محمد بن عبد اللہ
ابو القاسم محمد بن عبد اللہ بن عبد المطلب (12 ربیع الاول عام الفیل / اپریل 570ء یا 571ء – 12 ربیع الاول 10ھ / 8 جون 632ء) مسلمانوں کے آخری نبی ہیں۔ اہل اسلام کے نزدیک محمد تمام مذاہب کے پیشواؤں سے کامیاب ترین پیشوا تھے۔[1] آپ کی کنیت ابو القاسم تھی۔ مسلمانوں کے عقیدہ کے مطابق حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اللہ کی طرف سے انسانیت کی جانب بھیجے جانے والے انبیائے کرام کے سلسلے کے آخری نبی ہیں جن کو اللہ نے اپنے دین کی درست شکل انسانوں کی جانب آخری بار پہنچانے کے لیے دنیا میں بھیجا۔ انسائیکلوپیڈیا بریٹانیکا کے مطابق آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم دنیا کی تمام مذہبی شخصیات میں سب سے کامیاب شخصیت تھے۔[2] 570ء (بعض روایات میں 571ء) مکہ میں پیدا ہونے والے حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر قرآن کی پہلی آیت چالیس برس کی عمر میں نازل ہوئی۔ ان کا وصال تریسٹھ (63) سال کی عمر میں 632ء میں مدینہ میں ہوا، مکہ اور مدینہ دونوں شہر آج کے سعودی عرب میں حجاز کا حصہ ہیں۔ حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم بن عبداللہ بن عبدالمطلب بن ہاشم بن عبد مناف کے والد کا انتقال ان کی دنیا میں آمد سے قریبا چھ ماہ قبل ہو گیا تھا اور جب ان کی عمر چھ سال تھی تو ان کی والدہ حضرت آمنہ بھی اس دنیا سے رحلت فرما گئیں۔ عربی زبان میں لفظ "محمد" کے معنی ہیں 'جس کی تعریف کی گئی'۔ یہ لفظ اپنی اصل حمد سے ماخوذ ہے جس کا مطلب ہے تعریف کرنا۔ یہ نام ان کے دادا حضرت عبدالمطلب نے رکھا تھا۔ محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو رسول، خاتم النبیین، حضور اکرم، رحمۃ للعالمین اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے القابات سے بھی پکارا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ بھی آپ کے بہت نام و القاب ہیں۔ نبوت کے اظہار سے قبل حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اپنے چچا حضرت ابوطالب کے ساتھ تجارت میں ہاتھ بٹانا شروع کر دیا۔ اپنی سچائی، دیانت داری اور شفاف کردار کی وجہ سے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم عرب قبائل میں صادق اور امین کے القاب سے پہچانے جانے لگے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اپنا کثیر وقت مکہ سے باہر واقع ایک غار میں جا کر عبادت میں صرف کرتے تھے اس غار کو غار حرا کہا جاتا ہے۔ یہاں پر 610ء میں ایک روز حضرت جبرائیل علیہ السلام (فرشتہ) ظاہر ہوئے اور محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو اللہ کا پیغام دیا۔ جبرائیل علیہ السلام نے اللہ کی جانب سے جو پہلا پیغام حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو پہنچایا وہ یہ ہے۔
محمد ﷺ بن عبد اللہ | ||
---|---|---|
اسم النَّبي مُحمَّد | ||
احمد، ابو القاسم، ابوالطیب، نبی التوبہ، نبی الرحمۃ، بدر الدجی، نور الہدی، خیر البری، نبی المرحمۃ، نبی الملحمۃ، الرحمۃ المہداۃ، حبیب الرحمن، المختار، المصطفٰی، المجتبی، الصادق، المصدق، الامین، صاحب مقام المحمود، صاحب الوسیلۃ والدرجۃ الرفیعۃ، صاحب التاج والمعراج، امام المتقین، سید المرسلین، النبی الامی، رسول اللہ، خاتم النبیین، الرسول الاعظم، السراج المنیر، الرؤوف الرحیم، العروۃ الوثقی | ||
پیدائش | 12 ربیع الاول 53 ق.ھ، 1 عام الفیل/ 22 اپریل 571ء (مشہور قول کے مطابق) مکہ مکرمہ | |
وفات | 12 ربیع الاول 11ھ / 8 جون 632ء مدینہ منورہ | |
معظم در | اسلام | |
بعثت | رمضان 12ھ / اگست 610ء، غار حرا در مکہ مکرمہ | |
مرکز قیام | مدینہ منورہ کی مسجد نبوی میں واقع حجرہ عائشہ | |
نسب | اسماعیل بن ابراہیم کی نسل میں قریش عرب سے والدہ آمنہ بنت وہب والد عبدللہ بن عبدالمطلب رضاعی والدہ حلیمہ سعدیہ رضاعی والد حارث بن عبد العزی اولاد نرینہ قاسم، عبد اللہ، ابراہیم صاحبزادیاں زینب، رقیہ، ام کلثوم، فاطمہ ازواج مطہرات خدیجہ بنت خویلد، سودہ بنت زمعہ، عائشہ بنت ابوبکر، حفصہ بنت عمر، زینب بنت خزیمہ ام سلمہ، زینب بنت جحش، جویریہ بنت حارث، ام حبیبہ، صفیہ بنت حی، میمونہ بنت حارث، ماریہ القبطیہ (باختلاف اقوال) | |
مہر |
اقْرَأْ بِاسْمِ رَبِّكَ الَّذِي خَلَقَ (1) خَلَقَ الْإِنسَانَ مِنْ عَلَقٍ (2) -- القرآن
ترجمہ: پڑھو (اے نبی) اپنے رب کا نام لے کر جس نے پیدا کیا (1) پیدا کیا انسان کو (نطفۂ مخلوط کے ) جمے ہوئے خون سے (2)
سورۃ 96 ( الْعَلَق ) آیات 1 تا 2
یہ ابتدائی آیات بعد میں قرآن کا حصہ بنیں۔ اس واقعہ کے بعد سے حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے رسول کی حیثیت سے تبلیغ اسلام کی ابتدا کی اور لوگوں کو خالق کی وحدانیت کی دعوت دینا شروع کی۔ انھوں نے لوگوں کو روزقیامت کی فکر کرنے کی تعلیم دی کہ جب تمام مخلوق اپنے اعمال کا حساب دینے کے لیے خالق کے سامنے ہوگی۔ اپنی مختصر مدتِ تبلیغ کے دوران میں ہی انھوں نے پورے جزیرہ نما عرب میں اسلام کو ایک مضبوط دین بنا دیا، اسلامی ریاست قائم کی اور عرب میں اتحاد پیدا کر دیا جس کے بارے میں اس سے پہلے کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی محبت مسلمانوں کے ایمان کا حصہ ہے اور قرآن کے مطابق کوئی مسلمان ہو ہی نہیں سکتا جب تک وہ ان کو اپنی جان و مال اور پسندیدہ چیزوں پر فوقیت نہ دے۔ قیامت تک کے مسلمان ان کی امت میں شامل ہیں۔
حلیہ
ابن عباس نے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا حلیہ یوں بیان کیا: ڈیل ڈول، قد و قامت دونوں معتدل اور درمیانی تھے (جسم نہ زیادہ فربہ اور نہ دبلا پتلا، ایسے ہی قد نہ زیادہ لمبا اور نہ کوتاہ بلکہ معتدل) آپ کا رنگ کھلتا گندمی سفیدی مائل، آنکھیں سرمگیں، خندہ دہن، خوبصورت ماہ تابی چہرہ، داڑھی نہایت گنجان جو پورے چہرہ انور کا احاطہ کیے سینہ کے ابتدائی حصہ پر پھیلی ہوئی تھی۔[3]
مقالات بسلسلۂ محمد | |
---|---|
محمد | |
باب محمد | |
ادوار
اہل بیت
|
صبح سعادت
تاریخ ادیان و ملل شاہد ہے کہ حضرت عیسیٰ ابن مریم (علیہ السلام) کے ظہور پر تقریباً چھ صدیاں گذر چکی ہیں اور معمورہ عالم خدا کے پیغمبروں کی معرفت حاصل کی ہوئی صداقت حق کو فراموش کر چکا ہے تمام کائنات انسانی خدا پرستی کی بجائے مظاہر پرستی میں مبتلا ہے اور ہر ملک میں نوع انسانی سے لے کر نوع جمادات تک کی پرستش سرمایہ نازش بنی ہوئی ہے کوئی انسان کو اوتار (خدا) کہہ رہا ہے تو کوئی خدا کا بیٹا۔ ایک اگر مادہ پرست ہے تو دوسرا خود اپنی آتما (روح) کو ہی خدا سمجھ رہا ہے سورج کی پوجا ہے چاند تاروں کی پرستش ہے حیوانوں ‘ درختوں اور پتھروں کی عبادت ہے ‘ آگ ‘ پانی ‘ ہوا ‘ مٹی کے سامنے ناصیہ فرسائی ہے غرض کائنات کی ہر شے پرستش اور پوجا کے لائق ہے اور نہیں ہے تو صرف ذات واحد قابل پرستش نہیں ہے نہ اس کی احدیت کا تصور خالص ہے اور نہ صمدیت کا۔ اس کو اگر مانا بھی جاتا ہے تو دوسروں کی پرستش اور عبادت کے ذریعہ وہ اگر خالق موجودات ہے تو دوسروں کے واسطہ اور احتیاج کے ساتھ مادہ ‘ روح اور ترکیب سبھی باتوں کا محتاج ہے وہ اگر مالک موجودات ہے بھی تو انسان ‘ حیوان ‘ درخت ‘ پتھر کے بل بوتہ پر ‘ غرض ساری دنیا میں اصل کار فرمائی مظاہر کی تھی اور ” ذات حق “ صرف نام کے لیے ‘ حقیقت سے چشم پوشی تھی مگر مجاز کے ساتھ ذوق عشق ‘ ذات حق سے بعد تھا مگر مظاہر سے قربت ‘ سرمایہ سعادت حق سے بیگانگی تھی۔ مگر مخلوقات کی عبادت گزاری شعار عام تھا اور ہر طرف
{ مَا نَعْبُدُہُمْ اِلَّا لِیُقَرِّبُوْنَا اِلَی اللّٰہِ زُلْفٰی } [4]
” ہم ان کو نہیں پوجتے مگر اس لیے تاکہ وہ خدا کی جانب ہماری قربت کا ذریعہ بن جائیں “
کا مظاہرہ نظر آتا تھا۔
یہی وہ تاریک دور تھا جس میں ” سنت اللہ “ یعنی خدا کے قانون ہدایت و ضلالت نے ماضی کی تاریخ کو پھر دہرایا اور غیرت حق نے فطرت کے قانون رد عمل (REACTION ) کو حرکت دی یعنی آفتاب ہدایت برج سعادت سے نمودار ہوا اور چہار جانب چھائی ہوئی شرک و جہالت اور رسم و رواج کی تاریکیوں کو فنا کرکے عالم ہست و بود کو علم و یقین کی روشنی سے منور کر دیا۔
9 ربیع الاول مطابق 20 اپریل 571ء کی صبح ‘ وہ صبح سعادت تھی۔ جب مدنیت و حضارت سے محروم ‘ بن کھیتی کی سر زمین مکہ کے ایک معزز قبیلہ قریش (بنی ہاشم) میں عبداللہ بن عبد المطلب کے یہاں آمنہ بنت وہب کے مشکوئے معلی سے آفتاب رسالت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ظہور کیا۔ خدایا ! وہ صبح کیسی سعادت افروز تھی جس نے کائنات ارضی کو رشد و ہدایت کے طلوع کا مژدہ جانفزا سنایا اور وہ ساعت کیسی مبارک و محمود تھی
جو معمورہ عالم کے لیے پیغام بشارت بنی ‘ عالم کا ذرہ ذرہ زبان حال سے نغمے گا رہا تھا کہ وقت آپہنچا کہ اب دنیائے ہست و بود کی شقاوت دور اور سعادت مجسم سے عالم معمور ہو ‘ ظلمت شرک و کفر کا پردہ چاک ہو اور آفتاب ہدایت روشن و تابناک ہو ‘ مظاہر پرستی باطل ٹھہرے اور خدائے واحد کی توحید مقصد حیات قرار پائے۔
دنیا تو کیا ملک قبیلہ اور خاندان کو بھی یہ علم نہ تھا کہ مذاہب عالم جس آفتاب رسالت کے طلوع ہونے کے منتظر ہیں وہ اس غیر متمدن سر زمین اور عبد المطلب کے گھرانے سے جلوہ گر ہوگا کہ اس کی ولادت باسعادت کو خاص اہمیت دیتے اور تاریخ ولادت کو اپنے سینہ میں محفوظ رکھتے مگر جس خالق کائنات کے نوشتہ تقدیر نے اس کو مقدس ہستی بنانے کا فیصلہ کیا اسی کے ید قدرت نے ولادت باسعادت کے لیے ایک معجزانہ تاریخی نشان بھی ظاہر کر دیا اور وہ اصحاب الفیل کا واقعہ تھا۔
معتبر اور مستند روایات شاہد ہیں کہ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ولادت اس واقعہ سے چند ماہ بعد ہوئی۔
یہ واقعہ جن خصوصیات کا حامل ہے ان کے پیش نظریہ عرب کے لیے عموماً اور اہل حجاز کے لیے خصوصاً نہایت عجیب اور حیرت زا تھا اور اس لیے وہ کبھی اس کو فراموش نہیں کرسکتے تھے اس لیے انھوں نے اس کا نام ہی عام الفیل (یعنی ہاتھیوں والا سال) رکھ دیا۔ مگر وہ یہ سمجھنے سے قاصر تھے کہ دراصل یہ واقعہ ایک ” نشان “ ہے اس جلیل القدر ہستی کے ظہور کا جو ایک روز تمام معمورہ انسانی کو مرکز توحید اور قبلہ ابراہیمی پر جمع کر دے گی
اور اس کو غیر اللہ (بتوں) کی آلودگیوں سے پاک کرکے توحید الٰہی کے نغموں کے لیے مخصوص کرائے گی۔ کیونکہ یہی وہ پہلا مقام ہے جو صرف خدائے واحد کی پرستش کے لیے بنایا گیا۔
یہ مندر نہیں تھا کہ مورتی کی پوجا کی جائے ‘ یہ گرجا اور کلیسا بھی نہ تھا کہ یسوع مسیح (علیہ السلام) اور کنواری مریم (علیہا السلام) کے مجسّموں کے سامنے سر جھکایا جائے ‘ نہ یہ آتش کدہ تھا کہ آگ کو نور کا مظہر قرار دے کر اس کی پرستش کی جائے اور نہ یہ صلوات یہود تھا کہ حضرت عزیر (علیہ السلام) کو خدا بیٹا بنا کر اس کی تقدیس کے نغمے گائے جائیں بلکہ یہ تو خدا اور صرف ایک خدا کی عبادت کے لیے بنایا گیا تھا۔
{ اِنَّ اَوَّلَ بَیْتٍ وُّضِعَ لِلنَّاسِ لَلَّذِیْ بِبَکَّۃَ مُبٰرَکًاوَّ ھُدًی لِّلْعٰلَمِیْنَ } [5]
غرض بعثت کے بعد قدرت کے اعجاز نما ہاتھوں نے عام الفیل میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ولادت کا راز سر بستہ آشکارا کر دیا تب دنیا نے یہ سمجھا کہ ابرہۃ الاشرم اور اس کے لشکر سے کعبۃ اللہ کی یہ حفاظت اس لیے تھی کہ وہ وقت قریب آپہنچا جب دوبارہ یہ مقدس مقام خدائے واحد کی عبادت اور توحید خالص کی مرکزیت کا شرف حاصل کرنے والا ہے پس جو طاقت بھی اس مقصد عظمیٰ سے متصادم ہوگی خود ہی پاش پاس ہو کر رہ جائے گی۔
ابرہہ عیسائی تھا اور اہل عرب (قریش) مشرک ‘ پھر کون کہہ سکتا ہے کہ ابرہہ اور اس کے لشکر کی بربادی قریش کی نصرت و حمایت کے لیے تھی ‘ نہیں ! بلکہ اس لیے سب کچھ ہوا کہ مشیت الٰہی کے خلاف ابرہہ کی خواہش تھی کہ یمن (صنعا) میں جو خوبصورت گرجا (القلیس) باپ ‘ بیٹا اور روح القدس (تثلیث) کے فروغ دینے کو بنایا گیا تھا۔
مرکز توحید ” کعبۃ اللہ “ کی جگہ وہ مرجع خلائق بنے اور اس مقصد کی خاطر اس نے انہدام کعبہ کے لیے لشکر کشی کی ادھر قریش یعنی سارا عرب اس کی مقاومت سے عاجز و درماندہ تھا ابرہہ وقت کے تمام جنگی اسلحہ اور سر و سامان کا مالک اور قریش ان سب سے یکسر محروم ‘تب غیرت حق حرکت میں آئی اور دنیا نے دیکھ لیا کہ دنیوی طاقت کے گھمنڈ پر مشیت الٰہی سے ٹکرانے والا خود ہی فنا کے گھاٹ اتر گیا اور محور توحید ” کعبہ “ خدائی حفاظت کے سایہ میں اسی طرح قائم رہا۔
{ اِنَّ فِیْ ذٰلِکَ لَعِبْرَۃً لِّمَنْ یَّخْشٰی } [6]
” بلاشبہ اس بات میں بڑی ہی عبرت ہے اس شخص کے لیے جو خوف خدا رکھتا ہے “
قرآن عزیز نے سورة الفیل میں اسی حقیقت کو معجزانہ اسلوب بیان کے ساتھ نقل کیا ہے :
{ اَلَمْ تَرَ کَیْفَ فَعَلَ رَبُّکَ بِاَصْحٰبِ الْفِیْلِ۔ اَلَمْ یَجْعَلْ کَیْدَہُمْ فِیْ تَضْلِیْلٍ۔ وَّ اَرْسَلَ عَلَیْہِمْ طَیْرًا اَبَابِیْلَ۔ تَرْمِیْہِمْ بِحِجَارَۃٍ مِّنْ سِجِّیْلٍ۔ فَجَعَلَہُمْ کَعَصْفٍ مَّاْکُولٍ۔ } [7]
” (اے پیغمبر ! ) کیا تجھے نہیں معلوم کہ تیرے پروردگار نے ہاتھیوں والوں کے ساتھ کیا معاملہ کیا ؟ کیا ان کے فریب کو ناکام نہیں بنادیا ؟ اور ان پر فوج در فوج پرند بھیج دیئے وہ پرند ان پر کنکریاں پھینکتے تھے پھر (خدا نے) ان (ہاتھیوں والوں) کو کھائے ہوئے بھس کے مانند کردیا۔ “
بہرحال عام الفیل نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ولادت باسعادت کا سال ہے اور یہ واقعہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ظہور قدسی کا سب سے بڑا قریبی نشان ہے اور یہ حقیقت اس شخص پر بخوبی عیاں ہے۔
{ لِمَنْ کَانَ لَہٗ قَلْبٌ اَوْ اَلْقَی السَّمْعَ وَہُوَ شَہِیْدٌ} [8]
” جس کے پاس قبول حق کے لیے دل ہے یا وہ حاضر دماغی کے ساتھ امر حق کی جانب کان لگائے ہوئے ہے۔ “
تاریخ ولادت کی تحقیق
تمام ارباب تاریخ و سیر کا تین باتوں پر کلی اتفاق ہے ایک یہ کہ ولادت کا سال ” عام الفیل “ تھا۔ چنانچہ سیرت و مغازی کے مشہور امام محمد بن اسحاق اور جلیل القدر محدث و مورخ حافظ ابن کثیر ; جمہور کی یہی رائے نقل کرتے ہیں :
( (وَکَانَ مَوْلَدُہٗ (علیہ السلام) ُ عَامَ الْفِیْلِ وَھَذَا ھُوَ الْمَشْھُوْرُ عَنِ الْجُمْھُوْرِ وَ قَالَ اِبْرٰھِیْمُ بْنُ مُنْذِرٍ اَلْخَزَامِیُّ وَ ھُوَ الَّذِیْ لَا یَشُکُّ فِیْہِ اَحَدُ عُلَمَائِنَا اَنَّہٗ وُلِدَ عَامَ الْفِیْلِ ) ) [9]
” جمہور کے نزدیک یہی قول مشہور ہے کہ نبی کی ولادت عام الفیل میں ہوئی اور ابراہیم بن منذر کہتے ہیں کہ اس بات میں کسی عالم کو بھی شک و شبہ نہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) عام الفیل میں پیدا ہوئے۔ “
( (وَالْمُجْتَمَعُ عَلَیْہِ اَنَّہٗ وُلِدَ عَامُ الْفِیْلِ )) [10]
” اور اس پر سب کا اتفاق ہے کہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) عام الفیل میں پیدا ہوئے۔ “
اور دوسری اور تیسری بات یہ کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ولادت ربیع الاول کے مہینے میں شنبہ (پیر) کے دن صبح صادق کے وقت ہوئی :
( (وَھَذا مَا لَا خِلَافَ فِیْہِ اَنَّہٗ وُلِدَ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یَوْمَ الْاِثْنَیْنِ ثُمَّ الْجَمْھُوْرُ عَلَی اَنَّ ذَالِکَ کَانَ فِیْ شَھْرِ رَبِیْعِ الْاَوَّلَ )) [11]
” اور اس پر کلی اتفاق ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) دو شنبہ (پیر) کے دن پیدا ہوئے پھر جمہور کا یہ بھی فیصلہ ہے کہ ربیع الاول کا مہینہ تھا۔ “
( (قَالَ اَبُوْ قَتَادَۃَ (رض) اَنَّ اَعْرَابِیًّا قَالَ یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ ! مَا تَقُوْلُ فِیْ صَوْمٍ یَوْمِ الْاَثْنَیْنِ فَقَالَ ‘ ذَالِکَ یَوْمُ وُلِدَتُ فِیْہِ وَ اُنْزِلَ عَلَّی فِیْہِ )) [12]
” ابو قتادہ (رض) فرماتے ہیں گاؤں کے ایک آدمی نے کہا اے اللہ کے رسول ! آپ پیر کے دن کے متعلق کیا فرماتے ہیں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا یہ وہ دن ہے جس میں میری ولادت ہوئی اور جس میں مجھ پر سب سے پہلی وحی نازل ہوئی۔ “
لیکن اہل سیر و تاریخ اس باب میں مختلف الرائے ہیں کہ ربیع الاول کی کون سی تاریخ تھی عوام میں تو مشہور قول یہ ہے کہ 12 ربیع الاول تھی اور بعض کمزور روایات اس کی پشت پر ہیں اور اکثر علما 8 ربیع الاول کہتے ہیں لیکن صحیح اور مستند قول یہ ہے کہ 9 ربیع الاول تاریخ ولادت ہے اور مشاہیر علمائے تاریخ و حدیث اور جلیل المرتبہ ائمہ دین اسی تاریخ کو ” صحیح “ اور ” اثبت “ کہتے ہیں چنانچہ حمیدی ‘ عقیلی ‘ یونس بن یزید ‘ ابن عبد اللہ ‘ ابن حزم ‘ محمد بن موسیٰ خوارزمی ‘ ابوالخطاب ابن دحیہ ‘ ابن تیمیہ ‘ ابن قیم ‘ ابن کثیر ‘ حافظ ابن حجر عسقلانی ‘ شیخ بدر الدین عینی جیسے مقتدر علما کی یہی رائے ہے۔
محمود پاشا فلکی نے (جو قسطنطنیہ کا مشہور ہیئت داں اور منجم گذرا ہے) ہیئت کے مطابق جو زائچہ اس غرض سے مرتب کیا تھا کہ محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانہ سے اپنے زمانہ تک کسوف و خسوف (سورج گرہن و چاند گرہن) کا صحیح حساب معلوم کرے پوری تحقیق کے ساتھ یہ ثابت کیا ہے کہ سنہ ولادت با سعادت میں کسی حساب سے بھی دو شنبہ (پیر) کا دن 12 ربیع الاول کو نہیں آتا بلکہ 9 ربیع الاول ہی کو آتا ہے اس لیے بلحاظ قوت و صحت روایات اور باعتبار حساب ہیئت و نجوم ولادت مبارک کی مستند تاریخ 9 ربیع الاول ہے۔
8 اور 9 کا اختلاف حقیقی اختلاف نہیں ہے بلکہ مہینے کے 29 اور 30 کے حساب پر مبنی ہے اور جبکہ حساب سے ثابت ہو گیا کہ صحیح تاریخ 21 اپریل تھی تو 8 کے متعلق تمام اقوال دراصل 9 کی تائید میں پیش ہو سکتے ہیں۔
اصحاب فیل کے واقعہ سے کس قدر عرصہ بعد ولادت ہوئی ؟ متعدد اقوال میں سے مشہور قول یہ ہے کہ پچاس دن بعد ظہور قدسی ہوا ہے :
( (وَقِیْلَ بِخَمْسِیْنَ یَوْمًا وَھُوَ اَشْھَر)) [13]
” ایک قول یہ ہے کہ اصحاب فیل کے واقعہ سے پچاس دن بعد ولادت باسعادت ہوئی اور یہی قول زیادہ مشہور ہے۔ “
نسب مبارک
نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) عربی النسل ہیں اور عرب کے معزز قبیلہ قریش کی سب سے زیادہ مقتدر شاخ بنی ہاشم سے ہیں ‘ قرآن عزیز نے اہل عرب کو خطاب کرتے ہوئے متعدد مقامات پر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے عربی نژاد ہونے کا ذکر کیا ہے :
{ ہُوَ الَّذِیْ بَعَثَ فِی الْاُمِّیِنَ رَسُوْلًا مِّنْہُمْ یَتْلُوْا عَلَیْہِمْ اٰیٰتِہٖ وَیُزَکِّیْہِمْ وَیُعَلِّمُہُمُ الْکِتٰبَ وَالْحِکْمَۃَ } [14]
” (خدا) وہ ذات ہے جس نے امیین (ان پڑھ لوگوں) میں سے ہی ایک رسول بھیج دیا جو ان پر اس کی آیات پڑھتا اور ان کا تزکیہ کرتا اور ان کو الکتاب (قرآن) اور حکمت سکھاتا ہے۔ “
{ لَقَدْ جَآئَکُمْ رَسُوْلٌ مِّنْ اَنْفُسِکُمْ } [15]
” بلاشبہ تمھارے پاس تم ہی میں سے ایک رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آیا۔ “
{ اِذْ بَعَثَ فِیْھِمْ رَسُوْلًا مِّنْ اَنْفُسِھِمْ } [16]
” جب کہ بھیج دیا اللہ نے ان میں ایک رسول جو بلحاظ نسب انھی میں سے ہے۔ “
{ وَکَذٰلِکَ اَوْحَیْنَا اِلَیْکَ قُرْاٰنًا عَرَبِیًّا لِّتُنْذِرَ اُمَّ الْقُرٰی وَمَنْ حَوْلَہَا } [17]
” اسی طرح ہم نے آپ پر قرآن کو بزبان عربی اتارا ہے تاکہ (اے محمد ) تم مکہ والوں اور ان کے گرد و پیش کے بسنے والوں کو (برائیوں سے) ڈراؤ۔ “
{ اَعْجَمِیٌّ وَّ ھٰذَا لِسَانٌ عَرَبِیٌّ مُّبِیْنٌ} [18]
” کیا (اس قرآن کو) سکھا دیتا ہے کوئی عجمی اور حالت یہ ہے کہ یہ واضح عربی زبان میں ہے۔ “
ماہرین انساب عرب کا اس پر اتفاق ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) حضرت اسماعیل بن ابراہیم (علیہما السلام) کی نسل سے ہیں اس لیے کہ قریش بغیر کسی اختلاف رائے کے عدنانی ہیں اور عدنان کے اسماعیلی ہونے میں دو رائے کی گنجائش ہی نہیں ہے۔
عرب کے علم الانساب کے مشہور عالم محدث ابن عبد البر (رحمہ اللہ علیہ) تحریر فرماتے ہیں :
( (وَاَجْمَعُوْا اَنَّ مُحَمَّدًا رسول اللّٰہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مِنْ وُلْدِ عَدْنَانَ وَاَنَّ عَدْنَانَ مِنْ وُّلْدِ اِسْمٰعِیْلَ وَاَنَّ رَبِیْعَۃَ وَ مُضَرَ مِنْ وُلْدِ اِسْمٰعِیْلَ ))
[19]
” اور علمائے انساب کا اس پر اتفاق ہے کہ محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) عدنان کی نسل سے ہیں اور عدنان اسماعیل (علیہ السلام) کی نسل سے ہے اور ربیعہ اور مضر بھی اسماعیل (علیہ السلام) کی اولاد ہیں۔ “
علمائے انساب نے نسب نامہ کی تفصیل اس طرح بیان کی ہے :
محمد بن عبداللہ بن عبدالمطلب بن ہاشم بن عبد مناف بن قصی بن کلاب بن مرہ بن کعب بن لوی بن غالب بن فہر بن مالک بن نضر بن کنانہ بن خزیمہ بن مدرکہ بن الیاس بن مضر بن نزار بن معد بن عدنان
(عربی میں :محمد بن عبد اللہ بن عبد المطلب بن هاشم بن عبد مناف بن قصي بن كلاب بن مرة بن كعب بن لؤي بن غالب بن فهر بن مالك بن النضر بن كنانۃ بن خزيمۃ بن مدركۃ بن الياس بن مضر بن نزار بن معد بن عدنان)
اور والدہ کی جانب سے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا نسب نامہ کلاب پر جا کر پدری سلسلہ نسب کے ساتھ مل جاتا ہے یعنی آمنہ بنت وہب بن عبد مناف بن زہرہ بن کلاب۔ کلاب کو حکیم بھی کہتے ہیں۔
البتہ عدنان اور حضرت اسماعیل کے درمیان سلسلہ کے ناموں سے متعلق ماہرین انساب کی آرا مختلف ہیں۔ [20] اس لیے نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کے متعلق یہ ارشاد فرما کر ” کَذِبَ النَّسَّابُوْنَ “ (نسب بیان کرنے والوں نے غلط بیانی کی ہے) کسی رائے کی توثیق نہیں فرمائی اور اپنے سلسلہ نسب کے متعلق صرف اس قدر ارشاد فرمایا ہے :
( (اَنَّ اللّٰہَ اصْطَفٰی کَنَانَۃَ مِنْ وُّلْدِ اِسْمٰعِیْلَ وَ اَصْطَفٰی قُرَیْشًا مِّنْ کَنَانَۃَ وَاصْطَفٰی مِنْ قُرَیْشٍ بَنِی ہَاشِمٍ وَاصْطَفَانِیْ مِنْ بَنِیْ ھَاشِمٍ )) [21]
” اللہ تعالیٰ نے اسماعیل (علیہ السلام) کی نسل میں سے کنانہ کو ممتاز بنایا اور کنانہ میں سے قریش کو عزت و عظمت بخشی اور قریش میں سے بنی ہاشم کو امتیاز عطا فرمایا اور بنی ہاشم میں سے مجھ کو منتخب فرمایا۔ “
گویا اس طرح سلسلہ نسب کے صرف ان حصوں کی تصدیق فرمائی جو ماہرین انساب کے درمیان بلا خلاف مسلم تھے۔
اسلام نے نسبی تفاخر اور اس پر مبنی سماجی رسم و رواج کو بہت بڑا گناہ اور جرم قرار دیا ہے وہ کہتا ہے خدا کے یہاں فضیلت کا معیار ایمان اور عمل صالح ہے اور وہاں حسب و نسب کی کوئی پرسش نہیں ہے نیز نسبی تفاخر اسلام کے بنیادی قانون ” اخوت اسلامی “ کے قطعاً منافی ہے اس لیے اسلام کے اجتماعی دستور میں اس کے لیے کوئی جگہ نہیں ہے تاہم واقعاتی طور پر تاریخ یہ پتہ دیتی ہے کہ ہمیشہ انبیا و رسل علیہم السلام اپنی قوم اور اپنے ملک کے معزز خاندان میں سے ہوتے رہے ہیں حکمت خداوندی کا یہ فیصلہ غالباً اس لیے ہوا کہ قوموں اور ملکوں کے رسم و رواج اور نسبی تفاخر کے خلاف ان کی دعوت حق اور ان کا پیغام صداقت کہیں ذاتی مفاد کے لیے نہ سمجھ لیا جائے اور اس طرح اس کا اخلاقی پہلو کمزور نہ ہوجائے مثلاً کسی سماجی زندگی میں ذات پات کی تقسیم اور کا سٹ سسٹم اس طرح موجود ہے کہ اس کی وجہ سے بعض انسان بعض کو حقیر و ذلیل سمجھنے لگے ہیں تو اگر اس قوم یا ملک میں کوئی پیغمبر اس خاندان سے تعلق رکھتا ہو جس کو قومی اور ملکی رواج نے نیچ اور پست اقوام کا لقب دے رکھا ہے ایسی حالت میں اس ظلم صریح اور باطل کوشی کے خلاف اس پیغمبر کی صدائے حق اتنی سرعت کے ساتھ کامیاب نہ ہوتی جس قدر اس حالت میں ہو سکتی ہے جب کہ وہ خود اس قوم و ملک کے اونچے خاندان سے تعلق رکھتا ہو اور صرف ایک اسی خاص مسئلہ میں نہیں بلکہ اس کے پیغام حق کی تمام اصلاحات میں یہ فرق ضرور نظر آئے گا۔
بہرحال یہ حکمت ہر مقام اور ہر موقع پر مفید ہو یا نہ ہو عرب کے حالات و واقعات کے لیے از بس مناسب اور مفید ثابت ہوئی چنانچہ صدائے اسلام نے جب اپنی انقلابی اور اصلاحی گرج سے روحانیت کی خفتہ کائنات میں تہلکہ ڈال دیا تو ایک جانب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اہل عرب کو یہ سنایا کہ جہاں تک خاندانی امتیاز کا تعلق ہے تو میں قریشی بھی ہوں اور ہاشمی بھی اور یہ امتیاز تمھارے نقطہ نظر سے بہت بلند ہے مگر میری نگاہ میں اس کی حیثیت صرف یہ ہے : ” وَلَا فَخَرَ “ ” یہ کوئی فخر کرنے کی چیز نہیں ہے۔ “ اور دوسری جانب نسبی تفاخر کی بنیادوں کے انہدام اور مساوات انسانی کی دعوت عام کے لیے اس خدائی فرمان کا اعلان کرکے کائنات انسانی کی تمام تاریک ذہنیت کے خلاف انقلاب عظیم برپا کر دیا :
{ یٰٓـاَیُّہَا النَّاسُ اِنَّا خَلَقْنَاکُمْ مِّنْ ذَکَرٍ وَّاُنثٰی وَجَعَلْنَاکُمْ شُعُوْبًا وَّقَبَائِلَ لِتَعَارَفُوْا اِنَّ اَکْرَمَکُمْ عِنْدَ اللّٰہِ اَتْقَاکُمْ اِنَّ اللّٰہَ عَلِیْمٌ خَبِیْرٌ} [22]
” لوگو ! میں نے تم سب کو ایک مرد و عورت سے پیدا کیا ہے (یعنی انسان کی ابتدا آدم اور اس کی بیوی حوا (علیہما السلام) سے ہوئی ہے) اور تم کو خاندانوں اور قبیلوں میں صرف اس لیے بانٹ دیا ہے کہ آپس میں (صلہ رحمی کے لیے) پہچان اور معرفت کا طریقہ قائم کرلو (اور اصل یہ ہے کہ) بلاشبہ اللہ کے نزدیک وہی عزت والا ہے جو تم میں سے پرہیزگاری کی زندگی بسر کرنے والا ہے۔ “
اور حجۃ الوداع کے موقع پر جب آپ ہزارہا صحابہ کرام (رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین) کی موجودگی میں وداعی پیغام سنا رہے اور اسلام کے بنیادی اصول کے استحکام کے لیے اہم وصایا پیش فرما رہے تھے اس حکم خداوندی کی تائید میں یہ انقلاب آفریں پیغام بھی ارشاد فرمایا :
اِنَّ اللّٰہَ یَقُوْلُ :
{ یٰٓـاَیُّہَا النَّاسُ اِنَّا خَلَقْنَاکُمْ مِّنْ ذَکَرٍ وَّاُنثٰی وَجَعَلْنَاکُمْ شُعُوْبًا وَّقَبَائِلَ لِتَعَارَفُوْا اِنَّ اَکْرَمَکُمْ عِنْدَ اللّٰہِ اَتْقَاکُمْ اِنَّ اللّٰہَ عَلِیْمٌ خَبِیْرٌ} [23]
فَلَیْسَ لِعَرَبِیٍّ عَلٰی عَجَمِیٍّ فَضْلٌ وَلَا لِعَجَمِیٍّ عَلٰی عَرَبِیٍّ فَضْلٌ وَلَا لِاَسْوَدَ عَلٰی اَبْیَضَ فَضْلٌ وَلَا لِاَبْیَضَ عَلٰی اَسْوَدَ فَضْلٌ اِلَّا بِالتَّقْوٰی۔ یَا مَعْشَرَ الْقُرَیْشِ لَا تَجِیْئُوْا بِالدُّنْیَا تَحْمِلُوْنَھَا عَلٰی رِقَابِکُمْ وَیَحِییُٔ النَّاسُ بِالْآخَرِۃ فَاِنِّیْ لَا اُغْنِیْ عَنْکُمْ مِنَ اللّٰہِ شَیْئًا۔۔ الخ)) [24]
” اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ہے اے افراد نسل انسانی ! بلاشبہ ہم نے تم کو ایک مرد اور عورت سے پیدا کیا ہے اور ہم نے تمھارے درمیان خاندان اور قبائل بنا دیے ہیں تاکہ (صلہ رحمی کے لیے) تعارف پیدا کرو بلاشبہ تم میں اللہ کے نزدیک وہی برگزیدہ ہے جو زیادہ متقی (نیک کردار) ہے پس (خوب یاد رکھو کہ) نہ عربی کو عجمی پر کوئی فضیلت ہے اور نہ عجمی کو عربی پر کوئی برتری حاصل ہے نہ کالے کو گورے پر کوئی فضیلت ہے اور نہ گورے کو کالے پر کوئی بزرگی بلکہ ان سب کے لیے فضیلت کا معیار صرف تقویٰ (نیک عملی) ہے اے گروہ قریش ایسا نہ ہو کہ تم (خاندانی فخر کے زعم باطل کی وجہ سے قیامت میں) دنیا کو کاندھے پر لاد کر لاؤ اور دوسرے لوگ (نیک عملی کی بدولت) آخرت کا سامان لے کر آئیں ‘ واضح رہے کہ (تمھارے محض قریشی ہونے کی وجہ سے) میں تم کو خدا کے فیصلے سے قطعاً بے پروا نہیں بنا سکتا (خدا کے یہاں تو صرف عمل ہی کام آئے گا) “
اور ایک مرتبہ نسبی فخر کے خلاف تبلیغ حق کرتے ہوئے اس کو جاہلی تعصب فرمایا اور مسلمانوں کو اس سے بچنے کے لیے سخت تاکید فرمائی۔ ارشاد فرمایا :
( (اِنَّ اللّٰہَ تَعَالٰی قَدْ اَذْھَبَ عَنْکُمْ عَصَبِیَّۃَ الْجَاھِلِیَّۃِ وَ فَخْرَھَا بِالْاٰبَائِ وَاِنَّمَا ھُوَ مُؤْمِنٌ تَقِیُّ اَوْ فَاجِرٌ شَقَی النَّاسُ کُلُّھُمْ بَنُوْ آدَمَ وَ آدَمُ خُلِقَ مِنْ تُرَابٍ ))
[25]
” اللہ تعالیٰ نے (دعوت اسلام کے ذریعہ) تمہارے درمیان سے جاہلیت کے تعصب اور نسبی فخر کو مٹا دیا ہے اور اب انسان یا نیکوکار مومن ہے اور یا بدکار (پاپی) ۔ سب انسان آدم (علیہ السلام) کی اولاد ہیں اور آدم (علیہ السلام) کی پیدائش مٹی سے ہوئی ہے (پھر فخر کرنے کا کیا موقع ہے ؟ )“
اسی مقدس تعلیم کا نتیجہ تھا کہ اسلام کے دور اولین میں نہ ذات پات کا کوئی سوال باقی رہ گیا تھا اور نہ خاندانی تفاخر کی کوئی حیثیت سمجھی جاتی تھی اور اس صدائے حق نے غلاموں تک کو سروری بخش دی تھی ‘ چنانچہ اسامہ بن زید (رضی اللہ عنہ) کی سالاری لشکر اور امامت جہاد ‘ بلال حبشی (رضی اللہ عنہ) کے لیے صدیق اکبر (رضی اللہ عنہ) کا یہ ارشاد ” سید ھذہ الامۃ “ ” اس امت کا سردار “ قریش اور ہاشمی صحابہ (رضوان اللہ علیہم) کے درمیان ایک عجمی انسان ابوہریرہ (رضی اللہ عنہ) کی جلالت و عظمت ‘ صہیب رومی اور سلمان فارسی (رضی اللہ عنہ) کی رفعت و بلندی مرتبت اور اسی قسم کے ہزاروں واقعات تھے جو چشم فلک نے آنکھوں سے دیکھے اور تاریخ نے آغوش صفحات میں محفوظ رکھے ہیں مگر وائے بدبختی کہ بیرونی اثرات اور عرب سے باہر عجمی ماحول نے ایک عرصہ کے بعد مسلمانوں کو پھر اسی لعنت سے دو چار کر دیا جس کا مرثیہ علامہ اقبال مرحوم (رحمہ اللہ علیہ) کو اس طرح کرنا پڑا :
” | فرقہ بندی ہے کہیں اور کہیں ذاتیں ہیں
کیا زمانہ میں پنپنے کی یہی باتیں ہیں |
“ |
سرور دو عالم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ فرما کر ” اِنَّمَا ھُوَ مُؤْمِنٌ تَقِیٌّ اَوْ فَاجِرٌ شَقِیٌّ“ اس مسئلہ کو اس درجہ صاف کر دیا تھا کہ مسلمان کی زندگی میں کبھی اس کے برعکس زندگی کا کوئی اثر پڑنا ہی نہیں چاہیے تھا ‘ ذات پات تو صرف اس لیے تھیں کہ چھوٹے چھوٹے حلقوں میں باہمی تعارف ‘ صلہ رحمی اور حسن سلوک کا معاملہ ایک دوسرے کے ساتھ بآسانی ہو سکے ورنہ کیسی ذات ؟ کہاں کا خاندان ؟ کون برادری ؟ یہاں تو صرف دو ہی فطری اور نیچرل تقسیمیں ہیں یا نیکوکار یا بدکار کسی قوم کسی خاندان اور کسی ملک کا انسان ہو اگر سچی خدا پرستی اور نیکوکاری رکھتا ہے تو وہ سب ایک برادری اور ایک قوم ہیں اور اگر مشرک و کافر اور بدکار پاپی تو یہ سب ایک گروہ اور ایک ٹولی ہیں۔
ولادت با سعادت اور یتیمی
خاتم الانبیاء محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے والد ماجد کا نام عبد اللہ اور والدہ ماجدہ کا آمنہ تھا۔ ابھی آفتاب ہدایت نے کائنات ہست و بود میں طلوع نہیں کیا تھا اور حضرت آمنہ کی مشکوئے معلی اس ودیعت کی امین ہی تھی کہ والد ماجد کا انتقال ہو گیا اور ارباب سیرت کہتے ہیں کہ حضرت عبد اللہ ایک قافلہ کے ساتھ شام تشریف لے گئے تھے ‘ واپسی میں جب قافلہ مدینہ (یثرب) پہنچا تو وہ بیمار ہو گئے اور اس لیے اپنے ننہال بنی نجار میں قیام پزیر رہے قافلہ جب مکہ پہنچا تو عبد المطلب نے بیٹے کے متعلق دریافت کیا قافلہ نے ان کی بیماری اور مدینہ میں قیام کا واقعہ کہہ سنایا۔ تب عبد المطلب نے اپنے بڑے لڑکے حارث کو دریافت حال کے لیے مدینہ بھیجا حارث جب مدینہ پہنچے تو معلوم ہوا کہ حضرت عبد اللہ نے ایک ماہ چند روز بیمار رہ کر داعیٔ اجل کو لبیک کہہ دیا۔ واپس آ کر جب حارث نے باپ کو حادثہ کی اطلاع دی تو عبد المطلب اور تمام خاندان کو اس صدمہ جانکاہ نے بے حال کر دیا کیونکہ عبد اللہ اپنے باپ اور بھائیوں کے بہت چہیتے تھے۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم 9 ربیع الاوّل، اکیاون (53) قبل ہجرت (واقعہ فیل کے پچاس دن بعد) بمطابق بیس بحساب دیگر بائیس اپریل، پانچ سو اکہتر عیسوی، اٹھارویں سن چالیس نوشیروانی، یکم جیٹھ چھ سو اٹھائیس بکرمی شمسی، بیس ماہِ ہفتم سن دو ہزار پانچ سو پچاسی ابراہیمی، گیارہ ماہِ ہشتم سن تین ہزار چھ سو پچھتر طوفانی، بروز پیر صبح صادق کے وقت۔ ان کی پیدائش پر معجزات نمودار ہوئے جن کا ذکر قدیم آسمانی کتب میں تھا۔ مثلاً آتشکدہ فارس جو ہزار سال سے زیادہ سے روشن تھا بجھ گیا۔ مشکوٰۃ کی ایک حدیث ہے جس کے مطابق حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا ارشاد ہے کہ ' میں اس وقت بھی نبی تھا جب آدم مٹی اور پانی کے درمیان میں تھے۔۔۔ میں ابراہیم علیہ السلام کی دعا، عیسیٰ علیہ السلام کی بشارت اور اپنی والدہ کا وہ خواب ہوں جو انھوں نے میری پیدائش کے وقت دیکھا اور ان سے ایک ایسا نور ظاہر ہوا جس سے شام کے محلات روشن ہو گئے'۔[26][27]
جس سال آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی پیدائش ہوئی اس سے پہلے قریش معاشی بدحالی کا شکار تھے مگر اس سال ویران زمین سرسبز و شاداب ہوئی، سوکھے ہوئے درخت ہرے ہو گئے اور قریش خوش حال ہو گئے۔[28]
پیدائش سے چند ماہ قبل والد ماجد جناب حضرت عبد اللہ کا انتقال ہو گیا تھا۔ گویا حضرت محمدﷺ دنیا میں دُرِّیتیم بن کر آئے۔ محمدﷺ نام رکھا گیا اور ساتویں دن عقیقہ ہوا۔
غرض جب ولادت باسعادت ہوئی تو اس سے قبل ہی آپ کو یہ یتیمی کا شرف حاصل ہو چکا تھا۔ چنانچہ قرآن نے آپ کی یتیمی و دنیوی وسائل سے محرومی کے باوجود آغوش رحمت کردگار میں نشو و نما پا کر ” ہادی عالم “ بننے کا معجزانہ اختصار کے ساتھ سورة والضحیٰ میں تذکرہ کیا ہے۔
{ اَلَمْ یَجِدْکَ یَتِیْمًا فَاٰوٰی۔ وَوَجَدَکَ ضَآلًّا فَہَدٰی۔ وَوَجَدَکَ عَائِلًا فَاَغْنٰی۔ } [29]
” (اے پیغمبر ! ) کیا تجھ کو خدا نے یتیم نہیں پایا پھر اپنی آغوش (رحمت) میں جگہ دی اور کیا تجھ کو ناواقف نہیں پایا پھر تجھ کو (کائنات کی ہدایت کے لیے) ہدایت مآب بنایا اور کیا تجھ کو (ہر قسم کے وسائل سے محروم) و محتاج نہیں پایا پھر تجھ کو (ہر قسم کی سروری دے کر) غنی بنادیا۔ “
بقول حضرت ابوقتادہ (رحمہ اللہ علیہ) ان آیات میں عجیب و غریب اعجاز اور اسلوب بیان کے ساتھ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی حیات طیبہ کے تمام ارتقائی مدارج کا تذکرہ ہے تم سمجھتے ہو کہ ” فَاٰوٰی “ کے معنی یہ ہیں کہ پروردگار عالم نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے رہنے سہنے کی صورت پیدا کردی یا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بے یارو مددگار نہیں رہنے دیا یہ بھی صحیح ہے مگر اس کلام ربانی کی اصل روح یہ ہے کہ اس نے ذات اقدس (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ہر قسم کے مادی اسباب و وسائل سے بے پروا رکھ کر اپنی آغوش رحمت میں لے لیا اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے نشو وارتقاء کو خالص اپنی تربیت میں کامل و مکمل کیا۔ [30]
{ وَوَجَدَکَ ضَآلًّا فَہَدٰی } [31]
کی تفسیر کو خود قرآن ہی نے دوسری جگہ روشن کر دیا مثلاً سورة شورٰی میں ہے :
{ وَکَذٰلِکَ اَوْحَیْنَا اِلَیْکَ رُوْحًا مِّنْ اَمْرِنَا مَا کُنْتَ تَدْرِیْ مَا الْکِتٰبُ وَلَا الْاِیْمَانُ وَلٰـکِنْ جَعَلْنَاہُ نُوْرًا نَّہْدِیْ بِہٖ مَنْ نَّشَائُ مِنْ عِبَادِنَا } [32]
” اور اسی طرح ہم نے تیری جانب اپنے امر کی روح کا القاء کیا (حالانکہ اس سے پہلے) نہ تو کتاب (قرآن) سے واقف تھا اور نہ ایمان کی حقیقت سے لیکن ہم نے اس کو نور (روشنی) بنادیا اور ہم اپنے بندوں میں سے جس کو چاہتے ہیں (اس کی صلاحیت و استعداد کے پیش نظر) اس کے ذریعہ ہدایت دیتے ہیں۔ “
اور آیت عَآئِـلًا فَاَغْنٰی میں دنیوی احتیاج و غنا کا ذکر روح کلام نہیں ہے بلکہ اس جانب اشارہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو قربت و کمال کا وہ مرتبہ عظمیٰ عطا فرمایا ہے کہ مادی اور روحانی ہر قسم کی احتیاج سے بالاتر بنا کر صفات حمیدہ اور اخلاق کریمانہ کی مثل اعلیٰ ” غنا “ سے بہرہ ور بنادیا ‘ یہی وہ غنا ہے جس کا خود ذات اقدس (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس طرح ذکر فرمایا ہے :
( (لَیْسَ الْغِنٰی عَنْ کَثْرَۃِ الْعَرَضِ وَلٰکِنَّ الْغِنٰی عَنِ النَّفْسِ )) [33]
” غنی مالداری کی بہتات کا نام نہیں ہے حقیقی غنی نفس کا ماسویٰ اللہ سے مستغنی ہوجانا ہے۔ “
ایامِ رضاعت و طفولت
رسول اللّٰہ ﷺ کی ولادت باسعادت کے بعد سب سے پہلے آپؐ کی والدہ ماجدہ سیدہ آمنہ رضی اللّٰہ عنہا نے اپنے لختِ جگر کو چند روز تک خود دودھ پلایا، اس کے بعد کچھ مدت کے لیے ابولہب کی کنیز ثویبہ نے یہ خدمت انجام دی اور اس کے بعد یہ شرف قبیلہ بنو سعد سے تعلق رکھنے والی بی بی حلیمہ سعدیہ کے حصے میں آیا۔ [34][35]
حلیمہ سعدیہ رضی اللہ عنہا کی گود میں
دراصل مکہ مکرمہ کے شرفاء میں یہ رواج تھا کہ وہ اپنے شیر خوار بچوں کو کچھ عرصہ کے لیے ’’بادیہ‘‘ (گاؤں)میں رکھنا پسند کرتے تھے، تاکہ شہر کے آلودہ ماحول سے دور صاف ستھری اور خالص آب وہوا میں بچے کی صحت پر خوشگوار اثرات مرتب ہوں اور اس کی نشو و نما بھی اچھی ہو۔ نیز یہ کہ شہر میں چونکہ بیرونی لوگوں کی بکثرت آمدورفت رہا کرتی ہے، لہٰذا ان کے ساتھ مسلسل اختلاط اور میل جول کی وجہ سے زبان بھی خالص نہیں رہتی اور لب ولہجہ بھی متأثر ہوتا ہے، جبکہ گاؤں والوں کی زبان خالص ہوا کرتی ہے اور اس میں دوسری کسی زبان کی ملاوٹ کا احتمال نہیں ہوتا۔
چنانچہ جن دنوں رسول اللہﷺکی ولادت ہوئی آپؐ کی والدہ ماجدہ نے بھی حسبِ دستور اپنے لختِ جگر کو گاؤں بھیجنے کا ارادہ کیا، اتفاق سے انہی دنوں بادیۂ بنی سعد سے تعلق رکھنے والی کچھ عورتیں بچے گود لینے کی غرض سے شہر مکہ کی جانب روانہ ہوئیں، جن میں حلیمہ سعدیہ بھی تھیں، مکہ پہنچنے کے بعد شہر میں گھوم پھر کر سبھی عورتوں نے کوئی نہ کوئی شیر خوار بچہ گود لے لیا، جبکہ حلیمہ کو کوئی بچہ نہ مل سکا، البتہ ایک یتیم بچہ تھا جسے کسی عورت نے محض اس وجہ سے اپنانا قبول نہیں کیا تھا کہ اس یتیم بچے کو گود لے کر شاید کوئی معقول معاوضہ اور مالی فائدہ نہ مل سکے… اور پھر یتیم بھی ایسا جس نے باپ کا نام تو سنا ہو… مگر آنکھیں باپ کی صورت دیکھنے کو ترستی ہوں… جس کا باپ اس کی پیدائش سے پہلے ہی اس دنیا سے رخصت ہو چکا…!
حلیمہ کو چونکہ کوئی بچہ نہیں مل سکا تھا اس لیے سوچا کہ خالی ہاتھ واپس جانے سے بہتر ہے کہ اس یتیم کو ہی قبول کر لیا جائے، چنانچہ بادلِ ناخواستہ اسے گود لے لیا…جس یتیم بچے کو گود لینے پر حلیمہ رنجیدہ و دل برداشتہ تھیں اور اس چیز کو اپنی ناکامی تصور کررہی تھیں… انھیں کیا خبر تھی کہ بظاہر تو یہ ناکامی تھی… لیکن ایسی ناکامی پر ہزاروں کامیابیاں قربان ہو جائیں… !
حلیمہ خود بھی لاغر وفاقہ زدہ تھیں … لہٰذ ابقول ان کے خود ان کے اپنے شیر خوار بیٹے کو کبھی پیٹ بھرکر دودھ پینا نصیب نہیں ہوا تھا، لیکن اُس وقت جب انھوں نے بنوہاشم کے اس ’’دُرِّیتیم‘‘کو گود لیا اور پہلی بار اسے اپنا دودھ پلایا تو اس نے خوب سیر ہوکر دودھ پیا اور اس کے بعد دیر تک سوتا رہا اور تب حلیمہ نے اپنے حقیقی بیٹے کوبھی دودھ پلایا تو پہلی بار اس نے بھی خوب پیٹ بھرکر دودھ پیا اور اس کے بعدوہ بھی دیرتک سوتا رہا… یہ بات حلیمہ اور ان کے شوہر(حارث بن عبدالعزیٰ)کے لیے انتہائی حیرت انگیز تھی۔ ان کی ایک بکری اور ایک اونٹنی بھی اس سفر میں ہمراہ تھی، وہ دونوں بھی فاقہ زدہ تھیں اور ان کا دودھ نہ ہونے کے برابر تھا، لیکن اس روز ان دونوں نے بھی خوب زیادہ دودھ دیا، حلیمہ اور ان کے شوہر نے اس روز خوب جی بھرکر دودھ پیا۔
گاؤں سے مکہ شہر کی طرف آتے وقت کیفیت یہ تھی کہ حلیمہ کی گدھی کمزوری کی وجہ سے سب سے پیچھے پیچھے چل رہی تھی اور حلیمہ کی سہیلیاں بار بار راستے میں رک کر اس کا انتظار کرتی تھیں… لیکن اب مکہ سے گاؤں کی طرف واپسی کا وقت آیا تو کیفیت یہ ہوئی کہ حلیمہ کی وہی گدھی اس قدر چست اور تیز رفتار ہو گئی کہ سب سے آگے آگے دوڑنے لگی، جس پر حلیمہ کی سہیلیاں بار بار انھیں پیچھے سے پکارتیں کہ حلیمہ رک جاؤ… کچھ ہمارا بھی توخیال کرلو… اور باربار پوچھتیں کہ حلیمہ کیا یہ تمھاری وہی گدھی ہے…؟ حلیمہ جواب دیتیں کہ ہاں یہ وہی توہے… اس پروہ کہتیں کہ وَاللّہ اِنّ لَھا لَشَأناً … یعنی’’بخدا آج تواس کی شان ہی نرالی ہے…!‘‘
اسی طرح گاؤں پہنچنے کے بعدان کی کھیتی باڑی اور غلہ و خوراک وغیرہ … غرض کہ ہر چیز میں نہایت تیزی کے ساتھ حیرت انگیز طور پر بہترین اور برکت کے آثار نمایاں ہوتے چلے گئے، خود حلیمہ کی صحت بھی بہت اچھی ہو گئی …جس پروہ دونوں میاں بیوی انتہائی حیران بھی تھے اور بہت زیادہ خوش بھی، حتیٰ کہ ایک روز حلیمہ کے شوہر نے انھیں کہا:(تَعْلَمِي وَاللّہِ یَا حَلِیمَۃ ! لَقَد أخَذتِ نَسَمَۃً مُبَارَکَۃ…) یعنی:’’حلیمہ! یقین کرو، بخدا مجھے تویوں لگتا ہے کہ تم یہ جو بچہ لائی ہویہ انتہائی مبارک ہے…‘‘! اس پر حلیمہ نے برجستہ جواب دیا: (وَاللّہِ اِنِّي لَأرجُو ذَلِکَ) یعنی:’’بخدا مجھے بھی ایساہی محسوس ہوتا ہے…‘‘۔
اور یوں حلیمہ سعدیہ اور ان کے افرادِ خانہ کو اس ’’دُرِیتیم‘‘ کی قدروقیمت کا مکمل ادراک و احساس ہوا اور وہ اس کی بدولت فیوض وبرکات کااپنی کھلی آنکھوں سے مسلسل مشاہدہ بھی کرتے رہے اور خوب مستفید و مستفیض بھی ہوتے رہے…!
دو سال دیکھتے ہی دیکھتے گذر گئے… حلیمہ کا دل بالکل نہیں چاہتا تھاکہ یہ بچہ ان کی آغوش سے واپس چلا جائے، لیکن مدتِ رضاعت پوری ہو چکی تھی، لہٰذا بادلِ ناخواستہ وہ اسے اس کی والدہ کے پاس مکہ شہر لے گئیں، بچے کی والدہ نے اپنے لختِ جگرکی اتنی اچھی صحت دیکھی تو انتہائی خوش ہوئیں، ماں کی یہ خوشی دیکھ کر حلیمہ نے موقع مناسب سمجھا اور ڈرتے ڈرتے کہاکہ ’’آپ دیکھ رہی ہیں کہ گاؤں کی صاف ستھری فضاء میں بچے کی صحت کتنی عمدہ ہے، لیکن اب مجھے یہ فکر ستا رہی ہے کہ کہیں ایسا نہ ہوکہ اب یہاں شہر میں اس کی صحت خراب ہو جائے…اس لیے میں چاہتی ہوں کہ اگر آپ اجازت دیں تو میں بچے کو مزید کچھ عرصہ کے لیے واپس اپنے ہمراہ لے جاؤں…بی بی آمنہ دیکھ ہی چکی تھیں کہ بادیۂ بنی سعد میں رہتے ہوئے بچے کی صحت خوب عمدہ ہے اور وہاں کی آب وہوا اس کو خوب موافق آئی ہے، نیز انھوں نے اپنے لختِ جگر کے لیے حلیمہ کا جب یہ جذبہ اور پیار بھی دیکھا تو وہ مسکرائیں اور مزید کچھ عرصہ کے لیے بچے کولے جانے کی اجازت دے دی۔ [36] حضرت حلیمہ کا یہ تمام واقعہ سیرۃ ابن ہشام میں مذکور ہے صرف خط کشیدہ الفاظ ایک دوسری روایت کے الفاظ کا ترجمہ ہے جس کو علامہ سیوطی نے [37] خصائص الکبریٰ میں تذکرہ کیا ہے۔[38]
حادثۂ شقِ صدر
حلیمہ سعدیہ اس بچے (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم) کی واپسی پر بہت خوش تھیں اور یو ں بادیۂ بنی سعد میں مزید تین سال(یعنی کل پانچ سال) گذر گئے، لیکن ایک روز نہایت عجیب واقعہ پیش آیا جس کی وجہ سے حلیمہ انتہائی خوفزدہ اور پریشان ہو گئیں۔ ہوا یہ کہ یہ بچہ ایک روز جب گاؤں کے دوسرے ہم عمر بچوں کے ہمراہ کھیل کود میں مشغول تھاکہ اچانک وہاں کوئی اجنبی نمودار ہوا اور اس نے بچے کو زمین پر لٹا کر اس کا سینہ چاک کر دیا…دوسرے بچوں نے جب یہ منظر دیکھا تو فوراً دوڑتے ہوئے حلیمہ کے گھر پہنچے اور بتایا کہ کسی نے محمد(ﷺ) کو قتل کر دیا ہے۔ حلیمہ انتہائی پریشانی کے عالم میں وہاں پہنچیں تو دیکھا کہ گھبراہٹ کی وجہ سے آپؐ کے چہرے کا رنگ قدرے بدلا ہوا ہے۔ درحقیقت وہ اجنبی شخص جبریل امین علیہ السلام تھے جواللہ کے حکم سے وہاں آئے تھے، انھوں نے رسول اللہ ﷺ کا سینہ چاک کرکے قلبِ مبارک باہر نکالا اور اس میں سی سیاہ نقطے کی مانند جمے ہوئے خون کاایک چھوٹا سا ٹکڑا کال کریہ کہتے ہوئے پھینک دیاکہ ’’یہ شیطان کاحصہ ہے‘‘(یعنی اس حصے کو دل سے نکال کر پھینک دیا تاکہ شیطان کبھی آپؐپر غالب نہ آسکے) پھر آپؐ کے دل کو سونے کی طشتری میں رکھ کرآبِ زمزم سے دھویا، اس میں ایمان وحکمت کا جوہر بھرا اور پھر اسے اسی طرح جوڑ کر سینے میں اس کے مقام پر رکھ دیا۔
(1)دراصل یہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی طرف سے اپنے حبیب صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے ایک قسم کا روحانی آپریشن اور سامانِ عصمت تھا۔ اس حادثہ کی وجہ سے حلیمہ سعدیہ بہت زیادہ گھبرا گئیں اور آپؐ کی سلامتی کو مدِنظر رکھتے ہوئے چند روز بعد آپؐ کو مکہ شہر میں آپؐ کی والدہ ماجدہ کے پاس چھوڑ آئیں۔ [39] [40]
والدہ کی کفالت میں
بادیۂ بنی سعد میں تقریباً پانچ سال گذارنے کے بعد آپ ﷺ اپنی والدہ کے سایۂ شفقت میں واپس پہنچ گئے۔ جب چھ سال کے ہوئے تو والدہ نے اپنے شوہرِ نامدار یعنی عبد اللہ بن عبد المطلب سے خلوص و وفاء کے اظہار کے طور پر مدینہ کا سفر کیا، اس سفر میں کمسن بیٹے (یعنی آپﷺ) کو بھی یہ سوچ کر ہمراہ لیا کہ بیٹے کو باپ کی شکل دیکھنا تو نصیب نہ ہو سکا… کم ازکم اب اسے باپ کی قبر کی زیارت ہی نصیب ہو جائے۔ اس سفر میں کنیز ام ایمن بھی ہمراہ تھیں، یہ کمسن بچہ اس طویل اور کٹھن سفر میں مناظرِ فطرت کا بغور مطالعہ و مشاہدہ کرتا رہا، اس مختصر قافلے نے مدینہ میں تقریباً ایک ماہ قیام کیا۔
حاشیہ آپ ﷺ جب بعد میں مکہ سے ہجرت کر کے مدینہ پہنچے اور وہاں مستقل قیام کیا تب ایک روز آپؐ جب بنو جار کے ایک محلے سے گذر رہے تھے آپؐ کی نگاہ اس مکان پر پڑی جہاں آپؐ نے بچپن میں اپنی والدہ ماجدہ کے ہمراہ سفرِ مدینہ کے موقع پر قیام کیا تھا، اتنا عرصہ گذر جانے کے باوجود آپؐ نے اس مکان کو پہچان لیا اور پھر سن آٹھ ہجری میں فتحِ مکہ کی غرض سے مدینہ سے مکہ کی جانب سفرکے دوران راستے میں ابواء نامی مقام پر آپ اپنی والدہ کی قبر پر بھی گئے اور وہاں خوب روئے، جیساکہ حدیث کے الفاظ ہیں زارَ النّبِيّﷺ قبرَ أمِّہٖ فَبَکَیٰ وَ أبکَیٰ مَن حَولَہٗ …’’یعنی آپؐ نے اپنی والدہ کی قبر کی زیارت کی اور تب آپؐ خود بھی روئے اور دوسروں کو بھی رلایا…‘‘ [41]
والدہ کی وفات
آپ ﷺ کی والدہ بی بی آمنہ مدینہ میں تقریباً ایک ماہ قیام کے بعد جب مکہ کی طرف واپس روانہ ہوئیں تو راستے میں انتہائی تند و تیز اور گرم صحرائی ہواؤں نے آلیا، جس کی وجہ سے شدید بیمار پڑ گئیں، راستے میں علاج کا کوئی انتظام تھا اور نہ راحت و آرام کا کوئی بندو بست چند روز کی اس علالت کے بعد آخر مدینہ اور مکہ درمیان ’’اَبواء‘‘ نامی مقام پر اس جہانِ فانی سے کوچ کرگئیں …! اور انھیں اسی مقام پرہی دفن کر دیا گیا۔ کمسن بچے نے اپنی معصوم آنکھوں سے ماں کو یوں پر دیس میں نزع اور موت کی کشمکش سے گذرتے دیکھا… جس سے اس کا گدازِ قلب مزید بڑھ گیا۔ [42][43]
ورثہ
حضورﷺ کے والد تو آپﷺ کی ولادت سے قبل ہی وفات پا چکے تھے، تاجر باپ نے ورثہ میں بہت کچھ چھوڑا جس کی تفصیل محمد بن سعد کی" طبقات ابن سعد" ابن جوزی کی " الوفا" اور ماوردی کی " احکام السلطانیہ" میں موجود ہے، ان کے بموجب آپ ﷺ کو ترکہ میں ایک کھلائی اُم ایمن، دو غلام شقران اور صالح، پانچ آوارک اونٹ جو بڑی اعلیٰ نسل کے ہوتے ہیں اور جن کی خوراک درخت ِ اراک (پیلو) کے پتے ہیں، بھیڑوں کا ایک گلّہ، اس کے علاوہ شعب بنی ہاشم کے جس گھر میں آپﷺ کی والدہ رہتی تھیں آپ ﷺ کو ملا، نیز شہر مکہ میں حضرت عبد اللہ کی ایک خیاطی کی دکان جہاں کپڑا بکتا اور سِلتاتھا معہ حضرت عبد اللہ کا سامانِ تجارت ‘ نقد و جنس‘ چمڑا اور کھجور بھی آپ ﷺ کو ملا۔
اُمِ ایمن کے بارے میں حضور ﷺ فرمایا کرتے تھے کہ یہ خاتون میری والدہ کے بعد میری ماں ہیں، حضورﷺ جب نبی بنائے گئے تو اُم ایمن اولین تصدیق کرنے والوں میں سے ہو گئیں، حضورﷺ نے انھیں آزاد کر دیا، ان کا پہلا نکاح بنی حارث کے عبید بن زید بن عمرو سے ہوا جن سے ایمن پیدا ہوئے جن کے نام پر ان کی کنیت اُمّ ایمن تھی، پہلے شوہر کے انتقال کے بعد حضورﷺ نے اپنے آزاد کردہ غلام حضرت زید ؓ بن حارثہ سے ان کا نکاح کروایا جن سے اُسامہ بن زیدؓ پیدا ہوئے، اُمّ ایمن نے دو ہجرتیں کیں، پہلی حبشہ دوسری مدینہ، حضرت عثمانؓ کے عہد خلافت میں ان کی وفات ہوئی۔
دادا کی کفالت میں
اُمِ ایمن جو اس سفر میں ہمراہ تھیں ٗپردیس میں بی بی آمنہ کی علالت اور پھر وفات کے بعد اس کمسن بچے کو ہمراہ لیے ہوئے واپس مکہ پہنچیں اور وہاں اسے اس کے دادا عبد المطلب کے حوالے کر دیا یہ بچہ اس سفر کے لیے ماں کی انگلی تھامے ہوئے جب گھر سے روانہ ہوا تھا تب سرپر آپ کا سایہ نہ تھا اور اب اس طویل اور تھکا دینے والے سفر کے بعد جب واپس مکہ میں اپنے گھر پہنچا تو کیفیت یہ تھی کہ ماں کی ممتا سے بھی محروم ہو چکا تھا…! یوں ہمارے پیارے رسول ﷺ اپنی پیاری ماں کی وفات کے بعد اب اپنے دادا محترم یعنی جناب عبد المطلب کی کفالت میں آگئے، اُس وقت آپؐ کی عمر مبارک چھ سال تین ماہ اور دس دن تھی۔ دادا نے جب اپنے اس یتیم پوتے کواپنے دامنِ کفالت و تربیت میں لیا تو جی بھرکر اسے پیار دیا، اسے اپنی جان سے بھی زیادہ عزیز رکھا اور اپنے بچوں سے بھی بڑھ کر اس کے ساتھ ہمیشہ لاڈ اور پیار کیا، وہ آپ ﷺ کو ہمیشہ اپنے ساتھ بٹھا کر کھانا کھلاتے دن بھر آپ ﷺ کو اپنے ساتھ ہی رکھتے اور رات کو جب آپ ﷺ سو جاتے تو وہ باربار اٹھ کر آپ ﷺ کی خبرگیری کیا کرتے۔ عبد المطلب چونکہ اپنے قبیلہ کے سردار ہونے کے علاوہ متولیٔ کعبہ بھی تھے اس لیے کعبۃ اللہ کے قریب ان کے لیے خاص مسند بچھائی جاتی تھی جس پر کبھی کسی کو بیٹھنے کی جرأت نہ ہوتی، یہاں تک کہ ان کے اپنے بیٹے بھی جب وہاں آتے تو اس مسند کے آس پاس بیٹھ جاتے مگر آپ ﷺ کو عبد المطلب ہمیشہ اس مسندِ خاص پر اپنے ساتھ ہی بٹھاتے، اگر کبھی کوئی آپ ﷺ کو وہاں سے اٹھانے کی کوشش کرتا تو عبد المطلب یوں کہتے: دَعُوا اِبنِي ! فَوَاللّہِ اِنَّ لَہٗ لَشَأناً… یعنی : ’’میرے بیٹے کو یہیں بیٹھا رہنے دو، کیونکہ اللہ کی قسم اس کی تو شان بڑی ہی نرالی ہے…‘‘ اور ساتھ ہی فرطِ محبت سے آپ ﷺ کی پشت پر ہاتھ پھیرتے اور آپ ﷺ کے اس اندازِ شاہانہ اور استغناء کو دیکھ کر خوش ہوا کرتے۔ [44] لیکن آپؐ دادا کی اس شفقت سے بھی جلد ہی محروم ہو گئے جب بیاسی سال کی عمر پا کر یہ شفیق و مہربان دادا بھی راہیٔ ملکِ عدم ہو گئے اور مکہ مکرمہ میں محلہ حجون میں دفن ہوئے۔ جب ان کا جنازہ اٹھا تو آپ ﷺ بھی ساتھ تھے، شدتِ غم اور فرطِ محبت سے اُس وقت آپؐ جنازے کے ہمراہ روتے جا رہے تھے…! اُس وقت آپؐ کی عمر مبارک صرف 8 سال 2 ماہ اور 10 دن تھی۔ [45]
ابو طالب کی کفالت میں
رسول اللہ ﷺ کے دادا محترم عبد المطلب نے وفات سے قبل وصیت کی تھی کہ ان کے بعد آپؐ کی کفالت و تربیت آپؐ کے چچا ابو طالب کے ذمہ ہو گی، چنانچہ ابو طالب نے اس عظیم ذمہ داری کو بہت ہی احسن طریقے سے تادمِ آخر نبھایا، آپؐ سے وہ اس قدرمحبت رکھتے تھے کہ آپؐ کو ہمیشہ اپنی اولاد سے بڑھ کر چاہا اور اپنے بچوں پر مقدم رکھا، جب سوتے تو آپؐ کو ساتھ لے کر سوتے اور جب باہر جاتے تو آپؐ کو ساتھ لے کر جاتے۔ یوں زندگی کے دن گذرتے رہے… وقت کا پہیا چلتا رہا اور آپؐ ابو طالب کی زیرِ سرپرستی بچپن اور کم سنی کی حدود سے گذرنے کے بعد اب لڑکپن کی عمر میں داخل ہو گئے اور اب کچھ ہوش سنبھالا تو محسوس کیاکہ چونکہ آپؐ کے مشفق ومحسن چچا قلیل المال اور کثیر العیال ہیں ٗ لہٰذا تلاشِ معاش کے سلسلہ میں ان کا ہاتھ بٹاناچاہئے۔ چنانچہ اس جذبے کے تحت آپؐ نے اس دورمیں بکریاں بھی چرائیں اور محنت ومشقت بھی کی رسول اللہ ﷺ نے بچپن اور پھر لڑکپن کی منزلیں طے کرنے کے بعد نوجوانی کے مرحلے میں جب قدم رکھا تو آپ ؐ نے بھی تجارت کوہی اپنا ذریعۂ معاش بنایا اور اس دور میں اپنے سرپرست اور مشفق چچا ابو طالب کے ہمراہ آپؐ نے متعدد تجارتی سفر بھی کیے۔ ان دنوں تجارت کے حوالے سے چہار سو آپؐ کے حسنِ معاملہ ٗ راست بازی اور امانت و دیانت کے چرچے ہونے لگے، اپنے اور پرائے ٗ دوست ودشمن سبھی آپؐ کو ’’صادق و امین ‘‘کے لقب سے پکارنے لگے…!!حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے حضرت ابو طالب کے ساتھ شام کا تجارتی سفر بھی اختیار کیا اور تجارت کے امور سے واقفیت حاصل کی۔ اس سفر کے دوران میں ایک بحیرا نامی عیسائی راہب نے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم میں کچھ ایسی نشانیاں دیکھیں جو ایک آنے والے پیغمبر کے بارے میں قدیم آسمانی کتب میں لکھی تھیں۔ اس نے حضرت ابوطالب کو بتایا کہ اگر شام کے یہود یا نصاریٰ نے یہ نشانیاں پا لیں تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی جان کو خطرہ ہو سکتا ہے۔ چنانچہ حضرت ابوطالب نے یہ سفر ملتوی کر دیا اور واپس مکہ آ گئے۔۔۔[46] اس سے معلوم ہوتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا بچپن عام بچوں کی طرح کھیل کود میں نہیں گذرا ہوگا بلکہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم میں نبوت کی نشانیاں شروع سے موجود تھیں۔ اس قسم کا ایک واقعہ اس وقت بھی پیش آیا جب آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم بدوی قبیلہ میں اپنی دایہ کے پاس تھے۔ وہاں حبشہ کے کچھ عیسائیوں نے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو بغور دیکھا اور کچھ سوالات کیے یہاں تک کہ نبوت کی نشانیاں پائیں اور پھر کہنے لگے کہ ہم اس بچے کو پکڑ کر اپنی سرزمین میں لے جائیں گے۔ اس واقعہ کے بعد حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو مکہ لوٹا دیا گیا۔[47][48]
گانے بجانے کی محفل سے محفوظ
حضرت ابو طالب کے مکان میں قیام کے دوران دو اہم واقعات پیش آئے، ایک یہ کہ ایک مرتبہ گرمی کے موسم میں مکہ میں ایک جگہ گانے بجانے کی محفل منعقد ہوئی تھی، آپ ﷺنے اس محفل میں شرکت کی خاطر بکریوں کو ایک ساتھی چرواہے کے حوالے کیا اور محفل کے مقام تک پہنچے جو چراگاہ سے دُور تھی، گرمی میں دور تک چل کر آنے سے آپﷺ بہت تھک گئے تھے اور محفل ابھی شروع نہیں ہوئی تھی، اس لیے آپﷺ ایک درخت کے سایہ تلے لیٹ گئے تو آنکھ لگ گئی اور جب بیدار ہوئے تو محفل ختم ہو چکی تھی، اس طرح آپﷺ اس محفل سرودمیں شریک نہ ہو سکے اور آئندہ بھی آپﷺ کو اس طرح کے لہو و لعب میں شرکت کرنے کا خیال تک نہ آیا۔
بت پرستی سے محفوظ
دوسرا واقعہ یہ کہ ایک مقام پر کھجور کے دو مقدس درخت تھے جہاں بوانہ نامی بت نصب تھا، لوگ وہاں جا کر بت پر جانور بھینٹ چڑھاتے، سر منڈاتے اور دیگر مشرکانہ رسوم ادا کرتے، حضور ﷺ کو ہر سال اس تقریب میں شرکت کے لیے کہا جاتا مگر آپﷺ انکار فرماتے، ایک مرتبہ چچاؤں اور پھوپھیوں کے اصرار پر آپﷺ وہاں گئے ؛لیکن بہت دیر تک نظروں سے اوجھل رہے، جب دکھائی دیے تو چہرے پر خوف کے آثار تھے، پھوپھیوں نے وجہ پوچھی تو فرمایا ! جب بھی اُس بُت کے قریب جانا چاہتا ہوں تو ایک سفید رنگ اور دراز قد شخص میرے قریب آتا اور کہتا کہ ائے محمدﷺ ! پیچھے ہٹ جائیے اور بت کو ہاتھ مت لگائیے، اس واقعہ کے بعد آپ ﷺ کسی ایسی تقریب میں نہیں گئے جہاں بتوںپر بھینٹ چڑھائی جاتی تھی۔
ایک بار قبیلہ لہب کا ماہر قیافہ شناس مکہ آیا، سب لوگ اپنے بچوں کو اس کے پاس لے گئے، حضرت ابو طالب بھی اپنے بچوں کے ساتھ حضور ﷺ کو اس کے پاس لے گئے جس نے آپﷺ کو دیکھا اور پھر کسی کام میں مشغول ہو گیا، تھوڑی دیر بعد اس نے آپﷺ کو اپنے سامنے لانے کو کہا ؛لیکن ابو طالب نے اس کا تجسس دیکھ کر آپﷺ کو اپنے گھر بھیج دیا، اس نے کہا کہ اس بچہ کو میرے پاس لاؤ، خدا کی قسم وہ بہت بڑا آدمی بننے والا ہے۔
حرب فجار
عرب میں اسلام کے آغاز تک جو لڑائیاں ہوئیں ان میں جنگ فجار سب سے زیادہ مشہور تھی) حضور ﷺ کی عمر تقریباً پندرہ سال کی تھی کہ مکہ میں بنی کنانہ اور قریش نے قیس عیلان، ثقیف اور ہوازن ( حلیمہ سعدیہ کا قبیلہ) کے خلاف جنگ کی، جو چوتھی جنگ فجار کہلاتی ہے، بنی کنانہ کا سپہ سالار حرب بن اُمیہ بن عبدالشمس تھا، جنگ صرف اتنی بات پر چھڑی تھی کہ حیرہ کے فرمانروا نعما ن بن منذر کے مالِ تجارت سے لدے ہوئے اونٹوں کو جو عکّاظ کے میلے میں جا رہے تھے بنی ہوازن کے سردار نے پناہ دی تھی، بنی کنانہ کے سردار برّاص بن قیس نے کہا کہ تو ہمارے مقابلہ میں امان دے رہا ہے، تو اس نے اکڑ کر کہا کہ تمھارے ہی نہیں، بلکہ تمام دنیا کے مقابلہ میں، غصہ میں بات بڑھ گئی، اس نے اسے قتل کر دیا یہاں تک کہ حدودِ حرم میں خوں ریزی ہوئی، اس لڑائی کوجنگ فجار اس لیے کہتے ہیں کہ یہ ماہِ حرام میں ہوئی، اپنے چچاؤں کے اصرار پر آپﷺ بھی اس جنگ میں شریک ہوئے، ابن ہشام نے لکھا ہے کہ آپﷺ نے کسی پر ہاتھ نہیں اٹھایا؛ بلکہ دشمنوں کے آئے ہوئے تیر چن چن کر دیتے تھے، نبوت سے قبل چار فجار کی لڑائیاں ہوئی تھیں جن میں سے دو میں آپ ﷺنے شرکت فرمائی تھی، ایک لڑائی میں عرب کے مشہور نیزہ باز ابو برا، ملّا عب الاسنہ سے مقابلہ اور نیزہ مارنے اور تیر چلانے کے واقعہ کا بھی ذک رہے۔ [49]
حلف الفضول
حرب فجارکے خاتمہ کے بعد ایک معاہدہ ہوا، اس معاہدہ ( حلف )کو طئے کرنے والے تین سرداروں کے نام فضل بن فضالہ، فضل بن وداعتہ اور فضیل بن حارث تھے چونکہ ان سب کے نام میں فضل کا لفظ شامل تھا اس لیے معاہدہ کو حلف ا لفضول کہتے ہیں، اس معاہدہ میں ظالم کے خلاف مظلوم کی حمایت کی گئی تھی، ڈاکٹر حمیداللہ کے مطابق ایسا ہی ایک معاہدہ جرہمی دور میں بھی طئے پایا تھا۔
امام ابن کثیر رحمہ اللہ علیہ کا بیان ہے کہ قریش نے قصی کی وفات کے بعد حلف اٹھایا تھا اور ایک تنازع اس وجہ سے بپا ہوا تھا کہ قصی نے اپنے بڑے بیٹے عبدالدار کو سقایہ، رفادہ، لوا، ندوہ اور حجابہ سب منصب عطا کر دئے تھے، اس وجہ سے ان کے چھوٹے بیٹے عبدالمناف کی اولاد نے نزاع پیدا کیا اور فریقین کے ہمراہ قریشی قبیلے تھے اور ہر ایک نے اپنے حزب اور گروہ کے ساتھ تعاون کرنے کی قسم کھائی تھی؛ چنانچہ اولاد عبدمناف نے ایک پیالہ میں خوشبو ڈال کر اس میں ہاتھ ڈبو کر باہمی تعاون پر قسم کھائی، بعد ازاں انھوں نے بیت اﷲ کے کونوں اور گوشوں کو چھوا، اس وجہ سے اس کا نام مطیبین ہوا اور یہ عرب کا قدیم دستور تھا۔ [50]
اس کے چند سال بعد ایک اہم واقعہ یہ ہوا کہ ایک زبیدی تاجر نے مکہ میں سامان تجارت لاکر وہاں کے ایک سردار عاص بن وائل کے ہاتھ فروخت کیا؛ لیکن سردار نے دام دینے سے انکار کیا، چونکہ تاجر کو مکہ میں کسی قبیلہ کی حمایت حاصل نہ تھی اس نے بو قبیس کی پہاڑی پر چڑھ کر اس ظلم کے خلاف آواز بلند کی، اس پر زبیر بن عبد المطلب نے جو حضور اکرم ﷺ کے چچا اور بنو ہاشم کے سر دار تھے بنو تیم کے سردار عبد اللہ بن جد عان کے گھر میں سردارانِ قریش کو جمع کیا جہاں ایک معاہدہ ہوا جس میں جرہمی دورمیں طئے پائے معاہدہ حلف مطیبین کی طرز پر ایک معاہدہ کرنے کی دعوت دی گئی، معاہدہ اس بات پر کیا گیا کہ:
خدا کی قسم ہم سب مل کر ایک ہاتھ بن جائیں گے اور وہ ہاتھ مظلوم کے ساتھ رہ کر اس وقت تک ظالم کے خلاف اٹھا رہے گا جب تک وہ ( ظالم) اس مظلوم کا حق ادا نہ کرے اور یہ حلف اس وقت تک قائم رہے گا جب تک کہ سمند رگھونگھوں کو بھگوتا رہے اور حرا اورثبیر کے پہاڑ اس جگہ پر قائم رہیں اور ہماری معیشت میں مساوات رہے گی۔
حضور اکرم ﷺکی عمر اس وقت تقریباً ً سترہ یا بیس سال تھی اور آپ ﷺ بھی اس معاہدہ میں شریک تھے اور عہد نبوت میں فرمایا کرتے تھے کہ اس معاہدہ کے بدلے مجھے کوئی سُرخ اونٹ بھی دے تو میں قبول نہ کروں اور اب بھی کوئی ایسا معاہدہ کرنا چاہے تو میں تیار ہوں۔ [51]
فکر معاش
آپﷺ کی عمر بیس سال ہو رہی تھی، آپﷺ کو حصول ِمعاش کی فکر ہوئی، مکہ وادیٔ غیر ذی زرع میں واقع تھا، اس لیے وہاں زراعت کرنے کا تو سوال ہی نہ تھا، تجارت کو قریش نے ذریعہ معاش کے طور پر اپنا لیا تھا، اس لیے قریش کے تمام خاندان بڑے بڑے سفروں پر قافلہ کی شکل میں جاتے اور ہر شخص اپنا مالِ تجارت خود لے جاتا، عرب کے مختلف مقامات پر سال کے مختلف مہینوں میں میلے لگتے تھے جن میں ان کے مال کی نکاسی آسانی سے ہو جاتی تھی، حضورﷺ نے اپنے والد کے چھوڑے ہو ئے سرمایہ کو تجارت میں لگایا اور ان میلوں میں شرکت کے لیے سفر بھی کیے پیشہ تجارت میں آپﷺ نے ہمیشہ امانت داری اور دیانت کو پیش نظر رکھا، آپﷺ کے ایک ساتھی عبد اللہ بن ابی الحمسأ بیان کرتے ہیں کہمیں نے آپﷺ سے ایک تجارتی معاہدہ کیا لیکن بات پوری طئے ہونے سے قبل مجھے ایک ضروری کام یاد آیا اور میں نے آپﷺ سے کہاکہ آپ یہیں ٹھہریں میں ابھی آتا ہوں، وہاں جا کر کام میں ایسا مشغول ہو گیا کہ مجھے آپ سے کیا ہوا عدہ یاد نہ آیا، اتفاقاً تین روز بعد میرا ادھر سے گذر ہوا تو میں نے دیکھا کہ آپﷺ وہیں انتظارکر رہے ہیں، میں احساسِ شرمندگی کے ساتھ آپﷺ کی طرف گیا تو آپﷺ نے صرف اتنا فرمایا کہ تم نے مجھے زحمت دی، اس لیے کہ میں تین دن سے اسی جگہ پر تمھارا منتظر ہوں۔ [52]
وعدہ وفائی
زمانہ جاہلیت میں قیس بن السائب مخزومی آپﷺ کے ساتھ شریک تجارت تھے، وہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے محمد بن عبد اللہ سے بہتر ساتھی نہیں پایا، اگر ہم آپﷺ کا سامان تجارت لے کر جاتے تو واپسی پر آپﷺ ہمارا استقبال کرتے اور خیر و عافیت پوچھ کر چلے جاتے، بر خلاف اس کے اگر آپﷺ تجارتی سفر سے لوٹتے تو جب تک پائی پائی بے باق نہ کرتے اپنے گھر کو نہ جاتے، تجارت میں آپﷺ کی دیانت داری اور صداقت کی دور دور تک شہرت تھی اس لیے اکثر لوگ آپﷺ کو اپناتجارتی ساتھی یا آپﷺ کے ذریعہ اپنا تجارتی مال بھیجنے میں خوشی محسوس کرتے؛ چنانچہ آپﷺ کی خوش معاملگی اور دیانت داری کی بدولت آپﷺ الامین" اور الصادق" کے لقب سے یاد کیے جاتے تھے۔
[53]
ان دور دراز کے تجارتی میلوں میں آپﷺ کی شرکت کا اندازہ بحرین کے قبیلہ عبدالقیس کے وفد کے بیان سے ہوتا ہے جو مدنی زندگی میں حضور ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا تھا، جب آپﷺ نے ان کے علاقہ کی ایک ایک تفصیل بتلائی تو وہ لوگ حیرت زدہ ہو گئے، آپﷺ نے فرمایا:
" میں نے تمھارے علاقہ کی خوب سیر کی ہے"
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ مُشقّراور دبّا کے تجارتی میلوںمیں آپﷺ نے شرکت کی ہوگی۔ [54]
شام کا دوسرا سفر اور شادی
تقریباً 25 سال کی عمر میں آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے شام کا دوسرا بڑا سفر کیا جو حضرت خدیجہ علیہا السلام کے تجارتی قافلہ کے لیے تھا۔ حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ایمانداری کی بنا پر اپنے آپ کو ایک اچھا تاجر ثابت کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم دوسرے لوگوں کا مال تجارت بھی تجارت کی غرض سے لے کر جایا کرتے تھے۔ خدیجہ بنت خویلد انتہائی شریف النفس اور صاحبِ حیثیت خاتون تھیں، مکہ میں ان کا خاص مقام و رتبہ تھا اور قریش کے عوام وخواص سبھی انھیں نہایت عزت و عظمت کی نگاہ سے دیکھتے تھے۔ خدیجہ رضی اللہ عنہا کا سلسلۂ نسب پانچویں پشت میں رسول اللہ ﷺ کے خاندان سے جا ملتا ہے، وہ بیوہ تھیں، اپنی شرافتِ نفس ٗپاکیزگیٔ اخلاق اور عفت و عصمت کی وجہ سے زمانۂ جاہلیت میں بھی لوگ انھیں ’’طاہرہ‘‘کے لقب سے پکارا کرتے تھے۔ حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کا کاروبار اس قدر وسیع پیمانے پر تھا کہ اہلِ مکہ کا جب کوئی تجارتی قافلہ روانہ ہوتا تو اس میں اکثریت حضرت خدیجہؓ کے مال واسباب سے لدے ہوئے اونٹوں کی ہوتی، اپنے کاروباری امور کی انجام دہی و نگرانی کی غرض سے حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا مختلف اشخاص کی خدمات حاصل کیاکرتی تھیں۔ انہی دنوں حضرت خدیجہؓ کو جب رسول اللہ ﷺ کی راست بازی اور امانت و دیانت کی خبریں ملیں تو انھوں نے آپؐ کو یہ پیغام بھجوایا کہ آئندہ جو تجارتی قافلہ مکہ سے ملکِ شام کے لیے روانہ ہوگا اس کی نگرانی آپؐ کریں، ساتھ ہی معقول معاوضے کابھی وعدہ کیا۔ آپ ﷺ نے اپنے سرپرست ومشفق چچا ابو طالب سے مشورے کے بعد اس پیشکش کو قبول فرمایا اور سفرِ شام کے لیے تیار ہو گئے۔ چنانچہ آپ ﷺ حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کا مالِ تجارت لے کر ملکِ شام کی طرف روانہ ہوئے، توفیقِ الٰہی سے اس سفر میں بہت زیادہ منافع ہوا۔ حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا نے ’’میسرہ‘‘نامی اپنا ایک غلام بھی اس سفر میں آپؐ کے ہمراہ روانہ کیا تھا، اس نے واپس مکہ پہنچنے پر حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کے سامنے آنکھوں دیکھا حال بیان کیا، آپؐ کی راست بازی، معاملہ فہمی، پرہیزگاری، امانت و دیانت، فہم و فراست، حسنِ تعامل و دیگر صفاتِ حمیدہ کا تذکرہ کیا، یہ سب کچھ حضرت خدیجہ کے لیے انتہائی فرحت ومسرت اور اطمینان کا باعث بنا۔ حضرت خدیجہؓ اس سے قبل دوبار بیوہ ہو چکی تھیں، ان کا پہلا نکاح عتیق مخزومی سے ٗ اور پھر اس کی موت کے بعد دوسرا نکاح ہند تمیمی سے ہوا تھا۔ دوسری بار بھی جب وہ بیوہ ہوگئیں توان کے مقام ورتبے اور مال ودولت کی وجہ سے بڑے بڑے سردارانِ قریش متعدد بار انھیں پیغامِ نکاح بھجوا چکے تھے، لیکن حضرت خدیجہؓ اپنی ذہانت و فہم و فراست کی وجہ سے اس حقیقت کو خوب جان چکی تھیں کہ ان میں سے کوئی بھی مخلص نہیں ہے، یہ سبھی لوگ لالچی اور محض مال وجمال کے بھوکے ہیں… اسی لیے وہ ایسے تمام پیغامات کو رد کر چکی تھیں۔ ایسے میں رسول اللہ ﷺ جب حضرت خدیجہ ؓکا مالِ تجارت لے کرگئے اور اس سفر میں منافع بہت زیادہ ہوا… اور پھر یہ کہ سفر سے واپسی پر آپؐ نے حضرت خدیجہؓ کواس تجارت کا حساب و کتاب پیش کیا… اور چپ چاپ چل دیے…! حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا بس سوچتی ہی رہ گئیں کہ کس قدر عجیب وغریب ہے یہ نوجوان … کس قدر سچا اور مخلص ہے یہ انسان… کس قدر سچی اور صاف ستھری ہے اس کی تجارت… کتنی معصومیت ہے اس کی ہر ادا میں… دوسروں کی بنسبت منافع کس قدر زیادہ لایا ہے لیکن معاوضہ کے معاملے میں کوئی تقاضا نہیں کوئی مطالبہ نہیں کوئی بحث و تکرار نہیں معاوضہ جو ملا بس چپ چاپ قبول کر لیا…! حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کے لیے یہ سب کچھ انتہائی باعثِ حیرت تھا… ایک طرف مسلسل پیغامات بھیجنے والے بڑے بڑے سردارانِ قریش جو دراصل حرص وطمع کے مارے ہوئے اور مال و زر کے پجاری تھا اور دوسری طرف سیدھا سادھا ٗسچا ٗمخلص اور اس قدر قناعت پسند ٗ متوکل وقانع قسم کا یہ نوجوان…! حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کو آپ ﷺ کی یہی ادا بھا گئی اور وہ سمجھ گئیں کہ یہی توان کی وہ متاعِ گمشدہ ہے جس کی وہ مدت سے متلاشی تھیں…! تب حضرت خدیجہ ؓنے اپنے دل کی بات اپنی ایک خاص راز دار سہیلی نفیسہ بنت مُنَبِّہ سے کہی اور انھیں آپﷺ کی طرف پیغامِ نکاح لے کرجانے کو کہا۔ نفیسہ نے یہ پیغام آپؐ تک پہنچایا، جس پر آپ ﷺ نے اپنے چچاؤں خصوصاً جناب ابو طالب اور حضرت حمزہ ؓسے مشورہ کیا، ان دونوں نے اس رشتے کی تائید کی اور پھر یہ دونوں آپ ﷺ کی طرف سے اظہارِ رضا مندی کے طور پر حضرت خدیجہؓ کے چچا عمرو بن اسد کے پاس پہنچے اور آپؐ کی طرف سے رضامندی کی انھیں اطلاع دی اور یوں آپ ﷺ اور حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا اس رشتۂ ازدواج میں منسلک ہو گئے اور یہ مبارک ترین رشتہ حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کی وفات تک ٗ یعنی مسلسل پچیس برس قائم رہا۔ رسول اللہﷺ کی یہ پہلی شادی تھی، جبکہ حضرت خدیجہؓ اس سے قبل دوبار بیوہ ہو چکی تھیں، اس شادی کے وقت آپ ﷺ کی عمر مبارک پچیس سال ٗ جبکہ حضرت خدیجہؓ کی عمر چالیس سال تھی۔۔[55] حضرت خدیجہ علیہا السلام قریش کی مالدار ترین اور معزز ترین خواتین میں سے تھیں۔ حضرت خدیجہ علیہا السلام سے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی چار بیٹیاں حضرت زینب، حضرت رقیہ، حضرت ام کلثوم اور حضرت فاطمہ پیدا ہوئیں۔ بعض علمائے اہلِ تشیع کے مطابق حضرت فاطمہ علیہا السلام کے علاوہ باقی بیٹیاں حضرت خدیجہ علیہا السلام کی بھانجیاں تھیں۔
کعبہ کی تعمیر نو
اس سال قریش نے کعبہ کی تعمیر نو کا بیڑا اُٹھایا، کعبہ کی عمارت سب سے پہلے حضرت آدم علیہ السلام نے تعمیر کی لیکن طوفانِ نوح ؑ میں یہ عمارت گر گئی، ایک طویل عرصہ بعد حضرت ابراہیم ؑ اور حضرت اسمعٰیل ؑ نے پُرانی بنیادوں پر اس کی دوبارہ تعمیر کی، اس کے بعد قوم یما لقہ اور بنو جر ہم نے اسے تعمیر کیا، اس سال جبکہ حضور اکرم ﷺ کی عمر 35 سال تھی۔ قریش نے پُرانی اور بوسیدہ عمارت کو گراکر تعمیر نو کی، اس لیے کہ تمام عرب کے لوگ اس کی زیارت کو آتے تھے اور نذر و نیاز کرتے جس سے قریش کو آمدنی ہوتی، کعبہ کے اندر ایک کنواں سا تھا جس میں ایک سانپ آ کر بیٹھ گیا اس لیے لوگ قریب جانے سے ڈرتے تھے، انھی ایام میں ایک رومی جہاز طوفان میں گھِر کر شعیبہ( جدّہ کا قدیم نام) کی بندرگاہ سے ٹکرا کر ٹکڑے ٹکڑے ہو گیا، یہ اطلاع قریش کو ملی تو انھوں نے جہاز کے تختے کعبہ کی تعمیر کے لیے خرید لیے، طوفان میں بچنے والوں میں باقوم نامی ایک مصری معماربھی تھا، اس نے تعمیر کے لیے اپنی خدمات پیش کیں، مکہ میں بھی ایک بڑھئی تھاجس سے کام لیا جا سکتا تھا، تعمیر کا سامان تو فراہم ہو گیا؛ لیکن کنوئیں کا سانپ بڑا خطرہ تھا، اتفاق سے ایک دن وہ کعبہ کی دیوار پر بیٹھا ہوا تھا کہ ایک عقاب کہیں سے اڑتا ہوا آیا اور اسے جھپٹ کر لے گیا۔
قریش نے اسے تائید ِ غیبی سمجھ کر تعمیر کا آغاز کیا اور ساتھ ہی یہ اعلان کیا کہ اللہ کے گھر کی تعمیر میں لوگ اپنی پاک کمائی لگائیں، سہولت کی خاطر انھوں نے تعمیر کا کام تمام خاندانوں میں تقسیم کیا، دروازہ والی دیوار کی تعمیر بنی عبد مناف اور بنی زہرہ کے ذمہ ہوئی، حجر اسود اور رکن یمانی کی درمیانی دیوار کی تعمیر بنی مخزوم و تیم کے سپرد ہوئی اور پچھلی دیوار اٹھانے کا کام بنی سہم اور بنی حمج کے ذمہ ہوا، بنی عبدالدار بنی اسد اور بنی عدی نے مل کر حطیم والا رخ بنانے کی ذمہ داری لی۔ اس مرحلہ پر پُرانی عمارت کو گرانے سے لوگ ڈر رہے تھے اس لیے کہ کچھ ہی عرصہ قبل یمن کا بادشاہ ابرہہ ہاتھیوں کو لے کر کعبہ کو ڈھانے کی نیت سے آیا تھا تو اس کا برا انجام ہوا تھا جسے دیکھنے والے لوگ موجود تھے، قریش نیک نیتی سے حرم کی پُرانی عمارت گرا کر اس کی تعمیر نو کرنا چاہتے تھے، آخر کار ولید بن مغیرہ مخزومی نے کُدال سے ضرب لگائی جس سے کچھ حصہ منہدم ہو گیا ؛لیکن کوئی آفت نہیں آئی، پھر ساری عمارت گرا کر تعمیر شروع کی گئی، اس کی بنیاد سات ستونوں پر رکھی گئی۔ [56]
جب دیواریں حجر اسود نصب کرنے کے مقام تک اونچی ہوئیں تو قبائل میں سخت جھگڑا پیدا ہواجو چار پانچ روز تک جاری رہا، ہر قبیلہ چاہتا تھا کہ یہ اعزاز اس کو حاصل ہو، نوبت یہا ں تک پہنچی کہ تلواریں کھنچ گئیں۔ عرب میں یہ دستور تھا کہ جب کوئی شخص جان دینے کی قسم کھاتا تھا تو پیالہ میں خون بھر کر ان میں انگلیاں ڈبولیتا تھا، اس موقع پر بھی بعض دعویداروں نے یہ رسم ادا کی، اس جھگڑے کی وجہ سے چار دن تک کام رُکا رہا، پانچویں دن قریش کے سب زیادہ معمر شخص ابو امیہ بن مغیرہ نے مشورہ دیا کہ کل صبح کو جو شخص سب سے پہلے باب بنی شیبہ سے حرم میں داخل ہو وہی ثالث قرار دے دیا جائے، سب نے یہ رائے تسلیم کی، دوسرے دن تمام قبائل کے سردار موقع پر پہنچے، خدا کی کرنی کہ سب سے پہلے جس چہرہ پر سب کی نظریں پڑیں وہ چہرہ ٔ محمدیﷺ تھا، سب نے ایک ساتھ کہا:یہ تو امین آرہا ہے، یہ تو امین آرہا ہے، ہم اس سے راضی ہیں، یہ معاملہ حضور ﷺ کے سامنے پیش ہوا تو حضور ﷺنے کندھے سے ردائے مبارک اتاری اور اپنے دستِ مبارک سے حجر اسود اس کے اندر رکھا، پھر فرمایا کہ تمام قبائل اپنی چار بڑی جماعتوں میں سے ایک ایک نمائندہ چُن لیں، پہلی بڑی جماعت نے بنی عبد مناف میں عتبہ بن ربیعہ، دوسری نے ابوزمعہ، تیسری نے ابو حذیفہ بن مغیرہ اور چوتھی جماعت نے قیس بن عدی کو اپنا نمائندہ منتخب کیا، آپﷺ نے ان چاروں سے کہا کہ چادر کا ایک ایک کونہ تھام لیں اور اٹھا کر دیوار تک لے چلیں جہاں اسے نصب کرنا ہے، جب چادر موقع کے برابر آگئی تو آپﷺ نے حجر اسود کو اٹھا کر نصب کر دیا، یہ گویا اشارہ تھا کہ کعبہ کی عمارت کا آخری تکمیلی پتھر بھی آپﷺ ہی کے ہاتھوں سے نصب ہوگا۔
