تعارف

ترمیم

راہی گبول یکم دسمبر 1952ء کو حاجی ساون خان گبول کے ہاں بستی گبول، موضع شبیر آباد بھونگ شریف، تحصیل صادق آباد میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم بھونگ شریف سے حاصل کی۔ 1968ء میں ہائی اسکول صادق آباد سے میٹرک،1971ء میں ایف۔ اے اور 1974ء میں گورنمنٹ خواجہ فرید کالج رحیم یارخان سے بیچلر آف آرٹس کی ڈگری حاصل کی۔ زمانۂ طالب علمی سے ہی آپ کو اُردو شاعری سے شَغف تھا۔ بعد میں آپ نے سرائیکی نثر، افسانہ اور ناول نگاری میں بھی نام پیدا کیا۔

سرائیکی ادبی خدمات

ترمیم

آپ کا شمار چند مُخلص سرائیکی لکھاریوں میں ہوتا ہے۔ مذہبی ہم آہنگی کے سبب آپ انجمن طلبہ اسلام سے بھی وابستہ رہے۔ تکمیلِ تعلیم کے بعد مُلازمت کے سلسلے میں اسلام آباد چلے گئے مگر جلد ہی ملازمت سے دستبردار ہو کربھونگ شریف واپس آ گئے۔ اُردو، سرائیکی مفت تعلیم کی فراہمی کے لیے ’’ گبول سرائیکی تعلیمی ادارہ‘‘ کے نام سے ایک اِدارہ قائم کیا اور ساتھ ہی سرائیکی اَدب کی خدمت کے لیے ’’سانول سرائیکی ادبی سنگت ‘‘ ڈیرہ شمس و بھونگ شریف میں 1990ء سے 2000ء تک بحیثیت جنرل سیکریٹری خدمات سر انجام دیتے رہے۔ اِس کے علاوہ ’’ خواجہ فرید سرائیکی ادبی سنگت‘‘ صادق آباد کے چیف آرگنائزر اور سرائیکی قومی موومنٹ کے پلیٹ فارم سے سرائیکی عوام کے حقوق کی آواز بلند کرتے رہے۔[1]

تصانیف

ترمیم

آپ سرائیکی اَدب کی مختلف اَصناف اور خصوصاً نثر،افسانہ، ناول، طنز و مزاح، خاکہ، لسانیات اوربچوں کے َادب کے لیے گراں قدر خدمات سر انجام دے رہے ہیں۔ اِس سِلسلے میں اَفسانوں پر مُشتمل کُتب ’’

  1. جگر دے پھٹ‘‘، ’’
  2. ڈکھیں وات‘‘

ناول میں ’’

  1. بھاگ سہاگ‘‘،
  2. کونج‘‘ اور حال ہی میں’’
  3. سجن دشمن‘‘ اور ’’
  4. پردیس نہ ونج‘‘ منظرِ عام پر آ چکی ہیں۔

طنز و مزاح کے حوالے سے ’’

  1. مِٹھڑے تیر‘‘ اور
  2. لطیفوں پر مبنی’’ کھل تاں سہی‘‘، ’’
  3. ڈِڈھ کُٹ‘‘، ’’
  4. مشکولے‘‘، ’’
  5. مشکریاں‘‘ سمیت دیگر کتابیں شائع ہو چکی ہیں۔ سرائیکی میڈیم کی ترویج و ترقی میں بھر پور کردار اَدا کرتے ہوئے ’’پہلی‘‘،’’ دوسری‘‘،’’ تیسری ‘‘، ’’چوتھی‘‘، ’’پانچویں‘‘ جماعت کے لیے نصابی کتب لکھ چکے ہیں۔ آپ کی غیر مطبوعہ کتب میں ’’
  6. اِرکھر( طنز و مزاح)‘‘ اور ’’
  7. سرائیکی شہید (افسانے)‘‘ شامل ہیں۔

