غائبانہ نماز جنازہ سے مراد ایسا جنازہ جس میں میت سامنے موجود نہ ہو۔
محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے نجاشی کی موت کی خبر دی اور کہا ان کے جنازہ کی غائبانہ نماز پڑھو۔ نجاشی شاہ حبشہ جس کا نام اصحمہ جو اہل کتاب میں سے تھا۔ اس نے مسلمانوں کی اس وقت بھرپور حمایت کی جب مسلمان ہجرت کر کے حبشہ پہنچے اور قریش مکہ کا ایک وفد انھیں واپس لانے کے لیے شاہ حبشہ کی خدمت میں حاضر ہوا۔ شاہ نے نہ صرف یہ کہ مسلمانوں کو واپس نہیں کیا اور انھیں پناہ دی بلکہ برملا اعتراف کیا کہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) اور مریم کے معاملہ میں مسلمانوں کے عقائد بالکل درست اور عیسیٰ (علیہ السلام) کی تعلیمات کے عین مطابق ہیں۔ پھر مسلمانوں کے ساتھ بہتر سے بہتر سلوک کیا۔ اور مسلمان ہو گیا جب وہ فوت ہوا تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مسلمانوں کو اس کی وفات پر مطلع کرتے ہوئے فرمایا کہ اپنے بھائی کی نماز جنازہ پڑھو۔ چنانچہ اس کی غائبانہ نماز جنازہ پڑھی گئی۔[1][2]