کعبہ کا کچھ حصہ حطیم کے نام سے بغیر چھت کے نیم دائرہ شکل کا باہر رکھا گیا اور دیوار دونوں طرف سے کعبہ کیساتھ غیر متصل رکھی گئی تا کہ ہر کوئی ہر وقت وہاں جا سکے، اس کے اندر جانا گویا کعبہ کے اندر جانا تھا اور معمولی معاہدہ کرنا ‘ قسم وغیرہ کھانا ہو تو اب لوگ حطیم کو استعمال کرنے لگے اور اصل کعبہ کے اندر ہفتہ میں صرف دو بار پیر اور جمعرات کو نیزخاص خاص تقریبوں کے موقع پر داخلہ دیا جانے لگا۔
جب مکعب شکل کا کعبہ تیار ہو گیا تواسی زمانہ میں بُت پرست اہل مکہ نے اس کی آرائش و زیبائش بھی شروع کی، کعبہ کی دیواروں پر عمارت کے اندر قسم قسم کی تصویریں بنائیں جن میں فرشتے بھی تھے اور مختلف انبیاءکے ساتھ حضرت ابراہیمؑ اور حضرت اسمعٰیل ؑ بھی تیروں سے فال دیکھتے دکھائے گئے، نیز بی بی مریم اور حضرت عیسیٰ ؑ کی تصویریں بھی بنائی گئیں، اس کے علاوہ کعبہ کے اطراف تین سو ساٹھ بُت بھی رکھے گئے جو تمام ہی قبائل کے تھے، کعبہ کو اس طرح ایک ہمہ مذہبی دیوستھان" بنادینے سے قریش کی ذہنیت کا پتہ چلتا ہے۔ بنو جرہم کی شہوت پرستی کو اتنا اُجاگر کیا گیا کہ خانۂ کعبہ کے مجرم بھی دیوتا بنا دیے گئے، مثال کے طور پر نائیلہ بنت دیک ایک حسین عورت تھی جونیم عریاں لباس میں اپنے حُسن کی نمائش کرتی اور اسی حالت میں کعبہ کا طواف بھی کرتی، اسے دیکھنے کے لیے اس کے پیچھے شیدائیوں کا ہجوم رہتا تھا، اس کے شیدائیوں میں ایک نوجوان سردار اساف بن بغی بھی تھا، دوران طواف ایک دن اساف بے خود ہوکر دست درازی سے بھی آگے بڑھ گیا، بنو جرہم کے لوگ جو شراب پئے ہوئے اور بد مست تھے کعبہ کی اس بے حرمتی پر احتجاج کرنے کی بجائے اساف اور نائیلہ کے حسن و عشق کی داستان فخر سے بیان کرنے لگے، نہ صرف یہ بلکہ نائیلہ اور اساف کے مرنے کے بعد ا ن کے بت بنائے اور انھیں عشق و محبت کا مظہر قرار دے کر ان کی پرستش کرنے لگے، یہ بت چاہ زم زم کے کنارے نصب تھے۔
[57]
آنحضرت ﷺ اپنی قوم کی ان ذلیل حرکتوں کو دیکھتے تو شرم سے پانی پانی ہو جاتے اور ان سے بچنے کے لیے کسی پہاڑ کے دامن میں تنہا گزارا کرتے، مکہ میں اس وقت چند اور سلیم الطبع افراد بھی تھے جنھیں قوم کی یہ حرکتیں پسندنہ تھیں، وہ اس فکری ہم آہنگی کی بدولت حضور ﷺ کے شریک صحبت رہتے، ان میں بنو تیم کے حضرت ابو بکرؓ بھی تھے جو حضور ﷺ سے دو سال چھوٹے تھے، وہ بھی اپنی قوم کی ذہنی گراوٹ پر افسوس کرتے، بعثت کے بعد ان لوگوں میں سب سے پہلے حضرت ابو بکرؓ نے اسلام قبول کیا، اسی طرح حضرت خدیجہؓ کے بھتیجے حکیم بن حزام بھی قریش کے ایک معزز فرد تھے اور حضور ﷺسے پانچ سال بڑے تھے لیکن فطری طور پر حضورﷺسے ہم آہنگ تھے، فتح مکہ کے بعد انھوں نے اسلام قبول کیا، حضور ﷺ کے ایک دوست ضماد بن ثعلبہ بھی تھے جن کا پیشہ طب اور جراحی تھا، بعثت کے بعد قریش نے آپ ﷺ کو مجنون مشہور کر دیا تو وہ آپﷺ کے علاج کی خاطر ملنے کے لیے آئے، ان کے پوچھنے پر حضور ﷺنے چند آیاتِ قرآنی کی تلاوت فرمائی جنھیں سن کر وہ ایمان لائے، حضرت صہیبؓ بن سنان رومی اور حضرت عماربن یاسر بھی بت پرستوں سے نفرت کرتے تھے، مکہ کے دیگر ہم خیال حضرات میں حضرت عثمان ؓبن عفان، زبیرؓ بن عوام، عبد الرحمنؓ بن عوف، سعدؓ بن ابی وقاص، جعفرؓ بن ابو طالب، عبیدؓ اللہ بن جحش اور ابو سلمہؓ شامل ہیں، مکہ سے باہر بنی غفار کے سردار ابو زرؓ بھی ہم فکر تھے، عرب کے باہر سلمان فارسی ایران سے تلاش حق میں حضورﷺ کی خدمت میں حاضر ہوکر اسلام قبول کیے۔
تنہائی مبارک
گو کہ کعبہ تین سو ساٹھ بتوں کی آماجگاہ بن چکا تھا؛ لیکن آنحضرت ﷺنے کبھی بُتوں کے آگے سر نہیں جھکایا اور نہ کبھی دیگر رسوم جاہلیت میں شرکت کی، قریش نے اس بنا پرکہ خود کو عام لوگوں سے ممتاز رہنا چاہئیے یہ قاعدہ قرار دیا تھا کہ ایام حج میں قریش کے لیے عرفات جانا ضروری نہیں اور یہ کہ جولوگ باہر سے آئیں وہ قریش کا لباس اختیار کریں ورنہ ان کو عریاں ہو کر کعبہ کا طواف کرنا ہوگا چنانچہ اسی بنا پر طواف عریاں کا عام رواج ہو گیا تھا؛ لیکن آنحضرت ﷺ نے ان باتوں میں کبھی اپنے خاندان کا ساتھ نہ دیا، عہد جاہلیت میں عرب میں افسانہ گوئی کا عام روا ج تھا، راتوں کو لوگ تمام کاموں سے فارغ ہو کر کسی مقام میں جمع ہوتے، ایک شخص جس کو اس فن میں کمال ہوتا تھا داستان شروع کر تا تھا، لوگ بڑے ذوق و شوق سے رات رات بھر سنتے تھے، بچپن میں ایک دفعہ حضور اکرم ﷺ نے بھی اس جلسہ میں شریک ہونا چاہا تھا؛ لیکن اتفاق سے راہ میں شادی کا کوئی جلسہ تھا، دیکھنے کے لیے کھڑے ہو گئے، وہیں نیند آگئی، اٹھے تو صبح ہو چکی تھی، ایک دفعہ اور ایسا ہی اتفاق ہوا، چالیس برس کی مدت میں صرف دو دفع اس قسم کا ارادہ کیا؛ لیکن دونوں دفعہ بھی توفیق الٰہی نے بچا لیا کہ تیری شان ان مشاغل سے بالاتر ہے۔ یہ فطرت سلیم اور نیک سرشتی کا تقاضا تھا؛ لیکن ایک شریعت کبریٰ کی تاسیس کے لیے کچھ اور درکار تھا، اسی زمانہ میں دیگر افراد( ورقہ، زید، عثمان بن حویرث) تلاش حق میں سرگرداں تھے، ان کے دل میں خیال آیا کہ بتوں کے آگے سر جھکانا حماقت ہے، چنانچہ سب مذہب حق کی تلاش کے لیے نکلے؛ لیکن ناکامی ہوئی، ورقہ اور عثمان عیسائی ہو گئے اور زیدیہ کہتے کہتے مر گئے، ائے خدا ! اگر مجھ کو یہ معلوم ہوتا کہ تجھ کو کس طرح سے پوجنا چاہیے تو میں اسی طریقے سے تجھ کو پوجتا۔[58]
[59]
حضور اکرم ﷺ کو بھی ہمیشہ یہ فکر دامن گیر رہتی کہ کیا انسان اسی کے لیے پیدا کیا گیا ہے ؟ طبیعت تنہائی کی طرف مائل ہونے لگی، حضرت خدیجہ ؓ آپﷺ کے مزاج کو سمجھتی تھیں، آپﷺ اپنی بے چین فطرت کی آسودگی کے لیے شہر اوران کے ہنگاموں سے دور پہاڑوں کی طرف نکل جانے لگے۔
[60]
جبل نور اور غار حرا
مکہ سے تین میل دور جبلِ نور واقع ہے جسے زمانہ قدیم میں جبل حِرا کہتے تھے، اس میں ایک غار ہے جہاں آپﷺ جا کرمہینوں قیام کرتے اور مراقبہ فرماتے، کھانے پینے کا سامان ساتھ لے جاتے، وہ ختم ہو جاتاتو گھر تشریف لاتے اور پھر واپس جا کر مراقبے میں مصروف ہو جاتے، صحیح بخاری میں ہے کہ آپﷺ غارِ حرا میں تحنّث یعنی عبادت کیا کرتے تھے، یہ عبادت کیا تھی ؟ شرح بخاری میں ہے " یہ سوال کیا گیا کہ آپ ﷺ کی عبادت کیا تھی ؟ جواب یہ ہے کہ غور و فکر اور عبرت پذیری" یہ وہی عبادت تھی جو آپﷺ کے دادا ابراہیم علیہ السلام نے نبوت سے پہلی کی تھی، ستاروں کو دیکھا تو چونکہ تجلی کی جھلک تھی، چاند نکلا ہوا تو اور بھی شبہ ہوا، آفتاب پر اس سے زیادہ، لیکن جب سب نظروں سے غائب ہو گئے تو بے ساختہ پکار اُٹھے، میں فانی چیزوں کو نہیں چاہتا، میں اپنا منہ اس کی طرف کرتا ہوں جس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا، [61]
غار حرا میں آپ ﷺ کے دادا عبد المطلب ماہِ رمضان میں اعتکاف کیا کرتے تھے، حضور ﷺ کی یہ کیفیت حضرت رقیہؓ کی ولادت کے بعد ہی سے شروع ہو چکی تھی، آپﷺ کا دور تحنُّث پانچ سالوں پر محیط ہے، جس طرح بعض انبیائے ما سبق کی زندگی میں بعض پہاڑوں کی اہمیت ہے اسی طرح حضور اکرم ﷺ کی حیات طیبہ میں د و پہاڑ یعنی جبل نور ( حرا) اور جبل ثور کو بھی بڑی اہمیت حاصل ہے، جبل حِرا کی اس لیے کہ بعثت سے قبل آپﷺ کا دور ِ تحنّث اسی پہاڑ پر گذرا تھااور غار ثور کی اس سبب سے کہ مکہ سے مدینہ ہجرت کر کے جاتے وقت آپﷺ نے تین دن وہاں قیام فرمایا تھا، سابق انبیا علیہم السلام میں حضرت آدم علیہ السلام اور حوا علیہاالسلام کی ملاقات جبل ِ رحمت پر ہوئی تھی، حضرت نوح ؑکی کشتی جودی پہاڑ پر ٹھہری، صفا اور مروہ کی پہاڑیوں کو حضرت ابراہیمؑ، حضرت ہاجرہؑ اور اسمعٰیل ؑ سے خاص نسبت ہے، حضرت موسیٰ ؑ کی کوہِ طور سے اور حضرت عیسیٰ ؑ کی کوہِ زیتون سے خاص نسبت ہے۔ [62]
حِرا کے لفظی معنی تلاش و جستجو کے ہیں، غارِ حرا کو بڑی فضیلت اس لیے حاصل ہے کہ حضور ﷺ نے اپنا دور تحنّث یہیں گزارا اور یہیں حضرت جبریل ؑ آپﷺ پر پہلی وحی لے کر آئے، جبل حِرا میں یہ غار سطح زمین سے تقریباً دو ہزار فٹ کی اونچائی پر ہے، غار مستطیل شکل کا ہے اور قدرتاً کعبہ رخ ہے، اندر سے تقریباً چار گز لمبا، پونے دو گز چوڑا اور اتنا اونچا ہے کہ ایک آدمی کھڑا ہو کر آسانی سے نماز ادا کر سکتا ہے، مستند روایات اور سوانح نگاروں کے بیانات سے معلوم ہوتا ہے کہ ان روحانی ترقیاتِ مدارج کے سلسلہ میں اولاً آپﷺ کو رویائے صادقہ(سچے خواب) پیش آ نے لگے، رویائے صادقہ کو نبوت کا 46 واں حصہ کہا جاتا ہے، یعنی بارہا ایسے خواب نظر آتے جن کی بعد میں جلد تعبیر نکل آتی، پھر رفتہ رفتہ بعض وقت آپﷺ کو یہ محسوس ہونے لگا کہ کوئی درخت یاکوئی پتھر آپﷺ سے مخاطب ہے اور آواز دے رہاہے، رفتہ رفتہ یہ آوازیں با معنی الفاظ کی صورت اختیار کر تی گئیں، چالیس سال ہونے آئے تو قدرت کی طرف سے وحی و الہام کے لیے تیا ر کیا جانے لگا اور رسولِ اُمی کو رب العالمین نے چاہا کہ رحمتہ للعالمین بنا دے۔
رسالت ومژدۂ نبوت
قمری سال کے حساب سے جب آپ ﷺ کی عمر چالیس سال ایک دن ہوئی (اور یہی سن کمال ہے اور کہا جاتا ہے کہ یہی پیغمبروں کی بعثت کی عمر ہے اس وقت آپ ﷺ کو نبوت سے سرفراز فرمایا گیا) تو 9 ربیع الاول 41 میلادی مطابق 12 فبروری 610 ء پیر کی شام غار ِ حرا میں روح الامین (حضرت جبریل )ظاہر ہوئے اور فرمایا: ائے محّمد ! بشارت قبول ہو، آپ ﷺ اللہ کے رسول ہیں اور میں جبرئیل ہوں، اس غیر متوقع واقعہ سے آپ ﷺ گھبرا گئے اس لیے کہ آپﷺ کے گمان میں بھی نہ تھا کہ آپﷺ نبی بنائے جانے والے ہیں، مارے خوف کے آپﷺ لرزتے اور کانپتے غارِ حرا سے نکلے اورپہاڑسے اترنے لگے، درمیان میں پہنچے تو پھر آواز آئی، ائے محمد! آپ اللہ کے رسول ہیں اور میں جبریل ہوں، آپﷺ نے اپنا سر اُٹھا کر دیکھا تو جبریل آسمان کے کنارے ایک آدمی کی شکل میں کھڑے ہیں، اس اعلان کے بعد جبریل نظروں سے اوجھل ہو گئے، آپﷺ اسی ڈری، سہمی حالت میں سیدھے گھر پہنچے اور حضرت خدیجہؓ سے فرمایا: مجھے چادر اڑھاؤ، مجھے چادر اڑھاؤ، تھوڑی دیر کے بعداس واقعہ کا ذکر کر کے فرمایا: اے خدیجہؓ مجھے کیا ہو گیا ہے، مجھے اپنی جان کا ڈر ہے، حضرت خدیجہؓ نے آپﷺ کو تسکین دی اور فرمایا: آپﷺ خوش ہو جائیے اللہ تعالیٰ آپﷺ کو کبھی رسوا نہ کرے گا اس لیے کہ آپﷺ صادق و امین ہیں، بے سہاروں کا سہارا ہیں، مہمان نواز ہیں اور نیک کاموں میں مدد کرتے ہیں، حضرت خدیجہؓ نے آپﷺ کی بات کی تصدیق کی اور پہلی گواہی دی۔ [63]
عیسائی عالم کی شہادت
پھرحضرت خدیجہؓ آپﷺ کو اپنے چچا زاد بھائی اور عیسائی عالم ورقہ بن نوفل کے پاس لے گئیں جو توریت اور انجیل کے عالم تھے اور انجیل کی عربی میں کتابت کرتے تھے، وہ دور ِ جاہلیت میں بُت پرستی سے بیزار ہو کر عیسائی بن گئے تھے، ان کی عمر زیادہ ہو چکی تھی اور بینائی بھی جواب دے چکی تھی، انھوں نے حضور اکرمﷺسے سارا واقعہ سنا توکہا:یہ وہی ناموس ہے جو موسیٰ ؑ پر اترا تھا، پھر کہا ! کاش کہ میں آپﷺ کے زمانہ نبوت میں ہوتا، کاش میں اس وقت تک زندہ رہتا جب آپﷺ کی قوم آپﷺ کو نکال دے گی، حضور ﷺ نے پوچھا! کیا یہ لوگ مجھے نکال دیں گے؟ ورقہ نے جواب دیا، ہاں کبھی ایسا نہیں ہوا کہ کوئی شخص وہ چیز لے کر آیا ہو جو آپﷺ لائے ہیں اور اس سے دشمنی نہ کی گئی ہو، اگر میں نے آپﷺ کا زمانہ پایا تو بھر پور آپﷺ کی مدد کروں گا، حضرت خدیجہؓ نے ان سے پوچھا ! مجھے جبریل کے بارے میں کچھ بتائیے، ورقہ نے کہا ! کون قدوس قدوس یا(سبوح، سبوح)حضرت خدیجہؓ نے کہا ہاں ! میرے شوہر محمد ﷺ کہتے ہیں کہ ان کے پاس جبریل آئے تھے وہ ان کی کیفیت بھی بتلاتے ہیں، یہ سن کر ورقہ نے کہا کہ اگر جبریل زمین پر اترے ہیں تو اللہ تعالیٰ بہت خیر و برکت نازل کرے گا، اگر یہ سچ ہے تو ان کے پاس وہی فرشتہ آیا ہے جو حضرت عیسی ؑ کے پاس آیا تھا، ائے خدیجہؓ یہ وہی ناموس اکبر ہے جو ان سے پہلے حضرت موسیٰ ؑ پر بھی نازل ہوا تھا، ناموس خیر کی خبر لانے والے کو کہتے ہیں اور شر کی خبر لانے والے کو جاسوس کہتے ہیں، آسمان سے وحی لانے والا فرشتہ بھی ناموس کہلاتا ہے، بعض مفسرین ناموس کے معنی قابل اعتماد " بتلاتے ہیں اور بعض حضرت جبریل کو ناموس کہتے ہیں، ڈاکٹر حمید اللہ اسے یونانی لفظ نوموس" (NOMOS) کا عربی معرب بتلاتے ہیں جس کے معنی توریت کے ہیں، اس طرح ورقہ بن نوفل کا مطلب یوں واضح ہوتا ہے کہ یہ چیز حضرت موسیٰ ؑ کی توریت سے مشابہ ہے، یہی معنی زیادہ قرین قیاس ہیں
[64]
جب حضورﷺ ورقہ بن نوفل سے رخصت ہونے لگے تو انھوں نے آپﷺ کے سرِ اقدس کو بوسہ دیا، اس ملاقات کے بعد ورقہ نے آپﷺ کی شان میں ایک قصیدہ بھی لکھا، قصیدہ کا ترجمہ درج ذیل ہے :
1- خدیجہؓ سے مختلف اوصاف معلوم کرنے کے بعد مجھے معلوم ہو گیا ہے کہ یہ وہی نبی ہیں جن کا مجھے
عرصہ دراز سے انتظار تھا،
2- مجھے یہی امید تھی کہ یہ نبی مکہ یا مدینہ میں مبعوث ہوں گے، اب تمھاری بات سن کر مجھے یقین
ہو گیا ہے،
3- بات یہ ہے کہ محمد ﷺ اپنی قوم کا سر براہ ہوگا اور اپنے مخالفین پر محبت سے غالب آئے گا،
4- شہرو ں میں ہدایت کا نور اور روشنی پھیل جائے گی اور مخلوق کو اضطراب کی بجائے سکون
نصیب ہو گا،
5- ان سے لڑائی کرنے والے خائب و خاسر اور صلح و صفائی رکھنے والے فوز و فلاح سے ہمکنار
ہوں گے،
6- ائے کاش ! مجھے وہ وقت نصیب ہو جب ان کی قوم ان کے ساتھ اچھا سلوک نہ کرے گی تو میں
انھیں ان کے مقام سے آگاہ کروں گا اور معتمد علیہ ثابت ہوں گا،
7- میں ضرور اس دین میں داخل ہو جاؤں گا جسے قریش خواہ پسند نہ کریں اور چیخ چیخ کر مکہ سر پر
اٹھالیں،
8- جس بات کو تمام قریش نا پسند کرتے ہوئے پستی میں گِر جائیں گے مجھے امید ہے اسے اختیار
کر کے عرش والے تک رسائی حاصل کی جا سکے گی،
9- اگر یہ باقی رہے اور میں بھی باقی رہا تو ہم یقیناً ایسے امور ملاحظہ کریں گے جن کی وجہ سے
کافروں کو نالہ و شیون کرنا پڑے گا،
10- اور اگر میں چل بسا تو ہر نوجوان کو بالآخر ایسے امور کا سامنا کرنا پڑے گا جو اس کی وفات پر منتج
ہوں گے،
بعثت (پہلی وحی)
اب زندگی میں ایک اور انقلاب ہوا کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو خلوت گزینی کی طرف رغبت ہوئی اور غار حرا میں روز وشب بسر ہونے لگے بت پرستی سے شروع ہی سے نفرت تھی اس لیے کبھی نہ کسی صنم کے آگے سر جھکایا اور نہ کسی ایسی مجلس میں شرکت فرمائی جو صنم پرستی کے میلے کہلاتے تھے ‘ اب خلوت میں فطرت سلیم جس طرح رہنمائی کرتی خدائے واحد کی عبادت کرتے مگر ایک خلش سینے میں ایسی تھی جو اس حالت میں بھی بے چین ہی رکھتی ‘ اکثر یہ سوچ کر تڑپ جاتے تھے کہ میری قوم خصوصاً اور دنیائے انسانی عموماً کس طرح خدائے واحد کو چھوڑ کر صنم پرستی اور مظاہر پرستی میں مبتلا ہے اور یہ کہ اخلاق کی دنیا کس طرح الٹ گئی ہے آخر وہ کونسا نسخہ کیمیا ہے جو اس حالت میں انقلاب پیدا کر دے اور سچی خدا پرستی اور نیک عملی پھر ایک مرتبہ اپنی نمود دکھلائے۔
یہی جذبات و تاثرات تھے جو قلب مضطرب میں موجزن تھے اور خلوت کدہ حرا میں انہی کیفیات کے ساتھ ذات اقدس (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مصروف یاد الٰہی رہتے اور جب کئی کئی دن اس طرح گذر جاتے تو کبھی حضرت خدیجہ (رضی اللہ عنہا) حاضر ہو کر آزوقہ حیات دے جاتیں اور کبھی خود بنفس نفیس جا کر چند روز کا سامان خور و نوش لے آتے اور حرا میں پھر مشغول عبادت ہوجاتے چنانچہ چودہ صدیاں گزرنے کے بعد آج بھی حرا زبان سے اس کیف آگیں منظر کا شاہد ہے جس کا لطف اس نے برسوں اٹھایا ہے مشہور محدث و مؤرخ حافظ عماد الدین ابن کثیر (رحمہ اللہ علیہ) نے اس واقعہ کو ان مختصر الفاظ میں حسن و خوبی کے ساتھ بیان کیا ہے :
( (وَاِنَّمَا کَانَ رسول اللّٰہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یُحِبُّ الْخَلَائَ وَالْاِنْفِرَادَ عَلٰی قَوْمِہٖ لِمَا یَرَأَھُمْ عَلَیْہِ مِنَ الضَّلَالِ الْمُبِیْنِ مِنْ عِبَادَۃِ الْاَوْثَانِ وَالسُّجُوْدِ لِلْاَصْنَامِ وَ قَوِیَتْ مُحَبَّتُہٗ لِلْخَلْوَۃِ عِنْدَ مُقَارَبَۃِ اِیْحَائِ اللّٰہِ اِلَیْہِ صَلَوَاتُ اللّٰہِ وَ سَلَامُہٗ عَلَیْہِ )) [65]
” اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) (دور شباب میں) خلوت پسند ہوگئے تھے اور قوم سے الگ تنہائی میں وقت گزارتے تھے کیونکہ وہ قوم کی اس کھلی گمراہی کو دیکھ کر کہ ” وہ بت پرستی میں مبتلا اور بتوں کے سامنے سجدہ گزار ہے “ کڑھتے تھے اور جوں جوں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر وحی الٰہی کے نزول کا زمانہ قریب ہوتا جاتا تھا (مشیت الٰہی سے) اسی قدر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خلوت پسندی میں اضافہ ہوتا جاتا۔ ”
صَلَوَاتُ اللّٰہِ وَ سَلَامُہٗ عَلَیْہِ “ (اس ذات اقدس پر خدا کی رحمتیں اور سلامتی نازل ہو)۔ “
بہرحال یہی وہ خلوت کدہ عبادت تھا جہاں ذات اقدس (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر سب سے پہلے وحی الٰہی کا نزول ہوا اور بالترتیب سورة اقراء اور سورة مدثر کی چند آیات سنانے کے لیے بشیر و نذیر بنادیا۔
حقیقت وحی
یہ ” وحی “ و ” تنزیل “ کیا ہے جس کو نبوت و رسالت کے خصائص میں سے کہا جاتا ہے اور یہ منصب نبوت و رسالت کیا شے ہے جس کا وحی وتنزیل کے ساتھ اتنا گہرا اور قریبی تعلق ہے کہ منطقی اصطلاح میں لازم و ملزوم کہا جا سکتا ہے اور اس اصطلاحی گفتگو سے قطع نظر سادہ الفاظ میں اس سوال کو کیوں نہ اس طرح پیش کر دیا جائے کہ کائنات انسانی کے ہر معاملہ میں جبکہ حسن و قبح کے درمیان امتیاز پیدا کرنے کے لیے فطرت نے ہم کو جوہر عقل عطا کر دیا ہے اور انسان کے اندر کی یہ سرچ لائٹ (SEARCH LIGHT ) ہر ایک مادی شعبہ حیات میں رہنمائی کرتی ہے تو پھر رسول و نبی کے ذریعہ پیغام الٰہی کی حاجت کیا ہے ؟ اور عالم روحانیات کے مسائل اور معرفت الٰہی کے حصول میں تنہا عقل ہی کیوں کافی نہیں سمجھی جاتی ؟ یہی وہ سوال ہے جس کے حل ہوجانے پر وحی اور نبوت دونوں کی حقیقت بھی خود بخود واضح ہو سکتی ہے۔
اس سوال کو حل کرنے کے لیے پہلے ایک تمہید قابل توجہ ہے اور دراصل وہی اس مسئلہ کی کلید ہے۔ تم جب کائنات کے وجود و خلق کو عمیق فکر و نظر سے مشاہدہ کرتے ہو تو یہ حقیقت ہر جگہ ابھری ہوئی نظر آتی ہے کہ خالق کائنات نے اپنی ربوبیت کاملہ کے فیض وعطاء سے ہر شے کو جس طرح وجود بخشا اور خلق کیا اس کو ” ہدایت “ (راہنمائی) سے بھی سرفراز کیا ہے اور اگر یہ نہ ہوتی تو کائنات کا وجود و خلق مہمل اور بیکار ہوجاتا ‘ کیونکہ یہی ” ہدایت “ ہر ایک جاندار پر زندگی اور معیشت کی راہ کھولتی ‘ ان کی حیات کو مفید بناتی اور ضروریات حیات کی طلب و حصول میں رہنمائی کرتی ہے اور یہی ناموس فطرت کا وہ فیض عام ہے جس کے بغیر کوئی مخلوق بھی سامان حیات اور وسائل تربیت سے استفادہ نہیں کرسکتی اور نہ وجود حیات کی یہ گرمجوشیاں ہی ظہور پزیر ہو سکتیں۔
” مچھلی کے جائے کن تیرا ئے “ اسی حقیقت کی جانب اشارہ ہے وہ جب اس دنیا میں آنکھ کھولتے ہیں تو خود بخود پانی میں تیرنے لگتے اور اپنی غذا کی جستجو میں مصروف ہوجاتے ہیں ‘ پرندوں کے بچے انڈے سے باہر آتے ہی ہوا میں اڑنے کی کیوں کوشش کرتے نظر آتے ہیں حیوان اور انسان کا بچہ جب اس کارگاہ ہستی میں قدم رکھتا ہے تو بھوک و پیاس دور کرنے کے لیے ماں باپ سے تعلیم حاصل نہیں کرتا بلکہ خود بخود ماں کے سینہ پر منہ رکھ کر غذا کے خزانہ سے دودھ کیوں چوسنے لگتا ہے۔
آخر یہ سب کیا ہے اور کیوں ہے ؟ تم کہتے ہو کہ یہ فطرت کا قانون ہے جو ان سب کو فیض ہدایت سے فیضیاب کرکے مخلوق کی نشو و نما کا سامان مہیا کرتا ہے یہ ہدایت ہے جوہر حرکت حیات میں اپنا کام کر رہی ہے اور یہ فیض ہدایت ہے جو خالق کائنات کی جانب سے مخلوقات کی نشو و نما کے لیے فیض عام ہوا ہے۔
لیکن ابھی وسعت نظر کو آگے بڑھنے دیجئے اور قدرت حق کے مشاہدہ کے لیے تیز گام ہوجائیے توکارگاہ قدرت اور نوامیس فطرت کی کرم فرمائیاں اور زیادہ جلوہ آرا نظر آئیں گی ‘ اور تم دیکھو گے کہ یہ ” ہدایت “ بھی دوسری موجودات کی طرح ارتقائی درجات رکھتی ہے اور ہر ایک درجہ اپنی افادیت کی نمو جدا رکھتا ہے چنانچہ اس راہ میں سب سے پہلے وجدان کی ہدایت سامنے آتی ہے اور یہ طبیعت حیوانی کے فطری اور باطنی الہام کا نام ہے یہی وہ ابتدائی درجہ ہے جو بچہ کو قید ہستی میں آنے کے فوراً بعد ہی کسی خارجی تعلیم و تربیت کے بغیر اس کی غذا کا پتہ دیتا اور اسباب حیات کے لیے معلم بنتا ہے اور یہی وہ حقیقت ہے جو انسان کی ارتقائی منزل پر پہنچ کر اور ” ضمیر کی آواز ‘ اندر کی صدا “ بن کر حقائق کی معرفت کے لیے خارجی دلائل وبراہین سے زیادہ قوی حجت ثابت ہوتی ہے۔
اس کے بعد ہدایت حواس کا درجہ ہے یہ پہلے درجہ سے بلند ہے اور اس کی عطا و بخشش سے ہر ایک ذی روح دیکھنے ‘ سننے ‘ سونگھنے ‘ چکھنے کی قوتیں حاصل کرتا ہے اور ان کے ذریعہ کائنات عالم میں اپنی افادیت اور استفادہ دونوں کو ترقی دیتا ہے۔ قدرت حق کی جانب سے یہ دونوں درجے انسان اور حیوان دونوں کو عطا ہوئے ہیں اور دونوں کی یکساں طور پر راہنمائی کرتے ہیں ‘ مگر ان دونوں سے بلند ایک درجہ اور ہے جو ہدایت عقل کہلاتا ہے اور صرف انسان ہی کے لیے مخصوص ہے اور یہ بھی پہلے دو درجوں کی طرح بدیہی اور فطرت کے قوانین و نوامیس میں نمایاں جگہ رکھتا ہے یہی وہ ہدایت ہے جو انسان کو بقیہ تمام حیوانات سے امتیاز بخشتی اور اس کے سامنے فکر و نظر اور ترقیوں کی راہیں کھولتی ہے۔
اور اسی کی بدولت وہ اشرف المخلوقات کہلانے کا مستحق سمجھا جاتا ہے۔
عطیہ الٰہی ” ہدایت “ کے یہ تینوں درجے اپنے اپنے حلقہ اثر میں حضرت انسان کی رہنمائی کا حق ادا کرتے رہتے ہیں چنانچہ وجدان اس میں سعی پیہم کا جوش و ولولہ پیدا کرتا ہے ” حواس “ اس کے لیے معلومات فراہم کرتے ہیں اور ” عقل “ اس کو جزئیات و کلیات کا علم بخشتی اور ان سے متعلق احکام و نتائج ترتیب دیتی ہے۔ غرض یہی وہ ” ہدایت “ ہے قرآن عزیز نے جس کا ذکر انسانی تخلیق و تربیت کے سلسلہ میں کیا ہے مثلاً حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اور فرعون کے باہمی مکالمہ میں حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے خدائے برحق کی ربوبیت کاملہ کا جس طرح اظہار فرمایا ہے اس کا ذکر یوں کیا ہے :
سورة طہ میں ہے :
{ رَبُّنَا الَّذِیْٓ اَعْطٰی کُلَّ شَیْئٍ خَلْقَہٗ ثُمَّ ھَدٰی } [66]
” ہمارا پروردگار وہ ہے جس نے ہر چیز کو اس کی بناوٹ دی پھر اس پر راہ عمل کھول دی۔ “
اور سورة اعلٰی میں ہے :
{ الَّذِیْ خَلَقَ فَسَوّٰی۔ وَالَّذِیْ قَدَّرَ فَہَدٰی۔ } [67]
” وہ پروردگار جس نے ہر چیز پیدا کی پھر اس کو درست کیا پھر ہر وجود کے لیے ایک اندازہ ٹھہرا دیا ‘ پھر اس پر راہ عمل کھول دی۔ “
اس آیت میں وجود کائنات کے چار مراتب بیان کرکے قرآن نے ایک عظیم الشان ” حقائق علمیہ “ کا باب کھول دیا ہے۔ یہ چار مراتب بالترتیب ” خلق ‘ تسویہ ‘ تقدیر ‘ ہدایت “ ہیں اور یہی چار مراتب خلاصہ حقائق ہیں ‘ خلق یہ کہ وجود بخشا ‘ تسویہ یہ کہ اس کی استعداد کے مطابق اس کی درست کاری کی ‘ تقدیر یہ کہ ہر شے سے متعلق اس کے بدء خلق سے اس کے نتیجہ حیات تک کے لیے پہلے سے ایک مقررہ اندازہ طے کر دیا اور ہدایت یہ کہ اس پر ہر قسم کی راہ عمل کھول دی۔
اور سورة بلد میں ہے :
{ اَلَمْ نَجْعَلْ لَّـہٗ عَیْنَیْنِ۔ وَلِسَانًا وَّشَفَتَیْنِ۔ وَہَدَیْنٰـہُ النَّجْدَیْنِ۔ } [68]
” کیا ہم نے اس کو (دیکھنے کے لیے) دو آنکھیں نہیں دیں اور کیا (بولنے کے لیے) زبان اور دو ہونٹ نہیں دیے اور ہم نے اس کو اچھی اور بری دونوں راہیں دکھا دیں۔ “
اور سورة دہر میں ہے :
{ اِنَّا خَلَقْنَا الْاِنسَانَ مِنْ نُّطْفَۃٍ اَمْشَاجٍ نَّبْتَلِیْہِ فَجَعَلْنَاہُ سَمِیْعًا بَصِیْرًا۔ اِنَّا ہَدَیْنٰـہُ السَّبِیْلَ اِمَّا شَاکِرًا وَّاِمَّا کَفُوْرًا۔ } [69]
” ہم نے انسان کو (مرد و عورت کے) ملے جلے نطفہ سے پیدا کیا جس کو (ہم) مختلف حالتوں میں پلٹتے ہیں پھر اسے سننے والا اور دیکھنے والا بنادیا ہم نے اس پر راہ عمل کھول دی اب یہ اس کا کام ہے کہ شکرگزار بنے یا ناشکرگزار ۔ “
مگر یہ بات بھی بہت صاف ہے کہ ہدایت کے ان ہر سہ مراتب وجدان ‘ حواس ‘ عقل کی راہ عمل اپنے اپنے دائرہ عمل ہی تک محدود ہے یعنی وجدان ایک جاندار کے اندر زندگی کے لیے جوش عمل اور سعی مسلسل ولولہ تو پیدا کرسکتی ہے مگر حیوان یا انسان سے باہر محسوسات خارجیہ کا ادراک اور علم اس کے دائرہ عمل سے خارج ہے ‘ اسی طرح ہدایت حواس محسوسات کا ادراک ضرور پیدا کردیتی ہے لیکن یہ اس کے احاطہ عمل سے باہر ہے کہ وہ محسوسات کے نتائج و احکام اور جزئیات سے کلیات کا اور کلیات سے جزئیات کا استنباط کرسکے کیونکہ یہ کار فرمائی ” ہدایت عقل “ سے متعلق ہے جو عام حیوانات کے لیے نہیں بلکہ صرف انسان کے ساتھ ہی مخصوص ہے۔
تو ہدایت عقل اگرچہ پہلی دونوں ہدایات کے مقابلہ میں بلند مرتبہ رکھتی اور کائنات کی بلند ترین ہستی ( حضرت انسان) کی رہنمائی کرتی ہے تاہم اس سے بھی انکار نہیں ہو سکتا کہ ” عقل کا دائرہ “ وسیع تر ہونے کے باوجود پھر محدود ہے کیونکہ یہ ایک حقیقت ثابتہ ہے کہ عقل جو کچھ اور جس قدر بھی نتائج و احکام کا استنباط و استخراج کرتی ہے اس کا دائرہ محسوسات ہی تک محدود رہتا ہے اور حواس خمسہ (قوت باصرہ ‘ سامعہ ‘ لامسہ ‘ شامہ ‘ ذائقہ) نے اپنی اپنی خدمات انجام دے کر جو کچھ ہمارے لیے فراہم کیا ہے عقل اسی پر اپنا تصرف کرتی اور کرسکتی ہے لیکن یہ بات کہ محسوسات کی سرحد سے پرے کیا کچھ ہے اور اس پردے کے پیچھے کیا ہے ؟ اس مقام پر پہنچ کر عقل بھی درماندہ ہو کر رہ جاتی ہے اور یہ درجہ ہدایت بھی اس سلسلہ میں ہم کو کسی قسم کی روشنی پہنچانے سے معذور نظر آتا ہے۔
علاوہ ازیں اگر وجدان کی تکمیل کے لیے حواس اور حواس کی تکمیل کے لیے عقل کی ہدایت موجود نہ ہوتی تو انسان ہرگز ان مدارج ارتقا اور مراتب رفیع پر نہ پہنچ پاتا جن تک آج پہنچا ہوا ہے اور آئندہ جن تک پہنچنے کے لیے میدان عمل میں گامزن ہے اگر انسان میں وجدان کی قوت نہ ہوتی تو کس طرح حواس کی دنیا تک اپنی حیات کو پہنچا سکتا اور اگر محسوسات کے ادراک کے لیے حواس کی قوتیں نہ ہوتیں تو انسان کس طرح اپنی ذات سے خارج اشیاء کا ادراک کرسکتا اور ترقی کے لیے کوئی قدم اٹھاسکتا اور جبکہ حواس کے وسائل ادراک محدود ہیں ‘ اور نہ صرف محدود بلکہ بسا اوقات گمراہی اور غلطی میں مبتلا کردیتے ہیں مثلاً ہم کو طویل فاصلہ کی بڑی سے بڑی چیز چھوٹی نظر آتی ہے یا خلط صفراء کے بڑھ جانے سے شیریں سے شیریں چیز ذائقہ میں تلخ معلوم ہوتی ہے یا فاصلہ ہونے کی وجہ سے ہم رنگوں کے امتیاز میں اکثر غلطی کر جاتے ہیں تو ان تمام حالتوں میں عقل کی ہدایت کام آتی اور صحیح رہنمائی کرتی ہے اور اصل حقیقت کو پیش نظر لاتی ہے وہ کہتی ہے کہ اگر طویل فاصلہ کی بنا پر تم کو جہاز ایک چھوٹی سی چیز نظر آتا ہے تو یہ نگاہ اور قوت باصرہ کا قصور ہے ورنہ جہاز ایک لمبی چوڑی اور بڑی شے کا نام ہے اسی طرح شیریں اور تلخ کا فیصلہ کرتی ہے اور کہتی ہے کہ حقائق میں کوئی تبدیلی نہیں ہوئی شیریں ہر حالت میں شیریں ہے اس لیے ذائقہ کی یہ تلخی مرض کی وجہ سے ہے غرض حواس کی غلطیوں سے محفوظ رکھ کر اصل حقیقت کو واضح کرنا عقل کی ہدایت کا فریضہ ہے اس لیے ہم ایک قدم اور آگے بڑھا کر یہ کہے بغیر نہیں رہ سکتے کہ اس سے قطع نظر کہ عقل محسوسات کی حدود سے آگے کچھ نہیں جانتی ‘ انسان کی عملی زندگی کے تمام حالات میں عقل کی ہدایت بھی کافی اور موثر ثابت نہیں ہوتی اس لیے کہ ہم دیکھتے ہیں کہ نفس انسانی جذبات ‘ رجحانات اور قسم قسم کی خواہشات سے متاثر و مغلوب ہے بلکہ اکثر یہ مشاہدہ ہوتا رہتا ہے کہ جب عقل اور جذبات کے درمیان کشمکش ہوتی ہے تو فتح جذبات ہی کی ہوتی ہے اور عقل درماندہ ہو کر رہ جاتی ہے۔
تو ان حالات میں عقل ہی تقاضا کرتی ہے کہ یہاں عقل سے بھی بلند اور کوئی درجہ ہونا چاہیے جو عقل سے زیادہ موثر رہنما اور ہر قسم کی کوتاہیوں سے پاک اور بے لوث ثابت ہو۔
اس تمہید کا حاصل یہ نکلا کہ انسان محسوسات کے دائرہ میں محدود رہ کر بھی اور ماورائے محسوسات کے ادراک کے لیے بھی ہدایت عقل سے بلند (ایک چوتھے) درجہ ہدایت کا محتاج ہے تو اب لائق غور و فکر ہے یہ بات جس رب العٰلمین نے اپنی ربوبیت کاملہ سے انسان کے ارتقائی کمالات کی حاجات و ضروریات کے پیش نظر ہدایت وجدان سے بلند ہدایت حواس اور ہدایت حواس سے رفیع ہدایت عقل عطا فرمائی تو جبکہ عقل کی ہدایت بھی خالص حدود سے آگے نہیں جا سکتی اور حصول کمالات اور اعمال کے صحیح ضبط و نظم کے لیے ہی کافی نہیں ہے نیز ماورائے محسوسات کے عدم علم کے باوجود اس کے انکار پر کوئی مثبت علمی دلیل موجود نہیں ہے بلکہ اس کے برعکس وجدانی جذبات و احساسات اور شعور نفس اس کے حقیقت ہونے کا پتہ دیتے ہیں تو کیا اس خدائے برحق کی ربوبیت اور فیض رحمت کے لیے یہ منافی نہ تھا کہ وہ انسان کو ہدایت عقل سے بلند کوئی مرتبہ ہدایت عطا نہ کرے ؟ ضرور منافی تھا اور اس لیے ایسا نہیں ہوا بلکہ اس نے اس کو ایک اور بلند تر مرتبہ ہدایت وحی بخشا یہ مرتبہ ہدایت اپنی رہنمائی میں ہر قسم کی کوتاہیوں اور خطا و قصور سے مامون و محفوظ ہے کیونکہ یہ خدا کی جانب سے ہر شے کی حقیقت کا علم و یقین عطا کرتا ہے اور ہدایت وحی کے افاضہ کی صورت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ ایک ایسی مقدس ہستی کو جو ہر قسم کے گناہوں اور عیوب سے ” معصوم “ ہوتی ہے اس مقصد کے لیے چن لیتا ہے کہ وہ اس کی جانب لوازم بشریت کے ساتھ مقید رہ کر دوسرے انسانوں کی طرح انسان اور بشر کہلاتی ہے اور دوسری جانب سے کائنات انسانی تک ” ہدایت وحی “ کو پہنچا دے ‘ اس لیے یہ مقدس ہستی ایک جانب عیوب و مآثم سے معصوم رہ کر خدا کے ساتھ وہ تعلق رکھتی ہے جو دوسرے مقدس انسانوں کو بھی حاصل نہیں ہوتا اور اس طرح خدا اور اس کے بندوں کے درمیان افاضہ ہدایت وحی کے لیے ایلچی اور واسطہ بنتی ہے ایسی حقیقت کا نام مذہب کی اصطلاح میں نبوت و رسالت ہے۔
قرآن حکیم نے ہدایت کے اس مرتبہ عالی کا جگہ جگہ ذکر کیا ہے حسب ذیل چند شواہد ملاحظہ ہوں :
{ وَاَمَّا ثَمُوْدُ فَہَدَیْنَاہُمْ فَاسْتَحَبُّوا الْعَمٰی عَلَی الْہُدٰی } [70]
” لیکن قوم ثمود تو اسے بھی ہم نے راہ حق و ہدایت دکھلائی تھی لیکن اس نے اندھے پن کو پسند کیا اور ہدایت کی راہ نہ چلی۔ “
{ قُلْ اِنَّ ھُدَی اللّٰہِ ھُوَ الْھُدٰی وَ اُمِرْنَا لِنُسْلِمَ لِرَبِّ الْعٰلَمِیْنَ } [71]
” (اے پیغمبر ! ) کہہ دیجئے یقیناً اللہ کی ہدایت ہی حقیقی ہدایت ہے اور ہم سب کو اس کا حکم دیا گیا ہے کہ تمام کائنات عالم کے پروردگار کے آگے سر عبودیت جھکا دیں۔ “
{ وَ الَّذِیْنَ جَاھَدُوْا فِیْنَا لَنَھْدِیَنَّھُمْ سُبُلَنَا وَ اِنَّ اللّٰہَ لَمَعَ الْمُحْسِنِیْنَ } [72]
” اور جن لوگوں نے ہماری راہ میں سعی وجانفشانی کی تو ضرور ہے کہ ہم بھی ان پر اپنی راہیں کھول دیں اور بلاشبہ اللہ ان لوگوں کا ساتھی اور مددگار ہے جو نیک کردار ہیں۔ “
{ اِنَّ عَلَیْنَا لَلْہُدٰی۔ وَاِنَّ لَنَا لَـلْآخِرَۃَ وَالْاُوْلٰی۔ } [73]
” بلاشبہ یہ ہمارا کام ہے کہ ہم رہنمائی کریں (ہدایت وحی عطا کریں) اور یقیناً آخرت اور دنیا دونوں ہمارے ہی لیے ہیں۔ “
ارتقائی نقطہ نظر سے ہدایت وحی اور مسئلہ نبوت و رسالت کی وضاحت کے لیے اشہب فکر کو یوں بھی مہمیز کیا جا سکتا ہے کہ جب کہ یہ عقلی اور عملی نظریہ مسلمات میں سے ہے کہ بقائے انفع یا بقائے اصلح کے فطری قانون کے مطابق کائنات کی گونا گوں موجودات میں ہر ایک شے اپنے موجود رہنے کے لیے کوئی حکمت و مصلحت ضرور رکھتی ہے اور حکیم مطلق کا قانون فطرت کسی شے کو اسی وقت تک باقی رکھتا ہے جب تک اس کا وجود نافع اور مفید ہونے کی صلاحیت رکھتا اور جس غرض وغایت کے لیے اس کو پیدا کیا گیا ہے اس کو پورا کرتا ہے اور اسی قانون بقائے انفع و اصلح سے یہ بات بھی بہت واضح اور نمایاں طور پر ثابت ہوتی ہے کہ نفع اور افادیت کا سب سے اہم جز یہ ہے کہ ہر شے اپنے سے بلند مخلوق اور سلسلہ مخلوقات میں سے ہر نوع اپنے سے بلند نوع کی بقاء کے لیے مفید و معاون ثابت ہو پس جبکہ حضرت انسان کو عقل بھی موجودات عالم کی سب سے بلند مخلوق اور مدارج ارتقا کی بلند ترین کڑی تسلیم کرتی ہے اور اسی قانون کی رو سے موجودات عالم کی ہر شے اس کی خدمت ‘ اس کے نفع اور اس کی افادیت میں مصروف عمل نظر آتی ہے تو یہ کیوں کر ممکن تھا کہ اشرف المخلوقات (انسان) کا وجدان ‘ اس کے جذبات عالیہ اور اس کے افکار و خیالات کی پرواز جبکہ عالم مادیات سے کہیں زیادہ بلند اور رفیع ہیں اور اس کی عقل یہ جاننے کے باوجود کہ وہ ماورائے مادہ سے ناواقف ہے پھر بھی اس پردہ کے پیچھے کچھ ہونے کا احساس رکھتی اور اس کی معرفت کے لیے چسک محسوس کرتی ہے فطرت الٰہی کا فیضان اور بقائے انفع کا ناموس اس کو عالم مادیات و محسوسات ہی کے اندر محصور رکھتا ‘ اگر ایسا ہوتا تو بلاشبہ فطرت بخیل ٹھہرتی بلکہ یہ فطرت کا بہت بڑا ظلم ہوتا اور یہ ظاہر ہے کہ تنہا عقل اس کو اس منزل تک پہنچانے کے لیے قاصر و ناکام ہے لہٰذا از بس ضروری تھا کہ فطرت الٰہی اس کی رہنمائی کے لیے مزید کوئی سامان مہیا کرتی اور انسان کی ذہنی و فکری ترقیوں کو درجہ تکمیل تک پہنچاتی۔ پس ماورائے مادہ علوم و معارف اور کائنات انسانی کی فلاح و نجات کے مقصد عظمیٰ کے لیے عقل کی رہنمائی کا یہی وہ فیضان الٰہی ہے جس کو قرآن کی اصطلاح اور مذہبی بول چال میں وحی و نبوت کہا جاتا ہے اور آیت ذیل اسی حقیقت کا اعلان کرتی ہے :
{ وَ اُوْحِیَ اِلَیَّ ھٰذَا الْقُرْاٰنُ لِاُنْذِرَکُمْ بِہٖ وَ مَنْم بَلَغَ } [74]
” اس نے (خدا نے) مجھ پر اس قرآن کی وحی کی تاکہ اس کے ذریعہ تمھیں (اہل عرب کو) اور انھیں جن تک اس کی تعلیم پہنچ جائے (ربع مسکون کو) انکار اور بدعملی کے نتیجہ سے ڈراؤں۔ “
{ اِنَّآ اَوْحَیْنَآ اِلَیْکَ کَمَآ اَوْحَیْنَآ اِلٰی نُوْحٍ وَّ النَّبِیّٖنَ مِنْم بَعْدِہٖ وَ اَوْحَیْنَآ اِلٰٓی اِبْرٰھِیْمَ وَ اِسْمٰعِیْلَ وَ اِسْحٰقَ وَ یَعْقُوْبَ وَ الْاَسْبَاطِ وَعِیْسٰی وَ اَیُّوْبَ وَ یُوْنُسَ وَ ھٰرُوْنَ وَ سُلَیْمٰنَ وَ اٰتَیْنَا دَاوٗدَ زَبُوْرًا۔ وَ رُسُلًا قَدْ قَصَصْنٰھُمْ عَلَیْکَ مِنْ قَبْلُ وَ رُسُلًا لَّمْ نَقْصُصْھُمْ عَلَیْکَ وَ کَلَّمَ اللّٰہُ مُوْسٰی تَکْلِیْمًا۔ رُسُلًا مُّبَشِّرِیْنَ وَ مُنْذِرِیْنَ لِئَلَّا یَکُوْنَ لِلنَّاسِ عَلَی اللّٰہِ حُجَّۃٌم بَعْدَ الرُّسُلِ وَ کَانَ اللّٰہُ عَزِیْزًا حَکِیْمًا۔ } [75]
” (اے پیغمبر ! ) ہم نے تمہاری جانب اسی طرح وحی بھیجی جس طرح نوح پر اور ان نبیوں پر جو نوح کے بعد ہوئے بھیجی تھی اور جس طرح ابراہیم ‘ اسماعیل ‘ اسحاق ‘ یعقوب ‘ اور اولاد یعقوب ‘ عیسیٰ ‘ ایوب ‘ یونس ‘ ہارون ‘ سلیمان پر بھیجی اور داؤد کو زبور عطا فرمائی ‘ نیز خدا کے وہ رسول جن کا حال ہم (قرآن میں) پہلے سنا چکے ہیں اور وہ جن کا حال ہم نے تمہیں نہیں سنایا اور (اسی طرح) اللہ نے موسیٰ سے کلام کیا جیسا کہ واقعی طور پر کلام کرنا ہوتا ہے یہ تمام رسول (خدا پرستی اور نیک عملی پر) خوش خبری دینے والے اور (انکار حق پر) ڈرانے والے تھے (اور اس لیے بھیجے گئے تھے) کہ ان کے آنے (اور نیک و بد بتلانے) کے بعد لوگوں کے پاس کوئی حجت باقی نہ رہے جو وہ خدا کے حضور پیش کرسکیں (یعنی یہ عذر کرسکیں کہ ہمیں راہ حق کی طرف کسی نے دعوت نہیں دی تھی) اور خدا (اپنے کاموں میں) سب پر غالب ہے اور (اپنے تمام کاموں میں) حکمت والا ہے۔ “
{ وَلَمَّا جَائَ عِیْسٰی بِالْبَیِّنَاتِ قَالَ قَدْ جِئْتُکُمْ بِالْحِکْمَۃِ وَلِاُبَیِّنَ لَکُمْ بَعْضَ الَّذِیْ تَخْتَلِفُوْنَ فِیْہِ فَاتَّقُوا اللّٰہَ وَاَطِیْعُوْنِ۔ اِنَّ اللّٰہَ ہُوَ رَبِّیْ وَرَبُّکُمْ فَاعْبُدُوْہُ ہٰذَا صِرَاطٌ مُّسْتَقِیْمٌ۔ } [76]
” اور جب عیسیٰ (خدا کی) نشانیاں لے کر آیا ‘ کہا میں تمھارے پاس حکمت و دانائی لے کر آیا ہوں اور اس لیے آیا ہوں کہ بعض ان باتوں کو جن کے متعلق تمھارے درمیان اختلاف ہے صاف صاف بیان کر دوں پس اللہ کے متقی بندے بن جاؤ اور میری پیروی کرو (اس بات میں کہ) بیشک اللہ ہی میرا اور تمھارا پروردگار ہے پس اسی کی عبادت کرو کہ یہی سیدھا راستہ ہے۔ “
{ یٰٓاَیُّھَا النَّاسُ قَدْ جَآئَکُمْ بُرْھَانٌ مِّنْ رَّبِّکُمْ وَ اَنْزَلْنَآ اِلَیْکُمْ نُوْرًا مُّبِیْنًا۔ فَاَمَّا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا بِاللّٰہِ وَ اعْتَصَمُوْا بِہٖ فَسَیُدْخِلُھُمْ فِیْ رَحْمَۃٍ مِّنْہُ وَ فَضْلٍ وَّ یَھْدِیْھِمْ اِلَیْہِ صِرَاطًا مُّسْتَقِیْمًا۔ } [77]
” (اے افراد نسل انسانی ! ) تمھارے پاس تمھارے پروردگار کی طرف سے برہان (دلیل و حجت) آگئی اور ہم نے تمھاری طرف واضح اور آشکارا روشنی بھیج دی پس جو لوگ اس پر ایمان لائے اور انھوں نے اس کا سہارا مضبوط پکڑ لیا تو وہ انھیں عنقریب اپنی رحمت کے سایہ میں داخل کر دے گا اور ان پر اپنا فضل کرے گا اور انھیں اپنے تک پہنچنے کی راہ دکھائیگا ‘ ایسی راہ جو بالکل سیدھی راہ ہے۔ “
قرآن نے ان آیات میں ہدایت وحی کو حکمت ‘ برہان (حجت و دلیل) اور نور مبین (آشکارا روشنی) کہا ہے تاکہ یہ بخوبی واضح ہوجائے جس طرح محسوسات و مادیات کے لیے عقل کو روشنی اور دلیل راہ کہا جاتا ہے اسی طرح عقل کے دائرہ حدود سے آگے کے لیے ہدایت وحی یہی حیثیت رکھتی اور یہی خدمات انجام دیتی ہے۔
ہدایت وحی کی ضرورت پر اب تک جو کچھ کہا گیا اگر اس کے علاوہ مزید اضافہ مطلوب ہو تو مبدء فیاض کے اس لطیف و حسین فیضان کے متعلق اس روشن پہلو سے بھی نظر کی جا سکتی ہے کہ جب ہم حواس کی قوتوں کا فکر عمیق سے مطالعہ کرتے ہیں تو یہ حقیقت صاف نمایاں نظر آتی ہے کہ ناموس فطرت نے یہاں ایک قوت کے عملی نظام کو اس طرح سانچہ میں ڈھالا ہے کہ انسان کے اندر ودیعت کی ہوئی قوت حواس اس وقت تک اپنا صحیح عمل نہیں کر پاتی ‘ جب تک خارج سے اس کی مدد نہ کی جائے مثلاً قوت باصرہ دیکھنے کی قوت کا نام ہے اور تم اس سے اپنی زندگی میں برابر کام لیتے رہتے ہو اور اس بحث سے قطع نظر کہ جو شے باہر موجود ہے وہ آنکھ کے باریک پردوں پر اپنا عکس ڈال رہی ہے یا آنکھ کے پردوں میں جو روشنی ہے وہ اندر سے بشکل شعاع نکل کر موجود خارجی کو متاثر کر رہی ہے اور اس کو ہم دیکھنا کہتے ہیں تم نے کبھی اس پر ضرور غور کیا ہوگا کہ جب تم کسی قسم کی بھی روشنی میں ہوتے ہو تو اپنی قوت باصرہ کی استعداد کے مطابق جس شے کو دیکھنا چاہتے ہو دیکھتے ہو لیکن جوں ہی تاریکی کا شکار ہوجاتے ہو اور شب دیجور کے ساتھ ابر سیاہ کے پردے روشنی پرچھا جاتے ہیں اس وقت حلقہ چشم میں قوت باصرہ کی موجودگی کے باوجود تم یہ کہا کرتے ہو کہ ہاتھ کو ہاتھ نہیں سوجھتا تو آخر بینا ہوتے ہوئے ایسا کیوں کہتے ہو ؟ تمھارا جواب اس وقت یہ ہوتا ہے کہ قانون قدرت نے یہی مقرر کر دیا ہے کہ باطنی قوائے عمل اس وقت تک اپنا صحیح کام نہیں کرتے جب تک خارج سے اسی سلسلہ کی مدد نہ پہنچے۔ اس لیے قوت باصرہ کی باطنی قوت بھی محتاج ہے کہ دیے (چراغ) کی روشنی سے لے کر ماہتاب و آفتاب تک جس حیثیت کی بھی روشنی ہو اس کی مدد کرے تو وہ اپنا عملی مظاہرہ کرسکے گی اور یہی حال دوسرے حواس کا بھی ہے۔
پس اگر یہ صحیح ہے اور بلاشبہ صحیح ہے کہ خدائے واحد کا قانون قدرت اور ناموس فطرت اپنی وحدت کی جلوہ نمائی کا مظاہرہ کائنات مادی اور عالم روحانی میں یکساں طور پر کرتا رہتا ہے تو بے تامل یہ کہا جا سکتا ہے کہ اگرچہ اس میں کوئی شک و شبہ کی گنجائش نہیں کہ عقل حضرت انسان کے اندر کی وہ روشنی ہے جس کو ید قدرت نے انسانیت کے ارتقائی منازل پر گامزن ہو کر انسانیت کی مثل اعلیٰ اور مقصد عظمیٰ کو پانے کے لیے ودیعت کیا ہے مگر مسطورہ بالا قانون یہاں بھی اسی طرح کار فرما ہے جیسا کہ قوائے حواس میں کارفرما نظر آتا ہے یعنی اگر عقل عالم محسوسات و مادیات کے دائرے میں اپنا عملی مظاہرہ کرنا چاہتی ہے تو وہ محسوسات خارجی کی مدد کی ضرور محتاج رہتی ہے مثلاً اس کا یہ فریضہ ہے کہ جزئیات کے ذریعہ کلی کا استخراج کرے لیکن وہ ایسا جبھی کرسکے گی کہ خارج میں اس سلسلہ کی جزئیات کا ایک بڑا ذخیرہ اپنے حقائق اصلیہ کو اس کے سامنے پیش کرے پس اگر عقل کی روشنی اور ان حقائق کے درمیان وہم ‘ خیال اور ظن کے تاریک پردے حائل ہوجائیں تو عقل کی روشنی ہرگز اپنا صحیح کام نہیں کرسکتی۔ اسی طرح جب وہ ماورائے محسوسات (روحانیات) کی جانب اپنی روشنی کو متوجہ کرتی ہے تو یہی اوہام ‘ ظنون ‘ خیالات اور جذبات فاسدہ کے تاریک پردے اس کے اور عالم روحانیات کے درمیان عموماً حائل ہوجاتے ہیں اور وہ اکثر و بیشتر ان سے مغلوب ہو کر گم کردہ راہ ہوجاتی اور معرفت حق اور معرفت باطل کے درمیان فرق و امتیاز سے عاجز نظر آتی ہے۔ ایسی حالت میں خالق کائنات کی رحمت کاملہ اور ربوبیت تامہ اس کو خاسر و ناکام نہیں چھوڑتی اور خارج سے اس کی پوری مدد کرتی ہے اور یہی وہ خارج کی روشنی ہے جو نبی اور پیغمبر کے ذریعے کائنات انسانی تک پہنچی اور دین و مذہب کی زبان میں وحی (روشنی) کہی جاتی ہے چنانچہ قرآن عزیز نے اسی حقیقت کو نمایاں کرنے کے لیے جگہ جگہ وحی کو نور (روشنی) سے تعبیر کیا ہے :
{ یٰٓــاَیُّھَا النَّاسُ قَدْ جَآئَ کُمْ بُرْھَانٌ مِّنْ رَّبِّکُمْ وَ اَنْزَلْنَآ اِلَیْکُمْ نُوْرًا مُّبِیْنًا } [78]
” (اے افراد نسل انسانی ! ) تمھارے پاس تمھارے پروردگار کی جانب سے برہان (دلیل و حجت) آگئی اور ہم نے تمھاری جانب واضح اور آشکارا روشنی (وحی الٰہی بشکل قرآن) بھیج دی۔ “
{ قَدْ جَآئَکُمْ مِّنَ اللّٰہِ نُوْرٌ وَّ کِتٰبٌ مُّبِیْنٌ} [79]
” اللہ کی جانب سے تمھارے پاس (حق کی) روشنی آچکی اور ایسی کتاب آگئی جو (اپنی ہدایتوں میں نہایت) روشن کتاب ہے۔ “
{ یُرِیْدُوْنَ اَنْ یُّطْفِئُوْا نُوْرَ اللّٰہِ بِاَفْوَاھِھِمْ وَ یَاْبَی اللّٰہُ اِلَّآ اَنْ یُّتِمَّ نُوْرَہٗ وَ لَوْکَرِہَ الْکٰفِرُوْنَ } [80]
” یہ لوگ (مشرکین ‘ یہود ‘ نصاریٰ ) چاہتے ہیں کہ اللہ کی روشنی کو اپنی پھونکوں سے بجھا دیں حالانکہ اللہ یہ روشنی پوری کیے بغیر رہنے والا نہیں اگرچہ کافروں کو پسند نہ آئے۔ “
{ وَ لَقَدْ اَرْسَلْنَا مُوْسٰی بِاٰیٰتِنَآ اَنْ اَخْرِجْ قَوْمَکَ مِنَ الظُّلُمٰتِ اِلَی النُّوْرِ } [81]
” اور (دیکھو واقعہ یہ ہے کہ) ہم نے اپنی نشانیوں کے ساتھ موسیٰ کو بھیجا تھا کہ اپنی قوم کو تاریکیوں سے نکالے اور روشنی میں لائے۔ “
{ وَکَذٰلِکَ اَوْحَیْنَا اِلَیْکَ رُوْحًا مِّنْ اَمْرِنَا مَا کُنْتَ تَدْرِیْ مَا الْکِتٰبُ وَلَا الْاِیْمَانُ وَلٰـکِنْ جَعَلْنَاہُ نُوْرًا نَّہْدِیْ بِہٖ مَنْ نَّشَائُ مِنْ عِبَادِنَا وَاِنَّکَ لَتَہْدِیْ اِلٰی صِرَاطٍ مُّسْتَقِیْمٍ } [82]
” اور اسی طرح ہم نے تیری جانب اپنے ” امر “ میں سے ” روح امر “ کی وحی بھیجی حالانکہ اس سے قبل تو نہیں جانتا تھا کہ کیا ہے کتاب ؟ اور نہیں جانتا تھا کہ کیا ہے ایمان ؟ ہم اپنے بندوں میں سے جس کو چاہتے ہیں ان کو اس کے ذریعہ راہ دکھاتے ہیں اور اے پیغمبر ! بلاشبہ تو (لوگوں کو) سیدھی راہ کی جانب رہنمائی کرتا ہے۔ “
پھر اس مسئلہ کی اہمیت پر ایک دوسرے پہلو سے بھی فکر و نظر کی ضرورت ہے وہ یہ کہ ہم اس عالم ہست و بود میں روز و شب کے مشاہدات و تجربات سے یہ نتیجہ نکالنے میں حق بجانب ہوتے ہیں کہ یہاں ہر شے کی کیفیت و کمیت یا اس کی حقیقت معلوم کرنے کے لیے ایک ترازو یا پیمانہ ضرور ہے اور یہ کہ ہر ایک پیمانہ اور ہر ایک ترازو اپنے اندر ایک خاص صلاحیت رکھتا اور اپنی صلاحیت کے مطابق ہی اشیاء کے ناپ تول میں کام دے سکتا ہے مثلاً موتی اور جواہرات کے تولنے کے لیے ایک خاص ترازو (کانٹا) ہے ‘ اب اگر ہم یہ چاہیں کہ اس میں شکر ‘ روئی ‘ غلہ جیسی چیزوں کو تولیں تو ظاہر ہے کہ اس کے لیے یہ نہیں بلکہ دوسری قسم کا ترازو کام دے گا یا مثلاً کپڑا ‘ زمین وغیرہ جیسی اشیاء کی پیمائش کے لیے ہم ایک خاص قسم کا پیمانہ (گز) استعمال کرتے ہیں پس اگر ہم چاہتے ہیں کہ اس سے حرارت و برودت کی بھی پیمائش کر لیں تو اس کے لیے یہ نہیں بلکہ دوسرا پیمانہ تھرمامیٹر (THERMOMETER ) کام میں لانا ہوگا اور اسی طرح ہوا کے دباؤ اور سطح کی اونچائی معلوم کرنے کے لیے بیرو میٹر (BARO METER ) اور زلزلوں اور بھونچالوں کی حالت دریافت کرنے کے لیے سیزموگراف (SEISMO GRAPH ) اور آواز کی مقدار و قوت کی پیمائش کے لیے فونو گراف (PHONO GRAPH ) جدا جدا قسم کے پیمانے استعمال کرنے ہوں گے کیونکہ ان کی اپنی صلاحیت و استعداد کار کا یہی فطری تقاضا ہے کہ اگر اس کے خلاف ان کا استعمال کیا جائے گا تو یا تو قطعاً بیکار ثابت ہوں گے اور یا صحیح حقیقت نہ بتلا سکیں گے حالانکہ ان سب کا ایک ہی کام ہے یعنی ناپ تول اور ایک ہی نام ہے ترازو اور پیمانہ مگر ہر شے کی حقیقت اور اس کی کیفیت و کمیت کے پیش نظر چونکہ ان سب کی صلاحیت کار کی حدود متعین ہیں لہٰذا ان میں سے کوئی ایک بھی اپنی حدود سے متجاوز ہو کر کار آمد ثابت نہیں۔
قانون قدرت کی کارفرمائی کو رہنما بناکر اگر ہم اسی نقطہ نظر سے آگے قدم بڑھائیں اور خالص مادیات سے گذر کر معنویات کی حدود پر جا پہنچیں تو یہاں بھی وہی کرشمہ قدرت نظر آتا ہے یعنی انسان کی انفرادی و اجتماعی حیات کے لیے رحمت کردگار نے جو پیمانے مقرر کیے ہیں اور جن کو وجدان ‘ حواس اور عقل کہا جاتا ہے ان میں بھی جدا جدا صلاحیتوں کے اعتبار سے حدود منقسم ہیں مثلاً پیمانہ وجدان انسان کی صرف اسی کیفیت و حالت سے متعلق ہے جو قدرت کے ہاتھوں نے اس کے وجود کے ساتھ ساتھ اس میں ودیعت کردی ہے اور حواس کا پیمانہ انھی اشیاء سے تعلق رکھتا ہے جو دیکھنے ‘ سننے ‘ چکھنے ‘ چھونے اور سونگھنے میں آسکتی ہیں اور پیمانہ عقل ان دونوں سے آگے عالم مشاہدات و محسوسات کے حقائق اور ان کی کیفیات کے جانچنے ‘ ان کے درمیان امتیاز پیدا کرنے ‘ ان سے نتائج اخذ کرنے اور ان پر احکام صادر کرنے کی خدمت انجام دیتا ہے۔
پس اگر ہم چاہیں کہ وجدان سے حواس اور حواس سے عقل کا کام لیں تو خود عقل ہی کے نزدیک ایسا کرنا غلط ہوگا کیونکہ یہ قانون فطرت کی مقررہ حدود کی خلاف ورزی کے مرادف ہے جس کے اقدام پر ناکامی کے ماسوا اور کچھ ہاتھ نہیں آتا۔
لیکن عقل انسانی اس کے آگے نہ جاننے کے باوجود پھر جاننے کی جو جستجو رکھتی اور اپنی ترقی کو اس کے اندر محدود نہیں سمجھتی ‘ نیز تمام خارجی دلائل سے بڑھ کر انسان کے اندر کی قوی تر حجت وبرہان ” وجدان “ ان ہر دو عالم سے بھی بلند تر عالم کے وجود کا جو پتہ دیتی ہے اس کے پیش نظر ہم وسعت نظر کا قدم اور آگے بڑھاتے اور مسطورہ بالا عالم معنویات سے لطیف تر معنوی عالم کا کھوج لگانا چاہتے اور اس کائنات سے اپنا رشتہ جوڑنا چاہتے ہیں جہاں حسن ‘ صداقت اور محبت حاشیہ1 (ذات حق کی صفات ربوبیت ‘ عدالت اور رحمت) اپنی جلوہ آرائیوں سے اس کائنات کو بھی منور کر رہی ہیں تو ہم دیکھتے ہیں کہ یہاں پہنچ کر پیمانہ عقل بھی کوتاہ ہو کر رہ جاتا ہے اور اس کی رفعت پرواز وہاں تک رسائی نہیں کر پاتی ‘ خصوصاً ایسی حالت میں کہ انسانوں کے درمیان عقل کا اس درجہ تفاوت موجود ہے کہ ایک شخص کی عقل اس کو نہ صرف ممکن الوقوع سمجھتی ہے بلکہ اس کو وجود پزیر کر دکھاتی ہے بلکہ تفاوت عقلی کی بوالعجبیوں کا تو یہ حال ہے کہ ایک ہی شخص کی عقل ایک وقت جس بات پر ناممکن کا فتویٰ صادر کردیتی ہے دوسرے وقت میں اسی بات کو ممکن سمجھنے لگتی ہے تو جب پیمانہ عقل کا عالم محسوسات میں یہ حال ہے تو عالم غیب تک اس کی رسائی معلوم ؟ اور پھر جس پیمانہ کے توازن کو غیر متوازن بنانے کے لیے وہم و خیال اور جذبات کا سیل رواں موجیں مارتا رہتا ہو کیسے کہا جا سکتا ہے کہ خارج سے مدد و یاوری کے بغیر عقل معرفت الٰہی اور علوم غیب تک رسائی حاصل کرسکتی ہے ؟
حاشیہ1آج کل علمائے جدید میں یہ بحث جاری ہے کہ سائنس نے اپنی حدود کو اس طرح محدود رکھا کہ اس کے دائرہ میں حسن ‘ صداقت اور محبت کی کوئی قدر و قیمت نظر نہیں آتی اور اس لیے وہ خدا کی ہستی کی معرفت ضروری نہیں سمجھتی مگر یہ سائنس کا کمال نہیں ہے بلکہ نقص ہے جو آج نہیں تو کل ضرور پورا ہو کر رہے گا۔
پس انسان کی بیچارگی و درماندگی کے اس مقام پر بھی رحمت کردگار اپنے فیضان سے اس کو محروم نہیں رکھتی اور معنوی و روحانی حقائق کی معرفت کے لیے ایک مقدس ہستی (پیغمبر) کے ذریعہ اس کو عقل سے بھی رفیع و لطیف پیمانہ ہدایت وحی عطا کردیتی ہے تاکہ انسان سعادت و شقاوت میں امتیاز کرنے کے بعد حیات سرمدی اور نجات ابدی کو پا سکے۔
قرآن عزیز نے وحی الٰہی کو یہی حیثیت دیتے ہوئے سورة شورٰی میں ارشاد فرمایا ہے :
{ اَللّٰہُ الَّذِیْ اَنْزَلَ الْکِتٰبَ بِالْحَقِّ وَالْمِیزَانَ } [83]
” اللہ وہ ہے جس نے حق کے ساتھ کتاب (قرآن) کو نازل کیا اور اتارا میزان (ترازو) کو (یعنی دین حق کو جو حق و باطل کے لیے ترازو اور پیمانہ ہے) “
چنانچہ شاہ عبد القادر (رحمہ اللہ علیہ) موضح القرآن میں اس آیت کی تفسیر کرتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں :
” ترازو فرمایا دین حق کو جس میں بات پوری ہے نہ کم نہ زیادہ “
صاحب وحی کی معرفت کی وجدانی دلیل
” ہدایت وحی “ یا ” نبوت و رسالت “ کی حقیقت و اہمیت پر گذشتہ سطور میں کوتاہ قلمی کے باوجود جو کچھ سپرد قرطاس کیا گیا اس کی تکمیل کے لیے اس سوال کو بھی حل کرنا از بس ضروری ہے کہ جب کوئی شخص یہ دعویٰ کرے کہ وہ حامل وحی ہے اور خدا کا پیغمبر اور ایلچی تو اس کے دعویٰ صدق و کذب کی معرفت کا کونسا طریقہ ہے ؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ اگرچہ علم الکلام کے ماہرین (متکلمین) نے اس معرفت کے لیے بہت سے دلائل وبراہین پیش کیے ہیں اور اس مسئلہ کی اہمیت کے پیش نظر اس پر معرکہ آرا بحثیں کی ہیں تاہم وہ اپنے طرز استدلال میں اصطلاحی فلسفیانہ اسلوب رکھتی ہیں جس کو ہم مذہبیات و روحانیات میں خاص اہمیت دینے کو آمادہ نہیں ہیں کیونکہ اس راہ میں وہی اسلوب بیان مفید ‘ دل نشیں اور جاذب قلوب ہو سکتا ہے جس کی بنیاد و نہاد وجدانی طرز استدلال پر رکھی گئی ہو اور عقلیت کا پورا پورا لحاظ رکھتے ہوئے اصطلاحی فلسفہ و منطق کی قیود میں اس کو پابہ زنجیر نہ کر دیا گیا ہو اور یہ اس لیے کہ معرفت الٰہی اور معرفت علوم غیبیہ کے لیے دلیل ” وجدان “ سے زیادہ دوسری کوئی دلیل وبرہان موثر نہیں ہے اسی حکمت بالغہ کے پیش نظر قرآن عزیز کے تمام عقلی استدلالات۔۔ جن پر غور کرنے کے لیے ” قرآن “ عقل و فکر اور تدبر کو مخاطب بناتا ہے۔ کی بنیاد بھی ” وجدان “ پر قائم کی گئی ہے البتہ یہ قرآن حکیم کا اعجاز بلاغت ہے کہ ان وجدانی دلائل کو اگر کوئی فلسفی دقیق فلسفیانہ طریق استدلال کے سانچہ میں ڈھال کر زیر بحث لانا چاہے تو یہ وجدان پر مبنی استدلالات اسی اہمیت و قوت کے ساتھ اپنی صداقت اور ثمرہ و نتیجہ کو اس رنگ میں بھی تسلیم کرا لیتے ہیں۔
غرض ” وجدان “ اس سوال کا جواب یہ دیتا ہے کہ تم مدعیٔ نبوت کی زندگی کو صداقت کی کسوٹی پر خوب کسو اور اگر آج وہ ہستی تمھارے سامنے نہیں ہے تو تعصب اور نسلی و جماعتی حسد سے پاک اور بے لوث ہو کر بے لاگ تاریخی حقائق سے دریافت کرو ‘ پس اگر تم پر یہ حقیقت منکشف ہوجائے کہ اس کی قبل از دعویٰ نبوت زندگی کا ہر شعبہ حیات صداقت و حقانیت کا مظہر ہے اور ہر ایک شعبہ زندگی بے داغ صداقت کا پیکر اور نہ صرف اسی قدر بلکہ اس کا وجود ہر قسم کی بداخلاقیوں ‘ گناہوں اور آلودگیوں سے پاک اور معصوم ہے اور اخلاقی بلندیوں کا مخزن اور انھی کیفیات و حالات کے ساتھ اس نے جانے بوجھے لوگوں میں زندگی کا بڑا حصہ گزارا ہے تو پھر اس کے دعویٰ صداقت میں شک و شبہ کرنا عقل سلیم کے خلاف ہوگا کیونکہ عقل بآسانی یہ فیصلہ کرتی ہے جس ہستی نے اپنی مدت حیات کے طویل عرصہ میں نازک سے نازک موقعوں پر بھی کبھی ایک لمحہ کے لیے انسانی دنیا پر جھوٹ نہ بولا ہو ‘ آخر دماغی و قلبی انقلابات کی وہ کونسی تاریخ ہے جس کی بنا پر ایسی با ہوش و حواس ہستی کے متعلق یہ کہا جاسکے کہ وہ خالق کائنات خدائے برحق پر کذب بیانی اور افترا پردازی کے لیے یک بیک آمادہ ہوجائے ‘ چنانچہ قرآن عزیز نے اسی حقیقت کو سورة یونس میں اس طرح بیان فرمایا ہے :
{ قُلْ لَّوْ شَآئَ اللّٰہُ مَا تَلَوْتُہٗ عَلَیْکُمْ وَ لَآ اَدْرٰکُمْ بِہٖ فَقَدْ لَبِثْتُ فِیْکُمْ عُمُرًا مِّنْ قَبْلِہٖ اَفَـلَا تَعْقِلُوْنَ۔ فَمَنْ اَظْلَمُ مِمَّنِ افْتَرٰی عَلَی اللّٰہِ کَذِبًا اَوْ کَذَّبَ بِاٰیٰتِہٖ اِنَّہٗ لَا یُفْلِحُ الْمُجْرِمُوْنَ۔ } [84]
” اور تم کہو اگر اللہ چاہتا تو میں قرآن تمہیں سناتا ہی نہیں اور تمہیں اس سے خبردار ہی نہ کرتا (مگر اس کا چاہنا یہی ہوا کہ تم میں اس کا کلام نازل ہو اور تمہیں اقوام عالم کی ہدایت کا ذریعہ بنائے) پھر دیکھو ! یہ واقعہ ہے کہ میں اس معاملے سے پہلے تم لوگوں کے اندر ایک پوری عمر بسر کرچکا ہوں۔ کیا تم سمجھتے بوجھتے نہیں ؟ پھر اس سے بڑا ظالم کون ہے جو باندھے اللہ پر بہتان یا جھٹلائے اس کی آیتوں کو بیشک بھلا نہیں ہوتا گنہگاروں کا۔ “
صاحب وحی کی صداقت کی یہ ایسی بہترین کسوٹی اور دلیل ہے کہ جب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے 6ھ میں بادشاہان عالم کے نام اسلام کی دعوت و پیغام کے سلسلہ میں والانامے بھیجے تو وقت کی سب سے بڑی طاقت (رومن امپائر) کے بادشاہ ہر کلیوس (ہرقل) کے پاس حضرت دحیہ کلبی (رضی اللہ عنہ) نامہ مبارک لے کر پہنچے تب اس نے بھی جب آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی صداقت کو پرکھنا چاہا تو سب سے پہلے اسی وجدانی دلیل کو معیار صداقت ٹھہرایا اور صورت حال یہ پیش آئی کہ اس نے سرکاری حکام سے دریافت کیا یہاں کوئی حجازی قافلہ موجود ہے جس سے اس ہستی کے متعلق معلومات حاصل ہو سکیں ؟ اتفاق سے ابو سفیان (جو ابھی مسلمان نہیں ہوئے تھے) کی سرکردگی میں ایک تجارتی قافلہ مقیم تھا۔ چنانچہ ان لوگوں کو شاہی دربار میں طلب کیا گیا اور ہر کلیوس نے رئیس التجارۃ (ابوسفیان) سے نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے متعلق چند سوالات کیے جن میں سب سے اہم سوال یہ تھا کہ وہ تمھارے اندر ہی پلا بڑھا ‘ رہا سہا ہے تو کیا تم نے اس کی زندگی کے اس طویل دور میں کبھی جھوٹ کا شائبہ پایا ہے ؟ ابوسفیان (رضی اللہ عنہ) نے جواب دیا :
کبھی نہیں ‘ بلکہ اس کے برعکس وہ اپنی قوم میں ” الصادق الامین “ کے لقب سے یاد کیا جاتا ہے۔ یہ سن کر ہر کلیوس نے یہ کہا :
( (وَسَأَلْتُکَ ھَلْ کُنْتُمْ تَتَّھِمُوْنَہٗ بِالْکِذْبِ قَبْلَ اَنْ یَّقُوْلَ مَا قَالَ فَذَکَرْتَ اَنْ لَا فَقَدْ اَعْرِفُ اَنَّہٗ لَمْ یَکُنْ لِیَذَرُ الْکَذِبَ عَلٰی النَّاسِ وَیَکْذِبُ عَلٰی اللّٰہِ )) [85]
” میں نے تجھ سے یہ بھی دریافت کیا : کیا کبھی اس کے اس دعویٰ سے قبل تم نے اس کو جھوٹا پایا ہے ؟ تونے کہا ” کبھی نہیں “ تب میں نے یقین کرلیا کہ جو ہستی انسانوں پر جھوٹ کہنے کو آمادہ نہ ہو وہ کبھی خدا پر جھوٹ نہیں بول سکتی۔ “
” جو ہستی انسانوں پر جھوٹ کہنے کو آمادہ نہ ہو وہ کبھی خدا پر جھوٹ نہیں بول سکتی۔ “ دیکھیے یہ جملہ اس سلسلہ میں وجدان انسانی کا کس درجہ صحیح ترجمان ہے کہ ہر کلیوس نے بھی تمام عقلی و نقلی دلائل سے الگ ہو کر وجدان کے تقاضے سے پہلی دلیل جو پیش کی وہ وہی تھی جس کو وجدان کے خالق (خدائے برتر) نے اپنے پیغمبر سے (صداقت دعویٰ کے لیے) پیش کرائی۔ چنانچہ مولانا ابو الکلام آزاد نے ان آیات کی تفسیر اسی حقیقت کی روشنی میں اس طرح کی ہے :
” پھر آیت (16) میں صداقت نبوت کی ایک سب سے زیادہ واضح اور وجدانی دلیل بیان کی ہے۔ فرمایا ‘ ساری باتیں چھوڑ دو ‘ صرف اسی بات پر غور کرو کہ میں تم میں کوئی نیا آدمی نہیں ہوں جس کے خصائل و حالات کی تمھیں خبر نہ ہو ‘ تم ہی میں سے ہوں اور اعلان وحی سے پہلے ایک پوری عمر تم میں بسر کرچکا ہوں ‘ یعنی چالیس برس تک کی عمر کہ عمر انسانی کی پختگی کی کامل مدت ہے اس تمام مدت میں میری زندگی تمھاری آنکھوں کے سامنے رہی ‘ بتلاؤ اس تمام عرصہ میں کوئی ایک بات بھی تم نے سچائی اور امانت کے خلاف مجھ میں دیکھی ؟ پھر اگر اس تمام مدت میں مجھ سے یہ نہ ہو سکا کہ کسی انسانی معاملہ میں جھوٹ بولوں تو کیا ایسا ہو سکتا ہے کہ اب خدا پر بہتان باندھنے کے لیے تیار ہو جاؤں اور جھوٹ موٹ کہنے لگوں مجھ پر اس کا کلام نازل ہوتا ہے ؟ کیا اتنی سی موٹی بات بھی تم نہیں پاسکتے ؟
تمام علمائے اخلاق و نفسیات متفق ہیں کہ انسان کی عمر میں ابتدائی چالیس برس کا زمانہ اس کے اخلاق و خصائل کے ابھرنے اور بننے کا اصلی زمانہ ہوتا ہے جو سانچہ اس عرصہ میں بن گیا پھر بقیہ زندگی میں بدل نہیں سکتا ‘ پس اگر ایک شخص چالیس برس کی عمر تک صادق و امین رہا ہے تو کیونکر ممکن ہے کہ اکتالیسویں برس میں قدم رکھتے ہی ایسا کذاب و مفتری بن جائے کہ انسانوں پر ہی نہیں بلکہ فَاطِرَ السَّمٰوَاتِ وَالْاَرْضِ ( آسمان و زمین کے پیدا کرنے والے خدا) پر افترا کرنے لگے ؟
چنانچہ اس کے بعد فرمایا : دو باتوں سے تم انکار نہیں کرسکتے جو شخص اللہ پر افتراء کرے اس سے بڑھ کر کوئی شریر نہیں اور جو صادق کو جھٹلائے وہ بھی سب سے زیادہ شریر انسان ہے اور شریر ومفتری انسان کبھی کامیاب نہیں ہو سکتا۔ اب صورت حال نے یہاں دونوں فریق پیدا کر دیے ہیں۔ اگر میں مفتری علی اللہ ہوں تو مجھے ناکام و نامراد ہونا پڑے گا اگر تم سچائی کے مکذب ہو تو تمھیں اس کا خمیازہ بھگتنا ہے ‘ فیصلہ اللہ کے ہاتھ ہے اور اس کا قانون ہے کہ مجرموں کو فلاح نہیں دیتا۔
چنانچہ اللہ کا فیصلہ صادر ہو گیا ‘ جو مکذب تھے ان کا نام و نشان بھی باقی نہیں رہا ‘ جو صادق تھا اس کا کلمہ صدق آج تک قائم ہے اور قائم رہے گا۔ “ [86]
بہرحال ” صاحب وحی “ کے دعویٰ صداقت کی یہ وجدانی دلیل عقل سلیم اور فکر مستقیم کی نگاہ میں علم الیقین پیدا کرنے کے لیے کافی ووافی ہے تاہم بقیہ شرائط یعنی صداقت تعلیم ‘ نزول وحی کا ادعاء اور مخالفین کے مقابلہ میں تحدی (چیلنج) اور تحدی کا ایفائے ‘ مدعی نبوت و رسالت کے لیے یہ تمام امور بھی از بس ضروری ہیں اور اپنی جگہ تفصیل طلب اور قابل لحاظ ہیں اس لیے کہ ان شرائط کے پیش نظر ہی نبی اور مصلح کے درمیان امتیاز ‘ نبی اور ساحر و شعبدہ باز کے مابین فرقِ بَیِّن اور نبی اور متنبی میں تضاد قائم کیا جا سکتا ہے۔
بعثت
غرض خاتم الانبیاء محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی حیات طیبہ کے انفرادی اور اجتماعی دونوں پہلوؤں کا یہ حال تھا کہ ایک جانب خلو تہائے راز میں معرفت الٰہی کے لیے استغراق ‘ صراط مستقیم کی جستجو ‘ نوع انسانی کے اصلاح حال کی تڑپ اور طلب تھی اور دوسری جانب افراد قوم و ملک کے ساتھ راست گفتاری ‘ صداقت شعاری ‘ حسن معاملت اور اصابت فکر جیسے اخلاق کریمانہ وصفات حمیدہ سے متصف معاشرتی زندگی کا مظاہرہ تھا اور ان امتیازات کی وجہ سے ہر فرد کی نگاہ میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی وہ قدر و منزلت تھی کہ باتفاق رائے ” الصادق الامین “ کے لقب سے یاد کیے جاتے تھے اور کل جو دشمنی ان کو محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے دعویٰ نبوت کی بنا پر ہوئی وہ آج محمد بن عبد اللہ کے ساتھ قطعاً نہیں تھی اور سبھی ان کی تقدیس و تطہیر کے قائل تھے۔
یہی حالات و واقعات تھے جبکہ عمر مبارک چالیس منزلیں طے کرچکی تھی رمضان کا مہینہ تھا اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) غار حرا میں مشغول عبادت تھے کہ اچانک آپ کے سامنے جبرائیل (علیہ السلام) فرشتہ نمودار ہوا اور اس نے بشارت دی کہ اللہ تعالیٰ نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ثقلین کی رشد و ہدایت کے لیے چن لیا اور رسالت و پیغمبری کے منصب کبریٰ پر فائز کیا۔
یہ واقعہ چونکہ نوع انسانی کی تاریخ میں حیرت زا انقلاب کا باعث ثابت ہوا اور اس نے ذات اقدس (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو معراج رفعت کی اس حد پر پہنچا دیا جہاں عالم ادیان و ملل کی تمام اصلاحات و انقلابات اس ہستی کا فیض رحمت نظر آتے ہیں اس لیے تاریخ و حدیث کے روشن صفحات نے اس واقعہ کی تمام تفصیلات کو بسند صحیح اپنے سینہ میں محفوظ رکھا ہے۔ چنانچہ فن حدیث و تاریخ اسلام کے
امام بخاری (رحمہ اللہ علیہ) نے اپنی مشہور و مقبول کتاب اَلْجَامِعُ الصَّحِیْح میں صدیقہ عائشہ (رضی اللہ عنہا) کی سند سے اس واقعہ کو جن الفاظ میں نقل کیا ہے اس کا ترجمہ درج ذیل ہے عائشہ صدیقہ (رضی اللہ عنہا) فرماتی ہیں :
” نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر شروع میں سچے خوابوں کا سلسلہ جاری رہا۔ کوئی خواب آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نہیں دیکھتے تھے مگر وہ اپنی تعبیر میں اس درجہ روشن اور صحیح ثابت ہوتا تھا جیسا کہ طلوع صبح کے لیے سپیدہ صبح کا ظہور ہوتا ہے پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو خلوت محبوب ہو گئی اور حرا میں مشغول عبادت رہنے لگے۔ گاہے گاہے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اہل و عیال کے پاس بھی تشریف لے آتے تھے حضرت خدیجہ (رضی اللہ عنہا) آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لیے کچھ توشہ تیار کرتیں اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس کو لے کر پھر غار میں واپس تشریف لے جاتے اسی طرح حرا میں مشغول استغراق و عبادت تھے کہ اچانک ایک روز آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر خدا کا فرشتہ نمودار ہوا اور کہنے لگا : اِقْرَاْ ” پڑھیے “ نبی امی نے کہا مَا اَنَا بِقَارِیْ ” میں پڑھنا نہیں جانتا “ پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ارشاد فرماتے تھے کہ جب میں نے فرشتہ سے یہ کہا تو اس نے مجھ کو گرفت میں لے لیا جس کی شدت سے مجھ کو تکلیف محسوس ہونے لگی اور پھر چھوڑ کر مجھ سے دوبارہ کہا ” پڑھیے “ اور میں نے وہی جواب پھر دیا ” میں پڑھنا نہیں جانتا “ تب اس نے پھر وہی عمل کیا ‘ اور گرفت چھوڑ کر تیسری مرتبہ پھر پہلا جملہ دہرایا اور میں نے بھی وہی سابق جواب دیا غرض تین مرتبہ یہی گفتگو اور یہی عمل ہوتے رہنے کے بعد چوتھی مرتبہ فرشتہ نے (سورة اقراء کی) یہ چند آیتیں تلاوت کیں :
{ اِقْرَاْ بِاسْمِ رَبِّکَ الَّذِیْ خَلَقَ۔ خَلَقَ الْاِنْسَانَ مِنْ عَلَقٍ۔ اِقْرَاْ وَرَبُّکَ الْاَکْرَمُ۔ الَّذِیْ عَلَّمَ بِالْقَلَمِ۔ عَلَّمَ الْاِنْسَانَ مَا لَمْ یَعْلَمْ۔ } [87]
” پروردگار کے نام سے پڑھ جس نے پیدا کیا ‘ اس نے انسان کو خون بستہ سے پیدا کیا ‘ پڑھ اور تیرا پروردگار بہت کرم کرنے والا ہے جس نے قلم (تحریر) کے ذریعہ (انسان کو) علم سکھایا ‘ انسان کو وہ سب کچھ سکھایا جس سے وہ ناواقف تھا۔ “
حضرت شاہ عبد القادر دہلوی (رحمہ اللہ علیہ) اس آیت کی تفسیر میں بہت ہی لطیف بات ارشاد فرماتے ہیں ‘ موضح القرآن میں لکھتے ہیں : اول جبرائیل (علیہ السلام) وحی لائے تو یہی پانچ آیتیں ‘ حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کبھی لکھا پڑھا نہ تھا (اس لیے اللہ تعالیٰ نے) فرمایا کہ قلم سے بھی علم وہی دیتا ہے یوں بھی (یعنی بغیر وسائل کے وہبی طور پر) وہی دے گا۔
غرض نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان آیات کو دہرایا اور یہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ذہن نشین ہوگئیں اس کے بعد جب حراء سے فارغ ہوئے تو یہ حالت کہ قلب (شدت وحی سے) کانپ رہا تھا ‘ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مکان میں داخل ہوتے ہی فرمایا : مجھ کو کپڑا اڑھاؤ۔ حضرت خدیجہ نے فوراً کپڑا اڑھا دیا۔ جب کچھ سکون ہوا تو خدیجہ (رضی اللہ عنہا) کو تمام واقعہ سنایا اور پھر فرمایا :
” | خَشِیْتُ عَلٰی نَفْسِیْ ” مجھے اپنی جان کا خوف ہے۔ “ | “ |
یعنی مجھے یہ خوف ہے کہ شاید میں وحی کے بار کو برداشت نہ کرسکوں۔حضرت خدیجہ الکبریٰ رضی اللہ عنہا نے سن کر عرض کیا ” قسم بخدا ! خدا آپ کو ہرگز رسوا نہیں کرے گا ‘ کیونکہ آپ صلہ رحمی کرتے ہیں ‘ مہمانوں کی مہمانداری ‘ بیچاروں کی چارہ گری فرماتے اور مفلس کے لیے ذریعہ معاش مہیا کرتے ہیں اور حق رسی کی کڑی سے کڑی مصیبت میں مددگار بنتے ہیں۔ “ اس گفتگو کے بعد حضرت خدیجہ (رضی اللہ عنہا) نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اپنے چچا زاد بھائی ورقہ بن نوفل کے پاس لے گئیں ‘ ورقہ زمانہ جاہلیت کے ان لوگوں میں سے تھے جنھوں نے سچی عیسائیت کو قبول کر لیا تھا۔ عبرانی زبان سے واقف اور انجیل کی کتابت کیا کرتے تھے اور بہت ضعیف العمر اور نابینا تھے (حضرت) خدیجہ (رضی اللہ عنہا) نے ورقہ سے کہا : برادر من آپ اپنے بھتیجے کا واقعہ تو سنئے ورقہ نے دریافت حال کیا ‘ تب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے گذرا ہوا واقعہ سنایا ‘ ورقہ نے سنا تو کہا ھَذَا النَّامُوْسُ الَّذِیْ کَانَ یَنْزِلُ عَلٰی مُوْسٰی ” یہ وہ فرشتہ (جبرئیل (علیہ السلام)) ہے جو حضرت موسیٰ (علیہ السلام) پر وحی الٰہی لے کر آیا کرتا تھا کاش کہ میں اس وقت تک زندہ رہوں جب تیری قوم تجھ کو تیرے وطن (مکہ) سے نکالے گی۔ “ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے دریافت کیا : ” کیا میری قوم مجھ کو وطن سے بے وطن کرے گی “ ورقہ نے کہا : ” بیشک ایسا ہوگا اور جس پیغام کے لیے خدا نے آپ کو پیغمبر بنایا ہے اس خدمت پر جو بھی مامور ہوا اس کے ساتھ یہی صورت پیش آئی ہے پس اگر وہ وقت میری زندگی میں آیا تو میں پوری قوت کے ساتھ تیری حمایت کروں گا “ مگر ورقہ کو یہ وقت نہیں آیا اس سے قبل ہی ان کا انتقال ہو گیا۔ [88]“
حدیث بخاری اور بعض مستشرقین کی کوتاہ اندیشی
حضرت عائشہ صدیقہ (رضی اللہ عنہا ) کی حدیث میں نزول وحی سے نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر جو فوری تاثر ہوا اس کو خود زبان مبارک سے اس طرح ظاہر کیا گیا ہے اِنِّیْ خَشِیْتُ عَلٰی نَفْسِیْ اور پھر اس کے متصل ہی حضرت خدیجہ (رضی اللہ عنہا ) کے تسکین دہ الفاظ منقول ہیں تو یہ واقعہ کا ایسا پہلو ہے جس کی فطری صداقت اور غیر مصنوعی سادگی خود بخود دل میں اتر جاتی ہے اور واقعہ کا نقشہ اس طرح سامنے آجاتا ہے کہ ایک صادق و امین ہستی اپنی پاک اور بے لوث زندگی کے ساتھ ایک غار میں محو استغراق ہے اس کے قلب میں خدائے برتر کے لیے عشق سے سرشارجذبہ عبودیت موجزن ہے ‘ وہ شرک اور گناہوں کی آلودگیوں سے نفور و بیزار گوشہ تنہائی کو پسند کرکے پہاڑ کے ایک غار میں سرگرم عبادت ہے یہ سلسلہ اگرچہ عرصہ سے جاری ہے مگر اچانک ایک روز خدا کا فرشتہ (جبرئیل) جو ہمیشہ سے خدا کے پیغمبروں کے پاس وحی لے کر آتا رہا ہے ‘ اس پر ظاہر ہوتا ہے اور وحی الٰہی کی پیغام رسانی کرتے ہوئے اس کو نبوت و رسالت کی بشارت دیتا ہے یہ ہستی چونکہ اس سے قبل اس منصب جلیل کی حقیقت سے ناآشنا تھی اس لیے اس حیرت زا خبر اور وحی الٰہی کی عظیم ترین روحانی قوت کے زبردست اثر نے جو فوری انقلاب ذات اقدس (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں پیدا کیا اس کی وجہ سے تشویش اور گھبراہٹ کا رونما ہونا ایک فطری بات تھی ” خَشِیْتُ عَلٰی نَفْسِیْ “ کی مراد یہ نہیں تھی کہ جان کا خوف آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو پریشان کیے ہوئے تھا ایک عربی نژاد ‘ قریشی الاصل اور شخصی شجاعت کے مالک سے اس قسم کی توقع کیسے ہو سکتی ہے ؟ بلکہ مطلب یہ تھا کہ وہ اس بار عظیم کو برداشت بھی کرسکے گا یا نہیں چنانچہ اس اعلیٰ تاثر کو اس مقدس انسان کی رفیقہ حیات خدیجۃ الکبریٰ (رضی اللہ عنہا ) نے محسوس کرتے ہوئے اس کے اخلاق کریمانہ اور اوصاف حمیدہ کا ذکر کیا اور کہا کہ ایسی ہستی ناکام زندگی کے لیے نہیں ہوتی اور خدا کبھی آپ کو رسوا نہیں کرے گا اور پھر اس مقدس پیغمبر کو ورقہ کے پاس لے گئیں تاکہ ایک ایسے شخص سے جو عرصہ سے خدا کی وحی اور خدا کی کتاب کا ذکر کرتا رہتا ہے اس اجمال کی تفصیل معلوم کریں۔
اس صاف اور سادہ بات کو دیکھیے اور پھر بعض مستشرقین یورپ کی اس مضحکہ خیز نکتہ چینی پر نظر ڈالئے جو تعصب اور کوتاہ نظری کی عینک لگا کر کی گئی ہے :
” اگر پیغمبر اسلام پر حرا میں وحی الٰہی کا نزول اور فرشتہ کا ظہور ہوا ہوتا تو پھر آپ وحی الٰہی سے فیضیاب ہو کر اور منصب رسالت کی بشارت سن کر یہ کیوں فرماتے اِنِّیْ خَشِیْتُ عَلٰی نَفْسِیْ اور خدیجہ کو تسکین دینے کی ضرورت پیش نہ آتی کیا آپ کو خدا پر بھروسہ نہیں تھا ؟ “
ببیں تفاوت رہ از کجاست تا بکجا ‘ حقیقت حال کیا تھی اور اس کو رنگ و روغن دے کر کیا بنادیا ؟
یہاں نہ خدا پر عدم اعتماد کی کوئی جھلک ہے اور نہ فرشتہ کے ظہور اور وحی کے نزول پر ریب و شک کا معاملہ ہے بلکہ اس حقیقت کے اعتراف ہی کی وجہ سے جو صورت حال پیدا ہو گئی تھی اس کا ایک فطری تاثر ہے جو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی صداقت کا مزید ثبوت فراہم کرتا ہے ‘ کیونکہ اگر اس کے برعکس کہیں آپ اس واقعہ کو اس طمطراق کے ساتھ پیش فرماتے کہ گویا ذات اقدس کے لیے یہ کوئی نئی بات نہیں بلکہ جانی بوجھی بات ہے تب البتہ اس کی گنجائش ہو سکتی تھی کہ اس شخص نے (دعویٰ نبوت کے لیے) پہلے سے ایک منصوبہ قائم کر رکھا تھا ‘ اور حرا کی خلوتیں بھی اسی مقصد کے لیے تھیں چنانچہ اب موقع دیکھ کر اس نے یہ اعلان کر دیا کہ میں خدا کا پیغمبر ہوں اور مجھ پر وحی آتی ہے۔
بہرحال اس مسئلہ پر ہم نے مختصر طور پر جو کچھ لکھا ہے علمائے اسلام نے مختلف اسالیب بیان کے ساتھ اسی حقیقت کا اظہار فرمایا ہے مثلاً مشہور محدث و مفسر حافظ عماد الدین ابن کثیر (رحمہ اللہ علیہ) فرماتے ہیں :
( (ثُمَّ قَالَ ” لَقَدْ خَشِیْتُ عَلٰی نَفْسِیْ “ وَذٰلِکَ لِاَنَّہٗ شَاھَدٌ اَمْرًا لَمْ یَعْھَدْہٗ قَبْلَ ذٰلِکَ وَلَا کَانَ فِیْ خَلَدِہٖ )) [89]
” آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے پھر فرمایا : ” لَقَدْ خَشِیْتُ عَلٰی نَفْسِیْ “ یہ اس لیے فرمایا کہ آپ نے ایک ایسی حقیقت کا آج مشاہدہ کیا کہ اس سے قبل اس سے واقف نہیں تھے اور نہ کبھی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے دل میں یہ خیال گذرا تھا کہ ایسا کچھ پیش آئے گا “
اور حکیم الامت شاہ ولی اللہ دہلوی (رحمہ اللہ علیہ) کی لطیف توجیہ کا حاصل یہ ہے :
” پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر غار حرا میں حق (وحی) کا نزول ہوا جب فرشتہ اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے درمیان سلسلہ کلام ختم ہو گیا تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ایک خاص کیفیت طاری ہوئی جس کو ہم اپنی زبان میں تشویش و اضطراب سے تعبیر کرتے ہیں اور حقیقت میں یہ ایک نفسیاتی کیفیت تھی جس کا پیش آنا فطری تھا اس لیے کہ جب نزول وحی کی وجہ سے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بشری قویٰ پر ملکوتی صفات نے اثر کیا تو دو متضاد قوتوں کے درمیان تصادم اور پھر ملکوتی قوت کے غلبہ کی وجہ سے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اندر تشویش پیدا ہوجانا یقینی تھا یہی وجہ ہے کہ ابتدائے نزول وحی کے بعد کچھ مدت تک وحی کا سلسلہ منقطع رہا کیونکہ انسان بشریت اور ملکیت دو جہات کے درمیان محصور ہے پس جس ہستی کی بشریت پر ملکوتی صفات غالب آ کر اس کو ظلمتوں سے نور کی جانب لے جاتی ہیں تو جس قوت کے ساتھ یہ غلبہ اپنا اثر کرتا ہے انسان اپنے اندر اسی شدت کے ساتھ بشریت و ملکیت کے درمیان تصادم اور تزاحم محسوس کرتا ہے اور شدت تصادم کا یہ سلسلہ اس وقت تک جاری رہتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کی ملکوتی قوت و استعداد کو اس درجہ کامل و مکمل کر دے جو منصب نبوت و رسالت کے لیے ضروری ہے حتیٰ کہ اس کی قوت بشری (قوت بہیمی و حیوانی) قوت ملکوتی کے ہاتھ میں پوری طرح تابع اور منقاد ہوجاتی ہے اور اب وہ ہستی جس کو فیضان نبوت سے سرفراز کیا گیا ہے مطمئن اور تصادم کی کشمکش سے بالاتر ہو کر اس منصب جلیل (نبوت و رسالت) کی خدمت کے قابل ہوجاتی ہے۔ “ [90]
