فتنہ کا مادہ فَتْن ہے اس کے لغوی معنی ہیں سونے کو آگ میں تپاکر کھرا کھوٹا معلوم کرنا ( راغب اصفہانی) پھر فتنہ کے معنی آزمائش کے ہو گئے اورآزمائش میں چونکہ تکلیف دی جاتی ہے اس لیے ایذاء رسانی اور اس کی مختلف شکلوں اور آزمائش میں جو کھوٹا ثابت ہو اس کے ساتھ جو معاملہ کیا جائے ان سب کے لیے قرآن وحدیث میں فتنہ اور اس کے مشتقات استعمال کیے گئے ہیں، پس فتنہ کے معنی آزمائش، آفت، دنگا فساد، ہنگامہ، دُکھ دینا اور تختہٴ مشق بنانا وغیرہ۔

فتنے چھ قسم کے ہیں ترمیم

  1. آدمی کے اندر کا فتنہ اور وہ یہ ہے کہ آدمی کے احوال بگڑجائیں اس کا دل سخت ہو جائے اور اس کو عبادت میں حلاوت اور مناجات میں لذت محسوس نہ ہو۔
  2. گھر میں فتنہ اور وہ نظام خانہ داری کا بگاڑ ہے۔
  3. وہ فتنہ ہے جو سمندر کی طرح موجیں مارتا ہے اور وہ نظام مملکت کا بگاڑ ہے۔
  4. ملی فتنہ: وہ یہ ہے کہ مخصوص صحابہ وفات پاجائیں اور دین کا معاملہ نااہلوں کے ہاتھ میں چلا جائے، پس اولیاء اور علما، دین میں غلو کریں اور بادشاہ و عوامدین میں سستی برتیں، نہ اچھے کاموں کا حکم دیں نہ برے کاموں سے روکیں، پس زمانہ، زمانہٴ جاہلیت ہوکر رہ جائے۔
  5. عالم گیر فتنہ: یہ بد دینی کا فتنہ۔
  6. فضائی حادثات کا فتنہ: بڑے بڑے طوفان اٹھتے ہیں، وبائیں پھیلتی ہیں، زمین دھنستی ہے اور بڑے علاقہ میں آگ لگتی ہے اور عام تباہی مچتی ہے، اللہ تعالٰیٰ ان حادثات کے ذریعہ مخلوق کو ڈراتے ہیں تاکہ وہ اپنی بداعمالیوں سے باز آئیں۔[1]

فتنہ کا ذکر قرآن میں ترمیم

فتنہ عربی لفظ ہے جس کا عام معنی کسی کا امتحان اور کسی کی جانچ کی جائے، اللہ تعالٰی نے مختلف جگہوں پر فتنہ کا لفظ استعمال کیاہے، جیسا کہ قصۂ ہاروت وماروت میں ہے {وما انزل علی الملکین ببابل ھاروت وماروت ومایعلمان من احد حتی یقولا انما نحن فتنۃ فلاتکفر الآیۃ}۔ وہ دونوں بھی کسی شخص کو اس وقت تک جادو نہیں سکھاتے تھے جب تک کہ یہ نہ کہہ دیں کہ ہم تو ایک آزمائش ہیں تو کفر نہ کر الآیہ اللہ تعالٰی نے لوگوں کی آزمائش کے لیے یہ دونوں فرشتوں کو بھیجا تھا تاکہ یہ دیکھے کہ کون اللہ کی منع کردہ چیزوں سے بچتے ہیں اور کون غلط کاموں میں ڈوب جاتے ہیں۔

فتنہ عذاب کے معنی میں بھی اللہ تعالٰی نے اپنے کلام پاک میں استعمال کیاہے،بُرے کاموں کی پاداش میں اگر اللہ تعالٰی نے کسی کو عذاب میں مبتلا کیا تو اللہ تعالٰی نے اس کو بھی فتنہ کا نام دیا ہے، جیسا کہ اللہ کا ارشاد ہے {واتقوا فتنۃ لا تصیبن الذین ظلموا منکم خاصۃ} اس عذاب سے بچو جب وہ عذاب آجائے گا تو صرف ظالموں ہی کو اپنی لپیٹ میں نہیں لے گا بلکہ جو نیکو کار بھی ہیں وہ بھی ان ظالموں کے بیچ میں انھیں بھی ان کی آگ لگے گی یا ان پر بھی اس کی آنچ آئے گی۔ اس آیت کی آسان سی تفیسر یہ ہے کہ آدمی کو بُرے لوگوں کے ساتھ نہیں رہنا چاہیے،کچھ نہ کچھ اُن کے غلط اخلاق کی گندی ہوا ان کو بھی پہنچے گی۔ اِس لیے وسیع پیمانے پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہم بَری ہیں ہر اُس شخص سے جو کافروں کے بیچ میں سکونت پزیر ہوتاہے،کیونکہ وہ جو وہاں غلط کام ہوں گے اس کا اثر آہستہ آہستہ اس کے دل پر بھی ضرور پڑے گا۔ خلاصہ یہ ہے کہ اللہ تعالٰی فتنہ کے لیے یا لوگوں کو ڈرانے کے لیے عذاب بھیجتے ہیں،گویا یہ بھی ایک آزمائش کے معنی سے دور نہیں ہوا۔ کیونکہ اللہ تعالٰی امت محمدیہ صلی اللہ علیہ وسلم پر عذاب جو بھیجتے ہیں،انھیں ہلاک کرنے کے لیے نہیں، بلکہ انھیں تنبیہ کرنے کے لیے۔ پیارے رسول نے دعا فرمائی تھی اور اللہ تعالٰی نے پیارے رسول سے وعدہ فرمایاہے کہ ہم تمھاری امت کو عام عذاب میں ہلاک نہیں کریں گے لیکن تنبیہ کے لیے ان کو عذاب میں مبتلا کریں گے، لعلھم یرجعون ،تاکہ وہ اللہ کی طرف لوٹیں۔

