غایۃ البیان
غایۃ البيان و نادره الاقران یہ شرح الہدایہ جو فقہ حنفی کی مشہور و معروف کتاب ہے
- اسم مؤلف: امير كاتب لطف الله بن امير عمر بن امير غازی، الفارابى العميدی الاتقانی کنیت قوام الدَّين
- المشہور: الاتقانی
- المشہور: امير كاتب
- ولادت:685ھ
- تاريخ وفات: 758ھقاہرہ۔[1]
امیر كاتب العمید بن امیر عمر و بن امیر رغازی اتفاقی : آپ کا مولد قصبہ اتقان تھا جو ملک ترکستان میں نہر سیحون کے پار کی طرف واقع ہے۔ کنیت ابو حنیفہ اور قوام الدین لقب رکھتے تھے۔ بعض نے کہا ہے کہ نام آپ کا لطف اللہ تھا۔ ماہ شوال 685ھ میں پیدا ہوئے۔ احمد بن اسعد خرلفینی شاگر د حمید الدین علی ضریر بخاری تلمیذ شمس الائمہ کردری اور اپنے ملک کے دیگر علماء کرام و فضلائے عظام سے متعدد علوم حاصل کئے اور نیشاپور میں جاکر مصنف کتاب کافی سے فخر الاسلام کا اصول پڑھا یہاں تک کہ علمائے حنفیہ کے سردار اور فقہ وحدیث، لغت عربی وغیرہ میں اعلیٰ درجہ کے لائق فائق ہوئے آپ ہلیلہ سیز اور اور لہسن خام اکثر کھایا کرتے تھے۔ آپ حجاز کے سفر میں تھے تو کتاب منتخب سنامی کی شرح تعیین نام تصنیف کرنی شروع کی اور لیلتہ البراءۃ میں اس کو ختم کیا۔ 730 ھ میں دمشق میں تشریف لائے۔ یہاں آپ کو ایک دن امیر نائب سلطنت کے ساتھ نماز مغرب پڑھنے کا اتفاق ہوا۔ امام نماز نے رفع الیدین کیا۔ آپ نے اس کو کہا کہ امام امام اعظم اعظم کے مذہب کے رُو سے آپ کی نماز باطل ہوئی۔ رفتہ رفتہ یہ خبر قاضی تقی الدین سبکی شافعی المذہب کو پہنچی، انہوں نے آپ کی تردید کی پس آپ نے ایک مستقل رسالہ رفع الیدین کے بطلان میں لکھا اور اس کو مکحول صفی کی روایت سے جنہوں نے امام اعظم سے بطلان رفع الیدین کی روایت الیدین کی روایت کی ہے ، مستند کیا۔ اس بات سے آپ اور امیر مزکور کے درمیان شکر رنجی ہو گئی اس لیے آپ مصر کو چلے گئے جہاں ماہ محرم 731ھ میں پہنچے اور لوگوں کی درخواست پر آپ نے ہدایہ کی شرح مسمی بہ غایۃ البیان و نادرة الا قمران تصنیف کی اور دیباچہ میں لکھا کہ میں ہدایہ کی روایت کو پانچ طریق سے صاحب ہدایہ تک پہنچاتا ہوں۔ علاوہ اس کے ایک رسالہ شہر میں دو جگہ جمعہ کے پڑھنے کے عدم جواز میں تصنیف کیا پھر مصر سے بغداد میں واپس آئے اور یہاں مدت تک مشہد امام ابو حنیفہ کے مدرس مقرر رہے اور قضاء و افتاء کا کام کرتے رہے۔ ۷۴۷ھ میں پھر دمشق میں تشریف لائے اور زہی کی وقت پر ظاہر یہ میں مدرسہ دار الحدیث کے مدرس مقرر ہوئے اور شافعیوں سے ہمیشہ مشاجرات معارضات رکھا کرتے تھے پھیر ۷۵۱ھ کو مصر میں گئے جہاں امیر صر ختمش نے آپ کی بڑی تعظیم و تکریم کی اور 757ھ میں اپنےمدرسہ صر عتمشیہ کا جو آپ کی خاطر اس نے بنوایا تھا، مدرس مقرر کیا۔آپ نے اپنی عمر کا اندازہ کیا کہ میں اب ایک سال سے زیادہ زند گیانی نہ کروں گا چنانچہ ایسا ہی ہوا کہ تاریخ ماہ شوال 758ھ میں آپ نے وفات پائی ۔ آپ میں کوئی کسی طرح کا عیب نہ تھا بجز اس کے کہ آپ بڑے معتصب و خود پسند تھے چنانچہ اپنی کتاب تبیین کے آخر میں لکھتے ہیں کہ اگر اسلاف میری زندگانی میں ہوتے تو البتہ مجھ کو مصنف ٹھہراتے چنانچہ امام ابو حنیفہ اجتہدت اور امام ابو یوسف نار البیان او قدت اور امام محمد احسنت اور امام ز فر اتقنت اور حسن امعنت اور ابو حفص انعمت فی ما نظرت اور ابو منصور حققت اور طحطاوی صدقت اور کرخی بورک فی ما نطقت اور جساس احکمت اور ابوزید اصبت اور شمس الائمہ وجدت ماطلبت اور فخر الاسلام مہرت اور نجم الدین نسفی بہرت اور صاحب ہدایہ غواص البحر عبرت اور صاحب محیط فقت فی ما اعلنت اور متنبی انت من الفصحاء کا خطاب دیتے۔ [2]