آپ کی تحریریں سرائیکی رَسائل کے علاوہ روزنامہ جھوک ملتان اور ماہنامہ پگوا کراچی میں بھی چھپتی رہتی ہیں۔

اعزازات

ترمیم

آپ کو سرائیکی اَدبی خدمات کے اعتراف میں سانول اَدبی سنگت میانوالی ایوارڈ، مولوی لطف علی ایوارڈ، ممتاز حیدر اور ہفت روزہ کُوک سمیت دیگر ایوارڈز و اعزازات سے نوازا جا چکا ہے۔ اِس وقت سرائیکی اَدبی خدمات کے ساتھ ساتھ سرائیکی صحافت کے فروغ کے لیے صادق آباد سے ’’ گامن سچّار‘‘ میں بطور ایڈیٹر فرائض سَر انجام دے رہے ہیں۔[2]

مشہور اَدیب و نقاد ڈاکٹر اسلم عزیز دُرانی آپ کی تصانیف کا تحقیقی جائزہ لیتے ہوئے رقم طراز ہیں:

’’راہی گبول بہت محتاط اور اَشراف طبیعت کے مالک ہیں۔ وہ اپنے سرائیکی وسیب میں رُونما ہونے والی ناانصافیوں پر احتجاج تو کرتے ہیں مگر خاموش لہجے میں کیونکہ یہ اُن کی فطرت کا خاصہ ہے۔ یقیناً وہ ہمیں اِنقلابی راہ پر آمادہ کرتے ہیں مگر اپنے مخصوص اَنداز میں۔ میں ذاتی طور پر اُن کی کاوشوں کو خراجِ تحسین پیش کرتا ہوں کہ وُہ بیک وقت سلسلۂ رُوزگار، سماجی اور اَدبی خدمات کو بخوبی نبھا رہے ہیں۔‘‘

گبول قبیلہ کے لیے خدمات

ترمیم

غلام حسین راہی گبول جہاں سرائیکی اَدب میں ایک معتبر نام ہے وہاں اپنے قبیلے کی تاریخ و رُوشناسی میں کافی دلچسپی رکھتے ہیں۔ اِس سلسلے میں اُن کی تحقیق و معلومات مصدقہ ہیں۔ جُہدِ مسلسل اور محنت سے گبول قبیلہ کی قدیم تاریخ منظرِ عام پر لائے ہیں۔ زیرِ نظر کتاب کے سلسلے میں اُن سے مشاورت اور خط کتابت بھی رہی۔ وہ آل پاکستان گبول بلوچ ویلفیئر ایسوسی ایشن پگوا کے بانی رُکن ہیں۔ اُنھوں نے دوسرے گبول راہنماؤں کے ساتھ مل کر، جن میں سردار اجمل خان گبول، شملے خان گبول، محمد یوسف خان گبول، احمد شریف خان گبول، نذیر احمد خان گبول، حق نواز خان گبول، عبد العزیز خان گبول، علی گل عاجز گبول سرِ فہرست ہیں، تنظیم کو فعال کرنے میں کلیدی کردار اَدا کیا۔ بلا شبّہ وہ گبول قبیلہ کا عظیم سرمایہ ہیں۔

حوالہ جات

ترمیم
  1. گبول قبیلہ کی نمایاں شخصیات صفحہ 363 ناشر: ادارہ تحقیق و تاریخ، علی پور(2014)۔
  2. ضلع رحیم یار خان کی علمی و ادبی شخصیا ت مصنف: جام اطہر مراد، صفحہ 96۔

دیگر ماخذ

ترمیم
  • اردو زبان و ادب کی مختصر تاریخ از: ڈاکٹر سجاد حیدر پرویز ناشر: مقتدرہ قومی زبان، نیشنل بک فاؤنڈیشن، اسلام آباد۔
  • سرائیکی ناول نگاری از: ڈاکٹر اسلم عزیز دُرانی ناشر: جھوک پبلشرز، قلعہ کہنہ قاسم باغ، ملتان۔

بیرونی روابط

ترمیم