فتنہ فساد کے معنی میں بھی استعمال ہوا ہے جیسا کہ اللہ کا ارشاد ہے{ لقد ابتغوا الفتنۃ من قبل وقلبوا لک الامور حتی جاء امر اللہ وھم کارھون}۔ منافقین کا ذکر کر کے اللہ تعالٰی نے فرمایا ہمیشہ آپ کے خلاف فتنہ وفساد ڈھونڈتے رہے، فتنہ فساد کرتے رہے، اسی طرح اللہ کا ایک اور جگہ ارشاد ہے { وان اصابتہ فتنۃ انقلب علی وجہ الآیۃ} اللہ کی طرف سے کوئی آزمائش آتی ہے تو اللہ کی عبادت کرتے ہیں، لیکن جب ان پر کوئی مصیبت آن پڑتی ہے تو اللہ کے خلاف شکوے کرنے لگتے ہیں۔ جیسا کہ آج کل کے لوگ کہتے ہیں کہ وہ لوگ جو روزہ نماز نہیں پڑتے وہ آرام سے ہیں،اور ہم روزہ نماز پڑھتے ہیں پھر بھی مصیبت میں مبتلا ہیں۔ حالانکہ ان لوگوں کو یہ سمجھنا چاہیے کہ کچھ ایسے فتنے ہوتے ہیں جو آدمی کے درجات بلند کرنے یا اس کے گناہ مٹانے کے لیے اس پر مسلط کردیے جاتے ہیں تو ایسے میں صبر اور شکر سے کام لینا چاہیے۔

شرک کو بھی فتنہ کہاگیا کیونکہ اس سے بڑھ کے کوئی فتنہ یا آزمائش کی کوئی چیز یا اللہ کے عذاب کے استحقاق کی کوئی چیز نہیں ہو سکتی۔ کیونکہ شرک گناہوں میں،سب سے بڑا گناہ ہے جس کے بارے میں اللہ تعالٰی نے نا معاف کرنے کا فیصلہ کیاہے،{ان اللہ لایغفر ان یشرک بہ ویغفر مادون ذالک لمن یشاء} اللہ تعالٰی نے شرک کے معاف نہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے اور اس کے علاوہ وعدہ فرمایاہے کہ اور دوسرے گناہ کو اللہ تعالٰی معاف کر دے گا اگر وہ چاہے،لیکن شرک کے بارے میں چاہ لیا ہے، اعلان کر دیا ہے،کسی کے لیے عذر نہیں اس کو کبھی معاف نہیں کرے گا۔ اللہ تعالٰی فرماتے ہیں {والفتنۃ اکبر من القتل}۔ اور

(اللہ تعالٰی کا ارشاد ہے،ان سے جنگ کرو یہاں تک کہ فتنہ باقی نہ رہے اورمکمل طور پر اللہ کا دین نافذ ہو جائے۔[2] اس سے معلوم ہوا کہ فتنہ دین کے مقابل اور معارض ہے ،یہاں فتنہ سے فتنہ شبھات بھی مراد ہے جن میں سب سے بڑا فتنہ شرک اور محکم آیات کو چھوڑ کر متشابہ کے پیچھے لگنا اور صریح اور واضح سنت کو ترک کردینا ہے۔[3]

فتنہ کا ذکر حدیث میں ترمیم

فتنہ کے تعلق سے جو احادیث بیان کیے گئے ہیں اس کی ہم دو قسم کرسکتے ہیں (1) ایک قسم یہ ہے کہ پیارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ان فتنوں کی تعیین نام بنام کرکے وصف بوصف کرکے بتایا اور اُن آزمائشوں یا فتنہ کے اسباب جن کا ذکر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بتایا اس کا علاج بھی بتلادیاہے، مثلاً رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا،{ماترکت بعدی فتنة فی أمتی أضر علی الرجال من النساء} میں نے اپنے بعد امت کے مردوں کے اوپر سب سے بڑا جو فتنہ چھوڑا ہے وہ عورتوں کا فتنہ ہے،اس فتنہ سے بچاؤ کے لیے بہت سی تدابیر بھی نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بتلائی ہیں۔ ایک عورت کا فتنہ اس کے بے پردہ نکلنے میں ہے اور ایک فتنہ اس کے افتراء اور غلط تہمت لگانے میں ہے۔ اور ایک عورت کا فتنہ جیسا کہ پیارے رسول نے بتلایاہے کہ اگر کوئی شخص کسی عورت کے ساتھ زندگی بھر احسان کرے،ایک بار کوئی ملی تو،کہہ دیتی ہے {مارأیت منك خیرا قط} ہمیں تم سے کوئی بھلائی نہیں ملی،اور یہ ناشکری بھی ہے۔ اور اس طرح کے اور بہت سے فتنے ہین کہ ان عورتوں کے فتنے سے بہت سے لوگ حکومت بھی بیچ گئے،اور بہت سے ان کی زلف گراں گیر کا شکار ہوکر کے حکومتوں سے دستبرداری کرلی۔ اسی طرح دجال کے فتنے سے ڈرایا اور خود آپ اس کے فتنہ سے پناہ مانگتے تھے۔ خاص طور سے نماز میں سلام پھیرنے سے پہلے التحیات اور درود کے بعد جن چارچیزوں سے پناہ مانگا کرتے تھے ان میں سے ایک دجال کے فتنہ بھی ہے۔ جس سے پیارے رسول پناہ مانگا کرتے تھے۔