غائب میت کی نماز جنازہ پڑھنے میں مذاہب ائمہ

ترمیم

امام محمد بن اسماعیل بخاری متوفی 256ھ روایت کرتے ہیں : ابوہریرہ بیان کرتے ہیں جس دن نجاشی فوت ہوا نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کی موت کی خبر دی‘ آپ عیدگاہ کی طرف گئے مسلمانوں نے صفیں باندھیں اور آپ نے چار تکبیریں پڑھیں۔[3] امام ابو محمد حسین بن مسعود شافعی متوفی 516ھ لکھتے ہیں:
نجاشی کافر قوم کے درمیان تھا وہ مسلمان تھا اور کافروں سے اپنا ایمان چھپاتا تھا‘ اور جس جگہ وہ تھا وہاں اس کی نماز جنازہ پڑھ کر اس کا حق ادا کرنے والا کوئی نہ تھا اس لیے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کی نماز جنازہ پڑھنے کا اہتمام کیا اسی طرح جس شخص کو معلوم ہو کہ ایک مسلمان ایسی جگہ فوت ہو گیا جہاں اس کی نماز پڑھنے والا کوئی نہیں ہے تو اس پر اس شخص کی نماز جنازہ پڑھنا لازم ہے‘ اس حدیث کے فوائد سے یہ ہے کہ غائب میت کی نماز جنازہ جائز ہے‘ وہ لوگ قبلہ کی طرف منہ کریں اس شخص کے شہر کی طرف منہ نہ کریں اکثر اہل علم کا یہی قول ہے اور بعض ائمہ کا قول یہ ہے کہ غائب کی نماز جنازہ جائز نہیں ہے یہ اصحاب رائے (ائمہ احناف اور مالکیہ) کا قول ہے ان کا قول یہ ہے کہ یہ نماز نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ مخصوص ہے اور یہ قول ضعیف ہے کیونکہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے افعال کی اقتداء واجب ہے جب تک کہ تخصیص کی دلیل نہ پائی جائے اور تخصیص کا دعوی صحیح نہیں ہے کیونکہ صرف نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے نجاشی کی نماز نہیں پڑھی تھی بلکہ مسلمانوں نے بھی آپ کے ساتھ اس کی نماز پڑھی تھی۔[4]
علامہ کمال الدین محمد بن عبد الواحید المعروف بابن الھمام المتوفی 861ھ لکھتے ہیں : محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے نجاشی کی نماز جنازہ اس لیے پڑھی تھی کہ آپ کے سامنے اس کا تخت لایا گیا تھا‘ حتی کہ آپ نے اس کو دیکھ لیا تھا، سو یہ اس میت پر نماز تھی جس کو امام دیکھ رہا تھا اور اس کا جنازہ امام کے سامنے تھا اور مقتدیوں کے سامنے نہیں تھا اور یہ اقتداء سے مانع نہیں ہے‘ ہر چند کہ یہ ایک احتمال ہے لیکن اس کی تائید اس سے ہوتی ہے کہ عمران بن الحصین بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا تمھارا بھائی نجاشی فوت ہو گیا اٹھو اس پر نماز پڑھو‘ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کھڑے ہوئے اور صحابہ نے آپ کے پیچھے صفیں باندھیں‘ آپ نے چار تکبیریں پڑھیں اور وہ یہ گمان نہیں کرتے تھے کہ اس کا جنازہ آپ کے سامنے تھا[5]
اس حدیث میں اشارہ ہے کہ واقع میں ان کے گمان کے خلاف تھا‘ یا تو عمران نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سن لیا تھا اور یا ان کے لیے جنازہ منکشف کر دیا گیا تھا‘ یا یہ صرف نجاشی کی خصوصیت تھی اور دوسرا کوئی اس کے ساتھ لاحق نہیں ہے جیسے خزیمہ بن ثابت کی یہ خصوصیت ہے کہ ان کی شہادت دو شہادتوں کے برابر ہے‘ اگر یہ اعتراض کیا جائے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے دوسرے صحابہ کی بھی غائبانہ نماز جنازہ پڑھی ہے‘ جیسے معاویہ بن معاویہ مزنی ‘ حضرت جبرائیل (علیہ السلام) تبوک میں نازل ہوئے اور کہا یا رسول اللہ ! معاویہ بن معاویہ مزنی مدینہ میں فوت ہو گئے کیا آپ یہ پسند کرتے ہیں کہ آپ کے لیے زمین سمیٹ دی جائے اور آپ اس کی نماز جنازہ پڑھ لیں؟ آپ نے فرمایا : ہاں ! انھوں نے اپنے دونوں پر زمین پر زمین پر مارے تو ان کا تخت اٹھا کر آپ کے سامنے رکھ دیا گیا‘ آپ نے ان کی نماز جنازہ پڑھی اور آپ کے پیچھے فرشتوں کی دو صفیں تھیں‘ اور ہر صف میں ستر ہزار فرشتے تھے‘ پھر وہ تخت واپس ہو گیا‘ نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم نے حضرت جبرائیل (علیہ السلام) سے پوچھا کہ معاویہ نے یہ فضیلت کس وجہ سے حاصل کی۔ انھوں نے کہا وہ سورۃ ’’ قل ھو اللہ احد‘‘۔ سے محبت رکھتے تھے اور آتے جاتے‘ اٹھتے بیٹھتے ہرحال میں اس کو پڑھتے تھے۔ (اس حدیث کو امام طبرانی نے ابو امامہ سے روایت کیا ہے‘ مسند الشامیین‘ رقم الحدیث : 831‘ المعجم الکبیر‘ رقم الحدیث : 7537‘ اور امام ابن السنی نے بھی روایت کیا ہے عمل الیوم واللیلۃ رقم الحدیث : 180) اور امام ابن سعد نے اس کو طبقات میں انس سے روایت کیا ہے‘ اور امام واقدی نے مغازی میں روایت کیا ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) منبر پر بیٹھے ہوئے تھے‘ آپ نے فرمایا زید بن حارثہ نے جھنڈا لیا اور وہ لڑتے رہے حتی کہ وہ شہید ہو گئے پھر آپ نے ان پر نماز جنازہ پڑھی اور ان کے لیے دعا کی‘ آپ نے فرمایا ان کے لیے استغفار کرو‘ وہ جنت میں داخل ہو گئے اور وہاں دوڑ رہے ہیں‘ پھر جعفر بن ابی طالب نے جھنڈا لیا اور وہ لڑتے لڑتے شہید ہو گئے پھر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کی نماز جنازہ پڑھی اور ان کے لیے دعا کی‘ آپ نے فرمایا ان کے لیے استغفار کرو‘ وہ جنت میں داخل ہو گئے اور اپنے دو پروں کے ساتھ جہاں چاہے جنت میں دوڑ رہے ہیں۔[6] اس کا جواب یہ ہے کہ ہم نے خصوصیت کا دعوی اس وقت کیا ہے جب ان کا تخت لایا گیا ہو نہ وہ دکھائی دیے گئے ہوں‘ علاوہ ازیں مغازی میں اس کی دونوں سندیں ضعیف ہیں اور یہ حدیث مرسل ہے اور طبقات کی سند میں علاء بن یزید ضعیف ہے اور امام طبرانی کی سند میں بقیہ بن ولید معنعن ہے‘ پھر خصوصیت کی دلیل یہ ہے کہ آپ نے ان لوگوں اور نجاشی کے سوا اور کسی کی نماز جنازہ نہیں پڑھی‘ اور ان کے متعلق یہ تصریح ہے کہ ان کا جنازہ آپ کے سامنے لایا گیا تھا اور آپ ان کو دیکھ رہے تھے‘ جب کہ بہت سے صحابہ متعدد سفروں میں غائبانہ فوت ہوجاتے تھے مثلا حبشہ اور متعدد غزوات میں‘ اور سب سے زیادہ عزیز آپ کو ستر قاری تھے جن کو تبلیغ کے لیے کافر لے گئے اور ان کو قتل کر دیا لیکن یہ کہیں منقول نہیں ہے کہ آپ نے ان میں سے کسی کی نماز جنازہ پڑھی ہو حالانکہ صحابہ میں سے جو فوت ہوجاتے آپ اس کی نماز جنازہ پرھنے پر بہت حریص تھے حتی کہ آپ نے فرمایا تم میں سے جو شخص بھی مر جائے تم مجھے اس کی خبر دو کیونکہ اس کے اوپر میری نماز (جنازہ) اس کے لیے رحمت ہے۔[7][8][9][10][11][12][13][14][15] نجاشی صدق دل سے حضور پر نور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر ایمان لے آیا اور جب اس کا انتقال ہو گیا تو حضور پرنور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کی غائبانہ نماز جنازہ پڑھی اور بعض روایات میں ہے کہ عرصہ تک اس کی قبر پر نور دیکھا گیا۔ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کہیں یہ ثابت نہیں ہوا کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے سوائے نجاشی کے کسی کی نماز جنازہ غائبانہ پڑھی ہو۔ سو یہ نجاشی کی خصوصیت ہے اور وجہ اس کی یہ ہے کہ بطور معجزہ نجاشی کا جنازہ حضور پر نور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سامنے حاضر کر دیا گیا تھا۔ جیسا کہ عمران بن حصین کی حدیث میں اس کی تصریح ہے۔ اسی وجہ سے امام ابو حنیفہ اور امام مالک غائبانہ نماز جنازہ کے قائل نہیں۔ بعض فقہا نے اس کی اجازت دی ہے۔[16] امام احمد اور امام شافعی غائبانہ نماز جنازہ کی پر زور تائید کرتے تھے۔ اہل تشییع غائبانہ نماز میت کو درست نہیں سمجھتے ہیں ان کے ہاں میت پیش نماز کے سامنے اس طرح سے رکھنا ضروری ہے کہ میت کا سر نمازیوں کی دائیں طرف اور اس کے پاؤں بائیں طرف ہوں۔[17] نماز گزار رو بقبلہ کھڑا ہو۔[18] اس کے اور میت کے درمیان زیادہ فاصلہ نہ ہو[19] اور وہ کھڑے ہو کر نماز پڑھے۔[20]