بشریت اور نبوت کا باہمی تعلق
” نبوت “ اور ” بشریت “ کے درمیان اس درجہ نازک رشتہ ہے کہ قرآن حکیم کی تعلیم سے قبل پیروان مذاہب و ادیان نے اس راہ میں بھی اعتدال کو ترک کرکے افراط اور تفریط کو اسوہ بنا لیا تھا اور اس بارے میں ان کو سخت ٹھوکر لگی تھی چنانچہ بعض پیروان مذاہب نے یہ دیکھ کر کہ نبی اور رسول باوجود اس امر کے کہ وہ انسان اور بشر کی شکل و صورت رکھتا ہے لیکن ساتھ ہی افراد انسانی سے جدا ایسی خصوصیات کا حامل نظر آتا ہے جو مجاہدات و ریاضات کے ذریعہ سے بھی دوسروں کو حاصل نہیں ہوتیں ‘ اس لیے دراصل وہ بشر نہیں بلکہ خدا یا خدا کا بیٹا ہے جس نے انسانوں کی نجات کے لیے جامہ بشریت اختیار کر لیا ہے۔
اوتار اور ابن اللہ کا عقیدہ دراصل ایک ہی سلسلہ کی دو کڑیاں ہیں۔
اس کے برعکس دوسری جماعت نے یہ کہا کہ نبوت و رسالت کوئی منصب نہیں ہے کہ خدا کی جانب سے عطیہ مناصب کی طرح دیا جاتا ہو بلکہ اخلاق کریمانہ اور صفات حمیدہ کا وہ اعلیٰ درجہ ہے جو ہر ایک انسان اپنی روحانی جدوجہد سے حاصل کرسکتا ہے اور کہتے ہیں کہ اگرچہ عطا و بخشش ہر شے کے لیے اسی کی جانب (خدا کی جانب) سے ہے لیکن کسی شے کا بطور منصب عطا ہونے کی حدود میں محدود رہنا اور روحانی جدوجہد سے ہر شخص کے حاصل کرلینے کے لیے اس کا دروازہ کھلا رہنا ان دونوں باتوں کے درمیان جو فرق ہے ہمارا خیال یہ ہے کہ نبوت بھی اور درجات روحانیت کی ہی طرح ہے اور عطاء منصب کی شکل میں خاص امتیاز نہیں رکھتی۔
قرآن حکیم نے اس افراط وتفریط کو ختم کرنے کے لیے نبوت و رسالت کی حقیقت کو بہت عمدہ طریقوں سے آشکارا کیا ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ خدائے تعالیٰ نے انسان کی رہنمائی کے لیے جو مختلف درجات ہدایت کا سلسلہ قائم کیا ہے اس کا اعلیٰ درجہ ” ہدایت وحی “ کا ہے اور یہ انسان کی روحانیت اور مقصد حیات کی کامرانی کا کفیل وضامن ہے اور جبکہ ہدایت کا یہ سلسلہ انسانی راہنمائی کے لیے ہے تو عقل سلیم کا تقاضا یہ ہے کہ یہ درجہ انسان ہی کو بخشا جائے لیکن کیا ہر شخص کو جدا جدا بخش دیا جائے ؟ نہیں ایسا نہیں ہونا چاہیے اس لیے کہ یہاں درجات عقل مختلف ہیں اور درجات استعداد میں بھی تنوع موجود ہے اس لیے از بس ضروری ہے کہ کسی خاص ہستی کو اس کے لیے چن لیا جائے تو اب یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اس انتخاب کی نوعیت کیا ہونی چاہیے یہ کہ جو عمدہ صلاحیتوں کے ساتھ زیادہ سے زیادہ مجاہدات اور ریاضات کے ذریعہ نفس پر قابو پائے یا یہ کہ خدائے تعالیٰ جس کو یہ درجہ عطا فرمائے اس کی صلاحیتوں اور اس کی استعدادات کی تخلیق ہی اس طرح کر دے کہ صدق و امانت اس کا مایہ خمیر بنا ہوا ہو اور خارجی مجاہدہ اور ریاضت کا محتاج نہ ہو۔ یہ جدا امر ہے کہ خدائے برتر کے سامنے اظہار عبودیت اور تقرب الی اللہ کے لامتناہی فیض سے فیضیاب ہونے کے لیے اس سلسلہ کو بھی کلیتاً ترک نہ کرے۔ تو اس کا جواب یہ ہے کہ عقل و بصیرت اس فیصلہ کو حق بجانب سمجھتے ہیں کہ یہاں دوسری شکل عمل میں آنی چاہیے اس لیے جس طرح خدائے برتر کے مقررہ قانون قدرت نے ہدایت وحی سے پہلے کے مختلف درجات ہدایت کو انسان کے مجاہدہ و ریاضت پر موقوف نہیں رکھا اور اس بخشش و فیض کو حسب حال عطیہ الٰہی کی حیثیت میں رکھا ہے یعنی وجدان ‘ حواس اور عقل ان سب درجات ہدایات کا جب یہی حال ہے کہ وہ جدوجہد سے نہیں بلکہ عطیہ الٰہی سے ملتے ہیں تو ہدایت وحی بھی جس کو بخشا جائے وہ بطور منصب و عطیہ کے ہی عطا ہو البتہ یہ از بس ضروری ہے جس کو بھی بخشا جائے اس کی روحانی صلاحیتیں اور استعدادات ہر طرح اس منصب کی اہل ہوں اور ایسی ہستی کو عطا نہ ہو کہ اس کی صلاحیت و استعداد عطا کرنے والے کی بے سلیقگی پر چشمک زن ہو۔
غرض نبی اور رسول اس ہستی کو کہتے ہیں جو لوازم بشریت کے ساتھ اپنے تقدس و طہارت اور اخلاق حسنہ و اوصاف حمیدہ کے اس بلند مقام پر فائز ہو اور اس کے صفات صدق و امانت اس درجہ مسلم ہوں کہ اس کو بشر معصوم کہہ سکیں وہ نہ خدا ہوتا ہے اور نہ ابن خدا بلکہ خدا کی جانب سے ہدایت وحی کا حامل ‘مخلوق خدا کے لیے خدا کا ایلچی اور ان کی ہر قسم کی رشد و ہدایت کا کفیل ہو چونکہ وہ بشر ہے اس لیے افراد نسل انسانی سے تعلق رکھتا ہے ‘اور چونکہ ہر قسم کی آلودگیوں اور گناہوں سے پاک اور معصوم ہے اس لیے اس کو اللہ سبحانہ کے ساتھ ہم کلامی کا شرف حاصل ہے پس نبوت و رسالت کا بشریت کے ساتھی یہی وہ تعلق ہے جو ہر قسم کی افراط وتفریط سے بری اور حقیقت حال کے لیے آئینہ دار ہے اور اسی حقیقت کو نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے خود زبان وحی ترجمان سے ظاہر فرمایا ہے۔
اِنَّمَا اَنَا قَاسِمُ وَاللّٰہُ یُعْطِیْ ” خدا دینے والا ہے اور میں تقسیم کرنے والا ہوں۔ “
یعنی ایک جانب خدا سے وحی ہدایت حاصل کرتا ہوں اور دوسری جانب خدا کے بندوں تک اس کو پہنچا دیتا ہوں یہی میرا فریضہ رسالت و نبوت ہے اور اسی حقیقت کو قرآن حکیم نے مختلف اسالیب بیان کے ساتھ اس سلسلہ کے غلط کار لوگوں کی ہدایت کے لیے اس طرح بیان کیا ہے :
{ قُلْ سُبْحَانَ رَبِّیْ ھَلْ کُنْتُ اِلَّا بَشَرًا رَّسُوْلًا } [91]
” کہہ دیجئے ‘ پاکی ہے میرے پروردگار کے لیے ‘ میں نہیں ہوں مگر انسان اور خدا کا ایلچی (رسول) “
{ قُلْ لَّآ اَمْلِکُ لِنَفْسِیْ نَفْعًا وَّ لَا ضَرًّا اِلَّا مَا شَآئَ اللّٰہُ وَ لَوْ کُنْتُ اَعْلَمُ الْغَیْبَ لَاسْتَکْثَرْتُ مِنَ الْخَیْرِ وَ مَا مَسَّنِیَ السُّوْٓئُ اِنْ اَنَا اِلَّا نَذِیْرٌ وَّ بَشِیْرٌ لِّقَوْمٍ یُّؤْمِنُوْنَ } [92]
” وہی ہو کر رہتا ہے جو خدا چاہتا ہے اگر مجھے غیب کا علم ہوتا تو ضرور ایسا کرتا کہ بہت سی منفعت بٹور لیتا اور (زندگی میں) کوئی گزند مجھے نہ پہنچتا ‘ میں اس کے سوا کیا ہوں کہ ماننے والوں کے لیے (گناہوں کی پاداش عمل سے) خبردار کرنے والا اور نیک عمل پر بشارت دینے والا ہوں۔ “
{ قَالَ اِنِّیْ عَبْدُ اللّٰہِ اٰتٰنِیَ الْکِتٰبَ وَ جَعَلَنِیْ نَبِیًّا۔ وَّ جَعَلَنِیْ مُبٰرَکًا اَیْنَ مَا کُنْتُ۔ } [93]
” (عیسیٰ (علیہ السلام) نے ) کہا : میں اللہ کا بندہ ہوں ‘ اس نے مجھ کو (ہدایت انسانی کے لیے) کتاب دی اور مجھ کو نبی بنایا اور اس نے مجھ کو بابرکت کیا خواہ میں کسی جگہ ہوں۔ “
{ فَاْتِیٰہُ فَقُوْلَآ اِنَّا رَسُوْلَا رَبِّکَ فَاَرْسِلْ مَعَنَا بَنِیْٓ اِسْرَآئِیْلَ وَ لَا تُعَذِّبْھُمْ قَدْ جِئْنٰکَ بِاٰیَۃٍ مِّنْ رَّبِّکَ وَ السَّلٰمُ عَلٰی مَنِ اتَّبَعَ الْھُدٰی } [94]
” تم (موسیٰ و ہارون) اس (فرعون) کے پاس جاؤ اور کہو ہم تیرے پروردگار کے بھیجے ہوئے آئے ہیں پس بنی اسرائیل کو ہمارے ساتھ رخصت کر دے اور ان پر سختی نہ کر۔ ہم تیرے پروردگار کی نشانی لے کر تیرے سامنے آگئے اس پر سلامتی ہو جو سیدھی راہ اختیار کرے۔ “
{ رُسُلًا مُّبَشِّرِیْنَ وَ مُنْذِرِیْنَ لِئَلَّا یَکُوْنَ لِلنَّاسِ عَلَی اللّٰہِ حُجَّۃٌم بَعْدَ الرُّسُلِ وَ کَانَ اللّٰہُ عَزِیْزًا حَکِیْمًا } [95]
” یہ تمام رسول (خدا پرستی و نیک عملی کے نتائج کی) خوش خبری دینے والے اور (انکار حق کے نتائج سے ) ڈرانے والے تھے (اور اس لیے بھیجے گئے تھے) کہ ان کے آنے (اور نیک و بد بتلانے) کے بعد لوگوں کے پاس کوئی حجت باقی نہ رہے جو وہ خدا کے حضور پیش کرسکیں اور وہ خدا (اپنے کاموں میں) سب پر غالب ہے اور (تمام کاموں میں) حکمت والا ہے۔ “
{ یٰٓاَیُّھَا النَّبِیُّ اِنَّآ اَرْسَلْنٰکَ شَاھِدًا وَّ مُبَشِّرًا وَّ نَذِیْرًا۔ وَّ دَاعِیًا اِلَی اللّٰہِ بِاِذْنِہٖ وَ سِرَاجًا مُّنِیْرًا۔ } [96]
” اے نبی ! بلاشبہ ہم نے تجھ کو بھیجا ہے (حق پر) گواہی دینے والا اور (نیکی کے انجام پر) بشارت دینے والا اور (بدی کے انجام سے ) ڈرانے والا اور بلانے والا اللہ کی راہ کی طرف اس کے حکم سے اور بھیجا روشن چراغ بنا کر۔ “
{ عٰلِمُ الْغَیْبِ فَـلَا یُظْہِرُ عَلٰی غَیْبِہٖ اَحَدًا۔ اِلَّا مَنِ ارْتَضٰی مِنْ رَّسُوْلٍ فَاِنَّہٗ یَسْلُکُ مِنْم بَیْنِ یَدَیْہِ وَمِنْ خَلْفِہٖ رَصَدًا۔ لِیَعْلَمَ اَنْ قَدْ اَبْلَغُوْا رِسَالَاتِ رَبِّہِمْ وَاَحَاطَ بِمَا لَدَیْہِمْ وَاَحْصٰی کُلَّ شَیْئٍ عَدَدًا۔ } [97]
” وہ (خدا) غیب کی تمام باتوں کا جاننے والا ہے پس وہ اپنے غیب (کے معاملات) پر کسی کو خبردار نہیں کرتا مگر جس کو پیغمبر بنا کر چن لے ‘ پس بلاشبہ وہ (خدا) اس رسول کے آگے اور پیچھے نگہبان چلاتا ہے (یعنی اس کو اس بات سے محفوظ رکھتا ہے کہ خدا کی دی ہوئی خبر میں شیطان یا اس کا نفس کوئی ملاوٹ کرسکے اور اس کو شبہ پڑجائے کہ یہ خدا کی وحی ہے یا کچھ اور) تاکہ خدا یہ ظاہر کر دے کہ انھوں نے (رسولوں نے ) بلاشبہ اپنے پروردگار کے پیغام (ٹھیک ٹھیک) پہنچا دیے۔ “
ان آیات کی تفسیر میں حضرت شاہ عبد القادر (رحمہ اللہ علیہ) یہ تحریر فرماتے ہیں :
” یعنی رسول کو خبر دیتا ہے غیب کی پھر چوکیدار (فرشتے) رکھتا ہے اس کے ساتھ کہ اس میں شیطان دخل نہ کرنے پاوے اور اپنا (رسول کا) نفس غلط نہ سمجھے یہی معنی ہیں اس بات کے کہ پیغمبروں کو عصمت ہے اوروں کو نہیں اور ان کا معلوم ” بیشک “ ہے اوروں کے معلوم میں شبہ ہے۔ “
” نبی “ اور ” رسول “ سے متعلق مسطورہ بالا افراط وتفریط کے ساتھ ساتھ مشرکین عرب ایک نئی گمراہی میں مبتلا تھے وہ کہتے تھے کہ اول تو ” پیغمبر “ کا وجود ہی ہمارے لیے اچنبھے کی بات ہے ‘ اور اگر یہ اچنبھا ہونا ہی تھا تو اس کے لیے ہماری طرح کا ایک انسان ہی کیوں چنا گیا ‘ کیوں ایک فرشتہ نہ بھیجا گیا اور اگر انسان ہی بھیجنا تھا تو مکہ اور طائف کی کسی متمول سرمایہ دار ہستی کو پیغمبر بنایا جاتا ورنہ اس کو ہی غیب سے خزانے اور بے نظیر باغات عطا کیے جاتے تب ہم سمجھتے کہ بیشک یہ خدا کا فرستادہ ہے :
{ وَقَالُوْا مَالِ ہٰذَا الرَّسُوْلِ یَاْکُلُ الطَّعَامَ وَیَمْشِیْ فِی الْاَسْوَاقِ لَوْلَا اُنْزِلَ اِلَیْہِ مَلَکٌ فَیَکُوْنَ مَعَہٗ نَذِیْرًا۔ اَوْ یُلْقٰی اِلَیْہِ کَنْزٌ اَوْ تَکُوْنُ لَہٗ جَنَّۃٌ یَّاْکُلُ مِنْہَا۔ } [98]
” اور وہ (مشرکین) کہتے ہیں ‘ یہ کیسا رسول ہے جو کھانا کھاتا اور بازاروں میں چلتا پھرتا ہے ایسا کیوں نہ ہوا کہ اس کے ساتھ آسمان سے فرشتہ اترتا اور وہ خدا کے پیغام سے خبردار کرتا یا ایسا کیوں نہ ہوا کہ (ہماری آنکھوں دیکھتے) اس پر آسمان سے خزانہ اتر آتا یا قدرتی باغ ہوتا کہ وہ (ہر وقت مرضی کے مطابق) اس سے (پھل) کھاتا۔ “
{ وَما اَرْسَلْنَا قَبْلَکَ مِنَ الْمُرْسَلِیْنَ اِلَّا اِنَّہُمْ لَیَاْکُلُوْنَ الطَّعَامَ وَیَمْشُونَ فِی الْاَسْوَاقِ وَجَعَلْنَا بَعْضَکُمْ لِبَعْضٍ فِتْنَۃً اَتَصْبِرُوْنَ وَکَانَ رَبُّکَ بَصِیْرًا } [99]
” اور ہم نے تجھ سے پہلے بھی ایسے ہی پیغمبر بھیجے تھے جو کھانا کھاتے تھے اور بازاروں میں چلتے پھرتے تھے (یعنی پیغمبری کے لیے بشریت منافی نہیں ہے بلکہ انسانوں کے لیے انسان ہی کو پیغمبر ہونا چاہیے) اور ہم نے (انسانوں میں سے انسان ہی کو پیغمبر بنا کر) ایک دوسرے کی آزمائش کا سامان کر دیا کہ آیا تم صبر و استقامت کا ثبوت دیتے ہو یا نہیں اور تیرا پروردگار بلاشبہ (انسانوں کے کردار کا) دیکھنے والا ہے۔ “
{ وَ قَالُوْا لَوْلَآ اُنْزِلَ عَلَیْہِ مَلَکٌط وَ لَوْ اَنْزَلْنَا مَلَکًا لَّقُضِیَ الْاَمْرُ ثُمَّ لَا یُنْظَرُوْنَ۔ وَ لَوْ جَعَلْنٰہُ مَلَکًا لَّجَعَلْنٰہُ رَجُلًا وَّ لَلَبَسْنَا عَلَیْھِمْ مَّا یَلْبِسُوْنَ۔ } [100]
” اور وہ کہتے ہیں اس پر (محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر) کیوں فرشتہ نہیں اتارا گیا اور اگر ہم فرشتہ اتارتے تو البتہ (نتائج اعمال کا) فیصلہ کر دیا جاتا اور پھر وہ مہلت نہ دیے جاتے اور اگر ہم اس کو فرشتہ کردیتے تو بھی (انسانوں کی ہدایت کے لیے) اس کو بصورت انسان ہی ظاہر کرتے اور (اس طرح) ہم پھر ان لوگوں کو اس شبہ میں مبتلا کردیتے جس میں اب مبتلا ہیں۔ “
اس جگہ ان کی گمراہی کو دو دلائل سے واضح کیا ہے ایک یہ کہ ایمان و اعتقاد کی زندگی سر تا سر غیب سے متعلق ہے پس اگر انسان کو اسی عالم میں عالم غیب کے معاملات کا مشاہدہ کرا دیا جائے اور پھر بھی وہ انکار پر جما رہے تو خدا کا قانون امہال (مہلت کا قانون) نافذ نہیں ہوگا بلکہ نتائج اعمال کا فوراً ہی ظہور ہو کر رہے گا اور یہ ان کے لیے بھی مضر ہے اور خدا کی حکمت رحمت و ربوبیت کے بھی خلاف ہے دوسری دلیل یہ کہ انسانی دنیا میں اگر فرشتہ کے ذریعہ ہدایت وحی کو بھیجا جائے تو انسان کس طرح اس سے مانوس ہو سکتے ہیں ‘ پھر اگر اسے بھی انسان ہی کی شکل میں بھیجیں تو شبہ کرنے والوں کا شبہ اسی طرح قائم رہے گا۔ اس لیے عقل و نقل دونوں کا فیصلہ یہی ہے کہ ہدایت کے لیے انسان ہی کو مبعوث ہونا چاہیے :
{ وَ مَا مَنَعَ النَّاسَ اَنْ یُّؤْمِنُوْٓا اِذْ جَآئَھُمُ الْھُدٰٓی اِلَّآ اَنْ قَالُوْٓا اَبَعَثَ اللّٰہُ بَشَرًا رَّسُوْلًا۔ قُلْ لَّوْ کَانَ فِی الْاَرْضِ مَلٰٓئِکَۃٌ یَّمْشُوْنَ مُطْمَئِنِّیْنَ لَنَزَّلْنَا عَلَیْھِمْ مِّنَ السَّمَآئِ مَلَکًا رَّسُوْلًا۔ } [101]
” اور لوگوں کے پاس جب ہدایت آپہنچی تو ان کو ایمان لانے سے کسی بات نے نہیں روکا مگر اس نے کہ وہ کہتے ہیں کہ کیا خدا کسی بشر کو پیغمبر بنا کر بھیجے گا ‘ اے پیغمبر ! کہہ دیجئے اگر زمین پر انسانوں کی جگہ فرشتوں کی آبادی ہوتی اور وہ اس پر چلتے پھرتے تو ہم ضرور ان کے لیے آسمان سے فرشتہ کو ہی رسول بنا کر بھیجتے۔ “
{ وَ مَآ اَرْسَلْنَا قَبْلَکَ اِلَّا رٍجَالًا نُّوْحِیْٓ اِلَیْھِمْ فَسْئَلُوْٓا اَھْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ۔ وَ مَا جَعَلْنٰھُمْ جَسَدًا لَّا یَاْکُلُوْنَ الطَّعَامَ وَ مَا کَانُوْا خٰلِدِیْنَ۔ } [102]
” اور (اے پیغمبر ! ) ہم نے تجھ سے پہلے بھی جن پر وحی نازل کی ہے وہ انسانوں کے سوا اور کچھ نہیں تھے پس (معترضین) اگر تم نہیں جانتے ہو تو جاننے والوں سے دریافت کرلو اور نہ ہم نے ان کو بے جان (دھڑ) بنایا تھا کہ وہ کھانا نہ کھاتے ہوں اور نہ وہ (خدا کی طرح) ہمیشہ رہنے والے تھے۔ “
بہرحال ان آیات میں قرآن عزیز نے علمی اور تاریخی دونوں قسم کے دلائل سے یہ صاف کر دیا کہ کائنات انسانی کی ہدایت کے لیے انسان کا نبی اور ہادی ہونا فطری بات ہے اور اس لیے اقوام ماضیہ میں ایساہی ہوتا رہا ہے۔
پھر اس مسئلہ کی جانب بھی توجہ کی ہے کہ نبوت و رسالت کا تعلق سرداری ‘ سرمایہ داری اور جتھ بندی سے کچھ نہیں ہے اور اس کے لیے جن فطری اعلیٰ ملکات و استعدادات کی ضرورت ہے ان کے پیش نظر اللہ تعالیٰ ہی خوب واقف ہے کہ کون اس منصب کا اہل ہے :
{ وَقَالُوْا لَوْلَا نُزِّلَ ہٰذَا الْقُرْاٰنُ عَلٰی رَجُلٍ مِّنَ الْقَرْیَتَیْنِ عَظِیْمٍ۔ اَہُمْ یَقْسِمُوْنَ رَحْمَۃَ رَبِّکَ نَحْنُ قَسَمْنَا بَیْنَہُمْ مَعِیْشَتَہُمْ فِی الْحَیَاۃِ الدُّنْیَا وَرَفَعْنَا بَعْضَہُمْ فَوْقَ بَعْضٍ دَرَجَاتٍ لِّیَتَّخِذَ بَعْضُہُمْ بَعْضًا سُخْرِیًّا وَرَحْمَتُ رَبِّکَ خَیْرٌ مِّمَّا یَجْمَعُوْنَ۔ } [103]
” اور وہ کہتے ہیں یہ قرآن کیوں ان دو بستیوں (مکہ اور طائف) کے کسی سردار پر نازل نہیں ہوا (تو ) کیا تیرے پروردگار کی رحمت کو یہ تقسیم کرنے والے ہیں ؟ نہیں بلکہ ہم نے ہی ان کے درمیان ان کی دنیوی معیشت کو تقسیم کیا ہے اور ہم نے ہی بعض انسانوں کو بعض پر بلندی درجات عطا کی ہے تاکہ بعض بعض کے مسخر رہیں (یعنی بعض مقتدیٰ ہوں اور بعض مقتدی ‘ بعض پیغمبر ہوں اور بعض امتی) اور تیرے پروردگار کی رحمت (نبوت) اس (دولت و ثروت) سے (کہیں زیادہ) بہتر ہے جو وہ خزانہ کیے ہوئے ہیں۔ “
{ وَ اِذَا جَآئَْتھُمْ اٰیَۃٌ قَالُوْا لَنْ نُّؤْمِنَ حَتّٰی نُؤْتٰی مِثْلَ مَآ اُوْتِیَ رُسُلُ اللّٰہِط اَللّٰہُ اَعْلَمُ حَیْثُ یَجْعَلُ رِسَالَتَہٗ } [104]
” اور جب ان کے پاس خدا کی جانب سے کوئی آیت آتی ہے تو یہ (مشرکین) کہتے ہیں ہم اس وقت تک ایمان نہیں لائیں گے جب تک ہم کو بھی وہی چیز (وحی) نہ دی جائے جو خدا کے رسولوں کو دی گئی (لیکن ایسا نہیں ہو سکتا اس لیے کہ) اللہ ہی خوب جانتا ہے کہ وہ اپنے منصب رسالت کو کس کے سپرد کرے۔ “
اور یہ بات تو بہت واضح اور صاف ہے جس شخص کو کوئی منصب عطا کیا جائے تو انصاف کا تقاضا یہ ہے کہ وہ ہر طرح اس کے لیے جوہر قابل اور اہل ہونا چاہیے لیکن یہ ضروری نہیں کہ ہر ایک جوہر قابل کو وہ منصب ملے کیونکہ معطی کی مصلحت ہی خوب فیصلہ کرسکتی ہے کہ کس کو ملے اور کس کو نہ ملے چہ جائیکہ جوہر قابل بھی نہ ہو۔ اس لیے ضروری ہوا کہ جو نبی اور رسول ہو وہ ہر حیثیت سے انسان کامل اور گناہوں سے معصوم ہو لیکن یہ ضروری نہیں کہ جو شخص بھی اخلاق حمیدہ اور روحانی مجاہدات کے ذریعہ تقدیس کا درجہ حاصل کرسکا ہو وہ منصب نبوت پر بھی ضرور فائز ہو۔
بہرحال نبوت منصب ہے ڈگری نہیں ہے اور اس لیے جن کو بھی دیا جاتا ہے ان کو متنبہ کر دیا جاتا ہے کہ یہ تم پر فضل خداوندی ہے ورنہ اگر وہ تم سے اس کو سلب کر لیناچا ہے تو تمھاری طاقت بلکہ کائنات کی طاقت سے باہر ہے کہ پھر یہ تم کو مل سکے :
{ وَ لَئِنْ شِئْنَا لَنَذْھَبَنَّ بِالَّذِیْٓ اَوْحَیْنَآ اِلَیْکَ ثُمَّ لَا تَجِدُ لَکَ بِہٖ عَلَیْنَا وَکِیْلًا۔ اِلَّا رَحْمَۃً مِّنْ رَّبِّکَ اِنَّ فَضْلَہٗ کَانَ عَلَیْکَ کَبِیْرًا۔ } [105]
” اور (اے پیغمبر ! ) اگر ہم چاہیں تو جو تجھ پر ہم نے وحی کی ہے اس کو چھین لیں اور پھر تجھ کو کوئی بھی ایسا کارساز نہ ملے جو ہم پر زور ڈال سکے ‘ لیکن یہ (جو سلسلہ وحی جاری ہے تو) اس کے سوا کچھ نہیں ہے کہ تیرے پروردگار کی رحمت سے ہے اور یقین کر کہ تجھ پر تیرے پروردگار کا بڑا ہی فضل ہے۔ “
نبی اور مصلح
مسطورہ بالا تفصیلات سے یہ بات بھی واضح ہو گئی کہ چونکہ نبی اور رسول کو براہ راست خدائے برتر سے شرف مکالمت حاصل ہوتا ہے یا خدا کا معصوم فرشتہ خدا کی وحی لا کر سناتا ہے اس لیے اس کا ذریعہ علم ” علم یقین “ کا وہ درجہ رکھتا ہے جس میں شک و شبہ کی مطلق گنجائش نہیں رہتی اور اس کے علاوہ تمام ذرائع علم یقین کے اس درجہ سے نیچے ہیں بلکہ ان کی افادیت ” ظن “ سے آگے نہیں بڑھتی اس لیے اگر ایک مرد صالح اپنی قوم یا نوع انسانی کی اصلاح حال کے لیے کوئی قدم اٹھائے تو مقدس سے مقدس تر ہونے کے باوجود اس کے اپنے طریقہ اصلاح میں غلطی کا وقوع اور امکان دونوں موجود رہتے ہیں بلکہ بعض اوقات وہ ایسی فاش غلطی کر گزرتا ہے کہ اس سے فائدہ پہنچنے کی بجائے قوم کو نقصان اٹھانا پڑتا ہے اس لیے ایک نیکوکار مصلح یہ کبھی دعویٰ نہیں کرتا کہ وہ اصلاح حال کے لیے جو کچھ اپنی جانب سے کہتا ہے غلطی سے پاک ہے مگر ایک نبی اور رسول کے لیے از بس ضروری ہے کہ وہ یہ بھی اعلان کرے کہ میں خدا کی جانب سے اصلاح حال کے لیے خدا کا پیغام رساں ہوں اور یہ بھی دعویٰ کرے کہ وہ جو تعلیم و اصلاح پیش کر رہا ہے خدا کا فرمودہ ہے اور اس لیے ہر قسم کی غلطی اور لغزش سے پاک اور محفوظ ہے ‘ وہ یہ نہیں کہے گا کہ یہ میرے دل کی آواز ہے یا اندر سے جو آواز آتی ہے اس کا نتیجہ اور ثمرہ ہے بلکہ صاف صاف یہ کہے گا کہ اس میں میرا اپنا کچھ نہیں میں تو صرف ایلچی اور پیغامبرہوں یہ جو کچھ بھی ہے خدا کا فرمان اور اس کی وحی ہے۔
چنانچہ قرآن عزیز نے جگہ جگہ ان دونوں باتوں کو واضح کیا ہے وہ کہتا ہے کہ ہر ایک پیغمبر کو یہ حکم دیا گیا ہے کہ وہ اعلان کر دیں کہ خدا نے ان کو اپنی ہدایت وحی کے لیے چن لیا ہے اور وہ خدا کے پیغمبر ہیں اور یہ بھی حکم دیا گیا ہے کہ جو کچھ ان پر وحی کیا جاتا ہے اس کو حرف بہ حرف امت تک پہنچائیں۔
حضرت نوح (علیہ السلام) اپنی قوم سے خطاب کرتے ہوئے فرماتے ہیں :
{ قَالَ یٰقَوْمِ لَیْسَ بِیْ ضَلٰلَۃٌ وَّ لٰکِنِّیْ رَسُوْلٌ مِّنْ رَّبِّ الْعٰلَمِیْنَ۔ اُبَلِّغُکُمْ رِسٰلٰتِ رَبِّیْ وَ اَنْصَحُ لَکُمْ وَ اَعْلَمُ مِنَ اللّٰہِ مَا لَا تَعْلَمُوْنَ۔ } [106]
” (نوح (علیہ السلام) نے) کہا اے میری قوم ! مجھ کو گمراہی سے کوئی واسطہ نہیں ہے بلکہ میں تو تمام کائنات کے پروردگار کی جانب سے بھیجا ہوا ہوں تم تک اپنے پروردگار کی جانب سے پیغام پہنچاتا ہوں اور تمھاری خیر خواہی کرتا ہوں اور میں اللہ کی باتوں میں سے وہ باتیں جانتا ہوں جن سے تم بیخبر ہو۔ “
اور حضرت ہود (علیہ السلام) اور قوم کے درمیان مکالمہ میں حضرت ہود (علیہ السلام) نے یہ اعلان فرمایا :
{ قَالَ یٰقَوْمِ لَیْسَ بِیْ سَفَاھَۃٌ وَّ لٰکِنِّیْ رَسُوْلٌ مِّنْ رَّبِّ الْعٰلَمِیْنَ۔ اُبَلِّغُکُمْ رِسٰلٰتِ رَبِّیْ وَ اَنَا لَکُمْ نَاصِحٌ اَمِیْنٌ۔ } [107]
” (ہود (علیہ السلام) نے) کہا : اے میری قوم ! میں بیوقوف نہیں ہوں لیکن میں جہانوں کے پروردگار کی جانب سے بھیجا ہوا ہوں ‘ میں اپنے پروردگار کا پیغام تم تک پہنچاتا ہوں اور میں تمھارا خیر خواہ ہوں اور (پیغام الٰہی اور خیر خواہی میں) صاحب امانت ہوں۔ “
اور صالح (علیہ السلام) نے فرمایا :
{ قَالَ یٰقَوْمِ لَقَدْ اَبْلَغْتُکُمْ رِسَالَۃَ رَبِّیْ وَ نَصَحْتُ لَکُمْ وَ لٰکِنْ لَّا تُحِبُّوْنَ النّٰصِحِیْنَ } [108]
” (صالح (علیہ السلام) نے ) کہا اے قوم ! بلاشبہ میں نے تم کو اپنے پروردگار کا پیغام پہنچا دیا اور تمھاری خیر خواہی کی مگر تم خیر خواہی کرنے والوں کو ناپسند کرتے ہو۔ “
اور حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے اپنے باپ آزر سے یہ ارشاد فرمایا :
{ وَ اذْکُرْ فِی الْکِتٰبِ اِبْرٰھِیْمَ اِنَّہٗ کَانَ صِدِّیْقًا نَّبِیًّا۔ اِذْ قَالَ لِاَبِیْہِ یٰٓــاَبَتِ لِمَ تَعْبُدُ مَا لَا یَسْمَعُ وَ لَا یُبْصِرُ وَلَایُغْنِیْ عَنْکَ شَیْئًا۔ یٰٓاَبَتِ اِنِّیْ قَدْجَآئَنِیْ مِنَ الْعِلْمِ مَا لَمْ یَاْتِکَ فَاتِّبَعْنِیْٓ اَھْدِکَ صِرَاطًا سَوِیًّا۔ } [109]
” اور یاد کرو کتاب (قرآن) میں ابراہیم کا حال ‘ بلاشبہ تھا وہ بہت ہی صادق اور نبی جب اس نے اپنے باپ سے کہا : اے باپ ! ایسی چیز کی پوجا کیوں کرتا ہے جو نہ سنتی ہے نہ دیکھتی ہے اور نہ تجھ کو کسی (نقصان) سے بے پروا کرتی ہے (یعنی بت پرستی کیوں کرتا ہے ؟ ) اے باپ ! بلاشبہ مجھ کو علم (وحی) سے وہ حصہ ملا ہے جو تجھ کو حاصل نہیں ہے پس میری پیروی کر میں تجھ کو سیدھی راہ دکھلاؤں گا۔ “
اور لوط (علیہ السلام) نے اپنی قوم سے مکالمہ کرتے ہوئے یہ فرمایا :
{ اِذْ قَالَ لَہُمْ اَخُوْہُمْ لُوْطٌ اَلَا تَتَّقُوْنَ۔ اِنِّیْ لَکُمْ رَسُوْلٌ اَمِیْنٌ۔ فَاتَّقُوا اللّٰہَ وَاَطِیْعُوْنِ } [110]
” جب کہا ان سے ان کے بھائی (لوط) نے کیا تم پرہیزگاری اختیار نہیں کرتے بلاشبہ میں تمھارے لیے خدا کا بھیجا ہوا ہوں (اور اس پیغامبری میں) صاحب امانت ہوں پس اللہ سے ڈرو اور میری پیروی کرو۔ “
اور حضرت یعقوب و یوسف (علیہما السلام) کے ایک طویل حیرت زا واقعہ کے ضمن میں یعقوب (علیہ السلام) کا وہ مقولہ بھی منقول ہے جس میں انھوں نے اپنے بیٹے یوسف (علیہ السلام) کو وحی الٰہی کے ذریعہ یہ بشارت دی ہے جس طرح خدا نے تیرے باپ دادا ‘ ابراہیم ‘ اسماعیل ‘ اسحاق اور یعقوبعلیہم السلام کو پیغمبری عطا فرمائی اسی طرح تجھ کو بھی اس منصب جلیل سے سرفراز کرے گا :
{ وَکَذٰلِکَ یَجْتَبِیْکَ رَبُّکَ وَ یُعَلِّمُکَ مِنْ تَاْوِیْلِ الْاَحَادِیْثِ وَ یُتِمُّ نِعْمَتَہٗ عَلَیْکَ وَ عَلٰٓی اٰلِ یَعْقُوْبَ کَمَآ اَتَمَّھَا عَلٰٓی اَبَوَیْکَ مِنْ قَبْلُ اِبْرٰھِیْمَ وَ اِسْحٰقَ اِنَّ رَبَّکَ عَلِیْمٌ حَکِیْمٌ} [111]
” اور اسی طرح تیرا پروردگار تجھ کو چن لے گا اور تجھ کو تعبیر رویا کا علم بخشے گا اور تجھ پر اپنی نعمت (نبوت) کی تکمیل کرے گا اور اولاد یعقوب پر (جو اس کے اہل ہوں گے) جیسا اس نے اس سے پہلے تیرے باپ دادا ‘ ابراہیم و اسحاق پر اس (نبوت) کو پورا کیا بیشک تیرا پروردگار جاننے والا ہے حکمت والا ہے۔ “
اور پھر حضرت یوسف (علیہ السلام) کی تبلیغ و دعوت اس طرح قرآن میں مذکور ہے :
{ یٰصَاحِبَیِ السِّجْنِ ئَاَرْبَابٌ مُّتَفَرِّقُوْنَ خَیْرٌ اَمِ اللّٰہُ الْوَاحِدُ الْقَھَّارُ۔ مَا تَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِہٖٓ اِلَّآ اَسْمَآئً سَمَّیْتُمُوْھَآ اَنْتُمْ وَ اٰبَآؤُکُمْ مَّآ اَنْزَلَ اللّٰہُ بِھَا مِنْ سُلْطٰنٍ اِنِ الْحُکْمُ اِلَّا لِلّٰہِ اَمَرَ اَلَّا تَعْبُدُوْٓا اِلَّآ اِیَّاہُ ذٰلِکَ الدِّیْنُ الْقَیِّمُ وَ لٰکِنَّ اَکْثَرَ النَّاسِ لَا یَعْلَمُوْنَ۔ } [112]
” اے میرے قید کے رفیقو ! کیا بہت سے آقا اور خداوند بہتر ہیں یا یکتا خدا کی ذات جو ہر شے پر غالب ہے تم اس کے سوا جن کو پوجتے ہو ان کی حقیقت اس کے سوا کچھ نہیں کہ چند نام ہیں جو تم نے اور تمھارے باپ داداؤں نے گھڑ گئے ہیں اللہ تعالیٰ نے اس کے لیے کوئی دلیل نہیں اتاری اور حکم تو خدا کے سوا کسی کا نافذ نہیں اس نے یہی حکم دیا ہے کہ اس کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو دین کی سیدھی راہ یہی ہے لیکن اکثر لوگ (اس حقیقت کو) نہیں جانتے۔ “
اور حضرت شعیب (علیہ السلام) نے اصحاب ایکہ کے سامنے یہ اعلان کیا :
{ کَذَّبَ اَصْحٰبُ الْاَیْکَۃِ الْمُرْسَلِیْنَ۔ اِذْ قَالَ لَہُمْ شُعَیْبٌ اَ لَا تَتَّقُوْنَ۔ اِنِّیْ لَکُمْ رَسُوْلٌ اَمِیْنٌ۔ فَاتَّقُوا اللّٰہَ وَاَطِیْعُوْنِ۔ } [113]
” اصحاب ایکہ نے پیغمبروں کو جھٹلایا جب ان سے شعیب (علیہ السلام) نے کہا : کیا تم خدا سے نہیں ڈرتے بلاشبہ میں تمھارے لیے (خدا کی جانب سے) صاحب امانت پیغامبر ہوں پس اللہ سے ڈرو اور میری پیروی کرو۔ “
اور حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے فرعون کے دربار میں بے دھڑک یہ اعلان فرمایا :
{ وَ قَالَ مُوْسٰی یٰفِرْعَوْنُ اِنِّیْ رَسُوْلٌ مِّنْ رَّبِّ الْعٰلَمِیْنَ۔ حَقِیْقٌ عَلٰٓی اَنْ لَّآ اَقُوْلَ عَلَی اللّٰہِ اِلَّا الْحَقَّ قَدْ جِئْتُکُمْ بِبَیِّنَۃٍ مِّنْ رَّبِّکُمْ فَاَرْسِلْ مَعِیَ بَنِیْٓ اِسْرَآئِیْلَ۔ } [114]
” اور موسیٰ نے کہا : اے فرعون ! بلاشبہ میں جہانوں کے پروردگار کا پیغمبر ہوں ‘ میرے لیے یہی لائق ہے کہ میں خدا کے بارے میں حق کے سوا کچھ نہ کہوں۔ میں تمھارے پروردگار کی طرف سے ” دلیل “ لے کر آیا ہوں پس تو میرے ساتھ بنی اسرائیل کو (آزاد کرکے) بھیج دے (جن کو صدیوں سے غلام بنا رکھا تھا) “
اور حضرت داؤد و سلیمان (علیہما السلام) کے واقعہ میں سلیمان (علیہ السلام) نے ملکہ سبا کو دعوت اسلام کے لیے جو نامہ مبارک تحریر فرمایا تھا اس کا اسلوب بیان یہ ہے :
{ اِنَّہٗ مِنْ سُلَیْمٰنَ وَاِنَّہٗ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔ اَلَّا تَعْلُوْا عَلَیَّ وَاْتُوْنِیْ مُسْلِمِیْنَ۔ }
[115]
” یہ سلیمان کی جانب سے ہے اور یہ شروع ہے اللہ کے نام سے جو رحمن ہے رحیم ہے بات یہ ہے کہ مجھ پر اپنی بلندی و برتری کا اظہار نہ کر (کیونکہ میں بادشاہ نہیں بلکہ پیغمبر ہوں) اور میرے پاس خدا کی فرمان بردار بندی بن کر حاضر ہو۔ “
اور حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) سے قبل ایک علاقہ میں خدا کے چند نبی دعوت و تبلیغ اسلام کے لیے مامور کیے گئے تھے انھوں نے اپنی قوم سے فرمایا :
{ قَالُوْا رَبُّنَا یَعْلَمُ اِنَّآ اِلَیْکُمْ لَمُرْسَلُوْنَ۔ وَ مَاعَلَیْنَآ اِلَّا الْبَلٰغُ الْمُبِیْنُ۔ } [116]
” انھوں نے کہا ہمارا پروردگار (خوب) جانتا ہے کہ بلاشبہ ہم تمھاری جانب اس کے بھیجے ہوئے ہیں اور ہمارے اوپر اس سے زیادہ کوئی ذمہ داری نہیں کہ امر حق کا صاف اور کھلا پیغام پہنچا دیں۔ “
اور حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) نے بار بار بنی اسرائیل کے سامنے یہ اعلان فرمایا کہ میں خدا کا پیغمبر ہوں اور میری بتلائی ہوئی راہ کے سوا کوئی راہ مستقیم نہیں کیونکہ میں جو کچھ بھی پیش کر رہا ہوں خدا کا فرمودہ ہے :
{ قَالَ اِنِّیْ عَبْدُ اللّٰہِ اٰتٰنِیَ الْکِتٰبَ وَ جَعَلَنِیْ نَبِیًّا } [117]
” (عیسیٰ (علیہ السلام) نے) کہا بلاشبہ میں اللہ کا بندہ ہوں اس نے مجھ کو ” کتاب “ عطا کی ہے اور اس نے مجھ کو نبی بنایا ہے۔ “
{ وَاِذْ قَالَ عِیْسَی ابْنُ مَرْیَمَ یٰـبَنِیْ اِسْرَآئِیلَ اِنِّیْ رَسُوْلُ اللّٰہِ اِلَیْکُمْ } [118]
” جب کہا عیسیٰ بن مریم نے اے بنی اسرائیل ! بلاشبہ میں تمھاری جانب خدا کی جانب سے بھیجا ہوا ہوں (رسول ہوں) “
اور خاتم الانبیاء محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی دعوت و تبلیغ میں تو جگہ جگہ یہ حقیقت بہت نمایاں نظر آتی ہے :
{ یٰٓاَیُّھَا النَّبِیُّ اِنَّـآ اَرْسَلْنٰکَ شَاھِدًا وَّ مُبَشِّرًا وَّ نَذِیْرًا۔ وَّ دَاعِیًا اِلَی اللّٰہِ بِاِذْنِہٖ وَ سِرَاجًا مُّنِیْرًا۔ } [119]
” اے نبی بلاشبہ ہم نے تجھ کو (حق کے لیے) گواہ اور نیک عملی کے لیے بشارت دینے والا اور (بد عملی کے نتائج سے) ڈرانے والا اور خدا کے حکم سے اس کی جانب بلانے والا اور (ہدایت و صراط مستقیم کے لیے) روشن چراغ بنایا ہے۔ “
{ قُلْ یٰٓـاَیُّھَا النَّاسُ اِنِّیْ رَسُوْلُ اللّٰہِ اِلَیْکُمْ جَمِیْعَانِ الَّذِیْ لَہٗ مُلْکُ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ لَآ اِلٰہَ اِلَّا ھُوَ یُحْیٖ وَ یُمِیْتُ فَاٰمِنُوْا بِاللّٰہِ وَ رَسُوْلِہِ النَّبِیِّ الْاُمِّیِّ الَّذِیْ یُؤْمِنُ بِاللّٰہِ وَ کَلِمٰتِہٖ وَ اتَّبِعُوْہُ لَعَلَّکُمْ تَھْتَدُوْنَ }
[120]
” (اے محمد) کہہ دیجئے اے لوگو ! بیشک میں تم سب کی جانب اللہ کا بھیجا ہوا ہوں اسی کے لیے ہے بادشاہت آسمانوں کی اور زمین کی ‘ کوئی خدا نہیں ہے مگر صرف وہی یکتا ذات ‘ وہی زندگی بخشتا ہے اور وہی موت دیتا ہے پس ایمان لاؤ اللہ پر اور اس کے رسول نبی امی پر جو خود اللہ پر اور اس کی باتوں پر ایمان لاتا ہے اور اس کی پیروی کرو تاکہ تم راہ پاؤ۔ “
{ اِنَّ الدِّیْنَ عِنْدَ اللّٰہِ الْاِسْلَامُ } [121]
” بلاشبہ اللہ کے نزدیک (ہمیشہ سے) دین (حق) اسلام ہی ہے۔ “
{ وَ مَنْ یَّبْتَغِ غَیْرَ الْاِسْلَامِ دِیْنًا فَلَنْ یُّقْبَلَ مِنْہُ } [122]
” جو شخص اسلام کے ماسوا کو دین بنانا چاہے تو خدا کے یہاں وہ مقبول نہیں ہے۔ “
غرض پیغمبر اور نبی کے لیے از بس ضروری ہے کہ وہ اپنی دعوت اصلاح اور تعلیم حق پر خود بھی ایمان لائے اور کائنات کے سامنے بھی یہ اعلان کرے کہ یہ پیغام ہدایت اور یہ تعلیم حق میری جانب سے نہیں بلکہ خدا کی جانب سے ہے اور اسی نے مجھ کو اپنا ایلچی بنا کر اس کی دعوت کے لیے بھیجا ہے یہ جو کچھ ہے سب خدا کا اپنا ہے میں تو صرف اس کی جانب پکارنے والا ہوں اور اس میں شک و شبہ کا کوئی سوال ہی نہیں ہے اور یہ ہر قسم کی لغزش و خطا سے پاک علم یقین اور وحی الٰہی ہے جس کے متعلق خدا کا یہ فیصلہ ہے۔
{ لَا یَاْتِیْہِ الْبَاطِلُ مِنْم بَیْنِ یَدَیْہِ وَلَا مِنْ خَلْفِہٖ تَنْزِیْلٌ مِّنْ حَکِیْمٍ حَمِیْدٍ } [123]
اور { وَمَا یَنْطِقُ عَنِ الْہَوٰی۔ اِنْ ہُوَ اِلَّا وَحْیٌ یُّوْحٰی۔ } [124]
لیکن ” مصلح غیر نبی “ کو یہ مجاز حاصل نہیں ہے کہ وہ اپنی دعوت اصلاح کے بارے میں یہ دعویٰ کرے کیونکہ اس کی یہ دعوت اصلاح یا کسی پیغمبر اور نبی کی ہدایت وحی کی پیروی میں ہوگی تب تو اس کی حیثیت ایک یاد دہانی کرنے والے کی ہے اور یا ہدایت وحی کے اتباع کے ساتھ اس کے اپنے اجتہاد اور ضمیر کی آواز کا بھی دخل ہوگا تو اس کے اس حصہ اصلاح کا لغزش ‘ خطا بلکہ بعض اوقات غلط روی سے بھی محفوظ رہنا لازمی اور ضروری نہیں ہے۔
کیفیت وحی
وحی سے متعلق جو حقائق سپرد قلم ہو چکے ہیں ان میں ایک یہ اضافہ بھی قابل توجہ ہے : عربی میں وحی کے معنی مخفی اشارہ کے ہیں گویا یہ فطرت الٰہی کی وہ سرگوشی ہے جو ہر ایک مخلوق پر اس کی راہ عمل کھولتی ہے چنانچہ قرآن نے شہد کی مکھی کے نظام بیت کے متعلق فطری ہدایت کو لفظ وحی سے ہی تعبیر کیا ہے :
{ وَ اَوْحٰی رَبُّکَ اِلَی النَّحْلِ اَنِ اتَّخِذِیْ مِنَ الْجِبَالِ بُیُوْتًا وَّ مِنَ الشَّجَرِ وَ مِمَّا یَعْرِشُوْنَ } [125]
” اور تیرے پروردگار نے شہد کی مکھی کے دل میں یہ بات ڈال دی کہ پہاڑوں میں اور درختوں میں اور ان ٹٹیوں میں جو اسی غرض سے بلند کی جاتی ہیں اپنے لیے چھتے بنائے۔ “
اور مذہب و دین کی اصطلاح میں اس الہام کو کہتے ہیں جو خدائے برتر کی جانب سے نبی اور پیغمبر پر اس طرح القا یا فرشتہ کے ذریعہ نازل کیا جاتا ہے کہ اس مقدس ہستی کو اس کے منجانب اللہ ہونے کا روز روشن سے بھی زیادہ یقین حاصل ہوجاتا ہے اور کسی قسم کے بھی شک و شبہ اور تردد کی گنجائش باقی نہیں رہتی اور اسی لیے وہ تحدی کے ساتھ یہ دعویٰ کرتا ہے کہ یہ خدا کی وحی اور اس کا بخشا ہوا علم یقین ہے نزول وحی کی یہ صورت کس طرح پیش آتی ہے اور کون سے وہ طریقے ہیں جن کے ذریعہ نبی معصوم کو خدا کی وحی کا علم ہوتا ہے ؟ قرآن عزیز اس کے متعلق یہ کہتا ہے :
{ وَمَا کَانَ لِبَشَرٍ اَنْ یُّکَلِّمَہُ اللّٰہُ اِلَّا وَحْیًا اَوْ مِنْ وَّرَائِ حِجَابٍ اَوْ یُرْسِلَ رَسُوْلًا فَیُوْحِیَ بِاِذْنِہٖ مَا یَشَائُ اِنَّہٗ عَلِیٌّ حَکِیْمٌ} [126]
” اور کسی انسان کے لیے یہ صورت ممکن نہیں کہ اللہ تعالیٰ اس سے (اس دنیا میں بالمواجہہ) گفتگو کرے مگر یا وحی (کے القاء) کے ذریعہ یا پس پردہ یا بھیج دے فرشتہ کو پس وہ اس کی (خدا کی) اجازت سے اس پر وحی لا اتارے جو اس کی (خدا کی) مرضی ہو بلاشبہ وہ (خدا) بلند وبالا حکمت والا ہے۔ “
غرض وحی ایک خاص ذریعہ علم کا نام ہے جو خدا کی جانب سے اس کے نبیوں اور رسولوں کے لیے مخصوص ہے اور اس کا تعلق براہ راست عالم قدس اور عالم غیب سے ہے اسی بنا پر اگرچہ انبیا و رسل کو اس کی معرفت اور اس کے منجانب اللہ ہونے کا یقین کامل آفتاب عالم تاب سے زیادہ بدیہی ہوتا ہے لیکن وہ اس کی حقیقی کیفیت کو دوسروں پر تشبیہ و تمثیل ہی کے ذریعہ واضح کرسکتے ہیں۔
چنانچہ جب بعض صحابہ (رضوان اللہ تعالیٰ علیہم) عنم و رضوا عنہ نے حضرت اقدس (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے نزول وحی کی کیفیت کے متعلق سوالات کیے تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ جوابات ارشاد فرمائے :
( (اَحْیَانَا یَاتِیْنِیْ کَصَلْصَلَۃِ الْجَرَسِ ))
” کبھی یوں معلوم ہوتا ہے گویا گھنٹہ کی مسلسل گونج ہے۔ “
( (دَوَیٌّ کَدَوِیٍّ النَّحْلِ ))
” (کبھی) جس طرح شہد کی مکھیوں کی بھنبھناہٹ سے گونج پیدا ہوتی ہے اس طرح کی گونج محسوس کرتا ہوں۔ “
( (وَاَحْیَانَا یَتَمَثَّلُ لِیَ الْمَلَکُ رَجُلًا فَاَعِیْ مَا یَقُوْل))
” اور (کبھی) ایسا ہوتا ہے کہ فرشتہ انسان کی شکل میں ظاہر ہو کر مجھ کو خدا کی وحی سناتا ہے اور میں اس کو محفوظ کرلیتا ہوں۔ “
ان جوابات میں کیفیت وحی کو اگرچہ قریب الفہم بنانے کی کافی کوشش کی گئی ہے پھر بھی یہ تسلیم کرنا پڑتا ہے کہ حقیقی کیفیت کو خدا اور خدا کے پیغمبر کے علاوہ دوسرا کوئی نہیں پاسکتا اور پیغمبر اس حقیقت کا اذعان اور اس کے منجانب اللہ ہونے پر غیر متبدل یقین تو رکھتا ہے لیکن غیر نبی پر حقیقی کیفیت کو واضح کرنے سے معذور ہے اور یہ کوئی تعجب کی بات نہیں ہے اس لیے کہ یہ صورت حال تو دنیا کی بن دیکھی اشیاء کے بارے میں بھی صبح سے شام تک ہم مشاہدہ کرتے رہتے ہیں۔
مثلاً جس شخص نے سیب کو نہیں دیکھا اور نہیں چکھا اس کے سامنے دیکھنے اور چکھ لینے والا اگرچہ سیب کی حقیقت کا بہتر سے بہتر نقشہ بھی پیش کر دے اور اس کے رنگ ‘ مزہ ‘ خوشبو ‘ لطافت وغیرہ کی تعبیر بحد کمال بھی پہنچا دے تب بھی وہ شخص سیب کو آنکھ سے دیکھنے اور زبان سے چکھ لینے والے کے مقابلہ میں کسی طرح اس کی حقیقی کیفیت سے آگاہ نہیں ہو سکتا وہ بلاشبہ سیب کے متعلق صحیح علم تو حاصل کرسکتا ہے لیکن حقیقی ذوق کو ہرگز نہیں پاسکتا ‘ اسی طرح نبی کی تعلیم و تلقین سے ہم وحی کے متعلق ایک اجمالی علم ضرور حاصل کرلیتے ہیں لیکن اس کی حقیقی کیفیت کو نہیں پاسکتے۔
نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے قرآن میں مسطور ہر سہ اقسام وحی میں سے پہلی قسم ” اِلَّا وَحْیًا “ کے متعلق یہ بھی ارشاد فرمایا ہے :
وَھُوَ اَشَدُّہٗ عَلَیَّ فَیَفْصِمُ عَنِّیْ وَقَدْ وَعِیْتُ مَا قَالَ ” اور وحی کی یہ صورت مجھ پر بہت سخت گزرتی ہے پھر جب یہ کیفیت ختم ہوجاتی ہے تو وحی الٰہی نے جو کچھ کہا ہوتا ہے وہ سب مجھے محفوظ ہوتا ہے۔
“ یعنی جب فرشتہ بشکل انسان تمثل اختیار کرکے وحی الٰہی لاتا ہے یا مِنْ وَّرَائِ حِجَابٍ براہ راست خدائے برتر سے ہم کلامی کا شرف حاصل ہوتا ہے تو یہ دونوں صورتیں آپ پر آسان ہوتی ہیں مگر ”
القائے وحی “ کی پہلی شکل سخت گزرتی ہے ایسا کیوں ہوتا ہے ؟ اس کے متعلق علمائے حق یہ ارشاد فرماتے ہیں :
خالق کائنات نے انسان کو لوازم بشریت کی قیود و شروط کے ساتھ اس درجہ پابند بنادیا ہے کہ انبیا و رسل جیسی مقدس اور معصوم ہستیوں کو بھی اپنی تطہیر و تقدیس کے باوجود ان اثرات سے متاثر ہوئے بغیر کوئی چارہ کار نہیں ہے اس لیے جب ان پر خدا کی وحی کا نزول ہوتا اور ایسی حالت میں ان پر عالم قدس کے تمام اثرات چھا جاتے اور انوار و تجلیات کی آغوش میں وہ حضرت حق سے ہم کلامی کا شرف حاصل کرتے ہیں تو اس حالت میں ان پر دو قسم کی کیفیتوں میں سے ایک کیفیت ضرور طاری ہوتی ہے ‘ ایک یہ کہ اس کے بشری خواص کو مغلوب کرکے اس کی روحانی کیفیات کو عالم قدس کی جانب اس درجہ بلند اور رفیع کیا جائے کہ وہ حضرت حق کی وحی کے اثرات قبول کرنے اور محفوظ رکھنے کے قابل ہو سکے اور چونکہ جذب و انجذاب کی اس خاص حالت اور عالم آب و گل سے عالم قدس کی جانب اس مخصوص رفعت میں بشری خصوصیات اور روحانی موثرات کے درمیان سخت قسم کا تصادم پیدا ہوجاتا ہے اس لیے اس تصادم اور تزاحم سے نبی پر ابتدائیً ایک اضطرابی کیفیت طاری ہوجاتی ہے اور آہستہ آہستہ جب یہ تصادم ختم ہو کر عالم قدس کے تمام پاک اور لطیف اثرات اس ہستی پر چھا جاتے ہیں اور وہ ان میں محو اور مستغرق ہو کر لذت وحی کو پا جاتی ہے تو پھر یہ اذیت و تکلیف یکلخت جاتی رہتی ہے اور اس کی مسرت کی کوئی انتہا نہیں رہتی اور یہ سب کچھ چند دقیقوں میں ہو گزرتا ہے۔
یہی وہ صورت وحی ہے جس کی کیفیات کو ذات اقدس (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے صَلْصَلَۃَ الْجَرَسِ اور دَوَیُّ النَّحْلِ کی تمثیلات میں سمجھانے کی کوشش فرمائی ہے تمثیلات میں اس پہلو کے اختیار کرنے کی وجہ بھی مسطورہ بالا حقیقت ہے اس لیے کہ اس صورت خاص میں جب بشری حواس و ادراکات پر عالم قدس کے روحانی اثرات کا غلبہ ہوتا ہے تو اول حواس و ادراکات میں اضطراب و بے چینی پیدا ہوجاتی ہے اور حاسہ سمع جس کا تعلق سماعت وحی سے ہے وہ شروع میں ایک خاص قسم کی گونج محسوس کرتا ہے جو اس عالم پست سے دور کا بھی تعلق نہیں رکھتی اور اس کے بعد وہ وحی الٰہی کی اصل کیفیت سے لذت اندوز ہوتا اور اس کو علم یقین اور اذعان حق کے ساتھ لیتا ہے کیونکہ عالم قدس کے قوی موثرات اس پر غالب آ کر وحی الٰہی کے حصول کا ہر طرح اہل بنا دیتے ہیں مگر دوسروں پر اس حقیقت کے تمام و کمال سمجھانے میں ان علامات و اثرات کے اظہار سے آگے نہیں جاتا جن کو ابھی صَلْصَلَۃُ الْجَرَسُ اور دَوِیُّ النَّحْلِ کی تعبیرات میں سن چکے ہو وحی الٰہی کی اس نوع کے علاوہ دوسری ہر دو انواع یعنی و رائے حجاب کلام الٰہی کی سماعت یا فرشتہ کے ذریعہ وحی کے نزول میں صورت حال برعکس ہوتی ہے اور اس وقت نبی کے بشری خواص کو عالم قدس کی جانب رفعت دینے اور عالم خاک وگل سے عالم نور کی جانب جذب انجذاب سے متاثر کرنے کی تکلیف نہیں دی جاتی بلکہ عالم قدس کی تمام کیفیات خود ہبوط و نزول کرتی اور نبی کی روحانیت کو متاثر بناتی ہیں اور یا فرشتہ بحکم حضرت حق اپنے ملکوتی جسد کو جامہ انسانیت کے ساتھ متمثل کرلیتا اور عالم قدس کے اثرات اور بشری خواص میں امتزاج پیدا کرکے نبی کے حضور حاضر ہوتا اور وحی الٰہی کی تلاوت کرتا ہے اور اس لیے ان دونوں صورتوں میں نبی اور رسول کو پہلی قسم کے تصادم سے دو چار ہونا نہیں پڑتا۔
کیفیت وحی اور بعض مستشرقین کی گمراہی
چونکہ یورپ کے دور علمی کی بنیاد خالص مادیات پر قائم ہے اور روحانی علوم اور ماورائے مادیات کے ناقابل انکار حقائق کے لیے وہ کوئی جگہ دینے کو آمادہ نہیں ہے اس لیے بعض مستشرقین نے جب وحی الٰہی کی پہلی قسم کے متعلق نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے وہ اقوال سنے جن کا ذکر ابھی ہو چکا ہے اور وہ حالات پڑھے جن سے ظاہر ہوتا ہے کہ نزول وحی کی اس خاص صورت میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کرب اور اضطراب محسوس فرماتے اور سردی کے ایام میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی پیشانی پر پسینہ آجاتا اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر بے خودی کے سے آثار نظر آنے لگتے تو انھوں نے یہ کہنے میں کوئی جھجک محسوس نہیں کی کہ یہ نزول وحی کی کیفیت نہیں ہوتی تھی بلکہ (العیاذ باللہ) آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ہسٹیریا کا دورہ ہوجاتا تھا۔
یہ مستشرقین پر زور الفاظ میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی صداقت و امانت کو تسلیم کرتے ہیں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تعلیمات حق کو سراہتے اور کائنات انسانی کے لیے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تعلیمات کو تعلیم کامل مانتے ہیں ‘ لیکن اس کے باوجود آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے دعویٰ الہام و وحی الٰہی کا انکار کرتے اور کیفیت وحی کو مرض سے تعبیر کرتے ہیں { سُبْحَانَکَ ھٰذَا بُھْتَانٌ عَظِیْمٌ} [127]
درحقیقت یہ حضرات یا تو ازراہ تعصب ناقابل انکار تعلیم حق کے تسلیم کے ساتھ ساتھ ایک ایسی بات کہنا چاہتے ہیں جس سے تعلیم حق (اسلام) پر کاری ضرب لگ سکے اور تعصب کے الزام سے بھی بچ جائیں اور یا پھر اس علمی حقیقت سے بے بہرہ ہیں جس کو تفصیل کے ساتھ ہم ابھی ظاہر کرچکے ہیں کہ نزول وحی کی یہ کیفیت مرض نہیں تھا بلکہ اپنے اثرات اور محرکات کی بنا پر ایک فطری صورت حال تھی جس کا پیش آنا از بس ضروری تھا اور دراصل یہ کیفیت دماغ ‘ حواس اور اعضائے انسانی کو مفلوج نہیں بناتی تھی جیسا کہ ہسٹیریا وغیرہ میں ہوتا ہے بلکہ اس کے برعکس تمام مادی قویٰ میں روحانی کوائف کی ایسی برقی رو دوڑا دیتی ہے جس سے چند لمحات کے بعد ان کے اندر ایسی زبردست اور ما فوق المادہ قوت پیدا ہوجاتی تھی جس کے ذریعہ اس ہستی (نبی) میں عالم قدس سے پوری طرح وابستہ ہو کر خدا کی وحی اور اس کے کلام کو سننے اور قلب و دماغ میں بخوبی محفوظ رکھنے کی صلاحیت رونما ہوجائے چنانچہ اسی لیے نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کیفیت کا اظہار کرتے ہوئے یہ بھی ارشاد فرمایا :
( (فَیَفْصِمُ عَنِّیْ وَقَدْ وَعَیِتُ مَا قَالَ ))
” شدت و کرب کی یہ کیفیت جلد ہی مجھ سے زائل ہوجاتی ہے اور میں وحی الٰہی کو تمام و کمال محفوظ کرلیتا ہوں۔ “
کیا ہسٹیریا کے دوروں کا کوئی مریض ایسا پیش کیا جا سکتا ہے جس پر ایک جانب مرض کا مسلسل حملہ ہو رہا ہو اور دوسری جانب وہ علمی و عملی صلاحیتوں ‘ معاشی و معادی حکمتوں اور دینی و دنیوی رفعتوں کے لیے ایسا کامل و مکمل دستور و آئین اور اعمال و افکار پیش کررہا ہو ‘ کائنات جس کا جواب نہ رکھتی ہو اور دوست و دشمن دونوں اس کی رفعت و بلندی کا اعتراف کرتے ہوں ؟ کیا دماغی فتور جو ہسٹیریا کا ثمرہ اور نتیجہ ہے اور دماغی رفعت و بلندی جس کے ثمرات حیرت زا اور عملی دنیا میں وقیع سے وقیع تر ہوں دونوں یکجا جمع ہو سکتے ہیں ؟ اور اگر نہیں ہو سکتے اور بلاشبہ نہیں ہو سکتے تو حقیقت حال کو نظر انداز کرتے ہوئے وحی الٰہی سے متعلق مستشرقین کا یہ دعویٰ کس درجہ حقیر اور بے وقعت ہوجاتا ہے صاحب عقل و بصیرت اس کا خود اندازہ لگا سکتے ہیں ؟
نزول وحی کا پہلا دور
نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر سب سے پہلے سورة علق کی یہ آیات نازل ہوئیں :
{ اِقْرَاْ بِاسْمِ رَبِّکَ الَّذِیْ خَلَقَ۔ خَلَقَ الْاِنْسَانَ مِنْ عَلَقٍ۔ اِقْرَاْ وَرَبُّکَ الْاَکْرَمُ۔ الَّذِیْ عَلَّمَ بِالْقَلَمِ۔ عَلَّمَ الْاِنْسَانَ مَا لَمْ یَعْلَمْ۔ } [128]
” پڑھو ! اپنے پروردگار کے نام سے جس نے پیدا کیا ‘ پیدا کیا انسان کو خون بستہ سے ‘ پڑھو ! اور تیرا پروردگار جو سب سے زیادہ برگزیدہ ہے وہ ہستی ہے جس نے سکھایا لکھنا ‘ سکھایا انسان کو وہ سب کچھ جو وہ نہیں جانتا تھا۔ “
ان آیات میں یہ بتلایا گیا ہے کہ حضرت انسان جو خدا کی سب سے بہتر اور سلسلہ کائنات کی سب سے ترقی یافتہ مخلوق ہے اور اسی وجہ سے وہ کائنات ہست و بود میں ” خلیفۃ اللہ “ کے منصب پر سرفراز کیا گیا ہے اس کی خلقی کمزوریوں کا یہ حال ہے کہ اس کی نمود کی ابتدا آب نجس اور خون بستہ سے ہوئی ہے لیکن قدرت حق نے جب اس کو مقام رفیع بخشنے کا ارادہ کیا اور ” اسفل سافلین “ کے لائق مخلوق کو ” درجات علیا “ پر فائز کرنا چاہا تو اس کو وہ صفت اعلیٰ عطا فرمائی جو صفات الٰہی میں مبدء الصفات ہے یعنی اس کو صفت علم کا مظہر بنایا اس کو قلم کے ذریعہ لکھنا سکھایا اور علوم و عرفان کا مہبط و محور ٹھہرایا پھر اس جانب بھی اشارہ کیا کہ بسلسلہ اسباب و مسببات حصول علم کے تین ہی طریقے ہیں ” ذہنی ‘ لسانی ‘ رسمی “ اور علم ذہنی الفاظ اور رسوم و نقوش کا محتاج نہیں ہوتا ‘ اور علم لسانی ‘ علم ذہنی کا محتاج ہے مگر رسوم و نقوش کتابت سے بے نیاز اور علم رسمی رسم الخط اور نقوش کا بھی محتاج ہے پس اگر ” علم رسمی “ کا کسی جگہ ذکر ہو تو لسانی اور ذہنی علوم کا ذکر خود بخود ہوجاتا ہے کیونکہ یہ اپنے سے بلند ہر دو علوم کے لیے بہترین معبر ہے اور ظاہر ہے کہ علم رسمی ” قلم “ کا محتاج ہے لہٰذا قرآن عزیز نے عَلَّمَ بِالْقَلَمِ کہہ کر لطیف پیرایہ بیان میں اس پوری حقیقت کو واضح کر دیا اس کی مزید تشریح { عَلَّمَ الْاِنْسَانَ مَا لَمْ یَعْلَمْ } [129]
سے کردی اور اس معجزانہ اسلوب کی غرض وغایت یہ ہے کہ ایک جانب علم اور نبوت کے درمیان کیا علاقہ ہے اس کا اظہار ہوجائے اور دوسری جانب انسان کو اپنے مقصد حیات کا صحیح علم ہوجائے۔
فترت وحی
پہلی وحی نازل ہونے کے کئی مہینوں بعد تک کوئی اور وحی نازل نہیں ہوئی، یہ دور فترت وحی یا انقطاع وحی کہلاتا ہے، فترۃ وحی کی مدت میں محدثین کا اختلاف ہے، کم سے کم چھ ماہ اور زیادہ سے زیادہ تین سال بتلائی جاتی ہے، جب کئی دن تک کوئی وحی نازل نہیں ہوئی تو حضو ر ﷺ سونچنے لگے کہ کہیں میرا رب مجھ سے ناراض تو نہیں ہو گیا، کئی مرتبہ گھر سے نکل کرآپﷺ نے چاہا کہ خود کو کسی پہاڑ کی چوٹی سے گرا دیں ؛لیکن جب بھی ایسا قصد کرتے تو جبریل ؑ نمودار ہوتے اور دلاسہ دیتے، ائے محمد ﷺ! آپ ﷺ بے شک اللہ کے رسول ہیں، حضرت جابرؓ بن عبد اللہ انصاری کی روایت ہے کہ حضور ﷺ نے فرمایا ! میں زمانہ فترت میں ایک راستہ پر جارہا تھاکہ میں نے اچانک ایک آواز سنی، سر اٹھا کر دیکھا تو وہی فرشتہ جو غار میں آیا تھا
( جبریلؑ) زمین و آسمان کے درمیان ایک کرسی پر بیٹھا ہوا تھا، اس وقت وہ اپنی اصلی شکل میں نمودار ہوئے تھے، حضرت جبریلؑ کو اس حالت میں دیکھ کر آپﷺ ڈر گئے اور آپﷺ پر لرزہ طاری ہو گیا، آپﷺ اسی حالت میں گھر تشریف لائے اور حضرت خدیجہؓ سے فرمایا! مجھے چادر اُڑھا دو، مجھے چادر اُڑھا دو، اسی حالت میں تھے کہ سورہ مدثّر کی ابتدائی آیات نازل ہوئیں:
" اے کپڑے میں لپٹنے والے،اُٹھو اور لوگوں کو خبر دار کرو، اور اپنےپروردگار کی تکبیر کہو ، اوراپنے کپڑوں کو پاک رکھو،اور گندگی سے کنارہ کرلو،اور کوئی احسان اس نیت سے نہ کرو کہ زیادہ وصول کرسکو،اور اپنے پرووردگار کے خاطر صبر سے کام لو" [130]
نبوت و رسالت : سورہ علق سے آپﷺ کو نبوت کا منصب عطا ہوا تھا اور سورہ مدثر (قم فا نذر) سے آپﷺرسالت کے مرتبہ پر فائز ہوئے۔
[131]
خفیہ دعوت مبارک
بعثت کے بعد تین سال تک خفیہ دعوت کا سلسلہ جاری رہا، پہلی وحی کے نزول کے بعداگر چہ کہ دعوت و تبلیغ کاعلانیہ حکم نہیں آیا تھا پھر بھی آپ ﷺ لوگوں کو چپکے چپکے سمجھاتے رہے کہ اللہ ایک ہے، اس کے سوا کوئی معبود نہیں اور اسی کی عبادت کرنی چاہیے، بُت پرستی سے منع کرتے، مختصر یہ کہ یہ تعلیم ایمان ِ مفصل پر مبنی تھی؛یعنی ایمان لانا اللہ پر، اس کے فرشتوں پر، اس کی کتابوں پر اس کے رسولوں پر، یومِ آخرت پر اور اس بات پربھی کہ خیر و شر ہر چیز کی تقدیر اللہ کے ہاتھ میں ہے۔ ابتدأ میں ایمان لانے والوں کو مومن یا مسلم کی بجائے مُصدّق کہتے تھے یعنی وہ جو رسول ﷺکی دعوت کی تصدیق کرتے تھے، دعوت کیا تھی:
1- توحید یعنی اللہ تعالیٰ اپنی ذات و صفات میں یکتا ہے اس کا کوئی شریک نہیں،
2- محمد ﷺ اللہ تعالیٰ کے رسول ہیں، ان کی رسالت کی گواہی دینا،
3- جو لوگ محمد ﷺ کی دعوت پر ایمان لائیں وہ دوسروں کو شرک کی تاریکی سے نکالیں، آنحضرت ﷺنے جب فرض نبوت ادا کرنا چاہا تو سخت مشکلیں پیش نظر تھیں، اگر آپﷺ کا فرض اسی قدر ہوتا کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی طرح صرف تبلیغ دعوت پر اکتفا فرمائیں یا حضرت موسیٰ علیہ السلام کی طرح اپنی قوم کو لے کرمصر سے نکل جائیں تو مشکل نہ تھی؛ لیکن خاتم النبین ﷺ کا کام خود سلامت رہ کر عرب اور نہ صرف عرب بلکہ تمام عالم کو فروغِ اسلام سے منور کردینا تھا اس لیے نہایت تدبیر اور تدریج سے کام لینا پڑا، سب سے پہلا مرحلہ یہ تھا کہ یہ پُر خطر راز پہلے کس کے سامنے پیش کیا جائے، اس کے لیے صرف وہ لوگ انتخاب کیے جا سکتے تھے جو فیض یاب صحبت رہ چکے تھے، جن کو آپﷺ کے اخلاق و عادات اور حرکات و سکنات کا تجربہ ہو چکا تھا، جو پچھلے تجربوں کی بنأ پر آپﷺ کے صدق دعویٰ کا قطعی فیصلہ کر سکتے تھے۔
حضرت خدیجہ ؓ آپ ﷺ کی حرم محترم تھیں، آپﷺ کے عم زاد بھائی حضرت علیؓ تھے جو آپﷺ کی آغوش تربیت میں پلے تھے، زیدتھے جو آپﷺ کے آزاد کردہ غلام اور منہ بولے بیٹے تھے، آپﷺ کے جگری دوست ابو بکرؓتھے جو برسوں سے فیض یاب خدمت تھے، سب سے پہلے آپﷺ نے حضرت خدیجہؓ کو یہ پیغام سنایا، وہ سنتے ہی ایمان لے آئیں، پھراور بزرگوں کی باری آئی اور سب ہمہ تن اعتقاد تھے۔[132]
اس تین سالہ دور میں نماز بھی مسلمان کسی گھاٹی میں چھپ کر ادا کرتے، حضور ﷺکعبہ میں چاشت کی نماز پڑھتے جس کو قریش نہیں روکتے تھے، جب حضور ﷺ کوئی اور نماز پڑھتے تو حضرت علیؓ اور حضرت زید ؓ پہرہ دیتے تھے۔ [133]
انھی ایام میں ایک دن حضور اکرم ﷺ اور حضرت علیؓ ایک درّہ میں نماز پڑھ رہے تھے، اتفاقاً ابو طالب وہاں آئے اور نماز ختم ہونے کے بعد حضور ﷺ سے پوچھے کہ یہ کیا دین ہے اور یہ کیسی عبادت ہے ؟ اس وقت تک حضرت علیؓ نے اپنے والدین پر اپنے اسلام قبول کرنے کا ذکر نہیں کیا تھا، حضورﷺ نے جواب دیا کہ یہی اللہ کا دین ہے اور اسی کی طرف بلانے کے لیے اللہ تعالیٰ نے مجھے اپنا رسول بنایا ہے، حضور ﷺ نے چچا ابو طالب کو اس دین کو قبول کرنے کی دعوت دی ؛لیکن انھوں نے کہا کہ وہ اپنا آبائی دین نہیں چھوڑ سکتے، ابو طالب نے یہ بھی کہا کہ جب تک وہ زندہ ہیں انھیں کوئی نقصان نہیں پہنچاسکتااور اپنے فرزند حضرت علی ؓ کو حضو ر ﷺ کاساتھ دینے کی تلقین کی۔ [134]
خفیہ تین سالہ تبلیغ کے دوران جن لوگوں نے اپنے اسلا م کو ظاہر کیا وہ حضرت ابو بکر ؓ کے آزاد کردہ غلام حضرت بلال ؓ بن رباح، حضرت خبابؓ بن ارت، حضرت یاسر ؓ بن عامر، حضرت عمار ؓ بن یاسر، حضرت صہیب ؓ بن سنان اور حضرت سمیّہ ؓ بنت سلم شامل ہیں، مکہ سے باہراسلام قبول کرنے کا شرف حضرت ابو زرؓ غفاری کو حاصل ہوا۔
[135]
ان کے علاوہ اسلام لانے میں سبقت کرنے والوں میں حضرت عثمانؓ بن عفان، حضرت سعد ؓ بن ابی وقاص، حضرت زبیرؓ بن عوام، حضرت ابو عبیدہؓ بن الجراح، حضرت عبد الرحمن ؓ بن عوف، حضرت ابو سلمہؓ بن عبدالاسد، حضرت عثمانؓ ابن مظعون، حضرت عبیدہؓ بن حارث بن عبد المطلب، حضرت سعیدؓ بن زید، حضرت خالدؓ بن سعید بن العاص، حضرت ارقمؓ بن الارقم، حضرت نَعیم بن عبد اللہ، حضرت بلالؓ حبشی، حضرت طلحہؓ بن عبیداﷲ، حضرت عبد اللہ ؓ بن مسعود، حضرت جعفر ؓ بن ابو طالب، حضر ت عبد اللہ ؓ بن جحش، حضرت سائب ؓ، حضرت عبد اللہ ؓ بن مظعون، حضرت قدامہ ؓ بن مظعون اور حضرت سائب ؓ بن عثمان، حضرت مسعود ؓ بن ربیعہ، حضرت خنیس ؓ بن خذامہ سہمی اور حضرت عیاش ؓ بن ربیعہ شامل ہیں۔
دعوت و تبلیغ کا سلسلہ خفیہ طور پر جاری رہا، تقریباً ً ڈھائی سال کا عرصہ گذرا تھا کہ ایک دن کچھ مسلمان جن میں حضرت عمار بن یاسر، حضرت عبد اللہؓ بن مسعود، حضرت سعد ؓبن ابی وقاص، حضرت خباب ؓ بن ارت اور حضرت سعید ؓبن زید شامل تھے مکہ سے کچھ دور ایک گھاٹی میں نماز پڑھ رہے تھے کہ کچھ کافر وہاں پہنچے اور ان سب کو نماز پڑھتے دیکھ کر مذاق اُڑانے لگے، حضرت سعدؓ بن ابی وقاص انیس(19)سالہ نوجوان تھے جنھوں نے کافروں کے مذاق سے تنگ آ کر سامنے پڑے اونٹ کے ڈھانچے کی ایک ہڈی اٹھائی اور بنی تیم کے عبد اللہ بن خطل کے سر پر اپنی پوری طاقت سے دے مارا جو سب سے آگے تھا، اس کے ساتھ ہی اس کافر کا خاتمہ ہو گیا، یہ اسلام کی حمایت میں پہلی ضرب تھی۔
[136]
دارالارقم
اس ناخوشگوار واقعہ کے بعدحضور اکرم ﷺ، حضرت ارقم ؓ کے مکان میں منتقل ہو گئے جو کعبہ کے مقابل کوہِ صفا پر واقع تھا، آپ ﷺ کے ساتھ آٹھ صحابہ ؓ تھے، آپ ﷺ نے یہاں ایک مہینہ قیام فرمایا، روزانہ کوئی نہ کوئی شخص آتا اور اسلام قبول کرتا اس طرح ایمان لانے والوں کی تعداد بڑھتے بڑھتے (38)ہو گئی، دار ِارقم میں ایمان لانے والے 39 ویں صحابی حضرت امیر حمزہؓ اور چالیسویں صحابی حضرت عمر ؓ ہیں، حضرت مصعب ؓ بن عمیر بھی یہیں ایمان لائے، اس مقدس و مبارک مکان میں تبلیغی اجتماع ہوتے اور حضور ﷺ کی امامت میں نماز بھی ہوتی، اس طرح دارِ ارقم کو اسلام کے پہلے مرکز کی حیثیت سے شہرت حاصل ہوئی، حضرت ارقمؓ نے اس مکان کو مسلمانوں کے لیے وقف کر دیا تھا، یہ تاریخِ اسلام کا پہلا وقف ہے، واقدی کے مطابق حضرت ارقم ؓ کی دستاویز وقف حسبِ ذیل ہے:
" بِسم اللہ الرحمن الرحیم،یہ وہ تحریر ہے جس کا عزم ارقم ؓ نے اپنے مکان کی نسبت کیا ہے جو کوہ ِصفاکے کنارے پر ہے کہ وہ مقدس جگہ کے طور پر ہبہ کیا گیا ، نہ تو اس کی بیع ہو اور نہ وراثت میں تقسیم ہو"
دار ِارقم میں سب سے پہلے ایمان لانے کا شرف حضرت عاقل ؓ بن بکیر کو حاصل ہے جن کا پہلا نام غافل تھا، حضور ﷺنے نقطہ بدل کر عاقل کر دیا، ان کے تینوں بھائی ایاس ؓ، خالد ؓ اورعامر ؓ بھی اسلام لائے ان کے علاوہ حضرت طلیب ؓ بھی یہیں ایمان لائے جو حضور ﷺ کی پھوپھی ارویٰ بنت عبد المطلب کے صاحبزادے تھے، ان کے علاوہ اس زمانہ میں حضرت عبداﷲؓ بن ام مکتوم، ہیشم ؓ(ابو حذیفہ) بن عتبہ، عبداﷲ ؓ بن خزافہ سہمی، عبداﷲ ؓ بن مخزومہ، عامرؓ بن ابی وقاص، عامرؓ بن ربیعہ، عمیرؓ بن ابی وقاص، حاطبؓ بن حارث، حاطب ؓ بن عمرو، سلیطؓ بن عمرو، عامریؓ، واقدؓ بن عبداﷲ تمیمی، خالد ؓ بن حزام نے بھی اسلام قبول کیا۔
[137]
نزول وحی کا دوسرا دور
غار حرا میں منصب نبوت سے سرفرازی کے وقت سورة علق کی یہ چند آیات نازل ہو کر وحی الٰہی کا سلسلہ منقطع ہو گیا حکمت الٰہی کا تقاضا یہ ہوا کہ حرا میں فرشتہ کے ظہور اور وحی کے نزول سے فوری طور پر نبوت و رسالت کے جو خصائص و اثرات ذات اقدس (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر وارد ہوئے ہیں وہ اچھی طرح راسخ ہوجائیں اور صلاحیت و استعداد نبوت و رسالت کی تکمیل ہوجائے تاکہ آئندہ سلسلہ وحی کے قوی مؤثرات و محرکات پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بشری خواص کے لیے اجنبی نہ رہیں ‘ اس لیے کچھ عرصہ کے لیے نزول وحی کا سلسلہ بند رہا۔ اسی کو مذہب کی اصطلاح میں ” فترۃ وحی “ کہتے ہیں۔
لیکن ذات اقدس (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو حرا میں پیش آمدہ کیفیت و صورت حال سے جو فطری تشویش پیدا ہوئی تھی جب اس نے سکون و طمانیت کی شکل اختیار کرلی تو نزول وحی کی روحانی کیفیات نے اس درجہ لطف اندوز کیا کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس فترت کو برداشت نہ کرسکے اور لطیف و عمیق جذبات نے اس حد تک اضطراب و بے چینی کی شکل اختیار کرلی کہ گاہ گاہ ناموس اکبر (جبرئیل امین (علیہ السلام)) ظاہر ہو کر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو صبر و تسکین کی دعوت دیتے اور یقین دلاتے تھے کہ اپنی تمام لطافتوں اور حسن و کمال کے ساتھ نبوت و رسالت کا یہ سلسلہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ذات کے ساتھ وابستہ ہو چکا ہے اور فترت کا یہ دور محض عارضی ہے اس لیے آپ اندوہگیں نہ ہوں تب آپ تسکین پاتے اور وقت موعود کے منتظر رہتے کہ کچھ عرصہ بعد 1 نزول وحی کا دوسرا دور شروع ہوا اور سب سے اول سورة مدثر کی یہ آیات نازل ہوئیں :
{ یٰٓـاَیُّہَا الْمُدَّثِّرُ۔ قُمْ فَاَنْذِرْ۔ وَرَبَّکَ فَکَبِّرْ۔ وَثِیَابَکَ فَطَہِّرْ۔ وَالرُّجْزَ فَاہْجُرْ۔ وَلَا تَمْنُنْ تَسْتَکْثِرُ۔ وَلِرَبِّکَ فَاصْبِرْ۔ } [138]
” اے کملی پوش اٹھ (اور لوگوں کو گمراہی کے انجام سے) ڈرا اور اپنے پروردگار کی عظمت و جلال کو بیان کر اور لباس کو پاک کر اور بتوں سے جدا رہ اور زیادہ حاصل کرنے کی نیت سے حسن سلوک نہ کر اور اپنے پروردگار کے معاملہ میں (اذیت و مصیبت پر) صبر اختیار کر۔ “
حاشیہ 1فترۃ کا زمانہ کس قدر رہا ہے اس سلسلہ میں چھ ماہ سے ڈھائی سال تک کے متعلق روایات پائی جاتی ہیں اور محدثین کا رجحان چھ ماہ کی جانب زیادہ ہے۔
ان آیات نے گویا انسانی مقصد حیات کی تکمیل کردی کیونکہ سورة علق میں کہا گیا تھا کہ انسانیت کبریٰ کے لیے صحیح علم شرط ہے یہ نہیں تو کچھ بھی نہیں۔ اب یہ بتایا جا رہا ہے کہ علم صحیح کی رفعت و بلندی کے اعتراف کے باوجود انسانیت کی تکمیل اس وقت تک ناممکن ہے کہ علم صحیح کے ساتھ عمل صحیح بھی موجود ہو اس لیے کہ اگر علم صحیح ہے اور عمل صحیح مفقود تو اس کی افادیت معطل اور بیکار ہے اور اگر عمل ہے اور علم صحیح ندارد تو وہ عمل موجب زیاں و نقصان ہے۔ رشد و ہدایت اور صراط مستقیم کے لیے دونوں ہی کا وجود ضروری ہے اور تبھی انسان ‘ انسانیت کبریٰ حاصل کرسکتا ہے۔
غرض جس طرح سورة علق کی آیات نے علم نافع کی جانب اشارات کیے اسی طرح سورة مدثر نے ” عمل نافع “ کی اساسی تفاصیل ظاہر کی ہیں۔ خدا کی ہستی اور اس کی ربوبیت کاملہ کا عملی اعتراف ‘ باطنی طہارت و پاکیزگی کا کمال ‘ ظاہری طہارت و پاکی کالزوم ‘بے غرض اور بے لوث اخلاق حمیدہ کی اساس ” احسان “ پر استقامت اور قبول حق اور نیک عملی کے نتائج پر صبر ان آیات کا حاصل ہیں اور یہی وہ بنیادی امور ہیں جن میں علم حق اور عمل صحیح کی تمام کائنات سمو دی گئی ہے۔
نیز ذات اقدس (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لیے سورة علق اور سورة مدثر کا یہ خطاب اور پیغام حق اشارہ ہے اس جانب کہ یہ نظام عمل منصب رسالت کے لیے تکمیل نفس اور دعوت رشد و ہدایت کے لیے مرتبہ اولین کی حیثیت رکھتا ہے اور یہی مستقبل قریب میں بعثت عامہ کا باعث ثابت ہوگا۔
اعلان دعوت و ارشاد کی پہلی منزل
کلام الٰہی کے اس حکم کے بعد جو تبلیغ و دعوت حق کا پہلا پیغام تھا دعوت و ارشاد نے ایک قدم اور آگے بڑھایا اور اب ذات حق نے سورة شعرا کی آیات نازل فرما کر نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ فیصلہ سنایا کہ سب سے پہلے اہل قرابت اور رشتہ داروں کو دعوت حق دیجئے تاکہ دوسروں پر بھی اس کا اثر پڑے اور یوں بھی قریش اور بنی ہاشم کے قبول حق کا اثر تمام عرب قبائل پر پڑنا لازم ہے اس لیے کہ وہ سب قبائل کے سرخیل اور سر گروہ ہیں اور ساکنان حرم ہونے کی وجہ سے تمام عرب پر ان کا دینی اور دنیوی اثر ہے سورة شعرا میں ہے :
{ وَاَنْذِرْ عَشِیْرَتَکَ الْاَقْرَبِیْنَ۔ وَاخْفِضْ جَنَاحَکَ لِمَنِ اتَّبَعَکَ مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ۔ فَاِنْ عَصَوْکَ فَقُلْ اِنِّیْ بَرِیْئٌ مِّمَّا تَعْمَلُوْنَ۔ وَتَوَکَّلْ عَلَی الْعَزِیْزِ الرَّحِیْمِ۔ الَّذِیْ یَرَاکَ حِیْنَ تَقُوْمُ۔ وَتَقَلُّبَکَ فِی السَّاجِدِیْنَ۔ اِنَّہٗ ہُوَ السَّمِیْعُ الْعَلِیْمُ۔ } [139]
” اور (اے پیغمبر ! ) اپنے قریبی ناتے والوں کو (گمراہی سے) ڈرا اور جو مسلمان تیرے پیرو ہیں ان کے لیے اپنے بازو وں کو پست رکھ (یعنی نرمی اور تواضع سے پیش آ) اگر وہ نافرمانی کریں تب تو ان سے کہہ دے کہ میں تمھارے ان اعمال (بد) سے بری ہوں اور غالب رحم کرنے والی ذات پر بھروسا کر جو تجھ کو اس وقت بھی دیکھتی ہے جب تو اس کی بارگاہ میں کھڑا ہوتا ہے اور اس وقت بھی جب کہ تو سجدہ کرنے والوں میں مل کر اس کے سامنے سجدہ ریز ہوتا ہے بلاشبہ وہ سننے والا جاننے والا ہے۔ “
گویا یہ ” تکمیل علم و عمل “ اور ” منصب رشد و ہدایت کے فیضان “ کے بعد دوسرا درجہ تھا ‘ جس میں اعلان حق اور دعوت اسلام کی عملی صورت اختیار کرنے کے لیے تحریک کی گئی چنانچہ صحیح روایات شاہد ہیں کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے صفا کی چوٹی پر کھڑے ہو کر اس زمانہ کے طریق اعلان کے مطابق ” یَا صَبَاحَا “ ” یَا صَبَاحَا “ کہہ کر خانوادہ قریش کو پکارا اور جب سب جمع ہو گئے تو ایک مثال دے کر سمجھایا کہ بلاشبہ میں خدا کا پیغمبر اور رسول اور صراط مستقیم کے لیے ہادی برحق ہوں اور ارشاد فرمایا :
” لوگو ! اگر میں تم سے یہ کہوں کہ اس پہاڑ کی پشت پر ایک لشکر جرار جمع ہے اور تم پر حملے کے لیے آمادہ تو کیا تم مجھ کو صادق سمجھو گے ؟ اَوْ مُصَدِّقِیْ ؟ لوگوں نے کہا : ہم نے تجھ کو ” الصادق الامین “ پایا ہے تو جو کچھ کہے گا حق اور صداقت پر مبنی ہوگا۔ تب آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ! تو لوگو ! میں تم کو خدائے واحد کی جانب بلاتا ہوں اور اصنام پرستی کی نجاست سے بچانا چاہتا ہوں تم اس دن سے ڈرو ‘ جب خدا کے سامنے حاضر ہو کر اپنے اعمال و کردار کا حساب دینا ہے۔ “
[140]
یہ صدائے حق جب قریش کے کانوں میں پہنچی تو وہ حیران رہ گئے اور باپ دادا کے دین ” بت پرستی “ کے خلاف آواز سن کر برافروختہ ہونے لگے گویا سب میں ایک آگ سی دوڑ گئی اور سب سے زیادہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے حقیقی چچا ابولہب کو طیش آیا اور غضبناک ہو کر کہنے لگا :
( (تَبَّا لَکَ سَائِرَ الْیَوْمِ اَمَّا دَعَوْتَنَا اِلَّا لِھَذَا))
” تو ہمیشہ ہلاکت و رسوائی کا منہ دیکھے کیا تونے اس غرض سے ہم کو بلایا تھا۔ “
سورة لہب کا نزول ابولہب کی اسی گستاخانہ جرأت کے انجام بد کا اظہار کرتا ہے۔
{ وَ مَآ اَرْسَلْنٰکَ اِلَّا کَآفَّۃً لِّلنَّاسِ بَشِیْرًا وَّ نَذِیْرًا وَّ لٰکِنَّ اَکْثَرَ النَّاسِ لَا یَعْلَمُوْنَ }
[141]
” اور ہم نے تم کو کائنات انسانی کے لیے پیغام دے کر بھیجا ہے (اعمال نیک پر) خوش خبری سنانے اور (اعمال بد پر) لوگوں کو ڈرانے کے لیے اور اکثر (جاہل) لوگ اس حقیقت کو نہیں سمجھتے۔ “
عجب منظر ہے چند گھڑیاں پہلے جس محمد بن عبد اللہ کی صداقت و امانت اور خصائل حمیدہ سے ساری قوم متاثر رہ کر اس کی عظمت و عزت کرتی اور اس کے ساتھ والہانہ محبت کا اظہار کرتی تھی وہی آج اس اعلان پر کہ میں محمد رسول اللہ ہوں یکلخت بیگانہ ونفور اور خون کی پیاسی بن گئی۔
دعوت و ارشاد کی دوسری منزل
سیرت کی کتابوں میں پڑھ آئے ہو کہ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے خاندان اور برادری کے لوگوں کو راہ حق دکھانے اور ان کی ایمانی اور اخلاقی حالت درست کرنے کی خاطر کیا کچھ نہیں کیا مگر قریش کے چند اصحاب کے سوائے کسی نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی دعوت پر لبیک نہ کہا اور عداوت و بغض کو اپنا شعار بنائے رکھا۔ تب دعوت و ارشاد نے ترقی کے دوسرے زینہ پر قدم رکھا اور ذات حق کی جانب سے حکم ہوا : اے داعیٔ حق ! خاندان اور برادری کے انکار و جحود سے متاثر و غمگین نہ ہو اور اپنی مفوضہ خدمت پر استقامت کے ساتھ قائم رہو کیونکہ سعادت و شقاوت تمھارے قبضہ میں نہیں ہے تمھارا کام تو صرف ابلاغ (پہنچانا) ہے البتہ اب خاندان کے دائرہ سے آگے بڑھ کر مکہ اور اطراف مکہ کے قبائل و اقوام کو بھی یہ پیغام حق سناؤ اور دعوت و ارشاد کا تحفہ ان کے سامنے بھی رکھو تاکہ جو سعید روحیں پیغام حق کے لیے مضطرب اور بے چین ہیں وہ اس پر لبیک کہہ کر تسکین پائیں اور روح تشنہ کو آب حیات سے سیراب کریں۔
{ وَ ھٰذَا کِتٰبٌ اَنْزَلْنٰہُ مُبٰرَکٌ مُّصَدِّقُ الَّذِیْ بَیْنَ یَدَیْہِ وَ لِتُنْذِرَ اُمَّ الْقُرٰی وَ مَنْ حَوْلَھَا } [142]
” اور (دیکھو) یہ کتاب (قرآن) ہے جسے ہم نے ( توراۃ کی طرح) نازل کیا ‘ برکت والی اور جو کتاب اس سے پہلے نازل ہو چکی ہے اس کی تصدیق کرنے والی اور اس لیے نازل کی تاکہ تم ام القریٰ (یعنی شہر مکہ) کے باشندوں کو اور ان کو جو اس کے چاروں طرف ہیں (گمراہیوں کے نتائج سے ) ڈراؤ۔ “
{ وَکَذٰلِکَ اَوْحَیْنَا اِلَیْکَ قُرْاٰنًا عَرَبِیًّا لِّتُنْذِرَ اُمَّ الْقُرٰی وَمَنْ حَوْلَہَا } [143]
” اور اسی طرح ہم نے تم پر قرآن نازل کیا زبان عربی میں تاکہ (گمراہیوں کے نتائج سے) ڈراؤ شہر مکہ کے باشندوں کو اور ان کو جو اس کے آس پاس ہیں۔ “
چنانچہ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے تبلیغ حق کو مکہ کی تحدید سے آزاد کرکے اطراف مکہ کے لیے عام کر دیا اور طائف ‘ حنین اور یثرب (مدینہ) تک اپنی صدائے حق کو پہنچایا بلکہ مہاجرین کے ذریعہ حبشہ کے عیسائی بادشاہ اصحمہ تک کو کلمہ حق سنایا۔
بعثتِ عامہ
اس کے بعد دعوت و ارشاد کی وہ تیسری منزل پیش آئی جو بعثت محمدی کا نصب العین اور مقصد وحید ‘ اور تمام انبیا و رسلعلیہم السلام کے مقابلہ میں ذات اقدس محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بعثت کے لیے طغرائے امتیاز تھی یعنی خدائے برتر نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بعثت کو بعثت عام قرار دیا اور حکم ہوا کہ آپ نہ صرف قریش کے لیے ‘ نہ صرف ام القریٰ (مکہ) اور اطراف مکہ کے لیے ‘ نہ صرف عرب کے لیے نبی و رسول بنا کر بھیجے گئے ہیں بلکہ آپ کی بعثت تمام کائنات انسانی کے لیے ہوئی ہے اور آپ عرب و عجم اور اسود و احمر سب کے لیے پیغامبر اور خدا کے ایلچی ہیں ارشاد ہوتا ہے :
{ وَ مَآ اَرْسَلْنٰکَ اِلَّا کَآفَّۃً لِّلنَّاسِ بَشِیْرًا وَّ نَذِیْرًا وَّ لٰکِنَّ اَکْثَرَ النَّاسِ لَا یَعْلَمُوْنَ } [144]
” اور ہم نے تم کو کائنات انسانی کے لیے پیغام دے کر بھیجا ہے (اعمال نیک پر) خوش خبری سنانے اور (اعمال بد پر) لوگوں کو ڈرانے کے لیے اور اکثر (جاہل) لوگ اس حقیقت کو نہیں سمجھتے۔ “
{ تَبٰرَکَ الَّذِیْ نَزَّلَ الْفُرْقَانَ عَلٰی عَبْدِہٖ لِیَکُوْنَ لِلْعٰلَمِیْنَ نَذِیْرًا } [145]
” پاک اور برتر ہے وہ ذات جس نے حق و باطل کے درمیان تمیز دینے والی کتاب نازل فرمائی اپنے بندے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر تاکہ وہ تمام جہان والوں کو (انجام بد سے) ڈرائے۔ “
ابو لہب کی بیوی ارویٰ یا حمنہ بنت حرب جو اُم جمیل کی کنیت سے مشہور تھی حضورﷺ کی تلاش میں نکلی جبکہ حضور ﷺ اور حضرت ابو بکرؓ صحن کعبہ میں بیٹھے ہوئے تھے ؛لیکن و ہ حضور ﷺ کو نہ دیکھ سکی، اس لیے کہ حضور ﷺ کو ایک فرشتہ چھپائے ہوئے تھا، دعوتِ حق کی اس پہلی للکار نے ساری قوم کو چونکا دیا اور گلی گلی اس کا چرچا ہونے لگا، چندروز بعد قوم کو ڈرانے کے لیے سورۂ انبیا کی آیت 98 کے ذریعہ حکم نازل ہوا:
‘یقین رکھو کہ تم اور جن کی تم اللہ کو چھوڑ کر عبادت کرتے ہووہ سب جہنم کا ایندھن ہے، تمھیں اسی جہنم میں جا اُترنا ہے"
[146]
حضو ر ﷺ نے کوہ صفا کی چوٹی سے اللہ تعالیٰ کا یہ حکم اہلیان مکہ کو سنایا جس کو سن کر ان کے پیروں تلے سے زمین نکل گئی، اس لیے کہ کعبہ میں موجود (360) بت ہی ان کی معیشت اور اقتدار کا ذریعہ تھے جن کو پوجنے کے لیے سارا عرب آتا تھااورحضور ﷺکی دعوت بت پرستی سے منع کرتی تھی۔
ابو طالب کے پاس قریش کی سفارت
مورخین بیان کرتے ہیں کہ جب حضرت عثمان ؓ، حضرت زبیرؓ، حضرت سعید ؓ بن زید اور حضرت ابو زرؓجیسے بالغ العمر لوگوں کو اسلام قبول کرنے پر اُن کے معمر رشتہ داروں نے مارا پیٹا اور طر ح طرح کی تکالیف دیں تو رسول اللہ ﷺ کے خلاف آپﷺ کے بزرگ قبیلہ حضرت ابو طالب کے پاس شکایتی وفود کا آنا بے جا نہ تھا، ایک مرتبہ ایک وفد نے جس میں عتبہ بن ربیعہ، شیبہ بن ربیعہ (بنی عبدالشمس) ابوالبختری بن ہشام (بنی اسد) ولید بن مغیرہ(بنی مخزوم) عاص بن وائل سہم(بنی سہم)‘ نبیہّ بن حجاج اور ابو سفیان بن حرب (بنی امیہ)شامل تھے، ابو طالب سے کہا کہ اپنے بھتیجے کو یا تو بتوں کی مذمت وغیرہ سے روکئے یا پھر اپنی حمایت سے نکال دیجئے، ابو طالب نے انھیں نرمی سے سمجھا کر رخصت کر دیا اور حضورﷺ تبلیغ میں مصروف رہے۔
دوسری سفارت
جب قریش نے دیکھا کہ حضور ﷺ اپنی تبلیغ سے باز نہیں آ رہے ہیں تو انھوں نے سردارانِ قریش پر مشتمل دوسرا وفد حضرت ابو طالب کے پاس بھیجا، اس وفد نے ابو طالب سے کہا کہ:
ہم نے اس سے قبل ایک وفد آپ کے پاس بھیجا تھا؛ لیکن اس کا کوئی نتیجہ نہیں نکلا، ہم نے آپ کا پاس و لحاظ رکھا ہے، مگرہم اپنے بزرگوں کی توہین اور اپنے دیوتاؤں کی بے عزتی کو برداشت نہیں کرسکتے، اب ہمارا مطالبہ ہے کہ یا تو آپ اپنے بھتیجے کو تبلیغ سے روک دیں یا پھر درمیان سے ہٹ جائیں تا کہ دونوں میں سے کسی ایک کا تصفیہ ہو جائے، جب حضرت ابو طالب نے دیکھا کہ مخالفت بڑھتی جارہی ہے اوراب قریش مزید تحمّل نہیں کرسکتے اور میں تنہا قریش کا مقابلہ نہیں کرسکتا تو آنحضرت ﷺسے مختصر لفظوں میں کہا ! " اے میرے بھتیجے ! اپنی اور میری جان پر رحم کرو اور میرے اوپر اتنا بار نہ ڈالو کہ میں اٹھا نہ سکوں"
ظاہری طور پر تو حضرت ابو طالب ہی حضور اکرم ﷺ کے حمایتی اور پشت پناہ تھے اور جب حضور ﷺ نے دیکھا کہ ان کے پائے ثبات میں بھی لغزش آرہی ہے تو آپﷺ نے آبدیدہ ہوکر فرمایا:
خدا کی قسم ! اگر یہ لوگ میرے ایک ہاتھ میں سورج اور دوسرے میں چاند لاکررکھ دیں تب بھی میں اپنے فرض سے باز نہ آؤں گا، خدا اس کام کو پورا کرے گا یا میں خود اس پر نثار ہوجاؤں گا"
حضور ﷺ کے اس پُر اثر جواب نے ابو طالب کو سخت متاثر کیا اور انھوں نے حضور ﷺ سے کہا ! جاؤ جو چاہو کرو ! کوئی شخص تمھارا بال بیکا نہیں کرسکتا۔[147]
قریش کے وفد سے کہا کہ جاؤ اور جو چاہو کرو۔