صحیح بخاری کی روایت ہے امیر المؤمنین عمر بن خطاب ایک مجلس میں صحابہ سے دریافت کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فتنہ کی نسبت جو کچھ کہا وہ کس کو زیادہ یاد ہے؟ جس کو یاد ہو وہ بیان کرے، حضرت حذیفہ بن یمان نے کہا میں اس کے بارے میں زیادہ علم رکھتاہوں(زیادہ جانتاہوں) حضرت حذیفہ (کی شخصیت ایسی تھی کہ وہ خود کہتے ہیں لوگ پیارے رسول سے خیر کی باتیں پوچھتے تھے اور میں فتنہ اور برائی کی باتیں پوچھتا تھا۔{کان الناس یسئلون النبی صلی الله علیه وسلم عن الخیر وکنت أسئله عن الشر مخافة أن یدرکنی} تاکہ میں اس سے بچوں۔ میں ڈرتا تھا کہ کہ کہیں وہ مجھے نہ لگ جائے۔ جان لوں کہ کہاں کہاں فتنہ کی جگہ ہے اس سے دور رہوں۔) کہتے ہیں کہ انسان کو اہل و عیال اور مال میں جو فتنے پیش آتے ہیں ان میں سے اکثر نماز روزہ،صدقات اور اچھی باتوں کے کہنے اور بری باتوں سے دور رہنے سے مٹ جاتے ہیں۔ حضرت عمر کہتے ہیں گھر کے اندر اگر بیوی بچوں کے سامنے کوئی غلط بات ہوئی تو اللہ تعالٰی نماز روزہ کے ذریعہ سے آدمی کو معاف کر دے گا۔ یہ گویا خوشخبری دی فتنے ہوں گے لیکن بہت سے فتنے ایسے ہیں جو انشاء اللہ ،اللہ کی رحمت سے جلد ہی معاف ہوجانے کی امید ہے۔ حضرت عمر کہا میں اس فتنے کی نسبت تم سے نہیں پوچھتاہوں ،میں تو اس فتنہ کے بارے میں پوچھنا چاہتاہوں جو سمندر کی طرح یا سمندر کی موجوں کی طرح لہریں مارتا ہوگا۔ حضرت حذیفہ نے کہا امیر المؤمنین اس فتنے سے آپ کو نقصان نہ پہنچے گا۔ کیونکہ اس کے اور آپ کے درمیان ایک بند دروازہ ہے۔ دریافت کیا گیا،کیا یہ دروازہ کھولا آسانی سے کھولا جائے گا یا توڑدیا جائے گا؟(آسانی سے کھولا گیا دروازہ بند کیا جاسکتاہے) حضرت حذیفہ نے پھرجواب دیا کہ یہ دروازہ کھولا نہیں جائے گا،توڑدیا جائے گا۔ تو حضرت عمر نے فرمایا تو پھر یہ کبھی بند نہیں ہو سکے گا۔ حذیفہ نے کہا کہ ہاں، ایسا ہی ہے۔ راوی کہتے ہیں کہ کہ میں نے حذیفہ سے پوچھا کہ کیا حضرت عمر کو معلوم تھا کہ یہ بند دروازہ کون تھا؟ انھوں نے جواب دیا بے شک عمر کو اس کا اُسی طرح سے علم تھا جس طرح اس بات کا علم ہے کہ آج کے بعد دوسرا آنے والا دن کل کا آنے والا ہے،( یعنی یقینی طور پر جانتے تھے کہ فتنہ کا دروازہ میری وجہ سے کھلے گا پھر بند نہیں ہوگا۔ یعنی یہ حضرت عمر کی فضیلت میں یہ چیز ذکر کی جا سکتی ہے کہ اللہ تعالٰی نے ان کو اس دروازے کا عم دیا تھا ) لیکن آپ نے اس دروازے کو توڑا جو آپ کی موت کے بعد تا ایں دم بند نہ ہو سکا، راوی کہتے ہیں کہ میں لحاظ میں پوچھ نہیں سکا کہ یہ دروازہ کون تھا،اس لیے مسروق تابعی سے کہا کہ وہ حضرت حذیفہ سے پوچھیں کہ دروازہ کون تھا مسروق نے دریافت کیا تو انھوں نے بتایا کہ وہ دروازہ خود حضرت عمر کا وجود تھا۔

حضرت عمر نے حقیقت میں اللہ کے فضل سے حکومت کو حضرت ابوبکرصدیق کے بعد جو طاقت دی اور لوگوں میں جو عدل وانصاف قائم کیا وہ ضرب المثال ہے۔ حضرت عثمان ذو النورین آپ کے بعد خلیفۂ مسلمین ہوئے اور پھر آپ کو فتنہ سامانیوں نے غالباً فتنہ سازوں نے آپ کو اللہ کے رسول کے مدینہ میں اورمسجد نبوی کے قریب دار الخلافت میں بکریوں کی طرح ذبح کر دیا {ذبحوہ کما تذبح الحملان} یہ فتنہ کھڑا ہوا پھر اس کے بعد فتنے آتے رہے،امت میں عقائدی فتنوں کا دروازہ کھلا۔ حضرت علی کو الٰہ کہا گیا ،معبود کہاگیا، حضرت علی نے ان کو پکڑ کے جلایا۔ پھر خوارج کا فتنہ اٹھا۔ اسی طرح پیارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ منورہ میں خود فتنہ کے وقوع کی خبر دی ،ایک دفعہ آپ اُحد پہاڑ کی طرف مدین منورہ سے باہر کہیں تھے۔ صحابہ کرام سے آپ نے پوچھا کہ کیا میں جو دیکھ رہاہوں وہ تمھیں بھی نظر آ رہاہے؟ یا میں جو چیزدیکھ رہاہوں وہ تمھیں نظر آ رہی ہے؟ سب نے عرض کیا کہ اللہ کے رسول ہم کچھ نہیں دیکھ رہے ہیں، آپ نے فرمایا:میں دیکھ رہا ہوں کہ تمھارے گھروں پر بارش کی طرح فتنے برس رہے ہیں۔ حضرت عثمان کی شہادت اور اس کو مصیبت اور ظلم بتاتے ہوئے پیارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک حدیث میں خبردی تھی کہ ایک مرتبہ پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ کے کسی باغ میں قضائے حاجت کے لیے گئے وہاں۔ قضائے حاجات سے فارغ ہوکر کے ایک کنویں پر آپ بیٹھے۔ حضرت ابو موسی اشعری کہتے ہیں۔ کہ میں پیارے رسول کے درازے کا حارس بنوں گا، پش حضرت ابوبکر صدیق آئے،اجازت چاہی۔ اللہ کے رسول نے ان سے (ابو موسی اشعری سے ) کہا کہ انھیں اجازت دے کر انھیں جنت کی خوشخبری دے دو۔۔ حضرت عمر آئے انھوں نے بھی دروازہ کھلوایا،اور ان کو جنت کی خوشخبری دی۔ پھر حضرت عثمان آئے ان کو بھی جنت کی خوشخبری دے دی لیکن ساتھ ساتھ آپ نے یہ بھی کہا کہ انھیں جنت فتنہ اور امتحان سے دوچار ہو کر کے حاصل ہوگی۔(اس کا مطلب یہ کہ فتنوں کادروازہ حضرت عمر کے بعد کھلا)

