فراست علم کے پانچ غیر مادی ذرائع میں سے ایک ذریعہ ہے جو حواس خمسہ کے بغیر حاصل ہو تا ہے پہلا درجہ ” فراست “ دوسرا ” حدس “ تیسرا ” کشف “ چوتھا ” الہام “ اور پانچواں درجہ ” وحی “ کا ہے۔


دلوں کی باتوں یا لوگوں کے حالات پر اللہ کے نور سے آگاہ ہونا[1]فراست کے معنی ہماری زبان میں ” تاڑ جانے “ کے ہیں اور تاڑ جانے کی قوت ہر شخص میں نمایاں نہیں ہوتی مگر جس میں نمایاں ہوتی اس کی یہ کیفیت ایک ملکہ کے ذریعہ سے حاصل ہوتی ہے جو تجربہ کی کثرت اور علم کی مہارت اور کمال کے بعد انسان کو حاصل ہوجاتی ہے جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ کسی چیز کے دیکھنے ، سننے ، چکھنے یا چھونے کے ساتھ ہی صرف بعض علامتوں کے جان لینے سے دوسری متعدد ضروری علامتوں پر تفصیلی نظر ڈالے بغیر اتنی جلدی انسان صحیح نتیجہ پر پہنچ جاتا ہے کہ دیکھنے والا ایسا سمجھتا ہے کہ گویا وہ غیب کی باتیں بیان کر رہا ہے حالانکہ اس کا علم تمام تر ظاہری علامتوں اور نشانیوں پر مبنی ہوتا ہے اور فراست کا ملکہ نیک و بد دونوں میں ہوتا ہے یہی وجہ ہے کہ بعض ناخواندہ فراست کا ملکہ رکھتے ہیں اور بعض خواندہ فراست کے ملکہ سے بالکل کورے ہوتے ہیں کیونکہ روح بہرحال دونوں میں موجود ہوتی ہے اور نیک و بد کی فراست میں جو فرق ہوتا ہے وہ یہی ہوتا ہے کہ نیک فراست نیک اور بد کی نیک نہیں ہوتی نبی اعظم و آخر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد علی ہے کہ (اتقوا فراسۃ ال مومن فانہ ینظر بنور اللہ) (ترمذی) مومن کے تاڑ لینے سے ڈرو کہ وہ اللہ تعالیٰ کی روشنی سے دیکھتا ہے۔[2]

مزید دیکھیے ترمیم

مومن کی فراست /abualsarmad.com

حوالہ جات ترمیم

  1. فرہنگ اصطلاحات تصوف،صفحہ 132،غازی عبد الکبیر منصورپوری،مغربی پاکستان اردو اکیڈمی لاہور
  2. تفسیر عروۃ الوثقی علامہ عبد الکریم اثری