ستمبر1965ء کی پاک بھارت جنگ میں حصہ لینے والی آبدوز کا نام ’’غازی‘‘ تھا۔ یہ ایک امریکی آبدوز تھی ،اس کا اصل نام ڈیابلو تھا جسے 1944ء میں پورٹس مائوتھ نیوی نے بنایا تھا۔جب کہ اسے 1963ء میں پاکستان نیوی نے چار سالہ لیز پر لیا۔اسے ایک وقت میں 28زیر آب تیر کر مار کرنے والے بمو ں سے لیس کیا جا سکتا تھا۔اس آبدوز کی بڑی خوبی یہ تھی کہ اس کی مدد سے بارودی سرنگیں بھی بچھائی جا سکتی تھیں۔ــ’’غازی‘‘ کے اعزاز میں 2 ستارہ جرأت اور8 ایوارڈ دیے گئے۔ ’’غازی‘‘ نے 1965ء کی جنگ کا پورا عرصہ بھارت کے ایک بحری جنگی اڈے’’دوراکا‘‘ کے گردوپیش میں گزارا۔ بھارتیوں کواس کی موجودگی کا علم تھا اس لیے انھوں نے چند مرتبہ آبدوز شکن فریگیٹ اس کی تلاش میں روانہ کیے۔ لیکن وہ سب اتنے چھوٹے تھے کہ ’’غازی‘‘ کے لیے ان کی طرف متوجہ ہونا بے سود تھا۔ ویسے بھی وہ غازی کے قریب آنے سے گھبراتے تھے۔ بھارت کے راڈار عملے نے غازی کی موجودگی کی اطلاع کمانڈروں تک پہنچا دی تھی، مگر غازی کے قریب جانے اور اس پر حملہ آور ہونے سے موت کا خطرہ بھی ممکن تھا اس لیے بھارتی بحریہ کے کمانڈروں نے ہمیشہ یہ رپورٹ پیش کی کہ آس پاس کسی آبدوز کے آثار نہیں تھے، بلکہ وہ تلاش بھی اس رُخ کرتے تھے جہاں انھیں یقین ہوتا تھا کہ’’غازی‘‘ موجود نہیں ہے۔ بالآخر ’’غازی‘‘ کے کمانڈر کرامت رحمان نیازی اس انتظار سے تنگ آگئے۔ ان کے احکام یہ تھے کہ سوائے بھارتی طیارہ بردار’’وکرنت‘‘ یا بھارتی کروزوں کے وہ کسی چھوٹے جہاز پر حملہ نہ کریں۔ یہ تینوں جہازمرمت کے سلسلے میں بندرگاہوں میں تھے اور ایسا محسوس ہورہا تھا کہ ان کے کپتان ان جہازوں کی مرمت جنگ کے بعد ہی مکمل کر پائیں گے۔ کمانڈر نیازی نے اجازت طلب کی کہ جو بھارتی جہاز بھی ان کے قریب آئے وہ اس پر حملہ کر دیں۔ 20,19ستمبر کی شب کو یہ اجازت مل گئی۔ 22ستمبر کی شام کو غروب آفتاب کے قریب انھیں پہلی بار بھارتی جہازوں کو دیکھنے کا موقع ملا۔ چار بھارتی جہاز بندر گاہ سے باہر نکلے۔ یہ چاروں فریگیٹ تھے جو ساحل پر نصب راڈاروں کے ذریعے’’غازی‘‘ کو تلاش کر رہے تھے۔ کمانڈر نیازی نے ’غازی‘‘ کو تہ آب کے قریب کیا اور ان پر تار پیڈو چھوڑ دیے۔ انھوں نے دو خوفناک دھماکوں کی آواز سنی۔ اس کے بعد بھارتی بحریہ اور بھارتی فضائیہ کے جہازوں نے ’’غازی‘‘ کو ڈھونڈنے کی کوشش کی مگر ’’غازی‘‘ کے عملے کو اس طرح کی کوششوں کو ناکام کرنے کا طریقہ معلوم تھا اور وہ اپنا مشن مکمل کر کے وہاں سے دور نکل چکے تھے۔ ’’غازی آبدوز کا سُراغ نہ مل سکنے اور اُسے تباہ نہ کرنے کے جُرم میں29ستمبر 1965ء کو بھارتی حکومت نے بھارتی بحریہ کے کمانڈران چیف کو ملازمت سے برطرف کر دیا۔ یوں غازی 65ء کی جنگ میں اپنی دھاک بٹھانے میں کامیاب رہی۔ 1971ء کی پاک بھارت جنگ سے پہلے آبدوز’’غازی‘‘ کراچی سے چٹا گانگ جاتے ہوئے ایک پُراسرار حادثے کا شکار ہو گئی۔ اس کے تباہ ہونے کا قصہ بھی اپنے پیچھے ایک کہانی رکھتا ہے۔ 14نومبر 1971ء کو ــ’’غازی‘‘کو کمانڈر ظفر محمد خان کے حکم پر گشت کے لیے بندرگاہ سے باہر سفر کرنا پڑا۔اس مہم میں منصوبے کے مطابق 26 نومبر کو واپس رپورٹ بھیجنا تھی لیکن مطلوبہ دن بیس کمانڈر کے بار بار ــ’’غازـی‘‘کو پیغام بھیجنے کے باوجود کوئی جواب موصول نہ ہوا۔بارہا کوشش کرنے کے باوجود مواصلاتی رابطہ قائم نہ ہونے کی صورت میںنیول ہیڈکوارٹر میں بے چینی دن بدن بڑھتی رہی۔پھر 9دسمبر کو بھارتی بحریہ کی جانب سے یہ دعویٰ کیا گیا کہ 3دسمبر کی رات ’’غازی‘‘ آبدوز ڈوب چکی ہے۔بعد میں انڈیا کی جانب سے کہا گیا کہ ’’غازی‘‘بھارتی بحریہ کی جانب سے کی گئی کارروائی کی وجہ سے تباہ ہوئی۔جبکہ پاکستان نیول انٹیلی جینئس نے یہ بیان جاری کیا کہ پاکستانی بحریہ کی جانب سے بارودی سرنگیں بچھاتے ہوئے اتفاقیہ طور پر ’’غازی‘‘حادثے کا شکار ہو گئی۔بعد میں حمودالرحمن کمیشن کو واقعہ کی تحقیقات کا حکم دیا گیا۔ایک مصری افسر نے گواہی دی تھی کہ جب ــ’’غازی‘‘میں دھماکا ہوا، اس وقت بھارتی علاقے وکشاپتنم کے ساحل پربھارتی بحری جہاز دیکھا گیااور اس دھماکے کے ایک گھنٹے بعد وہ جہاز اس ساحل سے دور جاتا دکھائی دیا۔یوں آج تک یہ معما ہی ہے کہ ’’غازی ‘‘کی تباہی کے اصل اسباب کیا تھے۔ بعد ازاں امریکا اور سوویت یونین نے ’’غازی‘‘ کے تباہ ہونے کی وجوہ جاننے اور اس کا ملبہ اُٹھانے کی بھی پیش کش کی لیکن بھارتی حکومت نے اسے مسترد کر دیا۔ایک محفوظ رائے یہ ہے کہ آبدوز اپنے اندرونی نظام میں خرابی کے باعث دھماکے سے پھٹی اسے کسی دشمن نے نقصان نہیں پہنچایا۔ 41سال گزرنے کے بعد بھی اس قومی نقصان اور سانحہ پر پڑا اسرار کا پردہ چاک نہیں ہو سکا۔ یوں ایک ایسی آب دوز جو اپنی کارکردگی کی خوبی کی بنیاد پر انتہائی پُر اسرار اور بھارتی بحریہ کے لیے خوفناک عفریت سمجھی جاتی تھی فی الحقیقت پر اسرار حالات کے گھاٹ اتر گئی،

مزید دیکھیے ترمیم