حضرت ابو سعید خدری فرماتے ہیں کہ پیارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک با مال غنیمت تقسیم کر رہے تھے کہ ایک شخص آیا اور کہنے لگا۔ یا رسول اللہ( آپ کی رسالت کا اقرار کرتے ہوئے کہا)۔ آپ انصاف سے اس مال کو تقسیم کیجئے، آپ نے فرمایا {ویحك} تمھاری خرابی ہو،اللہ کے بندے ! میں نہیں انصاف کروں گا تو کون انصاف کر سکتاہے۔ اُس کی اِس گستاخی کو دیکھ کر کے حضرت عمر نے کہا اللہ کے رسول اجازت دیجیئے میں اس کی گردن اڑادوں۔ پیارے رسول نے فرمایا جانے دو۔ اس کی کُوکھ سے وہ اور اس کے رفقا ایسے ہوں گے جن کے نماز روزوں کے مقابلے میں تم اپنے نماز روزوں کو ہیچ سمجھو گے۔ تم سمجھو گے کہ ہم کچھ نہیں کر رہے ہیں۔ اسی طرح وہ لوگ قرآن کی تلاوت کریں گے،لیکن حلق سے نیچے وہ تلاوت نہیں اُترے گی،مذہب کے دائرہ سے اس طرح نکل جائیں گے جس طرح تیر ترکش سے نکل جاتاہے۔ صحابی کہتے ہیں یہ لوگ خوارج تھے جنھوں نے تشدد کا مذہب اختیار کیا اور ہر اس شخص کو کافر گردانا جو کسی بھی،ان کے ذہن میں یا ان کی سمجھ میں کسی بڑے گناہ کا مرتکب ہوا۔ اور یہ عقیدہ رکھتے تھے کہ ہمیشہ کے لیے وہ جھنم میں رہے گا۔ اور اس کو حلال الدم بھی سمجھتے تھے (اس کا خون حلال سمجھتے تھے) اس سے وجہ سے کتنے ہی لوگوں کو انھوں نے قتل کیا۔ اور ابو سعید خدری کے بقول یہی لوگ تھے جن کا ظہور حضرت علی کے زمانے میں ہوا۔ حضرت علی ان سے باقاعدہ جنگ کی۔ تو انھیں لوگوں میں سے بہت سے لوگ تھے جو ہم سب سے نحروان کے دن لڑائی کر رہے تھے۔ تو ان سب فتنوں کی پیارے رسول نے خبردے کر کے لوگوں کو ڈرایا ہے کہ یہ سب اعمال جو فتنہ کے باعث ہیں نہ کیے جائیں۔ کوئی یہ کہہ سکتاہے کہ فتنے کی خبر دے کر عمل نہ کرنے کا یا اپنے آپ کو ڈھیلا چھوڑدینے کی تلقین کی ہے، نہیں! بلکہ پیارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے تنبیہ کی ہے کہ آدمی فتنہ کو دیکھ کرکے اس فتنہ سے بچنے کی تدبیر کرے کیونکہ اللہ تعالٰی نے ہر چیز کے اسباب مقرر کررکھے ہیں۔

  1. دوسری قسم ان فتنوں کی ہے جس کی طرف پیارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے عمومی طور پر اشارہ کیاہے، جیسے اختلاف کا مسئلہ،یہ سب سے بڑا فتنہ ہے (عقائدی اور عملی اختلاف کی بنیاد پر ایک دوسرے سے دشمنی اور دوستی رکھی جاتی ہے) جو حقیقت میں امت کی کمزوری کا سبب بن رہاہے جس کا تذکرہ عرباض بن ساریہ کی حدیث میں ملتاہے، وہ کہتے ہیں کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مرتبہ ہم کو نصیحت کی بڑی فصیح وبلیغ نصیحت کی کہ ہمیں لگا کہ آپ ہمیں رخصت کرنا چاہتے ہیں،یا آپ کا یہ آخری دن ہے، ہم نے طلب نے کیا کہ ہمارے لیے کوئی نصیحت فرمادیجیئے پیارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا علیکم بالسمع والطاعة، جو حاکم تمھارے اوپر مقرر ہو اُس کی اطاعت کرو، شرط یہ ہے کہ مسلمان حاکم ہو،اسلام پر عمل کرتا ہو،اسلام کے کام کرتا اور کراتا ہو،اسلام کے کام میں روڑا نہ ڈالتا ہو، ہاں! اگر کبھی کچھ ظلم کر رہاہو،تب بھی اس کے خلاف آواز نہ اٹھاؤ، {وإن تأمر عليكم عبد حبشي} ،کوئی ضروری نہیں کہ وہ امام قریش کا ہی ہو،جیسا کہ لوگ کہتے ہیں کہ اس کے بغیر خلافت ہونہیں سکتی۔

