قبیلہ بنی مصطلق نے غزوہ احد میں قریش کے ساتھ سازشیں کی تھیں جس کے بعد انھوں نے مسلمانوں سے جنگ کی تیاری شروع کر دی۔ حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو اس کا علم ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے مسلمانوں کو جنگ کے لیے تیار کیا اور شعبان 6ھ میں مریسع کے مقام پر قبیلہ بنی مصطلق کے ساتھ جنگ کی جس میں جب ان کے دس افراد ہلاک ہو گئے تو وہ فرار ہونا شروع ہو گئے۔ مسلمانوں کے پاس دو ہزار اونٹ، پانچ ہزار بھیڑیں مال غنیمت کے طور پر آئیں اور لاتعداد قیدی بھی ہوئے جن میں عورتیں اور بچے شامل تھے۔ مدینہ پہنچنے کے بعد حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اس قبیلہ کے سردار حارث بن ابی ضرار کی بیٹی (جویریہ) سے فدیہ دینے کے بعد نکاح کر لیا۔ جویریہ رَضی اللہُ تعالیٰ عنہا جس شخص کی قیدی بنی تھیں ان سے انھوں نے کہا کہ میں تمھیں فدیہ دے کر آزاد ہونا چاہتی ہوں مگر ان کے پاس پیسے نہیں تھے۔ وہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے پاس آئیں، اپنا تعارف کروایا اور ان سے فدیہ دینے کے سلسلے میں مدد طلب کی۔ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا کہ کیا تمھیں پسند ہے کہ میں تمھارے لیے اس سے بہتر کام انجام دوں؟ جن پیسوں کی تم قرضدار ہو اس کو میں ادا کر دوں اور تم سے شادی کر لوں۔ جویریہ رَضی اللہُ تعالیٰ عنہا اس بات سے نہایت مسرور ہوئیں چنانچہ ایسا ہی ہوا۔ جب ایسا ہوا تو مسلمانوں نے حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے اس نئی قرابت داری کی وجہ سے اپنے قیدیوں کو فدیہ لیے بغیر ہی رہا کر دیا۔ اس حسنِ سلوک کی وجہ سے تمام افراد مسلمان ہو گئے اور اپنے گھروں کو لوٹ گئے۔۔[1][2]

حوالہ جات

ترمیم
  1. السیرۃ النبویۃ از ابن ھشام جلد 3 صفحہ 307 تا 308
  2. تاریخ طبری جلد 2 صفحہ 02