں میں قاہرہ، اسکندریہ اور دریائے نیل کے جزیرے ہیں۔

مصر کی خود مختار ریاست شمالی افریقا، مشرق وسطی اور عالم اسلام میں ایک مضبوط حکومت مانی جاتی ہے۔ دنیا بھر میں مصر ایک اوسط درجہ کی طاقتور حکومت ہے۔[7] مصر کی معیشت مشرق وسطی کی بڑی معیشتوں میں شمار کی جاتی ہے اور اکیسویں صدی میں اس کے دنیا کی بڑی معیشتوں میں شمار ہونے کا امکان ہے۔ 2016ء میں جنوبی افریقا کو پیچھے چھوڑتے ہوئے مصر نائیجیریا کے بعد افریقا کی سب سے بڑی معیشت بن گیا۔[8][9] مصر مندرجہ ذیل تنظیموں کا بانی/شرک بانی اور رکن ہے؛

نام

مصر (بکسر المیم) Miṣr" (عربی تلفظ: [mesˤɾ]; "مِصر") is the کلاسیکی عربی خالص کلاسیکی عربی کا لفظ ہے اور قرآن میں بھی اسی نام سے پکارا گیا ہے۔ اس کا یہی نام زماہ قدیم سے چلا آرہا ہے۔ البتہ مصری عربی میں Maṣr" (مصری عربی تلفظ: [mɑsˤɾ]; مَصر) (بفتح المیم) کہتے ہیں۔ [10]

فہرست متعلقہ مضامین مصر

مزید دیکھیے

حوالہ جات

  1.     "صفحہ مصر في خريطة الشارع المفتوحة"۔ OpenStreetMap۔ اخذ شدہ بتاریخ 17 مارچ 2024ء 
  2. باب: 2
  3. https://data.iana.org/time-zones/tzdb-2021e/africa
  4. http://chartsbin.com/view/edr
  5. Béatrix Midant-Reynes (2000)۔ The Prehistory of Egypt: From the First Egyptians to the First Kings۔ Oxford: Blackwell Publishers 
  6. "Constitution of The Arab Republic of Egypt 2014" (PDF)۔ sis.gov.eg۔ 18 جولائی 2015 میں اصل (PDF) سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 13 اپریل 2017 
  7. Andrew F. Cooper، Agata Antkiewicz، Timothy M. Shaw (2007)۔ "Lessons from/for BRICSAM about south–north Relations at the Start of the 21st Century: Economic Size Trumps All Else?"۔ International Studies Review۔ 9 (4): 673–689۔ JSTOR 4621867۔ doi:10.1111/j.1468-2486.2007.00730.x 
  8. "South Africa just lost its spot as Africa's second largest economy"۔ 13 نومبر 2017 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 11 نومبر 2017 
  9. "South Africa's Economy Falls To Third Behind Nigeria, Egypt"۔ 1 دسمبر 2017 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 19 نومبر 2017 
  10. T. Z. (1928)۔ "Il-Belt (Valletta)" (PDF)۔ Il-Malti (بزبان المالطية) (2 ایڈیشن)۔ Il-Ghaqda tal-Kittieba tal-Malti۔ 2 (1): 35۔ 17 اپریل 2016 میں اصل (PDF) سے آرکائیو شدہ