حبشی غلام بھی تمھارے اوپر مسلط ہو جائے تو اُس کی بات سُنو! اور اس کی اطاعت کرو،یعنی اس کے خلاف خروج صحیح نہیں ہے۔ آج کل دیکھا جاتاہے جہاں کہیں بھی مسلمانوں کی حکومت ہے اُس میں یقینا اس حکومت کو گرانے کی کوشش کی جاتی ہے اور کفر کا فتوی دیا جاتاہے، غلط انداز سے اس فتنہ کو دور کرنے سے ،اس میں بہت برے مسائل پیدا ہوتے ہیں،یقینا یہ بہت بڑا فتنہ ہے کہ اللہ کے دین اور قانون کی حکومت نہ ہو،اس کا نفاذ نہ ہو،لیکن اس کو جس طرح سے آج کل غلط انداز سے دور کرنے کی کوشش کی جاتی ہے،طرح طرح کے دھماکے کیے جاتے ہیں،یہ چیز بھی سب سے بڑے فتنے کی ہے،اس فتنہ میں ساتھ دینا غلط ہوجاتاہے۔ اگر عام مسلمان امن میں ہیں،اور حاکم وقت اگر اِس طرح کا ہے جس سے کوئی امید نہیں ہے کہ وہ ہمارے دین کی تفیذ کرے گا یا یہ کہ ہمیں کچھ چھیڑتا بھی نہیں ہے تو اُس وقت اس قسم کے کام کرکے یہ گمان رکھنا کہ اس کے ذریعہ سے ہم اس کو ہٹادیں گے۔ یہ چیز بھی فتنہ کی ہے،اس کا علما نے واضح طور پر اعتراف کیاہے،ہارون اور مامون کے زمانے میں حضرت امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ علیہ کو بہت کچھ تکلیف دی گئیں فتنۂ خلق قرآن اٹھا تھا جس میں بہت سارے علما بھی مبتلا ہو گئے تھے جنھوں نے جان بوجھ کر قرآن کو مخلوق کہا امام احمد بن حنبل نے ان پر کفر کا فتوی دیا لیکن ایک جاہل بادشاہ یا خلیفہ پر کفر کا فتوی ہرگز نہیں لگایا بلکہ یہ کہا کہ اللہ تعالٰی اس کو بخشے اور اللہ تعالٰی اس کو معاف کرے، اس فتنہ میں آپ کو بہت کچھ ستایا گیا، بہت سوں کو قتل کیا گیا۔ تو یہ مسائل عوام کے لیے نہیں ہیں کہ وہ جیسا چاہیں اس میں فیصلہ کریں،اور اس قسم کی باتوں کی وجہ سے امت کے بے گناہ مارے جاتے ہیں یہ جاہلوں کے عدم تحمل یا جلد بازی سے ہوتی ہے،علما کی طرف اس بارے میں رجوع کرنا چاہیے اور ہر ایک کو کافر بنانا اور کفر کا فتوی دیکر اس کے خلاف آوازیں اٹھانا،مظاہرے کرنا یہ خود بھی کوئی شرعی چیز نہیں ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ آدمی خود اپنی اصلاح خود کرے اور اسی اصلاح کے درمیان انشاء اللہ اسی میں سے کوئی آدمی نکلے گا جو امت کی قیادت کرے گا۔ پیارے رسول نے عرباض بن ساریہ کو اختلاف سے بچنے کا طریقہ بتایا کہ {إنه من يعش منكم فسيرى اختلافا كثيرا فعليكم بسنتى وسنة الخلفاء الراشدين المهديين عضوا عليها بالنواجذ} میرے بعد جو زندہ رہے گاوہ بہت کچھ اختلاف دیکھے گا ایسے میں میری اور میرے ہدایت یافتہ خلفاء راشدین کی سنت کوپکڑ رکھو اس کو دانتوں سے مضبوط پکڑلو۔ یہ پیارے رسول کی اختلاف کے موقع پر نصیحت رہی اسی وجہ سے ہم تمام مسلمانوں سے یہی کہتے ہیں کہ اللہ کے واسطے اگر کسی چیز میں (چاہے وہ چھوٹی ہو یا بڑی)جھگڑا ہو جائے تو اللہ اور رسول کی طرف لوٹادو۔فإن تنازعتم في شئ فردواه الى الله والرسول ہمارے علما اگر اس بات کو سمجھ لیں اور جو طریقہ پیارے رسول کے زمانے میں کسی بھی مسئلہ کے حل کرنے کا تھا وہ طریقہ اختیار کیا جائے تو انشاء اللہ مسلمانوں میں اتحاد واتفاق ہو سکتاہے۔

حضرت حذیفہ بن یمان کی بھی ایک دوسری روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ میں نے پیارے رسول سے پوچھا اللہ کے رسول ہم جاہلیت میں تھے کیا اِس جاہلیت کی برائی کے بعد کوئی خیر آئے گا،تو پیارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا جی ہاں! وہ خیر آکر رہے گا،وہ خیر خیر ہی ہوگآ جس کو خیر القرون کہاگیا،پھر انھوں نے پوچھا کہ اس خیرکے بعد بھی کوئی شر آئیگا؟ پیارے رسول نے فرمایا کہ ہاں! شر آئے گا پھر دوسرا خیر آئے گا لیکن اس میں شر کی ملاوٹ ہوگی۔ اس شر کی ملاوٹ کی تفصیل علما نے یہ کی ہے کہ یہ آپس میں عقائدی خرابی ہے جیسا کہ ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ اور ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے فتح الباری کہاہے یہ عقائدی خرابی جس سے پیارے رسول نے ڈرایاہے کہ میری امت تہتر فرقوں میں بٹ جائے گی کہ یہ شر سب سے زیادہ اہم ہے اس میں آ رہاہے۔ اس درمیان پیارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ تاکید کی ہے کہ اگر امت میں اختلاف ہو اور ایک دوسرے کو قتل کرنے کی کوشش کرنے لگیں تو پھر اس وقت میں تمھیں کیا کرنا چاہیے؟ حضرت حذیفہ بن یمان کہتے ہیں کہ پیارے رسول نے فرمایا کہ اس صورت میں تمھیں تمام فرقوں سے الگ ہوکرکے اور کسی ایسی جگہ میں جا کر کے پناہ لینا ہے جہاں تم تمام فتنوں سے بچ کرکے اور اگر درخت کی چھال بھی کھاکر کے بھی جینا پڑے تو وہاں موت تک جی تے رہو کچھ ایسے فتنے بھی آئیں گے۔ لیکن اس میں شرط یہ ہے کہ اس میں حق واضح نہ ہو، اگر دوقومیں لڑپڑیں کسی ایک میں حق اگر واضح ہے تو حق کا ساتھ دینا ضروری ہے جیسا کہ اللہ تعالٰی نے فرمایا {وإن طائفتان من المؤمنین اقتتلو فاصلحوا بینهما فإن بغت احداهما علی الأخرى فقاتلوا التى تبغى حتى تفئ الى امر الله} اگر دو مسلمان فرقے لڑ پڑیں تو ان میں صلح کی کوشش کرو اور اگر صلح کرانے کے باوجود جو حق کو قبول نہ کرے تو اس کے خلاف سب مل کر لڑو،لیکن اگر فتنہ ایسا ہو کہ اس میں حق وباطل کا فرق واضح نہ ہو تو پھر کسی فرقے کے ساتھ رہنا جائز نہیں،پیارے رسول نے فرمایا تمام فرقوں سے دور ہوجاؤ یہاں تک کہ تمھاری موت آجائے چھال کھاتے ہوئے۔ {فاعتزل تلك الفرق کلها}

فتنۂ دجال ترمیم

دجال اولاد آدم میں سے ایک مرد ہے جو آخری زمانے میں آئے گا۔ دجال کے کے فتنے سے حضرت نوح علیہ السلام سے لے کر ہمارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم تک تمام انبیا نے اپنی امتوں کو ڈرایا۔ لیکن نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے فتنے سے ڈرانے کے ساتھ اس کی بہت سی نشانیاں بھی بتلائی ہیں۔ اور یہ بھی فرمایا کہ:تین علامات اگر ظاہر ہوجائیں تو کسی کا ایمان قبول نہ کیا جائے گا:مغرب کی طرف سے سورج کا نکلنا،دجال اور دابۃ الارض کا ظہور۔[4] عمران بن حصین سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا : آدم کی تخلیق سے لے کر قیامت قائم ہونے تک کوئی معاملہ دجال کے فتنے سے بڑھ کر نہیں ہے۔[5]