حضورِ اکرم ﷺبدستور تبلیغ میں مصروف رہے، کفّار نے حضور ﷺکوطرح طرح کی اذیتیں دینی شروع کر دیں، راہ میں کانٹے بچھاتے، نماز پڑھتے وقت جسمِ مبارک پر نجاست ڈال دیتے تھے، ایک دفعہ آپﷺ حرم میں نماز پڑھ رہے تھے کہ عقبہ بن ابی معیط نے آپﷺ کے گلے میں چادر لپیٹ کر اس زور سے کھینچاکہ آپﷺ گھٹنوں کے بل گرپڑے، اتفاقاً حضرت ابو بکرؓ کا ادھر سے گذر ہوا، پیچھے سے آکر اس کے شانے کوپکڑ لیا اور دھکا دے کر چادر کے بل کھول دیے، عقبہ بن ابی معیط کا اصل نام ا بّان بن ابی عمر و بن اُمیہ بن عبدالشمس تھا، یہ حضور ﷺ کا ایک دیوار بیچ پڑوسی تھا؛لیکن اسلام دشمنی میں حد سے بڑھ گیا تھا، حضور ﷺ فرمایا کرتے کہ میں دو بد ترین پڑوسیوں کے درمیان میں رہتا تھا، ایک ابو لہب اور دوسرا عقبہ، یہ دونوں حضور ﷺ کے گھر میں گندگی پھینکا کرتے، ایک روز حضور ﷺ کعبہ میں نماز ادا کر رہے تھے کے عقبہ بن ابی معیط آیا، ابو جہل بھی صحن کعبہ میں دوسرے سرداروں کے ساتھ موجود تھا، عقبہ سے کہا کہ او نٹ کی تازہ اوجھڑی جو وہاں پڑی ہوئی تھی لاکر حضورﷺ کی گردن پر رکھ دے، چنانچہ عین حالتِ سجدہ میں اس نے اوجھڑی حضور ﷺ کی گردن پر رکھ دی جس کے وزن سے حضو ر ﷺ سر نہ اٹھا سکے اور کفّار قہقہے لگانے لگے، کسی نے گھر پر اطلاع کردی تو حضرت فاطمہؓ دوڑ ی آئیں اور اس بوجھ کو ہٹایا، حضرت عبد اللہؓ بن مسعودکہتے ہیں کہ وہ غلام اور مجبور آدمی تھے اس لیے حضور ﷺ کی مدد نہ کرسکے، اہانت نماز کی وجہ سے حضور ﷺ نے نام بنام بد دعا دی جن میں ابو جہل بن ہشام، عتبہ بن ربیعہ، شیبہ بن ربیعہ، ولید بن عتبہ، عقبہ بن ابی معیط اُ بیّ بن خلف، عمّار بن ولید شامل تھے اور جن جن کو آپﷺ نے بد دعا دی وہ بدر کے دن قتل ہوئے۔
انھیں ایام میں ایک مرتبہ آنحضرت ﷺ عُکّاظ کے میلہ میں تشریف لے گئے، آپﷺ کے ساتھ حضرت ابو بکرؓ اور حضرت بلالؓ بھی تھے، وہاں قبیلہ بنی سُلیم کے ایک نیک فطرت بدوی سے ملاقات ہوئی جس کا نام عمرو ؓ بن عبسہ تھا، بات چیت کے بعد انھوں نے آپﷺ سے پوچھا کہ کون کون آپﷺ پر ایمان لائے ہیں، آپﷺ نے حضرت ابو بکر ؓ اور حضرت بلالؓ کی طرف اشارہ فرمایا، یہ سن کر انھو ں نے کہا ! یا رسول اللہ ! میں بھی آپﷺ پر ایمان لاتا ہوں چونکہ اُس زمانہ میں مسلمانوں کو سخت تکالیف دی جارہی تھیں اس لیے آپﷺ نے فرمایا کہ تم اس وقت اپنے قبیلے میں واپس چلے جاؤ اور جب سنو کہ مسلمانوں کو غلبہ حاصل ہوا ہے تو پھر یہاں آجانا، چنانچہ وہ واپس ہو گئے اور فتح مکہ سے کچھ دن پہلے وہ حضور ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا ! یا رسول اللہ ! کیا آپ نے مجھے پہچانا ؟ حضور ﷺ نے فرمایا ! ہاں تم وہی ہو جو مکہ میں مجھ سے ملے تھے۔
قریش متحیر تھے کہ آپ یہ سب اذیتیں کیوں برداشت کرتے ہیں، کہیں اس کا مقصد جاہ و دولت اور نام و نمود کی خواہش تو نہیں ؟ اسی خیال کے تحت عتبہ بن ربیعہ قریش کی طرف سے حضوراکرم ﷺکے پاس آیا اور کہا! محمدﷺ ! کیا چاہتے ہو ؟ کیا مکہ کی ریاست یا کسی بڑے گھرانے میں شادی یا دولت کا ذخیرہ ؟ ہم یہ سب کچھ فراہم کرسکتے ہیں بشرطیکہ آپﷺ اعلائے کلمتہ اللہ سے باز آئیں، لیکن آپﷺ نے ان سب ترغیبات کے جواب میں سورۂ حٰم سجدہ کی مندرجہ ذیل آیات پڑھیں:
" آپ کہہ دیجئے کہ میں تو تم ہی جیسا انسان ہوں، مجھ پر وحی نازل کی جاتی ہے کہ تم سب کا معبود ایک اللہ ہی ہے، سو تم اس کی طرف متوجہ ہو جاؤ اور اسی سے گناہوں کی معافی چاہو اور ان مشرکوں کے لئے ( بڑی ہی) خرابی ہے"[148]
" آپ ﷺ کہہ دیجئے کہ کیا تم اس ( اللہ ) کا انکار کرتے ہو اور تم اس کے شریک مقرر کرتے ہو جس نے د و دن میں زمین پیدا کر دی، سارے جہانوں کا پرور دگار وہی ہے "[149]
عتبہ نے واپس جاکر قریش سے کہہ دیا کے محمّدﷺ جو کلام پیش کرتے ہیں وہ شاعری نہیں کوئی اور چیز ہے، میری رائے ہے کہ تم ان کو ان کے حال پر چھوڑ دو، اگر وہ کامیاب ہوکر عرب پر غالب آجائیں تو یہ تمھاری ہی عزت ہے ورنہ عرب خود ان کو فنا کر دے گا لیکن قریش نے یہ رائے منظور نہیں کی، حضور اکرم ﷺکی طرف سے دعوت و تبلیغ جاری رہی اور کفّار نے ایذا رسانی میں شدت پیدا کر دی جس میں پیش پیش حسب ذیل سردار تھے۔
کفار قریش کے نام
بنی مخزوم
عمر وبن ہشام (ابو جہل)زہیر بن ابی امیہ، ولید بن مغیرہ، ابو قیس بن الفاکہ بن مغیرہ، سائب بن صیفی بن عابد، اسود بن عبدالاسد
بنی امیہ
عاص بن سعید بن عاص، حکم بن العاص، عقبہ بن ابی معیط
بوی ثقیف
عدی بن حمراء
الہذلی
ابن الاصدی
بنی اسد
اسود بن عبد المطلب، ابو الخبتری بن ہشام
بنی سہم
عاص بن وائل، حارث بن قیس بن عدی، منبہ بن الحجاج، نبیہ بن الحجاج
بنی ہاشم
ابو لہب بن عبد المطلب
بنی زہرہ
اسود بن عبد یغوث
بنی جمح
امیہ بن خلف، اُبی بن خلف
بنی عبدالدار
نصر بن حارث
مذکورہ بالا افراد کے علاوہ حسب ذیل افراد دشمن تو تھے مگر شدت پسند نہ تھے اور حضورﷺ کو برا بھلا نہیں کہتے تھے:
1- عتبہ بن ربیعہ ( بنی عبدالشمس بن عبد مناف)
2- شیبہ بن ربیعہ ( بنی عبدالشمس بن عبد مناف)
3- ابو سفیان بن حرب ( بنی اُمیہ )
کفّار مکہ میں تین اشخاص دشمنی میں شدت پسند تھے جن کے نام 1- ابو جہل عمرو بن ہشام 2- عقبہ بن ابی معیط اور 3- ابو لہب ہیں۔
1- ابو جہل
ابو جہل کا اصل نام عمرو بن ہشام تھاجو بنی مخزوم کا سردار تھا، کم عمری کے باوجود ذی عقل، خاندانی عصبیت کا دلدادہ اور نخوت و غرور کا مجسمہ تھا، جسمانی طور پر دُبلا پتلا؛ لیکن کڑک دار آواز اور سخت لہجہ والا تھا، دین ِ اسلام کا بد ترین دشمن تھا، تدبّر اور فراست کی بدولت قریش نے اسے الحکم کا لقب دیا تھا اور دارالندوہ کا رکن بھی بنا لیا تھا، بد ترین صفات مثلاً شیخی خوری، بد اخلاقی اور بد زبانی کا حامل تھا اور ساتھ ساتھ بڑا شقی القلب بھی تھا انہی بد صفات کی بنا ء پر اسے ابو جہل کا لقب دیا گیا تھا، غزوۂ بدر میں دو انصاری صحابہ معا ذ ؓ اور معوذؓ نے اس پر قاتلانہ حملہ کیا، وہ کشتوں کے ڈھیر میں پڑا تھا؛ لیکن جان باقی تھی، حضرت عبد اللہ ؓبن مسعود نے اس کا سر کاٹنا چاہا تو اس حالت میں بھی اُسے اپنے مرتبہ و منصب کا احساس تھا اس لیے کہا کہ میرا سر گردن کے آخری حصہ سے کاٹنا تا کہ مقتولین کے سروں میں سب سے اونچا معلوم ہو، حضرت عبد اللہؓ بن مسعود نے اس کا سر کاٹ کر آنحضرت ﷺ کے سامنے لایا تو آپﷺ نے دیکھ کر فرمایا! " یہ اس عہد کا فرعون تھا" اس وقت رسول اللہﷺنے حضرت عمار ؓ بن یاسر کو طلب فرمایا اور جب وہ آئے آپﷺ نے فرمایاکہ تمھاری ماں کے قاتل کواللہ تعالیٰ نے کیفر ِکردار کو پہنچایا، یہاں اس بات کی صراحت ضروری ہے کہ حضرت عمار ؓ کی والدہ حضرت سمیّہؓ معمر خاتون تھیں، ایک مرتبہ انھوں نے ابو جہل کو برا بھلا کہا تھا تو اس نے انھیں برچھا مار کر شہید کر دیا تھا۔
2- عقبہ بن ابی معیط
اس کا نام ابّان بن ابی عمرو بن اُمیہ بن عبدالشمس تھااور کنیت ابو ولید تھی، یہ حضور ﷺ کا ایک دیوار بیچ پڑوسی تھا آپﷺ فرمایا کرتے تھے کہ میں دو بدترین پڑوسیوں کے درمیان میں رہا کرتا تھا، ایک عقبہ بن ابی معیط اور دوسرابو لہب، ایک روز جب کہ حضور ﷺ کعبہ میں نماز ادا کر رہے تھے عقبہ بن ابی معیط نے ابو جہل کے کہنے پر اونٹ کی اوجھڑی لا کر آپﷺ کی پیٹھ پر رکھ دی تھی جس کے بوجھ سے آپﷺ سر نہ اُٹھا سکے اطلاع ملنے پر حضرت فاطمہؓ نے گھر سے آ کر اوجھڑی کو ہٹایا، آپﷺ نے اس کو بددعا دی تھی چنانچہ وہ بدر کے دن قتل ہوا۔
3-ابو لہب
ابو لہب گو کہ آنحضرت ﷺکا چچا اور پڑوسی تھا مگر سخت ترین دشمنِ اسلام تھا، وہ اورعقبہ بن ابی معیط حضور ﷺ کے گھر میں گندگی پھینکتے اور دروازوں کے پاس کوڑا کرکٹ ڈالتے، کبھی کبھی ان کی حر کات سے تنگ آ کر آپﷺ باہر نکلتے اور فرماتے :اے عبد مناف ! یہ کونسا حقِ ہمسائیگی ہے، ایک دن ابو لہب حضور ﷺ کے پاس آیا اور کہا : اگر میں آپ کے دین میں داخل ہو جاؤں تو مجھے کیا ملے گا؟ حضور ﷺ نے فرمایا کہ جو دوسرے ایمان والوں کو ملے گا وہی تم کو بھی ملے گا، یہ سن کر اس نے کہا " برا ہو اس دین کا جس میں بڑے اور چھوٹے سب برابر ہوں"
دین اسلام کے دو دشمن بنی ہاشم سے تھے، ایک تو حضور ﷺ کا چچا ابو لہب جو تاریخ اسلام میں بد ترین دشمنِ اسلام کے نام سے یاد کیا جاتا ہے اور دوسرا حضور ﷺ کا چچا زاداور دودھ شریک بھائی ابو سفیان بن حارث بن عبد المطلب جس نے حلیمہ سعدیہ کا دودھ پیا تھا، زمانہ جاہلیت میں حضور ﷺ سے بے حد محبت کرتا تھا؛ لیکن اعلان نبوت کے بعد سخت دشمن ہو گیا اور بیس سال تک اشعار میں حضور ﷺکی ہجو کرتا رہا، فتح مکہ سے قبل ایمان لایا اور حضورﷺ کی مدح میں اشعار کہے اور ہجو جہالت کی معذرت کی۔
شاعری کے ذریعہ حضور ﷺ کی اہانت کرنے والے
حضور ﷺ کی اہانت اور اسلام کی مذمت بذریعہ اشعار کرنے والوں میں قریش کے ابو سفیان بن حارث کے علاوہ عمرو بن عاص اور عبد اللہ زبعری کے علاوہ غیر قریش میں کعب بن زہیر شامل تھے، ان کے علاوہ ابو الطیب، مثنیٰ، دعبل، ابو نواس، اصمعی، ابو دلامہ اور تغلب نے ہجویہ اشعارکے ذریعہ دین اسلام کے خلاف ایک مہم شروع کی، کبھی قرآنمجید کی کسی آیت کے ساتھ ایک مصرع جوڑ دیتے اور حضوﷺ پر کاہن ہونے کا الزام لگاتے ایسے میں سورۂ الشعرأ کی آیات 221 تا 226 نازل ہوئیں، جس میں ارشاد فرمایا گیا کہ شاعروں کی پیروی تو گمراہ لوگ کیا کرتے ہیں، اس لیے کہ وہ ایسی باتیں کہتے ہیں جن پر خود عمل نہیں کرتے، ان آیات کے نزول کے بعد حضرت حسّانؓ بن ثابت اور حضرت عبد اللہؓ بن رواحہ حضور ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا!یا رسول اللہ ! ہم شاعر کی حیثیت سے مرنا نہیں چاہتے، آپﷺ نے فرمایا : تم ان شاعروں میں نہیں ہو جنھیں اللہ تعالیٰ نے" الغاؤن " فرمایا ہے، تمھارے اشعار مشرکوں پر تیر و سنان سے زیادہ سخت ہیں، چنانچہ ہجرت کے بعد حضرت حسّان ؓ بن ثابت اپنے اشعار کے ذریعہ مشرکین کے نسب پر حملہ کرتے، حضرت عبد اللہؓ بن رواحہ کفار کو گمراہ ہونے پر ملامت کرتے اور حضرت کعب ؓ بن مالک لڑائی کی دھمکیاں دے کر دہشت زدہ کرتے۔
مسلمانوں پر ظلم و ستم کرنے والے چند کفّار
ولید بن مغیرہ
بنی مخزوم کا سردار تھا، مسلمانوں کو براکہا کرتا اور ممکنہ تکالیف پہنچانے کی کوشش کرتا، غلاف کعبہ اکیلا تیار کرواتا، ہجرت کے بعد مرا، حضرت خالد ؓ بن ولید اسی کے صاحبزادے تھے جنھوں نے اسلام قبول کیا اور نمایاں خدمات انجام دیں اور " سیف اللہ" کا لقب پایا۔
اسود بن مطّلب
مسلمانوں کا مذاق اُڑیا کرتا تھا اور کہا کرتا تھا کہ زمین کے بادشاہ آئے ہیں جو قیصر و کسریٰ کے خزانوں پر قبضہ کریں گے، حضور ﷺ کو دیکھ کر سیٹیاں اور تالیاں بجاتا، اندھا ہو کر مرا۔
اسود بن عبد یغوث
بڑا مذاق اُڑایا کرتا تھا، کہتا ! ائے محمدﷺ ! کیا آج آپﷺ نے آسمان والوں سے بات نہیں کی، مسلمانوں پر طنز و تعریض کرتے ہوئے کہتا کہ یہ سلطنت عجم کے مالک ہوں گے، لُو لگنے سے چہرہ لال اور نا قابلِ شناخت ہو گیا تو گھر والوں نے نکال دیا، بد زبانی کی وجہ سے منہ پیپ سے بھر گیا اور اسی میں مر گیا۔
نصر بن الحرث
بنی عبدالدار سے تعلق تھا یہودیوں اور عیسائیوں سے میل جول رکھتا تھا، حضور ﷺ کی دعوت کی تکذیب کرنے اور مسلمانوں کو ایذائیں دینے میں سب سے بڑھا ہوا تھا، یہودیوں سے نئے نبی کے ظہور کا ذکر سنا کرتا تھااور کہا کرتا تھا کہ محمدﷺ پرانے افسانے سناتے ہیں، غزوۂ بدر میں گرفتار کیا گیا اور قتل ہوا۔
مطعم بن عدی
اکثر گالیاں دیا کرتا اور مذاق اُڑاتا تھا، غزوۂ بدر میں حضرت حمزہؓ نے اسے قتل کیا۔
نُبیّہ اور مُنبّہ
یہ دونوں حجاج بن سہمی کے بیٹے تھے، حضور ﷺ کو ایذائیں دیا کرتے اور طنز سے کہتے کہ اللہ کو تیرے سوا کوئی اور نہیں ملا جسے نبی بنا تا، مُنیہّ اوراس کا بیٹا عاص بن منبّہ غزوۂ بدر میں حضرت علی کے ہاتھوں قتل ہوئے۔
اُبیّ اور اُمیّہ
دونوں خلف کے بیٹے تھے، روساء مکہ میں سے تھے مگر بڑے شریر النفس اور مذاق اُڑا نے والوں میں سے تھے، ایک روز اُبیّ ران کی بوسیدہ ہڈی لایا اور اسے چورہ کر کے کہنے لگاکہ کیا آپﷺ کا اللہ اس چورے کو پھر سے جوڑے گا، اسی وقت حضور ﷺ پر وحی نازل ہوئی جس میں کہا گیا" کہہ دیجئے ائے رسول کہ ان کو وہی اللہ زندہ کرے گا جس نے اُن کو پہلے پیدا کیا" اُبیّ کو حضور ﷺنے غزوۂ اُحد میں چھوٹے نیزے سے قتل کیا، حضرت بلالؓ اس کے بھائی اُمیہ کے غلا م تھے جنھوں نے غزوۂ بدر میں اس کی نشان دہی کی اور وہ مارا گیا،
آزمائش سے گزرنے والے چند صحابہ کرام
اس دور ابتلا میں دار و رسن کی آزمائش سے گذرنے والے چند صحابہ کرام کے نام حسب ذیل ہیں:
حضرت عثمانؓ بن عفان بنی اُمیہ کے معزز اور دولت مند شخص تھے؛ لیکن ان کا چچا ان کو رسی سے باندھ کر مارتا اور دین اسلام ترک کرنے کے لیے کہتا؛ لیکن انھوں نے تمام تکالیف برداشت کیں؛ لیکن اسلام کو نہ چھوڑا، ان کی والدہ گھر چھوڑ کر اپنے بھائی عامر بن کریز کے پاس چلی گئیں اور سال بھر وہیں رہیں، پھر مایوس ہوکر گھر آگئیں۔
حضرت زبیرؓ بن عوام کا چچا بھی انھیں بوری میں لپیٹ کر لٹکا دیتا اور نیچے سے دھونی دیتا اور اسلام چھوڑنے کے لیے کہتا ؛لیکن وہ اپنے دین پر ثابت قدم رہے۔
حضرت عبدالرحمنؓ بن عوف تاجر کی حیثیت سے دور دور تک جانے پہچانے جاتے تھے؛ لیکن ان پر بھی اس قدر مظالم کیے گئے کہ مجبور ہوکر حبشہ کی طرف ہجرت کیے۔
حضرت مصعبؓ بن عمیر مکہ کے حسین اور خوش پوشاک شخص تھے، اسلام قبول کرنے کے بعد ان کے چچا زاد بھائی عثمان بن طلحہ نے انھیں نماز پڑھتے دیکھ کر بہت اذیتیں دیں اور قید کر دیا؛ لیکن وہاں سے نکل بھاگے اور حبشہ کی جانب ہجرت کر گئے۔
حضرت سعدؓ بن ابی وقاص نے نوجوانی کے عالم میں اسلام قبول کیا تو ماں ناراض ہو گئیں اور تین دن تک کھانا پینا چھوڑ دیا؛ لیکن حضرت سعدؓ بن ابی وقاص استقلال سے دین پر جمے رہے۔
حضرت بلال ؓ حبشی غلام تھے اور اُن کا مالک اُمیہ بن خلف تھا جو انھیں دہکتے ہوئے انگاروں پر لٹا کر سینہ پر وزنی پتھر رکھ دیتا تھا اور ننگے جسم پر ببول کے کانٹے چبھوتا تھا، تنگ و تاریک کمرے میں بند کردیتا اور غلاموں کو حکم دیتا کہ انھیں باری باری کوڑے مارتے رہیں، غرض کہ ہر قسم کا ظلم ان پر کیا کرتا تھا لیکن انھوں نے اسلام سے منہ نہ موڑا، حضرت ابوبکرؓ صدیق نے ایک دن حضرت بلالؓ پر ظلم ہوتے ہوئے دیکھ لیا اور اُمیہ بن خلف (مالک ) سے منہ مانگے دام چالیس اوقیہ نقد ادا کر کے خرید کر انھیں آزاد کر دیا، تقدیر کا کرنا ایسا ہوا کہ غزوۂ بدر میں یہی مالک اُمیہ بن خلف اپنے غلام حضرت بلالؓ کے ہاتھوں قتل ہو1۔
حضرت ابو فکیہہؓ بھی حضرت بلالؓ کے ساتھ ہی خفیہ طور پر ایمان لائے تھے، اُمیہ نے اپنے آدمیوں کے ذریعہ رسی باندھ کر لے جانے اور تپتی ریت پر لٹانے کے لیے کہا، گرم ریت پر لٹائے جانے کی وجہ پیاس سے زبان باہر نکل جاتی، حضرت ابو بکرؓ کو ان مظالم کا حال معلوم ہوا تو انھیں خرید کر راہِ خدا میں آزاد کر دیا۔
حضرت زنیرہؓ بنی عدی کی کنیز تھیں، اسلام لانے سے پہلے حضرت عمرؓ اس پر بہت ظلم کرتے اور اسلام چھوڑدینے کے لیے دباؤ ڈالتے، ابو جہل نے ایک بار اتنا مارا کہ بینائی چلی گئی جس پر مشرکین نے انھیں طعنہ دیا کہ لات و عزّیٰ نے اندھا کر دیا، انھوں نے کہا کہ اللہ تعالیٰ نے چاہا تو ان کی بینائی
لوٹ کر آ سکتی ہے چنانچہ ایسا ہی ہوا اور ان کی بینائی واپس آگئی، حضرت ابو بکر ؓ نے انھیں بھی خرید کر آزاد کر دیا۔
حضرت حمامہؓ
حضرت حمامہ کو بھی سخت تکالیف دی جاتی تھیں جنھیں حضرت ابو بکرؓ نے خرید کر آزاد کیا۔
حضرت لُبینہؓ بنی موسل کی باندی تھیں، اسلام لانے کے جرم میں حضرت عمرؓ ان کو بری طرح پیٹا کرتے اور جب مارتے مارتے تھک جاتے تو کہتے " اے لُبینہ میں نے تجھ کو رحم کی وجہ سے نہیں بلکہ اس وجہ سے چھوڑا ہے کہ خود تھک گیا ہوں، حضرت ابوبکر صدیقؓ نے ان کو خرید کر آزاد کر دیا۔
حضرت نہدیہ
یہ بھی ایک باندی تھیں، اسلام قبول کرنے کے بعد ان کو بڑی بڑ ی مصیبتیں جھیلنے پڑیں، ان کو بھی حضرت ابوبکرصدیقؓ نے خرید کر آزاد کر دیا۔
حضرت اُم عبیسؓ
یہ بنی زہرہ کی باندی تھیں، مسلمان ہونے کے بعد ان کو بھی بہت تکلیفیں دی گئیں، انھیں بھی حضرت ابوبکر صدیقؓ نے خرید کر آزاد کر دیا،
حضرت عامر بن فہیرہ
یہ طفیل بن عبداﷲ کے غلام تھے، ابتدا ہی میں اسلام قبول کرلیاتھا، مشرکین نے ان کو طرح طرح کی تکلیفیں دیں مگر انھوں نے اسلام نہیں چھوڑا، ان کو حضرت ابوبکر صدیقؓ نے خرید کر آزاد کر دیا۔
حضرت خبّابؓ بن ارت
اسلام قبول کرنے والوں میں چھٹے مسلمان ہیں، غلام بنا کرمکہ میں فروخت کیے گئے تو اُمّ اتمار بنت سباع نے خریدا، پیشہ کے لحاظ سے لوہار تھے اور تلواریں بنا کر فروخت کرتے تھے، بعثت نبوی کے بعد اسلام قبول کیے تو انھیں اذیت ناک سزائیں دی جانے لگیں، دہکتے انگاروں پر ننگی پیٹھ پر لٹا کر سینہ پر بھاری پتھر رکھے جاتے ؛لیکن صبر و شکر سے ان مصائب کو جھیلتے رہے اور اسلام سے منہ نہ موڑا۔ غرض کہ جو مسلمان غلام بھی ظلم و ستم کا شکار ہوتا اور حضرت ابو بکرؓ کواطلاع ہوتی تو فوراً منہ مانگے دام دے کر اسے خریدتے اور اسے راہِ خدا میں آزاد کر دیتے، اسی لیے آنحضرت ﷺ نے فرمایا تھا جتنا نفع مجھ کو ابو بکرؓ کے مال نے دیا اور کسی کے مال نے اتنا نفع نہیں پہنچایا۔
پہلی شہید خاتون
حضرت خدیجۃ ؓالکبریٰ کو سب سے پہلے ایمان لانے کا شرف حاصل ہے، خواتین میں ان کے بعد حضرت لبابہؓ زوجہ حضرت عباس اور ان کے بعد حضرت سمیّہؓ تیسری ایمان لانے والی خاتون ہیں، دیگر خواتین میں حضرت فاطمہؓ بنت خطاب ( حضرت عمر ؓکی بہن)، حضرت اسماءؓبنت ابو بکر، حضرت اسماءؓ بنت عمیس، حضرت اُم ایمنؓ، حضرت اسماءؓ بنت سلامہ، حضرت فکیہہؓ بنت یسار، حضرت رملہؓ بنت ابی عوف اور حضرت امینہؓ بنت خلف نے ابتدائی زمانہ میں اسلام قبول کیا، حضرت سُمیّہؓ کے شوہر حضرت یاسرؓاور بیٹا حضرت عبداﷲؓ کافروں کے ظلم سہتے ہوئے شہید ہوئے، حضرت سمّیہؓ کے بیٹے حضرت عمارؓ پرکافروں کے ظلم و ستم ضعیف ماں حضرت سمیّہؓ نہیں دیکھ سکتی تھیں اس لیے ابو جہل کو بُرا بھلا کہہ دیا جسے اس نے اپنی بے عزتی سمجھا اور نیزہ ان کے ستر کی نازک جگہ پر مارا جس سے وہ وفات پا گئیں، حضرت سمّیہؓ راہِ حق میں شہید ہونے والی پہلی خاتون ہیں۔ [150]
ہجرت حبشہ اولی
قریش کاظلم و تعدی اس قدر بڑھ گیا تھا کہ مسلمان حرم کعبہ میں بلند آواز سے قرآن نہیں پڑھ سکتے تھے، حضرت عبد اللہؓ بن مسعود جب ایمان لائے تو انھوں نے کہا کہ میں اس فرض کوضرور پورا کروں گا، لوگوں نے انھیں منع کیا ؛لیکن باز نہ آئے، حرم میں گئے اور مقام ابراہیم ؑ کے پاس کھڑے ہو کر سورۂ رحمن پڑھنا شروع کیا، کُفّار ہر طرف سے ٹوٹ پڑے اور ان کے منہ پر طمانچے مارنے لگے جس کی وجہ ان کے چہرے پر زخم کے نشان پڑ گئے، حضرت ابو بکرؓ روسائے قریش میں سے تھے؛ لیکن آواز سے قرآن نہ پڑھ سکتے تھے اسی لیے ایک بار ہجرت کے لیے تیار ہو گئے تھے، قریش کا ظلم مسلمانوں پرتو جاری ہی تھالیکن انھوں نے اس سے ایک قدم اور آگے بڑھ کر مسلمانوں کے قتل کامنصوبہ بنایا، انھی دنوں یہ اطلاع ملی کہ بنی مخزوم اپنے ہی قبیلے کے تین مسلمانوں یعنی حضرت ولید ؓ بن الولید، حضرت سلمہؓ بنت ہشام اور حضرت عباس ؓ بن ابی ربیعہ کو قتل کرنا چاہتے ہیں، ان حالات میں سورۂ عنکبوت کی آیات 56 - 57 نازل ہوئیں:
" اے میرے ایمان والے بندو میری زمین بہت وسیع ہے ، سو تم میری ہی عبادت کرو ،ہر جاندار موت کا مزہ چکھنے والا ہے اورتم سب ہماری ہی طرف لوٹائے جاؤ گے" [151]
ہجرت کا اشارہ پا کر حضور اکرم ﷺنے مسلمانوں سے فرمایا کہ تم روئے زمین میں منتشر ہو جاؤ، یقینا ًاللہ تعالیٰ تم سب کو عنقریب جمع کرے گا، صحابہؓ نے عرض کیا! یا رسول اللہ ! کہاں جائیں؟ آپﷺ نے حبشہ کی طرف اشارہ فرمایا اور کہا
" سر زمینِ حبشہ میں ایسا بادشاہ حکمران ہے جس کے ہاں کسی پر ظلم نہیں ہوتا، پس تم اس کے ملک میں چلے جاؤ یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ تمھاری اس مصیبت کو رفع کرنے کی کوئی صورت پیدا کر دے جس میں تم مبتلاء ہو "
چنانچہ رجب 5 نبوی میں ایک ایک دودو مسلمان چُھپتے چُھپاتے مکہ سے بندرگاہ شعیبہ (جدّہ) میں جمع ہونے لگے، ان میں سوار بھی تھے اور پیادہ
بھی، گیارہ مرد اور چار عورتیں جمع ہو گئیں جن میں حضور اکرم ﷺ کے داماد حضرت عثمانؓ اور ان کی زوجہ حضرت رقیہ ؓ بھی تھیں، جہازوالوں نے
سستے کرایہ پر ان کو بٹھالیا، ہر شخص کو صرف پانچ درہم دینے پڑے، قریش کو خبر ہوئی تو بندرگاہ تک تعاقب کرتے ہوئے آئے؛ لیکن موقع نکل چکا تھایہ قافلہ رجب 5 نبوی م 614ء میں حبشہ روانہ ہوا۔ [152]
مسلمانوں کے ایک عیسائی مملکت حبشہ میں جانے تک عقائد کی رہنمائی کے لیے سورۂ مریم کا نزول ہو چکا تھا، حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی حقیقت واضح کر دی گئی تھی اور اہلِ کتاب سے اچھے طریقہ سے بات کرنے کا حکم دیا گیاتھا، اس پہلے قافلہ میں جو صحابہ ؓ کرام اور صحابیاتؓ شریک تھے ان کے اسمائے گرامی حسب ذیل ہیں:
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم
حضرت عثمان بن عفان معہ زوجہ محترمہ حضرت رقیہؓ، بنی امیہ سے
حضرت زبیر ؓ بن العوام
بنی اسد، حضور ﷺ کے پھوپھی زاد بھائی، عشرہ مبشرہ میں سے ہیں
حضرت عبدالرحمن ؓ بن عوف
بنی زہرہ، حضور کے ننھیالی رشتہ دار، عشرہ مبشرہ میں سے ہیں
حضرت مصعبؓ بن عمیر
بنی عبدالدار، ہاشم کے پوتے
حضرت ابوسلمہ ؓ بن عبدالاسد معہ زوجہ حضرت اُمّ سلمہؓ
بنی مخزوم
حضرت ابوحذیفہ ؓ بن عتبہ معہ زوجہ حضرت سہلہ
بنی عبدالشمس، باپ قریش کا مشہور سردار تھا اس کی سختیوں کی وجہ سے گھر چھوڑنا پڑا،
حضرت ابو حاطب بن عمرو
بدر میں شریک تھے
حضرت عثمان ؓ بن مظعون
بنی جمح، مشہور صحابی ہیں
حضرت عامر ؓ بن ربیعہ معہ زوجہ حضرت لیلیٰ
بنی عدی کے حلیف، سابقین اولین میں سے ہیں، بدر میں شریک تھے
حضرت سہیل ؓ بن بیضاء
بنی حارث
حضرت ابوسیرہ ؓ بن ابی رہم عامری
بنی عامر، ان کی ماں برہ حضور ﷺ کی پھوپھی تھیں
صحابیات رضی اللہ عنہم
حضرت رقیہؓ بنت محمد ﷺ
بنی ہاشم، زوجہ
حضرت عثمانؓ
حضرت سہلہؓ بنت سہیل
بنی عامر، زوجہ
حضرت ابو حذیفہؓ
حضرت اُم سلمہؓ بنت امیہ
بنی مخزوم، زوجہ
حضرت ابو سلمہؓ
حضرت لیلیٰ ؓ بنت ابی حشمہ
بنی عدی، زوجہ
حضرت عامرؓ
یہ خیال کہ ہجرت صرف انہی لوگوں نے کی جن کا کوئی حامی و مد د گار نہ تھا صحیح نہیں اس لیے کہ مہاجرین حبشہ کے اس پہلے قافلہ میں ہمہ درجہ کے لوگ شامل تھے، حضرت عثمانؓ بنوامیہ سے تھے جو سب سے زیادہ صاحبِ اقتدار خاندان تھا، ان کے علاوہ رئیس مکہ عتبہ کے صاحبزادے ابو حذیفہؓ بھی تھے جن سے حبشہ میں ایک لڑکا محمد بن ابوحذیفہ پیدا ہوا، دیگر صحابہ کرام مثلاً حضرت زبیرؓ بن العوام اور حضرت مصعبؓ بن عمیر خود آنحضرتﷺ کے خاندان سے ہیں، حضرت عبد الرحمٰنؓ بن عوف اور حضرت ابو سبیرہؓ بن ابی رہم بھی معمولی لوگ نہ تھے، اس بنا پر یہ قیاس کیا جا سکتا ہے کہ قریش مکہ کا ظلم و ستم صرف بے کسوں تک ہی محدود نہ تھا بلکہ بڑے بڑے خاندان بھی ان کے ظلم و ستم سے محفوظ نہ تھے بعض سیرت نگاروں نے اس پہلے قافلہ میں حضرت عبد اللہؓ بن مسعود اور حضرت ابو موسیٰ ؓ اشعری کے نام بھی لکھے ہیں، لیکن ابن اسحٰق یقین کے ساتھ کہتے ہیں کہ حضرت عبد اللہ ؓ بن مسعود ہجرت اولیٰ میں نہیں بلکہ ہجرت ثانیہ میں تھے، [153]
اسی طرح ہجرت کرنے والی خواتین میں بعض لوگ حضرت ابو سبیرہ ؓؓکی بیوی حضرت اُم کلثومؓ بنت سہیل اور آنحضرت ﷺکی دایہ حضرت ام ایمنؓ کااضافہ کرتے ہیں جس کی تفصیل طبری میں ہے۔ [154]
رجب 5 نبوی میں یہ قافلہ حبشہ پہنچا اور سکون سے رہنے لگا ؛لیکن قریش یہ خبر یں سن کر پیچ و تاب کھاتے تھے اور چاہتے تھے کہ مسلمانوں کو حبشہ سے نکلوادیں۔
پہلا سجدۂ تلاوت
مکہ میں حضور ﷺ کی تبلیغ جاری تھی، قرآن نازل ہوتا تو حضور ﷺ کوشش فرماتے کہ انھیں سنائیں تا کہ ان کے دل نرم ہو جائیں اور کفّار ایمان لے آئیں، انھی ایام میں سورہ ٔ نجم نازل ہوئی، حضور ﷺ نے صحن کعبہ میں قریش کے مجمع میں یہ سورت پڑھی، جب سجدہ والی آیت آئی توآپﷺ نے سجدہ
کیا، مجمع میں مسلم اور مشرک سب شریک تھے اور سب کے سب بے اختیار سجدہ میں چلے گئے، عتبہ بن ربیعہ، ولید بن مغیرہ اور اُ میہ بن خلف نے اپنے غرور کی بدولت سجدہ نہیں کیا؛بلکہ زمین سے مٹی اٹھا کر ماتھے پر مل لی، حضرت عبد اللہؓ بن مسعودسے روایت ہے کہ یہ پہلی سورت ہے جو آپﷺ نے کفّار میں علی الاعلان سنائی اور یہ پہلی سورت ہے جس میں آیت سجدہ نازل ہوئی۔ [155]
مہاجرین حبشہ کو اس واقعہ کی اطلاع اس طرح پہنچی کہ آپس میں مصالحت ہو گئی بلکہ سب مسلمان ہو گئے تو انھوں نے واپسی کا سونچا؛ لیکن مکہ کے قریب پہنچے تو حقیقت کچھ اور تھی اور وہا ں سے واپس جانا بڑا دشوار تھا، بعضوں نے ہمت کی اور باقی حسب دستور کسی نہ کسی کی پناہ میں مکہ میں داخل ہوئے تا کہ ظلم سے محفوظ رہیں۔ انہی ایام میں ایک روز آنحضرت ﷺ کی مجلس میں سرداران قریش جن میں عتبہ، شیبہ، ابو جہل اور امیہ بن خلف وغیرہ موجود تھے اور حضور ﷺ سے اسلام کے بارے میں گفتگو کر رہے تھے، حضور ﷺ کی بڑی تمنّا تھی کہ ان میں کو ئی مسلمان ہو جائے اس لیے آپﷺ کی زیادہ توجہ انہی کی طرف تھی، عین اس وقت حضرت عبد اللہ ؓ بن اُم مکتوم تشریف لائے جو نا بینا ہونے کی وجہ سے یہ نہ جان سکے کہ محفل میں کون کون شریک ہیں، انھوں نے آتے ہی حضور ﷺسے سوال کیا یا رسول اللہ مجھے وہ علم سکھائیے جو اللہ نے آپﷺ کو سکھایا ہے، سرداران قریش کی موجودگی میں ایک نابینانووارد کا بات چیت میں دخل انداز ہونا حضور ﷺ کو پسند نہ آیا اور آپﷺ نے ان کی جانب توجہ کیے بغیر سرداران قریش ہی سے بات چیت جاری رکھی، اس مرحلہ پر سورۂ عبس نازل ہوئی:
" وہ ترش رو ہوئے اور منہ موڑلئے ( صرف اس لئے )کہ ان کے پاس ایک نابینا آیا ، تمہیں کیا خبر شاید وہ سنور جاتے یا نصیحت سنتے اور اسے نصیحت فائدہ پہنچاتی، جو بے پرواہی کرتا ہے اس کی طرف تو تم پوری توجہ کرتے ہو ؛حالانکہ اس کے نہ سنورنے سے تم پر کوئی الزام نہیں اور جو شخص تمہارے پاس دوڑتا ہوا آتا ہے اور وہ ڈر (بھی) رہا ہے تو اس سے تم بے رخی برتتے ہو،یہ ٹھیک نہیں ، قرآن تو نصیحت کی چیزہے جو چاہے اس سے نصیحت لے " [156]
ان آیات کے نزول کے بعد حضورﷺ فوراً حضرت عبد اللہؓ بن ابن مکتوم کے مکان تشریف لے گئے اور انھیں اپنی مجلس میں واپس بلا لائے، حضورﷺ نے اپنی چادر زمین پر بچھا کر انھیں بٹھایا، دراصل اس سورۃ میں تبلیغ کا یہ نکتہ سمجھایا گیا کہ اصل اہمیت طلب صادق کی ہے، با اثر اور بے اثر ہونا کوئی معنی نہیں رکھتا۔ [157]
کلید بردار کعبہ
آنحضرت ﷺ کی دعوت معبودان باطل کی نفی اور اِلٰہ واحد کی پرستش پر مبنی تھی اس لیے قریش کو کعبۃ اللہ میں حضورﷺ کا داخلہ گوارا نہیں تھا، کعبہ کا دروازہ ہر پیر اور جمعرات کو کھولا جاتا تھا، ایک دن آپﷺ کعبہ میں تشریف لائے اور لوگوں کے ساتھ اندر جانا چاہا، اس وقت کلید بردار کعبہ عثمان بن طلحہ تھے جنھوں نے حضورﷺ کو اندر جانے سے روک دیا، آپﷺ نے فرمایا ! " اے عثمان ! ایک روز یہ کنجی میرے ہاتھ میں ہوگی اور میں جسے چاہوں اسے دوں گا، عثمان نے بے اعتنائی سے کہا کہ اگر ایسا ہوا تو وہ دن سارے قریش کے لیے بڑی ذلت اور تباہی کا دن ہوگا، آپﷺ نے فرمایا" نہیں وہ دن قریش کی عزت کا اصلی دن ہوگا اور وہ باعزت ہوں گے"
دوسری ہجرت حبشہ
پہلی ہجرت حبشہ سے واپس ہونے کے بعد مسلمانوں میں سے ہر ایک کسی نہ کسی کی پناہ میں تھا، اس کے باوجود کفّار قریش نے مسلمانوں پر عرصۂ حیات تنگ کر دیا تھا، یہ حال دیکھ کر اوائل 6 نبوی میں آنحضرت ﷺنے مسلمانوں کو دوبارہ حبشہ کو ہجرت کرنے کی اجازت دی، یہ سن کر کفار مکہ نے مسلمانوں کو ہجرت کرنے سے روکنے کی مقدور بھر کوشش کی ؛لیکن اس کے باوجود (83) مرد اور(18 )عورتیں حبشہ پہنچ گئے، عورتوں میں منجملہ( 18 )کے گیارہ عورتیں قریش سے تعلق رکھتی تھیں، پہلی مرتبہ ہجرت کرنے والے صحابہ میں سے بعض اس دوسرے قافلہ میں بھی شریک ہو گئے، دوسری بار بھی حضرت عثمانؓ معہ زوجہ حضرت رقیہؓ اور حضرت اُبوسلمہ ؓ بن عبدالاسد معہ زوجہ حضرت اُم سلمہ ؓ نے ہجرت کی، ان کے علاوہ عبیداللہ بن جحش معہ زوجہ حضرت اُم حبیبہؓ بنت ابو سفیان بھی مہاجرین میں شامل تھے، حضرت ابو سلمہؓ اور حضرت عبیداللہ ؓ کی وفات کے بعد یہ دونوں خواتین یعنی حضرت اُم سلمہؓ اور حضرت اُم حبیبہ ؓ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجیت میں داخل ہوئیں، دیگر مہاجرین میں ابو جہل کے سوتیلے بھائی حضرت عیاشؓ بن ابی ربیعہ، رئیس مکہ عتبہ کے صاحبزادے حضرت ابوحذیفہ، حضرت مصعبؓ بن عمیر، حضرت عثمانؓ بن مظعون، حضرت زبیر ؓ بن عوام، حضرت عبد الرحمن ؓبن عوف، حضرت عبد اللہ ؓ بن مسعود، حضرت مقدادؓ بن عمر و، حضرت علیؓ کے بڑے بھائی حضرت جعفرؓ بن ابو طالب اور حضرت خالد ؓ بن حزام ابن ِ خویلد ( حضرت خدیجہؓ کے بھتیجے) قابل ِذکر ہیں، حضرت خالد ؓ بن حزام کی وفات حبشہ جاتے ہوئے راستہ میں سانپ کاٹنے سے ہوئی، حضرت جعفر ؓ بن ابی طالب کی بیوی حضرت اسماء ؓ بنت عمیس تھیں جن کے بطن سے حبشہ میں تین فرزند پیدا ہوئے، حبشہ جاتے وقت آنحضرت ﷺ نے حضرت جعفرؓ کو نجاشی کے نام ایک تعارفی خط دیا تھا جسے ڈاکٹر محمد حمید اللہ نے اپنی تصنیف " رسول اکرم ﷺ کی سیاسی زندگی" میں طبری ابن القیم اور قسطلانی کے حوالے سے نقل کیا ہے۔ [158]
تعارفی خط
بسم اللہ الرحمن الرحیم
محمد رسول اللہ کی طرف سے
نجاشی اصحمہ بادشاہ حبشہ کے نام :
" میں اس خدا کی تعریف تمہیں لکھتا ہوں جس کے سوا کوئی معبود نہیں جو بادشاہ ِ مقدس ،سلامتی والا ، امان دہندہ اور سلامت رکھنے والا ہے اور میں اقرار کرتا ہوں کہ مریم کے بیٹے عیسیٰ روح اللہ اور کلمتہ اللہ ہیں جن کو پاک اور برائی سے محفوظ مریم بتول کی طرف ڈالا گیاتو وہ خداکی روح اور پھونک سے حاملہ ہوئیں جیسا کہ خدا نے حضرت آدم ؑ کواپنے ہاتھ سے پیدا کیا تھا ، میں تجھے خدا وحدہٗ لا شریک کی طرف بلاتا ہوں اور یہ کہ تو میری اتباع کرے اورمجھ پر نازل شدہ چیز پر ایمان لائے کیونکہ میں خدا کا رسول ہوں اور میں تجھے اور تیرے لشکروںکو خدائے عزو جل کی طرف بلاتا ہوں ، میں نے پیام پہنچا دیا اور بہی خواہی کی ہے ، اب تم میری بہی خواہانہ نصیحت کو قبول کرو اور میں نے تمہارے پاس اپنے چچا زاد بھائی جعفر کو بھیجا ہے جس کے ہمراہ چند مسلمان بھی ہیں،جب وہ تیرے پاس آئیں تو ان کی مہمان داری کر اور تکبّر چھوڑ دے ،سلام اُس پر جو ہدایت پر چلے"
ڈاکٹر حمید اللہ کے مطابق اس تعارفی خط کے واقف کارانہ انداز سے گمان ہوتا ہے کہ شاید نبوت سے قبل بھی حضوراکرمﷺ خود حبشہ بہ سلسلہ تجارتتشریف لے گئے ہوں( دیگر مکی تاجروں کے ساتھ) اس لیے پہلی بار مسلمانوں کے حبشہ ہجرت کرتے وقت آپﷺ کا یہ فرمانا کہ " حبشہ میں ایک ایسے بادشاہ کی حکومت ہے جس کے ملک میں کسی پر ظلم نہیں ہوتا "، واقف کارانہ انداز بتلاتا ہے،
حبشہ کا پایہ تخت اس زمانے میں اکسوم تھا، بعد میں عدیس اباباپایہ تخت بنا، اس وقت کے نجاشی حکمرانوں کا نام اصمحہ تھا، ابن اسحاق نے " مصمحہ " َلکھا ہے، عربی زبان میں یہ لفظ عطیہ کے ہم معنی ہے، یہ فرمانروا اپنے عدل و انصاف کی وجہ سے دور دور تک مشہور تھا، حبشہ کی ہجرت کرنے والے دوسرے قافلہ میں ہر خاندان کا کوئی نہ کوئی فرد شامل تھا اس لیے مکہ کے ہر گھر میں کہرام مچ گیا، مسلمان حبشہ میں چین سے رہنے لگے، یہ خبر سن کر قریش ِ مکہ بہت مضطرب ہوئے اور انھیں اندیشہ ہونے لگا کہ کہیں مسلمان حبشہ میں جمع ہو کر ہم پر حملہ نہ کر دیں، یہ مسئلہ دارالندوہ میں پیش ہوا اور بعد غور و خوض طئے کیا گیا کہ ایک سفارت نجاشی کے پاس بھیجی جائے، چنانچہ عمرو بن العاص ( بعد میں فاتح مصر) اور عبد اللہ بن ابی ربیعہ ( ابو جہل کا ماں جایا بھائی) کو بہت سے تحفے دے کر حبشہ روانہ کیا گیا، انھوں نے حبشہ جا کر سب سے پہلے نجاشی کے امرأ اور مذہبی پیشواؤں سے ملاقات کی اور ان سے نجاشی کے دربار میں اپنے معروضہ کی تائید کرنے کی درخواست کی، دوسرے دن مسلمان حضرت جعفربن ابی طالب کو اپنا ترجمان بنا کر نجاشی کے دربار میں حاضر ہوئے، اندر داخل ہونے سے قبل انھوں نے آواز دی،" بادشاہ سلامت ! اللہ والوں کا گروہ اندر آنے کی اجازت چاہتا ہے، نجاشی نے یہ آواز سن کر دربان سے کہلوایا کہ ان کلمات کو پھر سے دہرائیں، مسلمانوں نے ان کلمات کو دہرایا تو نجاشی نے جواب میں کہا،" اللہ کے حکم سے داخل ہوجاؤ کہ تم اس کی ہی حفاظت میں ہو، مسلمان " السلام علیکم" کہتے ہوئے دربار میں داخل ہوئے ؛لیکن نجاشی کو سجدہ نہیں کیا تو امرا نے سجدہ نہ کرنے کی وجہ پوچھی، مسلمانوں نے جواباً کہا کہ ہم اللہ کے سِوا کسی اور کو سجدہ نہیں کرتے، اس کے بعد نجاشی نے کفّار قریش سے کچھ سوالات کیے، عمرو بن العاص نے عرض کیا، اے بادشاہ ! ہم اپنے آبا و اجداد کے دین پر تھے، انھوں نے اسے چھوڑ کر ایک نیا دین اختیار کیا ہے،" نجاشی نے اس بارے میں حضرت جعفر ؓ بن ابی طالب سے دریافت کیا تو انھوں نے جواب دیا کہ ہم نے اپنے آبا و اجداد کے بُت پرستی کے دین کو چھوڑ کر دین اسلام کو اختیار کر لیا ہے جسے ہمارے رسول محمد صلی اللہ علیہ و سلم نے سکھایا ہے جن پر بذریعہ وحی اللہ کے احکام نازل ہو رہے ہیں، یہ آسمانی کتاب بھی حضرت عیسیٰ علیہ السلام پر نازل شدہ انجیل جیسی ہے، یہ سن کر نجاشی نے دربار میں راہبوں، مذہبی پیشواؤں اور علما کو جمع کر کے ان سے پوچھا " کیا حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور روزِ قیامت کے درمیان کوئی اور نبی آئے گا ؟انھوں نے کہا قسم ہے اللہ کی، ایک رسول ضرور آئے گا جس کی آمد کی بشارت حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے دی ہے اور فرمایا کہ جو اس
رسول پر ایمان لائے گا وہ مجھ پر ایمان لائے گااور جو ان کے ساتھ کفر کرے گا وہ مجھ سے کفر کرے گا۔ [159]
دعوت اسلام کا مجمل خاکہ اور حضرت جعفر (رضی اللہ عنہ) کی تقریر
نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سر زمین عرب میں مبعوث ہوئے اس لیے فطری طریق کار کے پیش نظر سب سے اول قوم عرب ہی ان کی دعوت و ارشاد کا مخاطب قرار پائی تاکہ جو قوم کل چوپایوں کی گلہ بان تھی نور نبوت سے مستفیز ہو کر کائنات انسانی کی گلہ بان بن جائے اور خدائے برتر کے سب سے بزرگ تر پیغمبر و رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سایہ رحمت میں تربیت پا کر کائنات ہدایت کے لیے خیر امت کا لقب پائے تو اب دیکھنا یہ ہے کہ عرب جیسی سرکش ‘ جاہل ‘ تمدن و حضارت سے یکسر محروم اور اخلاقی و ملی جذبات و احساسات سے قطعاً منحرف قوم پر اسلام کی دعوت نے فوری طور پر کیا اثر کیا تاکہ ہم بآسانی یہ اندازہ کرسکیں جس مذہب کے بنیادی اصول و عقائد اور افکار و اعمال نے ایسی قوم کے تمام شعبہ ہائے حیات میں حیرت زا اور عظیم الشان انقلاب پیدا کرکے اس کو روحانی دنیا کا انسان بنادیا اس مذہب کی صداقت کے لیے تنہا یہ ایک کارنامہ ہی روشن دلیل بن سکتا ہے۔
مشرکین مکہ کی پیہم مخالفت ‘ ایذا رسانی اور ہول ناک طریق ہائے عذاب نے جب مسلمانوں کی ایک مختصر جماعت کو افریقہ کے مشہور ملک حبشہ کی جانب ہجرت پر مجبور کر دیا اور وہ عیسائی حکمران اصحمہ کی حکومت میں پناہ گزین ہو گئے تو سرداران قریش اس کو بھی برداشت نہ کرسکے اور اصحمہ کے دربار میں مشاہیر کا ایک وفد بھیج کر یہ مطالبہ کیا کہ وہ مسلمانوں کو اس لیے ان کے حوالہ کر دے کہ یہ بد دین ہو کر اور باپ دادا کے دین کو چھوڑ کر قوم میں تفرقہ پیدا کرنے کا باعث بنے اور یہاں رہ کر بھی حکمراں کے دین کے مخالف ہیں۔
اصحمہ نے وفد کا مطالبہ سن کر مسلمانوں کو جواب دہی کے لیے دربار میں طلب اور اسلام کے متعلق دریافت حال کیا ‘ تب حضرت جعفر (رضی اللہ عنہ) نے اسلام سے متعلق تقریر فرمائی اور اس کی مقدس تعلیم کا مختصر اور جامع نقشہ کھینچ کر اصحمہ کو حقیقت حال سے آگاہ کیا یہی وہ تقریر ہے جو دراصل عرب کے دور جاہلیت اور قبول اسلام کے دور کی انقلابی کیفیت کا مجمل مگر بہترین خاکہ ہے۔ حضرت جعفر بن ابی طالب (رضی اللہ عنہ) نے بادشاہ اور درباریوں کو مخاطب کرکے ارشاد فرمایا :
” بادشاہا ! ہم پر ایک طویل تاریک زمانہ گذرا ہے ‘ اس وقت ہماری جہالت کا یہ عالم تھا کہ ایک خدا کو چھوڑ کر بتوں کی پرستش کرتے تھے اور خود ساختہ پتھروں کی پوجا ہمارا شعار تھا ‘ مردار خوری ‘ زنا کاری ‘ لوٹ مار ‘ قطع رحمی صبح و شام کا ہمارا مشغلہ ‘ ہمسایوں کے حقوق سے بیگانہ ‘ رحم و انصاف سے ہم ناآشنا اور حق و باطل کے امتیاز سے ناواقف ‘ غرض ہماری زندگی سرتا سر درندوں کی طرح تھی کہ قوی ضعیف کو کچلنے اور توانا ناتواں کو ہضم کرلینے کو اپنے لیے فخر اور طغرائے امتیاز سمجھتا تھا۔
رحمت خدا کا کرشمہ دیکھیے کہ اس نے ہمارے اندر ایک بزرگ پیغمبر مبعوث کیا جس کے نسب سے ہم واقف ‘ جس کی صداقت ‘ امانت و عصمت پر دوست و دشمن دونوں گواہ ‘ جس کی قوم نے اس کو محمد الامین کا لقب دیا ‘ وہ آیا اور اس نے ہم کو خدا کی توحید کا سبق دیا خدائے واحد کی جانب بلایا اس نے بتلایا کہ خدا کا کوئی سہیم و شریک نہیں ‘ وہ شرک سے پاک ہے بت پرستی جہالت کا شیوہ ہے اس لیے قابل ترک ہے اور صرف خدائے واحد ہی کی عبادت حق عبدیت ہے۔ اس نے ہم کو حق گوئی اور صداقت شعاری کی تلقین کی اور صلہ رحمی کا حکم فرمایا ‘ ہمسایوں اور کمزوروں کے ساتھ حسن سلوک سکھایا ‘ قتل و غارت کی رسم بد کو مٹایا ‘ زنا کاری کو حرام اور فحش کہہ کر اس ننگ انسانیت عمل سے ہم کو نجات دلائی ‘ نکاح میں محارم اور غیر محارم کا فرق بتایا ‘ جھوٹ بولنے ‘ ناحق مال یتیم کھانے کو حرام فرمایا ‘ نماز اور خیرات و صدقات کی تعلیم دی اور ہر حیثیت سے ہم کو حیوانیت کے قعر مذلت سے نکال کر انسانیت کبریٰ کے مرتبہ پر پہنچایا۔
بادشاہا ! ہم نے اس مقدس تعلیم کو قبول کیا اور اس پر صدق دل سے ایمان لائے یہ ہے ہمارا وہ قصور جس کی بدولت یہ مشرکین کا وفد تجھ سے مطالبہ کرتا ہے کہ تو ہم کو ان کے حوالے کر دے۔ “ [160]
حضرت جعفر (رضی اللہ عنہ) نے اسلام کے صاف اور سادہ مگر روشن اصول کو جب اصحمہ کے سامنے جرأت حق کے ساتھ پیش کیا تو حبشہ کے حکمراں نے مسلمانوں کو اپنی پناہ سے نکال کر وفد کے حوالہ کرنے سے انکار کر دیا اور پھر حضرت جعفر (رضی اللہ تعالیٰ عنہ) نے خوش الحانی کے ساتھ سورة مریم کی چند آیات تلاوت کیں تو نجاشی حبشہ بے حد متاثر ہوا اور آبدیدہ ہو کر اسلام کی صداقت پر ایمان لے آیا اور حضرت جعفر (رضی اللہ عنہ) کے دست حق پرست پر مشرف باسلام ہو گیا۔
یہ ہے دعوت اسلام کا مختصر خاکہ جس نے دنیا کے شب رنگ اور تاریک ترین خطہ انسانی کو ایک بہت ہی قلیل عرصہ میں مثل آفتاب تابناک اور روشن ترین بنادیا۔ اس خاکہ میں اعتقادات ‘ اخلاق اور اعمال حسنہ کا وہ تمام عطر موجود ہے جس کو قرآن عزیز نے مختلف سورتوں میں حسب حال اور مناسب مقام پر بکثرت بیان کیا بلکہ پورا قرآن انہی روشن حقائق کا ہادی و مرشد ہے۔
نجاشی نے کہا ! جو کلام الہٰی تمھارے پیغمبر پر اترا ہے اس کا کچھ حصہ سناؤ، حضرت جعفرؓ نے سورۂ مریم کی چند آیات کی خوش الحانی سے تلاوت کی جسے سن کر نجاشی پر رقت طاری ہو گئی اور آنسوؤں سے اس کی داڑھی تر ہو گئی، پھر کہا، خدا کی قسم ! یہ کلام اور انجیل دونوں ایک ہی چراغ
کے پر تو ہیں، یہ کہہ کر سفرائے قریش سے کہا ! تم واپس چلے جاؤ، میں ان مظلوموں کو ہر گز ہر گز تمھارے حوالے نہ کروں گا، مسلمان مہاجروں سے مخاطب ہو کر بولا ! جاؤ، میری مملکت میں امن کے ساتھ زندگی بسر کرو، پھر تین بار کہا ! اگر تمھیں کوئی گالی بھی دے گا تو اس پر تاوان لگے گا، یہ سنتے ہی قریش کے دونوں سفراء بڑے بے آبرو ہو کر دربار سے نکل گئے۔
دوسرے دن عمرو بن العاصؓ نے دربار میں رسائی حاصل کی اور نجاشی سے عرض کیا!حضورﷺ کیا آپ کو معلوم ہے کہ وہ لوگ حضرت عیسیٰ ؑ کی نسبت کیا اعتقاد رکھتے ہیں؟ نجاشی نے مسلمانوں کو دربار میں طلب کیا، تمام راہب اور علما بھی دربار میں بلائے گئے، مسلمانوں کو تردد ہوا کہ اگر حضرت عیسیٰ ؑ کے ابن اللہ ہونے سے انکار کرتے ہیں تو نجاشی ناراض ہو جائے گا، اس لیے کہ وہ عیسائی ہے، نجاشی نے حضرت جعفر ؓ سے پوچھاکہ عیسیٰ ؑؑبن مریم کے بارے میں تم لوگوں کا کیا عقیدہ ہے ؟ حضرت جعفر ؓ نے کہا! ہمارے پیغمبر ﷺ نے بتا یا ہے کہ " عیسیٰ ؑ خدا کا بندہ اور پیغمبر اور کلمتہ اللہ ہے
" یہ سن کر نجاشی نے زمین سے ایک تنکا اٹھا یا اور کہا ! " واللہ جو تم نے کہا حضرت عیسیٰ ؑ اس تنکے کے برابر بھی اس سے زیادہ نہیں ہیں" [161]
پادری اور راہب جو دربار میں موجود تھے نہایت بر ہم ہوئے، ان کے نتھنوں سے خر خراہٹ کی آواز آنے لگی، نجاشی نے ان کے غصہ کی کچھ پروا نہ کی اور قریش کے سفیر ناکام نکل آئے، نجاشی نے حکم دیا کہ قریش کے وفد کے تمام تحائف واپس کر دئے جائیں اور وہ ملک چھوڑکر چلے جائیں، حضرت اُم سلمہ ؓ فرماتی ہیں کہ اس کے بعد ہم لوگ وہاں بہترین ملک میں بہترین پڑوسی کے ساتھ مقیم رہے۔
اسی اثناء میں کسی دشمن نے نجاشی کے ملک پر حملہ کر دیا، اس وقت مسلمانوں نے نجاشی کی طرف سے جنگ میں شرکت کی اس خیال کے تحت کہ یہ جنگ ہمارے لیے سب سے اہم جنگ ہے کیونکہ ہمیں اس وقت یہ خوف تھا کہ نجاشی تو ہمارے حقوق پہچانتا ہے اس پر کہیں ایسا شخص غالب نہ آجائے جو ہمارے حقوق کو پہچانتا ہی نہ ہو۔ [162]
اللہ تعالیٰ نے نجاشی کو فتح عطا فرمائی، نجاشی کے دربار میں مسلمانوں اور نجاشی کے درمیان ہونے والی گفتگو سے حضور اکرم ﷺ کی بعثت کی خبر عام ہو گئی، اس کے بعدایک دن جب کہ حضور اکرم ﷺ مسجد حرام میں تشریف فرماتھے حق کے متلاشی بیس (20) عیسائیوں کا ایک وفد مکہ پہنچا اور حضور ﷺ سے بہت دیر تک سوالات کرتے رہے، حضور ﷺ نے انھیں دعوت اسلام دی اور انھیں کلام اللہ سنایا، حضور ﷺ کی زبان مبارک سے قرآن مجید سن کر وہ سب ایمان لے آئے جس پر ابو جہل اور اس کے ساتھیوں نے انھیں احمق کہتے ہوئے ان سے پوچھا کہ تمھارے ملک والوں نے تمھیں یہاں دریافت حال کے لیے بھیجا تھا اور تم نے اپنا دین چھوڑ کر نیا دین اختیار کر لیا، انھوں نے صرف یہ جواب دیا کہ ہمارے اعمال کے ہم ذمہ دار ہیں اور تمھارے اعمال کے تم، جب نجاشی کو اس بات کی اطلاع ہوئی تو اس نے پانچ پادریوں اور سات راہبوں پر مشتمل ایک وفد تحقیق حال کے لیے مکہ بھیجا، جب انھوں نے حضورﷺ کی زبان ِمبارک سے قرآن سنا تو وہ بھی ایما ن لے آئے۔
نجاشی کا جوابی خط
طبری اور ابن اسحق کے حوالے سے ڈاکٹر حمیداللہ نے اپنی کتاب " رسول اکرمﷺ کی سیاسی زندگی" میں نجاشی کے جوابی خط کو بھی نقل کیا ہے، ممکن ہے کہ یہ خط اسی وفد کے ذریعہ روانہ کیا گیا ہو گا، خط کا مضمون حسب ذیل ہے:
بسم اللہ الرحمن الرحیم
بخدمت محمد ﷺرسول اللہ… از طرف نجاشی اصحم بن ابجر
تجھ پر اے نبی ﷺ سلام اور اللہ کی رحمتیں اور برکتیں، اس اللہ کی جس کے سوا کوئی معبود نہیں اور جس نے مجھے اسلام کی ہدایت دی یا رسول
اللہ ! آپﷺ کا خط مجھے ملا جس میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا ذکر تھا، زمین اور آسمان کے مالک کی قسم آپ ﷺ کی بیان کردہ چیز سے حضرت عیسیٰ علیہ السلام رتی بھر بھی زیادہ نہیں ہیں، وہ ویسے ہی تھے جیسے آپﷺ نے فرمایا، ہم نے آپﷺ کے فرستادوں سے تعارف حاصل کیا اور آپﷺ کے چچا زاد بھائی اور اس کے ساتھیوں کی مہمان داری کی، میں اقرار کرتا ہوں کہ آپﷺ سچے اور تصدیق یاب رسول ہیں، میں نے آپﷺ کے چچا
زاد بھائی اور اس کے ساتھیوں سے بیعت کی اور اس ہاتھوں خدائے رب العالمین کے سامنے سرِ اطاعت خم کیا، میں نے آپﷺ کی خدمت میں اپنے بیٹے ارھا
بن اصحم بن ابجر کو بھیجا ہے، کیونکہ اپنی ذات کے سوا کسی کا مالک نہیں، اگر آپﷺ چاہیں میں آپﷺ کے پاس آجاؤں گا کیونکہ میں اقرار کرتا ہوں
کہ آپﷺ جو فرماتے ہیں حق ہے، والسلام علیک یا رسول اللہ۔ [163]
نجاشی نے اپنے ایک بیٹے کو کشتی کے ذریعہ حجاز روانہ کیا ؛لیکن وہ کشتی تمام مسافروں کے ساتھ سمندر میں ڈوب گئی، نجاشی کا ایک اور بیٹا ابو
نیزر مکہ کے ایک تاجر کے پاس تھا، حضرت علیؓ نے نجاشی کے مسلمانوں کے ساتھ حسن سلوک کی بدولت اس کے بیٹے کو خرید کر آزاد کر دیا، یہ لڑکا نوجوان تھا اور ساتھ ساتھ خوبصورت بھی، حبشہ سے کچھ لوگ اس کے پاس آکر ایک مہینہ مقیم رہے اور اس سے حبشہ چلنے کے لیے کہا اور یہ بھی کہا کہ وہ اس کو اپنا بادشاہ بنا لیں گے ؛لیکن اس نے یہ کہہ کر انکار کر دیا کہ میں اسلام قبول کرچکا ہوں اس لیے واپس نہیں جاؤں گا، بعد میں آنحضرت ﷺ کی مدینہ کو ہجرت کی اطلاع جب حبشہ پہنچی تو مہاجرین میں سے (33) مرد اور (248) صحابہؓ کو غزوۂ بدر میں شرکت کا موقع ملا
حضرت حمزہ ؓکا ایمان لانا
حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کے چچا حضرت حمزہؓ کو حضور سے خاص محبت تھی، وہ آپﷺ سے دو تین سال بڑے تھے اور ساتھ کے کھیلے تھے، دونوں نے ثویبہ کا دودھ پیا تھا اور اس رشتہ سے آپﷺ کے دودھ شریک بھائی تھے، وہ ابھی تک اسلام قبول نہیں کیے تھے؛ لیکن حضور ﷺ کی ہر ادا کو محبت کی نظر سے دیکھتے تھے، ان کا مذاقِ طبیعت شکار اور سپاہ گری تھا، ان کا معمول تھا کہ منہ اندھیرے تیر کمان لے کر نکل جاتے اور دن بھر کے شکار کے بعد شام میں واپس ہوتے تو پہلے حرم میں جاتے اور طواف کے بعد قریش کے سرداروں کے پاس جاتے جو صحنِ حرم میں بیٹھا کرتے تھے، اس طرح سب سے ان کی دوستی تھی اور سب ان کی قدر کرتے تھے۔
ایک روز آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم صفا کی پہاڑی پر سے گذر رہے تھے کہ ابو جہل کا سامنا ہوا، وہ آپﷺ کا ازلی دشمن تھا، اس نے آپﷺ کو تنہا دیکھ کر گالیاں دیں اور پتھر سے زخمی بھی کر دیا، دور سے عبد اللہ بن جد عان کی آزاد کردہ کنیز کوہ صفاء پر واقع اپنے مکان سے یہ سب دیکھ رہی تھی، جب حضرت حمزہؓ شکار سے واپس ہوئے تو اس کنیز نے سارا ماجرا سنایا، مشتعل ہو کر ابو جہل کی تلاش میں نکلے تو دیکھا کہ وہ بنی مخزوم کے حلقہ میں بیٹھا ہے، سیدھے وہیں پہنچے اور کمان اس کے سر پر دے ماری اور کہا کہ میں مسلمان ہو گیا ہوں۔[164]
حضورﷺ کی حمایت میں انھوں نے اسلام کا اظہار تو کر دیا؛ لیکن گھر پر آئے تو متردد تھے کہ آبائی دین کو دفعتاً کیو ں کر چھوڑ دوں، تمام دن کی غور و فکر کے بعد یہ فیصلہ کیا کہ دین ِ حق یہی ہے، اس کے بعد حضرت حمزہؓ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور کہا ! برادر زادے خوش ہو جاؤ کہ میں نے ابو جہل سے آپ کا بدلہ لے لیا ہے، آپﷺ نے فرمایا ! چچا میں تو اس وقت خوش ہوتا جب آپ دینِ اسلام قبول کر لیتے، یہ سن کر حضرت حمزہؓ نے کلمہ شہادت پڑھ لیا، حضرت حمزہؓ کے اسلام لانے کے بعد قریش نے سمجھ لیا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کو قوت کے ساتھ حفاظت و حمایت بھی حاصل ہو گئی ہے اس لیے آپﷺ کو ستا نا چھوڑ دیا، حضرت حمزہؓ نے غزوۂ بدر میں عتبہ کو قتل کیا، 3 ہجری میں غزوۂ اُحد میں شہید ہوئے، حضورﷺ نے سیدالشہدأ کا خطاب دیا، اسد اللہ ان کا لقب تھا۔
حضرت عمرؓ کا ایمان لانا
حضور اکرم ﷺ کی بعثت کے وقت حضرت عمرؓ کی عمر ستائیس سال تھی، حضرت عمرؓ کی بہن فاطمہ ؓ کا نکاح حضرت سعیدؓ بن زید سے ہوا تھا جو اسلا م قبول کر چکے تھے، حضرت فاطمہؓ بھی اسلام قبول کر چکی تھیں؛ لیکن حضرت عمر ؓ ابھی تک اسلام سے بیگانہ تھے، قبیلہ کے جو لوگ اسلام لا چکے تھے ان کے دشمن ہو گئے، لبینہؓ ان کے خاندان کی کنیزتھی جس نے اسلام قبول کر لیا تھا، اس کو بے تحاشہ مارتے اور مارتے مارتے تھک جاتے تو کہتے کہ" دم لے لوں تو پھر ماروں گا" لبینہؓ کے علاوہ اور جس جس پر قابو چلتا اس کو خوب مارتے تھے لیکن ایک شخص کو بھی وہ اسلام سے دل بر داشتہ نہ کرسکے، آخر مجبور ہو کر ( نعوذ باللہ) خود حضور ﷺ کے قتل کا ارادہ کیا اور تلوار حمائل کر کے سیدھے حضور ﷺ کے مکان کی طرف چلے، راستہ
میں بنی زہرہ کے نعیمؓ بن عبد اللہ النّحام سے ملاقات ہو ئی، پوچھا ! کدھر کا ارادہ ہے ؟ جواب دیاکہ حضور ﷺ کا فیصلہ کرنے جاتا ہوں، انھوں نے کہا ! پہلے اپنے گھر کی خبر لو، خود تمھاری بہن اور بہنوئی اسلام قبول کر چکے ہیں، فوراً پلٹے اور بہن کے گھر پہنچے، وہ قرآن پڑھ رہی تھیں، ان کی آوازسنتے ہی چپ ہو گئیں اور قرآن کے اجزا چھپا لیے، بات یہ تھی کہ جب کوئی محتاج شخص مسلمان ہوتا تو حضور ﷺ اسے کسی آسودہ حال صحابی کے سپرد کر دیتے تا کہ اس کی ضروریات کی کفالت کرے، اُم انمار کے غلام حضرت خبّاب بن ارت ایمان لائے تو انھیں حضرت سعیدؓ بن زید کے سپرد کیا گیا، یہ دونوں انھی سے قرآن سیکھ رہے تھے۔ [165]
دروازہ کھلنے پر اندر داخل ہوئے اور پوچھا !یہ کیا آواز تھی، بولیں! کچھ نہیں، انھوں نے کہا! میں سن چکا ہوں، تم دونوں گمراہ ہو چکے ہو، بہنوئی
حضرت سعیدؓ بن زید نے کہا ! گمراہی کا دین وہ ہے جس پر تم چل رہے ہو، یہ سنتے ہی حضرت عمرؓ آپے سے باہر ہو گئے اور انھیں بے تحاشہ زد و کوب کیا، آپ کی بہن فاطمہؓ بچانے آئیں تو انھیں بھی لہو لہان کر دیا، بولیں‘ عمر ! جو چاہے کر لو؛ لیکن اب اسلام دل سے نہیں نکل سکتا، بہن کے جسم سے جاری خون دیکھ کر حضرت عمر ؓ پر رقت طاری ہوئی، پوچھا ! وہ کیا چیز تھی جو تم لوگ پڑھ رہے تھے، بہن نے کہا ! کلام الٰہی، حضر ت عمرؓ نے کہا ! میں بھی توذرا دیکھوں، فرمایا ! جب تک پاک نہ ہو جاؤ ہاتھ نہیں لگا سکتے، پوچھا ! ا س کا طریقہ ؟ فرمایا ! وضو اور غسل، حضرت عمرؓ جب غسل کر کے آئے تو بہن نے محسوس کیا کہ بھائی کا چہرہ ہی بدل گیا ہے، بہن نے ہرن کی کھال پر لکھی سورۂ طہٰ پیش کی جو وہ اور ان کے شوہر حضرت سعیدؓ، حضرت خبّاب ؓ بن ارت کے سامنے تلاوت کر رہے تھے، یہ دیکھ کر حضرت عمرؓ بے اختیار پکار اٹھے ! کیا ہی اچھا اور بزرگ کلام ہے، کہا ! مجھے فوراً آنحضرت ﷺ کے پاس لے چلو، یہ سن کر حضرت خبّاب بن ارت جو کہیں چھپ گئے تھے فوراً باہر آئے اور عرض کیا ! ابھی کل کی بات ہے کہ حضورﷺ نے صفا کے دامن میں دعا مانگی تھی، خداوندا !عمربن ہشام ( ابو جہل ) اور عمربن خطاب دونوں میں سے جسے تو عزیز رکھتا ہو اسے اسلام قبول کرنے کی توفیق نصیب فرما، ابن عساکر کے بموجب اللہ تعالیٰ نے حضور ﷺ کو بذریعہ وحی مطلع فرمایا تھا کہ ابو جہل ایمان نہیں لائے گا تو آپ ﷺنے یہ دعا فرمائی " اے اللہ عمر بن خطّاب سے اسلام کو قوت دے " [166]
یہ وہ زمانہ تھا کہ آنحضرت ﷺ کوہ ِ صفا کے دامن میں واقع حضرت ارقم ؓکے مکان میں قیام پزیر تھے، حضرت عمرؓ نے اس مکان پر پہنچ کر دستک دی، چونکہ وہ تلوار حمائل کیے ہوئے تھے اس لیے صحابہ ؓ کو تردد ہوا، لیکن حضرت حمزہؓ نے کہا، آنے دو ! مخلصانہ آیا ہے تو بہت رہے ورنہ اسی کی تلوار سے اس کا سر قلم کر دوں گا۔
حضرت عمرؓ نے اندر قدم رکھاتو آنحضرت ﷺ خود آگے بڑھے اور ان کادامن پکڑ کے فرمایا:کیوں عمر ! کس ارادے سے آیا ہے ؟ حضور ﷺ کی پر جلال آواز
نے ان کو کپکپا دیا، نہایت خشوع و خضوع کے ساتھ عرض کیا، ایمان لانے کے لیے اور فوراً کلمہ شہادت پڑھ لیا، آنحضرت ﷺ بے اختیار اللہ اکبر پکار اٹھے اور ساتھ ہی تمام صحابہ ؓ نے مل کر اس زور سے اللہ اکبر کا نعرہ لگایا کہ مکہ کی تمام پہاڑیا ں گونج اٹھیں۔ [167]
اس کے بعد حضرت عمرؓ نے عرض کیا یا رسول اللہ ! کفّار تو لا ت و عزّیٰ کی پوجا علانیہ کریں اور ہم اللہ واحد کی عبادت چُھپ کر کریں، ایسا نہیں ہو سکتا، اب تو بیت اللہ میں عبادت ہوگی، حضرت عمرؓ نے آواز لگائی کہ کفّار میں سے جس کسی نے مزاحمت کی اس کا سر قلم کر دیا جائے گا، چنانچہ مسلمانوں نے حضور ﷺ کی امامت میں خانہ کعبہ میں نماز با جماعت ادا کی، حضرت عمرؓ کو ملا کر ان کی تعداد چالیس تھی، اس موقع پر حضورﷺ نے
حضرت عمرؓ کو " فاروق" ( حق و باطل میں حد فاصل قائم کرنے والا ) کہہ کر پکارا، یہ ذی الحجہ کامہینہ تھا اور حضرت حمزہؓ کو ایمان لائے صرف تین دن ہوئے تھے۔ [168]
حضرت عبد اللہ بن عباس کی روایت ہے کہ اس وقت حضرت جبریلؑ نازل ہوئے اور فرمایا: اے محمد ! تمام اہل آسمان عمرؓ کے ایمان لانے پرمسرور اور شادماں
ہیں، اسی روز سورۂ انفال کی آیت 64 بھی نازل ہوئی جس میں صحابہ ؓ کو پہلی بار مومن کہہ کر پکارا گیا:
" اے نبی آپﷺ کو اللہ اور آپﷺ کے مومن متبعین کافی ہیں"
[169]
حضر ت عمرؓ کے اسلام لانے کے بعد مسلمانوں میں اتنی ہمت پیدا ہو گئی کہ صحنِ کعبہ میں حلقہ بنا کر بیٹھنے لگے اور بے خوف ہوکر طواف کرنے لگے، حضرت عبد اللہ ؓ بن مسعودکا قول ہے کہ حضرت عمرؓ کے ایمان لانے کے بعد ہم برابر غالب آتے گئے، ان کا ایمان اسلام کی فتح، ان کی ہجرت تائید ایزدی اور ان کی خلافت اللہ کی رحمت تھی۔
قریش کی مشاورت
دانشوران کفر نے دارالندو میں تمام سرداروں کو جمع کرکے مشورہ کیا جس میں طئے ہو ا کہ سب مل کر محمدﷺ سے راست گفتگو کریں، چنانچہ آدمی بھیج کر بلوانے کے بعد آپﷺ تشریف لائے تو انھوں نے آپﷺ کے سامنے زر، زن اور زمین کی پیشکشی کی تجاویز رکھیں، جسے سن کر آپﷺ نے فرمایا کہ مجھے یہ سب نہیں چاہیے، اللہ تعالیٰ نے مجھے اپنا رسول بنا کر مجھ پر اپنی کتاب اُتاری ہے، اگر تم اسے قبول کروگے تو دنیا اور آخرت میں بھلائی پاؤ گے، انھوں نے آپﷺ سے یہ بھی کہا کہ آپﷺ دعا کریں کہ کوئی فرشتہ آسمان سے نازل ہوکر آپ کی تصدیق کرے اور یہ کہ کیا آپ کا رب آپ کو بڑے بڑے محلات اور سونے چاندی کا خزانہ نہیں دے سکتا کہ آپ کسبِ معاش سے بے فکر ہوجائیں، آپﷺ نے فرمایا کہ مجھے دنیا میں بشیر و نذیر بنا کر بھیجا گیا ہے، تم مانو تو اس میں تمھارا ہی فائدہ ہے اور نہ مانو تو میں صبر کروں گا، اس پر قریش نے کہا کہ اپنے اللہ سے کہہ کر ہم پر کوئی عذاب ہی لے آؤ جس پر آپﷺ نے فرمایا کہ عذاب نازل کرنا اللہ کے اختیار میں ہے وہ چاہے تو فوری نازل کرسکتا ہے یا مہلت دے سکتا ہے۔ سرداران ِکفر نے طئے کیا کہ یثرب کے یہودی علما سے جو آسمانی کتابوں کا علم رکھتے ہیں مشورہ کیا جائے، چنانچہ بنی عبد الدار کا نضر بن حارث اور بنی اُمیہ کا عقبہ بن ابی معیط یثرب گئے، علما نے ایک سوال نامہ مرتب کیا اور کہا کہ محمدﷺ سے کہو کہ اس کا جواب دیں:
1- وہ کون لوگ ہیں جو غار میں چھپے تھے اور ان کا کیا قصہ ہے ؟
2- وہ کون شخص ہے جس نے مشرق سے مغرب تک روئے زمین کو چھان مارا ؟
3- روح کیا شے ہے ؟
یہود ی علما نے قریش کے سفیروں سے یہ بھی کہا کہ اگر محمدﷺ پہلے اور دوسرے سوال کا جواب دے دیں اور تیسرے پر سکوت فرمائیں تو سمجھ لو
کہ یہ نبی ٔ مرسل ہیں، چنانچہ کفار یہ سوال نامہ لے کر حضور ﷺ کے پاس آئے اور آپﷺ کے سامنے پیش کیے، آپﷺ نے فرمایا کل اس کا جواب دوں گا،
انشاء اللہ کہنا بھول گئے جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ چند دن تک وحی کا نزول نہیں ہوا، جس کی وجہ حضور ﷺ تشویش میں مبتلا رہے اور کفار میں چہ
میگوئیاں ہونے لگیں کہ محمدﷺ نے کل جواب دینے کا وعدہ کیا تھا لیکن پندرہ دن بعد بھی نہیں دیے، اس موقع پر سورۂ کہف نازل ہوئی جس میں پہلے
سوال کا جواب اصحاب کہف کا واقعہ تھا اوردوسرے کا جواب ذوالقرنین کا قصہ تھا، تیسرے سوال کے متعلق فرمایا گیا، آپ کہہ دیجئے کہ روح ایک چیز ہے اللہ کے حکم سے، انشاء اللہ کہنے کے بارے میں سورۂ کہف کی آیت 23 میں فرمایا گیا کہ اگر کوئی چیز کرنا چاہو تو انشاء اللہ اس کے ساتھ ضرور ملا لو۔، [170]
ابو طالب کی دعوت
کفّار قریش دیکھ رہے تھے کہ ان کی مزاحمت کے باوجود اسلام پھیلتا ہی جاتا ہے، حضرت حمزہ ؓ اور حضرت عمرؓ جیسے لوگ ایمان لا چکے ہیں، نجاشی نے مسلمانوں کو پناہ دی اور وہاں سے ان کے سفراء بے نیل مرام واپس آئے، قریش کا رویّہ دن بہ دن سخت سے سخت تر ہوتا جاتاتھا، معاندانہ سرگرمیاں اور سازشیں تیز سے تیز تر ہوتی جارہی تھیں، اس سے بنی ہاشم کے سردار کس طرح اپنی آنکھیں بند کر سکتے تھے، انھوں نے بنی ہاشم اور بنی مطلّب کو جمع کیا، عصبیتِ قبیلہ کی بنا پر سب ایک ہو گئے بجز ابو لہب کے، یہ دینی مسئلہ نہیں بلکہ قبیلہ کی حمایت کا سوال تھا، سرداران قریش نے ابو طالب کے پاس جاکر یہ دھمکی دی کے آپ اپنے بھتیجے کو ایسی باتوں سے روکیں یا ہم سے بر سر پیکار ہوجائیں یہاں تک کہ ایک فریق فنا ہوجائے، اس کے بعد ابو طالب نے حضور ﷺ کو بلاکر کہا کہ اے بھتیجے آپ مجھ پر اور اپنی ذات پر رحم کھائیے اور ناقابل برداشت بوجھ مجھ پر نہ ڈالئے، یہ سن کر حضور ﷺ نے فرمایا:" اے چچا جان واﷲ اگر وہ میرے دائیں ہاتھ پر آفتاب اور بائیں ہاتھ پر مہتاب بھی رکھ دیں تو میں اپنی دعوت سے باز نہ آوں گا۔
جب ابو طالب نے یہ متحدہ محاذ دیکھا تو انھوں نے یہ طئے کیا کہ محمد(ﷺ) کی حفاظت و حمایت کی بات بنو ہاشم کے سامنے رکھیں اور ان کو بھی اس کی دعوت دیں اور محمد(ﷺ) کی حفاظت و حمایت کا عہد ان سے لیں، ابو طالب کی دعوت پر بجز دشمن اسلام ابو لہب کے بنو ہاشم کا ایک ایک فرد جمع ہو گیا اور جب بنو ہاشم کے سامنے ابو طالب نے قریش کی معاندانہ اور ظالمانہ کارروائیوں کی شدت کی روداد کو رکھ کر محمد(ﷺ) کی حفاظت اور حمایت کا مسئلہ ان کے سامنے رکھا اور اپنے عہد و عزیمت کا ان کے سامنے اظہا رکیا اور ان کو بھی اس کی دعوت دی تو سبھوں نے ابو طالب کی دعوت پر لبیک کہا اور عہد کیا کہ ہم ہر حال میں آپ کے ساتھ رہیں گے، ابو طالب اپنے نوجوانوں کے اس فیصلہ سے بہت مسرور ہوئے اور انتہائی مسرت میں پر جوش الفاظ میں خاندانی مفاخرت اور ہاشمی شجاعت اور ہمیشہ ظلم کی مدافعت میں سینہ سپر رہنے کی روایات پر اشعار کہے اور قصائد لکھ کر بنو ہاشم کو ان کی عظمت کا احساس دلایا، یہ اشعار کعبہ میں بلند آواز میں پڑھے گئے، ابن اسحاق کے مطابق ابو طالب کو جب قریش کے حملہ کا خطرہ پیدا ہوا تو انھوں نے ایک قصیدہ لامیہ لکھا جو (94) اشعار پر مشتمل ہے اور جس میں حرم کعبہ کے ساتھ پناہ مانگی ہے اور قوم کے روساء سے دوستی کا اظہا ر کیا ہے کہ وہ تاحیات رسول اﷲﷺ کی مدد اور نصرت سے دستبردار نہ ہوں گے، علامہ ابن کثیر نے لکھا ہے کہ یہ عظیم الشان قصیدہ نہایت فصیح و بلیغ ہے، اس قصیدہ کا قائل وہی ہوسکتاہے جس کی طرف منسوب ہے، یہ قصیدہ سبعہ معلقہ سے الفاظ کے لحاظ سے ایک اعلیٰ شاہکار اور معانی کی حیثیت سے نہایت بلیغ و فصیح ہے، ان اشعار کے ذریعہ ابو طالب نے ابو لہب
کو غیرت دلائی، ابو طالب کی کوششوں سے بنی ہاشم، بنی مطلّب اور بنی عبد مناف کی عصبیت جاگ اٹھی۔
ابو طالب نے اس قصیدہ کے ذریعہ جہاں بنی ہاشم اور بنی مطلب کو ایک جگہ جمع کیا وہاں حضور ﷺ سے بے پناہ محبت کا اظہار بھی کیا ہے، چنانچہ
ایک شعر میں کہتے ہیں، بخدا ! ہم کبھی محمدﷺ کو تمھارے سپرد نہ کریں گے خواہ ہمارے درمیان معرکہ گرم ہو جائے، آپﷺ کی حفاظت کے لیے ہم کثرت سے آپﷺ کے گرد و پیش جمع ہو جائیں گے حتیٰ کہ اپنے بچوں اور بیویوں سے بھی غافل ہو جائیں گے، ایک اور شعر میں کہتے ہیں، میری عمر کی قسم ! مجھے احمد " صلی اللہ علیہ و سلم" اور اس کے بھائیوں سے بے پناہ محبت ہے جس طرح ایک محب خالص کی عادت ہوتی ہے۔
اس پُر زور قصیدہ نے قبائلی وقار کی خاطر منتشر قوتوں کو یکجا کر دیا بنی ہاشم، بنی مطلب اور بنی عبد مناف تینوں گھرانے آنحضرت ﷺ کی حفاظت کے لیے متحد ہو گئے۔ [171]
سماجی مقاطعہ
دانشوران کفر نے بعد مشورہ قبیلہ بنی ہاشم کے سماجی و معاشی مقاطعہ کی تجویز منظور کی اس لیے کہ حضوراکرم ﷺ کا تعلق اسی گھرانہ سے تھا اور دوسرے یہ کہ بہ حیثیت سربراہ قبیلہ ابو طالب نے ان کی بار بار کی درخواست کو ٹھکرا دیا تھا، انھوں نے خیال کیا کہ اگر بنی ہاشم کو یوں بے بس کر دیا جائے تو خود بخود محمدﷺ کو ان کے حوالے کر دیں گے، اس تجویز کو عملی جامہ پہنا نے کے لیے اک عہد نامہ مرتب ہوا جو بنی ہاشم، بنی مطلّب اور بنی عبد مناف کے خلاف تھا، یہ مقاطعہ کسی خاص مدت کے لیے نہیں تھا بلکہ غیر معینہ مدت کے لیے تھا جب تک محصورین خود آنحضرتﷺ کو ان کے حوالے نہ کر دیں، مقاطعہ کی اہم شرائط حسب ذیل ہیں:
1- ذریعہ معاش تباہ کرنے کے لیے کوئی بھی ان کے ساتھ لین دین اور خرید و فروخت نہ کرے گا۔
2- بنی ہاشم سے صلہ رحمی باقی نہ رکھنے کے لیے کوئی بھی ان کی لڑکیوں سے نکاح نہیں کرے گا اورنہ اپنی بیٹی انھیں دے گا۔
3-انھیں اپنی صحبت میں بھی نہیں بیٹھنے دیا جائے گا تاکہ کوئی شخص ان کی باتوں سے متاثر نہ ہو۔
4-ان سے قطع تعلق کرنے کے لیے کوئی بھی ان سے بات چیت نہیں کرے گا۔
5-انھیں بھوکے رکھنے کے لیے خوراک فراہم نہیں کی جائے گی اور ان کا کوئی حمایتی انھیں خوراک نہیں پہنچائے گا۔
6-سب لوگوں سے روابط ختم کرنے کے لیے انھیں بازاروں میں گھومنے پھرنے نہیں دیا جائے گا۔
اس سماجی مقاطعہ سے قریش جنگ کا خطرہ محسوس کرتے تھے، اس لیے انھوں نے بغیر جنگ کے خطرہ کے ایک حل تجویز کیا، کفار قریش خیف بنی کنانہ میں جمع ہوئے جو ابطح اور محسب بھی کہلاتی ہے اور جو مقابر کے قریب ہے، یہاں جمع ہوکر انھوں نے بنی ہاشم سے بائیکاٹ کا فیصلہ کیا اور اس مقاطعہ کا تحریری عہد نامہ مختصر الفاظ میں چمڑہ پر لکھوایاگیا، اس کے کاتبوں میں چار لوگوں کے نام تاریخ میں ملتے ہیں، علامہ ابن کثیر نے ہشام
بن عمرو بن اسحاق، طلحہ بن ابی طلحہ اور منصور بن عکرمہ بن ہاشم (بنی عبدالدار) کے نام لکھے ہیں،(2) ابن ہشام نے نضر بن حارث کو اس کا کاتب
لکھاہے (3)حافظ ابن قیّم نے زادالمعاد میں بغیض بن عامر کا نام لکھا ہے، جب کہ ابن سعد نے طبقات میں بغیض بن عامر کا نام تحریر کیا ہے، عام مورخین کا رجحان منصور بن عکرمہ کی طرف ہے، اس معاہدہ کے لکھنے والے کے حق میں حضور ﷺ نے بددعا فرمائی تھی، ابن سعد کا بیان ہے کہ یہ منصور بن
عکرمہ تھا جس کا ہاتھ شل ہو گیا تھا، اس عہد نامہ پر قبائل قریش کے تمام سرداروں نے دستخط کیے تھے جن میں حضور ﷺ کا چچا اور بنی ہاشم کا
سردار ابو لہب بھی شامل تھا، عہد جاہلیت کے شعرا کی تخلیقات جو " سبعہ معلقات " کے نام سے مشہو رہیں انھیں خانہ کعبہ کی چھت سے لٹکایا گیا تھا، اسی طرح یہ معاہدہ بھی چھت سے لٹکایاگیا تاکہ اسے مقدس سمجھا جائے، مقاطعہ کی یہ دستاویز یکم محرم 7 نبوت مطابق 617ء کو لکھی گئی۔ [172]
شعب ابی طالب
یہ عہد نامہ کعبہ میں اس اعلان کے ساتھ لٹکایا گیا کہ جب تک بنی ہاشم ‘ محمد بن عبد اللہ کو قریش کے حوالے نہیں کریں گے یہ لٹکا رہے گا، ابو طالب
مجبور ہو کر بنو ہاشم اور بنی مطلّب کی حفاظت کی خاطرپہلی محرم 7 نبوی کی شب کو تمام خاندان بنی ہاشم کے ساتھ بجز ابولہب کے کوہ ابو قبیس میں واقع گھاٹی شعب ابی طالب میں پناہ گزیں ہو گئے، گھاٹی کو عربی میں شعب کہتے ہیں، کوہ ابو قبیس میں کئی گھاٹیاں تھیں جیسے شعب المطلب، شعب بنی ہاشم، شعب بنی اسد، شعب بنی عامر، شعب بنی کنانہ وغیرہ، یہ شعب بنی ہاشم کی موروثی ملکیت تھی، اس وقت بنی ہاشم کے سردارابو طالب تھے اس لیے یہ گھاٹی انھی کے نام سے شعب ابی طالب کہلانے لگی، آج کل شعب ابی طالب مکہ کے بازار "سوق اللیل " کے مقابل ایک بستی ہے جو اطراف کی تین گھاٹیوں کے درمیان ہے، اسے محلۂ ہاشمی بھے کہتے ہیں، مولد النبی، مولد علی اور دارِ خدیجہؓ اس شعب میں واقع ہیں، اسے شعب علی ؓیا شعب بنی ہاشم کہا جاتا ہے۔ [173]
اس محصوری کے زمانے میں تمام محصورین مصائب و آلام کاشکار تھے کھانے پینے کی چیزوں کا ذخیرہ چند مہینوں میں ختم ہو گیا اس لیے فقر و فاقہ کی نوبت آگئی اور جب بچے بھوک سے روتے تھے تو باہر قریش سن سن کر خوش ہوتے تھے، حدیثوں میں جو صحابہ ؓ کی زبان سے مذکور ہے کہ ہم طلح کی پتیاں کھا کھا کر بسر کرتے تھے یہ اسی زمانہ کا واقعہ ہے، چنانچہ سہیلی نے روض الانف میں تصریح بھی کی ہے، حضرت سعد ؓ بن ابی وقاص کا بیان ہے کہ ایک دفعہ رات کو اونٹ کا سوکھا ہوا چمڑا ہاتھ آگیا میں نے اس کو پانی سے دھویا ‘ پھر آگ پر بھونا اور پانی میں ملا کر کھایا۔ [174]
حُبّ رسول اور اسلام کی خاطر تمام محصورین یہ تکالیف برداشت کر رہے تھے، اُم المومنین حضرت خدیجہؓ نے جو ناز و نعم میں پلی بڑھی تھیں ؛لیکن ہرطرح کی مصیبت اور فقر و فاقہ برداشت کیا اور حضور ﷺ کی غم گساری کی اور مسلم خواتین کے لیے ایک بہترین مثال چھوڑ گیئں، محصوری کے دوران ابو طالب اس قدر احتیاط کرتے تھے کہ جب لوگ اپنے بستروں پر سونے کے لیے دراز ہوجاتے تو رسول اﷲ ﷺ کو ایک بستر پر لیٹنے کے لیے کہتے تاکہ آپﷺ کے قتل و غارت کا ارادہ رکھنے والا دیکھ لے(کہ آپﷺ یہاں سو رہے ہیں) جب لوگ نیند میں مدہوش ہوجاتے تو اپنے کسی عزیز کو بیدار کرکے رسول اﷲﷺ کے بستر پر دراز ہونے کو کہتے اور رسول اﷲﷺ کو اس کے بستر پر لیٹ جانے کا اشارہ کرتے، محصورین صرف ایام حج میں ہی شعب سے باہر نکل سکتے تھے اور اس وقت بھی قریش یہ کرتے کہ کھانے پینے کی چیزوں کو زائد قیمت پر خرید لیتے تا کہ محصورین کو کچھ نہ مل سکے جس کا منشا صرف ان کاعرصۂ حیات تنگ کرنا تھا، بعض رحم دل انسانوں کو محصورین کی اس حالت پر ترس بھی آتا تو وہ چوری چھپے کچھ غلہ پہنچانے کی کوشش کرتے ؛لیکن کڑی نگرانی کے باعث انھیں بھی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا تھا، ایک روزحکیم بن حزام نے جو حضرت خدیجہ ؓ کے بھتیجے تھے راتوں میں چھپ چھپاتے ہوئے اپنے غلام کے ذریعہ کچھ گیہوں بھیجے تو راستہ میں ابو جہل نے دیکھا اور چھین لینا چاہا، اتفاق سے ابو البختری بن ہشام وہاں آگیا اور اس نے بیچ بچاؤ کیا، وہ اگرچہ کافر تھا؛ لیکن اس کو بھی رحم آیا اور کہا کہ ایک شخص اپنی پھوپھی کو کھانے کے لیے کچھ غلہ بھیجتا ہے تو کیوں روکتا ہے، لیکن ابوجہل نے سر کشی دکھائی تو ابو البختری نے قریب میں پڑی اونٹ کے جبڑے کی ہڈی اس پر دے ماری اور خوب زد و کوب کیا، یہ منظر شعب سے حضرت حمزہؓ دیکھ رہے تھے۔ [175]
عبد مناف کا ایک رشتہ دار ہشام بن عمرو بن حارث تھا جو بہت شریف اور نیک طینت انسان تھا، محصور ین کی حالت پر رحم کھا کر رات میں اونٹ
پر اجناس لاد کر شعب میں ہانک دیتا، بنی ہاشم سامان اتار کر اونٹ کو باہر بھیج دیتے، آنحضرت ﷺکے بڑے داماد ابو العاصؓ بن ربیع( حضرت زینبؓ کے شوہر) جن کا تعلق بنی اُمیہ سے تھا وہ بھی اکثر راتوں میں کھجور اور گیہوں شعب میں بھجوادیتے۔
قرآن اور تجدید دعوت
نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بعثت جبکہ بعثت عام ہے تو از بس ضروری ہوا کہ کائنات انسانی کی رشد و ہدایت کے لیے خدا کا جو پیغام آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ذریعہ آئے وہ آخری پیغام اور کامل و مکمل پیغام ہو اور فطرت کے ایسے سانچے میں ڈھلا ہوا ہو کہ عقل سلیم اور فطرت مستقیم تمام کائنات انسانی کے لیے اس کو ابدی اور سرمدی پیغام یقین کرے اسی پیغام الٰہی کا نام ” القرآن “ یا ” الکتاب “ ہے۔
قرآن کی تعلیم اور اس کی دعوت و اصلاح کی حقیقت معلوم کرنے سے قبل چند لمحات کے لیے مذاہب عالم کی تاریخ پر نظر ڈالنا ضروری ہے۔
قرآن کے نزول سے قبل کائنات انسانی پر چار مذہبی تصور حاوی اور فکر و نظر ذہنی پر اثر انداز تھے : ہندومت ‘ مجوسی ‘ یہودی اور مسیحی۔
ہندو مت تصور الٰہی کے متعلق خواص اور عوام کے لیے دو جدا جدا تخیلات رکھتا تھا خواص کے لیے وحدۃ الوجود (یہاں وہ وحدۃ الوجود مراد ہے جو یوگیانہ تصور کا نچوڑ ہے۔) اور عوام کے لیے اصنام پرستی ‘ وحدۃ الوجود کا تصور اس درجہ فلسفیانہ تھا کہ خدا کا صحیح تصور کسی طرح اس راہ سے ممکن نہ تھا اس لیے کہ اگر ایک جانب وہ ہر وجود کو خدا یا خدا کا جزء مانتا ہے تو دوسری جانب خدا کے لیے کوئی محدود و متعین تخیل بتانے سے عاجز تھا یہی وجہ ہے کہ ہندومت کے تمام اسکولوں (مذاہب) میں اصنام پرستی ہی کو مذہبی امتیاز رہا اور وہ توحید خالص کو مقبول خواص و عوام نہ بنا سکا۔ چنانچہ ویدک دھرم ‘ بدھ مت ‘ جین مت وغیرہ بلکہ جدید اصلاحی اسکول (مذہب) آریہ سماج سب کے سب توحید خالص کے تصور سے خالی ہیں۔
مجوسی مذہب کا اعتقادی تصور تو صاف صاف ” ثنویت “ کی بنیادوں پر قائم ہے یعنی وہ خدا کے تصور و تخیل کو خیر و شر کی جدا جدا دو متقابل قوتوں میں تقسیم کردیتا ہے ‘ وہ کہتا ہے کہ نور اور خیر کا خدا ” یزداں “ اور ظلمت و شر کا ” اہرمن “ ہے اور اس طرح خدائے خیر اور خدائے شر دو خدا کائنات ہست و بود پر متصرف اور باہم متقابل ہیں۔
یہودی مذہب اگرچہ خدا کے تصور میں مدعی توحید رہا ہے لیکن موجودہ توراۃ کے اوراق شاہد ہیں کہ اس کی نگاہ میں خدا کی ہستی تجسم سے پاک نہیں ہے اسی لیے توراۃ کا تخئیلی خدا کہیں حضرت یعقوب (علیہ السلام) سے کشتی لڑتا نظر آتا ہے اور یعقوب (علیہ السلام) اس کو پچھاڑ دیتے ہیں اور کہیں اس کی انتڑیوں میں درد ہونے لگتا ہے اور وہ اس کی وجہ سے چیختا نظر آتا ہے کبھی وہ بنی اسرائیل کو اپنی چہیتی بیوی بنا لیتا ہے تو کبھی مصر سے خروج کے وقت بادل اور آگ کا ستون بن کر بنی اسرائیل کی رہنمائی کرتا نظر آتا ہے اور کبھی اس کی آنکھیں دکھنے آجاتی ہیں وغیرہ وغیرہ۔ اور اس تصور کا آخری مظاہرہ حضرت عزیر (عزرا) (علیہ السلام) کو خدا کا بیٹا تسلیم کرنے پر مثمر ہوجاتا ہے۔
اسی طرح مسیحی تصور بھی تجسم و تشبہ کے چکر میں آ کر حضرت مسیح (علیہ السلام) کو خدا کا بیٹا مان لیتا اور اس طرح مشرکانہ عقیدہ اوتار کا تخیل اپنا لیتا ہے اور اقانیم ثلثہ (تثلیث) اور مریم پرستی میں حقیقی خدا پرستی کو گم کر بیٹھتا ہے۔
خدا کی ہستی سے متعلق یہ وہ تصورات تھے جن میں دنیا کے بڑے بنیادی مذاہب نزول قرآن کے وقت مبتلا نظر آتے ہیں۔
ان سب مذاہب میں توحید حقیقی سے غفلت نے رسالت یعنی دعوت حق کے داعی کی شخصیت کے متعلق بھی غلط تصورات پیدا کر دیے تھے چنانچہ ہندوستان کے مذہبی تصور میں تو رسالت و نبوت اپنے صحیح معنی میں نظر ہی نہیں آتی اور وہ نبی و رسول کے مفہوم سے ہی یکسر ناآشنا نظر آتا ہے اور مجوسی ‘ یہودی اور مسیحی مذاہب کے معتقدات میں اگر یہ تصور پایا بھی جاتا ہے تو افراط وتفریط کی شکل میں ‘ کبھی ابن اللہ ہو کر اور کبھی بد اخلاق و بداعمال انسان کا پیکر بن کر جیسا کہ توراۃ میں حضرت لوط (علیہ السلام) اور ان کی بیٹیوں کا ان کے ساتھ اختلاط کا واقعہ مذکور ہے۔ 1(اَلْعِیَاذُ بِاللّٰہِ مِنْ ھٰذِہِ الْخَرَافَاتِ وَالْاِفْتِرَائَاتِ )
حاشیہ 1 دیکھیے کتاب پیدائش باب 19 آیات 30 تا 38۔۔
گویا ان کے نزدیک یا تو رسول اور داعیٔ حق کی شخصیت کوئی اہمیت ہی نہیں رکھتی اور یا پھر خدا ‘ خدا کا اوتار اور خدا کا بیٹا بن کر سامنے آتی ہے اور اس لیے جس طرح وہ حقیقی توحید سے بیگانہ نظر آتے ہیں اسی طرح رسالت و نبوت کے صحیح تصور سے بھی محروم ہو چکے ہیں۔
اسی طرح عالم آخرت کے متعلق بھی ان مذاہب کے تصور کی دنیا افراط وتفریط سے خالی نہیں تھی ‘ بعض مذاہب میں تو کائنات انسانی مختلف چولوں کے چکر میں گرفتار نظر آتی اور آواگون (تناسخ) کے ناقص فلسفیانہ نقطہ نگاہ کی رہین منت بنی ہوئی ہے اور ایک حد پر پہنچ کر ” برہم “ یعنی خدا میں جذب ہوجانا نجات کا آخری نقطہ متعین کیا جاتا ہے نیز خیر و شر کی جزا و سزا کے بارے میں ایک قادر مطلق خدا نہیں بلکہ ایک جبری قانون میں جکڑی ہوئی مجبور ہستی کا تصور پیش کرتا ہے اور بعض اگرچہ تناسخ کے غلط عقیدہ سے جدا یوم معاد اور یوم حساب کے تصور سے آشنا بھی ہیں لیکن ان کے نزدیک بھی عالم آخرت کا معاملہ اعمال صالحہ و سیہ یا افعال و کردار کے حق و باطل کی جزا و سزا سے وابستہ نہیں ہے بلکہ نسلی امتیازات اور جماعتی فرقہ بندی اور یا پھر کفارہ کے ساتھ مربوط ہے۔ ان چار بنیادی مذاہب عالم کے علاوہ مشرکین اور فلاسفہ کی بعض ایسی جماعتیں بھی تھیں جو نہ خدا کی ہستی کی قائل تھیں اور نہ عالم آخرت کی اور خدا کی ہستی پر اگر ایمان بھی رکھتی تھیں تو سیکڑوں ہزاروں بلکہ بے تعدادبتوں کی باطل پرستی کے ساتھ ملوث و مجروح۔
غرض یہ تھے مذاہب عالم کے وہ ذہنی تصورات اور فکری معتقدات جن پر کائنات انسانی کی روحانی اور سرمدی سعادت کا مدار سمجھا جاتا تھا اور جو بلاشبہ اپنے نتائج وثمرات کے لحاظ سے کائنات انسانی کو مشعل ہدایت دکھا کر انسانیت کبریٰ کے درجہ تک پہنچانے اور انسانوں کا خدا کے ساتھ حقیقی معبود و عبد ہونے کا رشتہ قائم کرکے دین و دنیا کی خیر و فلاح تک پہنچانے میں قطعی تہی دامن تھے۔