مزید دیکھیے

ترمیم

حوالہ جات

ترمیم
  1. رواہ البخاری : کتاب الجنائز، باب الصفوف علی الجنازۃ
  2. تفسیر فہم القرآن میاں محمد جمیل میاں محمد جمیل آل عمران113
  3. صحیح البخاری، رقم الحدیث : 3881، صحیح مسلم، رقم الحدیث : 951
  4. شرح السنہ ج 3 ص 240، مطبوعہ دارالکتب العلمیہ بیروت، 1412ھ
  5. ، صحیح ابن حبان‘ رقم الحدیث 3102
  6. کتاب المغازی ج 2 ص 62۔ 761، مطبوعہ عالم الکتب بیروت
  7. مسند احمد ج 4 ص 388
  8. مصنف ابن ابی شیبہ ج 3 ص 276۔ 275
  9. سنن نسائی ج 4 ص 84
  10. سنن ابن ماجہ، رقم الحدیث : 2528
  11. المستدرک ج 3 ص 591
  12. صحیح ابن حبان، رقم الحدیث 3092۔ 3087
  13. سنن کبری للبیہقی ج 4 ص 35
  14. فتح القدیر ج 2 ص 121-22 مطبوعہ داراحیاء التراث العربی بیروت، 1415
  15. تفسیر تبیان القرآن،مولانا غلام رسول سعیدی، آل عمران آیت 199
  16. تفسیر معارف القرآن مولاناادریس کاندھلوی، مریم آیت1
  17. شهید ثانی، الروضة البهیہ، 1410ق، ج1، ص426.
  18. نجفی، جواهر الکلام، 1404ق، ج12، ص53.
  19. نجفی، جواهر الکلام، 1404ق، ج12، ص67.
  20. شهید ثانی، الروضة البهیہ، 1410ق، ج1، ص425.