علامات دجال ترمیم

وہ علامات جن کے ذریعے سے دجال کو پہچانا جاتاہے مندرجہ ذیل ہیں:-

  1. دجال ربوبیت کا دعوی کرے گا اور کہے گا اور یہ منوانے کی کوشش کرے گا کہ تمھارا رب اور خدا میں ہی ہوں اس لیے تم میری عبادت کرو۔
  2. خوار‍ق عادت یعنی بہت سے ایسے کارنامے دکھلائے گا جو عام لوگوں کے بس سے بالاتر ہے جس کی وجہ سے لوگ دھوکا میں پڑجائیں گے۔ عمران بن حصین سے مروی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:جو دجال کے بارے میں سن لے وہ اس سے دور ہی رہے،اللہ کی قسم ایک شخص اس کے پاس آئے گا وہ سمجھتاہوگا کہ میں مسلم ہوں لیکن اس کے اعمال کو دیکھ کر شبہ میں پڑ جائے گا اور اس کا پیروکار بن جائے گا۔[6]
  3. وہ ناٹے قد بھاری بھر کم جسم کا ہوگا،بال گھنگرالے ہوں گے،اس کی دائیں آنکھ بالکل صاف،یعنی اس کی جگہ صرف چمڑا ہوگا،بائیں آنکھ بھی عیب دار ہوگی جیسے کہ وہ ابھرا ہوا انگور ہو،اس کا سر ایسا ہوگا جیسے کہ کسی بڑے سانپ کا سر،اس کی چال ٹیڑھی ہوگی،اس کی پنڈلیوں میں بھی کجی ہوگی۔
  4. اس کی سب سے واضح نشانی اس کا کانا ہونا ہے جس کے ذریعہ اسے آسانی سے پہچاناجاسکتاہے:عبادہ بن صامت سے بسند صحیح مروی ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:میں نے تم سے دجال کے بارے میں بہت کچھ بیان کیا حتی کہ مجھے ڈر ہے کہ تم لوگ سمجھ نہ سکو گے اس لیے یہ اچھی طرح یاد رکھو کہ مسیح دجال ناٹا ،ٹیڑھی چال والا،گھنگھرالے بال والا،کانا ہے اور اس کی ایک آنکھ بالکل مٹی ہوئی ہوگی نہ ابھری ہوگی اور نہ ہی اندر دھنسی ہوئی، اگر تمھیں شبہ ہو جائے تو یہ جان لو کہ تمھارا رب کانا نہیں ہے اور تم لوگ اس دنیا میں اپنے رب کا دیدار نہیں کرسکتے۔[7]
  5. اس کی پیشانی پر (ک ،ف، ر) لکھا ہوگا جسے ہر مومن پڑھ لے گا، انس بن مالک سے مروی ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہر نبی نے اپنی امت کو دجال کے فتنے سے ڈرایاہے، یہ بھی سن لو کہ وہ کانا ہے اور تمھارا رب کانا نہیں ہے اس کی پیشانی پر لکھا ہوگا کافر جسے ہر مومن پڑھ لے گا۔[8]
  6. اس کی نشانی یہ ہوگی کہ وہ لاولد ہوگا اللہ تعالٰی اس کے جھوٹ کو ظاہر کرنے کے لیے اسے اولاد سے محروم رکھے گا تاکہ ربوبیت میں اس کا جھوٹا ہونا واضح رہے۔[9]

دجال کے فتنے ترمیم

  1. بڑی تیزی کے ساتھ پوری دنیا کی سیر کر لے گا:نواس بن سمعان کی رویت میں ہے کہ وہ تیزی سے چلے گا گویا بدلی کو تیز ہوا اڑا کر لے جا رہی ہو،[9]
  2. وہ بد بخت اللہ کی دی ہوئی چھوٹ سے فائدہ اٹھاکر اپنے ساتھ ایک مصنوعی جنت اور دوزخ بھی رکھے گا، اس کے ساتھ پانی کی نہر ہوگي اور روٹی اور گوشت کے انبار ہوں گے: حذیفہ سے مروی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس کی آگ جنت ہے اور اس کی جنت آگ ہے، مغیرہ بن شعبہ سے مروی ہے کہ ہم نے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا کہ لوگ کہتے ہیں کہ اس کے ساتھ روٹی اور گوشت کا پہاڑ ہوگا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ وہ اللہ کے نزدیک اس سے ذلیل ہے کہ وہ اس کے ذریعہ کسی مسلم کو گمراہ کر سکے۔ معلوم ہوا کہ اس کی عظیم قوت بھی ایک سچے مسلمان کو متزلزل نہیں کرسکے گی۔
  3. وہ شیطان سے مدد لے گا اور اس کے ذریعہ سے لوگوں کو گمراہ کرے گا، جیسا کہ ابو امامہ سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ دجال کا گذر ایک صحرانشین کے پاس سے ہوگا جس سے وہ کہے گا کہ اگر میں تیرے ماں باپ کو زندہ کردوں تو تو میرے اوپر ایمان لائے گا وہ جواب دے گا کہ ہاں اس کے فورا بعد ہی اس کے ماں باپ کی شکل میں وہ شیطان آئیں گے اور اس سے کہیں گے کہ اے پیاے پیثے یہ تیرا رب ہے اس کی اتباع کر۔

ایک قوم کے پاس سے اس کا گذر ہوگا جنہیں وہ دعوت دے گا۔ وہ لوگ اسے جہٹلائیں گے اور اس کی تردید کریں گے تو ان کے پاس سے اس حال میں رخصت ہوگا کہ ان کا مال اس کے ساتھ ہو چلے گا اور ان لوگوں کے پاس کچھ بھی نہ رہ جائے گا،پھر ایک اور قوم پر اس کا گذر ہوگا جنہیں وہ دعوت دے گا، لوگ اس کی دعوت قبول کر لیں گے اور اس کی تصدیق کریں گے۔ وہ آسمان کو حکم دے گا تو آسمان سے بارش ہوگی اور زمین کو حکم دے گا تو وہ سبزا اگائے گی۔ وہ لوگوں کے پاس اس طرح آئے گا کہ اس کے ساتھ پانی اور آگ ہوگی، اس کی آگ ٹھنڈا پانی ہوگی اور اس کا پانی آگ ہوگا۔ ایک مومن کو چاہیے کہ ہر نماز کے آخر میں اس کے فتنے سے اللہ کی پناہ چاہے اور اگر اسے پالے تو سورۂ کہف کی ابتدائی آیتیں پڑھے اور فتنے کے خوف سے اس کی ملاقات سے بچتا رہے، دجال روئے زمین پر چالیس دن رہے گا، ایک دن ایک سال کے برابر، ایک دن ایک مہینے کے برابر، ایک دن ایک ہفتہ کے برابر اور باقی دن ہمارے انہی دنوں کے مثل ہوں گے۔ سوائے مکہ اور مدینہ کے دجال کوئی ایسا شہر اور ایسی زمین نہیں چھوڑے گا جہاں وہ نہ پہنچے، پھر عیسی علیہ السلام نازل ہوں گے اور اس کا قتل کر دیں گے۔[10]