انہی حالات میں ” اسلام “ کی دعوت و تبلیغ یا ” تعلیم حق “ نے رونمائی کی اور کائنات انسانی کے ہر شعبہ حیات میں گونا گوں انقلاب پیدا کرکے نیا عالم پیدا کر دیا اور آفتاب ہدایت کی روشنی سے منور بنا کر اس کو معراج کمال تک پہنچا دیا۔
توحید
نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے خدا کے کلام (قرآن) کے ذریعہ سب سے پہلے اسی عقیدہ توحید پر روشنی ڈالی اور توحید خالص کی حقیقت واضح کرکے تمام کائنات انسانی کو اس کی جانب دعوت دی۔
قرآن عزیز کی دعوت توحید کا حاصل یہ ہے کہ اللہ ایک ایسی ہستی کا نام ہے جو اپنی ذات وصفات میں ہر قسم کے شرک سے پاک اور وراء الوراء ہے نہ اس کا کوئی سہیم و شریک ہے اور نہ اس کا ہمتا و ہمسر ‘ اس لیے ابنیت کا عقیدہ ہو یا اوتار کا ‘ صنم پرستی ہو یا وثنیت و تثلیث یہ سب باطل ہیں
وہ یکتا و بے ہمتا ہے ‘ باپ ‘ بیٹا اور اس قسم کی نسبتوں سے پاک ہے پرستش کے قابل وہ خود ہے نہ کہ اس کے مظاہر اور اس کی مخلوقات وہ جس طرح تجسم و تشبہ سے بالاتر ہے اسی طرح اس کا نہ کوئی مقابل ہے اور نہ کوئی حریفانہ سہیم۔
{ اَللّٰہُ لَآ اِلٰہَ اِلَّا ھُوَ اَلْحَیُّ الْقَیُّوْمُ } [176]
” اللہ اس ہستی کا نام ہے کہ اس کے سوا کوئی معبود اور خدا نہیں ہے وہ ہمیشہ زندہ رہنے والا ہے اور زندگی کا بخشنے والا۔ “
{ وَ اعْبُدُوا اللّٰہَ وَ لَا تُشْرِکُوْا بِہٖ شَیْئًا } [177]
” پس تم اللہ ہی کی عبادت کرو اور کسی کو اس کا شریک نہ بناؤ۔ “
{ لَا تُشْرِکْ بِاللّٰہِ اِنَّ الشِّرْکَ لَظُلْمٌ عَظِیْمٌ} [178]
” اللہ کا کسی کو شریک نہ بنا ‘ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ شرک بہت بڑا ظلم ہے۔ “
{ وَ اِلٰھُکُمْ اِلٰہٌ وَّاحِدٌ} [179]
” اور خدا تمھارا ایک ہی خدا ہے۔ “
یہ اور اسی مضمون کی بیشمار آیات ہیں جو قرآن عزیز میں توحید خالص کی داعی اور مناد ہیں لیکن سورة اخلاص یا سورة توحید میں جس معجزانہ اختصار کے ساتھ توحید سے متعلق موجودہ مذاہب کے ناقص اور غلط تصورات کو باطل کرتے ہوئے توحید خالص کی تعلیم دی گئی ہے وہ خود اپنی نظیر ہے :
{ قُلْ ہُوَ اللّٰہُ اَحَدٌ۔ اَللّٰہُ الصَّمَدُ۔ لَمْ یَلِدْ 5 وَلَمْ یُوْلَدْ۔ وَلَمْ یَکُنْ لَّـہٗ کُفُوًا اَحَدٌ۔ } [180]
” (اے محمد) کہہ دیجئے اللہ یکتا ذات ہے اللہ بےنیاز ہے نہ وہ کسی کا باپ ہے اور نہ کسی کا بیٹا اور نہ اس کا کوئی ہمسر اور سہیم و شریک ہے۔ “
ایک مرتبہ توحید سے متعلق مذاہب عالم کی تعلیم پر اور نظر کیجئے اور پھر ان چند مختصر آیات کو غور و فکر کے ساتھ ملاحظہ فرمایئے تو آپ اندازہ کرسکیں گے کہ پہلی دو آیات میں توحید خالص کا صحیح اور حق تصور پیش کر دیا گیا ہے۔ قرآن کہتا ہے کہ اللہ ایسی ہستی کا نام ہے جو یکتا و بے ہمتا ہے ساری کائنات اس کی محتاج ہے اور وہ ہر قسم کے احتیاج سے پاک اور بے نیاز ہے وہ صمد ہے یعنی مجموعہ کمالات صرف صمدیت کا حصہ ہے اور بس۔
اس کے بعد وہ نصاریٰ اور یہود سے مخاطب ہو کر شمع ہدایت دکھاتا ہے کہ اللہ اس ہستی کو کہتے ہیں جو باپ اور بیٹے جیسی فانی نسبتوں سے بالاتر ہے وہ نہ کسی کا باپ ہے اور نہ کسی کا بیٹا { تَعَالَی اللّٰہُ عُلُوًّا کَبِیْرًا } (اسراء 17/43) اور اسی طرح ہندو دھرم سے کہتا ہے کہ ایسی لازوال ہستی کی مقدس شان اس سے بلند وبالا ہے کہ وہ کسی انسان یا حیوان کے جسم میں محدود ہو کر اوتار کہلائے یا اس معبود مطلق کے ساتھ چھوٹے معبودوں کا سلسلہ قائم کرکے کسی مخلوق کو اس کا سہیم و شریک ٹھہرایا جائے۔ { سُبْحَانَکَ ھٰذَا بُھْتَانٌ عَظِیْمٌ} (نور 24/16) اور وہ مجوس اور ویدک دھرم کے ان پجاریوں کو مخاطب کرتا ہے جو اس کو یزداں کہہ کر اہرمن کو اس کا مقابل حریف تسلیم کرتے ہیں یا روح (جیو) اور مادہ (پر کرتی) کو خدا کے ساتھ ازلی و ابدی (قدیم و غیر مخلوق) کہہ کر ان چیزوں کو خدا کا کفو اور ہمسر بتلاتے ہیں ‘ اور کہتا ہے
{ وَلَمْ یَکُنْ لَّـہٗ کُفُوًا اَحَدٌ۔ } (الاخلاص : 112/4)
خدا اس ہستی کا نام ہے جس کا نہ کوئی ہمسر اور حریف ہے اور نہ اس کی طرح انادی (قدیم) اور غیر مخلوق ہے۔
غرض قرآن عزیز نے خدا کی ذات واحد سے متعلق ان تمام نسبتوں کا قطعی انکار کرکے جو توحید خالص کے کسی طرح بھی معارض ہوتی تھیں اس کو یکتا اور بے ہمتا ظاہر کیا ہے اور اس طرح شرک فی الذات اور شرک فی الصفات کا قلع قمع کر دیا ہے اور شرک فی الالوہیت اور شرک فی الربوبیت کے خلاف توحید اور صرف توحید کو ہی اسلام کا بنیادی تصور قرار دیا ہے۔
یہاں یہ بات بھی قابل توجہ ہے جس طرح قرآن نے توحید کے تمام اطراف و جوانب کو نقص و خام کاری سے پاک کرکے حقیقی توحید کے تصور کی جانب رہنمائی کی اور ہر قسم کے تجسم سے وراء الوراء بتلا کر توحید کامل کی جانب دعوت دی اسی طرح اس نے توحید کے اس فلسفیانہ عقیدہ کو بھی باطل ثابت کیا جو اس باب میں تفریط کی حد تک بڑھ کر صفات الٰہی کا بھی منکر ہو گیا اور کہنے لگا کہ وہ قادر ہے بغیر قدرت کے ‘ خالق ہے بغیر خلق کے ‘ بصیر ہے بغیر رویت کے ‘ سمیع ہے بغیر سمع کے ‘ وغیرہ وغیرہ۔ اس عقیدہ کا حاصل یہ ہے کہ خدا ایسی ہستی کا نام ہے جس کے لیے ” تعطل “ لازم ہے جیسا کہ پہلی تعلیمات کا حاصل یہ تھا کہ کسی نہ کسی رنگ میں خدا کے لیے تجسم ضروری ہے۔
قرآن نے کہا کہ پہلی کیفیت اگر افراط پر مبنی تھی تو یہ تفریط پر قائم ہے اس لیے کہ ایک ذات کے لیے متعدد صفات کمال کا ہونا ذات کی وحدت پر اثر انداز نہیں ہے اس لیے بلاشبہ وہ سمیع وبصیر ہے ‘ سنتا ہے اور دیکھتا ہے لاریب وہ قدرت کاملہ کے ساتھ قادر ہے اور صفت رحم و کرم کے ساتھ رحیم و کریم ہے البتہ اس کی صفت سمع و بصر ‘ صفت رحم و کرم وغیرہ صفات کا انسانی صفات سمع و بصر سے دور کا بھی تعلق نہیں ہے اور جس طرح وہ اپنی ذات میں بے ہمتا اور یکتا ہے اسی طرح صفات میں بھی ہے :
{ لَیْسَ کَمِثْلِہٖ شَیْئٌج وَّہُوَ السَّمِیْعُ الْبَصِیْرُ } [181]
” اس (خدا) کی کوئی مثال نہیں اور یہ حقیقت ہے کہ وہ سنتا ہے دیکھتا ہے۔ “
غور فرمایئے کہ کس معجزانہ تعبیر کے ساتھ ایک ہی آیت اور ایک ہی جملہ میں اس کی صفات کمالیہ کا اعتراف بھی مذکور ہے اور یہ بھی وضاحت موجود ہے کہ خدا کی ان صفات کو انسانی صفات کی طرح نہ سمجھو بلکہ اس کی ذات کی طرح اس کی صفات بھی
{ لَیْسَ کَمِثْلِہٖ شَیْئٌ } [182]
کے عنوان سے معنون اور انسانی صفات کے حقائق کے مقابلہ میں بے مثال و بے نظیر ہیں۔
خلاصہ یہ ہے کہ خدائے برتر کی توحید جبھی حقیقی توحید کہلا سکتی ہے کہ اس میں نہ تجسم کا عقیدہ شامل حال ہو اور نہ تعطل کا کہ یہ دونوں افراط وتفریط کی راہیں ہیں بلکہ عقیدہ یہ ہو کہ اللہ اپنی ذات میں بھی بے ہمتا و یکتا ہے اور اپنی صفات میں بھی اور وہ ہر طرح کے شرک و کفر سے پاک اور برتر ہے۔
رسالت
توحید حقیقی کے ثبوت کے بعد قرآن نے رسالت کے بنیادی عقیدہ کی اصلاح بھی ضروری سمجھی اور اس نے بتلایا کہ کسی تعلیم کے حسن و قبح میں معلم کی شخصیت کو بہت بڑا دخل ہوتا ہے کیونکہ یہ ممکن ہی نہیں کہ اچھی تعلیم کا معلم بدعمل انسان ہو یا بری تعلیم کا معلم نیکوکار ‘ اور جبکہ یہ ایک حقیقت ثابتہ ہے کہ خدا ہر ایک انسان کے ساتھ براہ راست ہم کلام نہیں ہوتا تو از بس ضروری تھا کہ کائنات انسانی کی ہدایت کے لیے ایک انسان ہی کو معلم بنایا جائے اور وہی خدا کی جانب سے رسالت اور پیغامبری کا فرض انجام دے۔
پس بشری اوصاف سے متصف یہ انسان نہ خدا ہوگا اور نہ خدا کا بیٹا یا خدا کا اوتار بلکہ بشر اور انسان ہی رہے گا نیز خدا کے پیغامبر ہونے کی وجہ سے پاکی اور تقدس کا جو رشتہ اس کو خدا کی درگاہ سے وابستہ کیے ہوئے ہے اس کے پیش نظر اس کی ہستی کا نہ انکار کیا جا سکتا ہے اور نہ اس کو دوسرے انسانوں کے مساوی کہا جا سکتا ہے اس لیے قرآن نے جگہ جگہ مسیح ابن مریم اور عزیر (علیہما السلام) کے متعلق اس حقیقت کو واضح کیا کہ وہ خدا کے مقدس رسول ہیں خدا یا خدا کے بیٹے نہیں ہیں نیز یہ بھی بتلایا کہ اگر ایک انسان تمھاری طرح کھاتا بھی ہے اور پیتا بھی اور بازاروں میں چلتا پھرتا ‘ خریدو فروخت کرتا اور گھر میں اہل و عیال کے ساتھ معاشرتی زندگی بسر کرتا ہے تو اس سے یہ کیسے لازم آگیا کہ وہ خدا کا فرستادہ رسول نہیں ہے اور کس طرح یہ جائز ہے کہ ایک صادق و امین ہستی کے اس دعویٰ کو تم محض قیاس کی بنا پر جھٹلا دو کہ وہ خدا کا رسول نہیں ہے۔
قرآن نے ان حقائق کو جن صاف اور واضح تعبیرات کے ساتھ بیان کیا ہے گذشتہ صفحات میں آپ ان کا مطالعہ فرما چکے ہیں۔
پس جس کتاب میں نبوت و رسالت سے متعلق صحیح تصور موجود نہ ہو وہ کبھی اپنی مذہبی تعلیمات کی صداقت کی مکمل تصویر نہیں پیش کرسکتی ‘ یہی وہ عقیدہ ہے جس کی حقیقت میں ایمان بالرسل ‘ ایمان بالکتب ‘ ایمان بالملائکہ سب بنیادی عقائد سمٹ کر جذب ہوجاتے ہیں۔
قرآن کہتا ہے کہ جبکہ ہدایت انسانی کے لیے خدائے تعالیٰ اپنی پیغامبری کے لیے ایک انسان اور بشر کو ہی چن لیتا ہے تو یہ تسلیم کرنا پڑے گا کہ انسان نے جب سے اس کائنات میں قدم رکھا ہے اسی وقت سے رشد و ہدایت کا یہ سلسلہ قائم ہے۔
{ وَ اِنْ مِّنْ اُمَّۃٍ اِلَّا خَلَا فِیْھَا نَذِیْرٌ} [183]
” کوئی گروہ یا جماعت ایسی نہیں ہے جس میں ہماری جانب سے نذیر (پیغامبر) نہ گذرا ہو۔ “
{ وَّ لِکُلِّ قَوْمٍ ھَادٍ } [184]
” اور ہر قوم کے لیے ہادی آئے ہیں۔ “
{ مِنْہُمْ مَنْ قَصَصْنَا عَلَیْکَ وَمِنْہُمْ مَنْ لَّمْ نَقْصُصْ عَلَیْکَ }
[185]
” ان میں سے بعض کے واقعات کا ہم نے قرآن میں تذکرہ کر دیا ہے اور بعض ایسے ہیں جن کا تذکرہ قرآن میں نہیں کیا۔ “
اور یہ یقین لانا بھی ضروری ہے کہ جبکہ خدا ایک ہے اور اس کی تعلیم ایک ‘ تو بلاشبہ تمام پیغمبران خدا کی بنیادی تعلیم بھی ایک ہی رہی ہے اور اس لیے اگر خدا کے کسی ایک برحق نبی و رسول کا بھی انکار کر دیا گیا تو گویا اس نے پوری دعوت قرآنی کا انکار کر دیا پس یہ ایمان ضروری ہوا :
{ لَا نُفَرِّقُ بَیْنَ اَحَدٍ مِّنْ رُّسُلِہٖ } [186]
” ہم خدا کے پیغمبروں میں (پیغمبر ہونے کے لحاظ سے) کسی کے درمیان کوئی فرق نہیں کرتے (کہ ایک کو مان لیں اور دوسرے کو انکار کر دیں) “
لہٰذا جب تمام انبیا (علیہم السلام) پر ایمان لانا از بس ضروری ہوا تو ان پر نازل شدہ تمام کتب سماویہ پر بھی ایمان لانا جزء ایمان ہوگا ورنہ تو ایک جانب سے ایمان لا کر دوسری جانب سے اس پیغمبر کی صداقت کا انکار لازم آئے گا اور جب رسالت اور رسالت کے ساتھ کتب سماویہ پر ایمان حقیقت ثابتہ بن جائے تو ملائکۃ اللہ پر اس لیے ایمان لانا ضروری ہوگا کہ خدا کے ان پیغمبروں نے یہ صاف صاف اعلان کیا ہے کہ خدا کی جانب سے ان پر یہ وحی خدا کا فرشتہ لے کر آتا ہے تو اب یا ہم اس پیغمبر کی صداقت کا انکار کر دیں اور یا پھر بن دیکھے فرشتہ پر اس لیے ایمان لے آئیں کہ بتلانے والی ہستی اپنے کردار و اعمال میں ہر طرح صادق و امین اور امراض دماغی و قلبی ” جنون و سحر “ سے ہر طرح پاک ہے اور ضروری نہیں ہے جس شے کو آنکھوں نے نہ دیکھا ہو اور کانوں نے نہ سنا ہو وہ حقیقت میں بھی غیر موجود ہو کیونکہ یہ ایک مسلمہ اصول ہے کہ کسی شے کے عدم علم سے اس شے کا عدم لازم نہیں آتا یعنی یہ ضروری نہیں جس بات کو ہم نہیں جانتے وہ واقع میں بھی موجود نہ ہو۔
یوم آخرت
نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے خدا کے آخری اور مکمل پیغام قرآن کے ذریعہ تیسری بنیادی اصلاح یوم آخرت سے متعلق فرمائی۔
مذاہب عالم اس سلسلہ میں بھی راہ مستقیم سے رو گرداں اور افراط وتفریط کے بحر ظلمات میں پھنسے ہوئے تھے وہ یا تو آواگون 1 (تناسخ) کے چکر میں یوم آخرت کے اس تصور سے قطعاً بیگانہ ہو چکے تھے اور قیامت (پر لے) کا تعلق انسانی اعمال کی جزا و سزا اور یوم الحساب سے غیر متعلق سمجھ چکے تھے اور یا پھر اس دن نجات کا مدار اور جزا و سزا کا معیار اعمال و کردار کی جگہ نسل و خاندان اور سوسائٹی کی معاشرتی گروہ بندی پر سمجھ بیٹھے تھے اور کفارہ کو عقیدہ بنا کر حساب و محاسبہ اعمال سے مطمئن ہو چکے تھے اور مشرکین اور بعض فلاسفہ نے تو یوم آخرت کے وجود ہی کا انکار کر دیا تھا اور ان کی سمجھ میں ہی نہیں آتا تھا کہ آج کا مردہ انسان کل کس طرح زندگی اختیار کرلے گا اور سیکڑوں اور ہزاروں برس کی بوسیدہ ہڈیاں یوم حساب میں کس طرح جسم بن کر اپنی روح کے لیے لباس بن سکیں گی۔
حاشیہ 1 اس موقع پر اس مسئلہ کے تمام پہلوؤں سے متعلق اگرچہ بحث کرنے کی گنجائش نہیں ہے تاہم اس قدر سمجھ لینا ضروری ہے کہ تناسخ (آواگون) کا عقیدہ اس اساس پر قائم ہے کہ ایک انسان کی موجودہ زندگی سابق میں کیے ہوئے اعمال کا ثمرہ اور نتیجہ ہے ورنہ کائنات میں یہ تنوع ہرگز نہ ہوتا کہ کوئی انسان ہے تو کوئی حیوان اور کوئی نباتات و جمادات ‘ نیز انسانوں میں کوئی عالم ہے تو کوئی جاہل اور کوئی صحت یاب ہے تو کوئی مریض اور کوئی امیر کبیر ہے تو کوئی مفلس و محتاج وغیرہ وغیرہ۔
قرآن نے نازل ہو کر دنیائے انسانی کو بتایا کہ اس صاف اور واضح بات کے سمجھنے میں آخر تم پر کیوں وحشت طاری ہوتی ہے اور اس عقیدہ کا مقصد یہ ہوا کہ بغیر عمل و کردار کے اگر عالم میں یہ تغیرات موجود ہیں تو یہ خدا کی صفت عدل کے منافی ہے لیکن اس عقیدہ کی خام کاری اور بطلان کی مختلف وجوہ میں سے ایک وجہ یہ ہے کہ اگر روح اپنے اعمال کی وجہ سے مختلف جون بدل کر ان تغیرات عالم کا باعث ہے جو مجموعہ کائنات کے حسن کا باعث ہیں اور جس کی بدولت یہ پورا کارخانہ مکمل نظام کے ساتھ وابستہ نظر آتا ہے تو اس کے معنی یہ ہوئے کہ انسان کے لیے فطری اور نیچرل طور پر گناہ گار ‘ بدکار اور بداعمال ہونا از بس ضروری ہے تاکہ مجموعہ کائنات کا یہ حسن نہ صرف یہ کہ پیدا ہو بلکہ قائم رہے جس کا تغیرات اور تنوعات پر مبنی ہونا از بس ضروری ہے۔
دوسرے الفاظ میں یوں کہہ دیجئے کہ جون بدل کر آواگون کی زندگی اگر اعمال کی جزا و سزا سے متعلق ہے تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ حضرت انسان کے لیے نیکوکار بننے کی جگہ زیادہ سے زیادہ بدکار ہونا چاہیے تاکہ آئندہ نظام عمل میں یہ تنوع باقی رہے جس کا باقی رہنا عقل و فطرت کے مطابق ہے ورنہ تو حیوانات ‘ نباتات ‘ جمادات کے فقدان سے انسانی دنیا کا یہ سارا کارخانہ درہم برہم ہو کر رہ جائے گا۔
تناسخ کے ناقص فلسفیانہ عقیدہ پر یقین رکھنے والوں نے اس حقیقت کو یکسر فراموش کر دیا ہے کہ ایک چیز اپنی انفرادیت کے لحاظ سے خواہ کتنی ہی قبیح اور بری معلوم ہو لیکن مجموعہ کائنات کے پیش نظر اس کا وجود بھی اپنے اندر ضرور حسن رکھتا ہے مثلاً تل (خال) اپنے رنگ و روپ میں کیسا ہی سیاہ فام کیوں نہ ہو لیکن محبوب کے رخسار پر نہ صرف خود حسین بن جاتا ہے بلکہ حسن محبوب کو دو بالا کردیتا ہے اور حافظ شیرازی (رحمہ اللہ علیہ) جیسے صوفی کو ” خال محبوب “ پر سمرقند وبخارا بخش دینے پر آمادہ کردیتا ہے۔
اسی طرح عالم و کائنات میں انفرادی طور پر کسی کا مریض ہونا ‘ اپاہج و معذور ہونا ‘ ناقص الخلقت ہونا وغیرہ گو قبیح اور قابل افسوس نظر آتے ہوں مگر مجموعہ کائنات کے حسن کے لیے فطری (نیچرل) ہیں اور اس تنوع پر ہی دنیا کے نظام کا بقا ہے اور خالق کائنات کے کمالات آفرینش کا آئینہ دار۔
گلہائے رنگا رنگ سے ہے رونق چمن اے ذوق اس جہاں کو ہے زیب اختلاف سے
کیوں تمھاری عقل اس کو نہیں تسلیم کرتی جس خالق کائنات اور بدیع السموات والارض نے نمونہ اور نقشہ کے بغیر یہ عجیب و غریب عالم آفرینش کر دیا وہ بلاشبہ اس پر قادر ہے کہ ماضی میں مخلوق اور حال میں مردہ و بوسیدہ ہستی کو مستقبل میں دوبارہ وجود عطا فرما دے اور اس کے منتشر اجزاء کو جمع کرکے دوبارہ وہی ہیئت جسمانی عطا اور سابق روح کو اس میں واپس کر دے۔
یا تو صاف کہو کہ اس کائنات کو کسی بلند وبالا ہستی نے پیدا نہیں کیا جس کو خدا (اللہ) کہتے ہیں اور اگر یہ مانتے ہو تو یہ قطعاً عقل کے خلاف ہے کہ جو ابتدائی آفرینش کرسکے وہ اس آفرینش کو دہرانہ سکے :
{ وَ یَقُوْلُ الْاِنْسَانُ ئَ اِذَا مَامِتُّ لَسَوْفَ اُخْرَجُ حَیًّا۔ اَوَلَا یَذْکُرُ الْاِنْسَانُ اَنَّا خَلَقْنٰہُ مِنْ قَبْلُ وَ لَمْ یَکُ شَیْئًا۔ } [187]
” اور انسان کہتا ہے کہ بھلا جب میں مرگیا تو کیا میں (قبر سے) زندہ نکالا جاؤں گا کیا انسان یہ یاد نہیں کرتا کہ ہم نے پہلے اسے پیدا کیا حالانکہ وہ کوئی چیز نہیں تھا۔ “
{ وَضَرَبَ لَنَا مَثَـلًا وَّنَسِیَ خَلْقَہٗ قَالَ مَنْ یُّحْیِ الْعِظَامَ وَہِیَ رَمِیْمٌ۔ قُلْ یُحْیِیْہَا الَّذِیْ اَنْشَاَہَا اَوَّلَ مَرَّۃٍ وَّہُوَ بِکُلِّ خَلْقٍ عَلِیْمٌ۔ } [188]
” اور ہماری نسبت باتیں بنانے لگا اور اپنی پیدائش کی حقیقت کو بھول گیا کہتا ہے کہ ہڈیاں جب گل کر خاک ہو گئی ہوں تو کون ہے جو ان کو زندہ کرکے کھڑا کر دے (اے محمد) کہہ دیجئے جس نے ان ہڈیوں کو اول بار پیدا کر دیا تھا وہی ان کو زندہ کرے گا اور وہ سب کا پیدا کرنا جانتا ہے۔ “
یہ مشرکین مکہ تھے جو خدا اور خالقیت خدا کے تو قائل تھے مگر دوسری زندگی کے منکر و کافر اور جاحد تھے پھر اس نے ان کو بھی مخاطب کیا جو کہتے تھے کہ آخرت کا تصور اس لیے فضول ہے کہ یہ کائنات کسی کی مخلوق ہی نہیں ‘ مادہ اور اس کی حرکت یونہی ازل سے ابد تک کائنات کا روپ و رنگ اختیار کیے ہوئے ہے اور حرکت و کشش دو قوتیں اس نظام عالم کے ہر قسم کے تنوعات کی کفیل ہیں قرآن نے کہا یہ گمراہ کن تصور ایک بنیادی غلط فہمی پر مبنی ہے وہ یہ کہ عقل اور سائنس کے خلاف یہ سمجھ لیا گیا کہ ذرات مادہ (اجزائے ایتھریہ) میں شعور و ارادہ نہ ہونے کے باوجود حرکت ‘ قوت استعداد اور کشش کے ذریعہ خود بخود ایسی اشیاء وجود پزیر ہو سکتی ہیں جن کا مواد (مٹیریل) ان ذرات میں موجود نہیں یعنی مادہ میں بالقوہ بھی نہ شعور ہے اور نہ ارادہ ‘ نہ جذبات ہیں نہ احساسات ‘ نہ ادراکات ہیں اور نہ عقل وتمیز ورنہ تو جسم کو بالقوہ ان صفات کا حامل کہنا بجا ہوتا ‘ لیکن یہ مسلمات میں سے ہے کہ جسم کو نہ شعوری کہہ سکتے ہیں نہ جذباتی ‘ نہ ذی ادراک کہا جا سکتا ہے اور نہ ذی عقل و صاحب تمیز پس دلیل وجدان جو فطری دلائل میں سب سے زیادہ مضبوط اور نیچر دلیل ہے وہ اس حقیقت کو تسلیم کراتی ہے کہ جبکہ تمام موجودات عالم میں انسان موجودات عالم کی ارتقائی ہستی اور اشرف الموجودات ہے اور اس میں جذبات ‘ حسیات ‘ ادراکات ‘ شعور اور عقل جیسے لطیف اوصاف موجود نظر آتے ہیں حالانکہ بلاشبہ مادہ کی قوت و استعداد میں یہ معدوم تھے تو اس میں قطعاً شک و شبہ کی گنجائش نہیں ہے کہ انسان سے بلند ‘ ضرور ایک ایسی ہستی موجود ہے جو قدرت و ارادہ کی علی الاطلاق مالک اور تمام موجودات کی خالق ہے اور اس میں بھی کوئی ریب و شک نہیں کہ انسان ایسی ذی عقل و ذی شعور اور صاحب ارادہ ہستی کی تخلیق محض بے فائدہ نہیں ہے اور اس کی زندگی کے اعمال اور کردار بے وجہ اور مہمل نہیں ہیں اور جبکہ ہم اس دنیا میں انسانوں کے اعمال و کردار کی جزاء و سزا کا مظاہرہ نہیں دیکھتے تو وجدان ہی ہمارے لیے رہنمائی کرتا ہے کہ ایک ایسا دن ضرور مقرر ہے جب کائنات انسانی اپنے اعمال و کردار کی جزا و سزا کا نتیجہ وثمرہ پائے گی اور اسی کو یوم القیامہ ‘ یوم الآخرہ اور یوم الحساب کہتے ہیں چونکہ یہ دن اپنی پائیداری اور قیام کی وجہ سے خاص اہمیت رکھتا ہے اس لیے یوم القیامہ کہلاتا ہے اور چونکہ دنیائے موجودہ کے بعد ہے اس لیے یوم الآخرہ ہے اور چونکہ جزا و سزا اور اعمال کے محاسبہ پر مثمر ہوگا اس لیے یوم الحساب ہے :
{ وَ قَالَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا لَا تَاْتِیْنَا السَّاعَۃُ قُلْ بَلٰی وَ رَبِّیْ لَتَاْتِیَنَّکُمْ عٰلِمِ الْغَیْبِ } [189]
” اور منکرین کہتے ہیں کہ قیامت ہم کو تو کبھی نہیں آئے گی۔ اے محمد ! کہہ دیجئے ہاں ہاں مجھ کو اپنے پروردگار کی قسم جو عالم الغیب ہے قیامت تو تم کو ضرور پیش آ کر رہے گی۔ “
{ اَیَحْسَبُ الْاِنْسَانُ اَنْ یُّتْرَکَ سُدًی } [190]
” کیا انسان یہ گمان کرتا ہے کہ وہ مہمل اور بیکار چھوڑ دیا جائے گا “
{ اَلَیْسَ ذٰلِکَ بِقٰدِرٍ عَلٰی اَنْ یُّحْیِ یَ الْمَوْتٰی } [191]
” کیا خدا اس پر قادر نہیں کہ مردوں کو زندہ کر دے ؟ “
{ وَالتِّیْنِ وَالزَّیْتُوْنِ۔ وَطُوْرِ سِیْنِیْنَ۔ وَہٰذَا الْبَلَدِ الْاَمِیْنِ۔ لَقَدْ خَلَقْنَا الْاِنسَانَ فِیْ اَحْسَنِ تَقْوِیْمٍ۔ ثُمَّ رَدَدْنٰہُ اَسْفَلَ سَافِلِیْنَ۔ اِلَّا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ فَلَہُمْ اَجْرٌ غَیْرُ مَمْنُوْنٍ۔ فَمَا یُکَذِّبُکَ بَعْدُ بِالدِّیْنِ۔ اَلَیْسَ اللّٰہُ بِاَحْکَمِ الْحٰکِمِیْنَ۔ } [192]
” گواہ ہے انجیر و زیتون (کے باغات سے سرسبز و شاداب وہ مقام بیت اللحم جہاں حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی ولادت ہوئی) اور گواہ ہے طور سینا (جہاں موسیٰ (علیہ السلام) کو نبوت سے سرفرازی نصیب ہوئی) اور گواہ ہے یہ بلد امین (مکہ جہاں محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ولادت باسعادت ہوئی) کہ بلاشبہ ہم نے انسانوں کو بہتر سے بہتر قوام سے بنایا پھر اس کو نشیبوں کے سب سے نیچے مقام پر دھکیل دیا مگر وہ انسان جو ایمان لائے اور نیک عمل کیے ان کے لیے بے منت و احسان اجر وثواب ہے۔ تو اب وہ کیا بات ہے جو تجھ کو دین (قیامت) کے جھٹلانے پر آمادہ کرتی ہے کیا اللہ حاکموں میں سب سے بہتر حاکم نہیں ہے۔ “
اور سچ تو یہ ہے کہ قرآن عزیز کہتا ہے کہ آخرت کے انکار پر منطقی دلائل قائم کرنے اور سفسطہ اور غلط روش کو اختیار کرکے ادھر ادھر بھٹکنے کی آخر ضرورت کیا ہے جبکہ انسان کی سب سے قریب اور سب سے زیادہ مضبوط دلیل وجدان خود بخود اس جانب رہنمائی کرتی ہے کہ یہ نظام عالم جس طرح حیرت زا اور محیر العقول نظام فطرت سے منظم اور قوانین فطرت کے ہاتھوں میں مسخر ہے ہو نہیں سکتا کہ یہ خود رو نظام ہو اور جبکہ اس کا کوئی خالق ضرور ہے تو اس نے خیر و شر کے ثمرات و نتائج کے لیے بھی ضرور کوئی وقت مقرر کیا ہے ورنہ یہ کامل و مکمل نظام ثمرہ اور نتیجہ کے پیش نظر ایک مہمل شے ماننی پڑے گی پس نتیجہ اور ثمرہ کا وہ دن ہی یوم آخرت کے نام سے موسوم ہے جو نہ تناسخ کے چکر سے وابستہ ہے اور نہ ازلیت و ابدیت عالم کا حامل بلکہ جس طرح عالم کی ہر شے کا ایک آغاز ہے اور ایک انجام اسی طرح خود اس پورے عالم کا بھی ایک آغاز اور انجام از بس ضروری ہے۔
پس مومن اور مسلم وہی ہے جو توحید خالص ‘ رسالت کے صحیح تصور اور یوم آخرت پر یقین کامل کے سر رشتہ کے ساتھ پیوستہ ہو اور یہی وہ تین بنیادی عقائد ہیں جو دین کے حقیقی تصور یعنی ایمان باللہ ‘ ایمان بالرسل ‘ ایمان بالکتب ‘ ایمان بالملائکہ ‘ ایمان بالقدر اور ایمان بالآخرہ سبھی پر حاوی ہیں اور یہی وہ دین کامل ہے جس کی تشریح قرآن عزیز نے سورة بقرہ کے آخری رکوع میں اس طرح کی ہے :
{ اٰمَنَ الرَّسُوْلُ بِمَآ اُنْزِلَ اِلَیْہِ مِنْ رَّبِّہٖ وَ الْمُؤْمِنُوْنَ کُلٌّ اٰمَنَ بِاللّٰہِ وَ مَلٰٓئِکَتِہٖ وَ کُتُبِہٖ وَ رُسُلِہٖ لَا نُفَرِّقُ بَیْنَ اَحَدٍ مِّنْ رُّسُلِہٖ وَ قَالُوْا سَمِعْنَا وَ اَطَعْنَا غُفْرَانَکَ رَبَّنَا وَ اِلَیْکَ الْمَصِیْرُ } [193]
” رسول (محمد) ایمان رکھتے ہیں اس شے پر جو اس پر ان کے رب کی جانب سے اتاری گئی ہے (یعنی قرآن) اور ہر ایک (ایماندار) ایمان رکھتا ہے خدا پر ‘ فرشتوں پر ‘ سماوی کتابوں پر اور اس کے رسولوں پر ‘ (وہ کہتے ہیں خدایا) ہم تیرے پیغمبروں کے درمیان کسی ایک کو بھی پیغمبر تسلیم کرنے کے سلسلہ میں فرق نہیں کرتے اور کہتے ہیں ہم نے تیرا حکم سنا اور اس کی پیروی کی اے پروردگار ہم تجھ سے مغفرت کے خواہاں ہیں اور ہم کو آخر کار تیری ہی جانب لوٹنا ہے۔ “
مابعد الطبیعیاتی عقائد و افکار سے متعلق قرآن حکیم کی یہی وہ اصلاحی اور انقلابی تعلیمات تھیں جن کو نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اول عرب کے سامنے روشناس کیا اور پھر تمام کائنات انسانی تک پہنچا کر مذاہب کی دنیا ہی بدل ڈالی اور اسلام کی اس دعوت توحید نے مذاہب عالم میں ہل چل پیدا کردی اور کسی نہ کسی رنگ میں ان کو توحید حقیقی کے اس ارتقائی نقطہ کی جانب جھکنا پڑا اور اس نے صرف یہی نہیں کیا کہ خدا اور اس کے بندوں کے درمیان رشتہ معبودیت و عبودیت ہی کو صحیح نقطہ نظر پر استوار اور عقائد اور ما بعد الطبیعیاتی افکار کے رخ روشن کو آشکارا کر دیا ‘ بلکہ اس نے ایمان اور عمل صالح کو دین کی بنیاد بنا کر اخلاق ‘ معاشرت ‘ معاش ‘ غرض مذہب اور اجتماعی سیاست سبھی کو اصلاح و انقلاب کے سانچے میں ڈھال کر دنیا کی صحیح رہنمائی کا حق ادا کر دیا۔
یہ بحث چونکہ طویل الذیل ہے اور آیت
{ وَ مَآ اَرْسَلْنٰکَ اِلَّا رَحْمَۃً لِّلْعٰلَمِیْنَ } [194]
کی تفسیر کے ضمن میں شرح و بسط کی محتاج اس لیے یہ مقام اس کی وسعت کو برداشت نہیں کرسکتا۔
حضرت ابو بکر صدیقؓ کا ارادۂ ہجرت
حضور اکر م ﷺ کی شعب ابی طالب میں نظر بندی کے زمانہ میں کفار قریش نے حضرت ابو بکرؓ صدیق کی زندگی دو بھر کر دی تھی، آخر کاروہ حبشہ کو ہجرت کرنے کا ارادہ سے یمن کی طرف چل پڑے، پانچ دنوں کی مسافت طئے کرنے کے بعد وہ برک الغماد میں قبیلہ قارّہ اور احابیش کے سردار ابن الدغنہ سے ملے جو آپ کا پرانا دوست تھا، بقول واقدی اس کا نام حارث بن یزید تھا اور سہیلی نے اس کا نام مالک بتایا ہے، ابن الدغنہ کے دریافت کرنے پر آپ نے ارادۂ ہجرت ظاہر کیا تو اُس نے کہا :اے ابو بکرؓ ! تم تواپاہجوں اور محتاجوں کی مد دکرتے ہو‘ مہمان نوازی کرتے ہو ‘ قرض داروں کے قرض ادا کرتے ہو اور ناداروں کو سامانِ زندگی مہیا کرتے ہو، میں تم کو اپنی پناہ میں لیتا ہوں اس لیے تم اسی شہر میں رہ کر اپنے ر ب کی عبادت کرو، گو کہ ابن الدغنہ پکا کافر تھا ؛لیکن اس نے حضرت ابو بکرؓ کی سیرت کی شہادت دی اور خود اپنے ساتھ مکہ لایا، سرداران مکہ کی موجودگی میں کعبہ کا طواف کیا اور حضرت ابو بکرؓ کو اپنی پناہ میں لینے کا اعلان کیا، قریش نے اس کی پناہ کو رد نہیں کیا البتہ یہ شرط لگائی کہ ابو بکرؓ اپنے گھر میں جس طرح چاہیں عبادت کریں؛ لیکن قرآن کی تلاوت بلند آواز سے نہ کریں، ابن الدغنہ حضرت ابو بکرؓ سے یہ بات کہہ کر اپنے قبیلہ میں لوٹ آیا، چنانچہ حضرت ابو بکرؓ پہلے تو اپنے گھر میں عبادت کرنے لگے پھر صحن میں ایک مسجد بنا لی اور وہاں نماز پڑھنے لگے۔
معجزہ شق القمر
شعب ابی طالب میں محصوری کے دن اسی طرح گذر رہے تھے، محصورین صرف ایام حج میں شعب سے باہر نکل سکتے تھے، مقاطعہ کا دوسرا سال تھا اور حج کے دن تھے، آنحضرت ﷺ بعض صحابہؓ کے ساتھ مِنیٰ میں تھے، آسمان پر بدرِ کامل تھا، ایسے میں کفّار نے آپﷺ سے مطالبہ کیا کہ اگرآپﷺ سچے نبی ہیں تو اس چاند کے دو ٹکڑے کر کے دکھائیے، حضور اکرم ﷺ نے اللہ تعالیٰ سے اس مطالبہ کو پورا کرنے کی دعا فرمائی اور چاند کی طرف انگلی سے اشارہ کیا تو چاند کے دو ٹکڑے ہو گئے، ایک کوہِ حرا کے اوپراور دوسرا اس کے دامن میں تھا، آپﷺ نے فرمایا : گواہ رہو، گواہ رہو ؛لیکن کفار نے اسے جادو کہا اور یہ بھی کہا کہ دیکھیں سفر سے آنے والے لوگ کیا کہتے ہیں، بعد میں کچھ لوگ سفر سے واپس آئے اور تصدیق کی کہ ہم نے چاند کو دو ٹکڑے ہوتے ہوئے دیکھا ہے، صحابہ ؓ کرام میں حضرت عبد اللہ ؓ بن مسعود، حضرت حُذیفہ ؓ اور حضرت جبیر بن مطعمؓ اس کے عینی شاہد ہیں، قرآن مجید میں سورۂ قمر کی ابتدائی آیات میں شق القمر کا ذکر ہے:
" قیامت قریب آپہنچی اور چاند شق ہوگیا اور اگر کافر کوئی نشانی دیکھتے ہیں تو منہ پھیر لیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ ایک ہمیشہ کا جادو ہے " [195]
ہندوستان کی مشہور مستند تاریخ فرشتہ ( مصنف محمد قاسم فرشتہ 1015 ہجری)میں اس کا ذکر موجود ہے جو انھوں نے بحوالہ کتاب " تحفۃ المجاہدین " میں لکھا ہے کہ مسلمانوں کی ایک جماعت عرب سے قدم گاہ ِحضرت آدم علیہ السلام کی زیارت کے لیے سراندیپ(لنکا) کو آتے ہوئے ساحلِ مالا بار ( ہند ) پر اتری، ان بزرگوں نے وہاں کے راجا سامری سے ملاقات کی اور معجزۂ شق القمر کا ذکر کیا، راجا نے اپنے منجموں کو پرانے رجسٹرات کی جانچ پڑتال کا حکم دیا، چنانچہ منجموں نے بتلایاکہ فلاں تاریخ کو چاند دو ٹکڑے ہو گیا اور پھر مل گیا، اس تحقیق کے بعد راجا نے اسلام قبول کر لیا، ہندوستان کے بض شہروں میں اس کی تاریخ محفوظ کی گئی اور ایک عمارت تعمیر کر کے اُس کی تاریخ" شبِ انشقاقِ قمر" کے نام سے مقرر کی گئی۔
[196]
علامہ ابن حجر عسقلانی نے لکھا ہے کہ معجزۂ شق القمر 8 نبوت میں ہوا، یہ معجزہ حضور کے سوا کسی اور پیغمبر کو نہیں عطا کیا گیا۔
حضرت سوید بن صامت کا قبول اسلام
آنحضرتﷺ کے دادا عبد المطلب کے خالہ زاد بھائی تھے، ان کی والدہ لیلیٰ، عمرو کی بیٹی تھیں، سوید ؓ بن صامت کا تعلق قبیلہ بنی عمرو بن عوف سے تھا جو قبیلہ اوس کی ایک شاخ تھی، حضرت سوید ؓبن صامت کوان کی بہادری، شاعری اور شرف و نسب میں ممتاز ہونے کی وجہ سے یثرب کے لوگ " الکامل" کہا کرتے تھے اور یہ لقب اس کو دیا جاتا تھا جو شجاعت، شرافت، تیراندازی اور پیراکی کے ساتھ لکھنے اور شاعری میں مہارت رکھتا ہو، حضور ﷺ کے شعب ابی طالب میں پناہ گزیں ہونے سے پہلے حضرت سویدؓکعبہ کی زیارت کے لیے آئے تھے تو حضور ﷺ ان کے پڑاؤ پر تشریف لے گئے اور انھیں اسلام کی دعوت دی، سویدؓ نے کہا : شاید آپ کے پاس بھی کچھ ایسی چیز ہے جو میرے پاس ہے، آپﷺ نے فرمایا : تمھارے پاس کیا ہے ؟ تو انھوں نے کہا : مجلّہ لقمان ‘ یعنی حکمت لقمان اور امثال لقمان، تو حضور ﷺ نے فرمایا : پڑھ کر سناؤ، انھوں نے سنایا، تو آپﷺ نے فرمایا : یہ کلام عمدہ ہے لیکن جو میرے پاس ہے اس سے بہترو اعلیٰ ہے یعنی قرآن مجید جواللہ تعالیٰ نے مجھ پر نازل فرمایا ہے، وہ سراپا ہدایت و نور ہے، آپﷺ نے چند آیات تلاوت فرمائیں جسے سن کر ان کا دل اسلام کی طرف مائل ہو گیا، حضور ﷺ نے انھیں اسلام کی دعوت دی توانہوں نے اسے قبول کر لیا، پھر جب وہ مکہ سے یثرب واپس ہوئے تو قبیلہ خزرج کے کسی شخص نے انھیں قتل کر دیا، بلا ذری نے " انساب الاشرف " میں لکھا ہے کہ جنگ بعاث کی وجہ ان کا قتل تھا۔
جنگ بعاث
نبوت کے آٹھویں سال بنی اوس اور بنی خزرج کے درمیان ایک خونریز لڑائی ہوئی جو جنگ بُعاث کے نام سے مشہور ہے اس لیے کہ یہ لڑائی بعاث نامی مقام ( جو بنی قریظہ کے علاقہ میں تھا )پر ہوئی تھی، اس لڑائی میں یہودی قبائل بنی نضیر اور بنی قریظہ نے قبیلہ بنی اوس کا ساتھ دیا، قبیلہ خزرج والے بھی اپنے حلیفوں کے ساتھ جنگ میں شریک ہوئے قبیلہ اوس کا سردار حفیر الکتائب تھا، اس کے قتل ہونے کے بعد اوس کی ہمت ٹوٹ گئی؛ لیکن خزرج کے سردار عمرو بن نعمان کے مارے جانے کے بعد اَوس نے انھیں قتل کرنا شروع کر دیا، اس جنگ میں عبد اللہ بن ابی سلول ( رئیس المنافقین ) غیر جانبدار رہا، اس جنگ میں بڑی تباہی ہوئی، دونوں قبائل کے روساء اور سردار مارے گئے یثرب میں یہودیوں کا بہت زور تھا اور ان کے تین قبیلے بنی قریظہ ‘ بنی نضیر اور بنی قینقاع بہت مشہور تھے جنگ بعاث کے دوران یہودی قبائل بنی قریظہ اور بنی نضیر خفیہ تدبیروں سے جنگ کی آگ کو ہوا دیتے رہے۔
اوس وخزرج
451ء میں یمن میں ایک عظیم سیلاب آیا تھاجس سے قوم سبا بہت متاثر ہوئی تھی، اس کے بعد عمرو بن عامر اپنے کنبے کے ساتھ عرب کے شمالی حصہ
میں منتقل ہو گیا تھا، اس کے بیٹے جفنہ کی اولاد نے شام میں غسّان کے نام سے شہرت پائی، دوسرا بیٹا حارثہ، تہامہ کے علاقہ میں سکونت پزیر ہوا، اس
کی اولاد خزاعہ کہلائی، تیسرے بیٹے ثعلبہ کی اولاد میں حارثہ تھاجس کی بیوی کا نام قیلہ تھا، اس کے بطن سے دو بیٹے اوس اور خزرج ہوئے جنھوں نے یثرب کو آباد کیا، انھی سے بنی اوس اور بنی خزرج ہیں۔
اَوس و خزرج نے مدینہ اور حوالی مدینہ میں کثرت سے چھوٹے چھوٹے قلعے بنا لیے تھے، اَوس و خزرج ابتدا ًبت پرست تھے لیکن یہود سے میل جول رکھتے تھے اس لیے نبوت اور کتب آسمانی سے گوش آشنا تھے اور یہود سے رقابت کے باوجود ان کے علمی فضائل و کمالات کے معترف تھے، یہود نے مدینہ میں علمی مدارس بھی قائم کیے تھے جن کو بیت المدارس کہتے تھے ( بخاری شریف میں ان کے نام ہیں)۔ [197]
ان میں تورات کی تعلیم ہوتی تھی، اَوس و خزرج جاہل تھے اس لیے یہود کے علمی تفوق سے متاثر تھے، اگر کسی کو اولاد نرینہ نہ ہوتی تو منت مانگتے کہ اگر لڑکا ہوگا تو اسے یہودی بنادیں گے، وہ اکثر کہا کرتے" عنقریب ایک نبی آنے والا ہے اور اس کے ظہور کا وقت قریب ہے، ہم اس کی پیروی کریں گے اور اس کے ساتھ مل کر تمھیں ہلاک کر دیں گے جس طرح عادِ ارم ہلاک ہوئے تھے " جنگ بعاث کے بعد قبائل اور خزرج کی شاخ بنی عوف کے سردار عبد اللہ ابن ابی سلول کو اپنا بادشاہ بنانا منظور کر لیا، اس کے لیے تاج شاہی بھی تیار کیا گیا اور تاجپوشی کی رسم ادا ہونے والی تھی کہ اتنے میں بیعت عقبہ میں اوس و خزرج کے افراد نے حضور ﷺ کے ہاتھ پر بیعت کی اس لیے عبد اللہ ابن اُبّی بن سلول کی بادشاہت کے امکانات ختم ہو گئے اور اسی حسرت میں وہ مر گیا، بقول ابن ہشام اس حسرت نے اُس میں اتنا نفاق پیدا کیا کہ وہ "رئیس المنافقین" کہلایا۔
مقاطعہ کا خاتمہ
قریش نے بنی ہاشم کا مقاطعہ غیر معیّنہ مدت کے لیے کیا تھا؛ لیکن و ہ تین سال سے زیادہ بر قرار نہ رہ سکا، مورخین عام طور پر تین سال کی مدت یکم محرم 7 نبوت سے ختم 9 نبوت بتاتے ہیں، آنحضرت ﷺ اور آلِ ہاشم نے شعب ابی طا لب میں مسلسل تین برس تک مصیبتں جھیلیں، آخر کار دشمنوں ہی کو رحم آیا اور خود انہی کی طرف سے اس معاہدہ کو توڑنے کی تحریک ہوئی، وہ اس طرح کہ ہشام بن عمرو خاندان بنی ہاشم کاقریبی رشتہ دار تھا اور اپنے قبیلہ کا ممتاز فردبھی، وہ چوری چھپے بنو ہاشم کو غلّہ وغیرہ بھیجتا رہتا تھا، ایک دن وہ زہیر بن ابی امیہ بن مغیرہ کے پاس جو عبد المطلب کے نواسے تھے گیا اور کہا : کیوں زہیر ! کیا تم کو یہ پسند ہے کہ تم کھاؤ پیو، آزادی سے پھرو اور تمھارے ننھیالی رشتہ دار ہر راحت سے محروم رہیں اور انھیں کھانے کو کچھ نہ مل سکے، زہیر نے کہا : کیا کروں تنہا ہوں، ایک شخص بھی میرا ساتھ دے تو میں اس ظالمانہ معاہدہ کو پھاڑ کر پھینک دوں، ہشام نے کہا کہ میں تمھارے ساتھ ہوں، پھر ہشام نے مطعم بن عدی بن نوفل سے ملاقات کی اور اُسے راضی کر لیا اور چوتھا آدمی فراہم کرنے کے لیے کہا، ہشام ابو البختری کے پاس پہنچا اور اسے بھی راضی کر لیا، مطعم نے کہا کہ پانچواں ساتھی مل جائے تو کام آسان ہو جائے گا، ہشام کو زمعہ بن الاسود کا خیال آیا، چنانچہ یہ سب اُس کے پاس گئے اور وہ بھی راضی ہو گیا، وہ سب مکہ کے بالائی حصہ میں واقع " حطم الجحون " میں جمع ہوئے اور اتفاق رائے سے یہ طئے کیا کہ صحیفہ کو منسوخ کر دیا جائے، دوسرے دن سب مل کر حرم میں گئے، زہیر نے بیت اﷲ کا طواف کرنے کے بعد سب لوگوں کو مخاطب کر کے کہا" اے اہل مکہ ! یہ کیسا انصاف ہے کہ ہم لوگ آرام سے بسر کریں اور بنو ہاشم کو آب و دانہ نصیب نہ ہو، خدا کی قسم ! میں اس ظالمانہ معاہدہ کو چاک کر دوں گا" یہ سنتے ہی ابو جہل نے پکار کر کہا کہ اس معاہدہ کو کوئی ہاتھ نہیں لگا سکتا، اس پر زمعہ بن الاسود نے کہا کہ جب یہ ظالمانہ معاہدہ لکھا گیا تھا اس وقت بھی ہم راضی نہ تھے، ان لوگوں میں یہ بحث و تکرار ہو رہی تھی کہ ابو طالب حرم میں آئے اور کہا کہ میرے بھتیجے محمدﷺ نے مجھ سے کہا ہے کہ اس عہد نامہ کی ساری تحریر سوائے لفظ اللہ کے دیمک چاٹ گئی ہے، خدا کی قسم کہ اس نے کبھی جھوٹ نہیں کہا، اس لیے تم اس معاہدہ کو منگوا کر دیکھو اور یہ صحیح ہے تو اسے چاک کر دو اور اگر غلط ہو تو میں محمدﷺ کو تمھارے حوالے کرنے تیار ہوں، سب نے ابو طالب کی بات سے اتفاق کیا اور عہد نامہ منگوا کر کھولا گیا تو کفار قریش نے حیرت سے دیکھا کہ اس میں سوائے " با سمک اللّہم" کے ساری تحریر دیمک کھا گئی تھی، مطعم بن عدی نے عہد نامہ کو چاک کر دیا، ابو طالب نے بیت اللہ کا غلاف پکڑ کر دعا کی" ائے اللہ ! ان لوگوں کے خلاف ہماری مدد فرما جنھوں نے ہم پر ظلم کیا اور ہماری رشتہ داریوں کو قطع کیا" اس کے بعد وہ پانچوں سردار ہتھیار باندھ کر بنو ہاشم کے پاس گئے اوربنو ہاشم کو شعب سے نکل کر اپنے اپنے گھروں کو جانے کے لیے کہا، ابو طالب نے ان پانچ سرداروں کی مدح میں قصیدہ لکھا۔
حضرت عبد اللہ بن عباس کی ولادت
شعب ابی طالب سے نکلنے سے کچھ دن پہلے حضرت عبد اللہؓ بن عباس کی ولادت ہوئی، ا ن کی والدہ اُم الفضل تھیں جو ابتدائی ایمان لانے والی صحابیہ ہیں اور اُم المومینن حضرت میمونہ ؓ کی بہن تھیں، حضور اکرم ﷺ نے حضرت عبد اللہؓ کو اپنے گلے سے لگا کر دعا فرمائی جس کی برکت سے وہ بعد میں" امام المفسرین" بنے۔
ابو طالب کی وفات
شعب سے نکلنے کے چھ ماہ بعد ابو طالب بیمار ہوئے اور ان کے جینے کی امید نہ رہی، حضورﷺ ان کے پاس گئے، اس وقت ابو جہل اور عبد اللہ بن اُمیہ بھی موجود تھے، حضور ﷺ نے ابو طالب سے فرمایا: اے چچا ! ایک مرتبہ لا اِلہٰ الا للہ کہہ دو، یہ سن کر ابو جہل اور ابن اُمیہ نے کہا … اے ابو طالب !
کیا تم عبد المطلب کے دین سے پھر جاؤ گے ؟آخرمیں ابو طالب نے کہا : میں عبد المطلب کے دین پر مرتا ہوں، پھر حضور اکرمﷺ سے مخاطب ہوکر کہا :
میں وہ کلمہ کہہ دیتا ؛لیکن قریش کہیں گے کہ موت سے ڈر گیا، آپﷺ نے فرمایا: میں آپ کے لیے دعائے مغفرت کروں گا جب تک کہ خدا مجھ کو اس سے منع نہ کر دے مرتے وقت ابو طالب کی عمر 80 سال سے زیادہ تھی۔ [198]
حضرت خدیجہؓ کی وفات
ابو طالب کی وفات کے تین دن بعد اور ایک اورروایت کے بموجب 35 دن بعد رفیق حیات حضرت خدیجہؓ نے بھی وفات پائی، آپﷺ کے دونوں مدد گار اور غمگسار اٹھ گئے، یہ حضور ﷺ کے لیے بڑا سخت صدمہ تھا، حضرت خدیجہ ؓ ایک پیکر استقامت تھیں اور حضورﷺ کی ہمہ وقت ساتھی، ان کا وہ مقام تھا کہ اللہ تعالیٰ نے جبریلؑ کی معرفت انھیں سلام کہلوایا تھا۔ [199]
اور حضرت جبریلؑ بھی انھیں سلام کہلواتے تھے، حضرت خدیجہؓ کی یاد کبھی حضور ﷺ کے دل سے محو نہ ہوئی، اکثر یاد کرکے فرمایا کرتے : جب لوگوں نے میری تکذیب کی تو انھوں نے میری تصدیق کی، جب لوگ کافر تھے تو وہ اسلام لائیں، جب کوئی میرا مددگار نہ تھا تو انھوں نے میری مدد کی، پچیس سال تک حضرت خدیجہؓ حضور ﷺکی مددگار و مشیر رہیں، حضورﷺ کی تمام اولاد بجز حضرت ابراہیمؓ ( جو حضرت ماریہ ؓ قبطیہ کے بطن سے پیدا ہوئے تھے)انھی سے ہوئی، ان کی زندگی میں حضور ﷺ نے دوسرا نکاح نہیں کیا، بوقت وفات حضرت خدیجہؓ کی عمر 65 برس تھی، تاریخِ وفات 11 رمضان 10 نبوت ہے، اس وقت تک نماز جنازہ کا حکم نہیں آیا تھا، آنحضرت ﷺ خود ان کی قبر میں اترے انھیں مقام جحون میں دفن کیا گیا، اس سال کو عام الحزن یعنی غم کا سال قرار دیا گیا، علامہ ابن خلدون نے لکھا ہے کہ حضرت خدیجہ ؓ کی وفات پہلے ہوئی اور ان کی وفات کے (35) یا (55) دن بعد ابو طالب نے وفات پائی، حضرت ابو طالب کی وفات کے بعد ابو لہب کو سردار قبیلہ بنا یا گیا، اس کا نام عبد العزیٰ تھا۔
حضرت سودہ بنت زمعہ سلام اللہ علیہا سے نکاح
ازواجِ مطہرات میں یہ فضیلت صرف حضرت سودہؓ کو حاصل ہے کہ حضرت خدیجہؓ کی وفات کے بعد سب سے پہلے وہی حضور ﷺ کے عقد نکاح میں آئیں، علامہ ابن کثیر نے سیرت النبی میں لکھا ہے کہ رسول اﷲ ﷺ نے حضرت خدیجہؓ کے بعدحضرت عائشہؓ سے ہی سب سے پہلے نکاح کیا، حضرت سودہؓ قبیلہ عامر بن لوئی سے تھیں جس کا سلسلہ مدینہ کے خاندان بنونجّار سے ملتا ہے جہاں حضور ﷺکے پر دادا ہاشم نے شادی کی تھی، وہ ابتدائے نبوت میں مشرف بہ اسلام ہو چکی تھیں، ان کی شادی پہلے حضرت سکرانؓ بن عمرو سے ہوئی تھی، حضرت سودہؓ انہی کے ساتھ اسلام لائیں اور ان کے ساتھ حبشہ جانے والی دوسری جماعت کے ساتھ ہجرت کی، وہاں کئی برس رہ کر مکہ آئیں، کچھ دنوں بعد حضرت سکرانؓ نے وفات پائی، ان سے ایک لڑکا عبد الرحمٰن تھا جس نے جنگ جلولا (ایران ) میں شہادت پائی، حضرت خدیجہؓ کی وفات کے بعد حضو ر ﷺ غمگین رہا کرتے تھے، کم سن بچیوں حضرت فاطمہؓ اور حضرت ام کلثومؓ کی خبر گیری کرنے والا کوئی نہ تھا، یہ دیکھ کر حضرت عثمانؓ بن مظعون کی زوجہ حضرت خولہؓ بنت حکیم نے عرض کیا کہ آپﷺ کو ایک مونس و رفیق کی ضرورت ہے، آپﷺ نے فرمایا : ہاں ! گھر بار اور بال بچوں کا انتظام سب خدیجہؓ کے سپرد تھا، آپﷺ کے ایما ء سے وہ حضرت سودہؓ کے والد کے پاس گئیں اور جاہلیت کے طریقہ پر سلام کیا، پھر نکاح کا پیغام پہنچایا، انھوں نے کہا: ہاں‘ محمّد شریف کفو ہیں لیکن سودہؓ سے بھی تو دریافت کرو، غرض سب مراحل طئے ہو گئے تو حضورﷺ ان کے گھر تشریف لے گئے تو ان کے والد نے نکاح پڑھا یا، چار سو درہم مہر قرار پایا، نکاح کے وقت حضرت سودہؓ کی عمر تقریباََ پچاس سال تھی، ان کی ماں کا نام سموس بنت قیس تھا، شوال 10 نبوت میں نکاح ہوا، حضرت سودہؓ کا انتقال حضرت عمرؓ کی خلافت کے آخری زمانہ میں 22 ہجری میں ہوا، حضرت سودہؓ بلند اور فربہ اندام تھیں، بڑی سخی اور فیاض تھیں لیکن مزاج کی تیز تھیں،( حضرت سودہؓ اور حضرت عائشہؓ کا نکاح چونکہ قریب قریب ایک ہی زمانہ میں ہوا تھا، اس لیے مورخین میں اختلاف ہے کہ کس کو تقدم حاصل ہے، ابن اسحٰق کی روایت ہے کہ حضرت سودہؓ کو تقدم حاصل ہے جبکہ عبد اللہ بن محمد بن عقیل کا قول ہے کہ وہ حضرت عائشہؓ کے بعد نکاح میں آئیں)۔
حضرت عائشہ سلام اللہ علیہا سے نکاح
حضرت عائشہؓ، حضرت ابو بکر صدیقؓ کی صاحبزادی تھیں، ماں کا نام زینب بنت عو یمر اور کنیت اُمّ رومان تھی، حضرت عائشہ اپنے بھانجے حضرت عبد اللہؓ بن زبیرکے تعلق سے اُم عبد اللہ کنیت کرتی تھیں، آپ پہلے جبیر بن مطعم کے صاحبزادے سے منسوب تھیں (سیرت احمد مجتبیٰ میں مطعم بن عدی کا بیٹا لکھا گیا ہے ) حضرت خدیجہؓ کے انتقال کے بعد حضرت خولہ ؓبنت حکیم نے آنحضرت ﷺسے نکاح کی تحریک کی، آپﷺ نے رضا مندی ظاہر کی، خولہؓ نے ا ُم رومان سے کہا تو انھوں نے حضرت ابو بکرؓ سے ذکر کیا، حضرت ابو بکرؓ نے کہا کہ جبیربن مطعم سے و عدہ کرچکا ہوں اور میں نے کبھی وعدہ خلافی نہیں کی؛ لیکن مطعم نے خود اس بنا پر انکار کر دیا کہ اگر حضرت عائشہؓ اس کے گھر آگئیں تو گھر میں اسلام کا قدم آجائے گا، اس طرح وہ بات ختم ہو گئی اور حضرت ابو بکرؓ نے حضور اکرم ﷺسے آپ کا نکاح کر دیا، (شوال 10 نبوت )چار سو درہم مہر قرار پایا ؛لیکن مسلم میں حضرت عائشہؓ سے روایت ہے کہ ازواج مطہرات کا مہر پانچ سو درہم ہوتا تھا، (سیرت النبی -جلد اول)عقد کے وقت حضرت عائشہ کی عمر چودہ یا پندرہ سال تھی چھ سال نہیں۔ [200] حضرت عائشہؓ جیسی ذہین خاتون کا آپﷺ سے نکاح ہونے میں منشائے ربّانی یہ تھا کہ وہ کمی جو حضورﷺ سے قریب ہونے میں عام خواتین کو مانع تھی وہ اس ذاتِ مقدس سے پوری ہو جائے، یہی وجہ تھی کہ خواتین زیادہ تر اپنے مسائل آپ ہی کے توسط سے حضور ﷺ کے گوش گزار کرتی تھیں یا پھر وہ نمائندہ بن کر مخصوص مسائل کے بارے میں کُرید کُریدکر سوالات کرتی تھیں، یہی وجہ ہے کہ آپﷺ کی ذات سے اُمت کو ایک تہائی علم فقہ ملا، حضرت عائشہؓ کی بے شمار فضیلتیں ہیں، اس کے علاوہ اُمت کو ان کے ذریعہ بے شمار سعادتیں ملیں، تیمّم کی سہولت حضرت عائشہ ؓ کی وجہ سے ملی، حضرت جبر یل ؑ نے آپ کو دوبار سلام کیا اور جبریل ؑ کو دو بار ان کی اصلی حالت میں دیکھا، حضور ﷺ نے انھیں اس بات کی خوش خبری دی کہ وہ جنت میں بھی ان کی زوجہ ہوں گی آپ سے کوئی اولاد نہیں ہوئی، 66 سال کی عمر میں 17 رمضان 57 ہجری کو مدینہ میں وفات پائی، حضرت ابو ہریرہؓ نے نماز جنازہ پڑھائی اور رات کے وقت جنت البقیع میں تدفین عمل میں آئی۔ [201]
طائف کا سفر
ابو طالب اور حضرت خدیجہؓ کی وفات کے بعد قریش کو کس کا پاس تھا، اب وہ نہایت بے رحمی اور بے باکی سے حضور ﷺ کو ستانے لگے، راستہ میں آپﷺ پر غلاظت ڈالی جاتی اور کانٹے بچھائے جاتے، گالیاں دی جاتیں، عقبہ بن ابی معیط نے آپﷺ کاگلا گھونٹنے کی کوشش کی، ایک مرتبہ ابو جہل نے پتھر سے حضور ﷺ کو ہلاک کرنے کی کوشش کی، مکان میں غلاظت اور کوڑا کرکٹ پھینکے جاتے، ان مصائب سے تنگ آکر آپﷺ نے گھر میں نماز کے لیے ایک حجرہ مختص کر لیا اور وہیں نماز ادا کرتے، جب ان باتوں کی اطلاع بنی ہاشم کے نئے سردار ابو لہب کو ہوئی تو وہ آپﷺ کے پاس آیا اور کہا کہ: ابو طالب کی زندگی میں جو آپﷺ کا عمل تھا اسے جاری رکھو، تمھیں لات کی قسم ! جب تک میں زندہ ہوں آپﷺ پر کوئی ظلم نہ ہونے دوں گا، ابو لہب کی حمایت کے بعد آپﷺ گھر سے نکلے تو ابن غلیطہ نے سرِ بازار آپﷺ سے گستاخی کی، ابو لہب کو اطلاع ہوئی توجا کر اس کی خوب خبر لی، اس کے شور مچانے پر لوگ جمع ہو گئے، دریافت کرنے پر ابو لہب نے کہا کہ اس نے عبد المطلب کا دین ترک نہیں کیا ہے اوریہ کہ بنی ہاشم کے سربراہ ہونے کے ناطے وہ اپنے بھتیجے پر کوئی ظلم برداشت نہ کرے گا، اس کے بعد لوگوں نے حضور ﷺ کو ستانا چھوڑ دیا، لیکن بعد میں ابو لہب نے پھر اپنا رنگ بدلا اور حضورﷺ کا دشمن بن گیا۔ [202]
جب اہل مکہ سے مایوسی ہو گئی تو حضور ﷺ اپنے آزاد کردہ غلام حضرت زیدؓ بن حارثہ کوساتھ لے کر 27 شوال 10 نبوت م 619ء پا پیا دہ طائف روانہ ہوئے جو مکہ سے تقریباََ 50 میل کے فاصلہ پر بہ جانب مشرق ایک پہاڑی علاقہ اور سر سبز و شاداب مقام ہے، وہاں آپ کا قیام دس روز رہا، بعض نے بیس روز اور ایک مہینہ بھی لکھا ہے، اس زمانہ میں طائف بنو ثقیف کے قبضہ میں تھا، مکہ کے سرداروں کے وہاں باغات تھے، وہ لات کے پرستار تھے اور اسے خدا کی بیٹی مانتے تھے، ان دنوں عمرو بن عمیر بن عوف کے تین لڑکے عبد یا لیل، مسعود اور حبیب بنی ثقیف کے سردار تھے، ان میں سے ایک کی بیوی صفیہ بنت معّمر تھی جس کا تعلق قریش کے قبیلہ بنی جمح سے تھا، چونکہ بنی سعد کا قبیلہ طائف کے قریب تھا اور جہاں آپﷺ نے اپنے ایام رضاعت گزارے تھے اس لیے حضورﷺکو اہل طائف سے خیر کی امید تھی، چنانچہ طائف جاتے ہوئے آپﷺ راستہ کے تمام قبائل میں اسلام کی تبلیغ کرتے رہے، طائف میں آپﷺ نے مذکورہ بالا تینوں سرداروں سے ملاقات کی اور انھیں اسلام کی دعوت دی اور اپنی مدد کی درخواست کی ؛لیکن ان تینوں نے نہایت گستاخانہ جواب دیا، ایک نے کہا : تمھارے سوا اللہ کو اور کوئی نہ ملا جسے نبی بناتا ؟ دوسرے نے کہا : کعبۃ اللہ کی اس سے بڑی اور کیا توہین ہوگی کہ تم سا شخص پیغمبر ہو ؟ تیسرا بولا : میں تم سے ہر گز بات نہ کروں گا، اگر تم سچے ہو تو تم سے گفتگو خلافِ ادب ہے اور اگر جھوٹے ہو تو گفتگو کے قابل نہیں، ان بد بختوں نے اسی پر اکتفا نہیں کیا، طائف کے بازاریوں اور اوباشوں کو آپﷺ کے پیچھے لگا دیا کہ وہ آپ ﷺ کا مذاق اڑائیں، چنانچہ انھوں نے راستہ سے گذرتے وقت آپﷺ پر پتھر مارنے شروع کردئے، حضرت زید ؓبن حارثہ ان پتھروں کے لیے سپر بن جاتے یہاں تک کہ ان کا سر پھٹ گیا، حضورﷺ کا جسم لہو لہان ہو گیا اور آپﷺ کی جو تیاں خون سے بھر گئیں، جب آپﷺ زخموں سے چور ہوکر بیٹھ جاتے تو بازو تھام کر کھڑا کردیتے اور پھر آپﷺ جب چلنے لگتے تو پتھر برساتے، ساتھ ساتھ گالیاں دیتے اور تالیاں بجاتے، پتھروں کے برسانے سے آپﷺ کوبہت چوٹیں آئیں اور آپ ﷺ زخموں سے بے ہوش ہوکر گر پڑے، حضرت زیدؓ آپﷺ کو اپنی پیٹھ پر اٹھا کر آبادی سے باہر لے آئے، حضور ﷺ کو اپنی پیٹھ پر بٹھانے کی سعادت سب سے پہلے حضرت زیدؓ کے حصہ میں آئی، (بعد میں سفرِ ہجرت کے دوران حضرت ابو بکرؓ نے آپﷺ کو اپنی پیٹھ پر بٹھایا، جنگ اُحد میں زخمی ہوکر حضورﷺنے ایک چٹان پر چڑھنا چاہا لیکن زخموں کی وجہ سے ایسا نہ کر سکے، اس وقت حضرت طلحہؓ بن عبید اللہ نے آپﷺ کواپنی پیٹھ پر اٹھایا تھا،)بعد میں حضرت زیدؓنے پانی سے زخموں کو دھویا اور آپﷺ کچھ افاقہ محسوس کرنے لگے تو زبان ِ مبارک سے دعا نکلی" اے اللہ !میں اپنی کمزوری اور بے بسی کی تجھ سے شکایت کرتا ہوں، اگر تو مجھ سے ناراض نہیں ہے تو مجھے کسی کی بھی پروا نہیں" اسی حالت میں آپﷺ چل پڑے اور کچھ دور جانے کے بعد آپﷺ نے نظر اُٹھائی تو ایک ابر سایہ کیے ہوئے دکھائی دیا، اس میں سے حضرت جبریلؑ نے آواز دی:اللہ نے وہ سب کچھ سن لیا ہے جو آپﷺ کی قوم نے آپﷺ سے کہا ہے، اس وقت پہاڑوں کا فرشتہ آپﷺ کے سامنے حاضر ہے، آپﷺ فرمائیں تو انھیں دونوں پہاڑوں کے درمیان کچل کر رکھ دوں، لیکن آپﷺ نے فرمایا : نہیں مجھے اُمید ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کی پشت سے ایسے لوگ پیدا کرے گا جو اس کی عبادت کریں گے اور کسی کو اس کا شریک نہ ٹھہرائیں گے۔ [203]
صحیحین کی حدیث ہے کہ حضرت عائشہؓ نے ایک مرتبہ رسول اکرم ﷺ سے پوچھا کہ جنگ احد کے دن سے (جس دن حضور ﷺ کے دندان مبارک شہید ہو گئے تھے اور خود کی کڑیاں چہرے مبارک میں چبھ گئی تھیں اور آنحضرت ﷺ ایک خندق میں گر گئے تھے) کبھی زیادہ تکلیف آپﷺ کو پہنچی تو آپﷺ نے فرمایا: ہاں! اس دن جس دن میں نے عبد یالیل پر اسلام پیش کرکے اس کی دعوت دی تھی اور انھوں نے رد کر دی تھی، جب وہاں سے پلٹے تو قرن ثعارب تک ( یہ مکہ اور طائف کے درمیا ن ایک پہاڑ کا نام ہے) بے ہوشی کے عالم میں آئے، احد کے دن سے زیادہ تکلیف مجھ کو اس روز پہنچی تھی، آخر میں آپﷺ شہر سے دور ایک باغ میں انگور کی بیل کے نیچے جاکر ٹھہرے جو رئیس مکہ ربیعہ کے بیٹوں عتبہ اور شیبہ کا تھا جو باوجود کفر کے شریف الطبع اور نیک نفس تھے، اس باغ میں بیٹھ کر آپﷺ نے دعا فرمائی جو دعائے مستضعفین کے نام سے مشہور ہے، اس دعا کے ایک ایک فقرہ سے اندازہ ہوتا ہے کہ طائف کے لوگوں نے آپﷺ سے جو بدسلوکی کی اور کوئی بھی ایمان نہ لایا اس کی وجہ سے آپﷺ کس قدر مغموم اور رنجیدہ تھے، آپﷺ نے فرمایا: بار الٰہا ! میں تجھ ہی سے اپنی کمزوری و بے بسی اور لوگوں کے نزدیک اپنی بے قدری کا شکوہ کرتاہوں یا ارحم الراحمین تو کمزوروں کا رب ہے اور تو ہی میرا رب ہے، تو مجھے کس کے حوالہ کر رہاہے؟ کیا کسی بے گانہ کے جو میرے ساتھ تندی سے پیش آئے یا کسی دشمن کے جس کو تو نے میرے معاملہ کا مالک بنا دیا ہے ؟ اگر مجھ پر تیرا غضب نہیں ہے تو مجھے کوئی پروا نہیں ؛لیکن تیری عافیت میرے لیے زیادہ کشادہ ہے، میں تیرے چہرہ کے اس نور کی پناہ چاہتاہوں جس سے تاریکیاں روشن ہوگئیں اور جس پر دنیا و آخرت کے معاملات درست ہوئے کہ تو مجھ پر اپنا غضب نازل کرے یا تیرا عتاب مجھ پر وارد ہو، تیری رضا مطلوب ہے یہاں تک کہ تو خوش ہوجائے اور تیرے بغیر کوئی زور اور طاقت نہیں، جب عتبہ نے آپﷺ کو اس حالت میں دیکھا تو اپنے غلام کے ذریعہ جس کا نام عدّاس تھا ایک انگور کا خوشہ آپﷺ کے پاس بھجوایا، آپﷺ نے بسم اللہ الرحمٰن الرحیم کہہ کر اپنے منہ میں رکھا، عدّاس حیرت سے آپﷺ کی صور ت دیکھنے لگا اور خیا ل کیا کہ یہ تو ایسی بات ہے جو کافرانہ شعار سے جدا ہے، آنحضرت ﷺنے پوچھا، تم کہاں کے ہو اور تمھارا دین کیا ہے ؟ اس نے کہا کہ وہ عیسائی ہے اور نینویٰ کا رہنے والا ہے، حضورﷺ نے فرمایا ! کیا تم اس صالح انسان کی بستی کے ہوجن کانام یونس بن متی تھا، عدّاس نے پوچھا کہ آپﷺ کس طرح انھیں جانتے ہیں تو حضورﷺ نے جواب دیا کہ وہ میرے بھائی ہیں، وہ بھی نبی تھے اور میں بھی نبی ہوں، عدّاس نے آپﷺ کا نا م پوچھا تو آپﷺ نے فرمایا" محمد" تب عدّاس نے کہا کہ میں نے توریت میں آپﷺ کا اسمِ مبارک دیکھا ہے اور آپﷺ کے اوصاف بھی پڑھے ہیں، پھر اس نے کہا کہ اللہ تعالیٰ آپﷺ کو اہل ِمکہ میں مبعوث فرمائے گا اور اہلِ مکہ آپﷺ کی اطاعت سے انکار کریں گے؛ لیکن آخر میں فتح آپﷺ ہی کی ہوگی اور یہ دین تمام دنیا میں پھیل جائے گا، اس کے بعد اس نے کہا کہمیں ایک عرصہ سے یہاں آپﷺ کے انتظار میں ہوں، مجھے اسلام کی تعلیم دیجئے، آپﷺ کے اسلام پیش فرمانے پر وہ فوری مسلمان ہو گیا اور جھک کر حضور ﷺ کے سر، ہاتھ اور پاؤں چومنے لگا، واپس آکر اس نے کہا کہ انھوں نے مجھے ایسی بات بتائی جسے نبی کے سوا کوئی دوسرا نہیں جانتا، عتبہ اور شیبہ نے کہا : کمبخت کہیں وہ تجھے تیرے دین سے برگشتہ نہ کر دے، تیرا دین تو اس کے دین سے بہتر ہے۔ [204]
طائف کے سفر میں حضور اکرم ﷺ کو تین قسم کے لوگوں سے سابقہ پڑا، پہلے سردار بنو ثقیف کے تین بیٹوں عبد یا لیل، مسعود اور حبیب نے نہ صرف یہ کہ اسلام قبول نہیں کیا بلکہ اوباشوں کے ذریعہ حضور ﷺ پر سنگباری کروائی، دوسرے رئیس مکہ کے بیٹے عتبہ اور شیبہ نے حضور ﷺ کو اس پریشانی کے عالم میں دیکھا تو اپنے باغ میں انگور کھانے کے لیے بھیجے، تیسرا شخص غلام عدّاس تھا جس نے نہ صرف حق کو پہچانا؛ بلکہ حضورﷺ کی رسالت کی تصدیق کی اور آپﷺ پر ایمان لایا۔
جنات سے ملاقات
طائف سے واپس ہوتے ہوئے آپﷺ نے چند روزمقام نخلہ میں قیام فرمایاجو مکہ سے ایک رات کی مسافت پر واقع ہے، دوران قیام ایک رات نماز تہجد میں آپﷺ نے پہلی رکعت میں سورۂ رحمٰن اور دوسری میں سورۂ جن تلاوت فرمائی، اتفاق سے ملک شام کے مقام نصیبین (بروایت دیگر نینویٰ ) کے سات جنو ں کا ادھر سے گذر ہوا، وہ حضور ﷺ کی قرأت سن کر ٹھہر گئے اور غور سے سننے لگے، صاحب الروض نے ان جِنوں میں سے پانچ کے نام منشی، ناشی، شاصر، ناصر اور الاحقب لکھے ہیں ؛لیکن طبری نے آٹھ نام اس طرح دئے ہیں، حس، مس، شاصر، ناصر، اینا، الارد، انین، احقم، ایک روایت ہے کہ جِنوں نے کھڑے ہوکر قرآن سنا اور پھر چلے گئے، آپﷺ کو ان کی آمد کا بالکل علم نہیں ہوا یہاں تک کہ سورۂ جِن کی آیات نازل ہوئیں، دوسری روایت ہے کہ جِن نماز کے بعد ظاہر ہوئے، حضور ﷺ نے انھیں ایمان کی دعوت دی اور انھوں نے قبول کرلی، آپﷺ نے انھیں اسلام کی دعوت کو عام کرنے کی تلقین کی، روایت ہے کہ جِنّات کی قوم یہودی مسلک پر تھی ؛لیکن اِن جِنوں کے اسلام قبول کرنے کے بعد بہت بڑی تعداد نے اسلام قبول کر لیا، جنا ت کا آپﷺ کے پاس آنے کا ذکر قرآن مجید میں دو جگہ آیا ہے، ایک سورۃ الاحقاف میں اور دوسرے سورہ ٔجن میں، سورۃ الاحقاف کی آیا ت میں فرمایا گیا :
" اور جب کہ ہم نے آپ کی طرف جنوں کے ایک گروہ کو پھیرا کہ وہ قرآن سنیں تو جب وہ (تلاوت ) قرآن کی جگہ پہنچے تو انھوں نے آپس میں کہا کہ چپ ہوجاؤ پھر جب اس کی تلاوت پوری کی جاچکی تو وہ اپنی قوم کی طرف عذاب الٰہی سے ڈرانے والے بن کر پلٹے، انھوں نے کہا: اے ہماری قوم ہم نے ایک کتاب سنی ہے جو موسیٰ ؑ کے بعد نازل کی گئی ہے، اپنے سے پہلے کی تصدیق کرنے والی ہے، حق اور راہ راست کی طرف رہنمائی کرتی ہے ، اے ہماری قوم ! ﷲ کے داعی کی بات مان لو اور اس پر ایمان لے آؤ، اﷲ تمھارے گناہ بخش دے گا اور تمھیں دردناک عذاب سے بچائے گا" [205]
سورۂ جن کی آیات میں فرمایاگیا :
" (ا ے پیغمبر )لوگوں سے کہہ دو کہ میرے پاس وحی آئی ہے کہ جنوں میں سے ایک جماعت نے اس کتاب کو سنا تو کہنے لگے کہ ہم نے ایک عجیب قرآن سنا ہے جو بھلائی کا راستہ بتاتا ہے تو ہم اس پر ایمان لے آئے اور ہم اپنے پروردگار کے ساتھ کسی کو شریک نہ بنائیں گے" [206]
جنات کے بارہ نقیب
حضرت عبد اللہؓ بن مسعود سے روایت ہے کہ وادیٔ نخلہ سے آنے کے تین ماہ بعد ایک روز حضرت جبریل ؑ آئے اور عرض کیا کہ جنّات آپ ﷺ سے ملاقات کے لیے آنے والے ہیں، آپﷺ ان کے ساتھ مقام جحون میں پہنچے تو ایک مقام پر جبریلؑ نے اپنی انگلی سے ایک دائرہ کھینچا اور فرمایا کہ اس سے باہر ہر گز قدم نہ رکھنا ورنہ پھر مجھے نہ دیکھ سکو گے، آپﷺ نے ایک ٹیلہ پر نماز ادا فرمائی اور سورۂ طٰہٰ کی تلاوت شروع کی، کچھ ہی دیر میں چالیس جھنڈے دکھائی دیے اور ہر جھنڈے تلے ہزاروں جِنّات موجود تھے، کسی نے یہ تعداد دو ہزار اور کسی نے ساٹھ ہزار بتلائی ہے، جِنّات نے آپﷺ سے دریافت کیا کہ آپﷺ کون ہیں ؟ آپﷺ نے فرمایا : اللہ کا نبی، انھوں نے پوچھا کہ ثبوت کیا ہے ؟ ارشاد فرمایا کہ درخت گواہی دے گا، آپﷺ کے اشارے پر ایک درخت اپنی جگہ سے آکر شاخوں کو زمین پر بچھا دیا اور عرض کیا کہ بے شک آپﷺ اللہ کے رسول ہیں، پھر آپﷺ نے اسے واپس جانے کے لیے کہا تو واپس ہو گیا، آپﷺ کے گرد جِنوں کا بڑا ہجوم تھا جن میں سے آپﷺ نے بارہ جِن بطور نقیب منتخب فرمائے اور انھیں دین کے احکام بتلائے، پھر تمام جن بادلوں کی ٹکڑیوں کی صورت میں اُڑ کر چلے گئے۔
صبح میں حضور ﷺ وہاں سے واپس آئے اور حضرت عبد اللہ ؓ بن مسعود سے پوچھا : تم نے کیا کیا دیکھا ؟ انھوں نے عرض کیا : سیاہ آدمی سفید لباس میں دیکھے، فرمایا :یہ نصیبین کے جِنّات تھے مجھ سے اپنی سواریوں کی خوراک مانگ رہے تھے، ان کی خوراک ہڈیاں اور جانوروں کا چارہ اور گھوڑوں کی لید ہے، عرض کیا کہ یہ کیونکر ممکن ہے، آپﷺ نے فرمایا : اللہ تعالیٰ ہر ہڈی پر اُس وقت گوشت پیدا کر دیتا ہے جتنا اس سے کھایا جائے اور لید کو دانوں میں تبدیل کر دیتاہے، اسی موقع پر آپﷺ نے ارشاد فرمایا : ہڈی اور لید سے استنجا نہ کرو۔ [207]
وادی ٔ نخلہ میں چند روز قیام کے بعد آپﷺ جبل ِ نور پر تشریف لا ئے اور غارِ حرا میں قیام فرمایا، اب مکہ میں بغیر کسی کی امان کے داخل ہونا مشکل تھا، آپ ﷺنے عبد اللہ بن اریقط کے ذریعہ اخنس بن شریق اور سہیل بن عمرو کے پاس کہلا بھیجا کہ وہ اپنی پناہ میں لے لیں لیکن اخنس نے یہ کہہ کر انکار کر دیاکہ میں حلیف ہوں اور حلیف کو پناہ دینے کا اختیار نہیں، اسی طرح سہیل نے یہ کہہ کر انکار کر دیا کہ بنی عامر کی دی ہوئی پناہ بنی کعب پر لاگو نہیں ہوتی، پھر آپﷺ نے یہی پیام مطعم بن عدی کے پاس بھیجا فوراً آمادہ ہو گیااور اپنے بیٹوں اور قبیلہ والوں سے کہا کہ حرم کے دروازے پر کھڑے رہیں اور خود بھی اونٹ پر سوار ہو کر حرم کے پاس پہنچا اور بہ بانگ دہل کہا کہ میں نے محمد( ﷺ ) کو پناہ دی ہے، سب نے مطعم کی اس پناہ کو قبول کیا، چنانچہ آنحضرت ﷺ مطعم بن عدی کی امان میں مکہ تشریف لائے ‘ حجر اسود کو بوسہ دیا اور طواف کر کے دوگانہ ادا کیا اور پھراپنے دولت خانہ کو واپس تشریف لے گئے۔
مطعم بن عدی کی وفات حالتِ کفر میں غزوۂ بدر سے پہلے ہوئی، شاعرِ دربار ِ رسالت حضرت حسانؓ نے مرثیہ لکھا، مطعم بن عدی کا یہی احسان تھا کہ اسیرانِ بدر کے بارے میں حضور ﷺ نے فرمایا تھا :
اگر آج مطعم بن عدی زندہ ہوتا اور ان ظالم لوگوں کے بارے میں درخواست کرتا تو میں اس کی خاطر انھیں رہا کر دیتا، ابن اسحاق کی روایت ہے کہ جب آپﷺ طائف سے مکہ تشریف لائے تو آپﷺ کی قوم آپ ﷺ کی مخالفت اور اسلام دشمنی میں پہلے سے زیادہ سخت ہو گئی، قوم میں آپﷺ کی ہنسی اڑانے والوں میں بڑی بڑی پانچ ہستیاں تھیں اور یہ لوگ اپنی قوم میں بلند پایہ اور سن رسیدہ تھے : 1) بنی اسد میں الاسود بن المطلب،2) بنی زہرہ میں الاسود بن یغوث، 3) بنی مخزوم میں ولید بن المغیرہ، 4) بنی سہل میں عاص بن وائل، 5) بنی خزاعہ میں الحارث بن طلاطلہ۔
یہ لوگ اپنے کردار میں مغضوب کی حد تک پہنچ چکے تھے؛ چنانچہ ایسی حالت میں کہ یہ لوگ طواف کر رہے تھے حضرت جبرئیل علیہ السلام آئے اور حضور ﷺ بھی ان کے پہلو میں کھڑے تھے، حضرت جبرئیل علیہ السلام نے جب ان لوگوں کی طرف دیکھا تو ہر ایک کی طرف خصوصی اشارے کیے جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ الاسود بن المطلب اندھا ہو کر مرگیا اور الاسود بن یغوث پیٹ پھولنے کی وجہ سے مرگیا، ولید بن مغیرہ جس کے پاؤں میں بہت دنوں سے تیر کی خراش کا نشان تھا وہ پھوڑا بن گیا اور یہی اس کی موت کا سبب بنا، عاص بن وائل اپنے گدھے پر سوار ہوکر طائف جانے کے ارادہ سے نکلا وہ اس کو لے کر ایک خاردار درخت پر بیٹھ گیا اس کے تلوے میں کانٹا چبھ گیا اور یہی اس کی موت کا سبب بن گیا، حارث بن طلاطلہ کے سر سے بغیر کسی ظاہری سبب کے پیپ نکلنے لگی اور وہ جانبر نہ ہو سکا۔ [208]
قبائل میں تبلیغ
طائف سے مکہ واپس ہونے کے بعد آپﷺ نے افراد اور قبائل کو پھر سے اسلام کی دعوت دینی شروع کردی، حج کے زمانے میں عرب کے مختلف قبائل مکہ میں جمع ہوتے، حضور ﷺ کا معمول تھا کہ آپﷺ ایک ایک قبیلہ والو ں کے پاس جا تے اور اسلام کی تبلیغ فرماتے، عرب میں مختلف مقامات پر میلے لگتے تھے جن میں دور دور کے قبائل آتے تھے، مورخین نے ان میلوں میں عکاظ، مجنّہ اور ذوالمجاز کانام خاص طور پر لیا ہے، حج کا بڑا میلہ منیٰ میں ہوتا، آپﷺ ان میلوں میں جاتے اور اسلام کی تبلیغ فرماتے، قبائل عرب میں سے بنو عامر، بنو محارب، بنو سُلیم، حارث بن کعب، فزارہ، غسّان، مرّہ، حنیفہ، بنو عبس، بنو نضر، کندہ، کلب، عذرہ، حضارمہ (حضرموت کے رہنے والے) مشہور قبائل ہیں، آپﷺ ان سب قبائل کے پاس تشریف لے گئے لیکن ابو لہب ہر جگہ ساتھ ساتھ جاتا اور جب آپﷺ کسی مجمع کو مخاطب کرتے تو برابر سے کہتا: دین سے پھر گیا ہے اور جھوٹ کہتا ہے۔ [209]
بنی حنیفہ
بنی حنیفہ یمامہ میں آباد تھے، جب آپﷺ ان لوگوں کے پاس گئے تو انھوں نے نہایت تلخی سے جواب دیا، مسیلمہ کذّاب جس نے آگے چل کر نبوت کا دعویٰ کیا اسی قبیلہ کا رئیس تھا۔
بنی ذہل
جب آپﷺ قبیلہ بنو ذہل بن شیبان کے پاس گئے تو حضرت ابو بکر ؓ بھی ساتھ تھے، وہاں آپﷺ کی ملاقات ان کے سردار مفروق بن عمرو اور ہانی بن قبیصہ سے ہوئی، حضرت ابو بکرؓ نے کہا : میرے ساتھ اللہ کے آخری نبی ﷺ آئے ہیں، مفروق نے کہا، " میں نے آپ ﷺ کا تذکرہ سنا ہے، پھر حضور ﷺ سے مخاطب ہو کر کہا : اے برادر قریش ! آپﷺ کی دعوت کیا ہے؟ آپ ﷺنے فرمایا : خدا ایک ہے اور میں اس کا پیغمبر ہوں، پھر آپ ﷺ نے سورہ ٔانعام کی آ یت 151 پڑھ کر سنائی، اس قبیلہ کے روساء مفروق، مثنیٰ اور ہانی نے کلام اللہ کی تحسین کی اور کہا : بے شک یہ کلام زمین والو ں کا نہیں ہو سکتا۔
بنی عمرصعصہ
حضور ﷺ ایک مرتبہ قبیلہ بنی عامر صعصعہ کے لوگوں کے پاس گئے، ان کاایک شخص بحیرہ بن فراس قشیری آپ ﷺ کی باتوں سے بہت متاثر ہوا اور لوگوں سے پوچھا کہ آپ ﷺ کون ہیں ؟ انھوں نے بتایا کہ بنو ہاشم قریش کے محمد بن عبد اللہ ہیں جو خود کو اللہ کا رسول بتا تے ہیں اور ہم سے حمایت کے طلب گار ہیں، ہم نے آپ ﷺ کی دعوت پر لبیک کہااور ہم آپ ﷺ کو اپنے شہر لے جا کر حفاظت کریں گے، یہ سن کر بحیرہ نے لوگوں سے کہا : اس بازار ِعکاظ سے شاید ہی کوئی قبیلہ ایسی سخت چیز لے جارہا ہے جیسی کہ تم، کیا تم تمام عرب کے مقابلہ پر نکلو گے اس لیے کہ اس شخص کی قوم نے اسے نکال دیا ہے اور اس کی تکذیب کی ہے، پھر اس نے حضور ﷺ سے مخاطب ہوکر کہا : جائیے اور اپنی قوم سے مل جائیے، اگر آپ ﷺ میری قوم کے پاس نہ ہوتے تو میں آپ ﷺ کاسر تن سے جدا کر دیتا، یہ سن کرآنحضرت ﷺاُٹھ کھڑے ہوئے اور انپی اونٹنی پر سوارہو گئے، بحیرہ نے اونٹنی کے پیٹ پر زور سے ڈنڈا مارا جس سے وہ اچھل پڑی اور حضور ﷺ کو نیچے گرا دیا، اتفا ق سے بنی عامر کی ایک خاتون ضباعہ عامر بن قرط وہا ں موجود تھی جس نے مکہ میں حضور ﷺ کے ہاتھ پر ایمان قبول کر لیا تھا، اس نے فوراً اپنے چچا زاد بھائیوں کو للکارا : ائے آل عامر ! اب میرا تم سے کوئی تعلق نہیں، تمھارے سامنے یہ بد سلوکی ہو رہی ہے اور تم میں سے کوئی انھیں نہیں بچاتا، اس کے بھائیوں میں سے تین شخص اُٹھے اور بد سلوکی کرنے والوں کی خوب مار پیٹ کی، اللہ تعالیٰ نے انھیں ہدایت دی اور بعد میں وہ ایمان لائے۔[210]
حضوراکرمﷺ نے نہ صرف قبائل کو بلکہ مختلف افراد کو بھی اسلام کی دعوت دی جس کے نتیجہ میں کئی افرادنے اسلام قبول کیا، چند کا ذکر ذیل میں درج کیا گیا ہے:
حضرت ایاسؓ بن معاذ کا اسلام
حضرت ایاسؓ بن معاذ یثرب کے رہنے والے تھے، جنگ بعاث سے کچھ پہلے بنو خزرج کا ایک وفد قریش سے حلف و تعاون کی تلاش میں مکہ آیاتھا، حضرت ایاسؓ بھی اسی وفد کے ساتھ آئے تھے، اس زمانہ میں یثرب میں اوس اور خزرج کے قبائل میں سخت عداوت پائی جاتی تھی، جب حضور اکرم ﷺ کو اس وفد کے آنے کی اطلاع ہوئی تو آپﷺ ان کے پاس تشریف لے گئے اور انھیں مخاطب کرکے فرمایا : تم جس غرض سے آئے ہو تمھیں اس سے بھی بہتر چیز کی ضرورت ہے، انھوں نے پوچھا وہ کیا ہے؟ تو آپﷺ نے فرمایا میں اﷲ کا رسول اور اس کا پیامبر ہوں، لوگوں کو میں اس بات کی دعوت دیتاہوں کہ وہ اﷲ کی عبادت کریں اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ بنائیں اور اﷲ نے مجھ پر قرآن اتاراہے، پھر آپﷺ نے قرآن کی چند آیات تلاوت فرمائیں تو ایاس ؓ بن معاذ جو نو خیز جوان تھے، کہا : اے لوگو! واﷲ جس غرض کے لیے تم لوگ آئے ہو یہ اس سے بہتر ہے ؛لیکن ابولحیسر نے کنکریاں اٹھا کر ان کے منہ پر مارتے ہوئے کہا چپ رہو ہم کسی اور کام کے لیے آئے ہیں ؛چنانچہ ایاس ؓ خاموش ہو گئے اور رسول اﷲﷺ تشریف لے گئے، یہ وفد قریش کے ساتھ کوئی معاہدہ نہیں کر سکا اور واپس چلاگیا، ایاسؓ بھی ان کے ساتھ یثرب واپس ہو گئے اورچند روز بعد ہی ان کا انتقال ہو گیا، ان کی قوم کے بعض لوگوں نے بتایا کہ مرتے وقت ان کی زبان سے کلمۂ توحید اور تسبیح و تحمید و تکبیر ادا ہو رہے تھے اس لیے ایاسؓ کے مسلمان ہونے میں شک نہیں کرتے تھے اور انھیں یقین تھا کہ وہ مکہ میں اسلام قبول کر چکے تھے۔
حضرت ابو زر غفاری کا ایمان لانا
حضر ت ابو زر غفاریؓ یثرب کے نواح میں رہا کرتے تھے، ان کو سویدؓ بن ثامت اور ایاسؓ بن معاذ کے ذریعہ حضوراکرمﷺ کی بعثت کی خبر پہنچی تو وہ بھی اسلام کی طرف مائل ہوئے، چنانچہ انھوں نے اپنے بھائی سے کہا کہ تم اس آدمی کے پاس جاؤ جو اپنے آپ کو نبی کہتاہے، اس سے بات کرو اور مجھے آکر اطلاع دو، ان کے بھائی نے جاکر ملاقات کی اور واپس آکر اطلاع دی کہ خدا کی قسم میں نے ایک ایسا آدمی دیکھا ہے جو بھلائی کا حکم دیتا ہے اور برائی سے روکتا ہے، چونکہ حضر ت ابو زر ؓ ان کی اطلاع سے مطمئن نہیں ہوئے اس لیے وہ خود مکہ گئے، وہاں جاکر آپ نے یہ گوارا نہ کیا کے حضورﷺ کے متعلق کسی سے کچھ پوچھیں اور وہ خود بھی حضور ﷺ کو پہچانتے نہ تھے، وہ مسجد حرام میں ٹھہرے ہوئے تھے کہ ان کے پاس سے حضرت علیؓ کا گذر ہوا، حضرت علیؓ نے انھیں اجنبی جان کر اپنے ساتھ گھر چلنے کے لیے کہا تو ان کے ساتھ چل پڑے، لیکن راستہ میں دونوں نے بھی آپس میں کوئی بات چیت نہیں کی، صبح میں حضر ت ابو زر ؓ پھر مسجد حرام گئے تاکہ حضورﷺ کے متعلق دریافت کریں ؛لیکن کسی سے کچھ نہ پوچھ سکے، پھر جب حضرت علیؓ کا ان کے پاس سے گذر ہوا تو انھوں نے پوچھا کہ کیا آپ کو اس آدمی کا ٹھکانہ معلوم ہوا جس کی تلاش میں آپ یہاں آئے ہیں تو انھوں نے کہا کہ نہیں، پھر حضرت علیؓ ان کو اپنے ساتھ لے گئے اور ان سے دریافت کیا کہ وہ کیوں اس شہر میں آئے ہیں، حضر ت ابو زر ؓ نے کہا کہ اگر آپ اس کو راز رکھیں تو میں بتاوں گا، حضرت علیؓ نے کہا کہ ٹھیک ہے میں ایسا ہی کروں گا، اس کے بعد حضر ت ابو زرؓ نے کہا کہ میرے علم میں یہ بات آئی ہے کہ یہاں ایک آدمی نے اپنے آپ کو اﷲ کا نبی کہنا شروع کیا ہے اس لیے میں اس سے ملاقات کے لیے چلا آیا، پھر حضرت علیؓ نے کہا کہ تم صحیح جگہ پر آئے ہواور یہ بھی کہا کہ میں بھی انھی کی طرف جا رہاہوں اس لیے تم بھی میرے ساتھ چلے آو، اگر راستہ میں کوئی ایسا شخص ملے جس سے تمھیں کچھ خطرہ ہے تو میں اپنا جوتا ٹھیک کرنے کے بہانے دیوار کی طرف چلا جاؤں گا لیکن تم راستہ پر چلتے رہنا، اس کے بعد حضرت علیؓ چلنے لگے تو حضر ت ابو زرؓ ان کے ساتھ چل پڑے یہاں تک کے وہ دونوں حضور ﷺ کے پاس پہنچ گئے، حضر ت ابو زرؓ نے حضور ﷺ سے عرض کیا کہ حضور ﷺ ان پر اسلام پیش کریں چنانچہ آپﷺ کے اسلام پیش کرنے پر وہ وہیں مسلمان ہو گئے، اس کے بعد حضور ﷺ نے ان سے فرمایا کہ اے ابو زر اس معاملہ کو ابھی راز میں رکھو اور اپنے مقام کو واپس ہوجاؤ، جب میرے مبعوث ہونے کی خبر ملے تو آجانا، اس کے بعد حضرت ابوذرؓقریش کی موجودگی میں مسجد حرام گئے اور ان کے سامنے ببانگ دہل کلمۂ شہادت پڑھ کر اپنے اسلام لانے کا اعلان کیا، یہ سنتے ہی قریش کے لوگ ان پر پل پڑے اور اس قدر مارے کہ وہ مرتے مرتے بچ گئے، حضرت عباسؓ نے انھیں بچایا اور انھیں دیکھ کر قریش سے کہا کہ تم لوگوں نے قبیلہ غفار کے ایک آدمی کو مارا ہے حالانکہ تمھاری تجارت کی گذرگاہ غفار ہی سے ہو کر جاتی ہے، یہ سنتے ہی لوگ ان کو چھوڑ کر ہٹ گئے، دوسرے دن صبح حضرت ابو زرؓپھر مسجد حرام میں گئے اور جو کچھ کل کہا تھا آج پھر وہی کہا اور پھر لوگوں نے انھیں مارا تو حضرت عباسؓ نے آکر بچایا۔
ضماد ازدی کا ایمان لانا
یمن کے رہنے والے تھے اور قبیلہ ازد سے تعلق تھا، آسیب اتارنا اور جھاڑ پھونک کرنا ان کا پیشہ تھا، جب وہ مکہ گئے تو وہاں کے بعض لوگوں نے کہا کہ محمدﷺ(نعوذ باﷲ)پاگل ہیں، انھوں نے سوچا کہ کیوں نہ میں اس شخص کے پاس جاؤں شائد میرے ہی ہاتھوں سے اﷲ انھیں شفادے دے، چنانچہ حضورﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور کہا : اے محمد(ﷺ)! میں آسیب اتارنے کے لیے جھاڑ پھونک کیا کرتاہوں کیا آپ کو بھی اس کی ضرورت ہے، آپﷺ نے جواب میں فرمایا :
" یقیناً ساری تعریف اﷲ کے لئے ہے ، ہم اسی کی تعریف کرتے ہیں اور اسی سے مدد چاہتے ہیں ، جسے اﷲ ہدایت دے دے اسے کوئی گمراہ نہیں کرسکتا اور جسے اﷲ بھٹکا دے اسے کوئی ہدایت نہیں دے سکتا اور میں شہادت دیتاہوں کہ اﷲ کے سوا کوئی معبود نہیں، وہ تنہا ہے اس کا کوئی شریک نہیں، اور میں شہادت دیتا ہوں کہ محمدﷺ اس کے بندے اور رسول ہیں"
یہ سن کر ضمادؓ نے حضور ﷺ سے دوبارہ وہ کلمات سنانے کی درخواست کی، حضور ﷺ نے تین بار دہرایا، اس کے بعد ضمادؓ نے کہا میں کاہنوں، جادوگروں اور شاعروں کی بات سن چکا ہوں؛ لیکن میں نے آپﷺ کے ان جیسے کلمات کہیں نہیں سنے جو سمندر کی گہرائی تک پہنچے ہوئے ہیں، لائیے اپنا ہاتھ بڑھائیے تاکہ میں اسلام پر بیت کروں، اس کے بعد انھوں نے اسلام قبول کر لیا۔
حضرت طفیل بن عمر دوسی کا ایمان لانا
حضرت طفیل ؓیمن کے قبیلہ کے سردار تھے، انھی دنوں جب کعبہ کی زیارت کے لیے آئے تو انھیں خیال آیا کہ ممکن ہے کہ حضور ﷺ کی آواز میرے کانوں میں پڑجائے اس لیے اپنے کانوں میں روئی ٹھونس لی، ایک روز حضور ﷺ حرم میں نماز پڑھ رہے تھے اس وقت حضرت طفیل ؓ وہا ں پہنچے، خیال آ یا کہ میں خود بھی شاعر ہوں اور زبان و بیان کو پرکھ سکتا ہوں، اس لیے کانوں سے روئی نکال پھینکی اور قرأت سننے لگے اور کلام اللہ سے مسحور ہو گئے، اس کے بعد حضور ﷺ کے دولت خانہ پر جا کر ایمان قبول کر لیے اور حضور ﷺ سے کہا کہ وطن جا کر وہا ں تبلیغ کروں گا، لوٹ کر گھر پہنچے اور اپنے والد سے کہا کہ میں نے اسلام قبول کر لیا ہے، ان کی تبلیغ سے ان کے والد اور بیوی نے بھی اسلام قبولکر لیا، لیکن قبیلہ والوں نے ان کی بات نہ سنی تو حضورﷺ کے پاس آکر کہا کہ ان کے لیے بد دعا فرمائیے، لیکن حضورﷺ نے بجائے بد دعا کے یہ دعا کی کہ: اے اللہ ! دوس کو ہدایت دے، حضور ﷺ کی دعا کا اثر یہ ہوا کہ پورے قبیلے نے اسلام قبول کر لیا اور غزوہ ٔ طائف کے موقع پر پورا قبیلہ دوس حاضر تھا، انھی میں حضرت ابو ہریرہؓ بھی تھے جن کی قسمت میں امام المحدثین بننا تھا، حضرت طفیلؓ حضو ر ﷺ کے وصال تک مدینہ میں رہے اور 11 ہجری میں مسیلمہ بن کذّاب کے خلاف لڑتے ہوئے یمامہ میں شہید ہوئے۔
یثرب(مدینہ) میں اسلام کا آغاز
