غلامی اسلام کا ادارہ نہیں تھا۔ اسلام کو سماج سے ورثہ میں ملا۔ اس کی اصلاح کے لیے اسلام میں سب سے پہلا کام یہ کیا کہ یہ قانون بنایا کہ مفتوحہ قوم کے افراد نہیں بلکہ صرف جنگی قیدی یعنی جو میدان جنگ میں مسلمانوں کے خلاف لڑنے آئیں گے جنگ کے خاتمے کے بعد گرفتار کیے جائیں گے۔ اگلے مرحلہ پر اما منا بعد و اما فداء پر عمل کرتے ہوئے انھیں بلا معاوضہ یا فدیہ لے کر یا اپنے قیدیوں کے تبادلہ میں رہا کر دیا جائے گا ۔ اس دور میں بین الاقوامی قوانین اور ریاستی حدود کے تحفظ نہ ہونے کی وجہ سے کچھ قیدی ایسے بچ رہتے تھے جنہیں کوئی رہائ دلانے والی ریاست باقی نہیں ہوتی تھی یا خاندان قبیلہ ختم ہو جاتا تھا۔ اس لیے ان کی واپسی کی راہ نہیں رہتی تھی۔ ایسے افراد کو کیمپوں میں رکھنے سے سماجی برائیاں جنم لے سکتی تھی اور ریاست پر بار بھی ہوتا اس لیے انھیں انفرادی طور پر مجاہدین میں تقسیم کر دیا جاتا تاکہ وہ اسلامی معاشرے میں جذب ہو سکیں۔ اور کوئی منظم سازش نہ کر سکیں اور ان کا بوجھ تقسیم ہو جائے انھیں پبدا آوری کاموں میں لگایا جا سکے .

ان کی دیگر ضروربات کے علاوہ ان کی جنسی ضروریات کا خیال نہ رکھا جاتا تو اسلامی معاشرہ طوائفوں اور بے مہار سانڈوں کا معاشرہ بن جاتا۔ اس لیے اس کا یہ اہتمام کیا گیا کہ ان کی آپس میں شادیاں کروا دی جائیں تاکہ وہ پاکیزہ با عزت زندگی گزاریں۔ جو باندی کسی کے نکاح میں آجائے وہ دوسرے کسی کے لیے حتی کہ مالک کے لیے بھی حرام ہوجاتی ہے۔ اگر کسی باندی کا مالک اپنی باندی سے جنسی تعلق رکھنا چاھے تو اسے سماج میں نکاح کی طرح مشتہر کرے۔ خفیہ تعلقات نہیں ہوں۔ البتہ ایسی صورت میں باندی کی رضا مندی کو اس قانونی پیچیدگی کی وجہ سے ضروری نہیں سمجھا گیا کہ نکاح ایک آزادانہ معاہدہ ہے جو دو آزاد اور خود مختار فریقین میں ہوتا ہے اور یہاں ایک فریق آزاد اور خود مختار نہیں ہے اس لیے اس کی طرف سے اس کا مالک وکیل ہو گا ۔

قرون وسطی کی غلامی کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں، وہ حاجیوں کے قافلوں اور تجارتی قافلوں کو لوٹ کر غلام باندیاں بنا کر بیچ دینا اور اسے اسلامی سمجھنا اسلام کے خوبصورت ماتھے پر کلنک کا ٹیکہ تھا۔[1]

حوالہ جات ترمیم

بیرونی روابط ترمیم