اپنے آپ کو فتنوں سے بچاؤ! ترمیم

نبی صلی اللہ علیہ وسلم زندگی اور موت کے فتنوں سے پناہ مانگا کرتے تھے،آخر تشھد میں یہ دعا پڑھا کرتے تھے اللہم انی اعوذ بک من فتنۃ المحیا والممات۔ اور اسلاف کرام میں سے بعض یہ دعا کیا کرتے تھے ((اے اللہ ہم اس بات سے تیری پناہ مانگتے ہیں کہ ہم اپنی ایڑیوں کے بل پھر جائیں یا ہمیں فتنے میں مبتلا کر دیا جائے)) [بخاری]

فتنوں کے ڈر سے موت کی آرزو ترمیم

انس سے روایت ہے،رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا،تم میں سے کوئی شخص کسی تکلیف کی وجہ سے جو اسے پہنچے، موت کی آرزو ہرگز نہ کرے۔ اگر اس کو موت کی تمنا کرنا ہی ہے تو ان الفاظ میں کرے۔ اللھم احینی ما کانت الحیاۃ خیرا لی وتوفنی اذا کانت الوفاۃ خیرا لی،، اے اللہ! مجھے اس وقت تک زندہ رکھ جب تک زندگی میرے لیے بہتر ہے اور مجھے موت دے جبکہ میرے لیے بھتر ہو۔ [11] [12] فائدہ: اس حدیث میں موت کی آرزو کرنے سے روکا گیا ہے کیونکہ یہ آرزو اس بات کی غمازی کرتی ہے کہ آرزو کرنے والا اللہ تعالٰی کی قضاء وقدر پر راضی نہیں ہے، تاہم اگر یہ آرزو کرنا ضروری ہو جائے تو مذکورہ الفاظ میں دعا کی جائے، ((کسی فتنے میں مبتلا ہونے کے اندیشے سے موت کی آرزو کرنا جائز ہے۔))[13]

فتنوں کے وقت علحیدگی ترمیم

ابوسعیدخدری رضی بیان کرتے ہیں کہ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا: عنقریب ایسا وقت آئے گا کہ مسلمان کابہترین مال وہ بکریاں ہوں گی جن کو لے کر پہاڑوں کی چوٹیوں اور بارش کے گرنے کی جگہوں (جنگلوں)میں جائے گا تاکہ وہ اپنے دین کوفتنوں سے بچائے۔[14]

ابوسعیدخدری بیان کرتے ہیں کہ ایک شخص نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے پاس آ کر پوچھنے لگا لوگوں میں کون سا شخص سب سے افضل ہے؟ تونبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: وہ مومن جو اللہ تعالٰی کے راستے میں اپنی جان ومال کے ساتھ جہاد کرے۔ اس نے پوچہا پھر کون؟ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا: پھر وہ آدمی افضل ہے جوپہاڑوں کی کسی گھاٹی میں گوشہ نشین ہوکر اپنے رب کی عبادت کرے اور ایک روایت میں ہے کہ وہ اللہ سے ڈرتاہے اور لوگوں کو اپنے شر سے محفوظ رکھتا ہے۔ متفق علیہ[15]

حافظ ابن حجر فتح الباری میں لکہتے ہیں کہ: یہ حدیث اس بات کی دلالت کرتی ہے کہ جواپنے دین پرڈرے اس کے لیے علیحدگی افضل ہے۔[16]

اورامام سندی نے النسائی کے حاشیہ میں لکھا ہے کہ: اس حدیث میں اس بات کاجوازہے کہ فتنوں کے دنوں میں علیحدگی اختیارکرنا جائز بلکہ یہ افضل ہے [17] اوردوسری حدیث جوابھی ذ کرکی گئی ہے اس میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے علیحدگی اختیارکرنے والے مومن کوفضیلت میں مجاھدفی سبیل اللہ سے کچھ کم درجہ قراردیاہے۔

حافظ ابن حجر فتح الباری میں رقمطراز ہیں کہ :- علیحدگی اختیارکرنے والامومن اس لیے پیچھے ہے کیونکہ وہ جولوگوں کے ساتھ میل جول رکھتاہے وہ گناہوں کے ارتکاب سے نہیں بچ سکتا، اورہو سکتاہے کہ یہ گناہ اس کی اُن نیکیوں سے زیادہ ہوجائیں جو اسے لوگوں کے میل جول کیوجہ سے حاصل ہوں۔ لیکن علیحدگی کی فضیلت فتنوں کے وقت کے ساتھ خاص ہے۔[18]