آنحضرت ﷺ کا معمول تھا کہ قبائل کا دورہ فرماتے اور اسلام کی تبلیغ کرتے اور ہر سال منیٰ، عکاظ، مجنٰہ وغیرہ کے میلوں میں قبائل عرب کو دعوت دیتے، حج کا زمانہ آیا تو قافلوں کے قافلے منیٰ کی وادی میں پڑاؤ ڈالنے لگے، حضور ﷺ ان کے ایک ایک خیمہ پر جاتے اور انھیں اسلام کی دعوت دیتے، ایک دن مکہ سے تین میل کے فاصلہ پر عقبہ کی گھاٹی میں پہنچے، بنی خز رج کے چھ لوگوں سے ملاقات ہوئی، آپﷺ نے ان سے دریافت کیا کہ آپ کون لوگ ہیں ؟ انھوں نے کہا کہ یثرب سے آئے ہیں اور بنو خزرج سے تعلق ہے، پھر آپﷺ نے پوچھا کیا یہودیوں کے حلیف ہو؟ عرض کیا ہاں، آپﷺ نے فرمایا کیا آپ لوگ میری کچھ باتیں سن سکتے ہیں؟ وہ لوگ بیٹھ گئے، آپﷺ نے انھیں اسلام کی دعوت دی اور قرآن مجید کی تلاوت فرمائی، انھوں نے ایک دوسرے کی طرف دیکھا اور کہا کہ یہ تو وہی نبی ہے جس کا یثرب کے یہودی تذکرہ کرتے رہتے ہیں اور یہ بھی کہا، دیکھو یہود ہم سے اس اولیت میں بازی نہ لے جائیں، یہ کہہ کر سب نے ایک ساتھ اسلام قبول کر لیا، ان افراد کا شمار دانشوران یثرب میں ہوتا تھا، انھیں اندازہ تھا کہ حال ہی میں جو جنگ ہوئی تھی اس نے بڑی حد تک معاشرے کو پیس کر رکھ دیا تھا اس لیے وہ نہیں چاہتے تھے کہ مزید ایسی کوئی جنگ ہو، اس لیے انھوں نے یہ توقع قائم کی کہ حضور اکرمﷺ کی دعوت جنگ کے خاتمہ کا ذریعہ ثابت ہوگی، چنانچہ انھوں نے کہا کہ ہم اپنی قوم کو اس حالت میں چھوڑ کر آئے ہیں کہ کسی اور قوم میں ان کے جیسی عداوت اور دشمنی نہیں پائی جاتی، ہمیں توقع ہے کہ آپﷺ کی دعوت کے ذریعہ اﷲ تعالیٰ ان میں یکجہتی پیدا کرے گااور یہ کہ موجودہ حالات آپﷺ کی تشریف آوری کے لیے سازگار نہیں، ہم یثرب جاکر آپﷺ کی بعثت کی خبر دینے کے ساتھ ساتھ لوگوں کو آپﷺ کی دعوت کی طرف بلا کر ان کے سامنے دین اسلام پیش کریں گے اور آئندہ سال پھر آپﷺ کی خدمت میں حاضر ہوں گے، اس کے بعد وہ لوگ یثرب واپس ہوئے اور ان کے ذریعہ گھر گھر اسلام کا چرچہ ہونے لگا، ان چھ خوش نصیبوں کے نام یہ ہیں:
1-حضرت ابو امامہؓ اسعدبن زرارہ
خزرج کی شاخ بنی مالک بن نجّار سے تعلق تھا، صحابہ ؓ میں سب سے پہلے انھی نے 1ھ میں وفات پائی
2-حضرت عوفؓ بن حارث بن رفاعہ
بنی نجّار سے تعلق تھا اور ابن عفراء کہلاتے تھے، غزوہ بدر میں وفات پائی
3-حضرت رافعؓ بن مالک بن عجلا ن
بنی زریق کے معزز شخص تھے، اس وقت تک جس قدر قرآن اتر چکا تھا حضور ﷺ نے ان کو عنایت فرمایا، جنگ اُحد میں شہید ہوئے
4-حضرت قطبہؓ بن عامر بن حدیدہ
بنی سلمہ سے تعلق تھا
5-حضرت عقبہؓ بن عامر بن نابی
بنی خزام بن کعب سے تھے
6-حضرت جابرؓ بن عبد اللہ رُباب
بنی عبید بن عدی سے تھے
بعض نے یہ تعداد چھ کی بجائے آٹھ لکھی ہے اور اضافہ شدہ ناموں میں معاذؓ بن عفراء، یزیدؓ بن ثعلبہ اور ابو الہشیم ؓ بن الیتہان لکھے ہیں اور بعض نے حضرت جابرؓ بن عبد اللہ کی جگہ حضرت عبادہؓ بن صامت کا نام لکھا ہے۔
اسراء (معراج)
” اسراء “ کے معنی شب میں لے جانے کے ہیں ‘ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا وہ بے نظیر شرف و مجد اور حیرت زا واقعہ جس میں خدائے برتر نے اپنے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو مسجد حرام (مکہ) سے مسجد اقصیٰ (بیت المقدس) اور وہاں سے ملاء اعلیٰ تک بجسد عنصری اپنی نشانیاں دکھانے کے لیے سیر کرائی چونکہ شب کے ایک حصہ میں یہ واقعہ پیش آیا تھا اس لیے اسراء کہلاتا ہے۔
معراج عروج سے مشتق ہے جس کے معنی چڑھنے اور بلند ہونے کے ہیں اور اسی لیے معراج زینہ کو بھی کہتے ہیں نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے چونکہ اس شب میں ملائے اعلیٰ کے منازل ارتقا طے فرماتے ہوئے سبع سماوات ‘ سدرۃ المنتہیٰ اور اس سے بھی بلند ہو کر آیات اللہ کا مشاہدہ فرمایا اور ان واقعات کے ذکر میں زبان وحی ترجمان نے عُرِجَ بِیْ کا جملہ استعمال فرمایا اس لیے اس باجبروت اور پر عظمت واقعہ کو معراج سے تعبیر کیا جاتا ہے۔
بعض علما نے اصطلاحی فرق و امتیاز کے لیے یہ بھی فرمایا ہے کہ اس واقعہ کا وہ حصہ جس کا ذکر بصراحت سورة بنی اسرائیل میں ہے قرآنی تعبیر کے اتباع میں ” اسراء “ ہے اور وہ حصہ جس کا تذکرہ سورة النجم اور صحیح احادیث میں ہے ذات اقدس (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تعبیر ” ثُمَّ عُرِجَ بِیْ “ کی مناسبت سے ” معراج “ کے عنوان سے معنون ہے۔ واقعہ کی تفصیل جو قرآن مجید اور صحیح احادیث سے معلوم ہوتی ہے کہ ایک رات حضور اکرمﷺ آرام فرما رہے تھے کہ دو فرشتے جبریل اور میکائیل آئے، آپﷺ کو بیدار کیا اور اپنے ساتھ حرم کعبہ میں لائے، وہاں انھوں نے حضورﷺ کا سینہ چاک کر کے دل کو آبِ زم زم سے دھویا اور اپنے مقام پر رکھ دیا، پھر حضور ﷺ کو صفا و مروہ کے درمیا ن لائے جہاں بُرّاق کھڑا تھا، وہ اونٹ سے کم اور دراز گوش سے بڑا تھا، اس کا چہرہ آدمی کی طرح، کان ہاتھی کے مانند، گردن اونٹ سی، بال گھوڑے کے مثل، کمر شیر جیسی، پیر گائے کے سے، سینہ یاقوتِ سرخ کے دانہ کے مانند تھا، ران پر دو پر تھے، زین بندھی تھی، اس جنتی بُرّاق کانام جارود تھا، جبرئیل ؑ اور میکائیل ؑ نے حضورﷺ کو براق پر سوار کر وایا اور روانہ ہوئے، دائیں بائیں فرشتوں کی جماعتیں تھیں، راستہ میں کھجور کے درختوں کے جُھنڈ نظر آئے، جبرئیل ؑ نے کہا :یہ آپ ﷺ کا دارالہجرت ہے، یہاں اتر کر آپﷺ نے دو رکعت نفل نماز پڑھی، پھر جبرئیل ؑ نے طور ِ سینا پر براق کو روکا جہاں آپﷺنے دو رکعت نماز پڑھی، آپﷺ کی تیسری منزل بیت اللحم تھی جس کے بار ے میں حضرت جبرئیل ؑ نے بتلایاکہ یہ حضرت عیسیٰ ؑ کی جائے پیدائش ہے، وہاں بھی آپﷺ نے نماز پڑھی، وہاں سے بیت المقدس آئے جہاں مسجد اقصیٰ تھی، وہاں آپﷺ براق سے اترے، استقبال کے لیے فرشتوں کی کثیر تعداد تھی جن کی زبانوں پر " السلام علیک یا رسول اللہ یا اول یا آخر یا حاشر" تھا، مسجد اقصیٰ میں تمام انبیا آپﷺ کے منتظر تھے، وہاں آپﷺ نے نماز میں تمام پیغمبروں کی امامت فرمائی، حضرت جبرئیل ؑ بھی مقتدیو ں میں تھے، بعد ختم نماز آپﷺنے پیغمبروں سے ملاقات فرمائی، جب آپﷺ مسجد سے باہر تشریف لائے تو آپﷺ کے سامنے تین پیالے پیش کیے جن میں سے ایک میں دودھ، دوسرے میں شراب اور تیسرے میں پانی تھا، آپﷺ نے دودھ کا پیالہ اُٹھا لیا، جبریل ؑ نے عرض کیا: حضور ﷺ کو فطرت سلیمہ کی طرف ہدایت نصیب ہوئی، یہ سفر کی پہلی منزل تھی اس کو" اسرا ء" بھی کہا جاتا ہے، اس کے بعد سفر کی دوسری منزل شروع ہوئی جو اصل معراج ہے،[211] وہاں سے جبرئیلؑ آپﷺ کو صخرہ پر لائے جہاں سے فرشتے آسمانوں کی طرف پرواز کرتے ہیں، وہاں ایک سیڑھی نمودار ہوئی، آپﷺ آسمان پر پہنچے تو ایک بزرگ ہستی سے ملاقات ہوئی جن کے بارے میں جبرئیل ؑ نے بتلایاکہ ابو البشر حضرت آدم علیہ السلام ہیں، آپﷺ نے انھیں سلام کیا اور حضرت آدم ؑ نے جواب دیا اور آپﷺ کی نبوت کا اقرار کیا۔ پہلے آسمان سے آپﷺ دوسرے آسمان پر تشریف لے گئے جہاں دو نوجوان پیغمبروں حضرت یحییٰ ؑ اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام سے ملاقات ہوئی، دونوں کو آپﷺ نے سلام کیا اور دونوں نے جواب دیا اور آپﷺ کی نبوت کا اقرار کیا، تیسرے آسمان پر حضرت یوسف علیہ السلام، چوتھے پر حضرت ادریس علیہ السلام، پانچویں پر حضرت ہارون علیہ السلام اور چھٹے آسمان پر حضرت موسیٰ علیہ السلام سے ملاقات ہوئی، آپﷺ نے تمام پیغمبروں کو سلام کیا انھوں نے جواب دیا… مبارک باد دی اور آپﷺ کی نبوت کااقرار کیا، وہاں سے آپﷺ کو ساتویں آسمان پر لے جا یا گیا جہاں آپﷺ کی ملاقات حضرت ابراہیم علیہ السلام سے ہوئی، آپﷺ نے انھیں سلام کیا، انھوں نے جواب دیا اور آپﷺ کی نبوت کا اقرار کیا، اس کے بعد آپﷺ کو سدرۃ المنتہیٰ تک لے جایا گیا اور بیت المعمور دکھلایاگیا جو فرشتوں کا کعبہ ہے اور زمین پر کعبہ کے عین اوپر واقع ہے، وہاں ایک وقت میں ستر ہزار فرشتے طواف کر رہے تھے، سدرہ ایک بیری کا درخت ہے، اس کے پتے ہاتھی کے کان کے برابر اور پھل مٹکوں کی طرح تھے، فرشتے جگنوؤں کی طرح ان پتوں پر تھے، انھوں نے حضور ﷺ کا دیدار کیا، سِدرہ کی جڑ سے چار نہریں پھوٹ رہی تھیں دو ظاہر اور دو پوشیدہ، حضرت جبرئیل ؑ نے بتلایاکہ جو ظاہر ہیں وہ دجلہ اور فرات ہیں اور جو پوشیدہ ہیں وہ جنت کی نہریں کوثر اور سلسبیل ہیں، یہاں آپﷺ کی خدمت میں شراب، دودھ اور شہد کے پیالے پیش کیے گئے، آپﷺ نے دودھ کا پیالہ اٹھالیا، جبرئیل ؑ نے کہا یہ فطرت کی جانب رہنمائی ہے جو آپﷺ کی امت کا طرۂ امتیاز ہے۔ [212]
سدرۃ المنتہیٰ عالم خلق اور اللہ تعالیٰ کے درمیان حدِّ فاصل ہے، اس کے آگے عالمِ غیب ہے جس کا علم صرف اللہ تعالیٰ کو ہے، یہیں پر جنت الماویٰ ہے جس کا ذکر سورۂ نجم میں ہے، حضور اکرم ﷺ جنت میں داخل ہوئے، حضرت جبرئیل سدرہ سے کچھ آگے رُ ک گئے اور عرض کیاکہ اگر اس مقام سے بال برابر بھی بڑھوں تو جل کر خاک ہو جاؤں، اب آپﷺ کا اور آپﷺ کے رب کا معاملہ ہے، حضور ﷺ سجدے میں گر پڑے اس مقام پر سبز رنگ کا ایک تخت ظاہر ہوا جس کا نام رفرف ہے، اس کے ساتھ ایک فرشتہ تھا، حضرت جبرئیل ؑ نے حضور ﷺ کو اس فرشتہ کے سپردکیا، آپﷺ اللہ تعالیٰ کے دربار میں حاضر ہوئے، حضورﷺ نے عرض کیا : التحیات ُللہ و الصَّلوٰت و الطّیّبٰتُ( تمام قولی، بدنی اور مالی عبادتیں اللہ کے لیے ہیں) اللہ تعالیٰ کا جواب آیا: السلام علیک ایُّھا ا لنبی و رَحمتہُ ا للّٰہ وَ بَر کا تُہٗ(سلام ہو آپ پراے نبی اور اللہ کی رحمت اور اس کی برکتیں) آنحضرتﷺ نے دوبارہ عرض کیا، السلام علینا وَ عَلیٰ عبادِ ا للّٰہ اللصٰلحینِ(سلام ہو ہم پر اور اللہ تعالیٰ کے تمام نیک بندوں پر ) اس پر حضرت جبرئیل ؑ اور ملائکہ کی آواز سنائی دی، اَ شْھَدُ اَن لا اِلٰہ الا اللہ وَ اَشْھَدُ اَنَّ محمداً عبدہٗ و رسولُہٗ،(میں گواہی دیتاہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور میں گواہی دیتا ہوں کہ محمد اللہ کے بندے اور رسول ہیں)۔
معراج میں اُمت کے لیے پچاس نمازیں فرض کی گئیں، واپسی میں حضرت موسیٰ علیہ السلام نے کہا کہ مجھے اپنی اُمت کا تجربہ ہے، اس کی پا بجائی آپﷺ کی امت سے بھی نہ ہو سکے گی، چنانچہ آپﷺ نے اللہ تعالیٰ سے تخفیف کی درخواست کی جو کم ہوتے ہوتے پانچ رہ گئیں ؛لیکن اس کا ثواب پچاس نمازوں کے برابر رکھا گیا، سدرۃ المنتہیٰ سے آپﷺ نے حضرت جبرئیل ؑ کو ان کی اصلی صورت میں دیکھا، ان کے چھ سو پر تھے او ر وہ سبز رنگ کا جوڑا پہنے ہوئے تھے۔
آپﷺ نے داروغہ جہنم کو دیکھا جو نہ ہنستا تھا اور نہ اس کے چہرہ پر خوشی کی علامت تھی، آپﷺ نے جنت و جہنم بھی دیکھی، آپﷺ نے ان لوگوں کو دیکھا جو یتیموں کا مال ظلم کرکے کھا جاتے تھے، ان کے ہونٹ اونٹ کے ہونٹوں کی طرح تھے اور وہ اپنے منہ میں پتھر کے ٹکڑوں جیسے انگارے ٹھونس رہے تھے جو ان کی پاخانہ کی راہ سے نکل رہے تھے، آپﷺ نے سود خواروں کو دیکھا جن کے پیٹ اتنے بڑے تھے کہ وہ حرکت نہیں کر سکتے تھے، آپﷺ نے زنا کاروں کو بھی دیکھا جن کے سامنے تازہ گوشت اور سڑے ہوئے چھچڑے بھی تھے، وہ تازہ گوشت چھوڑ کر سڑے ہوئے چھچڑے کھا رہے تھے، آپﷺ نے ان عورتوں کو بھی دیکھا جو زنا کے ذریعہ حاملہ ہوتی ہیں اور ان سے ہوئی اولاد کو اپنے شوہروں کی اولاد میں داخل کرلیتی ہیں، آپﷺ نے دیکھا کہ ایسی عورتوں کے سینہ میں بڑے بڑے ٹیڑھے کانٹے چبھو کر انھیں زمین و آسمان کے درمیا ن لٹکایا گیا ہے، آپﷺ نے آتے جاتے ہوئے مکہ والوں کا ایک قافلہ بھی دیکھا اور انھیں ان کا ایک اونٹ بھی بتایا جو بھڑک کر بھاگ گیا تھا، آپﷺ نے ان کا پانی بھی پیا جو ایک ڈھکے ہوئے برتن میں رکھا تھا، اس وقت قافلہ سو رہا تھا، پھر آپﷺ نے اسی طرح برتن ڈھک کر چھوڑ دیا اور یہ بات معراج کی صبح آپﷺ کے دعوے کی صداقت کی ایک دلیل ثابت ہوئی۔
[213]
علامہ ابن قیم نے لکھا ہے کہ جب صبح میں حضور ﷺ نے حرم میں یہ واقعہ سنایا تو کفار نے اس کی تکذیب کی اور کہا کہ مکہ سے بیت المقدس جانے کے لیے ایک مہینہ اور واپس آنے کے لیے ایک مہینہ کا عرصہ لگتا ہے اور یہ کیسے ممکن ہے کہ یہ سفر راتوں رات طئے کر لیا جائے اور آپﷺ آسمان پر بھی جا کر آئیں، جب حضرت ابو بکر ؓ نے یہ بات سنی تو کہا کہ اگر حضورﷺ یہ بات فرمائی ہے تو بالکل سچ ہے اور میں اس واقعہ کی تصدیق کرتا ہوں، جب آپﷺ سے کفارقریش نے سوال کیا تو آپﷺ نے فرمایا کہ بیت المقدس میرا دیکھا ہوا ہے، اللہ تعالیٰ نے بیت المقدس کو آپﷺ کے سامنے رکھ دیا جسے دیکھ کر آپ تفصیل بیان کرنے لگے، حضور ﷺ تفصیل بیان کرتے جاتے تھے اور حضرت ابوبکرؓ اس کی تصدیق کرتے جاتے تھے، اس موقع پر حضور ﷺ نے حضرت ابو بکرؓ کو صدیق کا لقب عطا فرمایا، کفار مکہ جنھوں نے اس واقعہ کی تکذیب کی تھی یہ سن کر سخت حیران ہوئے۔
آپﷺ نے جاتے اور آتے ہوئے ان کے قافلہ سے ملنے کا ذکر بھی فرمایا اور بتلایا اس کی آمد کا وقت کیاہے، آپﷺ نے اس اونٹ کی بھی نشان دہی کی جو قافلہ کے آگے آگے آرہا تھا، جیسا کچھ آپ ﷺ نے بتایا تھا ویسا ہی ثابت ہوا۔
واقعہ کی وحدت
اس لیے دو مختلف تعبیروں اور واقعات کی تفصیلات میں جزوی اختلاف کے پیش نظر تطبیق روایات کی خاطر اس واقعہ کے تعدد کا قائل ہونا تاریخی اور تحقیقی نقطہ نظر سے ہرگز صحیح نہیں ہے اور مشہور محقق ‘ جلیل القدر محدث ‘ مفسر اور مورخ حافظ عماد الدین ابن کثیر (رحمہ اللہ علیہ) کا یہ ارشاد بلاشبہ درست اور حقیقت حال کے لیے کاشف ہے فرماتے ہیں :
” ان تمام روایتوں کو جمع کرنے سے یہ بات بخوبی واضح ہو گئی کہ واقعہ معراج صرف ایک ہی مرتبہ پیش آیا ہے اور راویوں کی عبارات کے بعض حصص کا ایک دوسرے سے کچھ مختلف اور تفصیلات میں کم و بیش ہونا وحدت واقعہ پر اثر انداز نہیں ہے کیونکہ انبیا (علیہم السلام) کے علاوہ دوسرے انسان خطا کاری سے محفوظ نہیں ہیں۔
سو ان روایات کے جزوی اختلافات کو دیکھ کر جن علما نے تعدد واقعہ کا مسلک اختیار کیا اور ہر ایک مختلف روایت کو جدا جدا واقعہ بنادیا اور اس طرح یہ دعویٰ کر دیا کہ معراج کا واقعہ متعدد بار پیش آیا ہے ‘ انھوں نے بعید از قیاس بات کہہ ڈالی اور قطعاً غلط راہ روی اختیار کرلی اور حقیقت حال سے دور پڑ گئے۔ یہ مسلک اس لیے بھی صحیح نہیں ہے کہ نہ سلف صالحین سے تعدد واقعہ منقول ہے اور نہ تاریخی دلائل اس کے مؤید ہیں اور اگر ایسا ہوتا تو خود نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ضرور بصراحت اس سے مطلع فرماتے اور راویان روایت بلاشبہ اس کو روایت کرتے۔ “ [214]
تحقیق تاریخ و سنہ
یہ عدیم النظیر واقعہ کب پیش آیا ؟ اس کے تعین میں اگرچہ متعدد اقوال مذکور ہیں لیکن ان دو باتوں پر سب کا اتفاق نظر آتا ہے ایک یہ کہ واقعہ معراج قبل از ہجرت پیش آیا ‘اور دوسری بات یہ کہ حضرت خدیجۃ الکبریٰ کی وفات کے بعد وقوع میں آیا اور جبکہ واقعہ ہجرت باتفاق 13 سنہ نبوت کو پیش آیا اور بخاری میں مذکور حضرت عائشہ (رضی اللہ عنہا) کی روایت کے مطابق حضرت خدیجہ (رضی اللہ عنہا) کا انتقال ہجرت سے تین سال قبل اور ایک دوسری روایت کے پیش نظر نماز پنجگانہ کی فرضیت سے قبل ہو چکا تھا ‘ تو اب واقعہ کو ہجرت سے قبل کے ان تین برسوں کے اندر ہی ہونا چاہیے۔ [215]
نیز کتب تاریخ و سیرت دونوں شاہد ہیں کہ معراج اور ہجرت کے درمیان کوئی اہم واقعہ موجود نہیں ہے اور بنظر تحقیق ان ہر دو کے درمیان نہایت گہرا رشتہ اور ربط و علاقہ پایا جاتا ہے تو بلاشبہ یہ کہا جا سکتا ہے کہ واقعہ معراج ہجرت سے بہت قریب زمانہ میں پیش آیا ہے اور درحقیقت یہ واقعہ ہجرت ہی کی پرجلال و پر عظمت تمہید تھی۔
غالباً ابن سعد (رحمہ اللہ علیہ) نے طبقات میں اور امام بخاری (رحمہ اللہ علیہ) نے اپنی الجامع الصحیح میں اس لیے واقعہ معراج اور ہجرت کو کسی تیسرے واقعہ کی مداخلت کے بغیر آگے پیچھے بیان کیا ہے اور جو حضرات صحیح بخاری کے ابواب و تراجم کی باہمی ترتیب کی دقیقہ سنجی سے واقف اور ان کے تفقہ کی بالغ نظری سے آگاہ ہیں وہ جانتے ہیں کہ ان کا رجحان یہ ہے کہ ان ہر دو واقعات کے درمیان زمانہ اور تعلق دونوں اعتبار سے انتہائی قربت ہے۔
تو اب یہ کہنا آسان ہے کہ جو ارباب سیرو تاریخ یہ فرماتے ہیں کہ معراج کا واقعہ ہجرت سے ایک سال یاڈیڑھ سال قبل پیش آیا ان کا ارشاد پایہ تحقیق رکھتا ہے۔
پھر مہینہ اور تاریخ کے تعین میں بھی متعدد اقوال موجود ہیں مگر راجح قول یہ ہے کہ مہینہ رجب کا تھا اور تاریخ 27 تھی چنانچہ ابن عبد البر ‘ امام نووی اور عبد الغنی مقدسی جیسے مشہور اور جلیل القدر محدثین کا رجحان اسی جانب ہے کہ رجب تھا اور آخر الذکر فرماتے ہیں کہ 27 تاریخ تھی اور دعویٰ کرتے ہیں کہ امت مرحومہ میں ہمیشہ سے عملاً اسی پر اتفاق بھی رہا ہے۔
قرآن عزیز اور واقعہ معراج
قرآن عزیز میں اسراء یا معراج کا واقعہ دو سورتوں بنی اسرائیل اور النجم میں مذکور ہے سورة بنی اسرائیل میں مکہ (مسجد حرام) سے بیت المقدس (مسجد اقصیٰ ) تک سیرکاتذکرہ ہے اور سورة النجم میں ملائے اعلیٰ کی سیروعروج کا بھی ذکر موجود ہے اور اگرچہ عام طور پر یہ سمجھا جاتا ہے کہ سورة بنی اسرائیل کی صرف ابتدائی آیات ہی میں یہ واقعہ مذکور ہے مگر حقیقت حال یہ ہے کہ پوری سورت اسی عظیم الشان واقعہ سے متعلق ہے اور سورت کی تمام آیات اسی کا تکملہ ہیں اور اس دعویٰ کے لیے ایک صاف اور واضح دلیل خود اسی سورت میں یہ موجود ہے کہ وسط سورة میں آیت:
{ وَ مَا جَعَلْنَا الرُّئْیَا الَّتِیْٓ اَرَیْنٰکَ اِلَّا فِتْنَۃً لِّلنَّاسِ } [216]
میں اسی واقعہ معراج کا تذکرہ ہو رہا ہے۔ اس سے قبل حضرت موسیٰ اور حضرت نوح (علیہما السلام) کے واقعات دعوت و تبلیغ اسی سلسلہ میں بطور شواہد و نظائر پیش کیے گئے ہیں کہ منکرین نے ہمیشہ اسی طرح خدا کی صداقتوں کو جھٹلایا ہے جس طرح آج واقعہ معراج کو جھٹلا رہے ہیں۔
احادیث اور واقعہ معراج کا ثبوت
مشہور محدث زرقانی رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں کہ معراج کا واقعہ پینتالیس (45) صحابہ (رضوان اللہ تعالیٰ علیہم) عنم و رضوا عنہ سے منقول ہے اور پھر ان کے نام بھی شمار کرائے ہیں۔ [217]
ان صحابہ میں مہاجرین بھی ہیں اور انصار بھی اور یہ ہرگز نہیں سمجھنا چاہیے کہ چونکہ انصار صحابہ مکہ میں موجود نہیں تھے ‘ اس لیے ان کی روایات صرف شنیدہ ہیں اس لیے کہ ایسے اہم واقعہ کو جس کا اسلام کی ترقی کے ساتھ بہت گہرا تعلق اور ہجرت کے واقعہ کے ساتھ خصوصی ربط ہے صحابہ (رضوان اللہ علیہم) و رضوا عنہ نے براہ راست نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ہی دریافت حال کیا ہوگا اور اگر مہاجرین سے بھی سنا ہوگا تو پھر ذات اقدس سے تصدیق ضرور کی ہوگی چنانچہ شداد بن اوس (رضی اللہ عنہ) کی روایت میں یہ الفاظ موجود ہیں :
( (قُلْنَا یَا رَسُوْلُ اللّٰہِ کَیْفَ اُسْرِیَ بِکَ )) [218]
” ہم نے (صحابہ نے) عرض کیا اے خدا کے رسول ! آپ کو معراج کس طرح ہوئی ؟ “
لفظ قلنا یہ ثابت کر رہا ہے کہ بلاشبہ معراج سے متعلق صحابہ (رضوان اللہ علیہم) کے عام مجمع میں نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے استفسار کیا جاتا تھا جن میں مہاجرین و انصار سبھی شریک ہوتے تھے اور مالک بن صعصعہ (رضی اللہ عنہ) جو انصاری صحابی ہیں ان کی روایت معراج میں ہے :
( (اَنَّ النَّبِیَّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) حَدَّثَھُمْ )) [219]
” نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان سے (صحابہ کرام (رضوان اللہ علیہم) عنم و رضوا عنہ سے) یہ واقعہ بیان فرمایا۔ “
واقعہ کی نوعیت
چونکہ یہ واقعہ اپنی اہمیت کے ساتھ ساتھ طویل بھی تھا اس لیے بر بنائے بشریت واقعہ کے اصل تفصیلی حالات میں اتحاد و اتفاق اور بحد تواتر روایات منقول ہونے کے باوجود متعدد روایات کی فروعی تفصیلات میں جو اختلاف نظر آتا ہے وہ معمولی توجہ سے رفع کیا جا سکتا ہے اور بلاشبہ ان جزوی اختلافات سے اصل واقعہ کی حقیقت پر مطلق کوئی اثر نہیں پڑتا خصوصاً جبکہ قرآن عزیز نے ان عجیب اور حیرت زا واقعات کو نص قطعی سے واضح کر دیا ہے جن کے متعلق ملحدین اپنے الحاد وزندقہ کے ذریعہ باطل تاویلات پیش کرکے اس واقعہ کی معجزانہ حیثیت کا انکار کرتے ہیں۔
واقعہ معراج و اسراء اور قرآن عزیز
سورة بنی اسرائیل میں واقعہ اسراء بیت المقدس تک کی سیر سے وابستہ ہے :
{ سُبْحٰنَ الَّذِیْٓ اَسْرٰی بِعَبْدِہٖ لَیْلًا مِّنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ اِلَی الْمَسْجِدِ الْاَقْصَا الَّذِیْ بٰرَکْنَا حَوْلَہٗ لِنُرِیَہٗ مِنْ اٰیٰتِنَا اِنَّہٗ ھُوَ السَّمِیْعُ الْبَصِیْرُ } [220]
” پاکی ہے اس ذات کے لیے جس نے اپنے بندے کو (یعنی پیغمبر اسلام کو) راتوں رات مسجد حرام سے مسجد اقصیٰ تک کہ اس کے اطراف کو ہم نے بڑی ہی برکت دی ہے سیر کرائی اور اس لیے سیر کرائی کہ اپنی نشانیاں اسے دکھائیں بلاشبہ وہی ذات ہے جو سننے والی دیکھنے والی ہے۔ “
{ وَ مَا جَعَلْنَا الرُّئْ یَا الَّتِیْٓ اَرَیْنٰکَ اِلَّا فِتْنَۃً لِّلنَّاسِ } [221]
” ور وہ دکھلاوا جو تجھ کو ہم نے دکھایا سو لوگوں کی آزمائش کے لیے (دکھلایا)۔ “
اور سورة النجم میں ملائے اعلیٰ تک عروج کا ذکر بھی موجود ہے :
{ وَالنَّجْمِ اِذَا ہَوٰی۔ مَا ضَلَّ صَاحِبُکُمْ وَمَا غَوٰی۔ وَمَا یَنْطِقُ عَنِ الْہَوٰی۔ اِنْ ہُوَ اِلَّا وَحْیٌ یُّوْحٰی۔ عَلَّمَہٗ شَدِیْدُ الْقُوٰی۔ ذُوْ مِرَّۃٍ فَاسْتَوٰی۔ وَہُوَ بِالْاُفُقِ الْاَعْلٰی۔ ثُمَّ دَنَا فَتَدَلّٰی۔ فَکَانَ قَابَ قَوْسَیْنِ اَوْ اَدْنٰی۔ فَاَوْحٰی اِلٰی عَبْدِہٖ مَا اَوْحٰی۔ مَا کَذَبَ الْفُؤَادُ مَا رَاٰی۔ اَفَتُمَارُوْنَہٗ عَلٰی مَا یَرٰی۔ وَلَقَدْ رَاٰہُ نَزْلَۃً اُخْرٰی۔ عِنْدَ سِدْرَۃِ الْمُنْتَہٰی۔ عِنْدَہَا جَنَّۃُ الْمَاْوٰی۔ اِذْ یَغْشَی السِّدْرَۃَ مَا یَغْشٰی۔ مَا زَاغَ الْبَصَرُ وَمَا طَغٰی۔ لَقَدْ رَاٰی مِنْ اٰیٰتِ رَبِّہِ الْکُبْرٰی۔ } [222]
” شاہد ہے ستارہ جبکہ غروب ہو ‘ تمھارا رفیق گمراہ ہوا اور نہ بھٹکا اور نہیں بولتا اپنے نفس کی خواہش سے ‘ یہ نہیں ہے مگر حکم جو اس کو بھیجا گیا ہے اس کو بتلایا ہے سخت قوتوں والے زور آور (فرشتہ) نے (کہ یہ خدا کی وحی ہے) جو سیدھا بیٹھا اور تھا وہ آسمان کے اونچے کنارہ پر پھر وہ قریب ہوا پس جھک آیا پھر رہ گیا (دونوں کے درمیان) دو کمان بلکہ اس سے بھی نزدیک کا فرق پس خدا نے اپنے بندہ (محمد) پر وحی نازل فرمائی جو بھی وحی بھیجی اس (بندہ) نے جو دیکھا (اس کے) دل نے جھوٹ نہیں کہا (یعنی آنکھ کی دیکھی بات کو جھٹلایا نہیں بلکہ تصدیق کی) تو کیا تم اس سے اس پر جھگڑتے ہو جو اس نے خود دیکھا ہے (یعنی واقعہ پر جھگڑتے ہو) اور اس (بندہ) نے خدا کو دیکھا ایک (خاص) نزول کے ساتھ جبکہ وہ (بندہ) سدرۃ المنتہیٰ کے نزدیک موجود تھا جس کے پاس آرام سے رہنے کی بہشت (جنت الماویٰ ) ہے اس وقت سدرہ (بیری کا درخت) پر چھا رہا تھا جو کچھ چھا رہا تھا اس رویت کے وقت نہ نگاہ بہکی اور نہ حد سے متجاوز ہوئی بلاشبہ اس (بندہ) نے (اس حالت میں) اپنے پروردگار کے بڑے بڑے نشان دیکھے۔ “
سورة بنی اسرائیل اور واقعہ معراج
یہاں سورة بنی اسرائیل اور سورة النجم کی تفسیر کا موقع نہیں صرف اشارات ہی پر اکتفا مناسب معلوم ہوتا ہے ‘ کیونکہ اگر ایک جانب یہ آیات اپنے مکمل تفسیری حق کا مطالبہ کرتی ہیں تو دوسری جانب کتاب اپنے سیاق وسباق کے پیش نظر اختصار کی طالب ہے بہرحال حسب ضرورت دونوں کا لحاظ رکھتے ہوئے اس قدر گزارش ہے کہ سورة بنی اسرائیل کی ابتدائی آیت میں واقعہ اسراء کے متعلق جو کچھ کہا گیا اس کی اگر تحلیل کی جائے تو بآسانی یہ فیصلہ کیا جا سکتا ہے کہ جہاں تک قرآن کا تعلق ہے اس کا فیصلہ یہی ہے کہ واقعہ اسراء بحالت بیداری بجسد عنصری پیش آیا ہے اور اس مطلب سے ہٹ کر جب اس کو روحانی یا منامی رؤیا کہا جاتا ہے تو تاویلات باردہ کے بغیر دعویٰ پر دلیل قائم نہیں ہو سکتی۔
بنی اسرائیل میں اس واقعہ کی ابتدا خدائے برتر کی قدوسیت اور سبحانیت کے بعد لفظ اسریٰ سے ہوئی ہے یہ لفظ ” س ‘ ر ‘ ی۔ سریٰ یسریٰ “ سے ماخوذ ہے لغت میں جس کے معنی رات میں چلنے کے آتے ہیں۔
( (سری ‘ یسری ‘ سری و سریۃً سارلیـلًا)) (لغت المنجد)
” سریٰ ‘ یسری ‘ سریۃً میں سریٰ کے معنی ہیں ” وہ رات میں چلا “
اور اسریٰ کے معنی بھی ” شب میں لے چلا “ آتے ہیں چنانچہ کتب لغت میں ہے :
( (اسریٰ ‘ اسراء ‘ سار لیـلًا)) (لغت المنجد)
اسریٰ کے معنی ہیں ” رات میں چلا “
یہی معنی اقرب الموارد ‘ قاموس ‘ لسان العرب اور تمام کتب لغت میں بصراحت مذکور ہیں اور اسی لفظ اسریٰ کو جب متعدی بنانا چاہتے ہیں یعنی ” راتوں رات لے جانا “ ظاہر کرنا چاہتے ہیں تو ” ب تعدیہ “ بڑھا دیتے ہیں۔ اس موقع کے علاوہ قرآن عزیز میں جہاں جہاں اسراء اور اس کے مشتقات آئے ہیں ان تمام مقامات میں بھی اسی معنی میں استعمال ہوا ہے چنانچہ سورة ہود میں لوط (علیہ السلام) کے واقعہ میں ہے :
{ قَالُوْا یٰلُوْطُ اِنَّا رُسُلُ رَبِّکَ لَنْ یَّصِلُوْٓا اِلَیْکَ فَاَسْرِ بِاَھْلِکَ بِقِطْعٍ مِّنَ اللَّیْلِ } [223]
” فرشتوں نے کہا : اے لوط ! ہم تو تیرے پروردگار کے بھیجے ہوئے (فرشتے) ہیں۔ یہ تجھ تک ہرگز نہیں پہنچ پائیں گے پس تو اپنے لوگوں کو کچھ رات گئے (یہاں سے) لے نکل۔ “
یہ آیت { فَاَسْرِ بِاَھْلِکَ بِقِطْعٍ مِنَ اللَّیْلٍ } [224] سورة دخان میں بھی موجود ہے اور سورة طٰہ میں حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے واقعہ میں ہے :
{ وَ لَقَدْ اَوْحَیْنَآ اِلٰی مُوْسٰٓی اَنْ اَسْرِ بِعِبَادِیْ } [225]
” اور بلاشبہ ہم نے موسیٰ پر وحی کی کہ میرے بندوں کو راتوں رات لے جا۔ “
اور سورة شعرا میں ہے :
{ وَاَوْحَیْنَا اِلٰی مُوْسٰی اَنْ اَسْرِ بِعِبٰدِیْ اِنَّکُمْ مُّتَّبَعُوْنَ } [226]
” اور ہم نے موسیٰ پر وحی بھیجی کہ میرے بندوں کو راتوں رات لے کر نکل جا۔ تمھارا تعاقب ضرور کیا جائے گیا۔ “
اور یہی آیت سورة دخان میں بھی مذکور ہے۔
ان تمام آیات میں لفظ اسراء کا جس طرح اطلاق کیا گیا ہے اس سے دو حقیقتوں پر روشنی پڑتی ہے۔
ایک یہ کہ اسراء اس سیر اور اس چلنے کو کہتے ہیں جو رات میں پیش آئے اس لیے دن یا شام کے چلنے پر اسراء کا اطلاق نہیں ہو سکتا۔
دوسری بات یہ کہ سَرَیْ یا اسراء ان تمام آیات میں روح مع جسد پر اطلاق ہوا ہے یعنی لوط اور موسیٰ (علیہ السلام) اور ان کے متبعین جن کے لیے یہ حکم ہو رہا ہے کہ وہ دشمنوں سے بچ کر راتوں رات ان بستیوں (مصر اور سدوم) سے نکل جائیں ‘ ان کا رات کے حصہ میں نکل جانا نہ خواب کی شکل میں تھا اور نہ روحانی طور پر اور نہ رؤیائے کشفی کے طریقہ پر بلکہ عالم بیداری میں روح مع جسد کے تھا۔
پس جبکہ قرآن کے ان تمام اطلاقات میں اسراء کے یہ معنی بغیر کسی تاویل کے قابل تسلیم ہیں تو بنی اسرائیل کی آیت سُبْحٰنَ الَّذِیْ اَسْرٰی میں اسراء کو روح مع جسد تسلیم کرنے میں کیوں پس و پیش ہو اور کس لیے اس واقعہ کو فقط روحانی ‘ منامی ‘ یابین النوم والیقظہ کشفی طریقہ کے ساتھ مخصوص کیا جائے ؟ جبکہ اس آیت اَسْرٰی بِعَبْدِہٖ لَیْلاً میں ایک لفظ بھی ایسا موجود نہیں ہے جو اس اسراء کو قرآن کے عام اطلاقات سے جدا معنی پر دلالت یا اشارہ کرتا ہو۔
رہا یہ مسئلہ کہ بنی اسرائیل کی آیت
{ وَ مَا جَعَلْنَا الرُّئْیَا الَّتِیْٓ اَرَیْنٰکَ اِلَّا فِتْنَۃً لِّلنَّاسِ } [227]
کے لفظ رؤیا سے فائدہ اٹھا کر یہ کہنا کہ چونکہ رؤیا عالم خواب پر بولا جاتا ہے ‘ اس لیے اسراء کا واقعہ منامی یا روحانی تھا بدیں وجہ صحیح نہیں ہے کہ عربی بول چال میں جس طرح ” رؤیا “ کا اطلاق خواب کی حالت پر ہوتا ہے اسی طرح وہ اس رویت پر بھی بولا جاتا ہے جس کا مشاہدہ آنکھ بحالت بیداری کرتی ہے چنانچہ عربی کے نہایت مستند اور مشہور لغت لسان العرب میں یہ تصریح موجود ہے :
( (وَقَدْ جَائَ رُؤْیَا فِیْ الْیَقْظَۃِ ))
” اور بلاشبہ رؤیا بیداری میں عینی مشاہدہ کے لیے بھی آتا ہے۔ “
اور صاحب لسان نے جاہلی شاعر راعی کے اس شعر کو اس معنی کے لیے سند ٹھہرایا ہے :
فَکَبَّرَ لِرُؤْیَا وَ ھَشَّ فُؤَادُہٗ
وَ بَشَّرَ نَفْسًا کَانَ نَفْسًا یَلُوْمُھَا
” اس نے تکبیر کہی اور اس کا دل مسرت سے لبریز ہو گیا اور اس نے اپنے نفس کو پہلے ملامت کر رکھا تھا خوش خبری دی اس منظر کو دیکھ کر جس کا اس نے عینی مشاہدہ کیا۔ “
اسی طرح متنبی کے اس مصرع کو بھی سند قرار دیا ہے :
وَ رُؤْیَاکَ اَحْلٰی فِیْ الْعُیُوْنِ مِنَ الْغَمَصِ
” اور تیرا دیدار (میری) آنکھوں میں نیند سے بھی زیادہ لذیذ ہے۔ “
ان مستند اقوال عرب کے بعد رؤیا کو صرف خواب کی حالت کے ساتھ مخصوص کردینا کس طرح صحیح ہو سکتا ہے ؟ اب جبکہ ” اَسْرٰی بِعَبْدِہٖ “ میں ” اسرا “ کے متبادر معنی سیر روح مع جسد کے ہیں اور ” رؤیا “ کا اطلاق دونوں قسم کی رؤیت پر ہوتا رہا ہے تو اس مقام پر ” اسرا “ کا قرینہ اس کا متقاضی ہے کہ یہاں ” بحالت بیداری عینی مشاہدہ “ کے معنی ہی متعین ہونے چاہئیں اور دوسرے معنی قیاسی اور تاویلی حیثیت سے زیادہ وقیع نہیں ہیں۔
بعض معاصر علما نے ” اسرا “ کو روحانی قرار دیتے ہوئے لسان العرب کی پیش کردہ سندات کو اول تو مستند ہی تسلیم نہیں کیا اور بفرض تسلیم کے بعد یہ دعویٰ کیا ہے کہ ان ہر دوشاعروں راعی اور متنبی کے شعر و مصرع سے رویا کے معنی خواب میں رویت ہی کے نکلتے ہیں نہ کہ رویائے بصری کے مگر تعجب یہ ہے کہ دونوں باتیں محض دعویٰ پر ہی ختم ہو گئی ہیں اور دعویٰ کے لیے زحمت دلیل کی ضرورت نہیں محسوس کی گئی۔ تسلیم کرلیجئے کہ لغت عرب کے لیے متنبی مستند نہیں ہے مگر مشہور جاہلی شاعر کس لیے غیر مستند قرار پایا جبکہ کلام عرب کی سند کے لیے جاہلی شعرا سے زیادہ کوئی سند مقبول نہیں سمجھی گئی۔ نیز راعی نے جبکہ جملہ فَکَبَّرَ کو لِلرُّؤْیَا کے ساتھ وابستہ کیا ہے تو اس کے صاف معنی یہ ہوئے کہ رویا کی وجہ سے اس نے نعرہ تکبیر بلند کیا اور ظاہر ہے کہ نعرہ تکبیر خواب میں بلند نہیں ہوا تھا بلکہ عالم بیداری کا واقعہ تھا اسی طرح متنبی کے مصرع کا مطلب یہ ہے کہ شب وصل میں تیرے دیدار کے مقابلہ میں نیند ہیچ ہے اگرچہ یہ صحیح ہے کہ نیند خود بہت شیریں ہے مگر دیدار محبوب کے مقابلہ میں اس کی شیرینی بھی بے حقیقت ہے۔
اس لغوی حقیقت کے آشکارا ہوجانے کے بعد حضرت عبد اللہ بن عباس (رضی اللہ عنہ) کا یہ ارشاد جو صحیح بخاری میں مذکور ہے ” رَؤْیَا عَیْنٍ اُرِیَھَا رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) “ سونے پر سہاگہ ہے کیونکہ وہ لغت عرب کے امام بھی ہیں اور ترجمان القرآن بھی اور ان کے مقابلہ میں حضرت عائشہ اور حضرت معاویہ (رضی اللہ عنہ) کا یہ ارشاد پیش کرنا قطعاً مرجوح ہے کہ وہ اسراء کو رویا بمعنی خواب مراد لیتے ہیں۔
مرجوح اس لیے ہے کہ حضرت عائشہ صدیقہ اور حضرت امیر معاویہ (رضی اللہ عنہم) سے جو روایات اس سلسلہ میں منقول ہیں وہ بلحاظ صحت روایت وہ درجہ نہیں رکھتیں جو حضرت عبد اللہ بن عباس (رضی اللہ عنہ) کی روایت کو حاصل ہے بلکہ محدثین کے نزدیک بہ چند وجوہ ان کی صحت غیر مستند ہے مثلاً حضرت عائشہ صدیقہ (رضی اللہ عنہ) کی روایت کتب حدیث کی بجائے فقط سیرت کی روایت ہے اور پھر محمد بن اسحاق اس کے متعلق یہ کہتے ہیں حَدَّثَنِیْ بَعْضُ اٰلُ اَبِیْ بَکَر ” مجھ سے یہ روایت ابوبکر (رضی اللہ عنہ) کے خاندان کے ایک فرد نے بیان کی ہے “ اس کا حاصل یہ ہوا کہ یہ روایت منقطع ہے کیونکہ درمیان کا ایک راوی مجہول ہے جس کے متعلق کوئی علم نہیں کہ وہ کس درجہ کا راوی ہے نیز اس روایت کے طریق میں بھی باہم اختلاف ہے اس لیے کہ بعض روایات میں ہے مَا فَقَدْتُ جَسَدَ رسول اللّٰہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ” میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا جسد اطہر گم نہیں پایا “ حالانکہ یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ حضرت عائشہ صدیقہ (رضی اللہ عنہا) حریم نبوی میں ہجرت کے بعد داخل ہوئی ہیں اور واقعہ معراج ہجرت سے قبل کا واقعہ ہے تو حضرت عائشہ (رضی اللہ عنہ) کا مَافَقَدْتُ ” میں نے گم نہیں پایا “ فرمانا کیسے صحیح ہو سکتا ہے ؟
اس لیے بلاشبہ اس روایت میں جرح و نقص ہے۔
اسی طرح حضرت معاویہ (رضی اللہ عنہ) کی روایت بھی سیرت میں منقول روایت ہے جس کو محمد بن اسحاق نے یعقوب بن عتبہ بن مغیرہ بن الاخنس سے روایت کیا ہے اور محدثین اس پر متفق ہیں کہ یعقوب نے حضرت معاویہ (رضی اللہ عنہ) کا زمانہ نہیں پایا اس لیے یعقوب اور حضرت معاویہ کے درمیان ضرور کوئی راوی متروک ہے جس کا روایت میں کوئی ذکر نہیں ہے پس یہ روایت بھی مجروح و منقطع ہے اور بروایت ابن اسحاق حضرت معاویہ کا یہ قول : قَالَ کَانَتْ رُؤْیَا مِنَ اللّٰہِ صَادِقَۃً ” حضرت معاویہ (رضی اللہ عنہ) نے کہا : معراج اللہ تعالیٰ کی جانب سے سچا خواب تھا “ کسی طرح بھی صحت کو نہیں پہنچتا۔
اب ایک مرتبہ پھر احادیث معراج پر نظر ڈالئے اور دیکھیے کہ ایک جانب بخاری ومسلم اور صحاح کی وہ روایات ہیں جو متن و سند کے لحاظ سے مسلم اور صحت کے اعلیٰ معیار پر قائم سمجھی جاتی ہیں۔ ان کی تفصیلات واقعہ معراج کو بجسد عنصری ظاہر کرتی ہیں اور اسی لیے جمہور صحابہ (رضوان اللہ علیہم) و رضوا عنہ اسی مسلک کو اختیار کیے ہوئے ہیں اور دوسری جانب محمد بن اسحاق کی سیرت میں منقول اور حضرت عائشہ (رضی اللہ عنہا) اور حضرت معاویہ (رضی اللہ عنہ) کی جانب منسوب وہ روایات ہیں جن کی صحت تک مجروح ہے اس لیے بات صرف یہی نہیں ہے کہ جو شخص سورة بنی اسرائیل کی آیت میں رویا بمعنی خواب لیتا ہے اس کا قول درست نہیں ہے بلکہ بلحاظ سند یہ انتساب بھی صحیح نہیں ہے کہ حضرت عائشہ اور حضرت معاویہ (رضی اللہ عنہ) رویائے منامی کے قائل ہیں کیونکہ جن جلیل القدر محدثین و مفسرین نے اس قول کو ان بزرگوں کی جانب منسوب کیا ہے اس کا مدار محمد بن اسحاق کی ہی یہ ہر دو روایات ہیں اور ان دونوں کی صحت کا حال ابھی روشن ہو چکا۔
ممکن ہے کہ یہ کہا جائے بعض روایات میں واقعہ کی ابتدا اس طرح مذکور ہے ” بَیْنَا اَنَا نَائِمٌ“ یا ” بَیْنَ النَّائِمِ وَالْیَقْظَانِ “ یعنی نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بحالت خواب تھے یا بیداری اور خواب کی درمیانی حالت میں تھے کہ خدا کا قاصد جبرائیل (علیہ السلام) آیا نیز بخاری کی شریک والی روایت کے ختم پر ہے اِسْتَیْقَظَ وَھُوَ فِیْ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ ” اور آپ جاگ اٹھے جبکہ آپ مسجد حرام میں تھے “ ان سے معلوم ہوتا ہے کہ جو کچھ گذرا خواب میں گذرا۔
مگر یہ اس لیے صحیح نہیں کہ پہلے دو جملوں کا صاف اور سادہ مطلب یہ ہے کہ جب معراج یا اسراء کا واقعہ پیش آنے والا تھا تو اس وقت آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سو رہے تھے لیکن واقعہ بحالت بیداری پیش آیا جیسا کہ باقی تمام روایات سے ظاہر ہوتا ہے اور بقول قرطبی (رحمہ اللہ علیہ) دوسرے جملہ کا مطلب یہ ہے کہ راوی اس بیداری کا ذکر کر رہا ہے جو علی الصباح نماز فجر کے لیے ہوئی یعنی اگرچہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ابتدائے شب میں ام ہانی (رضی اللہ عنہا) کے مکان میں سوئے تھے مگر کچھ حصہ شب میں جب معراج کا واقعہ پیش آیا اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس سے فارغ ہو کر کرہ ارضی پر واپس تشریف لائے تو باقی رات مسجد حرام میں سو کر گزاری اور جب آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) صبح کو بیدار ہوئے ہیں تو لوگوں نے مسجد حرام میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو پایا۔
علاوہ ازیں شریک کی روایت میں تعبیر ادا کی فاش غلطیاں ہو گئی ہیں جن پر محدثین نے تنبیہ فرمائی ہے مثلاً ان کی روایت کہتی ہے کہ معراج کا واقعہ بعثت سے بھی قبل پیش آیا اَنَّہٗ جَائَہٗ ثُلٰثَۃُ نَفَرٍ قَبْلَ اَنْ یُّوْحٰی اِلَیْہِ وَھُوَ نَائِمٌ فِیْ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ ” آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس تین فرشتے بعثت اور نزول وحی سے قبل اس حالت میں آئے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مسجد حرام میں سو رہے تھے “ چنانچہ امام نووی ‘ خطابی ‘ ابن حزم ‘ عبد الحق ‘ قاضی عیاض نے شریک کی روایت پر سخت تعاقب کیا ہے امام نووی (رحمہ اللہ علیہ) فرماتے ہیں :
” شریک نے اس روایت میں بہت سی غلطیاں کی ہیں جن کا علماء نے انکار کیا ہے اور مسلم نے بھی یہ الفاظ کہہ کر شریک کے اوہام پر تنبیہ کی ہے ” شریک نے روایت میں مقدم و موخر کردیا ہے اور کم و بیش کردیا ہے اوہام میں سے ایک وہم یہ ہے کہ شریک کی روایت میں ہے : معراج کا واقعہ نزول وحی سے قبل پیش آیا ہے “ حالانکہ یہ قطعاً غلط ہے اور اس قول کا کوئی راوی بھی موافق نہیں ہے۔ حافظ عبد الحق (رحمہ اللہ علیہ) نے اپنی کتاب الجمع بین الصحیحین میں اس شریک والی روایت کو نقل کرکے کہا ہے کہ شریک نے اس میں بہت سی غیر معروف (ناقابل قبول) باتیں بڑھا دی ہیں اور غیر معروف الفاظ کا بھی اضافہ کردیا ہے کیونکہ اسراء کی حدیث کو حفاظ حدیث کی ایسی جماعت نے نقل کیا ہے جو بلند پایہ اور ہر قسم کی جرح سے محفوظ اور مشہور ائمہ حدیث ہیں مثلاً ابن شہاب زہری ‘ ثابت بنانی ‘ قتادہ عن انس اور ان میں سے کوئی ایک حافظ حدیث بھی ان اجزاء کو بیان نہیں کرتا جن کو شریک نے بیان کیا ہے اور شریک محدثین کے نزدیک حافظ حدیث نہیں ہے۔ “
بہرحال فتح الباری میں معراج اور اسریٰ کے متعلق اتحاد وتغائر کی بحث کرتے ہوئے حافظ ابن حجر (رحمہ اللہ علیہ) یہی فیصلہ فرماتے ہیں کہ معراج بحالت بیداری اور روح مع الجسد ہوئی ہے :
( (فَمِنْھُمْ مَنْ ذَھَبَ اِلٰی اَنَّ الْاِسْرَائَ وَالْمِعْرَاجَ وَقَعَا فِیْ لَیْلَۃٍ وَّاحِدَۃٍ فِی الْیَقْظَۃِ بِجَسَدِ النبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) وَ رُوْحِہِ بَعْدَ الْمَبْعَثِ وَاِلٰی ھَذَا ذَھَبَ الْجُمْھُوْرُ مِنْ عُلَمَائِ الْمُحَدِّثِیْنِ وَالْفُقَھَائِ الْمُتَکَلِّّمِیْنَ وَتَوَارَدَتْ عَلَیْہِ ظَوَاھِرُ اَخْبَارِ الصَّحِیْحَۃِ وَلَا یَنْبَغِی الْعُدُوْلُ عَنْ ذٰلِکَ اِذْ لَیْسَ فِی الْعَقْلِ مَایُحِیْلُہٗ حَتّٰی یُحْتَاجَ اِلٰی تَاْوِیْلِہِ )) [228]
” پس ان علما میں سے وہ ہیں جو کہتے ہیں کہ بلاشبہ واقعات اسراء و معراج دونوں ایک ہی رات میں بحالت بیداری جسم اور روح کے ساتھ بعثت کے بعد پیش آئے۔ تمام محدثین ‘ فقہا اور متکلمین کا یہی مذہب ہے اور صحیح احادیث سے بھی یہی ظاہر ہوتا ہے اور اس سے تجاوز کرنا یعنی اس کا انکار کرنا نامناسب ہے اس لیے کہ ایسا ہونا عقل کے نزدیک محال نہیں ہے کہ تاویل کرنے کی احتیاج ہو۔ “
اور قاضی عیاض (رحمہ اللہ علیہ) شفاء میں یہی تحریر فرماتے ہیں :
( (وذھب معظم السلف والمسلمین الی ان الاسراء بالجسد فی الیقظۃ وھو الحق وھذا قول ابن عباس و جابر وانس وحذیفۃ و عمرو ابوہریرہ ومالک بن صعصعۃ وابی حیۃ البدری وابن مسعود (رضی اللہ عنہ) وضحاک و سعید بن جبیر وقتادۃ و ابن المسیب وابن شھاب و ابن زید والحسن وابراھیم ومسروق و مجاھد وعکرمۃ و ابن جریج وھو دلیل قول عائشۃ (رضی اللہ عنہا) وھو قول الطبرانی وابن حنبل وجماعۃ عظیمۃ من المسلمین وھو قول اکثر المتأخرین من الفقھاء والمحدثین والمتکلمین والمفسرین ))
” جلیل القدر سلف صالحین اور بزرگ ترین مسلمان اس جانب ہیں کہ اسراء بجسد عنصری بیداری میں پیش آیا اور یہی مذہب حق ہے اور یہی ابن عباس ‘ جابر ‘ انس ‘ حذیفہ ‘ عمر ‘ ابوہریرہ ‘ مالک بن صعصعہ ‘ ابوحیہ بدری ‘ ابن مسعود (رضی اللہ عنہم) اور ضحاک ‘ سعید ابن جبیر ‘ قتادہ ‘ ابن مسیب ‘ ابن شہاب ‘ ابن زید ‘ حسن ‘ ابراہیم نخعی ‘ مسروق ‘ مجاہد ‘ عکرمہ ‘ ابن جریج کا قول ہے اور یہی دلیل ہے حضرت عائشہ (رضی اللہ عنہا) کے قول کی اور یہی طبرانی کا قول ہے اور ابن حنبل (رحمہ اللہ علیہ) کا اور مسلمانوں کی جماعت عظیم کا اور یہی قول ہے متاخرین میں سے اکثر فقہاء ‘ محدثین ‘ متکلمین اور مفسرین کا۔ “
اور خفاجی ” نسیم الریاض “ میں قاضی عیاض کی اس عبارت وَھُوَ دَلِیْلُ قَوْلِ عَائِشَۃَ کے متعلق فرماتے ہیں کہ اگرچہ یہ بات بظاہر خلاف معلوم ہوتی ہے اس لیے کہ عائشہ صدیقہ (رضی اللہ عنہا) کی جانب جو قول منسوب ہے وہ اس کے قطعاً خلاف ہے لیکن قاضی عیاض (رحمہ اللہ علیہ) کا یہ دعویٰ ہے کہ جلیل القدر صحابہ (رضوان اللہ علیہم) و رضوا عنہ کی یہ نقول اس امر کی دلیل ہیں کہ عائشہ (رضی اللہ عنہا) کی جانب منسوب قول صحیح نہیں ہے اور وہ بھی جمہور ہی کے ساتھ ہیں۔
الحاصل قرآن عزیز اور احادیث صحیحہ بغیر کسی تاویل کے بصراحت یہ ظاہر کرتے ہیں کہ اسراء اور معراج کا واقعہ بجسد عنصری اور بحالت بیداری پیش آیا ہے اور ان دلائل کو بطور فہرست اس طرح شمار کرایا جا سکتا ہے :
سورة بنی اسرائیل کی آیت اَسْرٰی بِعَبْدِہٖ میں اسراء کے متبادر معنی وہی ہیں جو حضرت موسیٰ اور حضرت لوط (علیہما السلام) سے متعلق آیات میں ہیں یعنی بحالت بیداری اور بجسد عنصری رات میں لے چلنا۔
1 آیت { وَمَا جَعَلْنَا الرُّؤْیَا الَّتِیْ اَرَیْنٰکَ } [229] میں ” رؤیا “ بمعنی عینی مشاہدہ ہے نہ کہ خواب یا روحانی رؤیت اور لغت عرب میں رؤیا کے یہ معنی مجاز نہیں بلکہ حقیقت ہیں۔
2 آیت { اِلَّا فِتْنَۃً لِّلنَّاسِ } میں قرآن نے اس واقعہ کو اقرار و انکار کی شکل میں ایمان و کفر کے لیے معیار قرار دیا ہے اور اگرچہ انبیا (علیہم السلام) کے روحانی مشاہدہ یا خواب پر بھی مشرکین و منکرین کا انکار و جحود ممکن اور ثابت ہے لیکن اس جگہ تبادر یہی ظاہر کرتا ہے کہ واقعہ کی عظمت و فخامت کے پیش نظر منکرین کا انکار اس لیے شدید سے شدید تر ہوا کہ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس واقعہ کو عینی مشاہدہ کی طرح بیان فرمایا ہے۔
3 سورة النجم کی آیت { مَا زَاغَ الْبَصَرُ وَمَا طَغٰی } [230] میں رؤیت جبرائیل (علیہ السلام) نہیں بلکہ واقعہ اسراء کا مشاہدہ عینی مراد ہے اور سورة نجم کی آیت { مَا زَاغَ الْبَصَرُ وَمَا طَغٰی } [231] میں یہ بتلانا مقصود ہے کہ آنکھ نے جو کچھ دیکھا قلب نے ہو بہو اس کی تصدیق کی اور واقعہ سے متعلق نہ رویت عینی نے کجی اختیار کی اور نہ رویت قلبی نے اس حقیقت کا انکار کیا بلکہ دونوں کی مطابقت نے اس کی صداقت پر مہر تصدیق ثبت کردی۔
4 صحیح حدیث میں ہے کہ جب مشرکین نے اس واقعہ کے انکار پر یہ حجت قائم کی کہ اگر یہ صحیح ہے تو نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بیت المقدس کی موجودہ جزئی تفصیلات بتائیں کیونکہ ہم کو یقین ہے کہ نہ انھوں نے بیت المقدس کو کبھی دیکھا ہے اور نہ بغیر دیکھے جزئی تفصیلات بتائی جا سکتی ہیں تب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سامنے سے بیت المقدس کے درمیانی حجابات منجانب اللہ اٹھا دیے گئے اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک ایک چیز کا مشاہدہ کرتے ہوئے مشرکین کے سوالات کے صحیح جوابات مرحمت فرمائے جن میں مسجد کی بعض تعمیری تفصیلات تک زیر بحث آئیں۔ یہ دلیل ہے اس امر کی کہ مشرکین یہ سمجھ رہے تھے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اسراء کا بحالت بیداری اور بجسد عنصری ہونا بیان فرما رہے ہیں اور نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کے خیال کی تردید نہیں فرمائی بلکہ اس کی تائید کے لیے معجزانہ تصدیق کا مظاہرہ فرما کر ان کو لاجواب بنادیا۔
5 ترجمان القرآن نحضرت عبد اللہ بن عباس (رضی اللہ عنہ) سے بسند صحیح منقول ہے کہ قرآن میں مذکور رؤیا سے مراد رؤیائے عین ہے نہ کہ خواب یا روحانی مشاہدہ
6 { وَ مَا جَعَلْنَا الرُّئْیَا الَّتِیْٓ اَرَیْنٰکَ اِلَّا فِتْنَۃً لِّلنَّاسِ وَ الشَّجَرَۃَ الْمَلْعُوْنَۃَ فِی الْقُرْ انِ } [232]
میں یہ مذکور ہے کہ واقعہ اسراء اور جہنم کے اندر سینڈھ کے درخت کا موجود ہونا اور آگ میں نہ جلنا یہ دونوں واقعے اقرار و انکار کی صورت میں ایمان و کفر کے لیے آزمائش ہیں پس جبکہ جہنمیوں کی غذا کے لیے ایک مادی خار دار درخت کا موجود ہونا ‘ سرسبز و شاداب رہنا اور آگ سے نہ جلنا مشرکین کے انکار کا باعث ہوا ‘ بلاشبہ اسراء کے واقعہ میں بھی آزمائش کا پہلو یہی ہے کہ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کس طرح زمان و مکان کی قیود کو توڑ کر بجسد عنصری و بحالت بیداری وہ سیر کرلی جس کا ذکر سورة بنی اسرائیل اور سورة النجم میں اور صحیح احادیث میں ہے اور یقیناً مشرکین نے اس کا انکار کیا جس کے رد میں قرآن نے اس کو اِلَّا فِتْنَۃً لِّلنَّاسِ کہہ کر اس قدر اہمیت دی ورنہ تو انبیا (علیہم السلام) کے روحانی مشاہدات اور خواب کے واقعات کا انکار تو ان کے لیے ایک عام بات تھی۔
اسراء کا واقعہ جب پیش آیا تو صبح کو نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جن صحابہ (رضوان اللہ علیہم) و رضوا عنہ کی محفل میں اس واقعہ کا تذکرہ کیا وہ سب باتفاق یہ فرماتے ہیں کہ یہ واقعہ بجسد عنصری بحالت بیداری پیش آیا مثلاً عمر ‘ حضرت انس ‘ حضرت عبد اللہ بن مسعود (رضی اللہ عنہ) وغیرہ اور اس کے برعکس ذیل کے قائلین میں حضرت امیر معاویہ اور حضرت عائشہ (رضی اللہ عنہا) کے اسمائے گرامی ہیں جن کا اسلام یا حرم نبوی سے تعلق اس واقعہ سے برسوں بعد مدینہ کی زندگی پاک سے وابستہ ہے اس لیے واقعہ کے ایام میں موجود اصحاب کا قول راجح ہے۔
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا اور حضرت امیر معاویہ (رضی اللہ عنہ) کا جو مسلک جمہور کے خلاف منقول ہے وہ بلحاظ درجہ روایت و صحت سند نہ صرف مرجوح ہے بلکہ مجروح ہے ‘ اس لیے کہ اول تو ان بزرگوں کی جانب اس قول کا انتساب ہی درست نہیں اور بالفرض صحیح بھی ہو تو جمہور کے مسلک کے مقابلہ میں ہر حیثیت سے مرجوح ہے۔ وَذٰلِکَ تِسْعُ ایَاتٍ بَیِّنَاتٍ۔
سورة النجم اور واقعہ معراج
واقعہ معراج کی تفصیلات اگرچہ مستند ‘ مشہور اور مقبول روایات و احادیث سے ثابت و منصوص ہیں لیکن خود قرآن عزیز (والنجم) میں بھی بنص صریح بعض وہ تفصیلات مذکور ہیں جن کو بنی اسرائیل کے اجمال کی تفسیر کہنا چاہیے اس لیے مناسب معلوم ہوتا ہے کہ ان چند آیات کی تفسیر بھی بیان کردی جائے :
{ وَالنَّجْمِ اِذَا ہَوٰی۔ مَا ضَلَّ صَاحِبُکُمْ وَمَا غَوٰی۔ } [233]
” نجم “ ستارہ کو کہتے ہیں اور النجم کہہ کر کبھی خاص ستارہ ثریا پر بھی اطلاق کرتے ہیں اور ہوئیٰ کے معنی سقوط و غروب کے ہیں اور ” والنجم “ میں واؤ قسم کے لیے ہے جس سے استعمالات قرآنی میں اکثر مضمون مابعد کی اہمیت کے پیش نظر استشہاد مقصود ہوتا ہے ” ضل “ ضلالت سے ہے گمراہ ہونے اور بہک جانے کو کہتے ہیں اور ” غوی “ غوایت سے جس کے معنی بے راہ روی اور بچل جانے کے ہیں۔
پس ہر دو آیات کا مطلب یہ ہوا کہ شب دیجور کے یہ ستارے یا ثریا اس امر کی شہادت ہیں جس طرح نظام شمسی میں ثریا بلکہ تمام ستارے طلوع سے غروب تک ایسے محکم اور مضبوط نظام فطرت میں منسلک ہیں کہ مقررہ وقت و معین رفتار کے ساتھ بغیر بھٹکے بچلے ہوئے جاری وساری ہیں ‘ ٹھیک اسی طرح روحانی نظام شمسی کے تمام ستارے (انبیا (علیہم السلام)) بھی نبوت و رسالت کے مقررہ اصول و معین راہ پر جاری وساری رہے ہیں اور کبھی خدا کے معین کردہ نظام نبوت سے نہ بھٹکے اور نہ بے راہ ہوئے تو پھر یقین کرو کہ اس نظام روحانیت (نبوت) کا آفتاب عالم تاب یعنی تمھارا رفیق محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بھی نہ بھٹکا اور نہ بے راہ ہوا ‘ اور ہو بھی کیسے سکتا تھا کہ ایسا ہونے پر سارا نظام نبوت ہی درہم برہم ہو کر رہ جاتا اور انبیا (علیہم السلام) کی بعثت کا مقصد ہی فوت ہوجاتا یا یوں کہہ لیجئے کہ تمھارے سامنے جس شب کا ذکر ہو رہا ہے اس شب دیجور میں ثریا جیسے روشن ستارہ کا طلوع ہو کر غروب ہوجانا اس پورے نظام شمسی کے تغیر و فنا کی منہ بولتی تصویر ہے پس اگر تمھارا رفیق محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کسی ایسے واقعہ کا اظہار کرتا ہے جو عام قانون قدرت کے پیش نظر عجیب و غریب معلوم ہوتا اور اس نظام شمسی کے ایک خاص دور انقلاب اور حیرت زا تغیر کا پتہ دیتا ہے تو تم کو یقین کرنا چاہیے کہ یہ واقعہ بلاشبہ عالم وجود میں آیا اور تمھارا رفیق اس معاملہ میں نہ بھٹکا اور نہ بے راہ ہوا بلکہ جو کچھ دیکھا اور جو کچھ نقل کیا وہ سب حرف بحرف حق ‘ مبنی برحقیقت ہے۔
{ وَمَا یَنْطِقُ عَنِ الْہَوٰی } [234]
” نطق “ گویائی اور ” ہوئیٰ “ خواہش نفس۔
{ اِنْ ہُوَ اِلَّا وَحْیٌ یُّوْحٰی } [235]
” وحی “ وہ یقینی الہام جو خدا کی جانب سے نبی پر نازل ہوتا ہے اور جس کے خدا کی جانب سے ہونے میں کسی قسم کا شک و تردد نہیں ہوتا یعنی رسالت اور یہ بھی واضح رہے کہ تمھارے رفیق کی صدق مقالی کا یہ عالم ہے کہ وہ خدا کی باتیں کبھی اپنی خواہش نفس سے نہیں کہتا بلکہ جو کچھ بھی کہتا ہے وہ خدا کی ہی وحی سے ہوتا ہے۔
{ عَلَّمَہٗ شَدِیْدُ الْقُوٰی۔ ذُوْ مِرَّۃٍ فَاسْتَوٰی۔ وَہُوَ بِالْاُفُقِ الْاَعْلٰی۔ ثُمَّ دَنَا فَتَدَلّٰی۔ فَکَانَ قَابَ قَوْسَیْنِ اَوْ اَدْنٰی۔ } [236]
” علمہ “ تعلیم ‘ سکھلانا ‘ ” شدید القویٰ “ زبردست روحانی طاقتوں والا ‘ ” مرۃ “ زور آور ‘ ” فاستویٰ “ استواء ‘ سیدھا ہو بیٹھا ‘ ” بالافق الاعلٰی “ (آسمان کا) اونچا کنارہ ‘ ” دنیٰ “ دنو ‘ قریب ہونا ‘ ” فتدلٰی “ تدلی ‘ جھک آنا ‘ ” قاب قوسین “ دو کمان کی مقدار ” ادنیٰ “ قریب یا کم۔
صاحب وحی محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور وحی نازل کرنے والے (خدا) کے باہم رشتہ وحی کا اظہار کرنے کے بعد ضرورت تھی کہ ان دونوں کے درمیان جو وحی کے لیے رابطہ ہے یعنی جبرائیل (علیہ السلام) کچھ اس کے متعلق بھی کہا جائے کیونکہ مشرکین مکہ اس کی شخصیت اور اس کے فرض کی تفصیلات سے قطعاً ناآشنا تھے اور یوں بھی وحی کی عظمت ‘ صاحب وحی کی جلالت اور وحی نازل کرنے والی ہستی کے جلال و جبروت کا تقاضا تھا کہ رابطہ وحی کی شخصیت کے بعض نمایاں اوصاف کو بھی بیان کیا جائے اس لیے ارشاد ہوا کہ اس پر محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر) جو وحی لاتا ہے وہ زبردست روحانی و جسمانی طاقتوں کا پیکر ہے وہ پیغمبر خدا (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اپنی حقیقی ہیئت و صورت میں صاف نمایاں نظر آیا اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کو آسمان کے بلند کنارے پر دیکھا پھر وہ قریب ہو گیا ‘ پس (پیغمبر خدا (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی جانب) جھک آیا پھر ہو گیا اتنا قریب جیسا کہ دو کمان کی مسافت یا اس سے بھی قریب تر۔
{ فَاَوْحٰی اِلٰی عَبْدِہٖ مَا اَوْحٰی۔ مَا کَذَبَ الْفُؤَادُ مَا رَاٰی۔ اَفَتُمَارُوْنَہٗ عَلٰی مَا یَرٰی۔ } [237]
” فواد “ قلب ‘ ” رای “ رؤیت بصر ‘ ” تمارونہ مماراۃ “ بمعنی مقابلہ کرنا ‘ جھگڑا کرنا۔
جب صاحب وحی محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور وحی کے لانے والے (جبرئیل (علیہ السلام)) کے درمیان صورت حال یہ پیش آئی تو اس کے بعد موحی (وحی کرنے والے خدا) نے اپنے بندے پر جو کچھ چاہا وہ براہ راست وحی فرمائی یعنی جب اس مقام رفیع پر بلا کر جہاں کسی مخلوق کا گذر نہ ہوا اور نہ ہو ‘ مخاطب کو کیا بتلایا جائے کہ خدا اور اس کے پیغمبر کے درمیان کیا کچھ وحی کی سرگوشیاں ہوئیں کیونکہ کسی کو وہ رفعت جب نصیب ہی نہیں تو وہ ان حقائق کو سمجھ ہی کیا سکتا ہے لہٰذا اسی قدر کافی ہے کہ یہ یقین کرلو کہ خدا نے جو چاہا اپنے بندہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بات چیت کی اور یہ کہ اس کی آنکھ نے اس شب میں جن اسرار الٰہی کو دیکھا قلب نے اس کو جھوٹا نہیں کہا بلکہ وہ ایک ایسی حقیقت تھی جس کے بارے میں چشم و قلب دونوں کے درمیان مطابقت و تصدیق کا ہی سلسلہ قائم رہا تو پھر اے مخاطبین جو کچھ اس محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے دیکھا کیا تم اس کے متعلق جھگڑتے ہو ؟
{ وَلَقَدْ رَاٰہُ نَزْلَۃً اُخْرٰی۔ عِنْدَ سِدْرَۃِ الْمُنْتَہٰی۔ عِنْدَہَا جَنَّۃُ الْمَاْوٰی۔ اِذْ یَغْشَی السِّدْرَۃَ مَایَغْشٰی۔ } [238]
” نزلۃ اخریٰ “ ایک قسم کا نزول یا دوسری مرتبہ ‘ ” سدرہ “ بیری کا درخت ‘ ” سدرۃ المنتہیٰ “ ملائے اعلیٰ کا ایک مقام رفیع ‘ ” جنۃ الماویٰ “ نیکوں کے قیام کی جنت ” یغشیٰ “ غشیان ‘ ڈھانپ لینا۔
حالانکہ جھگڑنے کی کوئی بات نہیں اس لیے کہ اس نے وحی کرنے والے (خدا) کو ایک خاص کیفیت نزول کے ساتھ دیکھا ہے اور اس وقت دیکھا جب وہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سدرۃ المنتہیٰ کے پاس تھا جس کے قریب جنت الماویٰ ہے اور اس وقت اس سدرہ کو ڈھانپنے والی شے (یعنی فرشتوں) نے ڈھانپ رکھا تھا۔ [239]
یا یہ کہئے کہ اس نے جبرائیل (علیہ السلام) کو دوسری مرتبہ (اصلی ہیئت میں) دیکھا سدرۃ المنتہیٰ کے قریب پس نہ مشاہدہ جلوہ حق کوئی جھگڑنے کی بات ہے اور نہ رویت جبرائیل (علیہ السلام) جس کو اس سے قبل بھی اس نے دیکھا ہے اور چشم حق بیں اور قلب حق آگاہ کے لیے ان میں سے ایک بات بھی قابل نزاع نہیں۔
{ مَا زَاغَ الْبَصَرُ وَمَا طَغٰی۔ لَقَدْ رَاٰی مِنْ اٰیٰتِ رَبِّہِ الْکُبْرٰی۔ } [240]
” زاغ “ زیغ ‘ کجی ‘ ” طغیٰ “ طغیان ‘ سرکشی ‘ خلاف حق رجحان۔
بہرحال اس کے مشاہدہ حق پر کوئی جھگڑے اور انکار کرے یا تسلیم کرے اور حق جانے ‘ حقیقت تو یہ ہے کہ اس نے لیلۃ الاسراء میں جو کچھ بھی مشاہدات کیے اور آنکھوں سے جو کچھ بھی دیکھا اس چشم حق بیں نے حقیقت حال کے خلاف نہ کسی قسم کی کجی اختیار کی اور نہ وہ راہ سے بے راہ ہوئی اور بلا شائبہ شک و شبہ اس نے اپنے پروردگار کے بڑے بڑے نشان دیکھے۔
واقعہ کی تفصیلات
وہ نشان کیا تھے جن کو اس جگہ { لَقَدْ رَاٰی مِنْ اٰیٰتِ رَبِّہِ الْکُبْرٰی } [241]
کہا اور سورة بنی اسرائیل میں لِنُرْیَہٗ مِنْ ایَاتِنَا فرمایا اور اسی سورت میں دوسرے مقام پر
{ وَ مَا جَعَلْنَا الرُّئْیَا الَّتِیْٓ اَرَیْنٰکَ اِلَّا فِتْنَۃً لِّلنَّاسِ } [242]
کہہ کر ان کی اہمیت کو روشناس کرایا تو بخاری و مسلم میں منقول صحیح ‘ مشہور اور مقبول روایات کا مجموعی بیان یہ ہے :
نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک صبح کو ارشاد فرمایا : گذشتہ شب میرے خدا نے مجھ کو اپنے خاص مجدو شرف سے نوازا جس کی تفصیل یہ ہے کہ شب گذشتہ جبکہ میں سو رہا تھا رات کے ایک حصہ میں جبرائیل (علیہ السلام) آئے اور مجھ کو بیدار کیا ابھی پوری طرح جاگ بھی نہ پایا تھا کہ حرم کعبہ میں اٹھا لائے اور تھوڑی دیر لیٹا تھا کہ پوری طرح بیدار کرکے اول میرا سینہ چاک کیا اور (ملائے اعلیٰ کے ساتھ مناسبت تام پیدا کرنے کے لیے عالم دنیا کی کدورتوں کو) دھویا اور ایمان و حکمت سے بھر دیا۔ اس کے بعد حرم کے دروازہ پر لایا گیا اور وہاں جبرائیل (علیہ السلام) نے میری سواری کے لیے خچر سے کچھ چھوٹا جانور براق پیش کیا جو سپید رنگ کا تھا جب میں اس پر سوار ہو کر روانہ ہوا تو اس کی سبک رفتاری کا یہ عالم تھا کہ حد نگاہ اور حد رفتار یکساں نظر آتی تھی کہ اچانک بیت المقدس جا پہنچے ‘
یہاں جبرائیل (علیہ السلام) کے اشارہ پر براق کو مسجد کے دروازہ کے اس حصہ سے باندھ دیا جس سے انبیائے بنی اسرائیل مسجد اقصیٰ کی حاضری پر اپنی سواریاں باندھا کرتے تھے (اور جو اس وقت تک بطور یادگار قائم تھا) پھر میں مسجد اقصیٰ میں داخل ہوا اور دو رکعات پڑھیں اب یہاں سے ملائے اعلیٰ کی تیاری شروع ہوئی تو اول جبرائیل (علیہ السلام) نے میرے سامنے دو پیالے پیش کیے ان میں سے ایک شراب (خمر) سے لبریز تھا اور دوسرا دودھ (لبن) سے ‘میں نے دودھ کا پیالہ قبول کیا اور شراب کا پیالہ مسترد کر دیا ‘ جبرائیل (علیہ السلام) نے یہ دیکھ کر کہا : آپ نے دودھ کا پیالہ قبول کرکے دین فطرت کو اختیار کیا (یعنی خدا کی جانب سے جو میں نے آپ کو یہ دو پیالے پیش کیے تو دراصل یہ تمثیل تھی دین فطرت اور دین زیغ کی مگر آپ نے اس حقیقت کو پہچان لیا اور دودھ کے پیالہ کو قبول فرما کر جو دین فطرت کی تمثیل تھا دین فطرت کو قبول فرما لیا) اس کے بعد ملائے اعلیٰ کا سفر شروع ہوا اور جبرائیل (علیہ السلام) کی ہمرکابی میں براق نے آسمان کی جانب پرواز کی جب ہم پہلے آسمان (سمائے دنیا) تک پہنچ گئے تو جبرائیل (علیہ السلام) نے نگہبان فرشتوں سے دروازہ کھولنے کو کہا نگہبان فرشتہ نے دریافت کیا ‘ کون ہے ؟ جبرائیل (علیہ السلام) نے کہا : میں جبرائیل ہوں فرشتہ نے دریافت کیا تمھارے ساتھ کون ہے ؟ جبرائیل (علیہ السلام) نے جواب دیا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فرشتہ نے کہا : کیا خدا کے مدعو ہو کر آئے ہیں ؟ جبرائیل (علیہ السلام) نے کہا بیشک ‘ فرشتہ نے دروازہ کھولتے ہوئے کہا : ایسی ہستی کا آنا مبارک ہو جب ہم اندر داخل ہوئے تو حضرت آدم (علیہ السلام) سے ملاقات ہوئی جبرائیل (علیہ السلام) نے میری جانب مخاطب ہو کر کہا یہ آپ کے والد (اور نسل انسانی کے مورث اعلیٰ ) آدم (علیہ السلام) ہیں آپ ان کو سلام کیجئے میں نے ان کو سلام کیا اور انھوں نے جواب سلام دیتے ہوئے فرمایا مَرْحَبًا بِالْاِبْنِ الصَّالِحِ وَالنَّبِیِّ الصَّالِحِ ” خوش آمدید ‘ برگزیدہ بیٹے اور برگزیدہ نبی “ اس کے بعد دوسرے آسمان تک پہنچے اور پہلے آسمان کی طرح سوال و جواب ہو کر دروازہ میں داخل ہوئے تو وہاں یحییٰ و عیسیٰ (علیہما السلام) سے ملاقات ہوئی جبرائیل (علیہ السلام) نے ان کا تعارف کرایا اور کہا کہ آپ سلام پر پیش قدمی فرمائیے میں نے سلام کیا اور ان دونوں نے جواب دیتے ہوئے فرمایا مَرْحَبًا بِالْاَخِ الصَّالِحِ وَ النَّبِیِّ الصَّالِحِ ” خوش آمدید اے برگزیدہ بھائی اور برگزیدہ نبی “ پھر تیسرے آسمان تک پہنچ کر یہی مرحلہ پیش آیا اور جب میں آسمان ثالث میں داخل ہوا تو حضرت یوسف (علیہ السلام) سے ملاقات ہوئی جبرائیل (علیہ السلام) نے تقدیم سلام کے لیے کہا اور میرے سلام کرنے پر یوسف (علیہ السلام) نے بھی جواب سلام کے بعد یہی کلمہ کہا ” خوش آمدید اے برگزیدہ بھائی اور برگزیدہ نبی “ بعد ازاں چوتھے آسمان پر اس سوال و جواب کے ساتھ حضرت ادریس (علیہ السلام) سے ملاقات ہوئی اور پانچویں آسمان پر حضرت ہارون (علیہ السلام) سے اور چھٹے آسمان پر موسیٰ (علیہ السلام) سے اسی طرح ملاقات ہوئی لیکن جب میں وہاں سے روانہ ہونے لگا تو حضرت موسیٰ (علیہ السلام) پر رقت طاری ہو گئی میں نے سبب دریافت کیا تو فرمایا :
مجھے یہ رشک ہوا کہ اللہ تعالیٰ کی حکمت بالغہ نے ایسی ہستی کو جو میرے بعد مبعوث ہوئی یہ شرف بخش دیا کہ اس کی امت میری امت کے مقابلہ میں چند در چند زیادہ جنت سے فیضیاب ہوگی۔ اس کے بعد سابق سوالات و جوابات کا مرحلہ طے ہو کر جب میں ساتویں آسمان پر پہنچا تو حضرت ابراہیم (علیہ السلام) سے ملاقات ہوئی جو بیت المعمور سے پشت لگائے بیٹھے تھے اور جس میں ہر روز ستر ہزار نئے فرشتے (عبادت کے لیے) داخل ہوتے ہیں انھوں نے میرے سلام کا جواب دیتے ہوئے فرمایا ” مبارک اے میرے برگزیدہ بیٹے اور برگزیدہ نبی “ یہاں سے پھر مجھ کو سدرۃ المنتہیٰ تک پہنچایا گیا (تمھاری بول چال میں یہ ایک انتہا کی بیری کا درخت ہے) جس کا پھل (بیر) ہجر کی ٹھلیا کے برابر ہے اور جس کے پتے ہاتھی کے کان کی طرح چوڑے ہیں۔ 1 ؎ اس پر ملائکۃ اللہ جگنو کی طرح بے تعداد چمک رہے تھے اور خدا کی خاص تجلی نے اس کو حیرت زا طور پر روشن و پر کیف بنادیا تھا۔
حاشیہ 1سدرۃ المنتہیٰ کے متعلق مختلف روایات کا حاصل یہ ہے کہ اس کی جڑ چھٹے آسمان پر ہے اور اس کی شاخیں ساتویں آسمان سے بھی نکل گئی ہیں اور یہ وہ مقام ہے جہاں سے چیزیں زمین پر اترتی اور زمین سے اوپر چڑھ کر وہاں تک پہنچتی ہیں گویا نزول و عروج کا مقام اتصال ہے۔ اس مقام سے آگے نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے علاوہ نہ جبرائیل (علیہ السلام) اور دوسرے ملائکۃ اللہ کا گذر ہوا اور نہ کسی نبی مرسل کا۔
محدثین کہتے ہیں کہ یہ مقام اس درخت کی شکل میں دراصل ” ایمان و حکمت “ کی حقیقت کو مشکل و مصور ظاہر کرتا ہے ‘ اس لیے کہ ایمان نیت صالح اور عمل صالح کا جامع ہے۔ پس یہ درخت پھل کے ذائقہ ‘ اپنی خوشبو اور اپنے سایہ ہر سہ صفات کے لحاظ سے حقیقت ایمان کا مظہر ہے یعنی اس درخت کے پھل کا لذیذ ذائقہ نیت صالح کا عمدہ مظہر ہے اور عمدہ خوشبو قول صالح اور راحت بخش سایہ عمل صالح کا مظہر ہے اور اسی لیے نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایمان کی تشبیہ شجر کے ساتھ دی ہے۔ ارشاد مبارک ہے : اَلْاِیْمَانُ بِضْعُ وَّ سَبْعُوْنَ شُعْبَۃً۔
اسی سفر میں میں نے چار نہروں کا بھی معائنہ کیا ان میں سے دو ظاہر نظر آتی تھیں اور دو باطن میں بہہ رہی تھیں یعنی دو نہریں جن کا نام نیل اور فرات 2 ہے آسمان دنیا پر نظر پڑیں اور دو نہریں جنت کے اوپر موجود پائیں اور ان مشاہدات کے بعد محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو شراب (خمر) دودھ اور شہد کے پیالے پیش کیے گئے اور میں نے دودھ کو قبول کر لیا اس پر جبرائیل (علیہ السلام) نے مجھے بشارت سنائی کہ آپ نے دین فطرت کو قبول کر لیا (یعنی جو ہر قسم کی کدورتوں سے پاک اور شفاف ہے عمل میں شیریں اور خوشگوار اور نتیجہ میں حد درجہ مفید اور احسن ہے)
پھر خدائے تعالیٰ کا خطاب ہوا کہ تم پر شبانہ روز پچاس نمازیں فرض قرار دی گئیں جب میں ان اسرار الٰہی کے مشاہدات سے فارغ ہو کر نیچے اترنے لگا تو درمیان میں موسیٰ (علیہ السلام) سے ملاقات ہوئی انھوں نے دریافت کیا : معراج کا کیا تحفہ لائے ؟ میں نے کہا : پچاس نمازیں۔ انھوں نے فرمایا تمھاری امت اس بارگراں کو برداشت نہ کرسکے گی اس لیے واپس جایئے اور تخفیف کی التجا کیجئے کیونکہ میں آپ سے قبل اپنی امت کو آزما چکا ہوں چنانچہ میں درگاہ الٰہی میں رجوع ہوا اور اللہ تعالیٰ کی جانب سے پانچ کی تخفیف ہو گئی ‘ موسیٰ (علیہ السلام) تک لوٹ کر آیا تو انھوں نے پھر اصرار کیا کہ اب بھی زیادہ ہیں اور کم کراؤ اور میں اسی طرح چند مرتبہ آتا جاتا رہا حتیٰ کہ صرف پانچ نمازیں رہ گئیں مگر موسیٰ (علیہ السلام) مطمئن نہیں ہوئے اور فرمایا میں بنی اسرائیل کا کافی تجربہ اور ان کی اصلاح کرچکا ہوں اس لیے مجھے اندازہ ہے کہ آپ کی امت یہ بھی برداشت نہ کرسکے گی ‘ اس لیے تخفیف کے لیے مزید عرض کیجئے تب میں نے کہا کہ اب عرض کرتے شرم آتی ہے میں اب راضی برضا اور اس کے فیصلہ کے سامنے سرنیاز جھکاتا ہوں جب میں یہ کہہ کر چلنے لگا تو ندا آئی کہ ہم نے اپنا فرض نافذ کر دیا اور اپنے بندوں کے لیے تخفیف کردی یعنی مشیت الٰہی قبل ہی یہ فیصلہ کرچکی ہے کہ امت محمد پر بصورت ادا اگرچہ پانچ نمازیں فرض رہیں گی مگر ان کا اجر وثواب پچاس ہی کے برابر ہوگا اور یہ تخفیف ہمارا فضل و کرم ہے۔
حاشیہ 2یا تو یہ مراد ہے جس وقت آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جنت میں دو نہریں دیکھیں تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اسی وقت جب دنیا کی جانب نگاہ کی تو وہاں سامنے نیل اور فرات بہتے ہوئی نظر آئے اور یا یہ ملائے اعلیٰ کی نہروں کے اسی طرح نام ہیں جس طرح دنیا کے دو دریا نیل اور فرات ہیں۔
انھی روایات میں ہے کہ میں نے جنت و جہنم کا بھی مشاہدہ کیا اور پھر مشاہدہ کی تفصیلات بھی منقول ہیں۔
مسجد اقصی کے پادری کی گواہی
حضور اکرم ﷺ نے صلح حدیبیہ کے بعد 7 ہجری میں حضرت دحیہ ؓ کلبی کے ذریعہ قیصر روم ہرقل کے پاس نامہ مبارک بھیج کر اسلام کی دعوت دی، ہرقل نے اپنے لوگوں کو حکم دیا کہ حجاز کا کوئی تاجر موجو د ہو تو اسے بلالائے، اتفاق سے اس وقت تاجروں کے ایک قافلہ کے ساتھ ابو سفیان موجود تھے جن سے ہرقل نے حضور ﷺکے بارے میں سوالات کیے، ان سوالات کے جوابات دینے کے دوران ابوسفیان کو معراج کے واقعہ کا خیال آیااور انھوں نے اسے بیان کرتے ہوئے کہا کہ حضور ﷺ راتوں رات مسجد حرام سے مسجد اقصیٰ کا سفر کرتے ہوئے آسمانوں پر تشریف لے گئے اور پھر واپس آئے، ہرقل کے دربار میں اتفاق سے اس وقت مسجد اقصیٰ کا لارڈ پادری موجود تھاجس نے یہ بتلایا کہ وہ ہر رات سونے سے پہلے مسجد اقصیٰ کے تمام دروازے بند کر دیتا تھا۔ لیکن اس رات کوشش کرنے کے باوجود صدر دروازہ بند نہیں ہوا، آخر کار انھوں نے نجاروں کو بلواکر اسے بند کرنا چاہا مگر باوجود کوشش کے وہ ناکام رہے اس لیے دروازہ کھلا چھوڑ کر سب لوگ گھروں کو چلے گئے، پادری جب علی الصباح مسجد آیا تو مسجد کے دروازہ کو بالکل ٹھیک پایا، مسجد کے قریب چٹان میں سوراخ دیکھا جس سے کسی جانور کو باندھنے کا نشان تھا، پادری نے کہا کہ رات کو دروازے کا کھلا رہنا صرف اس نبی کے لیے تھا جس کی بشارت حضرت عیسیؑ نے دی تھی اور یہ کہ انھوں نے مسجد اقصیٰ میں رات میں ضرور نماز پڑھی ہوگی۔ [243]
معراج میں رؤیت باری
کیا معراج میں نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ذات احدیت کے جمال جہاں آراء کا بے حجاب مشاہدہ کیا ؟ صحیح روایات میں اس مسئلہ کے متعلق جو تعبیرات مذکور ہیں ان سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ مشاہدہ ضرور کیا تاہم نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس مشاہدہ کی کیفیت کے حقیقی اظہار سے اس لیے قاصر ہیں کہ دنیوی تعبیرات میں کوئی تعبیر ایسی موجود نہیں کہ بلند سے بلند ترین مخلوق اس کے ذریعہ جمال جہاں آراء کی کیفیت و حقیقت کو بیان کرسکے اس لیے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نفس واقعہ کا اقرار فرماتے ہیں جیسا کہ حضرت عبد اللہ بن عباس (رضی اللہ عنہ) کی روایت میں منقول ہے:
رَاَیْتُہٗ نُوْرًا ” میں نے اس کو نور دیکھا “اور مشاہدہ کے باوجود جمال جہاں آراء کی ناقابل بیان کیفیت کا پھر ان الفاظ میں اظہار بھی فرماتے جاتے ہیں نُوْرًا اَنِّیْ اَرَاہٗ ۔” اس نور بحت کا حقیقی مشاہدہ کہاں ہوسکتا تھا۔ “
پس حضرت عبد اللہ بن عباس (رضی اللہ عنہ) کے مقابلہ میں حضرت عائشہ (رضی اللہ عنہا) کی جانب سے رویت باری کی نفی میں آیت قرآنی کا یہ استدلال
{ لَا تُدْرِکُہُ الْاَبْصَارُ وَ ھُوَ یُدْرِکُ الْاَبْصَارَ } [244]
” اس کو آنکھیں نہیں دیکھ سکتیں اور وہ آنکھوں کا (یعنی دیکھنے والوں کی پوری حقیقت کا) ادراک کئے ہوئے ہے۔ “
اس لیے مرجوح ہے کہ آیت میں موجودہ دنیا کی مادی اور محدود بصارت کے مشاہدہ کا انکار ہے جو لاریب حق ہے لیکن ملائے اعلیٰ کا وہ مقام معراج جہاں زمان و مکان اور حدود وقیود سے آزاد اسرار الٰہی کے مشاہدات کے لیے کسی کو نوازا گیا ہو تو اس کے مشاہدہ حقیقت کا یہ آیت کسی طرح انکار نہیں کرتی۔
یہی وجہ ہے کہ صحابہ (رضوان اللہ علیہم) عنم و رضوا عنہ کے زمانہ سے آج تک محققین علما کی ایک کثیر جماعت سلفًا عن خلفٍ سورة النجم کی آیت
{ مَا کَذَبَ الْفُؤَادُ مَا رَاٰی۔ اَفَتُمَارُوْنَہٗ عَلٰی مَا یَرٰی۔ } [245]
کی تفسیر میں صحیح احادیث کی استمداد سے یہ ثابت کرتی رہی ہے کہ ان مقامات میں رویت سے رویت باری مراد ہے۔
اس بارے میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے دور سے اختلاف چلا آرہا ہے، بعض صحابہ کی رائے یہ ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالیٰ کو اپنی ان آنکھوں سے نہیں دیکھا ہے، ان کی دلیل قرآن کریم کی یہ آیت ہے۔ ﴿ لَاتُدْرِکُهُ الْاَبْصَارُ…﴾ کہ نگاہیں اس کا احاطہ نہیں کرسکتیں، لیکن جمہور صحابہ اور تابعین کی رائے اور راحج قول یہی ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے جسمانی آنکھوں سے بھی اور دل کی آنکھوں سے بھی اللہ تعالیٰ کو دیکھا ہے، کیوں کہ خود حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا کہ کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے رب کو دیکھا؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہاں!"رَأَیْتُ رَبِّيْ عَزَّ وَجَلَّ"۔ نیز طبرانی میں حضرت ابن عباس کا قول منقول ہے:"رَاٰهُ مَرَّتَیْنِ، مَـرَّةً بِقَلْبِه وَمَرَّةً بِبَصَرِهٖ " … کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے رب کو دیکھا دل سے بھی اور آنکھ سے بھی، یہاں "مَرَّتَیْن" سے مراد دو مرتبہ دیکھنا نہیں ہے، بلکہ مطلب یہ ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے رب کو دونوں طرح سے دیکھا، دل کی آنکھوں سے بھی اور سر کی آنکھوں سے بھی، علاوہ ازیں جب حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے پوچھا گیا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے رب کو کیسے دیکھا؟ قرآن میں تو ہے ﴿ لَاتُدْرِکُهُ الْاَبْصَارُ ﴾ نگاہیں اس کا حاطہ نہیں کرسکتیں؟ تو حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ نے جواب دیا: "وَیْحَکَ ذَاکَ إذْا تَجَلّٰی بِنُوْرِ الَّذِيْ هو نُوْرُه"، تیرا بھلا ہو وہ تو اس طرح نگاہیں نہیں دیکھ سکتیں کہ اللہ تعالیٰ کا مکمل ادراک کریں، اس کا کامل احاطہ کریں۔
"عن عکرمة عن ابن عباس قال: راٰی محمد ربه، قلت: ألیس اللّٰه یقول: ﴿ لَا تُدْرِکُهُ الْاَبْصَارُ وَهُوَ یُدْرِکُ الْاَبْصَارَ﴾؟ قال: ویحک ذاک إذا تجلی بنوره الذي هو نوره وقد راٰی ربه مرتین". (جامع ترمذی)
عبد اللہ بن شقیق رحمہ اللہ کہتے ہیں: میں نے حضرت ابوذر غفاری رضی اللہ عنہ سے کہا: اگر میں نے رسول اللہ ﷺ کی زیارت کی ہوتی تو میں نے آپ ﷺ سے ضرور پوچھا ہوتا، انھوں نے پوچھا :تم رسول اللہ ﷺ سے کیا بات پوچھتے ؟ میں نے کہا: میں پوچھتاکہ کیا آپ نے اپنے رب کو دیکھا تھا ؟ تو حضرت ابو زر رضی اللہ عنہ نے کہا : یہ بات تومیں نے آپ ﷺ سے پوچھی تھی تو آپ نے فرمایا کہ میں نے (اپنی آنکھوں سے ) نور ( کے حجاب) کو دیکھا تھا۔
عن عبداللّٰه بن شقیق قال: قلت لأبي زر: لو رأیت رسول اللّٰه لسألته، فقال: عن أي شيءٍ کنت تسأله؟ قال: کنت أسأله هل رأیت ربك؟ قال أبو زر: قد سألته، فقال: رأیت نوراً". (صحیح مسلم)
معلوم ہوا کہ اس طرح دیکھنا کہ نگاہیں مکمل ادراک کریں جیسے جنت میں اللہ تعالیٰ نصیب کریں گے، ایسا دنیا میں کوئی نہیں دیکھ سکتا، ہاں فی الجملہ حق تعالیٰ شانہ کو دیکھنا ممکن ہے اور یہی رؤیت سیدنا محمد رسول اللہ ﷺ کو شبِ معراج میں میسر ہوئی، یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ایسی خصوصیت ہے جس میں آپ کا کوئی شریک نہیں، لہٰذا اس صورت میں کوئی اختلاف نہیں رہا، تمام روایات میں بھی تطبیق ہو جاتی ہے۔
مروزی سے نقل کیا گیا ہے کہ میں نے امام احمد سے کہا: حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہیں، وہ فرماتی ہیں کہ جوشخص یہ سمجھے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے رب کو دیکھا تو اس نے اللہ پر بڑا جھوٹ بولا ہے، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی اس حدیث پر لوگ بڑے شش وپنج میں ہیں، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی اس حدیث کا کس دلیل سے جواب دیا جائے؟ (اوپر روایات کی تطبیق سے یہ جواب مفہوم ہو گیا کہ اس سے مراد اللہ تعالیٰ کو کامل ادراک اور سارے علم کے ساتھ جان لینے کی نفی ہے) حضرت امام احمد رحمہ اللہ نے جواب دیا کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی اس حدیث کا جواب خود حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد میں موجود ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا قول ہے: ’’ رَئَیْتُ رَبِّیْ عَزَّوَجَلَّ‘‘۔
اوپر روایات اور تطبیق سے یہ بات واضح ہو گئی کہ اللہ کے رسول اللہ علیہ وسلم نے اپنے رب کو دیکھا ہے، ہاں کامل ادراک کے ساتھ نہیں دیکھا، اس لیے کہ اس طرح کا دیدار دنیا میں ممکن نہیں، یہ دیدار اللہ تعالیٰ جنت میں کروائیں گے۔ البتہ فی الجملہ دیکھنے میں کوئی اشکال نہیں، اس طرح کا دیدار اللہ کے رسول اللہ علیہ وسلم کواللہ نے کروایا، جمہور صحابہ اور تابعین کا یہی مذہب ہے، اورمحققین کا راحج قول یہی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سرکی آنکھوں سے اللہ کو دیکھا ہے۔ فقط واللہ اعلم
بیعت عقبی اولی
گذشتہ موسم حج میں یثرب کے چھ آدمیوں نے اسلام قبول کر لیا تھا اور حضورﷺ سے وعدہ کیا تھا کہ وہ اپنی قوم میں جاکر اسلام کی تبلیغ کریں