اور جب فتنے نہ ہوں ترمیم

فتنوں کے وقت کے علاوہ اپنے دین کوبچانے کے لیے لوگوں سے علیحدگی اختیارکرنے میں علماءکااختلاف ہے۔ جمہورکامسلک یہ ہے کہ اس وقت لوگوں سے اختلاط اورمیل جول رکھناعلیحدگی اختیارکرنے سے بہتر ہے اوران کے دلائل یہ ہیں : (1) کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اوران سے پہلے سب انبیاءعلیہم السلام کایہی حال تھااورجمہورصحابہ اکرام رضی اللہ تعالٰی عنہم بھی اسی طرح تھے۔ ۔،[19] نبی صلی اللہ علیہ وسلم کافرمان ہے:- وہ مومن جو لوگوں سے میل جول اوراختلاط رکھتاہے اوران سے پہنچنے والی تکلیفوں پرصبر کرتاہے، وہ اس مومن سے بہتر ہے جو نہ لوگوں سے میل جول رکھتا ہے اور نہ ان کی تکلیفوں پرصبر کرتاہے [20][21][22][23] امام سندی نے سنن ابن ماجہ پراپنے حاشیہ میں کہاہے کہ: حدیث اس بات پردلالت کرتی ہے کہ لوگوں سے میل جول اورتعلق رکھنے والااوراس پرصبرکرنے والاعلیحدگی اختیارکرنے والے سے افضل وبہتر ہے ) ۔[24] اورامام صنعانی نے سبل السلام میں کہاہے کہ: اس حدیث میں اس کی فضلیت ہے جو لوگوں سے ایسامیل جول رکھتاہے جس میں وہ امربالمعروف اورنہی عن المنکرکا کام کرتا رہے اوران سے معاملات میں بھی اچھا سلوک کرے تووہ اس سے افضل ہے جو علیحدگی اختیارکرتااوراس میل جول پرصبرنہیں کر سکتا۔[25](3) ابوہریرہ بیان کرتے ہیں کہ: نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ میں سے ایک شخص پہاڑوں کے درمیان گھاٹی میں سے گزراجہاں پرمیٹھے پانی کاچشمہ تھاجوکہ اسے اچھالگاتووہ کہنے لگا: اگرمیں لوگوں سے علیحدگی اختیارکرکے اس گھاٹی میں رہوں لیکن میں یہ کام اس وقت نہیں کروں گا جب تک کہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے اجازت نہ لے لوں تواس نے اس بات کانبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ذکرکیاتونبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ایسانہ کروکیونکہ تمھاراللہ تعالٰی کے راستہ میں رہنااس کے گھرمیں نمازپڑھنے سے ستر برس بہتراورافضل ہے کیاتم یہ پسندنہیں کرتے کہ اللہ تعالٰی تمھیں بخش دے اورتمہیں جنت میں داخل کرے؟ اللہ تعالٰی کے راستے میں جہادکروجس نے اللہ تعالٰی کے راستے میں اونٹنی کے دودھ دھونے کے درمیانی وقفے کے برابر بھی قتال وجہاد کیااس کے لیے جنت واجب ہو گئی ۔) [26][27] (4) مسلمان کا لوگوں سے میل جول کی وجہ سے شرعی مصلحتیں حاصل ہوتی ہیں جو بہت نفع بخش ہیں مثلااسلامی شعائرکاقیام ،مسلمانوں کی تعدادمیں اضافہ ،انھیں خیروبھلائی پہنچانا، ان کاتعاون ومددکرنا،جمعہ اورنمازجنازہ میں حاضرہونا ذکرواذکار اوروعظ ونصیحت کی مجالس میں حاضری اوربیمارکی تیمارداری کرنا [28] اورجاہل کی کی رہنمائی اور اسی طرح کے دیگر مصالح کے لیے لوگوں سے ربط وتعلق ،بشر طیکہ وہ نیکی کا حکم دینے اور برائی سے روکنے پر قادر ہو اور لوگوں کو ایذا دہی سے اپنے نفس کو باز رکھے اور دوسروں کی طرف سے پہنچنے والی ایذا پر صبر کرے۔ امام نووی فرماتے ہیں کے تم اچھی طرح سے جان لو کہ لوگوں سے میل جول کا وہ طریقہ جس کا میں نے کیا ہے یہی پسندیدہ طریقہ ہے جس پر رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور تمام انبیا علیھم السلام اور اسی طرح خلفائے راشدین اور ان کے بعد صحابہ وتابعین اور ان کے بعد علمائے مسلمین اور دیگر نیک لوگ کاربند رہے اور یہی اکثر تابعین اور ان کے بعد آنے والے لوگوں کا مذہب ہے۔ اسی کے امام شافعی، امام احمد اور اکثر فقہا رحمھم اللہ اجمعین قائل رہے ہیں۔[29]

حوالہ جات ترمیم

  1. تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو رحمۃ اللہ الواسعۃ مع حجۃ اللہ البالغہ: 5/657-658) [ ماخوذ از موقع دار العلوم دیوبند]
  2. [الانفال:39]
  3. درء اللفتنۃ عن اھل السنۃ (اہل سنت سے فتنوں کو دور کرنا)تالیف بکر بن عبد اللہ ابوزید رحمہ اللہ ،ترجمہ حافظ زبیر علی زئی حفظہ اللہ
  4. صحیح مسلم والترمذی عن ابی ھریرۃ
  5. صحیح مسلم 
  6. احمد،ابوداود
  7. ابوداود:4320
  8. متفق علیہ
  9. ^ ا ب صحیح مسلم
  10. مسلمان کے لیے اہم احکام ومسائل 
  11. "تمنی المریض الموت و کتاب الطب"۔ صحیح بخاری۔ کتاب المرضی 
  12. صحیح مسلم، کتاب الذکر والدعاء، باب کراهة تمنی الموت لضر نزل به
  13. ریاض الصالحین للنووی اردو ترجمہ وفوائد:حافظ صلاح الدین یوسف حفظہ اللہ (جلد اول) باب کراهیة تمنی الموت بسبب ضر نزل به ولا بأس به لخوف الفتنة فی الدین /ص:510
  14. صحیح بخاری، کتاب الایمان، باب من الدین الفرار من الفرار،وکتاب الفتن
  15. صحیح بخاری،کتاب الجهاد،باب أفضل الناس مؤمن مجاهد یجاهد بنفسه وماله فی سبیل الله وصحیح مسلم، کتاب الإمارة،باب فضل الجهاد والرباط
  16. فتح الباری۔ 13۔ صفحہ: 42 
  17. نسائی حاشیہ سندی۔ 8۔ صفحہ: 124 
  18. فتح الباری۔ 6۔ صفحہ: 6 
  19. شرح مسلم للنووی۔ 13۔ صفحہ: 34 
  20. صحیح الجامع الصغیر 
  21. سنن ترمذی 
  22. سنن ابن ماجہ۔ 2۔ صفحہ: 493 
  23. [علامہ البانی رحمہ اللہ تعالی نے اس حدیث کوصحیح ترمذی حدیث نمبر۔(2035) میں صحیح کہاہے]
  24. [ابن ماجہ حاشیہ سندی۔ (2/ 493)]
  25. [سبل السلام للصنعانی ۔(4/416) ]
  26. [سنن ترمذی حدیث نمبر۔(1574)]
  27. علامہ البانی رحمہ اللہ تعالی نے صحیح ترمذی حدیث نمبر ۔(1348) میں اسے حسن قراردیاہے
  28. [فتح الباری ۔(13 /43 ]۔[شرح مسلم للنووی۔13/34)]
  29. حافظ صلاح الدین یوسف حفظہ اللہ۔ ریاض الصالحین اردو ترجمہ و فوائد۔ اول۔ صفحہ: 521