گے، جب یہ لوگ اسلام قبول کرکے یثرب لوٹے تو ہر گلی کوچہ میں آنحضرتﷺ کا تذکرہ ہونے لگا، اگلا حج کا موسم آیا تو بارہ اشخاص نے منیٰ میں عقبہ کے مقام پر حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم سے ملاقات کی، ان میں سے پانچ تو انھیں چھ میں سے تھے جو سال گذشتہ حضور ﷺ کے ہاتھ پر اسلام قبول کرچکے تھے البتہ جابر بن عبد اللہ بن رُیاب کسی وجہ سے اس دفعہ شریک نہ ہو سکے تھے نئے سات افراد یہ تھے۔
1-حضرت ذکوانؓ بن عبد قیس(خزرج) خزرج کی شاخ بنی زریق سے تھے، بیعت کے بعد مکہ میں رہ گئے اور حضورﷺ کے حکم سے ہجرت کے بعد مدینہ آئے۔
2-حضرت عبادہ ؓبن صامت (خزرج) بنی عوف بن خزرج سے تھے۔
3-حضرت ابو عبد الرحمٰنؓ یزید بن ثعلبہ(خزرج) بنی بلی سے تعلق تھا اور بنی خزرج کے حلیف تھے۔
4-حضرت عباسؓ بن عبادہ بن نضلہ(خزرج) بنی سالم بن عوف بن خزرج سے تعلق تھا۔
5-حضرت معاذؓ بن الحارث(خزرج) قبیلہ بنی نجار سے تھے۔
6-حضرت ابو الہشیمؓ مالک بن التیہا ن(اوس) قبیلہ اوس کی شاخ بنی عبدالاشہل سے تھے۔
7-حضرت عویمؓ بن ساعدہ (اوس) قبیلہ اوس کی شاخ عمرو بن عوف سے تعلق تھا۔
ان نئے افراد نے حضورﷺ کے ہاتھ پر اسلام قبول کیا اور ان سے جو بیعت لی وہ بیعت تو بہ یا بیعت ا لنساء کے نام سے مشہور ہے اس لیے کہ بہت بعد میں سورۂ ممتحنہ کی آیت 12 میں مسلمان عورتوں سے بیعت لینے کے لیے جو الفاظ نازل ہوئے وہ اس بیعت سے ملتے جلتے تھے، بیعت کے الفاظ یہ تھے:
1-خدائے واحد کے سوا کسی کی عبادت نہیں کریں گے،
2-، کسی کا مال نہ چرائیں گے،
3- حرام کاری نہ کریں گے،
4-اپنی اولاد کو (عرب کے رواج کے مطابق ) قتل نہ کریں گے،
5-ہم کسی امر معروف میں آپﷺ کی نافرمانی نہ کریں گے، آپﷺ کا حکم سنیں گے اور مانیں گے خواہ ہم خوش حال ہوں یا تنگ حال، خواہ وہ حکم ہمیں گوارا ہو یا ناگوار اور خواہ ہم پر کسی کو ترجیح دی جائے اور ہم حکومت کے معاملہ میں اہل ِ حکومت سے نزاع نہیں کریں گے، مسند احمد میں اضافہ ہے کہ" اگرچہ تم سمجھتے ہو کہ حکومت ہمارا حق ہے " بخاری میں اضافہ ہے کہ : اِلّایہ کہ تم کھلا کفر نہ دیکھو، یہ بیعت، بیعت عقبہ اولیٰ کہلاتی ہے۔
مدینہ میں اسلام کے سفیر
یثربی مسلمانوں کا یہ قافلہ جب یثرب روانہ ہونے لگا تو حضورﷺ نے ان کی درخواست پر حضرت مصعبؓ بن عمیر کو بطور اتالیق روانہ فرمایا، حضرت مصعب ؓ بن عمیر یثرب پہنچ کر حضرت اسعدؓ بن زرارہ کے مکان میں ٹھہرے جو سال گذشتہ ہی اسلام لا چکے تھے اور اسلام کی تبلیغ میں مصروف ہو گئے تھے، مدینہ میں حضرت مصعبؓ بن عمیر مقری کے خطاب سے مشہور ہوئے(مقری کے معنٰی ہیں استاد، معلم، پڑھانے والا) ان کا روزانہ کا معمول تھا کہ انصار کے ایک ایک گھر کا دورہ کرتے، لوگوں کو اسلام کی دعوت دیتے اور قرآن مجید پڑھ کر سناتے، روزانہ ایک دو نئے آدمی اسلام قبول کرلیتے تھے، رفتہ رفتہ مدینہ کے گھر گھر میں اسلام پھیل گیا، قبیلہ نبیت میں مسجد کی بنیاد پڑی، حضرت اسعدؓ بن زرارہ نے نماز با جماعت کا اہتمام کیا اورحضرت مصعبؓ بن عمیر کی امامت میں نماز ہونے لگی۔
حضرت سعد بن معاذ اور حضرت اسید بن حضیر کا قبول اسلام
مدینہ میں بنی عبد الاشہل کے سردارسعدؓ بن معاذ اور اسید بن حضیرکو ان مبلغین اسلام کی یہ سرگرمیاں پسند نہ آئیں، حضرت سعدؓ بن معاذ نے حضرت اسیدؓ بن حضیر سے کہا کہ اسعد ؓ بن زرارہ میری خالہ کا لڑکا ہے اس لیے میرے بجائے تم جاکر انھیں ڈانٹ ڈپٹ کرو اور ہمارے محلہ میں آنے سے منع کردو، چنانچہ وہ تلوار لے کر حضرت مصعبؓ کے پاس پہنچے اور کہنے لگے، تم لوگ ہمارے بچوں اور عورتوں کو کیوں بہکاتے ہو ؟ بہتر یہی ہے کہ یہاں سے چلے جاؤ ورنہ اچھا نہ ہوگا، حضرت مصعبؓ نے کہا : ہم لوگ جو کچھ کہتے ہیں بہتر ہے کہ اسے آپ بھی سن لیں، اگر پسند آئے قبول کریں ورنہ انکار کر دیں، اسید بن حضیر سننے کے لیے تیار ہو گئے، حضرت مصعبؓ نے قرآن پاک کی کچھ آیات تلاوت کیں، اسید انھیں سن کر جھومنے لگے اور پکار اٹھے، یہ کلام کس قدر عمدہ اور بہتر ہے، پھر اسی وقت داخل اسلام ہو گئے۔
قبیلہ اوس کے سردار حضرت سعدؓ بن معاذ تھے، قبیلہ پر ان کا یہ اثر تھا کہ تمام کام ان کے اشاروں پر چلتے، حضرت مصعبؓ نے جب ان کے پاس جاکر اسلام کی دعوت دی تو انھوں نے پہلے نفرت ظاہر کی؛ لیکن حضرت مصعبؓ نے قرآن مجید کی چند آیتیں پڑھیں تو ان کے دل کے دروازے بھی اسلام کے لیے کھل گئے اور اسی وقت مشرف بہ اسلام ہو گئے، ان کا اسلام لانا تمام قبیلہ ٔ اوس کا اسلام قبول کرلینا تھانماز با جماعت حضرت مصعبؓ بن عمیرکی امامت میں ہوا کرتی، چونکہ اوس و خزرج میں قبائلی عصبیت تھی اس لیے ایک دوسرے کے پیچھے نماز پڑھنا پسند نہیں کرتے تھے، [246]
ایک روز حضرت اسیدؓ بن حضیر نے اپنے قبیلہ بنی عبدالاشہل والوں سے کہا کہ میں تم میں کس درجہ کا آدمی ہوں ؟سب نے کہا : آپ ہمارے سردار ہیں، کہا : تو پھر تمھارے مرد اور عورتوں کا مجھ سے کلام حرام ہے جب تک اللہ اور اس کے رسول پر ایمان نہ لاؤ، اس گفتگو کا یہ اثر ہوا کہ شام ہونے سے قبل تمام قبیلہ ایمان لے آیا، بجز ایک شخص اصیرم بن ثابت کے جو میدانِ اُحد میں حضورﷺ پر ایمان لائے اور تلوار سونت کر میدان میں کود پڑے یہاں تک کہ لڑتے لڑتے شہید ہو گئے، نہ ایک نماز پڑھی نہ ایک روزہ رکھا حضورﷺ نے فرمایا:اس نے عمل تھوڑ اکیا؛ لیکن اجر بہت پایا، وہ یقیناًجنتی ہے۔
[247]
) یہا ں اس بات کی وضاحت ضروری ہے کہ بنی عبدالاشہل میں ایک بھی منافق نہ تھا۔
پہلی بیت عقبہ کے بعد یثرب میں اسلام تیزی سے پھیلنے لگا یہاں تک کے انصار کا کوئی گھرانہ باقی نہ بچا جس میں چند مرد اور عورتیں مسلمان نہ ہو چکی ہوں، صرف بنی امیہ بن زید، خطمہ، وائل اور واقف کے گھرانے باقی رہ گئے تھے، مشہور شاعر قیس بن ا لصلت انہی کا آدمی تھا اور یہ لوگ اسی کی بات مانتے تھے، اس شاعر نے انھیں غزوۂ خندق 5 ہجری تک اسلام سے روکے رکھا، اس کے بعد وہ ایمان لائے۔
پہلی نماز جمعہ
پہلی بیعت عقبہ کے بعد یثرب میں اسلام تیزی سے پھیلنے لگا، صرف چار گھرانے یعنی بنی اُمیہ بن زید، خطمہ، وائل اور واقف باقی رہ گئے تھے جو بعد میں ایمان لائے، حضرت اسعد ؓ بن زرارہ کی کوششوں سے نماز با جماعت کا انتظام ہو گیا تھا جو حرّہ بنی بیاضہ میں جس کوبقیع الخضمات بھی کہتے ہیں ادا کی جاتی تھی، جب مسلمانوں کی تعداد چالیس ہو گئی تو یہودیوں کے سبت( ہفتہ ) اور عیسائیوں کے اتوار کی طرح اجتماعی عبادت کے لیے جمعہ کا دن اختیار کیا جو عہد جاہلیت میں یوم عروبہ کہلاتا تھااور کعب بن لوئی نے اس کا نام بدل کر جمعہ رکھا، سب سے پہلی نمازجمعہ حضرت اسعد ؓ بن زرارہ نے بنی بیاضہ کے علاقہ میں پڑھائی، اس وقت تک نماز جمعہ کا حکم نہیں آیا تھا، روایت ہے کہ اللہ تعالیٰ کو ہونے والے انصار کی یہ ادا اتنی پسند آئی کہ تمام مسلمانوں پر جمعہ فرض کر دیا گیا، حضورﷺ کی مدینہ کو ہجرت سے کچھ پہلے مکہ میں نماز جمعہ کا حکم آیاتو حضورﷺ نے حضرت مصعب ؓ بن عمیر کو تحریری حکم بھیجاکہ جمعہ کے روز زوال کے بعد لوگوں کو دو رکعت نماز پڑھاؤ، مشہور انصاری صحابی حضرت کعب ؓ بن مالک بڑھاپے میں نابینا ہو گئے تھے، ان کے بیٹے عبد الرحمن ؓ ان کا ہاتھ پکڑ کر مسجد لے جاتے تھے، جمعہ کی اذان سنتے ہی وہ اسعدؓ بن زرارہ کے لیے دعائے مغفرت کرتے، بیٹے نے وجہ دریافت کی تو کہا کہ ہمیں مدینہ میں سب سے پہلے جمعہ کی نمازانھو ں نے ہی پڑھائی تھی۔ [248]
بیعت عقبہ ثانی
اس سال حج کے لیے یثرب سے پانچ سو زائرین آئے جن میں( 73) مرد اور (2) عورتیں مسلمان تھیں، مقصد یہ تھا کہ جنھوں نے اسلام قبول نہیں کیا تھا وہ اس دولت سے مشرف ہوں اور جو اسلام قبول کر چکے تھے وہ آپﷺ کے ہاتھ پر بیعت کر کے اسلام سے وفا داری اور آپﷺ پر جاں نثاری کا پختہ عہد کریں اور حضورﷺ کو مکّہ سے ہجرت فرما کر مدینہ میں قیام کی دعوت دیں، اس قافلہ نے منیٰ میں قیام کیا اورخفیہ طور پر آنحضرت صلی اللہ علیہ سلم کو اپنے ارادہ سے مطلع کیا، چنانچہ رات میں اسی قدیم گھاٹی عقبہ میں حضورﷺ سے بیعت کا اہتمام کیا گیا، دو عورتوں میں ایک بنی مازن بن نجار کی حضرت نسیبہ ؓ بنت کعب تھیں جو اپنی کنیت اُمِّ عمارہ کے نام سے مشہور تھیں اور دوسری خاتون بنی سلمہ کی حضرت اسماء ؓ بنت عمرو اُمِّ منیع تھیں، حضورﷺ کے ساتھ آپﷺ کے چچا حضرت عباسؓ بھی آئے تھے، یہ اگر چہ ابھی مشرف بہ اسلام نہ ہوئے تھے مگر حضورﷺ پر جان چھڑکتے تھے انھوں نے خطاب کرتے ہوئے کہا :
" اے لوگو تم نے محمد ﷺ کو مدینہ آنے کی دعوت تودی مگر سُن لو کہ وہ اپنے خاندان میں سب سے زیادہ معزز ہیں، جو لوگ ان پر ایمان لائے وہ بھی ان کے لیے سینہ سپر رہتے ہیں اور جو ایمان نہیں لائے وہ بھی خاندانی عز ت و شرف کی وجہ سے ان کی حمایت کرتے ہیں، محمد ﷺ نے سب کو چھوڑکر تمھارے ساتھ رہنا منظور کیا ہے، لہٰذا اگر تم اپنے اندر ان کی حفاظت و مدافعت کی طاقت پاتے ہو اور ان کی خاطر سارے عر ب کی دشمنی مول لینے کے لیے تیار ہو تو اچھی طرح آپس میں مشورہ کر کے بات طئے کر لو اور وہی بات کہو جس پر سب کااتفاق ہو جائے کیونکہ سچی بات ہی اچھی ہوتی ہے" حضرت عباسؓ کی یہ تقریر سن کر رئیس خزرج برأ بن معرور نے کہا : اے عباسؓ ! تم نے جو کچھ کہا ہم نہ وہ سنا، ہم نے و ہی کہاجو ہمارے دل میں ہے، ہم نے راست گوئی، ایفائے عہداور حضورﷺ کے لیے اپنی جانیں قربان کر دینے کا فیصلہ کیا ہے۔ [249]
پھر دوسروں نے کہا :یا رسول اللہ ہم ہر طرح حاضر ہیں، آپﷺ جو چاہیں ہم سے عہد لیں، یہ سن کرآنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے قرآن مجید کی کچھ آیات تلاوت فرمائیں اور تعلیمات اسلام پیش کیں، پھر فرمایا: میں چاہتا ہوں جس طرح تم اپنے بیوی بچوں کی حفاظت و حمایت کرتے ہو اسی طرح میری اور میرے ساتھیوں کی حمایت و نصرت کا وعدہ کرو، برأ بن معرور کہنے لگے :یارسول اللہ ! قسم ہے اس ذات ِ پاک کی جس نے آپﷺکو حق کے ساتھ بھیجا ہے ہم وعدہ کرتے ہیں جس طرح اپنے بیوی بچوں کی حمایت و حفاظت کرتے ہیں آپﷺ کی بھی کریں گے یا رسول اللہ ! دستِ مبارک بڑھائیے اور ہم سے بیعت لیجئے، ہم میدانِ جنگ کے شہسوار ہیں، مگر ابو الہشیم بن التیہان نے ان کی بات کاٹ دی اور کہنے لگے :یا رسو ل اللہ ہمارے یہودیوں سے کچھ تعلقات ہیں، حضورﷺ سے وابستگی کے بعد یہ تعلقات ختم ہو جائیں گے، ایسا نہ ہو کہ جب اللہ تعالیٰ آپ کو قوت و طاقت عطا فرمائے تو ( آپﷺ کی قوم آپﷺ کو بلا لے اور ) آپﷺ ان کے پاس لوٹ جائیں اور ہم کو چھوڑ دیں، حضورﷺ نے مسکرا کر فرمایا: نہیں! تمہا را خون میرا خون ہے، تم میرے ہو اور میں تمھارا، تمھاری اور میری صلح و جنگ ایک ہے۔ [250]
اس گفتگو کے بعد حاضرین نے آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی طرف بیعت کے لیے ہاتھ بڑھائے، بیعت کے دوران عباس بن عبادہ انصاری نے کہا :اے گروہ خزرج اچھی طرح سمجھ لو کہ تم کس چیز پر بیعت کر رہے ہو، تم عرب و عجم سے جنگ پر بیعت کر رہے ہو، سب نے یک زبان ہو کر جواب دیا: ہاں ہم اسی پر بیعت کر رہے ہیں، ہماری جان اور مال حضورﷺ کے لیے حاضر ہے، حضرت جابرؓ کا بیان ہے کہ ہم نے عرض کیا کہ اے اﷲ کے رسول ﷺ ہم آپﷺ سے کس بات پر بیعت کریں، آپﷺ نے فرمایا:
1-خوشی اور ناخوشی ہر حال میں سمع و طاعت کرنا،
2- تنگ دستی و خوش حالی میں اﷲ کی راہ میں خرچ کرنا،
3-نیک کام کرنے کی تلقین اور برے کام کے روکنے کی تاکید کرنا،
4-ﷲ کے دین میں کسی ملامت گر کی ملامت سے نہ ڈرنا،
5-جب حضوراکرم ﷺ ہجرت کرکے مدینہ چلے آئیں تو آپﷺ کی ایسی حفاظت کرنا جیسی اپنے جان و مال اور اہل و عیال کی کرتے ہیں اور صلہ جنت ہے۔
ابن اسحا ق کی روایت ہے کہ بنو نجار کہتے ہیں کہ ابو امامہ اسعد بن زرارہ ؓ سب سے پہلے آدمی ہیں حضور ﷺ کے ہاتھ میں ہاتھ دے کر بیعت کی اور
اس کے بعد بیعت عامہ ہوئی، حضرت جابرؓ کا بیان ہے کہ ہم لوگ ایک ایک کرکے اٹھے اور حضور ﷺ نے ان سے بیعت لی اور اس کے عوض جنت کی بشارت دی، دو عورتیں جو اس وقت وہاں حاضر تھیں ان کی بیعت صرف زبانی ہوئی، حضور ﷺ نے کسی اجنبی عورت سے ہاتھ نہیں ملایا، ابن اسحاق کا یہ بھی بیان ہے کہ عبدالاشہل کہتے ہیں کہ ابوالہشیم بن التیہان نے بیعت کی اور حضرت کعبؓ بن مالک کہتے ہیں کہ براء بن معرور نے سب سے پہلے بیعت کی
[251]
الغرض اسی جو ش و خروش کی فضا میں ( 75) فدائیان مدینہ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے دست مبارک پر بیعت کی، یہ بیعت عقبہ ثانیہ یا بیعت عقبہ کبیرہ کہلاتی ہے جو ذی الحجہ 13 نبوت مطابق جون یا جولائی 622ء میں ہوئی۔
بارہ نقیبوں کا تقرر
جب تمام لوگ بیعت کر چکے توارشاد ہوا :موسیٰ ؑنے بنی اسرائیل سے ( 12) نقیب منتخب کیے تھے، تم بھی اپنوں میں بارہ نقیب چُن لو جو اپنی اپنی قوم کے معاملات کے ذمہ دار ہوں، حضورﷺ کے حکم کی تعمیل میں بارہ نقیب منتخب کیے گئے جن میں سے نو (9) قبیلہ خزرج سے اور تین (3) قبیلہ اوس سے تھے، دوسری روایت یہ ہے کہ حضرت جبرئیل ؑ کے اشارہ سے بارہ نقیب آپﷺ نے خود چنے اور فرمایا ! تم میں سے کوئی یہ خیال نہ کرے کہ مجھے نقیب کیو ں نہیں بنایا گیا، انھیں منتخب کرنے کے بعد حضورﷺ نے فرمایا : تم اپنی آبادی پر اسی طرح ذمہ دار ہو جس طرح عیسیٰ ؑ ابن مریم کے حواری کفیل تھے اور میں قوم کا ذمہ دار ہوں، صحابہ ؓ کرام میں ان نقیبان انصار کو مرتبہ اور فضیلت کے لحاظ سے وہی مقام حاصل ہے جو مہاجرین میں عشرہ مبشرہ کو ہے، ان نقیبوں کے نام درج ذیل ہیں، [252]
بنی خزرج کے نو(9)نقیب
1-بو امامہ حضرت اسعد ؓ بن زرارہ انھیں نقیب النقباء مقرر کیا گیا،
2- حضرت سعدؓ بن ربیع زمانہ جاہلیت میں اہل یثرب کے چندپڑھے لکھے لوگوں میں شمار ہوتا تھا، جنگ اُحد میں شہید ہوئے،
3-حضرت عبد اللہ بن رواحہ مشہور شاعر، جنگ موتہ میں شہید ہوئے،
4-حضرت رافعؓ بن مالک جنگ ِ اُحد میں شہید ہوئے،
5-حضرت برا ؓ بن معرور حضورﷺ صلی اللہ علیہ و سلم کی ہجرت سے پہلے وفات پا گئے،
6- حضرت عبدا للہ ؓ بن عمرو بن حرام جنگ اُحد میں شہید ہوئے
7-حضرت عبادؓہ بن صامت اُن سے اکثر حدیثیں مروی ہیں، بعد میں صُفّہ کی درس گاہ کے صدر مدرس بنے
8-حضرت سعد ؓ بن عبادہ اپنی قوم میں کامل کے لقب سے مشہور تھے،
9-حضرت منذرؓ بن عمرو بن خینس بیر معونہ میں شہید ہوئے
بنی اوس کے تین نقیب
1-حضرت اسید ؓ بن حضیر جنگ بعاث میں ان کے باپ اوس کے سردار تھے،
2-حضرت سعدؓ بن خثیمہ قبا میں اِن کے مکان پر حضورﷺ نے لوگوں سے ملاقات فرمائی، جنگ ِ بدر میں شہید ہوئے،
3-حضرت ابو الہشیمؓ بن الیتہان علامہ ابن کثیر نے ان کی بجائے رفاعہ ؓ بن عبد منذر بن زبیر بدری کا نام لکھا ہے،
یہ بیعت بہت خفیہ طریقہ پر ہوئی لیکن اس کے باوجود کفار قریش کو اس کی اطلاع ہو گئی اور انھوں نے مسلمانوں کی ایذا رسانی کے منصوبے بنانے شروع کر دیے، حضورﷺ نے انصار سے فرمایا، تم لوگ اپنے خیموں پرواپس چلے جاؤ، حضرت عباسؓ بن عبادہ نے عرض کیا:یا رسول اللہ ! اگر آپﷺ اجازت دیں تو ہم اپنی تلواروں سے ان پر حملہ کر دیں، فرمایا : ابھی ہمیں اس کا حکم نہیں آیا، انصار کے قافلہ نے یثرب پہنچ کر اپنے اسلام کا اعلان عام کیا جس کے نتیجہ میں اسلام تیزی سے یثرب میں پھیلنے لگا۔
مدنی زندگی
622ء تک مسلمانوں کے لیے مکہ میں رہنا ممکن نہیں رہا تھا۔ کئی دفعہ مسلمانوں اور خود حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو تکالیف دیں گئیں۔ اس وجہ سے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے مسلمانوں کو مدینہ ہجرت کرنے کی اجازت دے دی۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اللہ کے حکم سے حضرت ابوبکر کے ساتھ ستمبر 622ء میں مدینہ کی طرف روانہ ہوئے اور مکہ میں اپنی جگہ حضرت علی بن ابی طالب علیہ السلام کو امانتوں کی واپسی کے لیے چھوڑا۔ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے مدینہ پہنچنے پر انصار نے ان کا شاندار استقبال کیا اور اپنے تمام وسائل پیش کر دیے۔ جب آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم مدینہ پہنچے تو انصار استقبال کے لیے آئے اور خواتین چھتوں پر سے دیکھ رہی تھیں۔ اور دف بجا کر کچھ اشعار پڑھ رہی تھیں جن کا ترجمہ یہ ہے۔
ہم پر چودھویں کی رات کا چاند طلوع ہو گیا وداع کی پہاڑیوں سے ہم پر شکر واجب ہے جب تک کوئی اللہ کو پکارنے والا باقی رہے۔
آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی اونٹنی حضرت ابو ایوب انصاری کے گھر کے سامنے رکی اور حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ان کے گھر قیام فرمایا۔ جس جگہ اونٹنی رکی تھی اسے حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے قیمتاً خرید کر ایک مسجد کی تعمیر شروع کی جو مسجد نبوی کہلائی۔ اس تعمیر میں انھوں نے خود بھی حصہ لیا۔ یہاں حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے مسلمانوں کے درمیان میں عقدِ مؤاخات کیا یعنی مسلمانوں کو اس طرح بھائی بنایا کہ انصار میں سے ایک کو مہاجرین میں سے ایک کا بھائی بنایا۔ خود حضرت علی علیہ السلام کو اپنا بھائی قرار دیا۔ انصار نے مہاجرین کی مثالی مدد کی۔ ہجرت کے ساتھ ہی اسلامی تقویم کا آغاز بھی ہوا۔ آپ کے مدینہ آنے سے، اوس اور خزرج، یہاں کے دو قبائل جن نے بعد میں اسلام قبول بھی کیا میں لڑائی جھگڑا ختم ہوا اور ان میں اتحاد اور بھائی چارہ پیدا ہو گیا۔ اس کے علاوہ یہاں کچھ یہودیوں کے قبائل بھی تھے جو ہمیشہ فساد کا باعث تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے آنے کے بعد یہودیوں اور مسلمانوں کے درمیان میں ہونے والے معاہدہ 'میثاق مدینہ' نے مدینہ میں امن کی فضا پیدا کر دی۔ اسی دور میں مسلمانوں کو کعبہ کی طرف نماز پڑھنے کا حکم دیا گیا، اس سے پہلے مسلمان بیت المقدس کی طرف منہ کر کے نماز ادا کرتے تھے جو یہودیوں کا بھی قبلہ تھا۔
ہجرت معنی
ہجرت لفظ ہجر سے ماخوذ ہے جس کے معنی چھوڑ دینے کے ہیں اور اسلام کی اصطلاح میں اللہ کے لیے ترک وطن کرنا ہجرت کہلاتا ہے۔
ہجرت حبش
اللہ کے دین پر استقامت اور کلمہ حق کی حفاظت کی خاطر فدا کاران اسلام کو ترک وطن کی پہلی آزمائش اس وقت پیش آئی جبکہ کفار مکہ اور مشرکین قریش نے ہر قسم کے ظلم و ستم کا نشانہ بنا کر مسلمانوں کے لیے ان کے محبوب وطن (مکہ) میں دین حق پر قائم رہتے ہوئے لمحات زندگی کو ناممکن بنادیا اور اب ترک وطن کے علاوہ کوئی چارہ کار باقی نہ چھوڑا پس مٹھی بھر مسلمانوں پر مشرکین کے ناقابل برداشت مظالم اور مسلمانوں کے حیرت زا صبر و استقلال نے دنیائے تاریخ میں ایک نئے باب کا اضافہ کر دیا جو ” ہجرت حبش “ کے عنوان سے معنون ہے۔
حبشہ کا موجودہ فرمانروا اصحمہ 1 ؎ عیسائی تھا اور دین مسیحی کا عالم بھی اس لیے نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مسلمانوں کو اجازت مرحمت فرمائی کہ وہ سردست حبشہ کو ہجرت کر جائیں توقع ہے کہ اصحمہ کی حکومت ان کا خیر مقدم کرے گی اور وہ کسی مزاحمت کے بغیر دین حق پر قائم و مستقیم رہ سکیں گے۔
حاشیہ 1حبشہ کے بادشاہ کا لقب ” نجاشی “ تھا جو ” نجوسی “ کا معرب ہے نجوسی حبشی زبان میں حکمراں کو کہتے ہیں۔
ہجرت کے اس دور کی نمایاں شخصیت حضرت عثمان (رضی اللہ عنہ) کی رفیقہ حیات رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی لخت جگر حضرت رقیہ ہیں نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس مقدس جوڑے کو رخصت فرماتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ لوط اور ابراہیم (علیہما السلام) کے بعد یہ پہلا جوڑا ہے جو خدا کی راہ میں ہجرت کر رہا ہے پھر آہستہ آہستہ یہ تعداد اسّی (80) تک پہنچ گئی ان مہاجرین میں نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے عم زاد بھائی حضرت جعفر (رضی اللہ عنہ) بھی تھے یہی وہ مرد حق کوش ہیں جنھوں نے قریش کے وفد کی مہاجرین سے متعلق زہر چکانی اور مطالبہ مراجعت کے سلسلہ میں نجاشی حبشہ کے دربار میں اسلام پر بے نظیر تقریر فرمائی اور جس کا ذکر صفحات گذشتہ میں ہو چکا ہے۔ [253]
ہجرت مدینہ کے اسباب
11 نبوت موسم حج کے موقع پر حرا اور منیٰ کے درمیان مقام عقبہ میں یثرب (مدینہ) کے چند لوگوں نے شب کی تنہائی میں نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا پیغام حق سنا اور اسلام قبول کر لیا یہ چھ یا آٹھ اشخاص تھے دوسرے سال چند سابق اشخاص اور بعض دوسرے حضرات نے جو تعداد میں بارہ تھے حاضر خدمت ہو کر اسلام پر تبادلہ خیالات کیا اور مشرف باسلام ہو گئے ان کے اسمائے گرامی بروایت محمد بن اسحاق یہ ہیں : اسعد بن زرارہ عوف بن الحارث ‘ رافع بن مالک ‘ قطبہ بن عامر ‘ عقبہ بن عامر ‘ معاذ بن حارث ‘ ذکوان بن عبد قیس ‘ یزید بن ثعلبہ ‘ عبادہ بن صامت ‘ عباس بن عبادہ ‘ ابوالہیثم بن تیہان عویم بن ساعدہ۔ [254]
حضرت عبادہ بن صامت (رضی اللہ عنہ) فرماتے ہیں کہ ہم نے عقبہ اولیٰ میں حسب ذیل شرائط کے ساتھ اسلام پر بیعت کی تھی :
خدائے واحد کے ماسوا کسی کی پرستش نہیں کریں گے۔
1 چوری نہیں کریں گے۔ 2 زنا نہیں کریں گے۔
3 اپنی اولاد کو قتل نہیں کریں گے۔ 4 کسی پر جھوٹی تہمتیں نہیں لگائیں گے اور نہ کسی کی غیبت کریں گے۔
5 اور کسی بھی اچھی بات میں آپ کی نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نافرمانی نہیں کریں گے۔
بیعت کے بعد نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا اگر تم نے ان شرائط کو پورا کیا تو تمھارے لیے جنت کی بشارت ہے اور اگر تم ان برائیوں میں سے کسی کے مرتکب ہوئے تو پھر تمھارا معاملہ خدا کے ہاتھ ہے چاہے بخش دے اور چاہے جرم پر سزا دے۔
اس واقعہ نے مدینہ کے ہر گھر میں اسلام کا چرچا کر دیا اور آہستہ آہستہ ہر ایک خاندان میں آفتاب اسلام کی ضیا باری ہونے لگی اور نتیجہ نکلا کہ اوس و خزرج کی تمام شاخوں میں سے 13 نبوت کو تہتر مرد اور دو عورتیں اسی مقام عقبہ پر موسم حج میں شب کی تاریکی کے اندر آفتاب نبوت کی درخشانی سے فیضیاب ہونے جا پہنچے نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بھی اپنے چچا عباس (رضی اللہ عنہ) کو ہمراہ لے کر وہاں پہنچ گئے اور ان کے سامنے اسلام پر ایک مؤثر وعظ فرمایا جس سے ان کے قلوب نور ایمان سے جگمگا اٹھے۔ اس کے بعد انصار اور نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے درمیان اس امر پر گفتگو ہوئی کہ اگر ذات اقدس (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مدینہ میں نزول اجلال فرمائیں تو اشاعت اسلام کو بھی بہت زیادہ فائدہ پہنچے اور ہم کو بھی فیضیاب ہونے کا بخوبی موقع میسر آئے اور اس سلسلہ میں جانبین سے محبت و مودت کے قول وقرار بھی ہوئے جن کی تفاصیل کتب سیر و تاریخ میں مذکور ہیں۔ انھی حضرات میں سے نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بارہ اشخاص کو منتخب فرما کر دعوت وتعلیم اسلام کے لیے اپنا نقیب مقرر فرمایا۔
یثرب (مدینہ) میں اسلام کی اشاعت نے جب اس طرح روز افزوں ترقی اختیار کرلی تو اب وحی الٰہی نے نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی زبانی جاں نثاران اسلام کو اجازت دی کہ وہ مشرکین مکہ کی ہول ناک ایذا رسانی سے محفوظ ہوجانے کے لیے مدینہ ہجرت کر جائیں اور خدا کے لیے ترک وطن اختیار کریں چنانچہ آہستہ آہستہ مسلمانوں نے مدینہ ہجرت شروع کردی مشرکین مکہ نے یہ دیکھ کر مسلمانوں کو ہجرت سے روکنے کے لیے مظالم میں اور اضافہ کر دیا اور انسداد ہجرت کے لیے ممکن ذرائع کو اختیار کیا مگر فدا کاران اسلام کا جذبہ ہجرت فرو نہ ہوا بلکہ وہ کثرت کے ساتھ مال ‘ جان ‘ آبرو اور اولاد کی زندگی کو خطرہ میں ڈال کر اللہ کی راہ میں وطن عزیز کو خیر باد کہتے رہے اور اکثر ایسا ہوا کہ جب اہل مکہ نے ان کے اموال اور اہل و عیال کو ساتھ لے جانے سے روک دیا تو ان مردان خدا نے صبر آزما زندگی کے ساتھ ہجرت حق کی خاطر ان کو بھی وہیں چھوڑا اور تنہا خدا کے بھروسا پر مدینہ روانہ ہو گئے۔
ہجرت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم
اب مکہ میں مشاہیر مسلمانوں میں سے صرف ابوبکر اور علی (رضی اللہ عنہما) ہی باقی رہ گئے تھے اور ایک قلیل تعداد باقی مسلمانوں کی تھی تب قریش نے سوچا کہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو قتل کرکے اسلام کو مٹا دینے کا اس سے بہتر دوسرا کوئی موقع نہیں آئے گا۔ [255]
دار الندوہ
چنانچہ تمام سرداران قریش قصی بن کلاب کے قائم کردہ گورنمنٹ ہاؤس ” دار الندوہ “ میں جمع ہوئے اور سرور عالم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے قتل سے متعلق سازشی مجلس مشاورت قائم کی اس مجلس میں عتبہ ‘ شیبہ ‘ ابوسفیان ‘ طعیمہ بن عدی ‘ جبیر بن مطعم ‘ حارث بن عامر ‘ نضربن حارث ‘ ابوالبختری ‘ زمعہ بن اسود ‘ حکیم بن حزام ‘
ابوجہل ‘ نبیہ بن الحجاج ‘ منبہ بن الحجاج ‘ امیہ بن خلف جیسے صنادید قریش شریک مشورہ تھے۔ مشورہ شروع ہونے والا ہی تھا کہ ایک شیطان شیخ نجدی دار الندوہ کے دروازہ پر آموجود ہوا اور شرکت مجلس کا خواستگار بنا ‘ قریش مکہ نے ہم مشرب پا کر بخوشی اجازت دی اور اب مشورہ شروع ہوا ‘ مختلف اہل الرائے نے مختلف رائیں دیں لیکن شیخ نجدی نے ہر ایک رائے کو غلط قرار دیا آخر ایک شخص نے کہا :
تمام قبائل میں سے ایک ایک جوان لیجئے اور ان سے کہئے کہ وہ بیک وقت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر حملہ کرکے قتل کر دیں اس سے کام بھی بن جائے گا اور بنو عبد مناف کسی سے قصاص لینے کی جرأت بھی نہ کرسکیں گے اور صرف خون بہا پر معاملہ طے ہوجائے گا۔ شیخ نجدی نے اس رائے کو بہت سراہا اور یہی رائے طے پا گئی۔ ادھر جبرائیل (علیہ السلام) نے وحی الٰہی کے ذریعہ ذات اقدس (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سامنے اس پوری داستان کو کہہ سنایا اور عرض کیا کہ خدا کی مرضی یہ ہے کہ آپ آج کی شب اپنے بستر پر حضرت علی (رضی اللہ عنہ) کو سلا کر خود مدینہ کو ہجرت کر جایئے چنانچہ وحی الٰہی کے مطابق آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قریش کے نوجوانوں کی حراست کے باوجود سورة یٰسٓ کی یہ آیت { وَ جَعَلْنَا مِنْ بَیْنِ اَیْدِیْھِمْ سَدًّا وَّ مِنْ خَلْفِھِمْ سَدًّا فَاَغْشَیْنَاھُمْ فَھُمْ لَا یُبْصِرُوْنَ } [256]پڑھتے ہوئے اور ” شَاھَتِ الْوُجُوْہِ “ فرما کر مٹھی بھر خاک ان کے سروں پر ڈالتے ہوئے صاف بچ کر نکل گئے اور حضرت ابوبکر (رضی اللہ عنہ) کے مکان پر جا کر اور وحی الٰہی کا مژدہ رفاقت سنا کر ان کو ہمراہ لیے مدینہ کو روانہ ہو گئے۔
ہجرت کا یہ واقعہ ربیع الاول 14 نبوت دو شنبہ کے روز پیش آیا ‘ یہ واقعہ اپنے خصوصی حالات اور معجزانہ اثرات کے ساتھ بہت مشہور اور صحیح احادیث و روایات میں مذکور ہے اور صدیق اکبر (رضی اللہ عنہ) کی سفر ہجرت میں رفاقت کی عظمت و جلالت کے لیے رہتی دنیا تک قرآن عزیز اس طرح ناطق ہے :
{ ثَانِیَ اثْنَیْنِ اِذْ ھُمَا فِی الْغَارِ اِذْ یَقُوْلُ لِصَاحِبِہٖ لَاتَحْزَنْ اِنَّ اللّٰہَ مَعَنَا } [257]
” دوسرا تھا دو کا جبکہ وہ دونوں غار میں تھے کہ وہ اپنے رفیق (ابوبکر) سے کہہ رہا تھا (ابوبکر) غم نہ کھا بلاشبہ خدا ہمارے ساتھ ہے۔ “
نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس موقع پر ابوبکر (رضی اللہ عنہ) کو مخاطب کرتے ہوئے ” لاتحزن “ فرمایا ” لاتخف “ نہیں فرمایا۔ یہ اس لیے کہ خوف اور حزن کے لغوی فروق میں سے ایک دقیق فرق یہ بھی ہے کہ عموماً خوف اپنی مضرت کے سلسلہ میں ہوا کرتا ہے بخلاف حزن کے کہ وہ اس رنج کو کہتے ہیں جو اکثر دوسرے کی مصیبت کی وجہ سے خود کو پیش آتا ہے گویا قرآن عزیز بنص صریح ناطق ہے اس حقیقت کے لیے کہ ابوبکر (رضی اللہ عنہ) کو اپنی جان اور اپنی ذات کا خوف نہیں تھا بلکہ ذات اقدس (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی گرفتاری اور مشرکین کے ہاتھوں ظلم رسانی کا حزن و ملال جانکاہی پر آمادہ کیے ہوئے تھا پس حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قدسی صفات نے ابوبکر (رضی اللہ عنہ) کی اس حالت کا اندازہ لگایا تو ” لاتخف “ کی جگہ ” لاتحزن “ ارشاد فرمایا اور ساتھ ہی اِنَّ اللّٰہَ مَعَنَا فرما کر ابوبکر (رضی اللہ عنہ) کی رفاقت کی مقبولیت پر بھی مہر تصدیق فرما دی۔ دنیا اپنے بغض وعناد اور زندقہ و الحاد سے جو چاہے کہے لیکن رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور ابوبکر (رضی اللہ عنہ) کی معیت حقہ کے لیے قرآن جملہ اِنَّ اللّٰہَ مَعَنَا کی ناطقیت کے بقا و دوام کو ساری کائنات بھی مل کر مٹانا چاہے تو نہیں مٹا سکتی۔
{ ذٰلِکَ فَضْلُ اللّٰہِ یُؤْتِیْہِ مَنْ یَّشَآئُ وَاللّٰہُ ذُو الْفَضْلِ الْعَظِیْمِ } [258]
قرآن عزیز اور ہجرت مدینہ
واقعہ معراج میں گذر چکا ہے کہ درحقیقت اسراء تمہید تھی ہجرت کے عظیم الشان واقعہ کی یعنی واقعہ اسراء کے عجائبات اس امر کی تمہید تھے کہ اب آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تبلیغی زندگی کا دور ایک دوسرا رخ اختیار کرنے والا ہے جو کامرانیوں اور کامیابیوں سے بھرپور ہے اس لیے از بس ضروری ہے کہ پہلے آپ کو قبلتین اور ملائے اعلیٰ کے اسرار و غوامض سے آگاہ کر دیا جائے کہ مکی زندگی جب مدنی حیات میں منقلب ہو تو اس سے قبل نبوت و رسالت کے کمالات غایت قصویٰ تک پہنچ چکے ہوں اور آپ کا منصب ہدایت اس مقام رفیع تک جا پہنچا ہو جہاں خدا کی بلند سے بلند ترین مخلوق کا بھی گذر نہ ہوا ہو تاکہ آپ
{ اَلْیَوْمَ اَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ وَ اَتْمَمْتُ عَلَیْکُمْ نِعْمَتِیْ وَ رَضِیْتُ لَکُمُ الْاِسْلَامَ دِیْنًا } [259]
کے شرف کو حاصل کرسکیں۔
پس سورة بنی اسرائیل از ابتدا تا انتہا ہجرت مدینہ کے ہی اسرار و لطائف سے معمور ہے چنانچہ ابتدائی آیات میں اسراء کا بیان ہے اور پھر ذکر آگیا ہے رشد و ہدایت کے اصول کا اور درمیان میں امم سابقہ اور ان کے ہداۃ انبیا ورسل کے واقعات تبلیغی کا تذکرہ شواہد و نظائر بن کر سامنے آجاتا ہے اور اس ضمن میں معراج کے حکم و اسرار کا بھی ذکر ہوتا جاتا ہے اور اس کے بعد { رَبِّ اَدْخِلْنِیْ مُدْخَلَ صِدْقٍ۔۔} [260] سے مکہ سے خروج اور مدینہ کی ہجرت کا ذکر شروع ہوجاتا ہے اور یہ ذکر آخر سورة تک جاری رہتا ہے چنانچہ حضرت عبد اللہ بن عباس (رضی اللہ عنہ) اور حضرت قتادہ (رحمہ اللہ علیہ) نے مسطورہ ذیل ہر دو آیات کے سلسلہ مضامین کو ہجرت مدینہ سے ہی وابستہ قرار دیا ہے :
{ وَ اِنْ کَادُوْا لَیَسْتَفِزُّوْنَکَ مِنَ الْاَرْضِ لِیُخْرِجُوْکَ مِنْھَا وَ اِذًا لَّا یَلْبَثُوْنَ خِلٰفَکَ اِلَّا قَلِیْلًا } [261]
” اور قریب تھا کہ وہ (مشرکین) البتہ تجھ کو عاجز کردیتے سر زمین (مکہ) سے تاکہ تجھ کو اس سے نکال دیں اور ایسی حالت میں ان کی ہلاکت بہت قلیل عرصہ میں سامنے آجاتی۔ “
یہ مشرکین کے حق میں سخت قسم کی تہدید و تخویف ہے کہ جب بھی تمھارے مظالم کی بدولت نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ہجرت مدینہ پیش آئے گی تمھاری اجتماعی زندگی کی ہلاکت قریب سے قریب تر ہوجائے گی گویا ہجرت مدینہ اسلام کی روز افزوں ترقی اور معاندین اسلام کی موت و ہلاکت کے لیے تقدیر مبرم ہے۔
{ وَ قُلْ رَّبِّ اَدْخِلْنِیْ مُدْخَلَ صِدْقٍ وَّ اَخْرِجْنِیْ مُخْرَجَ صِدْقٍ وَّ اجْعَلْ لِّیْ مِنْ لَّدُنْکَ سُلْطٰنًا نَّصِیْرًا } [262]
” اور کہئے ! اے میرے پروردگار مجھ کو داخل کر (مدینہ میں) اچھا داخلہ اور نکال مجھ کو (مکہ سے) عزت کے ساتھ اور میرے لیے اپنی جانب سے زبردست نصرت و مدد عطا کر۔ “
اسی طرح سورة انفال میں بعض واقعات کے ضمن میں ہجرت مدینہ کا تذکرہ موجود ہے :
{ وَ اِذْ یَمْکُرُبِکَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا لِیُثْبِتُوْکَ اَوْ یَقْتُلُوْکَ اَوْ یُخْرِجُوْکَ وَ یَمْکُرُوْنَ وَ یَمْکُرُ اللّٰہُ وَ اللّٰہُ خَیْرُ الْمٰکِرِیْنَ } [263]
” اور (وہ وقت قابل ذکر ہے) جب منکرین تیرے خلاف سازش کر رہے تھے تاکہ تجھ کو قید کر لیں یا مار ڈالیں یا (مکہ سے) نکال دیں اور اپنی سازشوں میں لگے ہوئے تھے اور خدا (اس کے خلاف) تدبیر کرچکا تھا اور اللہ تدبیر کرنے والوں میں سب سے بہتر مدبر ہے۔ “
اور اسی طرح سورة توبہ میں صدیق اکبر (رضی اللہ عنہ) کی عظمت و جلالت قدر کے تذکرہ کے ساتھ ساتھ ہجرت مدینہ کا ذکر اس طرح موجود ہے :
{ اِلَّا تَنْصُرُوْہُ فَقَدْ نَصَرَہُ اللّٰہُ اِذْ اَخْرَجَہُ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا ثَانِیَ اثْنَیْنِ اِذْ ھُمَا فِی الْغَارِ اِذْ یَقُوْلُ لِصَاحِبِہٖ لَاتَحْزَنْ اِنَّ اللّٰہَ مَعَنَا فَاَنْزَلَ اللّٰہُ سَکِیْنَتَہٗ عَلَیْہِ وَ اَیَّدَہٗ بِجُنُوْدٍ لَّمْ تَرَوْھَا وَ جَعَلَ کَلِمَۃَ الَّذِیْنَ کَفَرُوا السُّفْلٰی وَ کَلِمَۃُ اللّٰہِ ھِیَ الْعُلْیَا وَاللّٰہُ عَزِیْزٌ حَکِیْمٌ} [264]
” اور اگر تم اللہ کے رسول کی مدد نہیں کرو گے تو (نہ کرو) اس کی اللہ تعالیٰ نے اس وقت مدد فرمائی جب اس کو منکرین نے (مکہ سے) نکالا جبکہ وہ دونوں (محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور ابوبکر (رضی اللہ عنہ)) غار میں (حرا میں روپوش ) تھے جب وہ رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنے رفیق (ابوبکر (رضی اللہ عنہ) سے) کہہ رہا تھا تو غم نہ کھا بلاشبہ اللہ ہمارے ساتھ ہے پس اللہ نے اس پر اپنا سکینہ (طمانیت) اتارا اور اس کو ایسے لشکر کے ذریعہ قوت پہنچائی کہ تم اس کو نہیں دیکھ رہے تھے اور (اس طرح) خدا نے کافروں کا کلمہ پست کر دیا اور اللہ کا کلمہ ہی سب سے بلند ہے اور بلاشبہ اللہ غالب ہے حکمت والا ہے۔
ہجرت
اسلام میں ” ہجرت “ ایک اہم فریضہ ہے کون نہیں جانتا کہ انسان کے لیے وطن ‘ مال اور اہل و عیال کس درجہ عزیز ہوتے ہیں اور وہ انھی متاع گرانمایہ پر اپنی دنیوی عیش و راحت اور بقائے حیات کا مدار سمجھتا ہے لیکن اس کی انسانیت اور انسانیت کا ارتقا ان تمام مقاصد حیات سے بھی ایک بلند اور رفیع مقصد زندگی کا طالب ہے اور وہ خالق کائنات اور رب العالمین کی معرفت ہے جس کی ربوبیت نے اس کو یہ جامہ ہستی عطا کیا ‘ اسی معرفت کا نام دین اور ملت ہے انسان جب اس مقصد حقیقی کو پا لیتا ہے تو پھر اس کی نگاہ میں اس درجہ وسعت اور رفعت پیدا ہوجاتی ہے کہ دنیا کی ان تمام رنگینیوں اور نیرنگیوں کا دامن وسیع بھی اس کو تنگ نظر آتا اور وہ اس تنگ دامنی سے عاجز ہو کر آخر کار حیات روحانی کی آغوش میں ہی تسکین پاتا ہے اور جب اس مرحلہ پر پہنچ جاتا ہے تو پھر اس حیات باقی ” دین حق “ کی خاطر وہ دنیا کی تمام متاع گرانمایہ تن ‘ من ‘ دھن ‘ حتیٰ کہ اہل و عیال کو بھی تج دیتا ہے اور اس دُرِّ بے بہا کو آنچ تک نہیں آنے دیتا جس کا نام ایمان ہے اسی حقیقت حال کو اسلام کی مقدس اصطلاح میں ہجرت کہا جاتا ہے۔
اسی بنا پر ہجرت ایک صادق الایمان اور مخلص مسلمان کے اور منافق اور کافر ہستی کے درمیان امتیاز پیدا کرنے کے لیے بہترین کسوٹی اور معیار ہے نیز فضاء روحانی کا ٹمپریچر معلوم کرنے کے لیے جہاد اور ہجرت ہی ایسے دو مقیاس الحرارت ہیں جن سے مومنوں کے ایمان کی حرارت کا صحیح اندازہ ہوجاتا ہے۔
قرآن عزیز نے ” ہجرت “ کی اہمیت پر جگہ جگہ توجہ دلائی ہے اور اس کو ایمان واسلام کی کسوٹی قرار دیا ہے جس کے لیے یہ مقامات خصوصیت کے ساتھ قابل مطالعہ ہیں :
ابتدائے اسلام میں مکہ دارالکفر اور دارالحرب تھا اس لیے وہاں سے مدینہ کو ہجرت کر جانا اسلام کے اہم ترین فرائض میں سے تھا تاکہ مسلمان مدینہ میں امن و عافیت کے ساتھ احکام اسلام کی پیروی کرسکیں اور نہ صرف اسی قدر بلکہ اسلام کے مقصد عظمیٰ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کی یا دوسرے الفاظ میں اعلائے کلمۃ اللہ کی صحیح خدمت انجام دے سکیں مگر جب 8ھ میں فتح مبین نے مکہ کی اس حالت کو بدل کر دار الاسلام بنادیا تو اب ہجرت کا یہ خاص فرض ختم ہو گیا اور زبان وحی ترجمان نے لَاھِجْرَۃَ بَعْدَ الْفَتْحِ 1 فرما کر اس حقیقت کا اعلان کر دیا البتہ اب بھی مرکز توحید کے ساتھ والہانہ عشق و محبت کے جذبہ میں مکہ اور مدینہ ہجرت کرکے جانا اجر وثواب کا ضرور استحقاق پیدا کرتا ہے۔
اور اگر کسی مقام اور کسی ملک میں بھی مسلمان کے لیے حیات ایمانی کے پیش نظر وہی صورت حال پیدا ہوجائے جو اسلام کے ابتدائی دور (مکی دور) میں تھی تو اس وقت مسلمانوں کے لیے وہی احکام عائد ہوجائیں گے جو مکی دور کے متعلق قرآن و حدیث اور ان سے مستنبط فقہ اسلامی میں پائے جاتے ہیں اور اصولی طور پر اس وقت صرف دو ہی اسلامی مطالبے سامنے آجائیں گے یا جہاد فی سبیل اللہ 2 کے ذریعہ اس حالت کا انقلاب اور یا پھر ہجرت اور کسی طرح بھی یہ جائز نہیں ہوگا کہ حالت راہنہ (موجودہ حالت) پر قناعت کرکے مطمئن زندگی بسر کی جائے۔
حاشیہ 1فتح مکہ کے بعد مدینہ کی ہجرت فرض نہیں رہی۔
حاشیہ 2البتہ جہاد فی سبیل اللہ کے طرق و اسباب پر وقت کے تقاضے کے پیش نظر ہی عمل واجب ہوگا۔
مکہ جب دارالکفر اور دارالحرب تھا تو اس وقت ہجرت مدینہ کو اسلام نے کس درجہ اہمیت دی اور اس مقصد رفیع کے لیے مسلمانوں سے کس درجہ قربانی اور ایثار نفس کا مطالبہ کیا آیات ذیل سے اس حقیقت کا بخوبی اندازہ ہو سکتا ہے :
{ فَالَّذِیْنَ ھَاجَرُوْا وَ اُخْرِجُوْا مِنْ دِیَارِھِمْ وَ اُوْذُوْا فِیْ سَبِیْلِیْ وَ قٰتَلُوْا وَ قُتِلُوْا لَاُکَفِّرَنَّ عَنْھُمْ سَیِّاٰتِھِمْ وَ لَاُدْخِلَنَّھُمْ جَنّٰتٍ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِھَا الْاَنْھٰرُ ثَوَابًا مِّنْ عِنْدِ اللّٰہِ وَ اللّٰہُ عِنْدَہٗ حُسْنُ الثَّوَابِ }[265]
” جن لوگوں نے ہجرت کی اور جو اپنے گھروں سے نکالے گئے اور میری راہ میں ستائے گئے اور میری راہ میں لڑے اور مارے گئے میں ضرور ان کے گناہ ان سے دور کر دوں گا اور ان کو ایسی جنتوں میں داخل کروں گا جن کے (درختوں کے) نیچے نہریں جاری ہیں ‘ یہ بدلہ ہے اللہ کی طرف سے اور اللہ کے پاس اچھا بدلہ ہے۔ “
{ اَلَّذِیْنَ امَنُوْا وَ ھَاجَرُوْا وَجٰھَدُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ بِاَمْوَالِھِمْ وَ اَنْفُسِھِمْ اَعْظَمُ دَرَجَۃً عِنْدَ اللّٰہِ
وَ اُولٰٓئِکَ ھُمُ الْفَآئِزُوْنَ } [266]
” جو لوگ ایمان لائے اور انھوں نے ہجرت کی اور اللہ کی راہ میں اپنے مالوں اور اپنی جانوں سے جہاد کیا اللہ کے نزدیک بہت بلند رہنے والے ہیں اور وہی کامیاب ہیں۔ “
{ اِنَّ الَّذِیْنَ تَوَفّٰھُمُ الْمَلٰٓئِکَۃُ ظَالِمِیْٓ اَنْفُسِھِمْ قَالُوْا فِیْمَ کُنْتُمْ قَالُوْا کُنَّا مُسْتَضْعَفِیْنَ فِی الْاَرْضِ قَالُوْٓا اَلَمْ تَکُنْ اَرْضُ اللّٰہِ وَاسِعَۃً فَتُھَاجِرُوْا فِیْھَا فَاُولٰئِکَ مَاْوٰھُمْ جَھَنَّمُ وَ سَآئَتْ مَصِیْرًا۔ اِلَّا الْمُسْتَضْعَفِیْنَ مِنَ
الرِّجَالِ وَ النِّسَآئِ وَ الْوِلْدَانِ لَایَسْتَطِیْعُوْنَ حِیْلَۃً وَّ لَا یَھْتَدُوْنَ سَبِیْلًا۔ فَاُولٰٓئِکَ عَسَی اللّٰہُ اَنْ یَّعْفُوَ عَنْھُمْ وَ کَانَ اللّٰہُ عَفُوًّا غَفُوْرًا۔ } [267]
” بیشک جن کو فرشتوں نے ایسی حالت میں موت سے دو چار کیا کہ وہ اپنی جانوں پر ظلم کر رہے تھے ان سے (فرشتوں نے) پوچھا کہ تم کس حالت میں تھے انھوں نے جواب دیا کہ ہم زمین میں کمزور تھے فرشتوں نے کہا کیا اللہ کی زمین وسیع نہیں تھی کہ تم اس میں ہجرت کر جاتے سو یہی ہیں جن کا ٹھکانا جہنم ہے اور وہ بہت بری جگہ ہے مگر وہ کمزور مرد اور عورتیں اور بچے جو ہجرت کے لیے کوئی حیلہ نہیں کرسکتے اور نہ (ہجرت کے لیے) راہ پاتے ہیں تو یہ وہ ہیں کہ امید ہے اللہ تعالیٰ ان کو معاف کر دے اور اللہ بے شبہ معاف کرنے والا بخشنے والا ہے۔ “
ہجرت کی ابتدا
محاصرہ کی اطلاع بذریعہ وحی حضور ﷺ کو ہو چکی تھی، آپ ﷺ نے حضرت علیؓ سے فرمایا کہ میری سبز چادر اوڑھ کر میری جگہ سو جاؤ، امانتیں ان کے سپرد کیں کہ صبح میں ان کے مالکو ں کو لوٹا دیں، کفار نے جب آپﷺ کے گھر کا محاصرہ کیا تو یہی سمجھتے رہے کہ آپ ﷺ بستر پر سو رہے ہیں، رات میں اندر گھسنے سے اس لیے گریز کر رہے تھے کہ اندر خواتین تھیں اور خواتین کی موجودگی میں اندر گُھسنا بڑا عار سمجھا جاتا تھا، جب زیادہ رات ہو گئی تو حضور ﷺ نے مٹھی بھر خاک پر سورہ یسٰں کی آیا "فاغشینٰہم فَھُم لا یبصرون" تک پڑھ کر دم کیں اور خاک ان کے سروں پرڈال دی، ان کی آنکھوں پر پر دے پڑ گئے اور آپﷺ ان کے درمیان سے نکل گئے اور ان کو خبر نہ ہوئی، آپﷺ کے چلے جانے کے بعد ایک شخص آیا اور اس نے پوچھا کہ تم کس کا انتظار کر رہے ہو، انھوں نے کہا محمدﷺ کا، اس نے کہا کہ وہ تمھارے سامنے سے تمھارے سروں پر خاک ڈال کر نکل گئے، ﷲ نے تم کو محروم کر دیا۔ (ابن ہشام طبقات ابن سعد کے مطابق ان لوگوں نے کہا : واﷲ ہم نے نہیں دیکھا اور وہ لوگ اپنے سروں سے مٹی جھاڑتے ہوئے اٹھ کھڑے ہوئے، حضور اکرم ﷺ سیدھے حضرت ابو بکرؓ کے گھر تشریف لے گئے، ان کی بڑی صاحبزادی حضرت اسماء ؓ نے جو حضرت عبد اللہ ؓ بن زبیر کی ماں تھیں سفر کا سامان تیار کیا، دو تین دن کا کھانا ناشتا دان میں رکھا، نطاق جس کو عورتیں اپنے کمر سے لپیٹتی تھیں پھاڑ کر اس سے ناشتا دان کا منہ باندھا، یہ وہ شرف تھا جس کی بنا پر آج تک ان کو ذات النطاقین کے لقب سے یاد کیاجاتا ہے۔ [268]
گھر سے جبل ثور تک
حضور اکرم ﷺ 27 صفر 14 نبوت مطابق 12 ستمبر 622 ء حضرت ابو بکرؓ کے ہمراہ مکہ سے نکلتے ہوئے حَز دَرہ کے مقام پر کعبۃ اللہ کی طرف منہ کیا اور بڑے دکھ سے فرمایا:
" اے مکہ ! اللہ کی قسم ! تومجھے روئے زمین پر سب سے زیادہ محبوب ہے اور خدا کو بھی اپنی زمین میں تو ہی سب سے بڑھ کر محبوب ہے، اگر تیر باشندوں نے مجھے نہ نکالا ہوتا تو میں کبھی تجھے نہ چھوڑتا"
یہ کہہ کر آپﷺ مکہ کے جنوب میں یمن کے راستہ پر روانہ ہوئے اور تین چار میل کے فاصلہ پر واقع جبل ثور پہنچے جس میں غارِ ثور ہے، جو سطح سمندر سے (3200) فٹ کی بلندی پر پہاڑ کی چوٹی کے قریب واقع ہے، پہاڑ ناہمواراور سیدھا ہونے سے اس پر چڑھنا بہت دشوار تھا، اس پہاڑ کا نام " جبل
ثور" رکھنے سے متعلق ایک روایت ہے کہ حضرت اسمعٰیل علیہ السلام کی اولاد میں سے ایک شخص ثور بن عبد مناف نے اپنے ایک سفر کے دوران اس پہاڑ پر قیام کیا تھا، آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم اور حضرت ابو بکرؓ صدیق نے رات کے وقت اس پہاڑپر چڑھائی شروع کی، پھر حضرت ابو بکرؓ نے حضور ﷺ کو اپنے کاندھوںپر بٹھا لیا اور غار کے دہانے تک لے آئے اور عرض کیا :یا رسول اللہ ! آپ باہر ٹھہریئے میں اندر سے غار کو صاف کر لوں [269]
اس کے بعد حضرت ابو بکر ؓ نے غار میں داخل ہوکر صاف کیا اور سوراخوں کو کپڑا پھاڑ کر بند کیا، پھر حضور ﷺ اندر تشریف لائے اور حضرت ابو بکر ؓ کے زانو پر سر رکھ کر سو گئے، اتفاق سے سامنے کا ایک سوراخ بند نہیں ہوا تھا جسے حضرت ابو بکرؓ نے اپنے پاؤں کی ایڑھی رکھ کر بند کیا، اس سوراخ میں ایک سانپ رہتا تھا جس نے آپ کو ڈس لیا، لیکن انھوں نے جنبش تک نہ کی، جب زہر کے اثر سے تکلیف زیادہ ہوئی تو آپ کی آنکھوں سے آنسو نکل کر حضور ﷺ کے چہرہ ٔ مبارک پر گرے جس سے آپﷺبیدار ہوئے اور پوچھا کہ کیا ماجرا ہے ؟ حضرت ابو بکر ؓ نے کہا کہ سانپ نے کاٹاہے جس پر حضور ﷺ نے اپنا لعاب ِدہن لگایاجس کی برکت سے اللہ تعالیٰ نے زہر کے اثر کو زائل کر دیا۔
قریش کی دوڑ دھوپ
صبح کو قریش جب حضور ﷺ کے مکان میں داخل ہوئے تو دیکھا کہ حضور ﷺکے بجائے حضرت علیؓ سو رہے ہیں ان سے حضور ﷺ﴾ کے بارے میں پوچھا
کہ کہاں ہیں تو کہا مجھے علم نہیں، اس پر اُن ظالموں نے آپ کو پکڑ ا اورحرم میں لے جا کر تھوڑی دیر محبوس رکھا اور چھوڑ دیا[270]چاروں طرف تلاش میں نکل کھڑے ہوئے، پہلے حضرت ابو بکرؓ ہی کے گھر پہنچ کر حضرت اسماء ؓ سے پوچھ گچھ شروع کی، جب انھوں نے کوئی بات نہ بتائی تو اُن کے رخسار پرطمانچہ مارا اور برا بھلا کہتے ہوئے چلے گئے۔
[271]
اب کفارقریش نے قیافہ شناسوں کی مددلی جن کو نشانات قدم کی مدد سے کھوج لگانے کے فن میں غضب کا کمال حاصل تھا، آخر یہ کھوج لگاتے لگاتے جبل ثور پہنچ گئے، غار کے کنارے پہنچ کر قیافہ شناسوں نے کہا :ہو نہ ہو محمدﷺاور ابو بکرؓ دونوں اس غار میں ہیں، اس وقت حضرت ابو بکرؓ بڑے بے چین تھے، عرض کیا : اگر کافر اپنے پیروں کی طرف نظر کریں تو ہمیں دیکھ لیں گے، مجھے اپنی جان کا غم نہیں، اگر آپ ﷺ کو کچھ ہو گیا تو اُمت ہلاک ہو جائے گی…حضور ﷺ نے فرمایا :
تمھارا کیا خیال ہے ایسے دوآدمیوں کے بارے میں جن کے ساتھ تیسرا اﷲ ہے یعنی تشویش کی کوئی بات نہیں ہے، ﷲ ہم لوگوں کا محافظ ہے، وہ غار پر گھومتے رہے ؛لیکن تقدیر الہٰی یہ تھی کہ وہ لوگ دیکھ نہ سکیں، سورہ ٔ توبہ کی آیت نمبر 40 میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :
" اگر تم ان (پیغمبر) کی مدد نہ کروگے تو (کوئی پروا نہیں دیکھو) اﷲ نے اس وقت ان کی مدد کی جب کہ کافروں نے ان کو اس حال میں (مکہ سے)
نکا لاتھا کہ ( صرف دوشخص تھے اور وہ) دو میں کے دوسرے (تھے) جب کہ وہ دونوں غار (ثور) میں تھے (اور) جب کہ وہ اپنے رفیق سے کہہ رہے تھے کہ کچھ غم نہ کرو یقیناً ﷲ ہمارے ساتھ ہے، پس ﷲ نے ان پراپنی( طرف سے)تسکین نازل فرمائی اور ان کو ایسے لشکروں سے مدد دی جن کو تم نہیں دیکھ سکتے تھے اور (آخرکار) کافروں کی بات نیچی کردی اور (یاد رکھو) ﷲ ہی کی بات ہمیشہ بلند ہے اور ﷲ غالب (اور) حکمت والا ہے۔
[272]
ﷲ کی کرنی ایسی ہوئی غارکے دہانے پر مکڑی نے جالا تان د یا، کبوتروں کا ایک جوڑا آیا اور گھونسلا بنا کر انڈے دے دیا،(زرقانی کا خیال ہے کہ حرم کے
لاکھوں کبوتر اسی جوڑے کی نسل سے ہیں) کافروں نے خیال کیا کہ اگر کوئی غار میں داخل ہوتا تو مکڑی کاجالا ٹوٹ جاتا، اس طرح اللہ تعالیٰ نے مکڑی کے جالے کو دیوار بنا کر غار میں داخلہ پرروک لگا دی۔
ابن ہشام میں حضر ت اسماؓ بن ابی بکر کی روایت ہے کہ آپ ﷺ کے چلے جانے کے بعد قریش کی ایک ٹولی ہمارے پاس آئی جس میں ابو جہل بھی تھا،
انھوں نے پوچھا تیرا باپ کہاں ہے ؟ میں نے کہا وﷲ میں نہیں جانتی کہ میرا باپ کہاں ہے تو ابو جہل نے اپنا ہاتھ اٹھایا اور میرے گال پر ایسا تھپڑ مارا جس سے میرے کان کا بالا نکل کر نیچے آگرا۔
[273]
ابن اسحاق کی روایت ہے کہ حضور اکرم ﷺ اور حضرت ابو بکر ؓ صدیق نے تین دن غارِثور میں گزارے، اس دوران حضرت ابو بکر ؓ کے نوجوان بیٹے عبد اللہ دن بھر قریش کے مشوروں کا پتہ لگاتے اور شام میں جا کر اطلاع کرتے، حضرت ابو بکرؓ نے اپنے آزاد کر دہ غلام عامر ابن فہیرہ سے کہا تھا کہ وہ بکریاں چراتے ہوئے ریوڑ لے کر غار تک پہنچ جائیں تا کہ دودھ میسر آتا رہے، رات میں حضرت اسماء بنت ابوبکر ؓ کھانا پہنچاتیں۔ [274]
مدینہ کی راہ میں
صبح کو قریش جب حضور ﷺ کے مکان میں داخل ہوئے تو دیکھا کہ حضور ﷺکے بجائے حضرت علیؓ سو رہے ہیں ان سے حضور ﷺ﴾ کے بارے میں پوچھا
کہ کہاں ہیں تو کہا مجھے علم نہیں، اس پر اُن ظالموں نے آپ کو پکڑ ا اورحرم میں لے جا کر تھوڑی دیر محبوس رکھا اور چھوڑ دیا[275]
چاروں طرف تلاش میں نکل کھڑے ہوئے، پہلے حضرت ابو بکرؓ ہی کے گھر پہنچ کر حضرت اسماء ؓ سے پوچھ گچھ شروع کی، جب انھوں نے کوئی بات نہ بتائی تو اُن کے رخسار پرطمانچہ مارا اور برا بھلا کہتے ہوئے چلے گئے۔
[276]
اب کفارقریش نے قیافہ شناسوں کی مددلی جن کو نشانات قدم کی مدد سے کھوج لگانے کے فن میں غضب کا کمال حاصل تھا، آخر یہ کھوج لگاتے لگاتے
جبل ثور پہنچ گئے، غار کے کنارے پہنچ کر قیافہ شناسوں نے کہا :ہو نہ ہو محمدﷺاور ابو بکرؓ دونوں اس غار میں ہیں، اس وقت حضرت ابو بکرؓ بڑے بے
چین تھے، عرض کیا : اگر کافر اپنے پیروں کی طرف نظر کریں تو ہمیں دیکھ لیں گے، مجھے اپنی جان کا غم نہیں، اگر آپ ﷺ کو کچھ ہو گیا تو اُمت ہلاک ہو جائے گی…حضور ﷺ نے فرمایا : تمھارا کیا خیال ہے ایسے دوآدمیوں کے بارے میں جن کے ساتھ تیسرا ﷲ ہے یعنی تشویش کی کوئی بات نہیں ہے، ﷲ
ہم لوگوں کا محافظ ہے، وہ غار پر گھومتے رہے ؛لیکن تقدیر الہٰی یہ تھی کہ وہ لوگ دیکھ نہ سکیں، سورہ ٔ توبہ کی آیت نمبر 40 میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :
" اگر تم ان (پیغمبر) کی مدد نہ کروگے تو (کوئی پروا نہیں دیکھو) ﷲ نے اس وقت ان کی مدد کی جب کہ کافروں نے ان کو اس حال میں (مکہ سے)
نکا لاتھا کہ ( صرف دوشخص تھے اور وہ) دو میں کے دوسرے (تھے) جب کہ وہ دونوں غار (ثور) میں تھے (اور) جب کہ وہ اپنے رفیق سے کہہ رہے تھے کہ کچھ غم نہ کرو یقیناً ﷲ ہمارے ساتھ ہے، پس ﷲ نے ان پراپنی( طرف سے)تسکین نازل فرمائی اور ان کو ایسے لشکروں سے مدد دی جن کو تم نہیں دیکھ سکتے تھے اور (آخرکار) کافروں کی بات نیچی کردی اور (یاد رکھو) ﷲ ہی کی بات ہمیشہ بلند ہے اور ﷲ غالب (اور) حکمت والا ہے۔
[277]
ﷲ کی کرنی ایسی ہوئی غارکے دہانے پر مکڑی نے جالا تان د یا، کبوتروں کا ایک جوڑا آیا اور گھونسلا بنا کر انڈے دے دیا،(زرقانی کا خیال ہے کہ حرم کے
لاکھوں کبوتر اسی جوڑے کی نسل سے ہیں) کافروں نے خیال کیا کہ اگر کوئی غار میں داخل ہوتا تو مکڑی کاجالا ٹوٹ جاتا، اس طرح اللہ تعالیٰ نے مکڑی کے جالے کو دیوار بنا کر غار میں داخلہ پرروک لگا دی۔
ابن ہشام میں حضر ت اسماؓ بن ابی بکر کی روایت ہے کہ آپ ﷺکے چلے جانے کے بعد قریش کی ایک ٹولی ہمارے پاس آئی جس میں ابو جہل بھی تھا، انھوں نے پوچھاتیرا باپ کہاں ہے ؟ میں نے کہا واﷲ میں نہیں جانتی کہ میرا باپ کہاں ہے تو ابو جہل نے اپنا ہاتھ اٹھایا اور میرے گال پر ایسا تھپڑ مارا جس سے میرے کان کا بالا نکل کر نیچے آگرا۔
[278]
ابن اسحاق کی روایت ہے کہ حضور اکرم ﷺ اور حضرت ابو بکر ؓ صدیق نے تین دن غارِثور میں گزار ے، اس دوران حضرت ابو بکر ؓ کے نوجوان بیٹے عبد اللہ دن بھر قریش کے مشوروں کا پتہ لگاتے اور شام میں جا کر اطلاع کرتے، حضرت ابو بکرؓ نے اپنے آزاد کر دہ غلام عامر ابن فہیرہ سے کہا تھا کہ وہ
بکریاں چراتے ہوئے ریوڑ لے کر غار تک پہنچ جائیں تا کہ دودھ میسر آتا رہے، رات میں حضرت اسماء بنت ابوبکر ؓ کھانا پہنچاتیں۔
[279]
راہ کے چند واقعات
قریش جب حضور ﷺکی تلاش میں ناکام رہے تو اعلان کیا کہ جو شخص محمد(ﷺ) یا ابو بکرؓ کو قتل کر دے گا یا گرفتار کرکے لائے گا تو اس کو ایک
خوں بہا کے برابر یعنی سو اونٹ انعام دیا جائے گا، انعام کی لالچ میں کئی لوگ تلاش میں نکلے، بنی مدلج کا سردار سُراقہ بن مالک بن جعشم بھی تیر
کمان لے کر عود نامی گھوڑے پرسوار ہو ا اور تیر کمان لے کر آپ ﷺ کی تلاش میں نکلا، راستہ میں ٹھوکر لگنے سے گھوڑا گر گیا، عرب کے قاعدہ کے
مطابق اس نے ترکش سے فال کے تیر نکالے کہ تعاقب کرنا چاہیے یا نہیں، فال الٹی نکلی مگر لالچ میں گھوڑا دوڑایا، حضرت ابو بکرؓ چو طرف نظر رکھے ہوئے تھے، گھوڑے کے ٹاپوں کی آواز سن کر گھبراگئے اور عرض کیا : یا رسول اللہ ! کو ئی ہمارے تعاقب میں آرہا ہے، حضور ﷺ نے فرمایا: گھبرانے کی ضرورت نہیں، اللہ ہمارے ساتھ ہے، سُراقہ کے گھوڑے نے دوبارہ ٹھوکر کھائی تو اس نے پھر فال دیکھی جو اس کی مرضی کے خلاف نکلی، سو اونٹ کا لالچ کچھ کم نہ تھا، حضور ﷺنے اﷲ تعالیٰ سے دعا مانگی کے اس کے شر سے بچائے، پھر جب وہ گھوڑے پر سوار ہوکر بڑھا تو ٹھوکر کھا کر گرا اور اب کی مرتبہ گھوڑے کے پاوں گھٹنوں تک زمین میں دھنس گئے، اب ہمت ٹوٹ گئی اور سمجھ گیا کہ غیبی طاقت محمدﷺ کی محافظ ہے، قریب آکر امان طلب کی اور اپنی گستاخی کی معافی چاہی[280]
آپ ﷺ نے دعا فرمائی، زمین نے گھوڑے کے پاؤں چھوڑ دیے، عرض کیا : مجھے امان نامہ عطا ہو، حضور ﷺ کے حکم پرعامر ؓ بن فہیر ہ نے چمڑے کے ایک ٹکڑے پر امان کافرمان لکھ کر دیے جسے سُراقہ نے محفوظ رکھا اور آٹھ سال بعد فتح مکہ، حنین ا ور طائف کے غزوات کے بعد واپس ہو ئے اور جعرانہ میں مال ِ غنیمت تقسیم فرما رہے تھے تو اُس وقت سُراقہ نے حاضر ہو کر امان نامہ پیش کیا، حضور ﷺ نے مالِ غنیمت میں سے بہت کچھ عطا فرمایا سُراقہ نے حضور ﷺ کے حسن ِسلوک سے متاثر ہو کر اسلام قبول کر لیا جب جانے لگا تو حضورﷺ نے فرمایا: و ہ بھی کیا وقت ہوگا جب تم کسریٰ کے کنگن پہنو گے، حیران ہو کر پوچھا، کسریٰ شہنشاہ ایران کے کنگن ؟ فرمایا: ہاں : بعد کے واقعات نے بتلایا کہ خلیفہ دوم حضرت عمرفاروقؓ کے دورِ خلافت میں حضرت سعدؓبن ابی وقاص نے ایران فتح کر کے وہاں کی ساری دولت مدینہ روانہ کی، اس وقت حضرت عمرؓ نے سُراقہ کو طلب فرمایا اور حکم دیا کہ کسریٰ کے کنگن اسے پہنائے جائیں، پھر زرِ بفت کا کمر پٹہ، ہیروں اور جواہرات سے مرصّع تاج پہنا یا گیا اور فرمایا کہ ہاتھ اٹھاؤ اور کہو تعریف ہے اس اللہ کی جس نے یہ چیزیں کسریٰ بن ہرمزسے چھین لیں جو کہتا تھا کہ میں لوگوں کا رب ہوں اور انھیں بنی مد لج کے ایک بدو سُراقہ بن مالک بن جعشم کو پہنا دیں، حضرت عمر ؓ ساتھ ساتھ اللہ اکبر کی تکبیر کہتے رہے۔
[281]
پھر وہاں سے حضور ﷺآگے روانہ ہوئے، اس سفر میں حضرت ابوبکرؓ کا طریقہ یہ تھا کہ وہ حضور ﷺ کے ردیف رہا کرتے تھے یعنی سواری پر حضور
ﷺ کے پیچھے بیٹھا کرتے تھے، چونکہ ان پر بڑھاپے کے آثار نمایاں تھے اس لیے لوگوں کی توجہ ان کی طرف نہیں جاتی تھی، حضور اکرم ﷺ پر ابھی
جوانی کے آثار غالب تھے اس لیے آپﷺ کی طرف کم توجہ جاتی تھی اس کا نتیجہ یہ تھا کہ کسی آدمی سے سابقہ پڑتا تو وہ ابو بکرؓ سے پوچھتا کہ
آپ کے آگے کون آدمی ہے؟ حضرت ابوبکرؓ اس کا بڑا لطیف جواب دیتے، فرماتے:یہ آدمی مجھے راستہ بتاتا ہے اس سے سمجھنے والا سمجھتا کہ یہی راستہ مراد لے رہے ہیں؛ حالانکہ وہ خیر کا راستہ مراد لیتے تھے۔
[282]
اُم معبد کے خیمہ پر
حضور اکرم ﷺاور حضرت ابو بکر ؓ صدیق اپنے رہبر کے ہمراہ آگے بڑھے، راستہ میں بنی خزاعہ کی خاتون اُم معبد کا خیمہ ملا جہاں آپﷺ نے کچھ دیر قیام کیا، اُم معبد کا اصلی نام عاتکہ بنت خالد تھا اور وہ نہایت قوی اور دلیر خاتون تھیں، وہ اپنے خیمہ کے آگے میدان میں چادر اوڑھ کر بیٹھی رہتی تھیں اور مسافروں کو کھلاتی پلاتی تھیں، ان حضرات نے کھانے کے لیے اُن سے قیمتاً کچھ مانگا لیکن انھوں نے جواب دیا کہ بوجہ قحط سالی گھر میں کچھ بھی نہیں، پھر آپﷺ کی نظر ایک لاغر بکری پر پڑھی تو پوچھا کہ اس میں کچھ دودھ ہے ؟ انھوں نے کہا کہ اس کے تھنوں میں بالکل دودھ نہیں اس لیے کہ وہ اپنی کمزوری کی وجہ سے دوسری بکریوں کے ساتھ چرنے نہ جاسکی، آپﷺ نے فرمایا کہ تم اجازت دیتی ہو کہ میں اس کا دودھ دوہوں، اس نے کہا کہ اگر آپﷺ دودھ دیکھیں تو دوھ لیجے، پِھر آپﷺ نے بسم اﷲ کہہ کر بکری کے تھن پر ہاتھ لگایا او رفرمایا کہ اے اﷲ اُم معبد کی بکری میں برکت دے، اس بکری نے اتنا دودھ دیا کہ برتن تھوڑی دیر میں بھرگیا، آپﷺ نے پہلے اُم معبد کو پلایا، اپنے اصحاب کو پلایا اور خود پیا، پھر اُم معبد کے برتن میں دوبارہ دودھ دوہا اور اس کو انھی کے پاس چھوڑ دیا، پھر آپﷺ وہاں سے روانہ ہوئے، تھوڑی دیر کے بعد اُم معبد کے شوہر ابو معبد اکتم بن ابی الحون ریوڑ چراکر واپس آئے تو دودھ سے بھرا برتن دیکھ کر حیران ہو گئے! پوچھا کہ یہ کہاں سے آیا، اُم معبد نے کہا کہ میں اس کے سوا کچھ نہیں جانتی کہ ایک بابرکت آدمی ادھر سے گذرے جو ایسے ایسے تھے، ان کے شوہر نے کہا کہ اس قریشی انسان کا حلیہ تو بیان کرو، اُم معبد کو حضور سے نہ تو کوئی تعارف تھا نہ کسی طرح کا تعصب ؛بلکہ جو کچھ دیکھا من و عن کہہ دیا، اصل متن عربی میں دیکھنے کی چیز ہے، اس کا جو ترجمہ مؤلف" رحمۃ للعالمین" نے کیا ہے وہ حسبِ ذیل ہے:
" پاکیزہ رو، کشادہ چہرہ، پسندیدہ خو، نہ پیٹ باہرکو نکلاہوا نہ سر کے بال گرے ہوئے، زیبا، صاحب جمال، آنکھیں سیاہ و فراغ، بال لمبے اور گھنے، آواز میں بھاری پن، بلند گردن، روشن مر دمک، سرمگیں چشم، باریک و پیوستہ ابرو، سیاہ گھنگھریالے بال، خاموش وقار کے ساتھ، گویا دل بستگی لیے ہوئے، دور سے دیکھنے میں زیبندہ و دلفریب، قریب سے نہایت شیریں و کمال حسین،
شیریں کلام، واضح الفاظ، کلام کمی و بیشی الفاظ سے مبّرا، تمام گفتگو موتیوں کی لڑی جیسی پروئی ہوئی، میانہ قد کہ کوتاہی نظر سے حقیر نظر نہیں آتے، نہ طویل کہ آنکھ اس سے نفرت کرتی، زیبندہ نہال کی تازہ شاخ، زیبندہ منظر والا قد، رفیق ایسے کہ ہر وقت اس کے گرد و پیش رہتے ہیں، جب وہ کچھ کہتا ہے تو چپ چاپ سنتے ہیں، جب حکم دیتا تو تعمیل کے لیے جھپٹتے ہیں، مخدوم، مطاع، نہ کوتاہ سخن نہ فضول گو" اُم معبد کی یہ قلمی تصویر سیرت کا ایک انمول خزانہ ہے( زاد المعاد، جلد دوم، رحمۃ للعالمین قاضی سلیمان منصورپوری )بعد میں دونوں میاں بیوی حضور ﷺ کے پاس آکر اسلام قبول کیے۔ اس کے بعد آپﷺ مقام حجفہ پہنچے جو مکہ کی شاہراہ پر ہے اور جہاں سے مدینہ کی طرف راستہ نکلتا ہے، وہاں بیت اللہ اور مکہ کی یاد سے حضور ﷺ پر اُداسی کے آثار نمایاں ہوئے توحضرت جبرئیل علیہ السلام کے ذریعہ سورۂ قصص کی آیت 85 نازل ہوئی :
اے پیغمبر!" جس اللہ نے آپ پر قرآن نازل فرمایا ہے وہ آپ ﷺ کو دوبارہ پہلی جگہ لانے والا ہے، کہہ دیجئے کہ میرا رب اُسے بھی بخوبی جانتا ہے جو ہدایت لایا ہے اور اسے بھی جو کھلی گمراہی میں ہے "
[283]
اس آیت کے نزول کے بعد آپﷺ کو بڑی تسکین ہوئی، یہاں سے یہ مختصر قافلہ یثرب کی جانب روانہ ہوا، اثنائے راہ میں بنی اسلم کا سردار بریدہ بن خصیب اسلمی ملا جس کے ساتھ ستر (70) آدمی تھے، قریش نے آنحضرت ﷺ کی گرفتاری پر ایک سو اونٹ کے انعام کا اعلان کیا تھا اور بریدہ اسی انعام کے لالچ میں آنحضرتﷺ کی تلاش میں نکلا تھا، جب آنحضرت ﷺکا سامنا ہوا تو حضورﷺ سے شرفِ ہمکلامی کا موقع ملا، وہ قبیلہ بنی اسلم کے خاندان سہم سے تعلق رکھتا تھا، حضورﷺ نے فرمایا: اے جوان تجھے اسلام سے بڑا سہم ( حصّہ) مل گیا، حضور ﷺ کے اس کلام سے بریدہ بہت متاثرہوا اور ستر (70) ساتھیوں سمیت مسلمان ہوگیااور آپ ﷺ کے ساتھ شریک سفر ہو گیا، جب یہ قافلہ قبا کے قریب پہنچا تو بریدہ نے حضور ﷺ سے عرض کیا : کیا یہ مناسب نہ ہوگا کہ قافلۂ نبوت کے ساتھ آپﷺ کا پرچم بھی موجود ہو، چنانچہ حضور ﷺ نے اپنا عمامہ اتارا، اپنے ہاتھ سے اسے نیزہ پر باندھا اور بطور پرچم بُریدہ کو عطا فرمایا، انھوں نے اسے ہوا میں لہرا یا حضور ﷺ کے علم بردار کی حیثیت سے آگے آگے چلنے لگے، یہ تایخ اسلام کا پہلا پرچم تھا۔
[284]
راستہ میں حضرت زبیرؓ بن عوام سے ملاقات ہوئی، وہ تجارتی قافلہ کے ساتھ شام سے آ رہے تھے انھوں نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم اور اپنے خسر حضرت ابو بکرؓ صدیق کی خدمت میں سفید کپڑوں کا ایک جوڑا پیش کیا اور کہا کہ قافلہ اور مال کو مکہ پہنچاکر ہجرت کر کے آجاؤں گا۔
قبا میں آمد
8 ربیع الاول 14 نبوت مطابق 23 ستمبر 622 ء بروز دوشنبہ یہ مقدس قافلہ قبا پہنچا، مکہ سے قبا تک کا سفر آٹھ روز میں طئے ہوا، مکہ سے آپﷺ کی رو انگی کی خبر پہلے ہی پہنچ گئی تھی، ہر روز تمام شہر کے لوگ شہر کے باہر جمع ہوجاتے اور شام تک ایک سیاہ چٹان پر جسے" حرّہ العصبہ " کہتے ہیں آکر بیٹھ جاتے اور انتظار کر کے چلے جاتے، 8 ربیع الاول کو بھی انتظار کرکے سب لوگ جا چکے تھے کہ ایک یہودی نے اپنے قلعہ سے دیکھا اور پہچان کر پکارا، اے بنی قیلہ (اوس و خزرج کی ماں کا نام) جن صاحب کا تم انتظار کر رہے تھے وہ آگئے، تمام اہلِ قبا نے نعرۂ تکبیر کیساتھ آپﷺ کا استقبال کیا، قبا کی بستی مدینہ منورہ سے تین میل کے فاصلہ پر واقع ہے جہاں قبیلہ اوس کے خاندان آباد تھے، ان میں سب سے ممتاز عمرو بن عوف کا خاندان تھا جس کے سردار اس وقت حضرت کلثومؓ بن ہدم تھے، حضورﷺ حضرت کلثومؓ بن ہدم کے مہمان ہوئے، انصار ہر طرف سے جوق در جوق آتے اور جوش عقیدت کے ساتھ سلام عرض کرتے۔ [285]
لوگوں سے ملاقات حضرت سعدؓبن خشیمہ کے مکان پر ہوتی، یہ مکان " منزل العزآب" (کنواروں کا گھر )کے نام سے مشہور تھااس لیے کہ وہ غیر شادی
شدہ تھے، حضرت کلثومؓ بن ہدم کے مکان میں حضرت ابو عبیدہؓ، حضرت مقدادؓ، حضرت خبّابؓ، سہیلؓ، حضرت صفوان ؓ، حضرت عیاضؓ، حضرت وہبؓ بن سعد، حضرت معمرؓ بن ابی برح، عمیرؓ بن عوف پہلے سے مقیم تھے، چند روز بعد حضرت علیؓ اپنے رفقا کے ساتھ آگئے اور اسی گھر میں انھوں نے بھی قیام کیا، امام ابن کثیر کا بیان ہے کہ حضوراکرمﷺ کی مدینہ تشریف آوری سے قبل ہی حضرت کلثوم ؓ بن ہدم مسلمان ہو چکے تھے اور حضورﷺ کے مدینہ میں آنے کے بعد مسلمانوں میں سب سے پہلے حضرت کلثومؓ بن ہدم فوت ہوئے، صحیح بخاری کے بموجب حضور ﷺ کا قیام قبا میں چودہ روز رہا، یہاں آپﷺ کا پہلا کام مسجد کا تعمیر کرانا تھا، حضرت کلثومؓ کی ایک افتادہ زمین تھی جہاں کھجوریں سکھائی جاتی تھیں، یہیں آپﷺ نے اپنے دست ِ مبارک سے مسجد کی بنیاد ڈالی، گارا بنانے والے ایک صحابی عمیسؓ یہ مصرع پڑھ رہے تھے:
” | " اَ فَلح مَن یّعاَلِج المسَاجد"
(کامیاب ہیں وہ جو مساجد تعمیر کرتے ہیں) مہاجرین و انصار نے مل کر جواب دیا، |
“ |
” | " وَ یَقر ئَ ا لقُراٰن قَا ئِماً وَّقَاعِدَا"
( وہ اٹھتے بیٹھتے قرآن پڑھتے رہتے ہیں ) پھر سب ایک زبان ہوکرپڑھتے: "وَ لاَ یُبَیتَ ا للَّیل عَنہ رَ اقِد ا " (اور جو راتوں کو عبادت کے لیے جاتے ہیں) |
“ |
مسجد قبا اسلام کی پہلی مسجد ہے جس کا سنگ بنیاد حضور ﷺ نے اپنے دست مبارک سے رکھا تھا، سب مسلمانوں نے جوش وخروش کے ساتھ اس کی
تعمیر میں حصہ لیا، خود حضور ﷺ بھی اپنی عادت کے مطابق عام مسلمانوں کے ساتھ شامل ہو گئے اور پتھروں کو اٹھانے اور ردّے جمانے میں ان کا ہاتھ
بٹانے لگے، یہی وہ مسجد ہے جس کی شان میں قرآن مجید کی سورۂ توبہ کی 108 ویں آیت میں فرمایا گیا:
" (اے پیغمبر) تم اس مسجد میں کبھی (نماز کے لیے) کھڑے نہ ہونا البتہ وہ مسجد جس کی بنیاد پہلے دن سے تقویٰ پر رکھی گئی ہے وہ واقعی اس
لائق ہے کہ تم اس میں (نماز کے لیے) کھڑے ہو، اس میں ایسے لوگ ہیں جو پاک صاف رہنے کو پسند کرتے ہیں اور اﷲ پاک صاف رکھنے والوں کو پسند کرتاہے" [286]
اس شرف کی بنا پر حضور اکرم ﷺ مدینہ منورہ سے ہر ہفتہ کو قباء تشریف لایا کرتے تھے، حضرت عمرؓ ہفتہ میں دو دن تشریف لے جایاکرتے تھے اور اس کے خس و خاشاک دور کرکے اور جاروب کشی کرکے برکت اندوزی فرماتے تھے، حضرت سعدؓ بن ابی وقاص فرمایا کرتے تھے کہ مسجد قباء میں دو رکعت نماز بیت المقدس کی دو مرتبہ کی زیارت سے میرے نزدیک زیادہ محبوب ہے۔
قباء سے روانگی
قبا میں چودہ روز قیام کے بعد آپ ﷺ نے 22 ربیع الاول 14 نبوت مطابق 7 اکتوبر 622ء بروز جمعہ کوچ کا ارادہ ظاہر فرمایا، عمرو بن عوف کے قبیلہ والوں نے عرض کیا: یا رسول اللہ : کیا ہم سے کوئی خطا سر زد ہوئی جس کی وجہ سے آپﷺ ہم سے ناراض ہو کر یہاں سے تشریف لے جا رہے ہیں؟ہمارے ماں باپ آپﷺ پر قربان آپﷺ یہیں قیام فرمائیے، اس پر آپﷺنے فرمایا : مجھے آگے جانے کا حکم ہوا ہے، چنانچہ آپﷺوہاں سے روانہ ہوئے، جب قبیلہ بنی سالم بن عوف کے محلہ میں پہنچے تو نماز جمعہ کاوقت ہو چکا تھا، آپﷺنے وہاں مختصر قیام کر کے مسجد غیب میں نماز جمعہ ادا فرمائی جو بعد میں مسجد جمعہ کے نام سے مشہور ہوئی، یہ تاریخ ِ اسلام کا پہلا جمعہ تھا جو حضورﷺ کی امامت میں ادا ہواجس میں شرکاء کی تعداد( 100)تھی، نماز سے قبل آپﷺنے جمعہ کاخطبہ ارشاد فرمایا، اس خطبہ میں آپﷺ نے اللہ کی اطاعت اور اس کی فرماں برداری پر زور دیا اور نیک عملی کی زندگی بسر کرنے کی تلقین کی، اس خطبہ میں اہل مکہ کے مظالم کی شکایت کے متعلق ایک حرف بھی نہ تھا، نماز سے فارغ ہونے کے بعد آپﷺکی سواری آگے بڑھی، [287]
ہجرت کا پہلا سال
مدینہ کی بستی میں آج عید کا جشن تھا، حضور اکرمﷺ کے جاں نثار قطار در قطار راستہ کے دونوں طرف کھڑے تھے، حضورﷺ کے ننھیالی رشتہ دار بنو نجار ہتھیار سجا کر استقبال کے لیے آگئے تھے، پردہ نشین بیویاں مکانوں کی چھتوں پر یہ اشعار گنگنارہی تھیں:
” | طلع البدر علينا ،من ثنيات الوداع ،وجب الشكر علينا، ما دعا لله داع چودھویں کا چاند کوہ وداع کی گھا ٹیوں سے ہمارے سامنے نمودارہوا ہے ، ہم پر خدا کا شکر واجب ہے، جب تک دعا مانگنے والے دعا مانگیں۔ | “ |
جب آپﷺ کی سواری بنی مالک بن نجار کے محلہ میں داخل ہوئی تو وہاں کی بچیو ں نے یہ گا کرا ستقبال کیا :
” | نَحنُ جُوَارِمِن بنی النجار یا حَبّذَ مُحمّد ُمِن جَار
ہم ہیں لڑکیاں نجّار کے اعلی گھرانے کی، ہے خوشی محمدﷺ کے تشریف لانے کی کیا ہی اچھا ہوتا کہ محمدﷺ ہمارے پڑوسی ہوتے۔ |
“ |
بنی مالک بن نجار کا محلہ حضوررﷺکاننھیال تھا، آپﷺکے پرداداہاشم نے اس قبیلہ کی خاتون سلمیٰ بن عمرو سے نکاح کیا تھا، جن سے عبد المطلب پیدا ہوئے تھے، آپﷺکی اونٹنی قصویٰ وہا ں ایک بنجر زمین پر بیٹھ گئی، کچھ دیر بعد کھڑ ی ہو کراِدھر اُدھر چل کر واپس آئی اور پھر اُسی جگہ بیٹھ گئی، اس وقت حضرت ابو ایوبؓ انصاری آئے اور عرض کیا : یارسول اللہﷺ ! میری سکونت اس جگہ سے بالکل قریب ہے اس لیے آپﷺمیرے مکان میں قیام فرمائیں، آپﷺنے ان کی درخواست قبول کی اور ان کے مکان تشریف لے گئے جو دو منزلہ تھا، حضرت ابو ایوبؓ نے حضورﷺ سے خواہش کی کہ اوپر ی منزل میں قیام فرمائیں؛ لیکن لوگوں سے ملاقات میں آسانی کی غرض سے حضورﷺ نے نیچے کی منزل میں رہنا پسند فرمایااور حضرت ابو ایوبؓ اوپری منزل میں رہنے لگے، دونوں میاں بیوی کو یہ احساس تکلیف دہ رہتا کہ کہیں حضورﷺ ہمارے عین نیچے نہ ہوں اس لیے دونوں کونوں میں پہنچ جاتے اورجاگتے رہتے، جب دونوں نے اپنی حالت حضورﷺ سے بیان کر کے خواہش کی حضورﷺ اوپری منزل میں منتقل ہو جائیں تو حضورﷺ اوپری منزل میں اقامت پزیر ہوئے۔
دوران قیام حضورﷺ کے لیے دونوں وقت کا کھاناحضرت ابو ایوب ؓ لے جاتے اور جو کچھ بچ رہتا دونوں میاں بیوی کھاتے، صحیح مسلم کی روایت کے مطابق ایک مرتبہ حضورﷺ نے کھانا تناول نہیں فرمایا اور وہ واپس آگیا، یہ دیکھتے ہی حضرت ابو ایوبؓ بے چین ہوکر حضورﷺ کے پاس گئے اور تناول طعام نہ کرنے کی وجہ دریافت کی، آپﷺ نے فرمایا کہ کھانے میں لہسن تھا، حضرت ابو ایوبؓ نے پوچھا کہ کیا لہسن حرام ہے تو آپﷺ نے فرمایا نہیں؛ بلکہ میں اس کی بو اس وجہ سے نہیں پسند کرتا کہ مجھ پر وحی نازل ہوتی ہے اس لیے پیاز اور لہسن کی بو سے احتیاط کرتاہوں، آپﷺ نے فرمایا کہ تم لوگوں کی حالت مجھ جیسی نہیں ہے اس لیے تم اسے کھا سکتے ہو۔ [288]
حضرت ابو ایوب ؓ انصاری کے مکان میں قیام کے دوران حضور اکرم ﷺنے حضرت زید ؓ بن حارثہ اور ابو رافع کو دو اونٹ اور پانچ سودرہم دے کر مکہ روانہ کیا تا کہ اہل و عیال کو لے آئیں، چنانچہ حضرت زیدؓ مکہ گئے اور اُم المومنین حضرت سودہؓ اور دونوں صاحبزادیوں اُم کلثومؓ اور فاطمہ ؓکے علاوہ اپنی بیوی اُم ایمنؓ اور فرزند اسامہ کو لے کرمدینہ آگئے، حضرت ابو بکرؓکا خاندان بھی عبد اللہ بن ابو بکرؓ کے ساتھ مدینہ آگیا، ان سب کو حضرت حارثؓ بن نعمان کے گھر ٹھہرایا گیا، حضرت عثمانؓ اور حضرت رقیہ ؓ تو پہلے ہی ہجرت کر کے آچکے تھے، بڑے داماد ابو العاص ابھی تک ایمان نہیں لائے تھے، ان کی بیوی زینبؓ ان کے ساتھ طائف میں مقیم تھیں۔
حضرت ابو ایوبؓ انصاری کا تعلق خزرج کی شاخ بنو نجار سے تھا، اصل نام خالد اور کنیت ابو ایوب تھی، 40 عام الفیل میں یثرب میں پیدا ہوئے، حضرت
مصعبؓ بن عمیر کی تبلیغ سے مسلمان ہوئے اور عقبہ کی گھاٹی میں حضور ﷺ سے بیعت کی، حضرت ابو ایوبؓ کی اہلیہ محترمہ کانام حضرت اُم حسن ؓ بنت
زید تھا، ان کے بطن سے ایک لڑکا عبد الرحمن پیدا ہوا تھا۔
مدینہ تشریف آوری کے بعد حضور ﷺ کو اپنی عملی زندگی کس طرح کے ماحول میں اور کیسے لوگوں کے درمیان بسر کرنی تھی اس کا تذکرہ مختصراً درج ذیل ہے:
مدینہ منورہ کی داخلی آبادی کی نوعیت
جس وقت آپﷺ مدینہ منورہ تشریف لائے اس وقت مدینہ منورہ کا یہ حال تھا کہ چند مدنی قبائل مسلمان ہو چکے تھے اور چند خاندان مثلاً بنی خطمہ، بنی واقف، بنی وائل، بنی اُمیہ وغیرہ ایسے بھی تھے جنھوں نے اسلام کا کوئی اثر قبول نہیں کیا تھا اور چند قبائل ایسے تھے جن میں اسلام پوری طرح ہنوز پھیلا نہیں تھا اور جن قبائل میں اسلام پوری طرح دخیل ہو گیا تھا ان کا حال یہ تھا کہ چند روز پہلے اوس و خزرج دو رقیب قبیلوں میں بٹے ہوئے تھے اور ایک دوسرے کے خون کے پیاسے تھے، جنگ بعاث کی خوں ریزیوں نے جس کا خون بھی ہنوز خشک نہیں ہواتھا دونوں کو کمزور اور بے جان کردیاتھا اور ان کی قومی طاقت برباد ہو چکی تھی، اسلام نے ان دونوں کو اسلامی رشتہ " انما المومنون اخوۃ" (سب مسلمان بھائی بھائی ہیں) کے ناطے سے گر چہ باہم ملادیاتھا؛ لیکن پھر بھی اس دور کے قبائلی مزاج اور عربی خصائص کی بنا پر قبائل عصبیت کے نام پر مشتعل ہوجانے کا مادہ موجودتھا جس سے دشمن اسلام فائدہ اٹھاتے تھے۔
چنانچہ یہود نے جو انصار کے مزاج شناس تھے ایک دفعہ انصار کو باہم لڑادینے کے لیے یہ چال چلی کہ ان کی ملی جلی مجلس میں جنگ بعاث کا ذکر چھیڑ دیا او ر اتنا بھڑکایا کہ معاملہ تیز و تند گفتگو سے بڑھ کر یہاں تک پہنچ گیا کہ مقابلہ کے لیے اسی وقت ایک سیاہ پتھریلا مقام مقرر ہو گیا اور دونوں طرف سے ہتھیا ر لاؤ ہتھیار لاؤ کی چیخ پکار ہو گئی اور دم کے دم میں دونوں طرف کے لوگ میدان میں نکل پڑے، حضور ﷺ کو جب خبر ملی تو آپﷺ مہاجرین کو ساتھ لیے ہوئے میدان جنگ میں پہنچ گئے اور فرمایا:
اے مسلمانوں کے گروہ ! خدا سے ڈرو، خدا سے خوف کرو، کیا جاہلیت کے دعوے پر لڑے پڑتے ہو ؛ حالانکہ میں تم میں موجود ہوں، تمھیں اﷲنے اسلام کی ہدایت دی اور تمھیں عزت دی اور اسلام کی وجہ سے جاہلیت کی باتیں تم سے الگ کر دیں اور اس کے ذریعہ تمھیں کفر سے نجات دلائی اور اس کے ذریعہ تمھارے اندر الفت و محبت پیدا کردی، [289]
پھر ان انصار کے ساتھ مدینہ منورہ میں ہزاروں کی تعداد میں ہمسایہ کی حیثیت سے یہود کے تین قبیلے رہتے تھے، ان میں بھی آپس میں رقابتیں تھیں، بنو قریظہ کو بنو نضیر کے لوگ کم رتبہ اور نیچی نگاہ سے دیکھتے تھے؛ چنانچہ بنو نضیر کا کوئی آدمی بنو قریظہ کے آدمی کو قتل کردیتا تھا تو بنونضیر اس کا آدھا خوں بہا دیتے تھے اور جب بنو قریظہ کا کوئی آدمی بنو نظیر کے آدمی کو قتل کردیتا تھا تو بنو نظیر اس سے پورا خوں بہا دیتے تھے، قبیلہ بنو قینقاع یہودیوں میں اپنے کو سب سے زیادہ جریح اور بہادر سمجھتے تھے اور اپنے مقابلہ میں کسی کو آنکھ نہیں لگاتے تھے، ان کے پاس ہمیشہ
اسلحہ جنگ کے ذخیرے مہیا رہتے تھے، ان کے غرور کا یہ حال تھا کہ جب مسلمان غزوہ بدر سے فتح و ظفر کا علم لہراتے ہوئے مدینہ منورہ پہنچے تو
انھوں نے کہا " بیچارے مکہ کے قریش لڑنا کیا جانیں ہم سے مقابلہ پڑے تو معلوم ہو مگر یہ تینوں قبیلے اسلام دشمنی میں ایک رائے تھے اور اہل کتاب اور
توحید کے دعوے دار ہونے کے باوجود بت پرست مشرکین عرب کے بارے میں یہ کہتے تھے کہ مذہبی حیثیت سے یہ کفار مسلمانوں سے اچھے ہیں۔
" اے پیغمبر!کیا تم نے ان لوگوں کو نہیں دیکھا جن کو کتاب الٰہی سے حصہ دیاگیاتھا کہ وہ بتوں اور شیطانوں کو مانتے ہیں اور کافروں کے بارے میں کہتے ہیں کہ یہ لوگ مسلمانوں کی بہ نسبت زیادہ سیدھے راستہ پر ہیں۔ [290]
ان کے علاوہ بت پرست منافقین کی بھی ایک اچھی خاصی جماعت تھی جس کی سیادت عبدﷲ بن اُبی کو حاصل تھی ان سب کے علاوہ مہاجرین کی جماعت تھی جو بیسیوں قبائل سے تعلق رکھتے تھے، حاصل یہ کہ مدینہ منورہ اس وقت اپنی گوناگوں آبادی کے لحاظ سے مجموعہ اضداد تھا اور ایک عجیب طرح کے اندرونی خلفشار اور انتشار میں مبتلا تھا اور بظاہر ان تمام عناصر میں وفاقی وحدت پیدا کرنی ناممکن معلوم ہوتی تھی۔
مدینہ کے بیرونی عربی قبائل کی اہمیت
مدینہ منورہ سے باہر تمام عربی قبائل باوجود اس کے کہ سب کے سب ایک قوم تھے اور ایک واحد ملک کے باشندے تھے دن رات خانہ جنگیوں میں مبتلا رہتے تھے اور سارا ملک قتل، غارت گری، سفاکی اور خوں ریزی کا آماجگاہ بنا ہوا تھا، ملک کا ذریعہ معاش غارت گری کے بعد فقط تجارت تھی مگر تجارت کے قافلوں کا ایک جگہ سے دوسری جگہ جانا بہت دشوار تھا، جب تک ان کے پاس مختلف قبائل کے خفارئے (اجازت نامہ رہ گذریا محافظ دستے)نہ ہوں جیسا کہ ابن قتیبہ کے استاد محمد بن حبیب(المتوفی 245 ہجری)نے اپنی کتاب" کتاب المحبر" میں لکھا ہے اس کے اقتباس کو " عہد نبوی میں نظام حکمرانی " (ڈاکٹر حمید ﷲ) سے انہی کے الفاظ میں نقل کیا جاتاہے :
" جو تاجر بھی یمن اور حجاز سے نکلتا تو وہ اس وقت تک قریشی خفارئے یعنی محافظ دستہ کا محتاج رہتا جب تک وہ مغربی قبائل میں رہے کیونکہ ایک مضری قبیلہ دوسر ے مضری قبیلہ کے تاجروں کو نہ ستاتا، مزید برآں جن جن قبائل سے مضریوں کی حلیفی تھی ان کے ہاں بھی ان کو امن رہتا اور یہ باہمی امن کے اصول پر مبنی تھا، چنانچہ قبائل کلب ان کو مضری قبیلہ بنو تمیم سے حلیفی کے باعث نہ ستاتے اور قبائل طے بھی ان کو مضری قبیلہ بنو اسد سے حلیفی کے باعث نہ چھیڑتے اور مضری قبائل کہا کرتے تھے کہ قریش نے ہمارا وہ قرض ادا کر دیا جو حضرت اسماعیل ؑ سے ہم کو وراثتاً مذمت کی صورت میں ملا تھا، جب یہ آگے بڑھ کر عراقی سمت میں جاتے اور بنی عمرو بن مرثد سے خفارا حاصل کر لیتے تو تمام قبائل ربیعہ میں وہ کافی ہوتا، جو تاجر دو متہ الجندل جاتے ان کو بھی قریش ہی سے خفا رہ حاصل کرنا ہوتا، رابیہ جو حضرموت میں واقع ہے اگر وہاں جاناہوتا تو قریش وہاں کا قبیلہ آکل المرار سے خفارا حاصل کرلیتے اور باقی لوگ آل مسروق سے۔ [291]
پھر دوسری جگہ لکھاہے :
" اگر مسافر بنی عمرو بن مرثد کا خفار ا حاصل کرلیتے تو اس پورے علاقہ میں جہاں قبائل ربیعہ بستے تھے انھیں حفاظت حاصل تھی، اگر بحرین کے سوق مشقر جانا ہوتا تو قریشی خفارہ ہی حاصل کر لیا جاتا، اگر جنوبی عرب کے سوق مہرہ کو جانا ہوتا تو بنی محارب کا بدرقہ حاصل کیا جاتا، حضرموت کے سوق رابیعہ کو جانے کے لیے قریش قبیلہ آکل المرار کا خفارا حاصل کرتے اور دیگر لوگ کندہ کے آل مسروق کا، اس طرح دونوں ہی قبائل کو عزت حاصل تھی لیکن قریشی سرپرستی کے باعث آکل المرار کو اپنے حریفوں پر فوقیت حاصل ہو گئی۔
حاصل یہ کہ عربوں میں تجارتی قافلوں کے ایک جگہ سے دوسری جگہ گذرنے اور پہنچنے کے لیے خفارا حاصل کرنا پڑتا تھا اور یہ ان کے ہاں ایک مستقل ادارہ بن گیا تھا اور عدنان اور قحطان اور مضر و ربیعہ کے سب قبائل اس میں داخل تھے، ملک کی بے امنی کی وجہ سے عبدالقیس جو بحرین کا طاقتور قبیلہ تھا 5 ہجری تک مضری قبائل کے ڈر سے اشہر حرم کے سوا اور مہینوں میں حجاز کا رخ نہیں کرسکتا تھا، بخاری شریف میں ہے کہ جب وفد عبدالقیس مدینہ منورہ آیا تو انھوں نے حضور ﷺ کی خدمت میں عرض کیا:یا رسول ﷲ ﷺ ہم لوگ صرف شہر حرام میں آپ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہو سکتے ہیں، ہمارے اور آپ ﷺ کے درمیان کفار مضر کا قبیلہ ہے، ہم لوگوں کو فیصل شدہ امور بتا دیجیے تاکہ ہم ان لوگوں کو بتائیں جو حاضر نہیں ہو سکتے اور اس کے سبب سے ہم لوگ جنت میں داخل ہوں، پھر ان اشہر حرم کا یہ حال تھا کہ اس میں وہ جب چاہتے تھے رد و بدل کر دیتے تھے اور اپنی غارت گری کا موقع نکال لیتے تھے، ابو علی قالی نے لکھا ہے، یہ رد و بدل اس لیے کرتے تھے کہ وہ پسند نہیں کرتے تھے کہ مسلسل تین مہینے ان پر بغیر غارت گری کے گذر جائیں کیونکہ غارت گری ہی ان کا ذریعہ معاش تھا۔ [292]
پھر اشہر حرم (حرمت والے مہینے ) کے احترام کا یہ حال تھا کہ ابن عبدربہ نے عقد الفرید میں لکھا ہے کہ قبیلہ طے اور قبیلہ قشعم کے دو ضرب المثل لٹیرے قبائل اشہر حرم کی حرمت و امتناع کی پروا نہیں کرتے تھے ( عقد الفرید) بہر حال مسلمانوں کے لیے مدینہ منورہ سے باہر قبائل عرب میں گذرنا اور عالمی مشن کی دعوت دینا دشوار ہی نہیں ناممکن تھا، قرآن مجید نے مسلمانوں کی اس بے بسی کا ذکر ان الفاظ میں کیا ہے :
" یاد کرو جب تم تھوڑے اورکمزور تھے، ڈرتے تھے کہ لوگ تم کو اُچک نہ لیں" [293]
ان حالات کو پیش نظر رکھ کر اب مدنی زندگی کا سن وار تفصیلی جائزہ ملاحظہ کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ آپ ﷺ نے مدینہ منورہ کی زندگی کس طرح گزاری لیکن یہ ضرور پیش نظر رہے کہ مدینہ منورہ کی زندگی میں حضور ﷺ نے از ابتدا تا انتہا جو کچھ کیا چاہے مدافعت کی شکل میں یا پیش قدمی کی شکل میں یا تادیبی شکل میں کیا اس کی غایت صرف یہ تھی کہ لوگ عالمی مشن کی عالمی دعوت کی تبلیغ کی راہ میں مزاحمت سے باز آجائیں، آپﷺ کی پالیسی ہرگز یہ نہیں تھی کہ قریش کا اور ان جیسے دشمنان اسلام کا استیصال کر دیا جائے یا ان کو تباہ و برباد کردیاجائے کیونکہ یہ رحمتہ
اللعالمین کے مزاج کے منافی تھا، آپﷺ کے سامنے ہمیشہ ان کی ہدایت رہتی تھی ان کی تباہی نہیں رہتی تھی، آپﷺ نے پوری مدنی زندگی میں خود نہ کوئی ایسا فیصلہ کیا نہ ایسا منصوبہ بنایا نہ ایسا عملی اقدام کیا جس کی بنیاد کسی جماعت کے استیصال اور بالکلیہ تباہ و برباد کردینے پر ہو یا جبراً اسلام پر ہو، کفار عرب اور قریش کے بارے میں آپﷺ کی سیاست یہ تھی کہ ان کو محفوظ رکھ کر ان کا ماحول ایسا بنادیاجائے کہ اسلام کی مزاحمت سے باز آجائیں یا مصالحت کر لیں یا اسلام قبول کر لیں، وہ سارے غزوات اور سریئے جو سیرت کی کتابوں میں مذکور ہیں ان سب کی بنیاد اس پر تھی کہ خبر رساں جماعت اور جاسوس سے جب آپﷺ کو اس طرح کی اطلاع ملتی کہ :
1) فلاں جگہ، فلاں جماعت یا فلاں قبیلہ اسلام دشمنی میں یہ منصوبہ بنارہاہے،
2) یا قریش کا فلاں قبیلہ فلاں راہ سے فلاں روز گذرے گا،
3) یا فلاں قبیلہ یا جماعت حملہ یا غارت گری کا ارادہ کر چکی ہے،
4) یا مسلمانوں یا اسلام کے استیصال کی خاطر مدینہ پر حملہ کرنے کے لیے کوئی جماعت فوج لے کر آرہی ہے تو حسب حال ان کی مدافعت، ان کی تادیب، ان کے منصوبہ میں ناکام کرنے کے لیے فوجی دستہ بھیجے جاتے تھے،
کبھی کبھی مخالفین اسلام کی نقل و حرکت کی تفتیش کے لیے بھی سریئے بھیجنے پڑتے تھے لیکن قریش اور قبائل عرب مسلمانوں کا اور اسلام کو استیصال کرنے کے لیے چڑھائی کرکے حملہ آور ہوتے تھے تو چار و ناچار مجبور ہوکر مردانہ وار مدافعت کے لیے سر اور دھڑ کی بازی اﷲ کے بھروسا پر لگادیتے تھے،
یثرب(مدینہ )کی آب وہوا
یثر ب کی آب و ہوا مرطوب ہونے کی وجہ سے وبائی امراض اور ملیریا میں وہاں کے لوگ مبتلا ہوا کرتے تھے، مہاجرین میں سے بھی اکثر بیمار ہو گئے جن میں حضرت ابوبکرؓ، حضرت بلالؓ اور حضرت عامرؓ بن فہیرہ تھے، یہ کیفیت دیکھ کر حضور اکرم ﷺ نے دعا فرمائی :اے ﷲ! ہمیں مدینہ کی ایسی ہی محبت دے جیسے مکہ کی بلکہ اس سے بھی زیادہ، اس کی آب وہوا کو اچھا کر دے اور یہاں کے بخار کو جحفہ منتقل کر دے جو شریر یہودیوں کی بستی تھی اور جو آنے جانے والے مسافروں کو ستایا کرتے تھے، آپ ﷺکی دعا کے نتیجہ میں یہ وبا جحفہ منتقل ہو گئی۔
میٹھے پانی کا کنواں(بیرٔ رومہ)
مدینہ کے اکثر کنووں کا پانی کھارا تھا جس کی وجہ سے مہاجرین کو پینے کے لیے میٹھا پانی نہیں ملتا تھا، وہاں ایک بڑا کنواں بیٔر رومہ نام کا تھا جس کا مالک ایک یہودی تھا جو اس کا پانی مسلمانوں کو بیچا کرتاتھا، یہ پانی بہت لطیف او ر میٹھا تھا، غریب مہاجرین کے لیے یہ پانی خریدکر پینا بڑا دشوار تھا، اسی لیے حضور اکرم ﷺ نے اس کنویں کو خریدنے کی ترغیب دی اور اس کے خریدار کو جنت کی بشارت دی، حضورﷺ کے ارشاد کے بعد حضرت عثمانؓ نے اس کنویں کو سو اونٹوں یا بارہ ہزار درہم کے عوض یہودی سے نصف کنواں خرید کا وقف کر دیا، نصف حصہ پر پانی لینے والوں کا ازدحام رہنے سے یہودی نے بقیہ نصف کنواں بھی آٹھ ہزار درہم میں بیچ دیا۔
تعمیر مسجد نبوی
حضرت ابو ایوب ؓ انصاری کے مکان میں قیام کے دوران جب نماز کا وقت آتا حضورﷺ جہاں موجود ہوتے وہیں نماز ادا فرماتے، کچھ دن بعد ایک مسجد
بنانے کا خیال آیااُسی جگہ پر جہاں پرآپﷺ کی اونٹنی قصویٰ بیٹھی تھی، دریافت کرنے پر معلوم ہوا کہ یہ زمین عمرو بن بنی نجار کے دو یتیم بچوں
سہل اور سہیل کی ہے، آپﷺنے ان دونوں بچوں کو بلا کر کہا کہ وہ اپنی زمین مسجدکے لیے قیمتاً دیں لیکن ان دونوں اور ان کے قبیلہ والوں نے قیمت لینے سے انکار کر دیا، لیکن آپﷺ نے قیمت پر اصرار فرمایا تو دس دینار طئے ہوئی، اس کی قیمت ادا کر نے کے بارے میں مختلف روایات ہیں، امام زہری نے
حضرت ابو بکر ؓ صدیق کا نام لکھا ہے، دیگر روایتوں میں حضرت اسعدؓ بن زرارہ اور حضرت ابو ایوب ؓ انصاری کے نام ہیں۔
زمین ان بچوں سے حاصل کر کے صاف کروائی گئی، اس زمین میں مشرکین کی چند قبریں تھیں جو اکھڑوادی گئیں، کھجور کے درخت کٹوا کر قبلہ کی طرف باڑھ لگائی گئی، اس وقت قبلہ بیت المقدس تھا، یہ وہی جگہ تھی جہاں ہجرت سے قبل حضرت اسعد ؓ بن زرارہ جماعت کے ساتھ نماز پڑھا کرتے تھے، مسجد کی تعمیر کاآغاز ربیع الاول 1ھ 622 ء میں ہوا، مسجد کے طول و عرض کے بارے میں مختلف روایات ہیں، یہ مسجد سو سو ہاتھ طویل و عریض تھی اور اس کے تین دروازے تھے، کھجور کے درخت کے تنوں سے مسجد کے ستون بنائے گئے اور سائبان کے طور پر کھجور کے درخت کی شاخیں مع پٹھے شہیتر کی جگہ ڈالے گئے، رمضان میں حضورﷺ اور صحابہؓ مسجد میں اعتکاف میں تھے کہ بارش ہوئی اور کھجور کی ٹہنیوں والی چھت سے پانی ٹپک کر زمین گیلی ہو گئی، حضورﷺ نے اسی گیلی زمین پر سجدہ فرمایا جس کے نشانات پیشانی مبارک پر نمایاں تھے، یہ دیکھ کر صحابہؓ نے بعد مشورہ کچھ درہم جمع کر کے چھت ڈالنے کے لیے اجازت طلب کی جس پر آپﷺنے فرمایا کہ میں موسیٰ ؑ کے طریقہ سے ہٹ نہیں سکتا اس لیے یہ عریش ان کی جھونپڑی کی مانند ہوگا، یہ سن کر صحابہؓ نے کنکریاں لا کر اپنی اپنی جگہ بچھالیں، اس طرح مسجد میں سنگریزوں کا فرش بن گیا۔ قریب میں بیر ایوب نام کا کنواں تھا، وہاں اینٹیں تیار کی گئیں، صحابہ ؓ کرام اینٹیں اور پتھراٹھا کر لاتے تھے، آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم بھی اس کام میں ان کے شریک تھے۔
محراب
اس زمانہ میں مصلّے کے لیے محراب جیسی کوئی جگہ نہیں تھی، حضرت ابو بکرؓ نے حضورﷺ کے مصلّے ( جائے نماز ) میں قدموں کی جگہ چھوڑ کے ایک دیوار بنا دی تا کہ حضورﷺ کی سجدہ گامحفوظ رہے، بعد میں خلیفہ ولید بن عبدلملک اموی کے حکم سے امیر مدینہ حضرت عمر بن عبدالعزیزنے وہاں پہلی بار محراب بنوائی۔
منبر
اس وقت مسجد میں منبر نہیں تھا، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم مصلّے کے قریب مغربی جانب کھڑے ہو کر خطبہ ارشاد فرمایا کرتے، وہاں ایک تنا نصب تھا، دوران خطبہ اس سے ٹیک لگایاکرتے تھے، ایک انصاری صحابیہ کے بڑھئی غلام نے اجازت لے کر ایک منبر بنایا جس کے لیے غابہ کے جنگل سے آثل (جھاڑ)کی لکڑی لائی گئی، اس کے تین زینے تھے، دو کھڑا رہنے کے لیے اور تیسرا درجہ بیٹھنے کا تھا۔
مسجد نبوی کی توسیع
1) عہد نبوی میں 7 ہجری میں غزوہ خیبر کے بعد حضور اکرم ﷺ نے مصلیوں کی کثرت کی وجہ سے توسیع فرمائی،
2) دوسری توسیع خلیفہ دوم حضرت عمرؓ فاروق کے عہد میں 17 ہجری مطابق 638 ء میں ہوئی،
3) حضرت عثمانؓ خلیفہ سوم نے 29 ہجری مطابق 695ء میں مسجد کی توسیع کروائی،
4) اُموی خلیفہ ولید بن عبد الملک کے عہد حکومت میں 88 ہجری سے 91 ہجری تک توسیع کا کام جاری رہا،
5) خلیفہ عباسی مہدی بن منصور نے 161 ہجری تا 1565 ہجری مسجد میں تعمیری اضافے کیے،
6) رمضان 654 ہجری میں مسجد میں آتش زدگی کی وجہ سے بہت نقصان پہنچا، عباسی خلیفہ مستعصم باﷲ نے 655 ہجری میں تعمیر کروائی،
7) مصری خلیفہ ملک ناصر محمد بن قلاوون نے 705 ہجری میں مسجد کی چھت درست کروائی اور 729 ہجری میں دو برآمدوں میں اضافہ کیا،
8) 853 ہجری میں خلیفہ ظاہر نے مسجد کی چھت میں تعمیری کام کروایا،
9) 879 ہجری میں ملک اشرف نے محراب کو وسیع کیا اور باب جبریل کی دیوار بھی تعمیر کروائی،
10 ) عثمانی خلیفہ سلطان سلمان نے 974 ہجری میں مسجد کی دیواریں منقش کروائیں،
11) عثمانی خلیفہ سلطان سلیم عثمانی نے 980 ہجری میں حجرہ پر خوبصورت گنبد تعمیر کروایا،
12) سلطان محمود نے گنبد کو ازسر نو تعمیر کرواکر سبز رنگ لگوایا جس کی وجہ سے یہ " گنبد خضراء کہا جانے لگا،
13 ) خلیفہ عثمانی سلطان عبد المجید نے مسجد کی تعمیر و مرمت کروائی اور ستونوں کے نچلے حصہ پر سونے کے پتر چڑھائے، یہ کام 1265 ہجری سے 1277 ہجری تک جاری رہا،
14) مصری حکومت نے 1352 ہجری تعمیر و ترمیم کروائی،
15) سعودی فرمانروا ملک عبد العزیز نے مسجد میں تعمیر کام کروایا،
16) سعودی دور حکومت میں 1368 ہجری میں مسجد کی تعمیر اور توسیع کا منصوبہ بنایاگیا اور 1370 ہجری میں دیواریں منہدم کی گئیں، جدید عمارت کی تعمیر کا سنگ بنیاد 1373 ہجری میں رکھا گیا اور مسجد کی تعمیر شروع ہوئی، مسجد کے رقبہ میں تقریباً 55000 مربع فیٹ کا اضافہ کیا گیا، جملہ 327 ستونوں پر خوبصورت عمارت تعمیر کی گئی۔
صُفّہ اور اصحاب صُفّہ
مسجد نبوی کے ایک گوشہ میں ایک چبوترا بنا کر اس پر کھجور کے پتوں کا چھپر ڈال دیا گیا، اسے صُفّہ کہتے تھے، قدیم مورخین نے اسے ظِلّہ بھی لکھا
ہے، یہ ایک طرح سے اقامتی درس گاہ تھی، یہاں دن میں تعلیم دی جاتی اور رات میں بے آسر ا مہاجر شب بسر کرتے، یہ اُن مسلمانوں کی قیام گاہ تھی
جنھوں نے اپنی زندگی تعلیم دین، تبلیغ اسلام، جہاد اور دوسری اسلامی خدمات کے لیے وقف کر دی تھی، حضرت معاذؓبن جبل اس کے منتظم اعلیٰ اور
نگراں تھے، اس میں آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے علاوہ صحابہؓ کرام بھی درس و تدریس کا فرض انجام دیتے تھے، صُفّہ کی درس گاہ سے بڑے بڑے با کمال صحابہ نکلے جن میں مقیم اور غیر مقیم دونوں شامل ہیں جیسے فقیہ الامت حضرت عبد اللہ ؓ بن مسعود اور امام المحدثین حضرت ابو ہریرہؓ،
حضرت ابو ہریرہؓ بیان کرتے ہیں کہ میں نے ستّر (70) اصحاب صُفّہ میں سے کسی ایک کو بھی نہ پایا جس کے پاس لمبی چادر ہو یاتہ بندہوتی تھی یا
چھوٹی چادر جس کا سرا وہ اپنی گردن سے باندھ لیتے تھے اور دوسرا ہاتھ سے تھام لیتے تھے کہ کہیں ستر نہ کھل جائے، یہ چادرکسی کی آدھی پنڈلیوں تک پہنچتی تھی او ر کسی کے ٹخنوں تک، یہ اپنی بے سرو سامانی کی وجہ سے زراعت یا تجارت نہ کر سکتے تھے مگر کچھ لوگ جنگل میں نکل جاتے اور لکڑیاں چن کر اور انھیں بیچ کر اپنے اور اپنے ساتھیوں کے لیے کھانے پینے کا سامان مہیا کرتے تا ہم کئی سو صحابہ کی یہ جماعت اس طرح اپنی
معاشی ضروریات پوری نہ کر سکتی تھی اس لیے فقر و فاقہ کی زندگی گزارتے مگر کسی کے آگے ہاتھ پھیلانے کے روادار نہ ہوتے بلکہ دوسروں پر اپنی محتاجی و پریشانی کا اظہار بھی نہ ہونے دیتے، آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم ان کی فکر سے کس طرح آزاد رہ سکتے تھے، ایک جماعت کو خو د اپنا
مہمان بنالیتے اور اپنے ساتھ دستر خوان پر بٹھا کر کھانا کھلاتے اور بقیہ کو دوسرے مالدار صحابہ کے حوالہ کر دیتے۔ [294]
حضرت ابو ہریرہؓ بیان کرتے ہیں کہ: ایک روز رات گئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مسجد میں تشریف لائے اور مجھ سے فرمایا: میرے اصحاب کو
بلا لو، ان میں سے اکثر سو گئے تھے میں نے ایک ایک کو جگا یا، حضور ﷺ نے ایک بڑے پیالہ میں جَو کا تیار کیا ہوا کھانا سامنے رکھ دیا اور اس پر ہاتھ رکھ کر برکت کی دعا فرمائی، ہم سب نے اسے سیر ہو کر کھایا اور پھر بھی وہ اتنا کا اتنا ہی باقی رہا۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم یوں بھی ان کی تسلی اور دل دہی فرماتے رہتے، حضرت ابن عباس ؓراوی ہیں کہ ایک دن حضور ﷺ نے اہل صُفّہ کی محتاجی اور پریشان حالی کو دیکھا تو ان کو اس طرح تسلی دی :
" اے اہلِ صُفّہ بشارت ہو ، ( تم ہی نہیں ) میری اُمت میں سے جو کوئی فقر و فاقہ میں صبر و شکر کی زندگی اس طرح بسر کرے گا جس طرح تم کرتے ہو وہ جنت میں میرا رفیق ہوگا"
اصحاب صُفّہ کی مجموعی تعداد جو مختلف اوقات میں صُفّہ میں مقیم رہی چار سو کے قریب ہے۔
ازواج مطہرات کے حجرے
مسجد نبوی کی تعمیر مکمل ہونے کے بعد اس سے متصل دو حجرے بنائے گئے جن میں سے ایک حضرت سودہؓ بنت زمعہ اور دوسرا حضرت عائشہ ؓ کے لیے تھا، یہ حجرے کچی اینٹوں سے بنائے گئے تھے، ان کی چھتیں کھجور کے پتوں کی تھیں، چھ یا سات ہاتھ چوڑے اور دس ہاتھ لمبے تھے، اونچائی اتنی تھی کہ آدمی کھڑے ہو کر ہاتھ سے چھو سکتا تھا، دروازوں پر سیاہ بالو ں کے کمبل یا ٹاٹ کے پردے تھے، مسجد سے متصل حضرت حارثہؓ بن نعمان کے مکانات تھے، اس وقت تک حضرت سودہؓاور حضرت عائشہؓ عقد نکاح میں آچکی تھیں، اس لیے دو ہی حجرے بنائے گئے، جب اور ازواج آتی گئیں تو اور کمرے بنتے گئے، رفتہ رفتہ حضرت حارثہؓ نے تمام مکان حضورﷺ کی نذر کر دیا، حضرت عائشہؓ کے حجرہ کا ایک دروازہ مسجد کی طرف تھا حضورﷺ اس دروازہ سے مسجد میں تشریف لاتے اور جب اعتکاف میں ہوتے تو سر مبارک حجرے کے اندر کر دیتے اور حضرت عائشہ دھو دیتیں۔
حجروں کی ترتیب
ازواجِ مطہرات کے حجروں کی ترتیب یہ تھی:
حضرت اُم سلمہؓ، حضرت اُم حبیبہ ؓ، حضرت زینبؓ، حضرت جویریہ ؓ، حضرت میمونہؓ، حضرت زینب بنت جحش کے مکانات شامی جانب تھے اور حضرت عائشہ ؓ، حضرت صفیہؓ، حضرت سودہ ؓ مقابل جانب تھیں۔ [295]
جس وقت حضرت ریحانہ ؓ اور حضرت ماریہؓ قبطیہ حرم مبارک میں داخل ہوئیں تو اس وقت جو حجرے موجود تھے ان میں کوئی خالی نہ تھا، اس لیے ان کے قیام کا علحٰدہ انتطام کیا گیا تھا اور وہ مدینہ کے مضافات میں ایک باغیچہ میں رہتی تھیں۔
[296]
آنحضرت ﷺ جب غزوۂ دومتہ الجندل کے لیے تشریف لے گئے تھے تو اس وقت حضرت اُم سلمہؓ نے اپنے حجرے کو کچی اینٹوں سے تعمیر کر وایا، جب حضور ﷺ اس غزوہ سے واپس ہوئے تو یہ تعمیر دیکھ کر حضر ت اُم سلمہ ؓ سے فرمایا:یہ کیسی تعمیر دنیا ہے، انھوں نے کہا کہ لوگوں کی نظروں سے بچنے کے لیے بطور ستر تعمیر کر وایا ہے، فرمایا کہ سب سے بدترمصرف جس میں مسلمان کامال خرچ ہو تعمیر ہے۔
نماز کی رکعتوں میں اضافہ
ہجرت سے پہلے نماز مغرب کے سوا ہر نماز میں صرف دو رکعتیں فرض تھیں، مدینہ آنے کے بعد ایک ماہ گذرا تو ظہر، عصر اور عشاء میں دو دو رکعت کے اضافہ کا حکم آیا، اوقات نماز کے بارے میں روایت ہے کہ نماز فجر سب سے پہلے حضرت آدم علیہ السلام نے پڑھی تھی، ظہر کی نماز حضرت ابراہیم علیہ السلام نے بطور شکرانہ پڑھی تھی اس لیے کہ نمرود کے آتش کدہ کو اللہ تعالیٰ نے جب گلزار بنایا اس وقت دوپہر کا وقت تھا، نماز عصر سب سے پہلے حضرت یعقوب علیہ السلام نے ادا کی تھی اس لیے کہ ان کے صاحبزادے حضرت یوسف علیہ السلام کی گمشدگی کے بعد ان کے صحیح و سلامت ہونے کی اطلاع حضرت جبرئیل علیہ ا لسلام نے حضرت یعقوبؑ کو دی تو اس وقت عصر کا وقت تھا، مغرب کی نماز پہلے داؤد علیہ السلام نے ادا کی تھی اس لیے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کی توبہ جب قبول کی اس وقت مغرب کا وقت تھا، حضرت داؤد ؑ نے شکرانہ میں نماز مغرب پڑھی، حضرت یونس علیہ السلام جب مچھلی کے پیٹ سے زندہ نکل آئے تو رات کا وقت تھا، انھوں نے شکرانے میں پہلی نماز عشاء ادا کی، اللہ تعالیٰ نے معراج کی شب میں ان پانچوں نمازوں کو اُمت محمدیﷺ کے لیے فرض کیا جو اس بات کا اشارہ ہے کہ یہ خلاصہ ٔ عبادات انبیا ہے۔[297]
مواخات
انصار مدینہ نے اپنے مہاجربھائیوں کا جس جوش و خروش سے خیر مقدم کیا اورجس محبت و شفقت سے ان کو سینہ سے لگایا تاریخ عالم میں اس کی مثال ملنی ممکن نہیں، مگر مکہ سے آنے والے مہاجرین کے مخصوص حالات کے پیش نظر جو راہِ خدا میں نہ صرف اپنے گھر بار اور مال و دولت کو ٹھکرا کرآئے تھے بلکہ عزیزوں اور رفیقوں سے بھی جدا ہو گئے تھے ضرورت تھی کہ اس رشتہ کو کچھ مدت کے لیے قانونی حیثیت دے دی جائے، جب تمام مہاجرین مدینہ آگئے تو ہجرت کے پانچویں مہینے(ماہ رجب 1 ہجری ) میں آپ ﷺ نے حضرت انسؓ بن مالک کی رہائش گا ہ پر تمام انصار اور مہاجرین کو طلب فرمایا اور دونوں میں مواخات کر وائی یعنی بھائی چارگی قائم کی، اس کی صورت یہ ہوئی کہ آپﷺ ایک مہاجر اور ایک انصاری کو بلاتے اور فرماتے " تم دونوں بھائی بھائی ہو " دونوں مل کر کام کریں اور کمائی مل کر کھائیں، جمع ہونے والو ں کی تعداد (45) مہاجر اور 45 انصار تھی، بعض مورخین کی روایت ہے کہ یہ تعداد پچاس ‘ پچاس تھی، انصار کے پاس مال و دولت تو نہیں بلکہ نخلستان تھے، انھوں نے حضورﷺ سے درخواست کی کہ یہ باغ ہمارے بھائیوں میں برابر تقسیم کر دئے جائیں، مہاجرین تجارت پیشہ تھے اور اس وجہ سے کھیتی کے فن سے بالکل نا آشنا تھے، اس بنا پر حضورﷺ نے ان کی طرف سے انکار کیا، انصار نے کہا : سب کاروبار ہم خود انجام دے لیں گے، جو کچھ پیداوار ہوگی اس میں سے نصف حصہ مہاجرین کا ہو گا، مہاجرین نے اس کو منظور کیا۔ [298]
بعض مہاجر صحابہؓ نے دوکانیں کھول لیں، حضرت ابو بکر ؓ کاکارخانہ سنح میں تھا جہاں وہ کپڑے کی تجارت کرتے تھے۔ حضرت عثمان ؓ بنو قنیقاع کے بازار میں کھجور کی خرید و فروخت کرتے تھے۔ حضرت عمرؓ بھی تجارت میں مشغول ہو گئے تھے اور ان کی تجارت ایران تک پہنچ گئی تھی۔
[299]
یہ رشتہ بالکل حقیقی بن گیا، جب کوئی انصار مرتا تو اس کی جائداد اور مال مہاجر کو ملتا اور بھائی بند محروم رہتے، یہ اس فرمان الٰہی کی تعمیل تھی:
" جو لوگ ایمان لائے اور ہجرت کی اپنے مال اور جان سے اللہ کی راہ میں جہادکیا اور جن لوگوں نے ان کو پناہ دی یہ سب آپس میں ایک دوسرے کے رفیق ہیں" [300]
جنگ بدر کے بعد جب مہاجرین کو اعانت کی ضرورت نہ رہی تو یہ آیت نازل ہوئی :
" اور ا ﷲ نے جو مدد کی تو اس کا مقصد صرف یہ تھا کہ تمھارے لیے صرف خوش خبری ہو اور تمھارے دل مطمئن ہوجائیں ورنہ مدد تو ہر (حال میں ) اﷲ ہی کی طرف سے ہے، بلاشبہ اﷲ ان سب پر غالب اور حکمت والا ہے، [301]
اس وقت سے یہ قاعدہ جاتا رہا، عہد مواخات کے بعد انصاری بھائی نے مہاجر بھائی کے سامنے اپنی زمین، باغ، مکان اور سامان خانہ ہر چیز کا نصف حصہ پیش کر دیا، یہاں تک جس گھر میں دو بیویاں تھیں وہ ایک بیوی کو اپنے مہاجر بھائی کی خاطر طلاق دینے آمادہ ہو گیا، حضرت سعدؓ بن ربیع ایک مال دار انصاری تھے، حضرت عبد الرحمن ؓ بن عوف ان کے مواخاتی بھائی قرار پائے، انھوں نے حضرت عبد الرحمن ؓ بن عوف کو بنو حارثہ کے محلہ میں جہاں ان کا گھر تھا لے گئے، کھانا کھلایا اور اپنا سب مال و اسباب ان کے سامنے پیش کر کے کہا کہ اس میں سے نصف آپ لے لیجئے، پھر فرمایا: میری دو بیویاں ہیں، ان میں سے ایک آپ پسند کر لیجئے میں اسے طلاق دے دوں گا، آپ بعد عدت اس سے نکاح کر لیں، مگر حضرت عبد الرحمنؓ بن عوف نے کہا : تمھارا مال اور تمھاری بیوی اللہ تمھیں مبارک کرے، مجھے تم بازار کا راستہ بتا دو، آخر وہ بنی قنیقاع کے بازار میں نکل گئے اور پنیر اور گھی کا کاروبار شروع کر دیا، ایک روز حضورﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے تو بدن پر خوشبو کا اثر تھا معلوم ہوا کہ ایک انصاری عورت سے شادی کر لی ہے، حضور نے ان کو ولیمہ کرنے کا حکم دیا۔ [302]
مواخات میں کون کس کے بھائی بنے ان کے چند نام درج ذیل ہیں:
حضرت ابو بکرؓ بن ابی قحافہ مواخاۃ
حضرت حارثہ ؓ بن زید قبیلہ
بلحارث بن خزرج
حضرت عمرؓ بن خطاب مواخاۃ
حضرت عتبان بن مالک قبیلہ
بلحارث بن خزرج
حضرت عبد الرحمن ؓ بن عوف مواخاۃ
حضرت سعدؓ بن ربیع قبیلہ
بلحارث بن خزرج
حضرت عثمانؓ بن عفان مواخاۃ
حضرت اوسؓ بن ثابت قبیلہ
بنی نجار
حضرت مصعب ؓ بن عمیر مواخاۃ
حضرت ابو ایوبؓ انصاری قبیلہ
بنی نجار
حضرت سعیدؓ بن زید مواخاۃ
حضر ت ابی ؓ بن کعب قبیلہ
بنی نجار
حضرت ابو عبیدہؓ بن جراح مواخاۃ
حضرت سعد ؓ بن معاذ قبیلہ
بنی عبد الاشہل
حضرت زبیر ؓ بن عوام مواخاۃ
حضرت سلامتہؓ بن وقش قبیلہ
بنی عبد الاشہل
حضرت عمّار ؓ بن یاسر مواخاۃ
حضرت حذیفہؓ بن یمان قبیلہ
بنی عبدالاشہل
حضرت سلمان فارسی مواخاۃ
حضرت ابو دردا ؓ قبیلہ
بنی عویمر بن ثعلبہ
حضرت بلالؓ حبشی مواخاۃ
حضرت ابو رویحہؓ قبیلہ
بنی عویمر بن ثعلبہ
حضرت طلحہؓ بن عبیداللہ مواخاۃ
حضرت کعبؓ بن مالک قبیلہ
بنی سلمہ
حضرت حاطب ؓ بن ابی بلتعہ مواخاۃ
حضرت عویم ؓ بن ساعدہ قبیلہ
بنی عمرو بن عوف
حضرت ابو زر ؓ غفاری مواخاۃ
حضرت منذر ؓ بن عمرو قبیلہ
بنی غفار
حضرت عباسؓ بن بشیر مواخاۃ
حضرت ابو حذیفہ ؓ بن عتبہ بن ربیعہ
یہودی قوم
مورخین بیان کرتے ہیں کہ مدینہ کے یہود اصلاً یہودی تھے اوراس غرض سے عرب میں آئے تھے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے ان کو عمالقہ کے مقابلہ کے لیے بھیجا تھا، یہود گو تمام دنیا میں پھیلے لیکن انھوں نے اپنے نام کہیں نہیں بدلے، آج بھی وہ جہاں ہیں اسرائیلی نام رکھتے ہیں، بر خلاف اس کے عرب کے یہودیوں کے نام خالص عربی ہیں جیسے نضیر ‘ قنیقاع ‘ مرحب ‘ حارث وغیرہ، عموماً یہود بزدل ہوتے ہیں ؛چنانچہ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے ان سے لڑنے کے لیے کہا تو بولے :
" قوم نے جواب دیا کہ اے موسیٰ جب تک وہ وہاں ہیں تب تک ہم ہر گز وہاں نہ جائیں گے اس لیے تم اور تمھارا پروردگار جاکر دونوں ہی لڑو، ہم یہیں بیٹھے ہوئے ہیں" [303]
برخلاف اس کے مدینہ کے یہود نہایت دلیر، شجاع اور بہادر تھے، مورخ یعقوبی نے لکھا ہے کہ قریظہ اور نضیر عرب تھے جو یہودی بن گئے تھے۔ [304]
مورخ مسعودی نے اپنی کتاب الاشراف و التبینہ میں ایک روایت لکھی ہے کہ یہ جذام کے قبیلہ سے تھے، کسی زمانہ میں عمالقہ سے اور ان کی بُت پرستی سے بیزار ہو کر حضرت موسیٰ علیہ السلام پر ایمان لائے اور شام سے نقل ِ مقام کر کے حجاز چلے آئے، یہ تین قبیلے تھے:1-بنی قنیقاع 2-بنی نضیر 3-بنی قریظہ، مدینہ کے اطراف میں آباد تھے اور مضبوط اور قلعہ بنا لیے تھے۔ [305]
انصار کے دو قبیلوں اوس اور خزرج میں آخری معرکہ جنگ ِ بُعاث ہوا تھا جس میں انصار کا زور بالکل توڑ دیا تھا، یہود یہ چاہتے تھے کہ انصار باہم کبھی متحد نہ ہونے پائیں۔
یہود کی ذیلی شاخیں بیس سے زیادہ اور جملہ تعداد پانچ ہزار سے زیادہ تھی، ہر قبیلہ میں لڑنے والے سات سو افراد تھے، آپس میں اتحاد نہ ہونے سے ہر وقت لڑتے رہتے تھے، تورات ان کی آسمانی کتاب تھی جس میں تحریف کرتے رہتے تھے، دینی اور شرعی احکام کو مانتے تھے، عاشورہ کے دن روزہ رکھتے او راپنی عیدیں الگ مناتے تھے، جس عرب عورت کا بچہ زندہ نہ رہتا تو وہ نذرمانتی تھی کہ بچہ زندہ رہا تو اسے یہودی بنا دے گی، اس طرح بہت سے عرب یہودی بن گئے۔
یہودی سودی لین دین کیا کرتے تھے، چور بازاری اور ذخیرہ اندوزی بھی کیا کرتے تھے، میٹھے کنوؤں کا پانی فروخت کرتے تھے، ان کی ما دری زبان عبرانی
تھی مگر عربی پر بھی عبور تھا، مدینہ میں یہودیوں کے علاوہ عیسائی بھی آباد تھے، ہجرت کر کے مدینہ تشریف لانے کے بعد حضور اکرم صلی اللہ علیہ و
سلم نے اپنے نئے پڑوسیوں یعنی یہود مدینہ سے ایک تحریری معاہدہ ضروری خیال کیا تا کہ بیرونی دشمن کے حملہ کی صورت میں مدینہ میں جان ومال کی حفاظت ہو سکے اور وقت ضرورت دفاع بھی کیا جا سکے، اس سلسلہ میں ڈاکٹر محمد حمید اللہ لکھتے ہیں کہ حضور ﷺ نے حسب ذیل اقدام فرمایا:
1- مہاجرین کی مستقل آبادکاری اور روزگار کی فراہمی۔
2- اپنے اور مقامی باشندوں کے حقوق و فرائض کا تعین۔
3-مدینہ کے غیر مسلم عربوں اور خاص کر یہودیوں سے سمجھوتہ۔
4- مدینہ کی سیاسی تنظیم اور دفاع
5- اس مالی اور جانی نقصان کا بدلہ دلاناجو مشرکین مکہ سے مہاجرین کو پہنچا،
میثاقِ مدینہ
میثاق مدینہ کو بجا طور پر تاریخ انسانی کا پہلا تحریری دستور قرار دیا جا سکتا ہے۔ یہ 730 الفاظ پر مشتمل ایک جامع دستور ہے جو ریاست مدینہ کا آئین تھا۔ 622ء میں ہونے والے اس معاہدے کی 53دفعات تھیں۔ یہ معاہدہ اور تحریری دستور مدینہ کے قبائل (بشمول یہود و نصاریٰ) کے درمیان میں جنگ نہ کرنے کا بھی عہد تھا۔ معاہدے کا بکثرت ثبوت پوری تفصیل کے ساتھ کتبِ تواریخ میں ملتا ہے اس کے باوجود مغربی مصنفین اسے نظر انداز کرنے کی ناکام کوشش کرتے ہیں۔[306][307][308][309][310][311][312]
یہودِ مدینہ سے معاہدہ
مندرجہ بالا مقاصد کو پیش نظر رکھ کر حضور اکرم ﷺ نے مدینہ تشریف لانے کے چند ماہ بعد یہودِ مدینہ سے معاہدہ فرمایا جسے مورخین نے صحیفہ ( دستور العمل اور فرائض نامہ) اور کتاب (یعنی لکھا ہوا) اور میثاق مدینہ کے ناموں سے موسوم کیا ہے، اس معاہدہ کی تاریخ کاعام طور پر ذکر نہیں آتامگر تاریخ الخمیس سے معلوم ہوتا ہے کہ ہجرت کے پانچ ماہ بعد ہوا۔
[313]
ڈاکٹر محمد حمیدا للہ نے میثاق مدینہ کے 47 دفعات بیان کیے ہیں جن میں دفعات 1 تا 23 حضور ﷺ کے مدینہ آنے کے چند مہینوں کے اندر مرتب ہوئیں
کیونکہ ان کے پڑھنے سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ یہ حصہ " دستورالمہاجرین و الانصار" ہے اور دفعات 24 تا 47 پڑھنے سے معلوم ہو تا ہے کہ یہ" دستور العمل یہودیاں" ہے۔
اس معاہدہ کی اہم دفعات یہ تھیں:
1- مہاجرین، انصار اور دوسرے قبائل کے مسلمان سب مل جل کر ایک جماعت کی حیثیت سے رہیں گے، مختلف قبائل کے یہود جو اس معاہدہ میں شریک ہیں وہ بھی حقوق و فرائض کے لحاظ سے اسی جماعت میں شامل سمجھے جائیں گے، اُن کی مدد مسلمانوں پر ضروری ہوگی اور ان کو کسی قسم کے ظلم کا شکار نہ ہونے دیا جائے گا۔
2- یہودیوں کو پوری مذہبی آزادی حاصل ہو گی، ان کے مذہبی معاملات میں کسی قسم کی مداخلت نہ کی جائے گی۔
3- ) کوئی غیر مسلم شریک معاہدہ، قریش کو (جو مسلمانوں سے بر سر پیکار ہیں) مال و جان کی امان نہ دے گا اور نہ مسلمانوں کے مقابلہ میں ان کا مدد گار ہوگا۔
4- جو اس معاہدہ کے شرکاء سے جنگ کرے گا اس کے مقابلہ میں سب ایک دوسرے کے مددگار ہوں گے اور آپس میں ہمدردی اور بھلائی کا برتاؤ کریں گے، کوئی اپنے حلیف کو نقصان نہ پہنچائے گا۔
5- شرکاء معاہدہ مدینہ منورہ میں امن قائم رکھنے کے ذمہ دار ہوں گے۔
6- اگرایک فریق کسی دشمن سے صلح کرے گا تو دوسرا بھی اس میں شریک ہوگا، مگر مذہبی جنگ کرنے والوں سے یہ صلح نہ ہو سکے گی۔
7- ہر اختلافی معاملہ کا فیصلہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسو ل محمد ﷺ کے حکم کے مطابق ہوگا۔ [314]
مدینہ منورہ اور اس کی آس پاس کی بستیوں کی زمینیں زیادہ تر یہودیوں کے قبضہ میں تھیں، مدینہ منورہ کی تجارت اور ساہوکاری بھی انھی کے ہاتھ میں تھی، اس کے علاوہ اہل کتاب ہونے کی وجہ سے تعلیم کا رواج بھی انھی میں زیادہ تھا، دوسری طرف انصارکے دونوں قبیلے اوس و خزرج کاشتکار
پیشہ تھے، یہ آپس میں متحد نہ تھے اور باہمی لڑائیو ں نے ان کی طاقت توڑ کر رکھدی تھی، یہودی ان کے اختلافات کو ہوا دیتے تھے تاکہ ان کے مقابلہ میں کبھی سر نہ اٹھا سکیں، اس لیے آنحضرت ﷺ کے مدینہ منورہ تشریف لانے تک یہودیوں کی حیثیت بر سرِ اقتدار قوم کی تھی، مگر حضور ﷺ کے تشریف لانے کے بعد یہودیوں کی یہ حیثیت باقی نہ رہی، انصار کے دونوں قبیلے اوس و خزرج والوں نے اسلام قبول کر لیا، یہودیوں کی حیثیت ایک اقلیت کی ہو گئی بلکہ معاہدہ کی آخری شرط کی رو سے یہودیوں نے آنحضرت ﷺ کو مدینہ منورہ کا حاکم اعلیٰ تسلیم کر لیا، یوں حالات کی مجبوریوں سے یہودی بظاہر مسلمان کے دوست بن گئے مگر دل میں حسد رکھنے لگے اورمسلمانوں کو نقصان پہنچانے کے لیے موقع کے منتظر رہے۔
یہود و مشرکین کی سازشیں
میثاقِ مدینہ کے بعد یہود مجبور تھے کہ وہ علی الاعلان حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور اسلام کے خلاف بات نہ کر سکتے تھے اسی لیے انھوں نے خفیہ سازشیں شروع کیں جن میں سے ایک ادب اور اظہارِ آزادی کی آڑ میں حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی ذاتِ گرامی حملہ کرنا تھا۔ عرب لوگ جو شعر و شاعری کے بڑے خوگر تھے ان کے لیے شاعری کے ذریعے حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی ہتک کرنے کی کوشش کی گئی کیونکہ اسلام میں ایمان اس وقت تک مکمل نہیں ہوتا جب تک حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی ذات کی اہمیت و درجہ مال و جان و اولاد سے زیادہ نہ ہوجائے۔ اس سلسلے میں تین شعرا نے حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے خلاف ہجو لکھیں۔ ایک کا نام کعب بن الاشرف تھا جو یہودی تھا دوسری کا نام اسماء بنت مروان تھا اور تیسرے کا نام ابوعفک تھا۔ جب وہ شاعر حد سے گذر گئے اور ان کے رکیک اشعار سے حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو شدید رنج پہنچا تو ان تینوں کو انہی کے قبیلے کے افراد نے قتل کر ڈالا۔ کعب بن الاشرف کو ان کی ایک رشتہ دار ابونائلہ نے قتل کیا۔ اسماء بنت مروان کو ان کے ہم قبیلہ ایک نابینا صحابی عمیر بن عوف نے قتل کر دیا۔ ابو عفک کو حضرت سالم بن عمیر نے قتل کیا۔[315]
منافقین
ان یہودیو ں کے علاوہ مسلمانوں کی مخالفت کے لیے ایک نیا گروہ بھی پیدا ہو گیا تھا، اوس وخزرج کے قبیلوں کے اکثر افراد تو دل سے مسلمان ہو گئے تھے مگر کچھ لوگ ایسے بھی تھے جنھوں نے دل سے اسلام قبول نہ کیا تھا، بلکہ وقتی مصالح اور آئندہ کی توقعات کی بنا پر انھوں نے اسلام کا لبادہ اوڑھ لیا تھا، ان میں سے بعض پکے کافر تھے، مسلمانوں کے راز معلوم کرنے اور ان کی جماعت میں گھس کر فتنہ برپا کرنے اور نازک موقعوں پر ان کو دغا دے کر ان میں کمزوری پیدا کرنے کے لیے وہ مسلمانوں کی جماعت میں شامل ہو گئے تھے اور بعض مذبذب تھے، دونوں طرف سازباز رکھتے تھے، مسلمانوں کا غلبہ اور فتح دیکھتے تو اِدھر جھک جاتے اور تکالیف و مصائب کاسامنا کرنا پڑتا تو اُدھر ڈھل جاتے، مقصد یہ تھا کہ اگر اسلام و کفر کی اس کشمکش میں اسلام کو غلبہ حاصل ہو تو یہ بھی اپنا حق وصول کر سکیں، قرآن مجید میں اِن کے متعلق فرمایا گیا:
" بعض لوگ کہتے ہیں کہ ہم اللہ پر اور آخرت کے دن پر ایمان لائے اور وہ (دل سے) مومن نہیں ہیں، اللہ کو اور سچے مسلمانوں کو دھوکا دیتے ہیں، حالانکہ(اس طرح) وہ اپنے ہی آپ کو دھوکا میں ڈالتے ہیں اور سمجھتے نہیں" [316]
گو کہ آنحضرت ﷺکو ان کی مکاری، عیّاری اور فتنہ انگیزی کا علم ہوتا رہتا تھا مگر آپﷺ ان سے مسلمانوں ہی جیسا برتاؤ کرتے تھے، ان کا سردار عبد اللہ بن اُبیّ بن سلول تھا، یہ انصار کے دونوں قبیلو ںمیں اپنا اثر رکھتا تھا، حضورﷺ کے مدینہ تشریف لانے سے قبل دونوں اسے اپنا بادشاہ بنانے کے لیے تیار ہو گئے اور اس کی تاجپوشی کی رسم ادا ہونے والی تھی مگر حضورﷺ کے مدینہ تشریف لانے اور انصار کے اسلام کے جھنڈے تلے جمع ہو جانے کے بعد یہ سب بنا بنایا کھیل بگڑ گیا، عبد اللہ بن اُبی ّ حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کی عزت دیکھ کر دل ہی دل میں جلتا تھا اور اپنی امیدوں پر پانی پھر جانے پر ہاتھ ملتا تھا، کبھی کبھی اس کے دل کا کھوٹ ظاہر بھی ہو جاتا تھا۔
عبد اللہ بن اُبی ّ کی اسلام دشمنی کا یہی حا ل ساری عمر رہا مگر رحمتہ للعالمین صلی اللہ علیہ و سلم کے اخلاق کریمانہ بھی دیکھیے، جب اس کا آخری وقت آیا تو اس نے اپنے کفن کے لیے حضورﷺ کا کرتا مانگا اور حضورﷺ نے کرتا عنایت فرمایا، پھر اس کے بیٹے کی درخواست پر جو سچے مسلمان تھے اس کی نماز جنازہ بھی پڑھا دی مگر بعد میں حضورﷺ کو اس کی ممانعت کر دی گئی۔
اسی زمانہ میں قبیلہ اوس کے سردار حضرت سعد ؓ بن معاذ خانہ کعبہ کی زیارت کے لیے مکہ معظّمہ گئے، امیہ بن خلف سردارِ قریش ان کا پرانا دوست تھا، یہ اسی کے ہاں مہمان ہوئے اور اس کو ساتھ لے کر خانہ کعبہ کا طواف کر نے کے لیے نکلے، مسلمانوں کے مشہور دشمن ابو جہل نے ان کو دیکھ لیا، اس نے غصہ میں حضرت سعد ؓ سے کہا، تم نے بد دین لوگوں کو اپنے شہر میں پناہ دی ہے میں یہ برداشت نہیں کر سکتا کہ تم مکہ میں آؤ، خدا کی قسم اگر تم اُمیہ کے ساتھ نہ ہوتے تو زندہ بچ کر نہیں جا سکتے تھے، حضرت سعدؓ نے جواب دیا، اگر تم نے ہم کو کعبہ کی زیارت سے روکا تو ہم تمھارا مدینہ کا راستہ جہاں سے تمھارے شامی تجارت کے قافلے گزرتے ہیں روک دیں گے۔
مسلح کشاکش کا آغاز
قریش نے مہاجرین کو دھمکیاں دینی شروع کیں اور کہلا بھیجا کہ: تم مغرور نہ ہونا کہ مکہ سے صاف بچ کر نکل آئے، ہم یثرب پہنچ کر تمھارا ستیاناس کردیتے ہیں۔
یہ صورت حال مدینہ کے مسلمانوں کے وجود کے لیے بڑی پر خطر ہو گئی تھی اس لیے کہ قریش ان کے استیصال کا تہیہ کر چکے تھے، مکہ میں مسلمانوں
کا دشمن ایک ہی گروہ تھا یعنی مشرکین قریش؛ لیکن مدینہ میں تین گروہ ان کے حریف ہو گئے تھے۔
1- ایک تو وہی مکہ کے پرانے دشمن قریش جو وطن سے بے وطن کرنے کے بعد بھی مسلمانوں کا پیچھا چھوڑنے کے لیے تیار نہیں تھے۔
2- دوسرے مدینہ اور آس پاس کی بستیوں کے یہودی جنھوں نے اگر چہ کہ مسلمانوں سے دوستی کا معاہدہ کر لیا تھا مگر ان کے دلوں میں دشمنی کی آگ سلگ رہی تھی۔
3- تیسرے منافقین جو مسلمانوں کے لیے بغلی گھونسہ تھے، تاہم مکہ معظمہ اور مدینہ منورہ کی زندگی میں بڑا فرق تھا، مدینہ کی آبادی کی اکثریت نے اسلام قبول کر لیا تھا، مکہ اور دوسرے مقامات کے مسلمان بھی اس امن گاہ میں پناہ لینے کے لیے جمع ہو رہے تھے اس لیے مدینہ نے مرکز اسلام کی حیثیت حاصل کرلی تھی۔
نبوت کے ابتدائی تیرہ سال مکہ میں اس طرح گذرے کہ مسلمانوں کو مارا گیا، پیٹاگیا اور جلتے ہوئے پتھروں پر ان کو لٹایاگیا، ان کا سماجی و معاشی مقاطعہ کرکے پہاڑی کی گھاٹی میں قید کردیاگیا، خود حضور اکرمﷺ کو شہید کرنے کی سازش کی گئی اور جب حضوراکرم ﷺ بادل ناخواستہ مکہ چھوڑ کر مدینہ تشریف لائے تو یہاں بھی چین سے نہ بیٹھنے دیا گیا اور مسلمانوں کو ختم کرنے کے لیے انھوں نے کھلی اور چھپی ہر قسم کی تدبیریں شروع کر دیں۔
حفاظتی انتظامات
سب سے پہلے حضور اکرمﷺ نے مدینہ کی حفاظت کے لیے رضاء کاروں کے دستے متعین کیے، یہ رضا کار ساری ساری رات جاگ کر شہر کے ارد گرد پہرہ دیتے اور خود حضور اکرم ﷺ بھی ان کے ساتھ شامل ہوتے، دوسرا قدم حضور اکرم ﷺ نے یہ اٹھایا کہ کچھ رضاء کار دستے مکہ سے مدینہ آنے والے راستوں کی دیکھ بھال کے لیے روانہ کیے، کبھی کبھی ان کی قریش کے آدمیوں سے مد بھیڑ بھی ہوجاتی، تیسرا اہتمام یہ کیا کہ مدینہ کے آس پاس بسنے والے مختلف قبیلوں سے دوستی کے معاہدے کرنے شروع کردیے تاکہ یہ لوگ دشمنوں کے ہاتھوں میں نہ کھیلیں اور مدینہ اور اس کے قرب و جوار میں امن و امان قائم رکھنے میں مسلمانوں کی مدد کریں، یہ کام زیادہ تر انہی دستوں سے لیا جاتا، کبھی حضور اکرم ﷺ خود بھی تشریف لے جاتے؛ چنانچہ بنی ضمرہ، بنی مدلج اور جہینہ کے قبائل مسلمانوں کے حلیف بن گئے، مگر مکہ والے کب باز آنے والے تھے، جمادی الآخر 2 ہجری میں حضور اکرم ﷺ بنی مدلج سے معاہدہ کرکے مدینہ واپس آئے، چند ہی روز بعد اطلاع ملی کہ مکہ کے ایک سردار کرز بن جابر فہری نے مدینہ کی چراہ گاہ پر حملہ کیا اور کچھ مویشی لوٹ کر لے گیا، حضور اکرم ﷺ اس کے تعا قب میں بدر کے قریب وادی سفوان تک تشریف لے گئے مگر کرز ہاتھ نہ آیا، اس کی قسمت میں قبول اسلام کی عزت لکھی تھی چنانچہ مشرف بہ اسلام ہوکر فتح مکہ کے موقع پر شہید ہوا، تاہم اس و اقعہ سے مسلمانوں پر اہل مکہ کے عزائم بے نقاب ہو گئے اور رسول اکرم ﷺ نے حفاظتی اور احتیاطی تدابیر اختیار فرمانے میں زیادہ اہتمام فرمایا۔ [317]
جنگیں
سریہ اور غزوہ میں فرق
سریہ کے لفظی معنی قصد اور سیر کے ہیں اور اصطلاحی معنی میں وہ مہم جس میں آنحضرت ﷺ نے بذات خود شرکت نہیں کی بلکہ اپنے صحابہؓ میں سے کسی کو امیر لشکر مقرر فرمایا سریہ کہلاتی ہے، جس مہم یا جنگ میں حضور اکرم ﷺ نے بہ نفس نفیس خود شرکت فرمائی وہ غزوہ کہلاتی ہے۔
سریہ حضرت حمزہؓ
ان حالات میں حفاظت خود اختیاری پر عمل کرنا ضروری تھا، حضور اکرم ﷺنے مناسب سمجھا کہ مکہ والوں کو مسلمانوں کی باخبری اور چوکس رہنے کا احساس دلانا ضروری ہے، حضورﷺ نے ان کے تجارتی قافلوں کی نگرانی اور ٹوہ کی خاطر گشتی دستے بھیجنا شروع فرمائے، ان کا مقصد قریش کے تجارتی قافلوں کی ناکہ بندی اور قرب و جوار کے قبائل کو مسلمانوں کی طاقت کا احساس دلانا تھا، سب سے پہلا دستہ حضرت حمزہؓ کی قیادت میں ہجرت کے ساتویں مہینے رمضان 1 ہجری م مارچ 622ء میں روانہ کیا گیا، جو سریَّہ امیر حمزہ ؓ کے نام سے مشہور ہے، اس سریہ کا مقصد شام سے آنے والے ایک قریشی قافلہ کا پتہ لگانا تھا، حضرت امیر حمزہؓ کے ساتھ تیس شتر سوار مجاہدین تھے جنھیں علاقہ جہینہ کے مقام عیص پر پہنچ کر قریش کے کارواں سے معترض ہونا تھا، روانگی سے قبل حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک نیزہ پر سفید کپڑا باندھا اور یہ پرچم سپہ سالار حضرت حمزہؓ کو عنایت فرمایا، یہ دستہ ساحل سمندر کی طرف کے راستہ سے عیص کی طرف بڑھا جہاں ابو جہل سے مد بھیڑ ہوئی جس کے ساتھ تین سو آدمی تھے، ابو جہل نے محسو س کیا کہ مسلمان ظلم سہنے اور برداشت کرنے کی بجائے مقابلہ کرنے کے موقف میں ہیں۔
پہلا خود مختار حکمراں
پہلا خود مختار حکمراں جس نے مملکت مدینہ کو تسلیم کیا: یہ اطلاع اُس علاقہ کے قبائلی سردارمجدی بن عمرو جہینی کو پہنچی تو وہ فوراً وہاں آگیا اور بیچ بچاؤ کیا ورنہ لڑائی چھڑ جاتی، وہ قریش کا قدیم حلیف تھااور مدینہ سے قربت کی وجہ سے مسلمانوں سے بھی بگاڑ نہیں چاہتا تھا، اُس نے کہا کہ میرے لیے قریش اور مسلمان دونوں برابر ہیں، ابو جہل نے اس کے فیصلہ کو قبول کر لیا اور قافلہ مکہ روانہ ہو ا، حضرت حمزہؓ نے مجدی کی بات مان کر اس سے غیر جانبداری کا معاہدہ کیا، یہ مدینہ سے باہر مسلمانوں کا پہلا سیاسی معاہدہ ہے اور مجدی بن عمرو جہینی پہلا حکمراں تھا جس نے مدینہ کی مملکت کی آزادانہ اور خود مختارانہ حیثیت تسلیم کی۔
سریہ عبیدہ (شوال 2 ہجری)
سریہ عبیدہ ؓ بن حارث بن عبد المطلب (شوال 2ھ):اس کے بعد ماہ شوال میں ایک اور گشتی دستہ جس میں 60 یا 70 مجاہدین تھے رابغ کی جانب روانہ فرمایا جو مقام حجفہ سے دس میل کے فاصلہ پر ہے، حضرت عبیدہؓ بن حارث جو حضورﷺ کے چچا زاد بھائی تھے اس دستے کے سپہ سالار تھے، انھیں بھی سفید پرچم عطا کیا گیا، اس دستہ میں حضرت سعد ؓ بن ابی وقاص اور حضرت ارقمؓ بن ارقم بھی تھے، سپہ سالار نے حضرت مسطحؓ بن اثاثہ ( حضرت ابو بکرؓ کے خالہ زاد بھائی ) کو علم بردار بنایا، یہ مجاہد ین ثینتہ ا لمرہ میں چشمۂ احیا کے قریب پہنچے تو دیکھا کہ قریش کا ایک دستہ ابو سفیان کی کمان میں وہاں موجود ہے جس میں دو سو سوار تھے جن کا سردار عکرمہ بن ابو جہل تھا، کچھ فاصلہ پر مسلمان بھی خیمہ زن ہوئے، حضرت سعد ؓ بن ابی وقاص نے سوچا کہ ہم تو طلایہ گردی کے لیے نکلے ہیں، ایسے میں اگر دشمن نے اچانک حملہ کر دیا تو سخت جنگ ہوگی اس لیے بہتر ہے کہ دشمن کا حوصلہ گرا دیا جائے، ان کے پاس صرف آٹھ تیر تھے جس میں سے ایک تیر کمان میں لگاکر دشمن کی طرف چھوڑا، یہ راہ ِخدا میں چلایا جانے والا پہلا تیر تھا، ابو سفیان نے سونچا کہ مسلمانوں کے پیچھے کوئی بڑا لشکر ہو گا اس لیے مقابلہ کرنا مناسب نہیں، اس لیے اپنے دستہ کو لے کر چلا گیا، اس موقع پر ابو سفیان کے دستہ سے دو اشخاص نعرہ تکبیر لگاتے ہوئے مسلمانوں کی طرف بڑھے، یہ دونوں حضرت عتبہؓ بن غزوان اور مقداد ؓ بن اسود تھے جو ابتدائی ایمان لانے والوں میں سے ہیں، انھیں زبردستی روک لیا گیا تھا، انھوں نے قریش کو مصلحتاً باور کرایا تھا کہ وہ آبائی دین قبول کر چکے ہیں، موقع کی تلاش میں تھے اور ابو سفیان کے دستہ میں شامل ہو کر آئے اور مسلمانوں سے مل گئے۔
تیسری پا پیادہ مہم
ماہ ذی قعدہ 1 ہجری میں حضور ﷺ نے حضرت سعدؓبن ابی وقاص کی سرکردگی میں ایک پا پیادہ مہم خرار بھیجی جو شام کی تجارتی شاہراہ پر ٹھہرنے والے کاروانوں کی منزل تھی، یہ دستہ بیس مجاہدین پر مشتمل تھا؛ لیکن بعض مورخین نے آٹھ لکھا ہے، اس کے علم بردار حضرت مقدادؓ بن عمرو تھے جنھیں سفید جھنڈا عطا کیا گیا تھااور ہدایت کی گئی تھی کہ قریش کے تجارتی قافلہ کو ہراساں کرنا مگر خرار سے آگے نہ بڑھنا، یہ مجاہدین کا پہلا پیدل دستہ تھا جو راتوں کو سفر کرتا اور دن میں چھپ جاتا، پانچ دن سفر کر کے جب یہ دستہ خرار پہنچا تو معلوم ہوا کہ تجارتی قافلہ جس میں ساٹھ افراد تھے پڑاؤ اٹھا چکا ہے، اس لیے مدینہ واپس ہو گئے، ہجرت کے پہلے سال روانہ کردہ تین مہموں میں سے یہ آخری مہم تھی جو طلایہ گردی پر مامور کی گئی تھی، ان تینوں مہموں میں کہیں بھی دو بدو لڑائی یا خون خرابے کی نوبت نہیں آئی۔
حضرت اسعد بن زرارہ کی وفات
اسی سال نقیب النقباء حضرت اسعدؓ بن زرارہ بیمار ہوئے، حضور ﷺ ان کی عیا دت کے لیے تشریف لے گئے، اسی بیماری میں انھوں نے وفات پائی، انصار کا دعویٰ ہے کہ مسلمانوں میں وہ پہلے آدمی ہیں جو جنت البقیع میں دفن ہوئے جبکہ مہاجرین کہتے ہیں کہ حضرت عثمان ؓبن مظعون جنت البقیع میں دفن ہونے والے پہلے مسلمان ہیں۔
حضرت کلثوم بن ہدم کی وفات
میزبان قباء حضرت کلتومؓ بن ہدم جو بہت بوڑھے ہو چکے تھے انھوں نے بھی اس سال وفات پائی۔
عاشورہ کا روزہ
ہجرت کے بعد محرم کا مہینہ آیا تو حضور اکرم ﷺنے دیکھا کہ یہود عاشورہ کے دن روزہ رکھتے ہیں، دریافت کیا کہ وہ ایسا کیو ں کرتے ہیں، صحابہ ؓ نے عرض کیاکہ اس دن اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو بنی اسرائیل پر فتح دی تھی اس لیے شکرانہ میں وہ روزہ رکھتے ہیں، فرمایا کہ ہم موسیٰ کے ان سے زیادہ حق دار ہیں اور اس دن روزہ رکھنے کا حکم فرمایا، اسی سال جب رمضان کے روزے فرض ہوئے آپﷺ نے فرمایا کہ جو چاہے روزہ رکھے یا نہ رکھے کوئی لزوم نہیں۔ [318]
قتال کی اجازت
ماہ صفر کی 12 تاریخ تھی کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے سورۂ حج کی آیت 39 کے ذریعہ قتال کی اجازت آئی، فرمایا گیا:
" جن ( مسلمانوں ) سے ( کافر) جنگ کر رہے ہیں انھیں بھی مقابلہ کی اجازت دی جاتی ہے؛ کیونکہ وہ بے حد مظلوم ہیں، بے شک ان کی مدد پر اللہ قادر ہے"
[319]
تفسیر ابن جریر کی رُو سے قتال کے متعلق نازل ہونے والی پہلی آیت سورۂ بقرہ کی 190 ویں آیت ہے:
" لڑو اللہ کی راہ میں ان سے جو تم سے لڑتے ہیں اور زیادتی نہ کرو، اللہ تعالیٰ زیادتی کرنے والوں کوپسند نہیں فرماتا۔
[320]
جہاد دو قسم کا ہے، ایک دفاعی اور دوسرا اللہ کی راہ میں، قتال کے لیے قرآنی اصطلاح جہاد بالسیف ہے، حضور اکرمﷺ کی حیات طیبہ میں( 27 )
غزوات ہوئے جن میں سے ( 9 ) غزوات بدر، اُحد، مریسیع، خندق، قریظہ، خیبر، فتح مکہ، حنین اور طائف میں حضورﷺ نے دشمنوں سے جنگ کی اور باقی(18 ) غزوات میں شمشیر کا استعمال نہیں ہوا۔
جہاد کی حقیقت
جہاد کے لغوی معنی: سعی و کوشش ہے، ﷲ کے راستے میں ہر قسم کی سعی و کوشش اور حق کو سربلند کرنے کے لیے ہر طرح کی جدوجہد ہر مسلمان کے لیے ضروری قرار دی گئی ہے، یہ جدوجہد زبان سے ہو یا قلم سے یا مال سے یا زور بازو سے اس آخری صورت کو جہاد بالسیف اور قتال فی سبیل ﷲ بھی کہا جاتا ہے، قرآن کریم میں جہاد کا لفظ اپنے مذکور بالا عمومی معنی میں جابجا استعمال ہواہے ؛ چنانچہ فرمایا:" ﷲ کے راستہ میں کوشش کا حق ادا کرو" یہاں مسلمانوں سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ وہ راہ حق میں تن، من، دھن کی بازی لگادیں اور حق کو سربلند کرنے کے لیے جو کچھ کرسکتے ہیں کر گزریں، پھر ضروری نہیں کہ یہ جہا د یا جدوجہد دوسروں ہی کے مقابلہ پر ہو، اپنے خلاف بھی ہو سکتی ہے؛ بلکہ اپنے نفس کو زیر کرنا جو سینہ پر چڑھا بیٹھا ہے؛ چونکہ سب سے زیادہ مشکل ہے اس لیے اسے " جہاد اکبر" سب سے بڑا جہاد قرار دیا گیا ہے، ارشاد نبوی ہے :
" سب سے بہتر جہاد یہ ہے کہ آدمی اپنے نفس اور اپنی خواہش کے خلاف جہاد کرے "
بہر حال اسلام ایک اجتماعی مذہب ہے، وہ مسلمانوں کو حکم دیتا ہے کہ خود بھی صالح بنیں اور دوسروں کو بھی صالح بنائیں اور ایک ایسا معاشرہ قائم کریں جس کی بنیاد عدل، انصاف، مساوات، ہمدردی، نیکو کاری اور تقویٰ پر ہو، ہر شخص کو جان، مال، عزت اور عقیدہ کا تحفظ حاصل ہو، کوئی شخص اپنے فائدہ کے لیے دوسروں کو نقصان نہ پہنچائے اور ساری دنیا امن، آزادی اور محبت کے گیت گائے، اسلام اس انداز زندگی کو " سبیل ﷲ" (ﷲ تعالیٰ کا بتایا ہوا راستہ ) کے نام سے تعبیر کرتا ہے، قرآن کریم میں مسلمانوں کو حکم دیا گیا کہ ساری دنیا کو اس راستہ پر چلنے کی دعوت دیں مگر اس دعوت کا طریقہ یہ ہو کہ اس طریقہ زندگی کی مصلحتیں سمجھائی جائیں، اس کی خوبیاں دلوں میں اتاری جائیں، انداز بیان بھی ناصحانہ و مشفقانہ ہو اور اگر کبھی بحث کی صورت پیدا ہوجائے تب بھی سنجیدگی کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑا جائے :
" اور تم اپنی آ نکھ اٹھا کر بھی ( ان چیزوں کو رغبت سے ) نہ دیکھو جو ہم نے مختلف قسم کے لوگوں کو برتنے کے لیے دی ہیں اور (ان کی لاپروائی دیکھ کر ) ان پر غم نہ کرو اور مسلمانوں کے ساتھ تواضع کے ساتھ پیش آؤ۔ [321]
مگر دنیا میں سب لو گ یکساں نہیں ہوتے، جس طرح شیروں، بھیڑیوں اور چیتوں سے یہ امید نہیں کی جا سکتی کہ وہ بکریوں اور بھیڑوں پر رحم کریں گے اور ان کے ساتھ محبت و شفقت کا سلوک کریں گے اسی طرح انسانی معاشرہ میں بھی کچھ درندہ صفت انسان ہوتے ہیں جن سے انسانیت و شرافت کی توقع فضول ہے، اس لیے جب یہ انسانی درندے اﷲ کے بتائے ہوئے راستہ کو روک کر کھڑے ہوجائیں، امن عامہ کو غارت کرنے پر تل جائیں، فتنہ و فساد کے شعلے بھڑکائیں اور ان کو راہ راست پر لانے کے لیے جدوجہد کے پر امن ذرائع ناکام ہوجائیں تو پھر قرآن حکیم حکم دیتاہے کہ مسلمان ان کے مقابلہ میں طاقت کا استعمال کریں مگر شرط یہ ہے کہ :
1) طاقت کا استعمال اس لیے ہو کہ فتنہ و فساد کا استیصال ہو اور ہر شخص کی جان و مال و آبرو محفوظ ہو،
2) دین کا معاملہ ﷲ اور بندہ کا معاملہ سمجھا جائے، کسی دوسرے کو اس میں مداخلت کا حق باقی نہ رہے،
3) نیز طاقت کا استعمال بقدر ضرورت ہی کیا جائے، جب ضرورت پوری ہوجائے تو ہاتھ روک لیا جائے اور زیادتی نہ کی جائے، فرمایا گیا ہے:
" اور جو لوگ تم سے لڑیں تم بھی اللہ کی راہ میں(یعنی دین کی حمایت میں) ان سے لڑو مگر زیادتی نہ کرو؛ کیونکہ اللہ زیادتی کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا ہے"
[322]
یعنی جب فتنہ و فساد کا استیصال ہوجائے اور دین کے معاملہ میں آزادی کا حق تسلیم کرلیاجائے تو پھر کسی قسم کی سختی جائز نہیں؛ کیونکہ زیادتی اسی وقت تک جائز ہے جب تک ظلم کا وجود ہے۔
پہلا غزوہ، غزوہ ابواء یا ودّان(صفر 2ھ)
اللہ تعالیٰ کی طرف سے جہاد و قتال کی اجازت ملنے کے بعد ماہ صفر میں حضور(ﷺ (60 مہاجرین کے ساتھ قافلہ ٔ قریش کو روکنے کے لیے ابواء کی طرف روانہ ہوئے، روانگی سے قبل آپﷺ نے یہ دعا فرمائی:
" اے اللہ تو ہی میرا دست و بازو ہے اور نصیر و مدد گار ہے اور تیری مددسے ہی میں قتال کرتا ہوں اور تیرے دشمنوں سے جہاد کر کے ان کا قلع قمع کرتا ہوں،،
سفید علم حضرت حمزہؓ کے ہاتھ میں تھا، سفر ودّان پر ختم ہوا جہاں سے ابواء چھ میل کے فاصلہ پر ہے اور تجارتی کاروانوں کی منزل ہے، ابواء میں حضور ﷺ کی والدہ ماجدہ کامزار ہے، مسلمانوں کے وہا ں پہنچنے تک قریش اپنا پڑاؤ اٹھا چکے تھے، اس علاقہ میں بنو ضمرہ آباد تھے جن کے سردار مخشی بن عمرو نے مسلمانوں سے ان شرائط پر صلح کرلی کہ نا آپﷺ بنی ضمرہ سے جنگ کریں گے اور نہ وہ آپﷺ سے لڑیں گے نہ آپﷺ کے خلاف لشکر جمع کریں گے اور نہ دشمن کو مدد دیں گے[323] مخشی بن عمرو دوسرا خود مختار حکمران تھا جس نے مملکت مدینہ کو تسلیم کیا، تمام محدثین مغازی کی ابتدا اسی واقعہ سے کرتے ہیں، صحیح بخاری میں بھی اسی کو اول الغزوات قرار دیا گیا ہے، اس سفر میں آپﷺ مدینہ سے پندرہ دن باہر رہے اور اپنی عدم موجودگی میں خزرج کی شاخ بنو ساعدہ کے سردار حضرت سعدؓ بن عبادہ کو اپنا نائب مقرر فرمایا۔
غزوہ بواط(ربیع الاول 2 ہجری)
ماہ ربیع الاول میں ایک تجارتی کارواں کی مزاحمت کے لیے حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم (200) مجاہدین کے ساتھ بواط تشریف لے گئے جو مدینہ سے تقریباً 48 میل دور ہے، مدینہ میں حضرت سعدؓ بن معاذ کواور بہ روایت ابن ہشام سائبؓ بن مظعون کو نائب مقرر فرمایا، جھنڈا سفید رنگ کاتھا جسے حضرت سعدؓ بن ابی وقاص اٹھائے ہو ئے تھے، قریش کے اس تجارتی کارواں میں ڈھائی ہزار اونٹ تھے جس کی حفاظت کے لیے دو سو جنگجو سوار تھے، اس قافلہ کا سالار امیہ بن خلف تھا جس نے عام راستہ سے ہٹ کر تیزی سے اپنے قافلہ کو نکال لے جانے ہی میں اپنی عافیت سمجھی۔
انصار میں پہلے نومولود:
( ربیع الآخر 2ھ) یہود نے مشہور کر دیا کہ ہم نے حضور ﷺ کے اصحاب پر جادو کر دیا ہے اس لیے ان میں اولاد نرینہ نہیں ہوتی، ہجرت کے چودہ مہینے بعد ماہ ربیع الآخر میں حضرت بشیرؓ انصاری کے گھر نعمان ؓ پیدا ہوئے، جب آپﷺ بواط پہنچے تو وہاں کسی کو نہ پایا، اس طرح جنگ کی نوبت نہیں آئی اور آپﷺ مدینہ واپس لوٹ آئے۔
غزوہ ذی عُشیر(جمادی الثانی 2 ہجری)
اس غزوہ کا مقصد ابو سفیان کی قیادت میں شام کو جانے والے تجارتی کارواں کو روکنا تھا تا کہ قریش کو مرعوب اور دہشت زدہ کیا جائے، اس قافلہ میں پچاس ہزار اشرفیوں کا سامان ایک ہزار اونٹو ں پر لدا ہوا تھا، یہ قافلہ ابو سفیان کی سرکردگی میں تجارتی سامان لے کر شام جارہاتھاتاکہ وہاں سے مسلمانوں کے مقابلہ کے لیے سامان جنگ لائے، اس کے لیے قریش کی تمام آبادی نے جس کے پاس جو رقم تھی کل کی کل دیدی تھی، حضور اکرم ﷺجمادی الثانی 2 ہجری میں حضرت اُم سلمہ ؓ بن عبدالاسد مخزومی کو مدینہ میں اپنا نائب مقرر فر ما کر دو سو مجاہدین کے ساتھ مدینہ سے روانہ ہوئے، اس دستہ میں (30) اونٹ تھے جن پر مجاہدین یکے بعد دیگرے سوار ہوتے، سفید پرچم حضرت حمزہؓ کے ہاتھ میں تھا، یہ دستہ بطن ینبوع کے مقام عشیرہ میں خیمہ زن ہوا جو مدینہ سے (9) منزل تقریباً 108 میل کے فاصلے پر ہے، یہ بنی مدلج کا ایک موضع ہے، اس غزوہ کا دوسرا مقصد اس علاقہ میں بسنے والے قبائل سے دوستی کا معاہدہ کرنا تھاچنانچہ بنی مدلج کے سردار سُراقہ بن جعشم (جس نے سفر ہجرت میں آپﷺ کا تعاقب کیا تھا) نے حلیفی قبول کی اور مسلمان مجاہدین کی شاندار ضیافت کی، بلاذری کی" انساب الاشراف " کے مطابق اس ضیافت کے دوران قریشی کارواں بچ کر نکل گیا، اس علاقہ میں مسلمانوں نے تقریباً ایک مہینہ قیام کیا، ابن اسحاق کے مطابق حضور اکرم ﷺ جمادی الاول کے اواخر میں اس مہم پر روانہ ہوئے اور جمادی الآخر میں واپس ہوئے، اس لیے اس غزوہ کے مہینہ کے تعین میں اہل سیر کا اختلاف ہے۔
غزوۂ سفوان(بدر اولیٰ) (جمادی الثانی 2ھ)
غزوہ ذی عشیرہ سے واپس ہونے کے بعد دس روز گذرے تھے کہ ایک شب کرزبن جابر فہری نے جو مکہ کے روساء میں سے تھا مدینہ کی چراگاہ پر شب خون مارا اور بہت سے اونٹ اور بکریاں چرا کر لے گیا، جن میں حضور اکرم ﷺ کے اونٹ بھی تھے، یہ اطلاع ملتے ہی حضور ﷺ حضرت زیدؓ بن حارثہ کو مدینہ میں اپنا نائب مقررکر کے دو سو مجاہدین کے ساتھ کرز بن جابر کے تعاقب میں سفوان تک پہنچے جو نواح بدر میں ہے، اسی وجہ سے ارباب سیر اس کو غزوہ سفوان اور غزوہ بدر اولیٰ بھی کہتے ہیں، سفید پرچم حضرت علیؓ کے ہاتھ میں تھا، کر زبن جابر بچ کر نکل گیا، لڑائی نہیں ہوئی اور آپﷺ مدینہ واپس تشریف لائے۔
سریہ حضرت عبد اللہ بن جحش(رجب 2 ہجری)
سریہ حضرت عبد اللہ بن جحش(رجب2ہجری)
ماہ رجب میں حضور ﷺ نے حضرت عبد اللہؓ بن جحش آپﷺ کے پھوپی زاد بھائی اور ام المومنین حضرت زینبؓ کے بھائی کی امارت میں ایک گشتی دستہ روانہ فرمایا، اسلام قبول کرنے سے قبل حضرت عبد اللہؓ کا نام مربع تھا جسے حضور ﷺ نے بدل کر عبد اللہ رکھا، دار ارقم میں جانے سے پہلے مسلمان ہوئے حضور ﷺ نے اس دستہ کی امارت حضرت عبد اللہؓ کو عطا کی اور انھیں امیر المومنین کا خطاب بھی عطا فرمایا، اس دستہ میں مجاہدین کی تعداد( 12 )اور بہ اختلاف روایت (8) بتلائی گئی ہے، اس کا مقصد قریش کی نقل و حرکت معلوم کرنا تھا، آپﷺ نے حضرت عبدﷲؓ بن جحش کو ایک تحریر بند لفافہ میں دے کر فرمایا کہ دو دن کے سفر کے بعد اسے کھولنااور جہاں جانے کا حکم ہے وہاں جانا، دو دن کے بعد عبدﷲؓ بن جحش نے تحریر کھول کر دیکھی تو اس میں لکھا تھا کہ جب نخلہ جو طائف اور مکہ کے درمیان ہے پہنچ جاؤ تو قریش کے قافلہ کا انتظار کرو اور کسی ساتھی کو چلنے پر مجبور نہ کرو، جو چلنا چاہے اسے ساتھ لو اور جو واپس جانا چاہے اسے واپس کر دو، حسب ہدایت یہ لوگ مقام نخلہ پہنچے، یہ مقام مدینہ سے کافی دور اور نہایت پرخطر تھاکیونکہ جس نخلستان میں ان کو اترنے کا حکم تھا وہ ابن عامر کا باغ تھا اور مکہ کے قریب تھا، تو وہا ں کفار قریش کا قافلہ ملا جو تجارتی سامان لے کر آرہا تھا، اس میں عمرو بن الحضرمی، عثمان بن عبدﷲ بن مغیرہ مخزومی، اس کا بھائی نوفل بن عبد ﷲ اور حکیم بن کیسان جیسے ذمہ دار لوگ تھے، ابن ہشام کے مطابق رجب کا آخری دن تھا، مسلمانوں نے آپس میں مشورہ کیا کہ آج اگر کفار کو چھوڑ دیا گیا تو یہ لوگ حرم میں داخل ہو جائیں گے اور اگر روکا گیا تو لڑائی کا اندیشہ ہے جو اس ماہ حرام میں منع ہے، کسی نے کہا کہ رجب ختم ہو چکا ہے اور شعبان شروع ہو گیا ہے، بالآخر سب کا اتفاق اس پر ہوا جس کو قتل کرسکو کرو اور اسباب تجارت پر قبضہ کرلو، حضرت واقدؓ بن عبد اللہ تمیمی نے ایک تیر عمرو بن الحضرمی کو مارا جس سے وہ مارا گیا، یہ اسلام کی طرف سے پہلا قتل تھا، مسلمانوں نے دو افراد عثمان بن عبد اللہ اور حکم بن کسیان کو گرفتار کر لیا اور مال تجارت پر بھی قبضہ کر لیا، حضرت عبد اللہؓ بن جحش نے مال غنیمت کے پانچ حصے کیے اور پانچواں حصہ آنحضرت ﷺ کے لیے رکھ کر باقی سب مجاہدین میں برابر، برابر تقسیم کر دیا، یہ ان کا اجتہاد تھا اس لیے کہ مال غنیمت کے بارے میں ابھی تک احکام نازل نہیں ہوئے تھے۔
جب حضرت عبد اللہؓ بن جحش واپس ہوکر حضور ﷺ کی خدمت میں مال خُمس اور قیدی پیش کیے تو آپﷺ نے مال غنیمت لینے سے انکار کردیااور
فرمایا کہ: میں نے تمھیں ماہ حرام میں لڑائی کا حکم نہیں دیا تھا؛ چونکہ یہ سب کچھ حضرت عبد اللہ ؓ بن جحش نے اپنی ذمہ داری پر کیا تھا اس لیے
حضورﷺ کی سرزنش سے وہ خائف ہو گئے اور انھوں نے خیال کیا کہ اللہ تعالیٰ بھی ناراض ہوجائے گا، اس موقع پر سورۂ بقرہ کی آیات 217 اور 218 نازل ہوئیں جس کے ذریعہ اُن مخلص بندوں کی ڈھارس بندھائی گئی:
" اے پیغمبر (لوگ) تم سے عزت و حرمت والے مہینہ میں جنگ کرنے کی نسبت (حکم) دریافت کرتے ہیں، کہہ دو کہ اس مہینے میں جنگ کرنا بڑا گناہ ہے مگر لوگوں کو ﷲ کی راہ سے روکنا اور ﷲ کو نہ ماننا اور مسجد حرام ( خانہ کعبہ) میں جانے سے لوگوں کو روکنا اور مکہ کے رہنے والوں کو وہاں سے نکال دینا (جو یہ کفار کرتے ہیں) ﷲ کے نزدیک اس سے بڑا گناہ ہے اور فتنہ پردازی تو خوں ریزی سے بھی بڑھ کر ہے اور اے مسلمانویہ کفار ہمیشہ تم سے لڑتے رہیں گے یہاں تک کہ اگر ان کا بس چلے تو تم کو تمھارے دین سے پھیر دیں تم سے جو شخص اپنے دین سے پھر جائے اور کفر کی حالت میں مر جائے تو ایسے لوگوں کے اعمال دنیا اور آخرت میں برباد ہوجائیں گے اور یہی لوگ دوزخ میں جانے والے ہیں جس میں وہ ہمیشہ رہیں گے۔
[324]
" اور جو لوگ ایمان لائے اور جنھوں نے گھر بار چھوڑا اور ﷲ کی راہ میں جہاد کیا تو ایسے ہی لوگ رحمت کے امید وار ہیں اور ﷲ بڑا بخشنے والا اور رحم فرمانے والا ہے۔ [325]
جب قرآن مجید میں اس حکم کا نازل ہوا اور اﷲ تعالیٰ نے مسلمانوں کے خوف و ہراس کو دور فرمایاتو حضور اکرم ﷺ کے دل کا بوجھ ہلکا ہوا، قریش نے عثمان بن عبداﷲ اور حکم بن کیسان کی رہائی کے لیے جو فدیہ بھیجا اس کے قبول کرنے سے آپﷺ نے انکار فرمایا اور یہ فرمایا کہ : ہم ان دونوں کے مطابق تمھارا فدیہ (اس وقت تک ) قبول نہیں کریں گے جب تک کہ ہمارے دونوں آدمی (سعدؓ بن ابی وقاص اور عتبہؓ) نہ آجائیں ؛کیونکہ ان دونوں کے متعلق ہمیں تم سے اندیشہ ہے، پس اگر تم نے ان دونوں کو قتل کر دیا تو ہم بھی تمھارے دونوں آدمیوں کو قتل کر دیں گے۔ [326]
جب حضرت سعدؓ اور حضرت عتبہؓ آگئے تو حضور اکرم ﷺ نے ان سے فدیہ لے کر ان دونوں کو رہا کر دیا، حکم بن کیسان نے رہائی کے بعد اسلام قبول کر لیا اور عثمان بن عبداﷲ مکہ چلاگیااور کفر کی حالت میں مرا۔
یہ سریّہ بعض اعتبارات سے بڑی اہمیت کا حامل ہے اس لیے کہ اس کے دوران مسلمانوں کی جانب سے پہلا قتل ہوا، پہلے قیدی ملے، پہلی غنیمت ملی، امیر لشکر کو پہلی بار امیر المومنین کا خطاب ملا اور انھوں نے اپنی طرف سے پہلا اجتہاد کیا، بعد میں خلفائے راشدین میں سب سے پہلے حضرت عمرؓ امیرا لمومنین کے لقب سے پکارے گئے۔ [327]
حضرت عروہ ؓبن زبیر کا بیان ہے کہ غزوۂ بدر اوردوسری تمام لڑائیاں جو قریش کے ساتھ ہوئیں ان سب کا سبب یہی عمرو بن الحضرمی کا قتل تھا جو عبد اللہ حضرمی کا بیٹا تھا، گرفتار ہونے والے بھی بااثر لوگ تھے، طبری کے بیان کے مطابق جنگ بدر اور دوسری لڑائیاں جو مسلمانوں اور کافروں کے درمیان ہوئیں ان سب کا سبب عمرو بن عبد اللہ الحضرمی کا قتل تھا۔
یہ چند سرایا ء اور غزوات جو غزوہ بدر سے پہلے ہوئے ان میں سے کسی میں بھی لوٹ مار اور قتل و غارت گری کی نوبت نہیں آئی جب تک کہ مشرکین نے کرز بن جابر فہری کی قیادت میں لوٹ مار نہیں کی، اب تک مسلمانوں نے جو مہمیں روانہ کیں ان کا مقصد حفاظت خود اختیاری تھا لیکن لوٹ مار کی ابتدا مشرکین نے اپنے طرف سے کی، اس لیے سورہ بقرہ کی آیات 190 تا 193 کے ذریعہ جنگ کو فرض قرار دیا گیا اور سورہ محمد کی آیات 4 تا 7 میں جنگ کا طریقہ بتلایاگیا:
" اور جو لوگ تم سے لڑیں تم بھی ﷲ کی راہ میں (یعنی دین کی حمایت میں) ان سے لڑو مگر زیادتی نہ کرو کیونکہ ﷲ زیادتی کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا (190) اور ان کو جہاں پاؤ قتل کرو اور جہاں سے انھوں نے تم کو نکالاہے تم بھی ان کو نکال باہر کرو اور فتنہ و فساد قتل و خوں ریزی سے کہیں بڑ کر ہے او ر جب تک وہ تم سے مسجد حرام(یعنی کعبہ)کے پاس نہ لڑیں تم بھی وہاں ان سے نہ لڑو، ہاں اگر وہ تم سے لڑیں تو تم بھی ان کو مارو، ان کافروں کی یہی سزاہے(191) پھر اگر وہ اپنی حرکتوں سے باز آجائیں تو اﷲ بخشنے والا مہربان ہے(192) اور ان سے اس وقت تک لڑتے رہو کہ ملک میں فتنہ و فساد باقی نہ رہے اور دین سب ﷲ کا ہوجائے پھر اگر وہ (فتنہ و فساد سے )باز آجائیں تو ظالموں کے سوا کسی پر زیادتی نہ کرنی چاہیے(193)[328]
سورہ محمد آیات 4 تا 7… " (اے مسلمانو)جب تمھارا کافروں سے مقابلہ ہوجائے تو ان کی گردنیں اڑادو یہاں تک کہ جب ان کو خوب قتل کرچکو تو (جو زندہ پکڑے جائیں )ان کومضبوط جکڑ دو پھر اس کے بعد یا تو احسان رکھ چھوڑ دو یا کچھ مال لے لو یہاں تک کہ لڑائی والے اپنے ہتھیار رکھ دیں یہی (حکم ہے)اور ﷲ چاہتا تو ان سے انتقام لے لیتا لیکن اس نے چاہا کہ تم میں سے بعض کو بعض کے ساتھ آزمائے اور جو لوگ ﷲ کی راہ میں مارے گئے تو ﷲ ہرگز ان کے عملوں ضائع نہیں کرے گا(4) بلکہ ان کو منزل مقصود تک پہنچائے گا اور ان کی حالت درست کرے گا(5) اور ان کو بہشت میں داخل کرے گا جس کی پہچان ان کو بتادی ہے(7) اے ایمان والو ! اگر تم ﷲ کی مدد کروگے تو وہ تمھاری مدد کرے گا اور تم کو ثابت قدم رکھے گا(7) [329]
تحویل قبلہ(شعبان 2 ہجری)
مکہ میں حضوراکرم ﷺ رکن یمانی اور حجر اسود کے درمیان بیت المقدس کی طرف منہ کرکے نمازپڑھتے تھے اور کعبہ بھی آپﷺ کے سامنے ہوتاتھا جیسا کہ امام احمد نے ابن عباسؓ سے نقل کیا ہے، جب ہجرت کے بعد مدینہ چلے آئے تو دونوں (بیت اﷲ اور بیت المقدس) کی طرف منہ کرنا ناممکن تھا تو آپﷺ 16 یا 17 ماہ بیت اﷲ کی طرف پشت کرکے بیت المقدس کی طرف رخ کرکے نماز پڑھتے رہے۔
مکہ میں آنحضرتﷺ کو دو ضرورتیں ایک ساتھ پیش تھیں، ملت ابراہیمی کی تاسیس و تجدید کے لحاظ سے کعبہ کی طرف رخ کرنے کی ضرورت تھی لیکن مشکل یہ تھی کہ قبلہ کی جو اصلی غرض ہے یعنی امتیاز اور اختصاص وہ نہیں حاصل ہوتی تھی؛ کیونکہ مشرکین اور کفار بھی کعبہ ہی کو اپنا قبلہ سمجھتے تھے، اس بنا پر آنحضرت ﷺ مقام ابراہیم کے سامنے نماز ادا کرتے تھے جس کا رخ بیت المقدس کی طرف تھا، اس طرح دونوں قبلے سامنے آجاتے تھے، مدینہ میں دو گروہ آباد تھے، مشرکین جن کا قبلہ کعبہ تھا اور اہل کتاب جو بیت المقدس کی جانب نماز ادا کرتے تھے، شرک کے مقابلہ میں یہودیت اور نصرانیت دونوں کو ترجیح تھی اس لیے آنحضرتﷺ نے تقریباً 16 مہینے تک بیت المقدس کی طرف منہ کرکے نماز ادا کی؛ لیکن جب مدینہ میں اسلام زیادہ پھیل گیا تو اب کوئی ضرورت نہ تھی کہ اصل قبلہ کو چھوڑ کر دوسری طرف رخ کیا جاتا اس موقع پر سورہ بقرہ کی آیت نمبر 144 نازل ہوئی۔ [330]
" ہم آپ کے چہرہ کو بار بار آسمان کی طرف اٹھتے ہوئے دیکھ رہے ہیں، اب ہم آپ کو اس قبلہ کی طرف پھیر دیتے ہیں جسے تم پسند کرتے ہو، آپ اپنا منہ مسجد حرام کی طرف پھیرا کریں اور آپ جہاں کہیں بھی ہوں اس طرف پھیرا کریں۔ [331]
اس حکم کے نازل ہونے کے بعد قبلہ بدل گیا اور خانہ کعبہ کی طرف رخ کرکے نماز ادا کی جانے لگی، شاہ مصباح الدین شکیل لکھتے ہیں کہ حضور اکرم ﷺکا یہ طریقہ تھا کہ جن باتوں میں وحی نہ آتی، انبیا بنی اسرائیل کی موافقت فرماتے، اللہ تعالیٰ نے بھی یہودیوں کی تالیف قلب کے لیے بیت المقدس ہی کو قبلہ رہنے دیا ؛حالانکہ حضورﷺ کا اور مسلمانوں کادل یہ چاہتا تھا کہ کعبہ قبلہ ہو، ہجرتِ مدینہ کے بعد بھی حضرت قتادہؓ کی روایت کے مطابق سو لہ مہینے اور حضرت عبد اللہ ؓ بن عباس کی روایت کے مطابق سترہ مہینے تک آپﷺ بیت المقدس ہی کی طرف منہ کر کے نماز پڑھتے رہے، طبری نے یہ مدت اٹھارہ مہینے لکھی ہے، حضورﷺ نے یہ محسوس فرمایا کہ یہودی کسی قیمت پر بھی اسلام قبو ل کرنے پر آمادہ نہیں ہیں اور یہ بھی کہنے لگے ہیں کہ مسلمان قبلہ کے معاملہ میں ہماری موافقت کرتے ہیں اور دین میں مخالفت جو عجیب قسم کا تضاد ہے، یہود کی یہ باتیں سن کر حضورﷺ کا دل چاہتا تھا کہ کعبہ ہی ہمار قبلہ ہو جائے۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم صحابہ کرام کے ساتھ حضرت بشر بن برا ؓ بن معرور کے پاس دعوت میں تشریف لے گئے تھے، ظہر کا وقت آیا تو محلہ بنو سلمہ کی مسجد میں نماز پڑھانے کھڑے ہوئے، ایک روایت کے مطابق دو رکعتیں پڑھا چکے تھے اور دوسری روایت کے مطابق دوسری رکعت کے رکوع میں تھے کہ تحویل قبلہ کا حکم سورۂ بقرہ کی آیت 144 کے ذریعہ نازل ہوا اور حضورﷺ نماز کے دوران ہی فی الفور کعبہ کی طرف رُخ کرلئے، جماعت میں موجود صحابہ کرام نے بھی اپنا رُخ کعبہ کی طرف کر لیا، اُس دن سے اس مسجد کا نام " مسجد قبلتین،، پڑ گیا، قبلہ کی تبدیلی کی تاریخ اور مہینہکے بارے میں اختلاف ہے، ابن جوزی نے " الو فا" میں منگل 15 شعبان 2 ہجری لکھی ہے، لیکن مورخین اور محدثین کا زیادہ رحجان ماہ رجب کی طرف ہے۔
اذان کی ابتدا
اسلام کی تمام عبادات کا اصلی مرکز وحدت و اجتماع ہے، اس وقت تک کسی خاص علامت کے نہ ہونے کی وجہ سے نماز باجماعت کے لیے مسلمانوں کو بلانے میں دشواری تھی، لوگ وقت کا اندازہ کرکے آتے تھے اور نماز پڑھتے تھے، آنحضرتﷺ کو یہ پسند نہ تھا، آپﷺ نے خیال کیا کہ کچھ لوگ مقرر کردیے جائیں جو وقت پر لوگوں کو گھروں سے بلا لائیں؛ لیکن اس میں زحمت تھی، صحابہؓ کو بلاکر مشورہ کیا، لوگوں نے مختلف رائیں دیں، کسی نے کہا کہ نماز کے وقت مسجد میں ایک علم کھڑا کردیاجائے جسے دیکھ کر لوگ آتے جائیں گے آپﷺ نے یہ طریقہ ناپسند فرمایا، عیسائیوں اور یہودیوں کے یہاں اعلان نماز کے جو طریقہ ہیں وہ بھی آپﷺ کی خدمت میں عرض کیے گئے، یہودی ایک بگل بجا کر لوگوں کو اپنی نماز کی طرف بلاتے تھے آپﷺ نے ایسا طریقہ کرنے کو پسند نہیں کیا، پھر آپﷺ کے سامنے عرض کیا گیا کہ ناقوس بجا کر مسلمانوں کو نماز کی اطلاع دی جائے؛ لیکن آپﷺ نے اس کو بھی پسند نہیں فرمایا، آپﷺ اسی حال میں فکر مند تھے کہ عبدﷲ ؓ بن زید بن ثعلبہ بن عبدربہ خزرجی انصاری نے " اذان کا خواب دیکھا، انھوں نے عرض کیا یا رسول ﷲﷺ ! رات کو میرے پاس خواب میں کوئی آیا جو سبز لباس پہنے ہاتھ میں ناقوس لیے ہواتھا، میں نے کہا یا عبدﷲ! کیا یہ ناقوس فروخت کروگے ؟ اس نے پوچھا کیا کروگے، میں نے بتایا کہ ہم اس کے ذریعہ مسلمانوں کو نماز کی طرف بلائیں گے، اس نے کہا، کیا میں تمھیں اس سے بہتر بات نہ بتاؤں؟ پوچھا وہ کیا ہے؟ اس نے بتایا کہ تم (نماز کے لیے اس طرح اذان) کہو، ﷲاکبر(چاربار) اشھدان لاالہ الا ﷲ (دوبار) اشھدان محمد رسول ﷲ(دوبار) حی علی الصلواۃ (دوبار) حی علی الفلاح(دوبار) ﷲ اکبر(دوبار) لا الہ ﷲ(ایک بار) جب عبدﷲؓ بن زید نے یہ خواب رسول ﷲ ﷺ کے گوش گزار کیا تو آپﷺ نے فرمایا " انشاﷲ یہ خواب سچا ہے، پس بلال ؓ سے کہو کہ وہ ان کلمات سے اذان کہیں اس لیے کہ وہ بلند آواز ہیں، حضرت عمرؓ نے حضرت بلالؓ کی اذان اپنے گھر میں سنی تو جلدی سے رسول ﷲﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا ! یا رسول ﷲﷺ اس ذات کی قسم جس نے آپﷺ کو مبعوث کیا ہے میں نے بھی ایسا ہی خواب دیکھا ہے تو حضورﷺ نے فرمایا ! فللّہ الحمد، ﷲ کا ہی شکر ہے، اس دن سے اذان کا یہ طریقہ شروع ہوا۔ [332]
جب موذن اذان دے تو سننے والوں کو حضورﷺ نے حکم دیا کہ جب اذان سنے تو مؤذن کے مثل اسے دُہراتے رہو اور جب موذن حی علی الصلٰوۃ اور حی علی الفلاح کہے تو اس کے جواب میں لاحو ل ولا قوۃ الا با للہ پڑھا کرو اور اذان کے بعد خاص دعا پڑھا کرو۔
مسجد نبوی کے دو موذن تھے، ایک حضرت بلالؓ اور دوسرے نابینا حضرت عبد اللہ ؓبن اُم مکتوم تھے، نماز فجر کی اذان حضرت بلالؓ تہجد کے وقت دیا کرتے تھے، صبح صادق ہوتے ہی حضرت عبد اللہ ؓ اذان دیا کرتے، بعد میں بھی مدینہ میں فجر کی دو اذانوں کا معمول رہا، نماز جمعہ کی فرضیت کے بعد اس کی اذان اس وقت شروع ہوئی جب حضور ﷺ خطبہ دینے کے لیے آکر مسجد میں بیٹھ جاتے، حضرت عثمانؓ نے اپنے دورِ خلافت میں جمعہ کے دن پہلی اذان دینے کا حکم دیا تا کہ لوگ مسجد میں آنے میں جلدی کریں، جمعہ کے دن اذان ہونے کے بعد خرید و فروخت منع ہے البتہ نماز جمعہ ختم ہونے کے بعد تجارت کی جا سکتی ہے۔
رمضان کے روزے (شعبان 2 ہجری)
ماہ شعبان کے آخری عشرہ میں سورۂ بقرہ کی آیت 183 نازل ہوئی جس کے ذریعہ رمضان کے روزے فرض کیے گئے:
" اے ایمان والو ! تم پر روزے فرض کیے گئے ہیں جس طرح تم سے پہلے لوگو ں پر فرض کیے گئے تا کہ تم متقی بن جاؤ" [333]
تاریخ سے پتہ چلتا ہے کہ روزے صرف اُمت ِ مسلمہ ( اُمت محمدیﷺ) ہی کے لیے فرض نہیں کیے گئے تھے؛ بلکہ ہر نبی کی اُمت نے روزے رکھے تھے، حضرت آدم علیہ السلام ہر مہینہ کی تیرہ، چودہ اور پندرہ تاریخ کو روزہ رکھا کرتے تھے، حضرت نوح علیہ السلام طوفان ختم ہونے کے بعد کشتی سے اترے اور قربانی کرنے کے بعد ماہ رمضان کے روزے رکھے، حضرت ابراہیم علیہ السلام صابی قوم میں مبعوث ہوئے تو آپ نے پورے تیس روزے رکھے اور فرمایا کہ روزے اللہ کے لیے ہیں، حضرت داؤد علیہ السلام ایک دن روزہ رکھتے اور ایک دن نہیں رکھتے، حضرت موسیٰ علیہ السلام بنی اسرائیل کو
مصریوں کی غلامی سے آزاد کرانے کے بعد جب کوہ طور پر تشریف لے گئے تو ایک مہینہ تک روزہ رکھے اور پھر اس مدت میں مزید دس دن بڑھا کر چلہ پورا کیا جس کے بعد آپ کو توریت عطا ہوئی، حضرت موسیٰ ؑ کی اُمت بھی چالیس دن تک روزہ رکھتی تھی؛ لیکن بعد میں انھوں نے یہ پابندی اٹھالی اور اس کی بجائے چوبیس گھنٹے کا روزہ رکھنا شروع کر دیا، یہود